Jump to content
IslamiMehfil

حضرت ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میرہ امت پر واجب ہے۔ حدیث کی تحقیق


Recommended Posts

*ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے حدیث کی تحقیق*

حُبُّ اَبِیْ بَکْرٍ وَشُکْرُہٗ وَاجِبٌ عَلٰی اُمَّتِی 
ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے۔

✍️یہ روایت موضوع ہے اس کے دو طریق ہیں اور دونوں میں ایک کذاب راوی موجود ہے۔


*طریق نمبر 1:.*

2726 - أحمد بن محمد بن العلاء حدث عن عمر بن إبراهيم الكردي، روى عنه: ابن أخيه محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب

📕أخبرني الحسن بن أبي طالب، قال: حدثنا يوسف بن عمر القواس، قالا: حدثنا أبو جعفر محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب، قال: حدثني عمي أحمد بن محمد بن العلاء، قال: حدثنا *عمر بن إبراهيم يعرف بالكردي،* قال: حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن المغيرة بن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أمن الناس علي في صحبته وذات يده أبو بكر الصديق، فحبه وشكره وحفظه واجب على أمتي "

 1📘: ✍️تفرد به عمر بن إبراهيم -ويعرف بالكردي- عن ابن أبي ذئب، وعمر ذاهب الحديث.
*قال الخطيب أيضا (3/ 475):*
✍️ذاھب الحدیث کہنا بھی ایک سخت جرح ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ راوی کو راوی کذاب ہے۔ 

 📘محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى.
هذامنكر جدا.

*قال الدارقطني: كذاب.*

طریق نمبر 2:.

 نا أبو بكر محمد بن إسماعيل الوراق نا علي بن محمد بن أحمد المصري نا أحمد بن يحيى بن خالد بن حماد بن المبارك نا حماد بن المبارك نا صالح بن عمر القرشي نا *عمر بن إبراهيم بن خالد* عن ابن أبي ذئب عن ابن أبي لبيبة عن أنس بن مالك قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) *حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي* وروي عن ابن أبي ذئب بإسناد آخر أخبرناه أبو بكر وجيه بن طاهر أنا أبو بكر يعقوب بن أحمد بن محمد الصيرفي أنا أبو نعيم أحمد بن محمد بن إبراهيم بن عيسى الأزهري بن الشيخ العدل نا أبو بكر أحمد بن إسحاق بن إبراهيم بن جعفر الصيدلاني إملاء نا أحمد بن محمد بن نصر اللباد

*ابن عساکر جلد30.ص141*

✍️اس طریق میں بھی وہی راوی موجود ہے عمر بن ابراھیم۔

مسند الفروس بماثور الخطاب میں صاحب فردوس نے بغیر سند کے اس کو نقل کیا ہے

✍️2724 - سهل بن سعد:
حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي
*مسند الفردوس 142/2*

امام اصبھانی  رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسکو نقل کیا ہے وہی طرق سیدنا سھل بن سعد والا

85 - أخبرنا عمر بن أحمد، ثنا محمد بن عبد الله بن دينار والحسن بن يحيى النيسابوري قالا: ثنا أحمد بن نصر اللباد، *ثنا عمر بن إبراهيم،* ثنا محمد بن عبد الرحمن بن أبي ذئب، ثنا أبو حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي»

*فضائل الخلفاء الراشدین ابی نعیم الاصبھانی۔ص89*

✍️اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے۔

وروى محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى.
هذا منكر جدا.

قال الدارقطني۔ عمر بن ابراھیم :كذاب.

*میزان اعتدال3/180.امام ذھبی علیہ الرحمہ*

اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے کذاب ہے۔

✍️✍️✍️✍️✍️✍️📚مرکزی راوی عمر بن ابراھیم پر کلام:-

✍️أبو حاتم بن حبان البستی فرماتے ہیں کہ: لا يجوز الاحتجاج بخبره ہے۔

✍️الخطيب البغدادي فرماتے ہیں کہ : غير ثقة، ومرة: يروي المناكير عن الاثبات۔ ثقہ سے مناکیر بیان کرتا ہے


✍️امام الدارقطني فرماتے ہیں کہ : كذاب خبيث يضع الحديث ہے۔

✍️امام الذهبي فرماتے ہیں کہ : عمر بن ابراھیم  كذاب ہے۔

✍️میزان اعتدال جلد5ص225. الرقم: 6050. کذاب.

      📖خلاصہ کلام:-✍️✍️

اس روایت کے مجھے دو طریق ملے ہیں،جس میں ایک مرکزی راوی ہے، جس کی وجہ سے یہ روایت قابل استدلال اور فضائل و مناقب میں بیان کے کے قابل نہیں ہے۔ اور محققین  نے اس حدیث کو موضوعات میں درج کیا ہے جیسا امام ملا علی قاری حنفی رحمتہ اللہ علیہ امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ۔

اس راوی کا نام عمر بن إبراهيم بن خالد بن عبد الرحمن ہے۔اس کو عمر بن ابراھیم الکردی کے نام سے جانا جاتا ہے جیسا کہ اوپر رویات میں درج ہے۔یہ اسکا نسب ہے اسے الکردی کے ساتھ ساتھا القرشی الهاشمی بھی کہا جاتا ہے۔

اس راوی پر کذاب، ذاھب الحدیث،، یروی مناکیر اوریضح الحدیث کی جروحات ہیں۔

✍️الحکم الحدیث: موضوع

(طالب دعا محمد عمران علی حیدری)

  • Thanks 1
Link to post
Share on other sites

Join the conversation

You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.

Guest
Reply to this topic...

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • Recently Browsing   0 members

    No registered users viewing this page.

  • Similar Content

    • By Sunni Haideri
      جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
      روایت کی تحقیق
      25: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ فُورَكٍ، قال: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ النَّشَابيّ ُ، قال: ثنا مَنْصُورُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْبَكْرِيُّ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ الأَبَّارِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ.
      ترجمہ: سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ  جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
      (الفوائد لأبي الشيخ الأصبهاني 58 ص.الرقم:25.)
      (مسند الشهاب القضاعي 1/102.الرقم: 119.)
      (طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها 3/567.)
      ✍️:أَبُو النَّضْرِ الْبَصْرِيُّ الْأَبَّارُ: مجھول الحال۔ 
       
      ✍️: وسند ضعیف والحدیث صحیح۔
      اسکا صحیح  درجہ کا شاھد موجود ہے۔👇
      3104: أَخْبَرَنَا ‌عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌حَجَّاجٌ، عَنِ ‌ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ‌مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ‌طَلْحَةَ ، عَنْ ‌مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ : «أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ. فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَالْزَمْهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا».
      ترجمہ: حضرت معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ: جاہمہ نبی علیہ السلام کے پاس آۓ اور کہنے لگے کہ میں نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس بارے میں آپؐ سے مشورہ کرنے آیا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تیری والدہ ہے۔ جواب دیا کہ جی ہاں آپؑ نے فرمایا جا اس کے ساتھ (خدمت کر) رہو جنت اس کے قدموں کے نیچے(تلے) ہے۔
      (سنن النسائي 6/11)۔
      ✍️: یہی حدیث مستدرک میں دو جگہ موجود ہے۔👇
      (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية 7248 .2502.)
      (شعب الإيمان: 7448.)
       (البر والصلة لابن الجوزي 67س.الرقم: 46.)
      (السنن الكبرى - البيهقي - 18/ 90.الرقم: 17890.)
       واسناد صحیح 
      لہذا وہ روایت ماں کے قدموں تلے جنت ہے ثابت ہوئی کیونکہ اس کا متن دوسری صحیح روایت سے ثابت ہوگیا ہے۔

      حکم الخلاصہ:ھذا حدیث صحیح۔
      ✍️: ماں باپ جنت کا دروازہ ہیں.
      حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنّ لِيَ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏  الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبٍ۔
      ترجمہ: حضرت ابو الدرداء ؓ کہتے ہیں کہ  ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے،ابوالدرداء  ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے:  باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی»  (میری ماں)  کہا اور کبھی «إن أبی»  (میرا باپ)  کہا۔   
       
      امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔  
      (سنن الترمذي :- 1900.) صحیح۔
      (سنن ابن ماجه :- 3663.)
      صحیح
      ابن ماجہ میں امام سفیانؒ کے قول کو نقل نہیں کیا گیا کہ وہ کیا کیا کہتے تھے۔
      واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
      ازقلم و طلب دعا: محمد عمران علی حیدری۔
      19.03.2023.
      چھبیس(26) شعبان المعظم 1444ھ
    • By Sunni Haideri
      یہ پندرویں رمضان کی ہوگی ایسی آواز ہوگی جو سوئے لوگوں کو جگادے گی اور کھڑوں کو بٹھا دے گی اور جس سال بہت سے زلزلے اور اولے ہوں گے اس جمعرات میں باپردہ عورتوں کو اپنے پردے سے نکال دے گی
      روایت کی تحقیق: 
      اسکو علامہ متقی ھندی نے کنزالعمال میں بےسند درج کیا ہے۔

      کنزالعمال: 39640
      عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا كان صيحة في رمضان فإنه يكون معمعة في شوال، وتمييز القبائل في ذي القعدة، وتسفك الدماء في ذي الحجة والمحرم وما المحرم - يقولها ثلاث مرات - هيهات هيهات! يقتل الناس فيه هرجا هرجا، قلنا وما الصيحة يا رسول الله؟ قال: هدة في النصف من رمضان ليلة الجمعة فتكون هدة توقظ النائم وتقعد القائم وتخرج العواتق من خدورهن في ليلة جمعة في سنة كثيرة الزلازل والبرد، فإذا وافق شهر رمضان في تلك السنة ليلة الجمعة فإذا صليتم الفجر من يوم الجمعة في النصف من رمضان فادخلوا بيوتكم وأغلقوا أبوابكم وسدوا كواكم ودثروا أنفسكم وسدوا آذانكم، فإذا أحسستم بالصيحة فخروا لله سجدا وقولوا: سبحان القدوس، سبحان القدوس، ربنا القدوس، فإنه من فعل ذلك نجا ومن لم يفعل هلك." نعيم، ك".
      ابن مسعود ؓ سے روایت ہے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان میں ایک چیخ ہوگی تو شوال میں ایک ملی جلی آوازوں کا شور ہوگا ذیقعدہ میں قبیلوں میں غیز ہوگی ذوالحجہ میں خون بہائے جائیں گے اور محرم محرم کیا ہے تین بار فرمایا: افسوس صد افسوس! بہت زیادہ لوگ میں قتل ہوں گے ہم نے عرض کیا یارسول اللہ! چیخ کیا ہے فرمایا: یہ پندرویں رمضان کی ہوگی ایسی آواز ہوگی جو سوئے لوگوں کو جگادے گی اور کھڑوں کو بٹھا دے گی اور جس سال بہت سے زلزلے اور اولے ہوں گے اس جمعرات میں باپردہ عورتوں کو اپنے پردے سے نکال دے گی جب جمعرات اسی سال کا رمضان پڑے تو جب پندرویں رمضان جمعہ کے روز تم لوگ فجر کی نماز پڑھ لو تو ایسا کرنا کہ اپنے گھروں میں داخل ہوجانا دروازے بند کرلینا اپنے طاقچے بند کرلینا کمبل اوڑلینا اور اپنے کان بند کرلینا جب تمہیں چیخ کے آثار محسوس ہونے لگیں تو اللہ کے حضور سجدہ میں گرپڑنا اور کہنا: سبحان القدوس سبحان القدس ہمارے رب قدوس ہے اس واسطے جس نے ایسا کیا وہ نجات پاجائے گا جس نے ایسا نہ کیا وہ ہلاک ہوجائے گا۔
      (كتاب كنز العمال 14/ 528. الرقم:  39628.)
      طریق نمبر 01👇
      638: حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْحَارِثِ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَتْ صَيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهُ يَكُونُ مَعْمَعَةٌ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِيِ الْقَعْدَةِ، وَتُسْفَكُ الدِّمَاءُ فِي ذِيِ الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَمَا الْمُحَرَّمُ» ، يَقُولُهَا ثَلَاثًا، «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ، يُقْتَلُ النَّاسُ فِيهَا هَرْجًا هَرْجًا» قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الصَّيْحَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هَدَّةٌ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ لَيْلَةَ جُمُعَةٍ، فَتَكُونُ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ، وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ، وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهِنَّ، فِي لَيْلَةِ جُمُعَةٍ، فِي سَنَةٍ كَثِيرَةِ الزَّلَازِلِ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْفَجْرَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَادْخُلُوا بُيُوتَكُمْ، وَاغْلِقُوا أَبْوَابَكُمْ، وَسُدُّوا كُوَاكُمْ، وَدِثِّرُوا أَنْفُسَكُمْ، وَسُدُّوا آذَانَكُمْ، فَإِذَا حَسَسْتُمْ بِالصَّيْحَةِ فَخِرُّوا لِلَّهِ سُجَّدًا، وَقُولُوا: سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، رَبُّنَا الْقُدُّوسُ، فَإِنَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ نَجَا، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ هَلَكَ "
      (الفتن لنعيم بن حماد 1/ 228.الرقم: 638.)
      ✍️: ابْنِ لَهِيعَةَ: ضعیف فی نفسہ صدوق۔
      ✍️: عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ حُسَيْنٍ: مجھول۔
      ✍️: محَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ : ضعیف۔
      ✍️: الْحَارِثِ الْهَمْدَانِيِّ : متھم۔

      ✍️: وسند موضوع
      طریق نمبر 02.👇
      853: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ، ثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الضَّحَّاكِ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ صَوْتٌ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ فِي أَوَّلِهِ أَو فِي وَسَطِهِ أَو فِي آخِرِهِ؟ قَالَ: «لَا، بَلْ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ، إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ يَكُونُ صَوْتٌ مِنَ السَّمَاءِ يُصْعَقُ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا، وَيُخْرَسُ سَبْعُونَ أَلْفًا، وَيُعْمَى سَبْعُونَ أَلْفًا، وَيُصِمُّ سَبْعُونَ أَلْفًا» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ فَمَنِ السَّالِمُ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: «مَنْ لَزِمَ بَيْتَهُ، وَتَعَوَّذَ بِالسُّجُودِ، وَجَهَرَ بِالتَّكْبِيرِ لِلَّهِ، ثُمَّ يَتْبَعُهُ صَوْتٌ آخَرُ، وَالصَّوْتُ الْأَوَّلُ صَوْتُ جِبْرِيلَ، وَالثَّانِي صَوْتُ الشَّيْطَانِ، فَالصَّوْتُ فِي رَمَضَانَ، وَالمَعْمَعَةُ فِي شَوَّالٍ، وَتُمَيَّزُ الْقَبَائِلُ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَيَغَارُ عَلَى الْحُجَّاجِ فِي ذِي الْحِجَّةِ وَفِي الْمُحْرِمِ، وَمَا الْمُحْرَّمُ؟ أَوَّلُهُ بَلَاءٌ عَلَى أُمَّتِي، وَآخِرُهُ فَرَحٌ لِأُمَّتِي، الرَّاحِلَةُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بِقَتَبِهَا يَنْجُو عَلَيْهَا الْمُؤْمِنُ لَهُ مِنْ دَسْكَرَةٍ تَغُلُّ مِائَةَ أَلْفٍ»
      ( المعجم الكبير للطبراني 18/332.الرقم: 853.)
      (ترتيب الأمالي الخميسية للشجري 2/21.الرقم: 1444.)
      (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم 5/143.الرقم: 2682.)
      تینوں کی اسناد میں یہی راوی موجود ہے
      ✍️: عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الضَّحَّاكِ: متهم بالوضع والكذب.
      ✍️: وسند موضوع۔

      طریق نمبر 03👇👇👇
      8580: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُؤَمَّلِ بْنِ الْحَسَنِ، ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِيُّ، ثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَسْلَمَةَ بْنِ عُلَيٍّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «تَكُونُ هَدَّةٌ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ تُوقِظُ النَّائِمَ وَتُفْزِعُ الْيَقْظَانَ، ثُمَّ تَظْهَرُ عِصَابَةٌ فِي شَوَّالٍ، ثُمَّ مَعْمَعَةٌ فِي ذِي الْحِجَّةِ، ثُمَّ تُنْتَهَكُ الْمَحَارِمُ فِي الْمُحَرَّمِ، ثُمَّ يَكُونُ مَوْتٌ فِي صَفَرٍ، ثُمَّ تَتَنَازَعُ الْقَبَائِلُ فِي الرَّبِيعِ، ثُمَّ الْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ بَيْنَ جُمَادَى وَرَجَبٍ، ثُمَّ نَاقَةٌ مُقَتَّبَةٌ خَيْرٌ مِنْ دَسْكَرَةٍ تُقِلُّ مِائَةَ أَلْفٍ» قَدِ احْتَجَّ الشَّيْخَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِرُوَاةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ آخِرِهِمْ غَيْرَ مَسْلَمَةَ بْنِ عُلَيٍّ الْخُشَنِيِّ، وَهُوَ حَدِيثٌ غَرِيبُ الْمَتْنِ، وَمَسْلَمَةُ أَيْضًا مِمَّنْ لَا تَقُومُ الْحُجَّةُ بِهِ
      (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية 4 /563 .الرقم: 8580.)
      [التعليق - من تلخيص الذهبي]٨٥٨٠ - ذا موضوع
      (تاريخ أصبهان أخبار أصبهان 2/169.)
      دونوں کی اسناد میں مسلمہ موجود ہے۔
      ✍️: مَسْلَمَةَ بْنِ عُلَيٍّ: متروک
       الحدیث۔
      ✍️: ضعیف جدا
      طریق نمبر 4.👇👇👇
      518: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ الزَّاهِدُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ التَّغْلِبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْأَعْنَاقِيُّ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ⦗٩٧٠⦘، عَنْ عَبْدةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ صَوْتٌ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ أَوْ فِي وَسَطِهِ أَوْ فِي آخِرِهِ؟ قَالَ: «لَا، بَلْ فِي النِّصْفِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ لَيْلَةُ جُمُعَةٍ يَكُونُ صَوْتٌ مِنَ السَّمَاءِ يُصْعَقُ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا يَتِيهُ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيَعْمَى سَبْعُونَ أَلْفًا وَيُصَمُّ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيُخْرَسُ فِيهِ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيَنْفَتِقُ فِيهِ سَبْعُونَ أَلْفَ عَذْرَاءَ» قَالُوا: فَمَنِ السَّالِمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَنْ لَزِمَ بَيْتَهُ وَتَعَوَّذَ بِالسُّجُودِ وَجَهَرَ بِالتَّكْبِيرِ» قَالَ: «وَمَعَهُ صَوْتٌ آخَرُ فَالصُّوتُ ⦗٩٧١⦘ الْأَوَّلُ صَوْتُ جِبْرِيلَ، وَالصَّوْتُ الثَّانِي صَوْتُ الشَّيْطَانِ، فَالصُّوتُ فِي رَمَضَانَ، وَالْمَعْمَعَةُ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَيُغَارُ عَلَى الْحَاجِّ فِي ذِي الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَأَمَّا الْمُحَرَّمُ أَوَّلُهُ بَلَاءٌ وَآخِرُهُ فَرَجٌ عَلَى أُمَّتِي، رَاحِلَةٌ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ يَنْجُو عَلَيْهَا الْمُؤْمِنُ خَيْرٌ مِنْ دَسْكَرَةٍ تَغُلُّ مِائَةَ أَلْفٍ»
      (السنن الواردة في الفتن للداني 5/969.الرقم:518.)
      ✍️: نَصْرُ بْنُ مَرْزُوقٍ : مجھول الحال۔
      ✍️: خَالِدُ بْنُ سَلَّامٍ : مجھول الحال۔
      ✍️: يَحْيَى الدُّهْنِيِّ : مجھول الحالء۔
      ✍️:اسناد ضعیف جدا۔ والحدیث موضوع،
      طریق نمبر 05👇👇👇👇👇
      وَمِنْ حَدِيثِهِ: مَا حَدَّثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ سَعِيدِ بْنِ دَاوُدَ الْأَزْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْمَوْصِلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْسَةُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهَا، وَفِي شَوَّالٍ هَمْهَمَةٌ، وَفِي ذِي الْقَعْدَةِ تَمَيَّزُ الْقَبَائِلُ بَعْضُهَا إِلَي بَعْضٍ، وَفَى ذِي الْحِجَّةِ تُرَاقُ الدِّمَاءُ، وَفَى الْمُحْرِمِ أَمْرٌ عَظِيمٌ، وَهُوَ عِنْدَ انْقِطَاعِ مُلْكِ هَؤُلَاءِ» . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟ قَالَ: «الَّذِينَ يَلُونَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ» لَيْسَ لِهَذَا الْحَدِيثِ أَصْلٌ مِنْ حَدِيثِ ثِقَةٍ، وَلَا مِنْ وَجْهٍ يَثْبُتُ
      (الضعفاء الكبير للعقيلي 2/52. الرقم: 1012.)
      ✍️: عُبَيْسَةُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ الْهَمْدَانِيُّ  : متھم باالوضع۔
      ✍️: عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ قَيْسٍ : 
      قال امام ابن حجر العسقلاني صدوق له أوهام ومراسيل
      ✍️: وسند ،موضوع۔
      محدثین نے ان کی کچھ اسناد کو اور کچھ محدثین نے تفصیلی کلام اپنی موضوعات میں نقل کیا ہے۔۔
      1: (اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسیوطی  2/320.)
      2: ( الموضوعات لابن الجوزي 3/191.)
      3: (الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير الجوزقانی 2/109.)
      4: (تلخيص الموضوعات للذھبی 324ص۔الرقم:874وغیرہ)
      خلاصہ کلام: بیان کردہ روایت کی جتنی بھی اسناد ہیں ہمارے علم کے اندر ان میں سے ایک بھی بیان کرنے کے قابل نہیں لہذا دلائل کی بنیاد پر اسکو سیدی معصوم الکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف منسوب کرنا گویا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونا اور جہنم میں لے جانے والا فعل(کام) ہے
      واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
      ازقلم و وطالب: محمد عمران علی حیدری.
      26_03_2023.
      چار(04)رمضان المبارک 1444ھ
    • By Hasan Raza Hanfi
      دیوبندی عقیدہ امکان کذبِ باری تعالی کا رد ائمہ سلف کے قلم سے امتناعِ کذب باری تعالی کے دلائل آئمہ سلف سے 
      ازقلم:حسن رضا حنفی 
      دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کے اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے دیوبندیوں کے غوث اعظم مولوی رشید گنگوہی صاحب لکھتے ہیں
      الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو
      (تالیفاتِ رشیدیہ ص 98)
      اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے معاذاللہ 
      محترم قارئین دیوبندیوں کا باطل عقیدہ ملاحظہ کرنے کے بعد اب اس عقیدے کا رد آئمہ اہلسنّت سے ملاحظہ فرمائیں 
      تفسیر مدارک میں دیوبندیوں کے باطل عقیدے کا رد 
      صاحب تفسیر مدارک لکھتے ہیں 
      {ومن أصدق من الله حديثا} تمييز وهو استفهام بمعنى النفي أي لا أحد أصدق منه في إخباره ووعده ووعيده لاستحالة الكذب عليه لقبحه لكونه إخبارا عن الشئ بخلاف ما هو عليه
      یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص نہ خبر و وعدہ میں سچا ہے اور نہ ہی وعید میں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے 
      (تفسیر نسفی ص 334)
      علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں 
      فاذا جوز عليه الخلف فقد جوز الكذب على الله وهذا خطاء عظيم بل يقرب من ان يكون كفراً
      جب اللہ تعالی پر خلف جائز رکھا گیا تو اس پر کذب جائز رکھا گیا اور یہ عظیم خطا ہے بلکہ کفر کے قریب ہے 
      (تفسیر کبیر جلد 9۔10 صفحہ 226)
      امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے فرماتے ہیں 
      قال البيضاوي إنكار أن يكون أحد أكثر صدقا منه، فإنه لا يتطرق الكذب إلى خبره بوجه لأنه نقص، وهو على الله محال
      اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو کیوں نکہ اس کی خبر میں کذب  راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے 
      (حاشية العلوي على تفسير البيضاوي ص 169)
      علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
      لا يتطرق الكذب الى خبره بوجه لانه نقص وهو على الله محال
      کذب اللہ تعالیٰ کی خبر کی طرف راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے
      (تفسیر روح البیان صفحہ 296)
      محترم قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اہلسنّت کا اس پر اجماع ہے کہ امکانِ کذب باری تعالی اللہ تعالیٰ کے لیے نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے
      اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
    • By Hasan Raza Hanfi
      دیوبندی عقیدہ امکان کذبِ باری تعالی کا رد ائمہ سلف کے قلم سے امتناعِ کذب باری تعالی کے دلائل آئمہ سلف سے 
      ازقلم:حسن رضا حنفی 
      دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کے اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے دیوبندیوں کے غوث اعظم مولوی رشید گنگوہی صاحب لکھتے ہیں
      الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو
      (تالیفاتِ رشیدیہ ص 98)
      اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے معاذاللہ 
      محترم قارئین دیوبندیوں کا باطل عقیدہ ملاحظہ کرنے کے بعد اب اس عقیدے کا رد آئمہ اہلسنّت سے ملاحظہ فرمائیں 
      تفسیر مدارک میں دیوبندیوں کے باطل عقیدے کا رد 
      صاحب تفسیر مدارک لکھتے ہیں 
      {ومن أصدق من الله حديثا} تمييز وهو استفهام بمعنى النفي أي لا أحد أصدق منه في إخباره ووعده ووعيده لاستحالة الكذب عليه لقبحه لكونه إخبارا عن الشئ بخلاف ما هو عليه
      یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص نہ خبر و وعدہ میں سچا ہے اور نہ ہی وعید میں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے 
      (تفسیر نسفی ص 334)
      علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں 
      فاذا جوز عليه الخلف فقد جوز الكذب على الله وهذا خطاء عظيم بل يقرب من ان يكون كفراً
      جب اللہ تعالی پر خلف جائز رکھا گیا تو اس پر کذب جائز رکھا گیا اور یہ عظیم خطا ہے بلکہ کفر کے قریب ہے 
      (تفسیر کبیر جلد 9۔10 صفحہ 226)
      امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے فرماتے ہیں 
      قال البيضاوي إنكار أن يكون أحد أكثر صدقا منه، فإنه لا يتطرق الكذب إلى خبره بوجه لأنه نقص، وهو على الله محال
      اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو کیوں نکہ اس کی خبر میں کذب  راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے 
      (حاشية العلوي على تفسير البيضاوي ص 169)
      علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
      لا يتطرق الكذب الى خبره بوجه لانه نقص وهو على الله محال
      کذب اللہ تعالیٰ کی خبر کی طرف راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے
      (تفسیر روح البیان صفحہ 296)
      محترم قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اہلسنّت کا اس پر اجماع ہے کہ امکانِ کذب باری تعالی اللہ تعالیٰ کے لیے نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے
      اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین





×
×
  • Create New...