Jump to content

Wirasat


hammad122

تجویز کردہ جواب

Assalamo Alykom . mera sawal sirf itna h k mere dada ki 6 betiyan or aik hi beta h or main unka pota hu.1998 main hajj pe jane se pehle mere dada ne sabko apna pna hissa dediya tha jaidad main se .ab ager ajj dada ki jaidad main izafa hogya h jabke sab betiya apne apne gharo main h or hissa le chuki hai, wapis se jaidad main se hissa mang rahi h .unka kehna ye h k jaidad main izafa hua h to hamara hissa dobara milega jabke mere dada ye sab sirf apne aik hi bete ko denge. to is masle main mujhe guide kre k shariat k hisaab se kya hona chaye .Shukriya 

Link to comment
Share on other sites

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:آپ کے دادا حیات ہیں یا نہیں ؟اگر حیات نہیں تو کیا بیٹیوں کو حصہ دادا کی حیات میں ہی مل گیا    تھا ؟

اور کیا دادا کی وفات کے بعد دادا کی جائیداد کو وارثین میں تقسیم کیا گیا تھا یا نہیں؟

 

Edited by Syed Kamran Qadri
Link to comment
Share on other sites

صورتِ مسئولہ میں چوںکہ دادا حیات ہیں  تو ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ  بیٹیوں کا اپنے والد سے جائیداد سے حصہ کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں لگتا کہیں کوئی بے ادبی نہ کر بیٹھیں اور دادا کو بھی یہ مناسب نہیں کہ وہ ساری بقیہ جائیداد ایک ہی بیٹے کو دیں انھیں چاہئے کہ وہ انصاف سے کام لیں اور سب کو برابر تقسیم کریں آخر بیٹیاں بھی انہی کا ہی خون ہیں۔

بعض روایات میں ہے کہ حضرت سیدنا بشیر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک غلام دیا تو ان کی زوجہ حضرت سیدتنا عمرہ بنت رواحہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہانے فرمایا کہ میں اس پر راضی نہیں جب تک کہ آپ اس بات پر سرکارِ مدینہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو گواہ بنالیں۔جب وہ اس مقصد کے لئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضورِ اکرم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِستفسار فرمایا: کیا تم نے اپنے سارے بچوں کو اسی طرح دیا ہے؟ عرض کی: نہیں۔ فرمایا: اﷲسے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو،نیز ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:میں ظلم پر گواہ نہیں ہوتا۔اس پر حضرت سیدنا بشیر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اپنے تحفے سے رجوع کرلیا۔(مشکوٰۃ،کتاب البیوع،باب: ۱۷،۱/۵۵۶،حدیث:۳۰۱۹)

                                               مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان تحریرفرماتے ہیں :اس حدیث کی بنا پر علماء فرماتے ہیں کہ باپ اپنی زندگی میں بیٹا بیٹی ساری اولاد میں برابری کرے،بیٹے کے لیے دوگنا حصہ بعد وفات ہے، حتی کہ پیار محبت بلکہ چومنے میں بھی برابری کرے۔ (مرقات) اگرچہ قدرتی طور پر چھوٹے بچے سے زیادہ محبت ہوتی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فاطمہ زہرا (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا) بہت پیاری تھیں کہ سب سے چھوٹی تھیں۔(مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں:)خیال رہے کہ متقی بیٹے کو فاسق بیٹے سے زیادہ دینا یا غریب معذور بے دست وپا اولاد کو دوسری امیر اولاد سے کچھ زیادہ دینا بلاکراہت دُرُست ہے۔( مراٰۃ المناجیح، ۴/۳۵۴)

واللہ اعلم بالصواب 

Link to comment
Share on other sites

  • 1 month later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...