اگر تمام لوگ محبت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر جمع ہوجاتے تو اللہ جہنم کی تخلیق ہی نہ فرماتا
-
Recently Browsing 0 members
No registered users viewing this page.
-
Similar Content
-
By Aquib Rizvi
امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے فرمایا
أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ الْحَافِظُ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الثَّقَفِيُّ، ثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «إِنِّي رَأَيْتُنِي عَلَى تَلٍّ وَحَوْلِي بَقَرٌ تُنْحَرُ» فَقُلْتُ لَهَا: لَئِنْ صَدَقَتْ رُؤْيَاكِ لَتَكُونَنَّ حَوْلَكَ مَلْحَمَةٌ، قَالَتْ: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكَ، بِئْسَ مَا قُلْتَ» ، فَقُلْتُ لَهَا: فَلَعَلَّهُ إِنْ كَانَ أَمْرًا سَيَسُوءُكِ، فَقَالَتْ: «وَاللَّهِ لَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ» ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ ذُكِرَ عِنْدَهَا أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَتَلَ ذَا الثُّدَيَّةِ، فَقَالَتْ لِي: «إِذَا أَنْتَ قَدِمْتَ الْكُوفَةَ فَاكْتُبْ لِي نَاسًا مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِكَ مِمَّنْ تَعْرِفُ مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ» ، فَلَمَّا قَدِمْتُ وَجَدْتُ النَّاسَ أَشْيَاعًا فَكَتَبْتُ لَهَا مِنْ كُلِّ شِيَعٍ عَشَرَةً مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِكَ قَالَ: فَأَتَيْتُهَا بِشَهَادَتِهِمْ فَقَالَتْ: «لَعَنَ اللَّهُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، فَإِنَّهُ زَعَمَ لِي أَنَّهُ قَتَلَهُ بِمِصْرَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] - على شرط البخاري ومسلم
ترجمہ :- مسروق فرماتے ہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے مجھ سے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ٹیلے پر ہوں اور میرے اردگرد گائے ذبح کی جا رہی ہیں میں نے کہا اگر آپ کا خواب سچا ہوا تو آپ کے ارد گرد خون ریزی ہو گی ام المومنین نے کہا تم نے جو تعبیر بتائی ہے میں اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں میں نے کہا ہو سکتا ہے کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جو آپ کے لئے تکلیف دہ ہو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میری وجہ سے کوئی فتنہ برپا ہو اس سے مجھے یہ زیادہ عزیز ہے کہ مجھے آسمان سے زمین پر پھینک دیا جائے کچھ عرصے بعد ام المؤمنین کے پاس یہ تذکرہ ہوا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے " ذوالثدیہ " کو قتل کر دیا آپ نے مجھے حکم دیا کہ جب تم کوفہ آؤ تو شہر کے جتنے لوگ اس معاملے میں شریک ہوئے جن کو تم پہچانتے ہو ان سب کے بارے میں مجھے مطلع کرنا جب میں کوفہ میں آیا تو میں نے لوگوں کو جماعت در جماعت پایا میں نے ام المؤمنین کی جانب خط لکھا کہ ہر جماعت میں سے دس آدمی اس میں شریک ہوئے ہیں آپ فرماتے ہیں میں ان کی گواہی بھی ام المؤمنین کے پاس لایا ام المؤمنین نے فرمایا اللہ کی لعنت ہو عمرو بن عاص پر اس نے مجھ سے دعوی کیا تھا کہ اس نے اسے ( ذوالثدیہ کو ) مصر میں قتل کیا ہے
امام حاکم فرماتے ہیں یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن شیخین نے اسکی تخریج نہیں کی تلخیص میں امام ذھبی نے بھی شیخین کی شرط پر صحیح کہا
( المستدرك على الصحيحين للحاكم :- 6744 )
شیعہ کا اس روایت سے استدلال
➊ صحابی رسول ﷺ عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ام المؤمنین سے جھوٹ بولا
➋ ام المؤمنین نے صحابی رسول ﷺ پر لعنت کی
➌ اگر صحابہ پر لعنت کرنا حرام٬ فسق٬ کفر اور گناہ ہے تو کیا یہ فتوی ام المؤمنین پر لگے گا یا فتویٰ غلط ہے ؟؟
الجواب وباللہ التوفیق
◉ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ پر لعنت کرنا اور حضرت عمرو بن عاص کا جھوٹ بولنا ثابت نہیں
اسی روایت کو امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی " المصنف " میں عالی سند سے روایت کیا
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ٬ عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «رَأَيْتنِي عَلَى تَلٍّ كَأَنَّ حَوْلِي بَقَرًا يُنْحَرْنَ»، فَقَالَ مَسْرُوقٌ: إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا تَكُونِي أَنْتَ هِيَ فَافْعَلِي، قَالَ: «فَابْتُلِيتُ بِذَلِكَ رَحِمَهَا اللَّهُ»
( كتاب المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت :- 30513 إسنادہ صحیح )
ترجمہ :- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے اپنے آپ کو خواب میں ایک ٹیلے پر دیکھا اور میرے ارد گرد بہت سی گاۓ ذبح کی جارہی تھیں مسروق نے کہا اگر آپ کے اندر طاقت ہے کہ آپ وہ نہ ہوں تو ایسا ضرور کریں لیکن حضرت عائشہ اس میں مبتلا ہو گئی اللہ ان پر رحم فرمائے
آپ دیکھ سکتے ہیں نہ تو اس روایت میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کا جھوٹ بولنے کا اور نہ ہی ان پر لعنت کا
اعمش سے یہ روایت دو لوگ بیان کر رہے ہیں
➊ جرير بن عبد الحميد
➋ أبو معاوية الضرير
اور محدثین کرام اور ناقدین حدیث و رجال نے اعمش سے روایت کرنے میں ابو معاویہ کو جریر پر مقدم اور ابو معاویہ کو جریر سے اعمش کی روایت میں اوثق قرار دیا ہے
① ایوب بن اسحاق کہتے ہیں میں نے امام یحیی بن معین اور احمد بن حنبل رحمهما الله سے ابو معاویہ اور جریر کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں ابو معاویہ زیادہ محبوب ہیں اعمش کی روایت میں ( بنسبت جریر کے )
قال أيوب بن إسحاق بن سافري سألت أحمد ويحيى عن أبي معاوية وجرير، قالا: أبو معاوية أحب إلينا يعنيان في الأعمش
امام یحیی بن معین سے دوسرا قول بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ابو معاویہ اعمش کی حدیث میں جریر سے زیادہ مضبوط ہے
يحيى بن معين يقول: أبو معاوية أثبت من جرير في الأعمش
( كتاب تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية 2/305/6 )
② امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں ابومعاویہ اعمش کی حدیث میں میزان ہیں
لأن أبا معاوية هو الميزان في حديث الأعمش
( كتاب فتح الباري لابن حجر 12/286 )
③ امام ذہبی فرماتے ہیں امام احمد سے امام اعمش سے روایت کرنے میں ابو معاویہ اور جریر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ابو معاویہ کو جریر پر مقدم کیا
سئل أحمد عن أبي معاوية وجرير في الأعمش ، فقدم أبا معاوية
( سير أعلام النبلاء 9/74 )
ان تمام تصریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جریر بن عبدالحمید کی روایت جس میں جھوٹ بولنے اور لعنت کرنے کا ذکر ہے وہ متن شاذ ہے اوثق کی مخالفت کی وجہ سے جب کہ ابو معاویہ کی روایت جس میں دونوں باتوں کا ذکر نہیں وہی محفوظ اور صحیح متن ہے
شاذ حدیث کی تعریف اور اسکا ضعیف کی اقسام میں سے ہونا
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ شاذ حدیث کی تعریف فرماتے ہیں
فإن خولف بأرجح منه: لمزيد ضبط، أو كثرة عدد، أو غير ذلك من وجوه الترجيحات، فالراجح يقال له: "المحفوظ" ومقابله، وهو المرجوح، يقال له: "الشاذ"
پس اگر ثقہ راوی کی طرف سے کسی ایسے ارجح کی مخالفت کی جائے جو ضبط٬ یا کثرت عدد٬ یا اس کے علاوہ کسی اور وجوہ ترجیح میں اس سے راجح ہو تو راجح کی حدیث کو محفوظ اور اس کے مقابل یعنی مرجوح کی حدیث کو شاذ کہا جائے گا
( كتاب نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر - ت عتر ص71 )
شاذ حدیث خبر مردود کی اقسام میں سے ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کو خبر مردود کی اقسام میں ذکر کیا
اصول حدیث کی ایک اور " كتاب تيسير مصطلح الحديث " میں محمود طحان فرماتے ہیں
من المعلوم أن الشاذ حديث مردود، أما المحفوظ فهو حديث مقبول
معلوم ہوا کہ شاذ حدیث مردود ( ضعیف ) ہے اور محفوظ حدیث مقبول ( صحیح ) ہے
( كتاب تيسير مصطلح الحديث ص124 )
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ " جریر بن عبدالحمید " جوکہ ثقہ ہے اس نے اعمش سے روایت کرنے میں " ابو معاویہ " جو کہ اوثق ہے اعمش کی حدیث میں جریر سے اس کی مخالفت کی جس کی بنا پر " جریر بن عبدالحمید " کی روایت شاذ ( ضعیف ) ہوئی اور " ابو معاویہ " کی روایت محفوظ ( صحیح )
◉ اس روایت کو اپنے طریق سے امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا اس میں لعنت کے الفاظ تو ہیں لیکن شخص کا نام نہیں یعنی صراحت نہیں کہ کس پر لعنت کی نیز یہ کہ وہ سند بھی ضعیف ہے
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ أخبرنا الحسين بن الحسن بن عامر الكندي بالكوفة من أصل سماعه حدثنا أحمد بن محمد بن صدقة الكاتب قال: حدثنا عمر بن عبد الله بن عمر بن *محمد بن أبان بن صالح* قال: هذا كتاب جدي: محمد بن أبان فقرأت فيه حدثنا الحسن بن الحر قال: حدثنا الحكم بن عتيبة وعبد الله بن أبي السفر، عن عامر الشعبي، عن مسروق، قال: قالت عائشة: عندك علم من ذي الثدية الذي أصابه علي رضي الله عنه في الحرورية قلت لا قالت فاكتب لي بشهادة من شهدهم فرجعت إلى الكوفة وبها يومئذ أسباع فكتبت شهادة عشرة من كل سبع ثم أتيتها بشهادتهم فقرأتها عليها قالت: أكل هؤلاء عاينوه؟ قلت: لقد سألتهم فأخبروني أن كلهم قد عاينه قالت: *لعن الله فلانا فإنه كتب إلي أنه أصابهم بنيل مصر* ثم أرخت عينيها فبكت فلما سكتت عبرتها. قالت: رحم الله عليا لقد كان على الحق وما كان بيني وبينه إلا كما يكون بين المرأة وأحمائها
( كتاب دلائل النبوة للبيهقي 6/434/35 )
سند میں موجود راوی " محمد بن أبان بن صالح " ضعیف الحدیث ہے اس کے ضعف پر محدثین کا اجماع ہے
( لسان الميزان :- 6354 )
نیز یہ کہ جس شخص پر لعنت کی جا رہی ہے اس کا نام بھی مبھم ہے لہذا اس روایت سے کسی طرح بھی استدلال نہیں کیا جاسکتا
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ پر لعنت کرنا اور ان کا سیدہ سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں لہذا شیعہ کا اس روایت سے استدلال کرنا باطل ہے . اللہ رحم فرمائے امام ذہبی پر کہ انہوں نے ظاہری سند کو دیکھتے ہوئے صحت کا حکم لگا دیا متن پر توجہ نہیں دی جب کہ ہم اوپر خود ان کی آخری کتاب " سیر اعلام نبلاء " سے ثابت کر آئے کہ انہوں نے ابو معاویہ کا جریر پر مقدم ہونا امام احمد سے نقل کیا ہے
فقط واللہ رسولہٗ اعلم باالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
مؤرخہ 10 شعبان المعظم 1443ھ
-
By Aquib Rizvi
ایکــ عـورت اپنـے سـاتـھ چـار لـوگـوں کـو جہنـم میـں لـے کـر جـائـے گــی
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے
إذا دخلت امرأة إلى النار أدخلت معها أربعة، أباها وأخاها وزوجها وولدها
جب عورت جہنم میں داخل ہوگی تو اپنے ساتھ چار لوگوں کو جہنم میں لے کر جائے گی اپنے باپ کو اپنے بھائی کو اپنے شوہر کو اور اپنے بیٹے کو
اسی طرح
أربعة يُسألون عن حجاب المرأة: أبوها، وأخوها، وزوجها، وابنها
چار لوگوں سے عورت کے حجاب کے متعلق سوال کیا جائے گا اس کے باپ سے اس کے بھائی سے اس کے شوہر سے اور اس کے بیٹے سے
[ موضوع ]
اس روایت کا کسی بھی معتبر یا مستند کتاب میں وجود نہیں یہی اس کے موضوع من گھڑت ہونے کے لئے کافی تھا مگر یہ نص قطعی اور صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ روایت نص قطعی اور شریعت کے اس اصول کے خلاف ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے گناہوں کے عوض جہنم میں داخل ہو
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْـهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۚ
اور جو شخص کوئی گناہ کرے گا تو وہ اسی کے ذمہ ہے، اور ایک شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ( سورۃ الانعام :- 164 )
اسی طرح فرمان رسول ﷺ بھی ہے
سنن ابن ماجه حدیث :- 2669
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص ، عن شبيب بن غرقدة ، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع:" الا لا يجني جان إلا على نفسه، لا يجني والد على ولده ولا مولود على والده"
عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”خبردار! مجرم اپنے جرم پر خود پکڑا جائے گا، (یعنی جو قصور کرے گا وہ اپنی ذات ہی پر کرے گا اور اس کا مواخذہ اسی سے ہو گا) باپ کے جرم میں بیٹا نہ پکڑا جائے گا، اور نہ بیٹے کے جرم میں باپ“
[ صحیح ]
مذکور روایت کی تردید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویاں کافرہ تھی تو کیا ان کی وجہ سے نوح اور لوط علیہما السلام کو گناہ ملے گا ؟ نعوذ باللہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
متفقـہ اصــول
آئمہ اور محدثین کا یہ متفقہ اصول ہے کہ جو بھی روایت اصول شریعت یا نص قطعی کے خلاف ہو اور تاویل کی گنجائش نہ ہو تو وہ موضوع ہے
① شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں
ومِنها ما يُؤخَذُ مِن حالِ المروي كأنْ يكون مناقضاً لنصِّ القرآن أَو السُّنَّةِ المُتواتِرَةِ أَو الإِجماعِ القطعيِّ أَو صريحِ العَقْلِ حيثُ لا يَقْبلُ شيءٌ مِن ذلك التأويلَ
موضوع حدیث کو اس کی حالت سے بھی پہچان لیا جاتا ہے جیسا کہ وہ قرآن کی نص یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی یا صریح عقل کے اس طور پر خلاف ہو کہ وہ تاویل کو بلکل قبول نہ کرے
[ نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر ص66 ]
② خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں
أَنَّ مِنْ جُمْلَةِ دَلَائِلِ الْوَضْعِ أَنْ يَكُونَ مُخَالِفًا لِلْعَقْلِ بِحَيْثُ لَا يَقْبَلُ التَّأْوِيلَ وَيَلْتَحِقَ بِهِ مَا يَدْفَعُهُ الْحِسُّ وَالْمُشَاهَدَةُ أَوْ يَكُونُ مُنَافِيًا لِدَلَالَةِ الْكِتَابِ الْقَطْعِيَّةِ أَوِالسُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ أَوِ الْإِجْمَاعِ الْقَطْعِيِّ أَمَّا الْمُعَارَضَةُ مَعَ إِمْكَانِ الْجَمْعِ فَلَا
حدیث کے موضوع ہونے کے دلائل میں سے یہ بات شامل ہے کہ یہ عقل کے اس طرح خلاف ہو کہ اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو اسی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حدیث میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہو جو حس و مشاہدے کے خلاف ہو اسی طرح حدیث اگر قرآن مجید کی قطعی دلالت یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی کے منافی ہو تو وہ بھی موضوع حدیث ہو گی اور اگر تضاد کو دور کرنا ممکن ہو تو پھر ایسا نہ ہوگا
[ تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 3/204 ]
یہی بات امام احمد رضا خان فاضل بریلی رحمہ اللہ نے بھی فرمائی
[ فتویٰ رضویہ 5/460 ]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خــلاصــــہ کـــــلام
اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچانا ہر انسان پر واجب ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قُـوٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ ( سورۃ تحریم :- 6 )
نبی ﷺ کا بھی فرمان عالیشان ہے
سنن ابی داؤد حدیث :- 495
حدثنا مؤمل بن هشام يعني اليشكري، حدثنا إسماعيل، عن سوار ابي حمزة، قال ابو داود: وهو سوار بن داود ابو حمزة المزني الصيرفي، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مروا اولادكم بالصلاة وهم ابناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم ابناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع"
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو“
[ صحیح ]
لہذا اہل وعیال کو جہنم سے بچانے کے لئے اور شریعت کا پابند بنانے کے لیے بے اصل اور باطل روایات بیان کرنے کی کوئی حاجت نہیں نص قطعی اور احادیث صحیحہ موجود ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب
خـادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمـد عـاقـب حسیـن رضـوی
✍🏻 پرانی تحریر ( مؤرخہ یکم محرم الحرام 1442ھ )
-
By Sunni Haideri
*جس نے جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑی اس کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس میں وہ داخل ہوگا۔*
1 📕حدثنا إبراهيم بن محمد بن يحيى المزكي النيسابوري، في جماعة قالوا: ثنا محمد بن إسحاق الثقفي، ثنا أبو معمر صالح بن حرب , ثنا إسماعيل بن يحيى، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ترك صلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها» تفرد به صالح , عن إسماعيل، عنه
(حلیاۃ اولیاء و طبقات اصفیاء7/254)
2 :📕473 - أخبركم أبو الفضل الزهري، نا أبي، نا محمد بن غالب، نا صالح بن حرب، نا إسماعيل بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ترك الرجل الصلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها»
(حدیث ابیی فضل الزھری: صفحہ465)
دونوں میں اسماعیل مسعر سے روایت کر رہا ہے اس کی حقیقت ہم آگے بیان کرتے ہیں
1 *إسماعيل بن يحيى*
اس کا پورا نام: اسماعیل بن یحیی بن عبيد الله بن طلحة بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق۔
✍️یہ ایک یضح الحدیث راوی ہے اس پر کذاب جروحات بھی موجود ہیں
✍️اور ایسے راوی کی روایت موضوع ہوتی ہے۔
✍️اور اس پر ایک خاص جرح مسعر کے حوالہ سے ہے کہ مالک و مسعر سے یہ موضوع رویات نقل کرتا ہے۔
✍️اور اس کذاب راوی نے یہ روایت بھی مسعر سے روایت کی ہے لہذا یہ روایت بھی موضوع ہے۔
خود صاحب حلیاۃ اولیاء (امام ابو نعیم اصبھانی رحتہ اللہ علیہ) اپنی کتاب الضعفاء الابیی نعیم صفحہ 60 پر فرماتے ہیں کہ:
12- إسماعيل بن يحيى بن عبيد الله التيمي حدث عن مسعر ومالك بالموضوعات يشمئز القلب وينفر من حديثه متروك،
کہتے ہیں کہ اسماعیل مالک و مسعر سے موضوعات بیان کرتا ہے اور دل میں کراہت و نفرت سی ہے اس کے لیے اور اسکو حدیث میں ترک(چھوڑ دینا) ہے۔
2: عطیہ عوفی راوی مشھور ضعیف الحدیث راوی ہے،
✍️لیکن یہ حدیث اسماعیل کی وجہ سے موضوع ہے
✍️اس میں صالح اور اسماعیل کا تفرد بھی ہے جیسا کہ خود صاحب حلیاۃ اولیاء نے فرمایا ہے۔
اسکا مطلب اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند بھی نہیں ہے
الحکم الحدیث:- موضوع
(محمد عمران علی حیدری)
01.04.2022.
28شعبان 1443ھ
-
By Sunni Haideri
*سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت تین باتوں کا اقرار جرم کیا تھا؟*
*اس کی حقیقت کیا ہے؟*
*✍️شیعہ کی جہالت کا جواب✍️*
*الصلوۃ والسلام علیک یاسیدی یارسول اللہؐ۔*
*وعلی الک واصحبک یاسیدی یا خاتم المرسلین۔*
*صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم*
*⚔️🗡️ضرب حیدری🗡️⚔️*
عبد الرحمن ابن عوف ، ابوبکر کی بیماری کے ایام میں اسکے پاس اسکی عیادت کرنے گیا اور اسے سلام کیا، باتوں باتوں میں ابوبکر نے اس سے ایسے کہا:
مجھے کسی شے پر کوئی افسوس نہیں ہے، مگر صرف تین چیزوں پر افسوس ہے کہ اے کاش میں تین چیزوں کو انجام نہ دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کو انجام دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کے بارے میں رسول خدا سے سوال پوچھ لیتا، اے کاش میں فاطمہ کے گھر کی حرمت شکنی نہ کرتا، اگرچہ اس گھر کا دروازہ مجھ سے جنگ کرنے کے لیے ہی بند کیا گیا ہوتا.
*الجواب بعون الوہاب*
✍️پہلی بات اس روایت کی تین اسنادہیں اور تینوں ہی قابل قبول نہیں ہیں۔ ان میں کوئی ایک سند بھی درجہ صحیح و حسن تک نہیں جاتی۔
*طریق نمبر 1*
أنا حميد أنا عثمان بن صالح، حدثني الليث بن سعد بن عبد الرحمن الفهمي، حدثني علوان، عن صالح بن كيسان، عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، أن أباه عبد الرحمن بن عوف، دخل علي أبي بكر الصديق رحمة الله عليه في مرضه الذي قبض فيه ... فقال [أبو بكر] : « أجل إني لا آسي من الدنيا إلا علي ثَلاثٍ فَعَلْتُهُنَّ وَدِدْتُ أَنِّي تَرَكْتُهُنَّ، وثلاث تركتهن وددت أني فعلتهن، وثلاث وددت أني سألت عنهن رسول الله (ص)، أما اللاتي وددت أني تركتهن، فوددت أني لم أَكُنْ كَشَفْتُ بيتَ فاطِمَةَ عن شيء، وإن كانوا قد أَغْلَقُوا علي الحرب.
*الخرساني،زنجويه الأموال، ج 1، ص 387۔* *الدينوري، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 21، تحقيق: خليل المنصور، باتحقيق شيري، ج1، ص36، و با تحقيق، زيني، ج1، ص24.*
*تاريخ الطبري، ج 2، ص 353.* *العقد الفريد، ج 4، ص 254.* *مروج الذهب، ج 1، ص 290*
ترجمہ اوپر والا ہی ہے یہ اس کی عربی عبارت ہے۔
✍️اس سند میں علوان بن داود البجلی منکر الحدیث ہے۔۔
*1* قال البخاري: علوان بن داود ويُقال: ابن صالح *منكر الحديث.*
*2* وقال العقيلي: *له حديث لا يتابع عليه، وَلا يعرف إلا به.*
*3* وقال أبو سعيد بن يونس: *منكر الحديث.*
*طریق نمبر 2*
أخبرنا أبو البركات عبد الله بن محمد بن الفضل الفراوي وأم المؤيد نازيين المعروفة بجمعة بنت أبي حرب محمد بن الفضل بن أبي حرب قالا أنا أبو القاسم الفضل بن أبي حرب الجرجاني أنبأ أبو بكر أحمد بن الحسن نا أبو العباس أحمد بن يعقوب نا الحسن بن مكرم بن حسان البزار أبو علي ببغداد حدثني أبو الهيثم خالد بن القاسم قال حدثنا ليث بن سعد عن صالح بن كيسان عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف عن أبيه.
*ابن عساكر الشافعي.*
*تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 30، ص417 ـ 419۔*
✍️اس نقل کرنے کے بعد امام مدائنی نے کہا سند مختصر ہے مطلب سند میں انقطاع ہے۔
*كذا رواه خالد بن القاسم المدائني عن الليث وأسقط منه علوان بن داود وقد وقع لي عاليا من حديث الليث وفيه ذكر علوان.*
✍️امام عقیلیؒ نے علوان والے طریق کو نقل کرنے کے بعد فرمایا اور لیث والا بھی اور آخر میں فرمایا کہ *ابو بکر والی حدیث اضطراب کا شکار ہے۔*
✍️ *وأورد العقيلي أيضًا من طريق الليث:* حدثني علوان بن صالح عن صالح بن كيسان أن معاوية قدم المدينة أول حجة حجها بعد اجتماع الناس عليه ... فذكر قصة له مع عائشة بنت عثمان , وقال: لا يعرف علوان إلا بهذا مع اضطرابه في حديث أبي بكر.
طریق نمبر 2 کی سند میں ایک راوی ہے
✍️أبو الهيثم خالد بن القاسم اس پر کذاب، متروک اور وضح تک ہی جرح ہے۔✍️
اس کا پورا نام: *خالد بن قاسم*
ہے اور اس نے شہرت: *خالد بن القاسم المدائني*
کے نام سے پائی اور اس کی کنیت:*أبو الهيثم* ہے
*1* إسحاق بن راهويهؒ فرماتے ہیں کہ: *كذاب.*
*2* إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فرماتے ہیں کہ: *کذاب يزيد في الأسانيد*
*3* محمد بن إسماعيل البخاريؒ فرماتے ہیں کہ: *متروك تركه علي والناس.*
*4* مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ فرماتے ہیں کہ: *متروك الحديث.*
*5* أبو أحمد بن عدي الجرجانيؒ فرماتے ہیں کہ: *له عن الليث مناكير.*
*6* امام الذهبيؒ فرماتے ہیں کہ : *ذكر فيه ما يقتضي الوضع.*
*طریق نمبر 3*
حدثني حفص بن عمر، ثنا الهيثم بن عدي عن يونس بن يزيد الأيلي عن الزهري أن عبد الرحمن بن عوف قال: دخلت علي أبي بكر في مرضه.
*البلاذري. أنساب الأشراف، ج 3، ص 406 ، طبق برنامه الجامع الكبير.*
✍️اس طریق میں *الهيثم بن عدي* متروک الحدیث ہے۔
اور اضطراب بھی تینوں اسناد میں ہے۔
اس کا پورا نام:.
*الهيثم بن عدي بن عبد الرحمن بن زيد بن أسيد بن جابر بن عدي بن خالد بن خيثم بن أبي حارثة* ہے
*1:* أبو بكر البيهقيؒ فرماتے ہیں کہ *متروك الحديث، ونقل عن ابن عدي أنه: ضعيف جدا*
*2:* أبو حاتم الرازيؒ فماتے ہیں کہ *متروك الحديث۔*
*3:* أبو داود السجستانيؒ فرماتے ہیں کہ: *كذاب.*
*4:* أبو زرعة الرازي فرماتے ہیں کہ : *ليس بشيء*
*5:* امام يحيى بن معين الحنفیؒ فرماتے ہیں کہ: *ليس هو بثقة، ومرة: ليس بشيء، ومرة: ليس بثقة كان يكذب*
خلاصہ کلام آپ کی پیش کردہ روایت سے استدلال کرنا ہی سرے سے غلط ہے کیوں کہ تینوں طریق میں ایک طریق بھی قابل استدلال نہی ہے۔
تینوں اسناد میں وضح،کذاب اور متروک راوی موجود ہیں۔
الحکم الحدیث: متروک
(طالب دعا : محمد عمران علی حیدری)
17.09.2021.
09 صفر المظفر 1443ھ
-
By Sunni Haideri
*ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے حدیث کی تحقیق*
حُبُّ اَبِیْ بَکْرٍ وَشُکْرُہٗ وَاجِبٌ عَلٰی اُمَّتِی
ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے۔
✍️یہ روایت موضوع ہے اس کے دو طریق ہیں اور دونوں میں ایک کذاب راوی موجود ہے۔
*طریق نمبر 1:.*
2726 - أحمد بن محمد بن العلاء حدث عن عمر بن إبراهيم الكردي، روى عنه: ابن أخيه محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب
📕أخبرني الحسن بن أبي طالب، قال: حدثنا يوسف بن عمر القواس، قالا: حدثنا أبو جعفر محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب، قال: حدثني عمي أحمد بن محمد بن العلاء، قال: حدثنا *عمر بن إبراهيم يعرف بالكردي،* قال: حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن المغيرة بن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أمن الناس علي في صحبته وذات يده أبو بكر الصديق، فحبه وشكره وحفظه واجب على أمتي "
1📘: ✍️تفرد به عمر بن إبراهيم -ويعرف بالكردي- عن ابن أبي ذئب، وعمر ذاهب الحديث.
*قال الخطيب أيضا (3/ 475):*
✍️ذاھب الحدیث کہنا بھی ایک سخت جرح ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ راوی کو راوی کذاب ہے۔
📘محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى.
هذامنكر جدا.
*قال الدارقطني: كذاب.*
طریق نمبر 2:.
نا أبو بكر محمد بن إسماعيل الوراق نا علي بن محمد بن أحمد المصري نا أحمد بن يحيى بن خالد بن حماد بن المبارك نا حماد بن المبارك نا صالح بن عمر القرشي نا *عمر بن إبراهيم بن خالد* عن ابن أبي ذئب عن ابن أبي لبيبة عن أنس بن مالك قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) *حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي* وروي عن ابن أبي ذئب بإسناد آخر أخبرناه أبو بكر وجيه بن طاهر أنا أبو بكر يعقوب بن أحمد بن محمد الصيرفي أنا أبو نعيم أحمد بن محمد بن إبراهيم بن عيسى الأزهري بن الشيخ العدل نا أبو بكر أحمد بن إسحاق بن إبراهيم بن جعفر الصيدلاني إملاء نا أحمد بن محمد بن نصر اللباد
*ابن عساکر جلد30.ص141*
✍️اس طریق میں بھی وہی راوی موجود ہے عمر بن ابراھیم۔
مسند الفروس بماثور الخطاب میں صاحب فردوس نے بغیر سند کے اس کو نقل کیا ہے
✍️2724 - سهل بن سعد:
حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي
*مسند الفردوس 142/2*
امام اصبھانی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسکو نقل کیا ہے وہی طرق سیدنا سھل بن سعد والا
85 - أخبرنا عمر بن أحمد، ثنا محمد بن عبد الله بن دينار والحسن بن يحيى النيسابوري قالا: ثنا أحمد بن نصر اللباد، *ثنا عمر بن إبراهيم،* ثنا محمد بن عبد الرحمن بن أبي ذئب، ثنا أبو حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي»
*فضائل الخلفاء الراشدین ابی نعیم الاصبھانی۔ص89*
✍️اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے۔
وروى محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى.
هذا منكر جدا.
قال الدارقطني۔ عمر بن ابراھیم :كذاب.
*میزان اعتدال3/180.امام ذھبی علیہ الرحمہ*
اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے کذاب ہے۔
✍️✍️✍️✍️✍️✍️📚مرکزی راوی عمر بن ابراھیم پر کلام:-
✍️أبو حاتم بن حبان البستی فرماتے ہیں کہ: لا يجوز الاحتجاج بخبره ہے۔
✍️الخطيب البغدادي فرماتے ہیں کہ : غير ثقة، ومرة: يروي المناكير عن الاثبات۔ ثقہ سے مناکیر بیان کرتا ہے
✍️امام الدارقطني فرماتے ہیں کہ : كذاب خبيث يضع الحديث ہے۔
✍️امام الذهبي فرماتے ہیں کہ : عمر بن ابراھیم كذاب ہے۔
✍️میزان اعتدال جلد5ص225. الرقم: 6050. کذاب.
📖خلاصہ کلام:-✍️✍️
اس روایت کے مجھے دو طریق ملے ہیں،جس میں ایک مرکزی راوی ہے، جس کی وجہ سے یہ روایت قابل استدلال اور فضائل و مناقب میں بیان کے کے قابل نہیں ہے۔ اور محققین نے اس حدیث کو موضوعات میں درج کیا ہے جیسا امام ملا علی قاری حنفی رحمتہ اللہ علیہ امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ۔
اس راوی کا نام عمر بن إبراهيم بن خالد بن عبد الرحمن ہے۔اس کو عمر بن ابراھیم الکردی کے نام سے جانا جاتا ہے جیسا کہ اوپر رویات میں درج ہے۔یہ اسکا نسب ہے اسے الکردی کے ساتھ ساتھا القرشی الهاشمی بھی کہا جاتا ہے۔
اس راوی پر کذاب، ذاھب الحدیث،، یروی مناکیر اوریضح الحدیث کی جروحات ہیں۔
✍️الحکم الحدیث: موضوع
(طالب دعا محمد عمران علی حیدری)
-
Recommended Posts
Join the conversation
You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.