آگ أنبیاء علیہم السلام کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی چیز کو نہیں جلاتی روایت کی تحقیق
-
Recently Browsing 0 members
No registered users viewing this page.
-
Similar Content
-
By Aquib Rizvi
ایکــ عـورت اپنـے سـاتـھ چـار لـوگـوں کـو جہنـم میـں لـے کـر جـائـے گــی
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے
إذا دخلت امرأة إلى النار أدخلت معها أربعة، أباها وأخاها وزوجها وولدها
جب عورت جہنم میں داخل ہوگی تو اپنے ساتھ چار لوگوں کو جہنم میں لے کر جائے گی اپنے باپ کو اپنے بھائی کو اپنے شوہر کو اور اپنے بیٹے کو
اسی طرح
أربعة يُسألون عن حجاب المرأة: أبوها، وأخوها، وزوجها، وابنها
چار لوگوں سے عورت کے حجاب کے متعلق سوال کیا جائے گا اس کے باپ سے اس کے بھائی سے اس کے شوہر سے اور اس کے بیٹے سے
[ موضوع ]
اس روایت کا کسی بھی معتبر یا مستند کتاب میں وجود نہیں یہی اس کے موضوع من گھڑت ہونے کے لئے کافی تھا مگر یہ نص قطعی اور صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ روایت نص قطعی اور شریعت کے اس اصول کے خلاف ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے گناہوں کے عوض جہنم میں داخل ہو
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْـهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۚ
اور جو شخص کوئی گناہ کرے گا تو وہ اسی کے ذمہ ہے، اور ایک شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ( سورۃ الانعام :- 164 )
اسی طرح فرمان رسول ﷺ بھی ہے
سنن ابن ماجه حدیث :- 2669
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص ، عن شبيب بن غرقدة ، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع:" الا لا يجني جان إلا على نفسه، لا يجني والد على ولده ولا مولود على والده"
عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”خبردار! مجرم اپنے جرم پر خود پکڑا جائے گا، (یعنی جو قصور کرے گا وہ اپنی ذات ہی پر کرے گا اور اس کا مواخذہ اسی سے ہو گا) باپ کے جرم میں بیٹا نہ پکڑا جائے گا، اور نہ بیٹے کے جرم میں باپ“
[ صحیح ]
مذکور روایت کی تردید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویاں کافرہ تھی تو کیا ان کی وجہ سے نوح اور لوط علیہما السلام کو گناہ ملے گا ؟ نعوذ باللہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
متفقـہ اصــول
آئمہ اور محدثین کا یہ متفقہ اصول ہے کہ جو بھی روایت اصول شریعت یا نص قطعی کے خلاف ہو اور تاویل کی گنجائش نہ ہو تو وہ موضوع ہے
① شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں
ومِنها ما يُؤخَذُ مِن حالِ المروي كأنْ يكون مناقضاً لنصِّ القرآن أَو السُّنَّةِ المُتواتِرَةِ أَو الإِجماعِ القطعيِّ أَو صريحِ العَقْلِ حيثُ لا يَقْبلُ شيءٌ مِن ذلك التأويلَ
موضوع حدیث کو اس کی حالت سے بھی پہچان لیا جاتا ہے جیسا کہ وہ قرآن کی نص یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی یا صریح عقل کے اس طور پر خلاف ہو کہ وہ تاویل کو بلکل قبول نہ کرے
[ نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر ص66 ]
② خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں
أَنَّ مِنْ جُمْلَةِ دَلَائِلِ الْوَضْعِ أَنْ يَكُونَ مُخَالِفًا لِلْعَقْلِ بِحَيْثُ لَا يَقْبَلُ التَّأْوِيلَ وَيَلْتَحِقَ بِهِ مَا يَدْفَعُهُ الْحِسُّ وَالْمُشَاهَدَةُ أَوْ يَكُونُ مُنَافِيًا لِدَلَالَةِ الْكِتَابِ الْقَطْعِيَّةِ أَوِالسُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ أَوِ الْإِجْمَاعِ الْقَطْعِيِّ أَمَّا الْمُعَارَضَةُ مَعَ إِمْكَانِ الْجَمْعِ فَلَا
حدیث کے موضوع ہونے کے دلائل میں سے یہ بات شامل ہے کہ یہ عقل کے اس طرح خلاف ہو کہ اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو اسی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حدیث میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہو جو حس و مشاہدے کے خلاف ہو اسی طرح حدیث اگر قرآن مجید کی قطعی دلالت یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی کے منافی ہو تو وہ بھی موضوع حدیث ہو گی اور اگر تضاد کو دور کرنا ممکن ہو تو پھر ایسا نہ ہوگا
[ تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 3/204 ]
یہی بات امام احمد رضا خان فاضل بریلی رحمہ اللہ نے بھی فرمائی
[ فتویٰ رضویہ 5/460 ]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خــلاصــــہ کـــــلام
اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچانا ہر انسان پر واجب ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قُـوٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ ( سورۃ تحریم :- 6 )
نبی ﷺ کا بھی فرمان عالیشان ہے
سنن ابی داؤد حدیث :- 495
حدثنا مؤمل بن هشام يعني اليشكري، حدثنا إسماعيل، عن سوار ابي حمزة، قال ابو داود: وهو سوار بن داود ابو حمزة المزني الصيرفي، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مروا اولادكم بالصلاة وهم ابناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم ابناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع"
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو“
[ صحیح ]
لہذا اہل وعیال کو جہنم سے بچانے کے لئے اور شریعت کا پابند بنانے کے لیے بے اصل اور باطل روایات بیان کرنے کی کوئی حاجت نہیں نص قطعی اور احادیث صحیحہ موجود ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب
خـادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمـد عـاقـب حسیـن رضـوی
✍🏻 پرانی تحریر ( مؤرخہ یکم محرم الحرام 1442ھ )
-
By Aquib Rizvi
مسجد میں باتیں کرنے سے اعمال برباد
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے
من تكلم بكلام الدنيا في المسجد أحبط الله أعماله أربعين سنة
جو شخص مسجد میں دنیاوی باتیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے چالیس سال کے اعمال کو ضائع کر دے گا۔
امام صغانی٬ امام ملا علی قاری٬ محدث أبو طاہر پٹنی٬ علامہ شوکانی اور عجلونی اور علامہ محمد بن خلیل الحنفی رحمہم اللہ تعالی ان ساروں نے اس روایت کو موضوع قرار دیا
( كتاب الموضوعات للصغاني ص39 )
( كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص36 )
( كتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص338 )
( كتاب الفوائد المجموعة ص24 )
( كتاب كشف الخفاء ت هنداوي 2/285 )
( كتاب اللؤلؤ المرصوع ص178 )
اس روایت کو امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ نے بھی فتویٰ رضویہ میں نقل کیا جو کہ ان کا تسامح ہے
( فتویٰ رضویہ 16/311 مسئلہ نمبر :- 149 )
نثار احمد خان مصباحی صاحب نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے مفتی حسان عطاری صاحب کی کتاب " تحقیق المعتمد في رواية الكذاب ودرجات السند " کی تقریظ میں اصل کتاب کا اسکین ساتھ دے دیا جائے گا
انہوں نے ثابت کیا کہ اس پر وضع کا قرینہ ظاہر ہے جس کی وجہ سے یہ روایت موضوع ہے ... اور صاحب کتاب مفتی حسان عطاری صاحب نے بھی موافقت کی کوئی تعاقب نہیں کیا
( تحقیق المعتمد ص32/34 )
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ وضع حدیث کے ایک قرینہ کا ذکر فرماتے ہیں
وما به وعد عظيم او وعيد ... على حقير وصغيرة شديد
یعنی جس میں کسی چھوٹے عمل پر عظیم بشارت ہو یا کسی چھوٹے گناہ پر شدید وعید
کتاب کے محقق شیخ محمد بن علی بن آدم اثیوبی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
وحاصل المعنى : أنه يعرف كون الحديث موضوعاً بالإفراط في الوعد العظيم على الفعل الحقير، والوعيد الشديد على الأمر الصغير، وهذا كثير في أحاديث القصاص
خلاصہ کلام یہ کہ معلوم ہوا وہ حدیث موضوع ہوتی ہے جس میں حقیر ( چھوٹے ) عمل پر عظیم ( حد سے زیادہ ) بڑی وعد ( بشارت ) سنائی جائے اور اسی طرح چھوٹے ( گناہ ) پر شدید وعید سنائی جائے اور یہ قرینہ کثرت سے قصاص کی احادیث میں پایا جاتا ہے
( شرح ألفية السيوطي في الحديث ص293 )
اب یہ بات ایک عام انسان بھی بتا دے گا کہ مسجد میں کلام کرنے سے چالیس سال کے اعمال برباد ہو جانا یہ یقیناً چھوٹے گناہ پر بہت بڑی وعید ہے جو کہ وضع کی دلیل ہے. اسی وجہ سے آئمہ حدیث نے اس روایت کو بالجزم موضوع کہا
اسی طرح اس روایت پر وضع حدیث کا دوسرا قرینہ بھی ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت کا وجود کتب احادیث میں نہیں ہے
علم حدیث کا مشہور قاعدہ ہے کے ہر وہ حدیث جس کا وجود کتب احادیث میں نہ ہو حفاظ کے سینوں میں نہ ہو اور وہ ایسے زمانے میں ظاہر ہو جب تدوین حدیث مکمل ہوچکی ہے تو وہ روایت موضوع کہلائے گی
امام ابن الجوزی م597ھ رحمہ اللہ تعالیٰ موضوع حدیث کے قرائن بیان فرماتے ہیں
إذا رأيت الحديث يباين المعقول أو يخالف المنقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع
جب تم کسی حدیث کو دیکھو کہ وہ معقول کے خلاف ہے یا منقول سے ٹکراتی ہے یا اصول سے مناقص ہے تو جان لو کہ وہ موضوع ہے
امام ابن الجوزی کے اس بیانیہ کو محدثین نے قبول فرمایا لیکن فی الوقت ہمارا تعلق امام ابن الجوزی کے بیان کردہ تیسرے قرینہ سے ہے اصول سے مناقص ہونے کا مطلب امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں
ومعنى مناقضته للأصول: أن يكون خارجا، عن دواوين الإسلام من المسانيد والكتب المشهورة
امام سیوطی فرماتے ہیں اور مناقص اصول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روایت اسلام کی مشہور کتب احادیث و مسانید سے خارج ہو . ( یعنی ان کتب میں موجود نہ ہو )
( كتاب الموضوعات لابن الجوزي 1/106 )
( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/327 )
امام نور الدین ابن عراق الکنانی م963ھ رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں
ما ذكره الإمام فخر الدين الرازي أن يروي الخبر في زمن قد استقرئت فيه الأخبار ودونت فيفتش عنه فلا يوجد في صدور الرجال ولا في بطون الكتب
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے جس چیز کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ حدیث اس زمانے میں روایت کی جائے یا ذکر کی جائے جب احادیث کا استقراء کیا جا چکا ہے اور تفتیش کے باوجود نہ محدثین کے سینوں میں ملے اور نہ کتب احادیث میں ( تو ایسی روایت موضوع ہوتی ہے )
( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة 1/7 )
یہی اصول فی زمانہ بریلوی مکتبہ فکر ( اہلسنت و جماعت ) کے مشہور و معروف عالم مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب نے بھی بیان کیا ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں
" اس روایت کے جھوٹے اور موضوع ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں "
( فتویٰ شارح بخاری 1/307 )
لہذا اس اصول سے بھی یہ روایت منگھڑت ثابت ہوتی ہے والحمدللہ
خلاصہ کلام یہ کہ ہم نے محدثین کا کلام بھی اس روایت کے تحت پیش کیا کہ انہوں نے اس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا اور ہم میں وضع حدیث کے دو قرائن پر بھی اس روایت کو موضوع ثابت کیا لہذا اس روایت کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حرام ہے
فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
مؤرخہ 22 ذو الحجہ 1443ھ
-
By Aquib Rizvi
عالم یا طالب علم کے کسی بستی سے گزرنے پر اللہ تعالیٰ اس بستی کے قبرستان سے چالیس دن تک کے لئے عذاب اٹھا لیتا ہے کی تحقیق
یہ من گھڑت حدیث اکثر علماء اور طلباء کی فضیلت میں بیان کی جاتی ہے اس کے بارے میں آئمہ محدثین کا کلام درج ذیل ہے
❶ امام الفقہاء والمحدثین حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس روایت کو بے اصل قرار دیا :
حديث إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله تعالى يرفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما لا أصل له
حدیث کہ جب عالم یا طالب علم کسی بستی گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بستی کے قبرستان پر سے چالیس دن تک کے لئے عذاب دور فرما دیتا ہے ( امام سیوطی فرماتے ہیں ) اس روایت کی کوئی اصل نہیں .
( تخريج أحاديث شرح العقائد للسعد التفتازاني :- 64 )
❷ سلطان المحدثین ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں .
حديث إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله تعالى يرفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما قال الحافظ الجلال لا أصل له
( كتاب المصنوع في معرفة الحديث الموضوع :- 57 )
( كتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة :- 80 )
( فرائد القلائد على أحاديث شرح العقائد ص64 )
❸ اس بات کا اقرار علامہ عجلونی اور مرعی کرمی اور محمد بن خليل الحنفي رحمہمُ اللہ نے بھی کیا کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں .
( كتاب كشف الخفاء ت هنداوي 1/251 )
( كتاب الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة ص131 )
( كتاب اللؤلؤ المرصوع ص53 )
❹ امام ابن حجر المکی الہیتمی الشافعی رحمہ اللہ سے اس روایت کے بارے میں سوال کیا گیا :
(وسئل) ذكر التفتازاني في شرح العقائد
عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله يدفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما» هل لهذا الحديث أصل وهل رواه أحد من أصحاب السنن أو لا؟
اور سوال پوچھا گیا کہ علامہ سعد الدین تفتازانی نے شرح العقائد میں ذکر کیا
کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا جب عالم یا طالب علم کسی بستی گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بستی کے قبرستان پر سے چالیس دن تک کے لئے عذاب ٹال دیتا ہے
کیا اس حدیث کی کوئی اصل موجود ہے ؟؟ اور کیا اصحاب کتب سنن میں سے کسی نے اسے روایت کیا ہے یا نہیں ؟؟
(فأجاب) بقوله لم أر لهذا الحديث وجودا في كتب الحديث الجامعة المبسوطة ولا في غيرها ثم رأيت الكمال بن أبي شريف صاحب الإسعاد قال إن الحديث لا أصل له وهو موافق لما ذكرته.
تو امام ابن حجر المکی رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میں نے یہ حدیث کتب احادیث جامع المبسوطہ میں نہیں دیکھی اور نہ ہی کسی دوسری کی کتاب میں . پھر میں نے کمال الدین بن ابی شریف صاحب " الإسعاد بشرح الإرشاد " کو دیکھا تو انہوں نے فرمایا اس روایت کی کوئی اصل نہیں ( امام ہیتمی فرماتے ہیں ) یہ اس بات کے موافق ہے جو میں نے ذکر کی .
اصول حدیث کا بڑا مشہور قاعدہ ہے کہ ہر وہ روایت جس کے بارے میں محدثین کرام فرمائے ( لا أصل له ) ( لم أقف عليه ) ( لم أجده ) ( لا أعرفه ) اور کوئی دوسرا ناقد حدیث ان محدثین کا تعاقب نہ کرے تو اس روایت کی نفی کی جائے گی وہ روایت موضوع اور بے اصل قرار دی جائے گی ملاحظہ ہو
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اپنی اصول حدیث کی کتاب التدریب الراوی میں نقل کرتے ہیں
إذ قال الحافظ المطلع الناقد في حديث: لا أعرفه، اعتمد ذلك في نفيه، كما ذكر شيخ الإسلام
جب حافظ باخبر ناقد کسی حدیث کے بارے میں کہے ( لا أعرفه ٬ لا أصل له ٬ لم اقف عليه) وغیرہ وغیرہ تو اس کی نفی پر اعتماد کیا جائے گا جیسا کہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا
پھر خود آگے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
وأما بعد التدوين والرجوع إلى الكتب المصنفة، فيبعد عدم الإطلاع من الحافظ الجهبذ على ما يورده غيره، فالظاهر عدمه.
مگر تدوین حدیث کے بعد اور کتب مصنفہ کی مراجعت کے بعد کسی ناقد حافظ کا کسی ذکر کردہ روایت پر مطلع نہ ہونا بعید ہے پس ظاہر یہی ہے کہ اس روایت کا وجود نہیں ہے .
( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/349 )
ہم اوپر محدثین کا کلام اس روایت کے تحت نقل کر آئے جنہوں نے اس روایت پر یہی کلام کیا ہے . ( لا أصل له )
اور کسی دوسرے محدث نے کسی محدث کے کلام پر تعاقب نہیں کیا لہذا اس اصول کی روشنی میں یہ روایت بے اصل و باطل ہے اس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حرام ہے
امام اسماعیل بن محمد العجلونی نے اس روایت کے ضمن میں اس مفہوم کی ایک ملتی جلتی روایت کا ذکر کیا جس کو امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں باسند نقل کیا سوچا کہ اس کی بھی تحقیق آپ حضرات کے پیش نظر کی جائے
امام احمد بن ابراہیم الثعلبی م427ھ رحمہ اللہ نے فرمایا
وأخبرنا أبو الحسن محمد بن القاسم بن أحمد قال: أنا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن أيوب قال: نا أبو عبد الله محمد بن صاحب قال: نا المأمون بن أحمد قال: نا أحمد بن عبد الله قال: نا أبو معاوية الضرير، عن أبي مالك الأشجعي، عن ربعي ابن حراش، عن حذيفة بن اليمان - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إن القوم ليبعث الله عز وجل عليهم العذاب حتما مقضيا، فيقرأ صبي من صبيانهم في الكتاب: {الحمد لله رب العالمين}، فيسمعه الله عز وجل ويرفع عنهم بذلك العذاب أربعين سنة"
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا خدائے بزرگ و برتر نے جن لوگوں کو پیدا فرمایا ہے ان پر عذاب یقیناً مقرر ہوگا . لیکن جب ان لوگوں کے بچوں میں سے ایک بچہ کلام پاک میں پڑھتا ہے {الحمد لله رب العالمين} اللہ عزوجل اسے سماعت فرماتا ہے اور پھر اس قوم کو چالیس سال تک کے لیے عذاب سے نجات عطا فرماتا ہے
( كتاب تفسير الثعلبي 2/267 :- 143 )
حالانکہ اس روایت کا اس روایت سے دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں اس روایت میں عالم اور طالب علم کی فضیلت مذکور تھی جبکہ یہاں قرآن پاک پڑھنے کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے اور امام ثعلبی اس روایت کو لائے بھی سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں ہیں لیکن بہرحال پھر بھی ہم اس کی تحقیق پیش کرتے ہیں کہ یہ روایت بھی موضوع منگھڑت ہے .
جلیل القدر آئمہ محدثین کا کلام اس روایت کے تحت
❶ امام الفقہاء والمحدثین امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس کو من گھڑت قرار دیا چنانچہ فرماتے ہیں :
أخرجه الثعلبي في " تفسيره "، وهو موضوع قال الشيخ ولي الدين العراقي: في سنده أحمد بن عبد الله الجويباري ومأمون بن أحمد الهروي، كذابان، وهو من وضع أحدهما
اس روایت کو امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا اور یہ موضوع ہے امام شیخ ولی الدین عراقی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی سند میں احمد بن عبداللہ الجویباری اور مامون بن احمد الھروی ہیں اور یہ دونوں کذاب ہیں اور اس روایت کو ان دونوں میں سے کسی ایک نے گڑھا ہے
( كتاب نواهد الأبكار وشوارد الأفكار 1/253 )
❷ علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ نے بھی اس کو موضوع قرار دیا
أخرجه الثعلبي في تفسيره وهو موضوع
( كتاب الفتح السماوي 1/119 )
جیسا کہ امام ولی الدین عراقی نے اس روایت کے موضوع من گھڑت ہونے کی وجہ بتا دی کہ اس کی سند میں دو کذاب احادیث گھڑنے والے راوی ہیں
➀ أحمد بن عبد الله الجويباري
یہ وہ لعنتی شخص ہے جس نے نبی ﷺ پر ایک ہزار سے زائد احادیث کو گڑھا ہے .
◉ امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے کہا جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ گھڑنے میں اس کی مثال دی جاتی ہے
[ ميزان الاعتدال 1/107 ]
◉ امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ امام بیہقی رحمہما اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس نے نبی ﷺ پر ایک ہزار سے زیادہ احادیث گڑھی ہیں
[ لسان الميزان 1/194 ]
◉ امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ گڑھتا ہے اس کی روایت ترک کردی جائیں اور یہ ان میں سے ایک ہے جو روایات گڑھتے ہیں
[ المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم الأصفهاني 1/60 ]
◉ امام دارقطنی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ جھوٹا ہے دجال ہے خبیث ہے یہ حدیث گڑھنے والا ہے اس کی روایت نہ لکھی جائے اور نہ انہیں بیان کیا جائے
[ موسوعة أقوال الدارقطني ص69 ]
◉ امام ابن حجر عسقلانی صاحب مستدرک امام حاکم رحمہما اللہ تعالیٰ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا یہ خبیث اور کذاب ہے اس نے کثیر روایات کو فضائل اعمال میں گڑھا ہے
[ لسان المیزان 1/194 ]
◉ امام ابو حاتم بن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ دجال ہے اس کا ذکر کتابوں میں نہ کیا جائے
[ المجروحين لابن حبان 1/154 ]
◉ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ان مشہور راویوں میں سے ایک ہے جو احادیث گھڑتے ہیں
[ الزيادات على الموضوعات 1/124 ]
◉ امام نسائی اور ابو الحسن بن سفیان اور امام ابن عدی رحمہمُ اللہ تعالی علیہم اجمعین نے اسے جھوٹا اور روایات گھڑنے والا کہا
[ لسان الميزان 1/193 ]
[ ميزان الاعتدال 1/106 ]
➁ مأمون بن أحمد الهروي
یہ شخص بھی دجال احادیث گھڑنے والا ہے .
◉ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کے حوالے سے فرمایا کہ یہ دجالوں میں سے ایک دجال ہے اور یہ ایسے لوگوں سے روایت کرتا ہے جنہیں اس نے دیکھا تک نہیں اور یہ ثقہ راویوں پر احادیث گھڑتا ہے .
( كتاب المجروحين لابن حبان ت حمدي 2/383 )
◉ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نہ ہی اس کا کوئی دین ہے اور نہ ہی اس میں کوئی خیر والی بات ہے بلکہ یہ احادیث گھڑنے والا ہے
( كتاب الموضوعات لابن الجوزي 2/48 )
◉ حجۃ اللہ فی الارضین شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ کذاب راویوں میں سے ایک ہے
( كتاب الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/152 )
◉ امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ کذاب خبیث احادیث گھڑنے والا راوی ہے
( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 1/98 )
◉ امام ابن حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں کہ امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے اس کی مرویات کو نقل کرکے فرمایا کہ جسے اللہ تعالی نے زرہ برابر بھی علم سے نوازا ہے وہ اس کی مرویات کو دیکھ کر یہ گواہی دے گا کہ یہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام پر جھوٹ اور افتراء ہیں
( كتاب لسان الميزان 5/8 )
◉ اسی طرح امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا یہ کذاب خبیث احادیث گھڑنے والا راوی ہے اور یہ ثقہ راویوں سے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے
( كتاب لسان الميزان 5/8 )
◉ امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو کذاب قرار دیا
( كتاب تنقيح التحقيق للذهبي 1/137 )
◉ امام ابو عبد اللہ الجوزقانی رحمہ اللہ نے اس کو کذاب خبیث احادیث گھڑنے والا قرار دیا
( كتاب الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير 1/445 )
◉ امام ابن قیسرانی رحمہ اللہ نے اس کو دجال احادیث گھڑنے والا قرار دیا
( كتاب معرفة التذكرة ص214 )
اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ تفسیر ثعلبی کی روایت بھی بلاشک و شبہ موضوع منگھڑت ہے اس کی نسبت بھی نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف کرنا حرام ہے
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی اس روایت کا ایک شاہد کا ذکر کرتے ہیں " الكاف الشاف في تخريج أحاديث الكشاف ص3 " پر جو کہ مسند الدارمی میں ضعیف سند سے منقول ہے .
حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا رِفْدَةُ الْغَسَّانِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عَجْلَانَ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: " كَانَ يُقَالُ: إِنَّ اللَّهَ لَيُرِيدُ الْعَذَابَ بِأَهْلِ الْأَرْضِ، فَإِذَا سَمِعَ تَعْلِيمَ الصِّبْيَانِ الْحِكْمَةَ، صَرَفَ ذَلِكَ عَنْهُمْ " قَالَ مَرْوَانُ: يَعْنِي بِالْحِكْمَةِ: الْقُرْآنَ
( كتاب مسند الدارمي - ت حسين أسد :- 3388 إسناده ضعيف لضعف رفدة بن قضاعة وهو موقوف على ثابث )
( كتاب مسند الشاميين للطبراني 3/293 :- ھو ضعيف أيضاً كما ذكر السابق )
ثابت بن عجلان انصاری نے کہا: یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ زمین کو عذاب کا ارادہ کرتا ہے لیکن جب بچوں کو حکمت کی تعلیم لیتے سنتا ہے تو ارادہ بدل دیتا ہے۔ مروان نے کہا: حکمت سے مراد قرآن کی تعلیم ہے۔
یہ ایک ضعیف قول ہے اور حضرت ثابت بن عجلان کا قول ہے اور اگر یہ ثابت بن عجلان ( ثابت بن عجلان حمصي أبو عبد الله الْأنصاري السلمي ) ہیں تو بقول ابو نصر احمد بن محمد کلاباذی یہ تابعی ہیں اور روایت حدیث مقطوع ہے اس کو بطور فضیلت بیان کیا جا سکتا ہے ۔
( الهداية المعروف برجال صحيح البخاري ص131 )
لیکن گزشتہ دو روایتوں کو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا حرام ہے کیونکہ وہ دونوں موضوع من گھڑت ہیں جیسا کہ ہم ثابت کر آئے .
فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
مؤرخہ 14 ذو الحجہ 1443ھ
-
By Aquib Rizvi
امام ابوالقاسم طبرانی م360ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
حدثنا بكر بن سهل، ثنا عبد الله بن يوسف، ثنا الهيثم بن حميد، عن رجل، عن مكحول، عن أبي أمامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «اتقوا البول، فإنه أول ما يحاسب به العبد في القبر»
( كتاب المعجم الكبير للطبراني :- 7605 )
ترجمہ :- نبی علیہ السلام نے فرمایا پیشاب ( کی چھینٹوں ) سے بچو کیونکہ قبر میں سب سے پہلے اس کے بارے میں حساب لیا جائے گا
اس سند میں امام مکحول سے روایت کرنے والا شخص مبھم ہے اور مبہم راوی کو پہچاننے کا طریقہ اصول حدیث کی کتاب تیسیر شرح مصطلح الحدیث میں یہ لکھا ہے
بوروده مسمى في بعض الروايات الأخرى
یعنی دوسری روایات میں اس کے نام کا ذکر ہوا ہو
( كتاب تيسير مصطلح الحديث ص260 )
اسی روایت کو امام طبرانی دوسری سند سے لائیں ہیں اور وہاں مکحول سے روایت کرنے والے راوی کا نام موجود ہے ملاحظہ ہو
حدثنا محمد بن عبد الله بن بكر السراج، ثنا إسماعيل بن إبراهيم، ثنا أيوب، عن مكحول، عن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتقوا البول، فإنه أول ما يحاسب به العبد في القبر»
( كتاب المعجم الكبير للطبراني :- 7607 )
بلکل وہی روایت ہے ایک لفظ کا بھی فرق نہیں اور راوی کا نام بھی واضح ہے *" أيوب بن مدرك الحنفي "* یہ راوی متھم بالکذب و وضع ہے مگر اس پر خاص جرح بھی ہے کہ اس کی امام مکحول شامی رحمہ اللہ سے روایات موضوع ہوتی ہیں
اس راوی کو امام نسائی امام دارقطنی امام ابو حاتم رازی امام يحيى بن بطريق الطرسوسي رحمہمُ اللہ نے متروک الحدیث قرار دیا
اور اسی راوی کو امام ابن معین رحمہ اللہ نے کذاب قرار دیا
( لسان الميزان :- 1382 )
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں
يروي المناكير عن المشاهير ويدعي شيوخا لم يرهم ويزعم أنه سمع منهم، روى عن مكحول نسخة موضوعة ولم يره
یہ مشہور راویوں سے منکر ( بمعنی باطل ) روایتیں بیان کرتا ہے اور ایسے شیوخ ( الحدیث ) سے احادیث سننے کا ( جھوٹا ) دعویٰ کرتا ہے جنہیں اس نے نہیں دیکھا اس نے امام مکحول شامی رحمہ اللہ سے من گھڑت روایات کا نسخہ روایت کیا حالانکہ اس نے امام مکحول کو نہیں دیکھا
( كتاب المجروحين لابن حبان ت حمدي :- 99 )
لہذا ثابت ہوا یہ روایت موضوع ہے اس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حلال نہیں
فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین
-
By Aquib Rizvi
یہ ایک موضوع ( منگھڑت ) روایت ہے
اس کو امام الحسن الخلال نے فضائل سورہ اخلاص میں اپنی سند کے ساتھ روایت کیا
حدثنا أحمد بن إبراهيم بن شاذان، ثنا عبد الله بن عامر الطائي، حدثني أبي، ثنا علي بن موسى، عن أبيه، موسى، عن أبيه، جعفر، عن أبيه، محمد، عن أبيه، علي، عن أبيه الحسين، عن أبيه علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «من مر على المقابر وقرأ قل هو الله أحد إحدى عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات»
كتاب فضائل سورة الإخلاص للحسن الخلال :- 54
ترجمہ :- علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا جو شخص قبرستان سے گزرے اور گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کے اس کا ثواب مردوں کو ایصال کرے تو اس کو ان مردوں کی تعداد کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا
اس سند عبد الله بن عامر الطائي ہے یہ خود تو متھم بالوضع ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے لیکن اس پر خاص جرح بھی ہے وہ یہ کہ اس نے اپنے والد کے واسطہ سے امام علی رضا رضی اللہ عنہ پر ایک جھوٹا نسخہ بیان کیا ہے
چناچہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
عبد الله بن أحمد بن عامر، عن أبيه، عن علي الرضا، عن آبائه بتلك النسخة الموضوعة الباطلة، ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه
( كتاب ميزان الاعتدال :- 4200 )
یعنی عبداللہ نے اپنے والد کے واسطے سے امام علی رضا اور انکے آباؤ اجداد یعنی اہل بیت سے ایک جھوٹا نسخہ باطل نسخہ روایت کیا ہے
امام ذہبی فرماتے ہیں یا تو اس نے اس نسخے کو گھڑا ہے یا اس کے باپ نے
اس روایت کو امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الزیادات علی الموضوعات میں نقل کیا جو ان کے نزدیک اس روایت کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتا ہے
( كتاب الزيادات على الموضوعات 2/577 )
اس کو دوسری سند کے ساتھ امام الرافعی رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں روایت کیا
( كتاب التدوين في أخبار قزوين 2/297 )
لیکن اس سند میں بھی داؤد بن سليمان الغازي ہے یہ راوی بھی کذاب ہے اور اس نے بھی ایک گڑھا ہوا نسخہ بیان کیا ہے امام علی رضا رضی اللہ عنہ سے اس کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ دونوں نے کذاب قرار دیا
كذبه يحيى بن معين، ولم يعرفه أبو حاتم، وبكل حال فهو شيخ كذاب له نسخة موضوعة على الرضا
امام ذہبی فرماتے ہیں اسے یحییٰ بن معین نے کذاب قرار دیا امام ابوحاتم نے کہا میں اسے نہیں جانتا اور امام ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ ایک جھوٹا شخص ہے جس کے پاس امام علی رضا رضی اللہ عنہ پر گھڑا ہوا نسخہ تھا
( كتاب ميزان الاعتدال 2/8 )
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی موافقت کی
( كتاب لسان الميزان ت أبي غدة 3/397 )
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ ایک جھوٹی روایت ہے جس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حلال نہیں
فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
-
Recommended Posts
Join the conversation
You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.