Jump to content

Sybarite

مدیر
  • کل پوسٹس

    628
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    46

سب کچھ Sybarite نے پوسٹ کیا

  1. اگر آپ کا جواب تحذیرالناس کی یہی خودساختہ تشریح ہے تو یہ بتادیں کہ اس تشریح کے اثبات میں بھی کوئی دلیل ہے آپ کے پاس؟ اس قسم کی ذاتی اور غیراسلامی تشریح قرآن و حدیث میں وارد ہے؟ کیا قرونِ ثلثہ سے اس قسم کی تشریح کا اثبات پیش کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر دیوبندی اصولوں کے تحت یہ تشریح کل بدعۃ ضلالۃ کے ضمرے میں کیوں نہیں آتی؟ جس معنی کو نانوتوی عوام کا خیال بتلا رہے ہیں اس پر اجماعِ صحابہ، اجماعِ علما و امت ہے۔ تو پھر کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نانوتوی کے اس مردود قول کے اثبات میں سوائے دیوبندیوں کے اور کسی کا قول موجود نہیں؟ اگر ہے تو پیش کریں۔
  2. آپ کو الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ کا اسکین نظر نہیں آیا یا دیکھنے کی زحمت ہی نہ کی؟ ہم نے تو پھر یہ حدیث ایک نہیں چار کتب سے دکھا دی۔ اور نے جواباً پیش کی بھی تو اپنی دیوبندی کتاب مطالعہ بریویلویت۔ اور لطیفہ دیکھئیے کہ اس مطالعہ بریلویت میں بھی حافظ ذہبی کی عربی عبارت پیش کرنے بعد ترجمہ اس عربی عبارت کا نہیں۔ خود ہی آنکھیں کھول کر پڑھیں جو ادھوری عربی عبارت پیش کی گئی ہے وہ تو زیرِ بحث حدیث کے متن کا حصہ ہے نا کہ حافظ ذہبی کی وہ تحریر جس کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ویسے آپ نے خود اپنے لئے مزید رسوائی کا سامان مہیا کردیا ہے۔ دیوبندی حضرات ذرا جلدی سے مطالعہ بریلویت کی اس عبارت کا ثبوت پیش کریں۔ نہ حضور اس طرح پریوں کو اپنے پاس آنے دیتے تھے۔
  3. پوسٹ نمبر 69 میں اس سوال کا جواب کہاں ہے؟ ذرا ہائیلائٹ کرکے بتلا دیں یہاں میں نے یہ بات نہیں چھیڑی کہ قاسم نانوتوی آپ کو آخری نبی مانتا ھے یا نہیں؟ میں نے لکھا ھے کہ نانوتوی نے لفظ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی کرنے والوں کو عوام قرار دے کر اور اھل فہم نہ مان کر رسول اللہ اور یہ کفر ہے۔
  4. دیوبندی دل کی آنکھوں سے تو اندھے تھے ہی لگتا ہے اب سر کی آنکھوں سے بھی اندھے ہوچکے ہیں۔ آپ کو وارننگ دی گئی تھی حسام الحرمین کی وجہ تصنیف پر الزام لگانے کی بابت۔ پچھلی پوسٹ میں آپکا وہ الزام بھی نقل کیا تھا۔ دوبارہ آپکے الفاظ پیش کئے دیتا ہوں شاید اس بار آپ پڑھ لیں۔ Un ki is taujeeh se baat saaf hogayi lekin raza khan ko ehle sunnat ke 2 tukre karne ke liye angrezon se hukum mila tha aur unhon ne apni agent ki job bharpoor ada ki آپ کا یہ الزام کفریہ عبارات سے متعلق نہیں بلکہ وجہ تصنیفِ حسام الحرمین سے متعلق ہے۔ آپ میں واقعی اگر دم خم ہے تو علیحدہ ٹاپک بنا لیجیئے اس موضوع پر۔ موضوع سے بھاگنے کی کوشش تو آپ کررہے ہیں جناب۔ قارئین سب کچھ پڑھ رہیں۔ آپ کی طرح دل اور آنکھ سے اندھا ہر کوئی نہیں جو آپ کا جوابات سے فرار دیکھ نہ پائے۔ سعیدی صاحب نے تو پھر کافی ڈھیل دی ہوئی ہے آپ کو ورنہ تو آپ اس موضوع میں سعیدی صاحب کے پوچھے گئے پہلے ہی سوال کا ابھی تک جواب نہیں دے پائے۔ آئیے آپ کی یاداشت کو تازہ کردوں۔ یہاں میں نے یہ بات نہیں چھیڑی کہ قاسم نانوتوی آپ کو آخری نبی مانتا ھے یا نہیں؟ میں نے لکھا ھے کہ نانوتوی نے لفظ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی کرنے والوں کو عوام قرار دے کر اور اھل فہم نہ مان کر رسول اللہ اورصحابہ کرام کی گستاخی کی ھے اور یہ کفر ھے۔ آپ میں اگر رتی برابر بھی شرم وحیا باقی ہے تو صرف یہ بتادیں کہ سعیدی صاحب کے اس سوال کا جواب آپ اب تک کیوں نہیں دے پائے؟ خود کو طرم خاں سمجھنے سے پہلے ذرا اس فورم کو سرچ کریں آپ جیسے بلکہ آپ سے کافی تونگر دیوبندی بھی یہاں سے دم دبا کر بھاگ چکے ہیں۔ ہمیں چالیں چلنا ہوتی تو آپ کو بین کرنے میں مشکل سے کچھ سیکنڈ لگتے۔ آپ کے یہاں کھل کر اپنی بکواس پر مبنی بلاثبوت الزامات لگانے پر بھی آپ کو بین نہیں کیا جارہا۔ صرف موضوع سے ہٹنے پر تنبیہہ کی جارہی ہے۔ پہلے آپنے اعلیٰحضرت رضی اللہ عنہ پر انگریزنوازی کا الزام لگایا، جو کہ فضلائے دیوبند کی کفریہ عبارات سے متعلق نہیں۔ پھر آپ نے حدائقِ بخشش پر فضلائے دیوبند کا ایک پرانا گھسا پٹا اعتراض پیش کردیا جس کا کفریہ عبارات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ لہذا تنبیہہ کے جواب تیار کرنے پر محنت نہ کیجیئے بلکہ جو سوالات آپ پر قرض ہیں ان کے جوابات تحریر فرما کر گفتگو کو مثبت انداز میں جاری رکھنے کی کوشش کریں تاکہ قارئین کو بھی مسئلہ سمجھ آسکے۔ حدائقِ بخشش پر کئے گئے آپ کے اعتراض کو متعقلہ ٹاپک میں منتقل کردیا گیا ہے۔ اس موضوع پر مزید بات وہیں کیجئیے گا۔ http://www.islamimehfil.com/topic/11397-حداءق-بخشش-حصہ-سوم-اعتراض؛-مفتی-نجیب-اللہ-و-چیلوں/
  5. آپ یہاں نانوتوی کی تحذیرالناس کی ایک خاص عبارت کا دفاع کررہے ہیں۔ پہلے اسے مکمل کرلیجیئے پھر حسام الحرمین کی وجہ تصنیف پر بھی بات کرلیجیئے گا۔ یا پھر اگر زیادہ ہی دیوبندیت طاری ہے تو حسام الحرمین پر علیحدہ ٹاپک بنا کر وہاں اعتراض کریں، ان شاٗ اللہ وہیں جواب بھی دے دیا جائے گا۔ مظہر صاحب سارے قارئین پڑھ رہیں ہیں یہ ٹاپک۔ سبھی پر واضح ہے کہ آپ جواب سے بھاگنے کی خاطر کئی کئی پوسٹ کر رہے ہیں لیکن 15 لائنوں کے جوابات تحریر کرنے میں جان جارہی ہے آپ کی۔ کچھ تو اپنی دیوبندیت کی لاج رکھ لیں۔ آگے کیا دیکھیں جناب۔ آپ کی کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوچکی۔ خود اپنے مکتب کی کتب کا مطالعہ تو کرلیں پھر بنیئے گا مناظر۔ ابھی تو آپ کی یہ حالت ہے کہ اپنے ہی دیوبندی عالم کے لکھے اصول کو دیکھ کر ادھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔ ویسے آپ پہلے نہیں، آپ سے پہلے بہت آئے اور بہت گئے اسی طرح رسوا ہو کر۔
  6. لسان المیزان: جلد سادس 351 : أحمد بن علي بن حجر: شهاب الدين العسقلاني الشافعي منفر بن الحكم كذا وقع في موضوعات بن الجوزي ولا يدري من ذا ولعله وضع هذا قال حدثنا بن لهيعة عن أبيه عن بن الزبير عن جابر رضى الله تعالى عنه قال كانت جنية تأتي النبي صلى الله عليه وآله وسلم في نساء منهن فابطأت عليه فاتت فقال ما بطأ بك قالت مات لنا ميت بالهند فذهبت فرأيت في طريقي إبليس يصلى على صخرة فقلت ما حملك على ان اضللت آدم قال دعى هذا عنك رأيت أنت قال اني لأرجو من ربي إذا أبر قسمه ان يغفر لي فما ضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحكة يومئذ قال بن عدي حدثنا عبد المؤمن بن أحمد ثنا منفر فذكره انتهى وقد وقع ذكره في تاريخ حمزة السهمي وأورد الحديث عن أبي أحمد بن عدي قال عبد المؤمن بن حوثرة قال حدثني أبو رجا منفر بن الحكم بن إبراهيم بن سعد بن مالك بن مرة بن قيس بن عاصم المنقري قال ثنا بن لهيعة بن عبيد الله بن لهيعة عن أبيه عن بن الزبير بطوله کوئی بھائی اگر اس کا ترجمہ کردے تو بہت مہربانی ہوگی۔
  7. اس حوالےکا حدیث ہونا آپ کا دعویٰ ہے ہمارا نہیں۔ جو حوالہ آپ دے رہے ہیں اس میں کہیں بھی اس واقعہ کو حدیث قرار نہیں دیا گیا۔ لیکن آپ نے دعویٰ کیا کہ یہ حدیث ہے لہذا پہلے آپ یہ تو ثابت کریں کہ ہم نے اس حدیث قرار دیا پھر ہم سے حدیث کا حوالہ طلب کریں۔ ویسے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ دیوبندیوں کو سیدھے طریقے سے کوئی بھی بات سمجھائی جائے ان کی سمجھ نہیں آتی۔ اس لئے یہ مثال پیش کررہا ہوں امید ہے کہ اس کے بعد آپ کو بات سمجھ آجائے گی۔ آپ جلدی سے اپنے دوسرے باپ کا نام بتائیے؟ عمومی طور پر لوگوں کا ایک ہی باپ ہوتا ہے اور شاید آپ کے بھی ایک ہی ابا ہوں۔ اس قسم کا سوال سن کر آپ یقیناً کہیں گے کہ یہ کیا بدتمیزی ہے، میں نے کب کہا کہ میرے دو باپ ہیں۔ تو جناب بلکل اسی طرح اس ملفوظ میں بھی اس واقعہ کو حدیث کہاں قرار دیا گیا ہے جو آپ ہم سے حدیث کا حوالہ مانگتے ہیں۔
  8. جناب مظہر صاحب آپ کو وارننگ حسام الحرمین کے حوالے پر نہیں بلکہ ایک گھٹیا اور بلاثبوت الزام کی بابت کی گئی تھی۔ آپ کا وہ الزام یہ تھا۔ Un ki is taujeeh se baat saaf hogayi lekin raza khan ko ehle sunnat ke 2 tukre karne ke liye angrezon se hukum mila tha aur unhon ne apni agent ki job bharpoor ada ki امید کرتا ہوں کہ آگے سے آپ اس گھٹیا پن کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ سعیدی صاحب نے مرزائیوں کے موضوع کو تو ابھی چھیڑا ہی نہیں جبکہ مرزائی بھی تحذیرالناس کی عبارت کو ہی بنیاد بنا کر آگے بڑھے تھے۔ انہوں نے آپ ہی کے دیوبندی عالم کا ایک اصول پیش کیا۔ وہ اصول صرف مرزائیوں تک محدود نہیں بلکہ کسی بھی کفر بکنے والے کے لئے ہے کہ کفر بکنے کے بعد بغیر اس کفرسے توبہ کے اس کے بعد کا قول قابلِ قبول نہیں۔ اب یہ کفر مرزائی بکے یا کوئی اور۔ یا پھر آپ یہاں کسی بھی مستند دیوبندی عالم کا فتوٰی پیش کردیں کہ دیوبندیوں کے یہاں فتویٰ کفر دینے کے اصول مرزائیوں کے لئے اور ہیں اور باقیوں کے لئے اور۔ آپ کی وہ ایک لائن جواب نہیں بلکہ جواب سے فرار کی ناکام کوشش ہے۔ اگر آپ واقعی سچے ہیں تو پھر نمبروار طریقے سے ایک ایک کرکے جس طرح سوال کئے گئے ہیں اسی طرح ایک ایک کرکے بھلے ایک ہی لائن کا جواب دے دیجیئے۔ اس میں آخر کون سی ایسی آفت آن پڑی ہے کہ ۱۵ سوالوں کے ایک ایک لائن کے ۱۵ جواب دینے میں آپ کی جان جارہی ہے۔ سعیدی صاحب نے اس ضمن میں خود نانوتوی کی ہی کتاب کا حوالہ آپ کو پیش کردیا جس میں خود نانوتوی کو اقرار ہے کہ تکفیر کی گئی۔ اب چونکہ حوالہ خود دیوبندی کتب کا ہے لہذا سوال ہم سے نہیں دیوبندی علما سے کریں کہ یہ کون سے علما تھے جن کا تذکرہ نانوتوی نے اپنی کتاب میں کیا۔ اول تو اس غلط فہمی کو دور کردیں کہ آپ مناظرہ کررہے ہیں یا مناظر کہلانے کے اہل بھی ہیں۔ اگر خود کو واقعی مناظر سمجھتے ہیں تو ذرا اصولِ مناظرہ ہی لکھ دیجیئے۔ یہاں آپ دونوں حضرات مباحثہ کررہے ہیں۔ بہانے اگر بنانے ہوتے یا آپ کو بین کرنا ہوتا تو وہ تو ہم بغیر وارننگ دیئے کردیتے اور آپ کو یہاں اس طرح رونے کا موقع بھی نہیں مل پاتا۔ ہم صرف آپ کو منتبہ کررہے ہیں کہ مباحثہ کو غیرمتعلقہ موضوعات سے الجھانے کی بجائے اصل موضوع تک محدود رہ کر گفتگو کریں۔
  9. تھریڈ ان شاٗ اللہ بند نہیں کیا جائے گا۔ لیکن فریقین اگر اصل طے شدہ موضوع سے ہٹنے کی کوشش کریں گے تو انہیں منتبہ کرکے قوائدوضوابط پر پابند کیا جائے گا تاکہ یہ تھریڈ بحث برائے بحث کی نظر نہ ہوجائے۔ غیر ضروری پوسٹ فی الحال ہٹا دی گئی ہیں۔ امید ہے کہ مظہر صاحب باقاعدگی سے جواب عنایت فرمائیں گے۔
  10. جناب مظہر صاحب، جب ایک موضوع دونوں فریقین کا طےشدہ ہے تو دیگر الزامات یا اعتراضات کو اس ٹاپک سے علیحدہ رکھیں۔ آپ نے اپنی آخری پوسٹ میں جو انگریز نوازی و پاک وہند کے علما کے فتاوی کے متعلق جو بھی الزامات لگائے اول تو ان کے جوابات پہلے سے فورم پر موجود ہیں، دوئم یہ کہ طے شدہ موضوع سے متعلق بھی نہیں۔ لہذا ان سے پرہیز کریں۔ بصورتِ دیگر آپ کی آئندہ پوسٹنگز سے کوئی بھی غیرمتعلقہ الزام یا اعتراض بغیر کسی وارننگ کے حذف کردیے جائیں گے۔ نانوتوی کی تحذیرالناس کے متعلق آپ کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے مناظرہ عجیبیہ میں اپنے موقف کی توجیح پیش کردی لہذا ان پر کفر ثابت نہیں۔ اس کے جواب میں سعیدی صاحب نے آپ دیوبندیوں کے ہی مسلم عالم دربھنگی کے حوالے سے اس ضمن میں ایک اصول پیش کردیا۔ اب اپنے ہی عالم کے اس اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے تحذیرالناس کے کفر کا رد پیش کریں۔ ورنہ آپ جیسے غیرمستند دیوبندی کے اصول پر دربھنگی کے اصول کو فوقیت حاصل ہے اور اسے ہی مانا جائےگا۔ سعیدی صاحب کے 15 سوالات جنہیں آپ ایک ہی طرح کا قرار دے رہے ہیں برائےکرم ان کا جواب دیں۔ چاہے ایک ہی طرح دیں، لیکن نمبروار طریقے سے دیں تاکہ دیگر حضرات بھی آپ کا جواب پڑھ کر آپ کا موقف سمجھ سکیں۔ اب اگر آپ نے اگلی پوسٹ میں پھر ان سوالات سے منہ چھپانے کی کوشش کی تو افسوس کے ساتھ اس بحث کو یہیں ختم کردیا جائے گا۔
  11. سیّد محمد علی بھائی نے کافی عمدہ موضوع چھیڑا ہے۔ ویسے تو تمام نکات ہی کام کے ہیں لیکن ان سب کے ساتھ اپنا مطالعہ وسیع کرنے کی کوشش بھی کریں۔ اب تو الحمداللہ اہلسنت کی کافی کتب باآسانی دستیاب ہیں اور کم وبیش وہابی دیوبندیوں کے تمام تر اعتراضات کا جواب علمائے اہلسنت کی کتب میں موجود ہے۔ اب میرا ذاتی بارہا آزمایا ہوا ٹوٹکا جو وہابی دیوبندیوں کے بخار کو اتارنے کے لئے اکسیر ہے۔ یہ ٹوٹکا ہر بدزبان وہابی دیوبندی کے لئے اکسیر ہے جنہیں اعتراض کرنے کا شوق تو بہت ہوتا ہے لیکن تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے بات کرنے میں ان کی جان جاتی ہے۔ سو جیسے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے اسی طرح دیوبندیوں وہابیوں کی یہ قسم ذلیل ہوئے بغیر خاموش نہیں ہوتی۔ دیوبندیوں کو اپنے علما کی گستاخیاں عین ایمان لگتی ہیں، اِن کے نزدیک وہ گستاخیاں ہیں ہی نہیں۔ لیکن وہی عبارت ذرا سی ردوبدل کے ساتھ اگر ان دیوبندیوں پر ذاتی طور پر فٹ کی جائیں تو وہ اسے گالی قرار دیتے ہیں۔ مثلاً تھانوی کی حفظ الایمان میں کی گئی بکواس کو لے لیجیئے۔ اب اس گستاخی کو دیو کے بند کردہ دماغ میں گھسانے کے لئے اس طرح کی مثال دیں۔ پھر یہ کہ دیوبندیوں پر اپنی ماں کا جنا ہونے کا قول کیا جائے تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس سے مراد کل مخلوق ہے یا بعض۔ اگر بعض مخلوق مراد ہے تو اس میں دیوبندیوں کی ہی کیا تخصیص ہے۔ ایسے تو کتّے، سور، گدھے سب اپنی ماں کے ہی جنے ہوتے ہیں۔ ابھی بھی سمجھ نہ آیا ہو تو ایک اور نمونہ فتاوی رشیدیہ سے پیش کئے دیتا ہوں۔ الحاصل امکانِ لواطت سے مراد دخولِ لواطت تحتِ قدرتِ علمائے دیوبند ہے یعنی علمائے دیوبند لواطت کرنے پر قادر ہیں اگرچہ وقوع اس کا نہ ہوا۔ ۔ نوٹ: صرف عبارت کو اصل سے قریب تر رکھنے کے لئے وقوع نہ ہونا لکھا ہے ورنہ تو دیوبندیوں کا نانوتوی بھی گنگوہی سے بچ نہ سکا تھا۔
  12. ساری باتیں ایک طرف لیکن یہ فرضی نام سے بیعت کرنے والی منطق واقعی مضحکہ خیز ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ امید کرتا ہوں کہ آپ شادی شدہ نہیں اور اگر ہیں تو یہ بتادیں کہ وقتِ نکاح کہیں قاضی صاحب کی سچائی معلوم کرنے کے لئے نکاح نامے پر بھی فرضی نام تو درج نہیں کروایا تھا؟ اور اگر قاضی صاحب کی ہیلو ہیلو ٹیسٹنگ کرنا یاد نہیں رہا تو آپ کے لئے تو بڑی پریشانی کی بات ہوگئی۔
  13. مظفر وارثی کے ڈاکٹرپادری کے متعلق انکشافات کو کچھ حضرات ان کی ذاتی رائے یا ذاتی عناد کہہ کر ردّ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں مظفروارثی کے انتقال پر خود ڈاکٹرپادری کے اس تعزیتی بیان کو پڑھ کر انہیں آخ تھو کرکے اسی میں ڈوب کر مرجانا چاہیئے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا معروف نعت گو شاعر مظفر وارثی کی وفات پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار
  14. نوائے وقت طاہرالقادری کے الفاظ سنگین توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں: آئینی ماہرین لاہور+ اسلام آباد (وقائع نگار+ نمائندہ نوائے وقت) آئینی ماہرین نے الیکشن کمشن کی تشکیل نو کے لئے دائر ڈاکٹر طاہرالقادری کی درخواست خارج کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئین و قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ہی کیس کا سامنا کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے عدالت میں ایسے الفاظ ادا کئے جو سنگین توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔ جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہ الدین احمد نے کہا کہ عدالت کے پاس ہر طرح کا سوال پوچھنے کا اختیار ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عدالت کے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے عدالت کے بارے میں نامناسب الفاظ ادا کرنے شروع کر دیے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے 2005ءمیں جو حلف اٹھایا وہ پی سی او کے تحت نہیں تھا۔ اس وقت آئین بحال ہو چکا تھا۔ انہوں نے دستور پاکستان کے مطابق ہی حلف اٹھایا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف توہین عدالت کا کیس بن سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے کے ڈوگر نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رٹ پر سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا جس کے اثرات آئندہ بھی مرتب ہوں گے۔ فاضل عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے ایک تو اس بات کا تعین کر دیا کہ منقسم وفاداری کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ دوسرا اس نکتے کا تعین کر دیا کہ عدالتوں میں ٹھیک نیت سے نہ آنے والا حق دعویٰ ثابت نہیں کر سکتا۔ عدالتی فیصلہ ہمیشہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے راستے میں حائل رہے گا۔ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے لئے وکلاءکو سامنے آنا چاہئے تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو درخواست دائر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ کسی بھی کیس میں موکل، وکیل اور ججز کو پرسنل نہیں ہونا چاہئے۔ نہ ہی عدالت میں کسی قسم کی بدتمیزی ہونی چاہئے۔ طاہرالقادری کی ایک ہی کیس میں چیخیں نکل گئیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ دوہری شہریت کے حامل شہریوں کی نیت پر شک نہیں لیکن درخواست کا خارج ہونا درست ہے۔ لوگ آئین کے آرٹیکل 184/3کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ عدالت میں طاہرالقادری کا رویہ جذباتی اور لڑائی والا تھا۔ ان کا انداز درست نہ تھا۔ انہوں نے بہت زیادہ توہین کی تاہم عدالت کو اہم سرکاری عہدیداروں کو بار بار طلب کر کے ان کی سبکی نہیں کرنی چاہئے۔ حلف لینے کے حوالے سے مشرف کی نسبت ملکہ الزبتھ بہتر ہے۔ عام آدمی کو طاہرالقادری سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایڈووکیٹ فیصل چودھری نے کہا کہ دوہری شہریت رکھنے والے کی جانب سے یہ درخواست بنتی ہی نہیں تھی۔ ایڈووکیٹ اکرام چودھری نے کہا کہ پلان کے تحت عدلیہ کا تمسخر اڑانے کے لئے چیف جسٹس کی حلف برداری کی تصاویر عدالت میں دکھائی گئیں۔ بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے احترام کے ساتھ انہیں سنا۔ طاہرالقادری کو بھی عدالت کا احترام رکھنا چاہئے تھا۔ وہ مخصوص ایجنڈا لے کر آئے جو پورا نہ ہو سکا۔ اکرام چودھری نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پریس کانفرنس ملک ریاض کی پریس کانفرنس سے مختلف نہیں تھی۔ دونوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔ طاہرالقادری کے خلاف دو ایف آئی آرز بھی رجسٹرڈ ہیں۔ 1996ءمیں تشکیل کر دہ کمیشن نے انہیں ذہنی مریض قرار دیا تھا۔ سابق چیف جسٹس سعیدالزمان صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 184-3کے تحت کوئی کیس سننے یا نہ سننے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔ اگر کسی کا کوئی حق مجروح ہوا ہو تو وہ ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ پرویز مشرف سے ججز کے حلف کو 17ویں ترمیم میں ریگولرائز کر دیا تھا۔ پارلیمنٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سابقہ اقدامات کی توثیق کر دے۔ آئینی ماہرین
  15. نکاح پڑھانے سے لے کر سیاست میں ھلچل مچانے تک ، ھر مولوی کا کچھ نہ کچھ "ھدیہ " بنتا ھے۔ یہ تو 'مستحق' کا کمال ھے کہ اپنا ھدیہ یورو میں طے کروائے ڈیزل کے پرمٹ پر یا حلوے کی پلیٹ پر حیرانی کس بات پر، یہ تو خوشی کی بات ھے اسی بہانے زرمبادلہ آ رھا ھےملک کی 'خدمت'ھو رھی ھے، ٹرانسپورٹر،کنٹینر، مریدین و حاضرین کا روزانہ الاونس، دھرنے کے بعد کچرہ چننے والوں کی چاندی، ھوٹل بزنس اور میڈیا پر وقت خریدنے کا معاوضہ۔ بہت اہم کردار ھے مولانا کا معاشی سرگرمیوں میں۔ ناشکرے ھیں سب۔ یہ سب کچھ مولانا کینیڈا کے آئینی اداروں کے لئے کرتے تو وہ انھیں 'سر' (سر سے مراد سر ھی ھے) پہ بٹھا کر رکھتے۔ ایک دوسرے فورم سے اقتباس
  16. نوائے وقت آپ نے ملکہ الزبتھ سے وفاداری کا حلف لیا‘ طاہر القادری صاحب آپکی درخواست سننی بھی چاہیئے یا نہیں : چیف جسٹس اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + دی نیش رپورٹ + ایجنسیاں) الیکش کمشن کی تشکیل کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ڈاکٹر طاہر القادری کو کینیڈین شہریت کی دستاویزات پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر طاہر القادری کو حق دعویٰ سے متعلق نکتہ پر مفصل جواب داخل کرنے کی ہدایت بھی کی۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ ملکہ الزبتھ کا حلف اٹھاتے ہیں تو پھر اپنے ملک کی شہریت رکھنے کی اجازت بھی ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے آپ کی درخواست سننی بھی چاہئے یا نہیں، آپ مزید کاغذات داخل کریں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو ڈاکٹر طاہر القادری نے خود دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میں یہ میری پہلی حاضری ہے، اجازت چاہتا ہوں کہ کیس سے پہلے اپنے تاثرات سے آگاہ کروں، میں نے عدلیہ کی بحالی میں حصہ لیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے انہیں جذباتی تقریر سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے کیس کی بات کریں پہلے عدالت کو مطمئن کریں کہ پٹیشن دائر کرنے کے لئے آپ کے پاس کیا قانونی جواز ہے؟ آپ کے حق دعویٰ کی کیا بنیاد ہے، کس بنیاد پر کینیڈین شہریت لی، کیا جان کو خطرہ تھا؟ کیا کینیڈا کا شہری پاکستان کی شہریت بھی رکھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ میں پاکستان اور کینیڈا کا شہری ہوں، امیگریشن کی اصل دستاویزات جمع کرا دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک چیز واضح ہے کہ آپ ایک عرصے سے کینیڈا کے شہری ہیں، آرٹیکل 63(1)© کے تحت آپ کے پارلیمنٹ جانے پر بھی پابندی ہے۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر طاہر القادری سے سوال کیا کہ کیا آپ کینیڈا کی شہریت کے لئے اٹھایا گیا وفاداری کا حلف پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ اس پر طاہر القادری نے جواب دیا کہ میرے پاس حلف کی کاپی نہیں یہ سوال ہی نہیں بنتا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سوال وہ ہے جو ہم پوچھیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وفاداری کا حلف اٹھائے بغیر دوسرے ملک کے شہری نہیں بن سکتے اگر میں بطور چیف جسٹس کسی اور ملک کا حلف اٹھا لوں تو چیف جسٹس نہ رہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل بتائیں دوہری شہریت والے کو درخواست دینے کا قانونی جواز بنتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ آرٹیکل (3)184 کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والے کو درخواست دینے پر پابندی نہیں، عدالت کو قوانین کا نوٹس لینا چاہئے، آپ نے عوامی مقدمات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے، طاہر القادری کی درخواست پر اعتراض مشکل ہے۔ چیف جسٹس نے عدالت میں کینیڈا کی شہریت کا حلف نامہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ آج اس کیس کو سب سے پہلے سنیں گے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ ہمارا شہری جو دوسرے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھائے کیسے پٹیشن دائر کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیلئے وقت مانگتے ہوئے کہا مجھے دو منٹ دیدیں۔ چیف جسٹس نے جواب دیا آپ پہلے اپنا جامع جواب داخل کریں۔ طاہر القادری نے پھر کہا صرف دو منٹ، چیف جسٹس نے جواب دیا ”مسٹر قادری، بہت شکریہ، کل سنیں گے“۔ ثناءنیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے طاہر القادری سے غیر ملکی شہریت کے بارے میں جواب طلب کیا ہے اور تحریری جواب ملنے پر ہی آج مقدمے کی سماعت آگے بڑھے گی، کیس کی سماعت آج پھر ہو گی۔ بی بی سی کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری نے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”مائی لارڈ میرا سوال ہے“ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سوال آپ نہیں عدالت آپ سے کرے گی اور عدالت کو مطمئن کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ طاہر القادری نے عدالت سے دو منٹ میں اپنی بات مکمل کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ تحریری شکل میں اپنا جواب دیں۔ دی نیشن کے مطابق چیف جسٹس نے طاہر القادری سے کہا کہ دولت مشترکہ کے کسی ملک کی شہریت لینے کے بعد آپ نے ملکہ برطانیہ سے وفاداری اور وابستگی ظاہر کی، کسی دوسرے ملک سے وفاداری اور وابستگی رکھنے والا پاکستان سے وفادار کیسے ہو سکتا ہے۔ کینیڈین حلف کے مطابق ”آج کے روز میں کینیڈا اور اس کی دوسری ملکہ الزبتھ وفاداری اور وابستگی کا حلف اٹھاتا ہوں۔ میں وعدہ کرتا ہوں اپنے ملک کے حقوق اور اس کی آزادی اس کے جمہوری اقدار کی پاسداری کروں گا اور بطور کینیڈین شہری اپنی ذمہ داریاں پوری کروں گا“۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے طاہر القادری سے استفسار کیا کہ کیا دوہری شہریت والے کی پاکستان سے وفاداری بنتی ہے؟ دوہری شہریت کے حوالے سے جواب دیں۔ آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے طاہر قادری سے تحریری جواب طلب کیا ہے کہ دوسرے ملک کی شہریت رکھتے ہوئے کیا آپ کو پاکستانی عدالتوں میں درخواست دینے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ پا کستانی قانون کینیڈین شہریت رکھنے کی اگر اجازت دیتا ہے تو اس حوالے سے نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا پیش ہونے کا ”لوکس سٹینڈ آئی“ کیا ہے ایک ایسے شخص کے طور پر آپ جانے جاتے ہیں جس کا مذہبی جماعت سے تعلق ہے اور آپ پاکستان یا باہر رہائش پذیر ہیں آپ الیکشن کمیشن کی تحلیل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے بتایا کہ میں پاکستان کا شہری ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کسی اور ملک کے شہری نہیں، طاہر القادری نے کہا کہ میں کینیڈا کا شہری بھی ہوں 2005ءمیں شہریت حاصل کی تھی اور پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تھا، میں ایک پاکستانی شہری اور ووٹر کے ناطے ریلیف مانگ رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے کس حیثیت سے کینیڈین شہریت حاصل کی تھی یہ عام حالت میں لی گئی تھی یا کسی دھمکی کی وجہ سے حاصل کی تھی، طاہر القادری نے بتایا کہ آئین کے مطابق انہوں نے 1999ءمیں شہریت مانگی تھی اور مذہبی سکالر اور منہاج القرآن کے سربراہ کی حیثیت سے حاصل کی تھی۔عدالت نے 1999ءمیں شہریت کے حوالے سے سماعت کے دوران بھیجے گئے اصل کاغذات بھی طلب کرلئے ہیں۔ ایک موقع پر جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ سیکشن 14(3) کے تحت آپ کی قومیت کی کیا اہمیت ہے؟ طاہر القادری نے کہا کہ سیکشن 14 عام ہے جبکہ 3 میں کچھ ا ور بتایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملکہ ابلزتھ کے ساتھ کا حلف اٹھاتے ہیں تو پھر اپنے ملک کی شہریت رکھنے کی اجازت ہے یا نہیں اس حوالے سے آپ کی درخواست سننی بھی چاہیے یا نہیں آپ مزید کاغذات داخل کریں جو ہمیں واضح کر سکیں کہ اس درخواست پر ان کے اثرات نہیں ہو سکتے۔ طاہر القادری نے کہا کہ قانون اجازت دیتا ہے کہ نوٹیفکیشن بھی گزٹ کا حصہ ہے۔ان ملکوں کی شہریت رکھنے پر پاکستان میں اس کے اثرات نہیں رکھتے اس وقت میرے پاس کینیڈا کے حوالے سے کاغذات نہیں ہیں جب بھی کسی بھی ملک کی شہریت حاصل کرتے ہیں تو اس کا حلف لینا پڑتا ہے کینیڈا بھی ان ملکوں میں شامل ہے جس میں حلف لینے سے پاکستانی قانون مخالفت نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے لوکس سٹینڈائی ضرور دیکھنا ہے ڈاکٹر صاحب خود بھی اعتراف کررہے ہیں کہ انہوں نے کینیڈا کا حلف لیا ہوا ہے اور شہریت بھی رکھتے ہیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ”کوارنٹو“ کا معاملہ ہے اس میں ”لوکس سٹینڈ آئی“ نہیں دیکھا جاتا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایک شخص نے دوسرے ملک کے تحفظ میں خود کودیا ہوا ہے اور وہ پاکستانی شہری بھی ہے کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا شخص عدالت میں عوامی معاملات کو لا سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں، آئین و قانون واضح ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 24 شہریت ایکٹ کہتا ہے کہ حلف لینا ضروری ہے جس میں کمی کی گئی ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں فلاں کا وفادار ہوں گا۔ کینیڈین قوانین کی پابندی کروں گا اس حلف کے بعد کیا کسی نوٹیفکیشن کے تحت عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں اور معاملے کا تعلق مفاد عامہ سے ہے۔ الیکشن کمشن کی تشکیل نو کی بات کر رہے ہیں اگر میں نے کسی اور ملک کی وفاداری کا حلف لیا ہوا ہو تو کیا میں موجودہ پارلیمنٹ جسے کروڑوں لوگوں نے منتخب کیا ہے اس کے خلاف کوئی بات کرسکتا ہوں، آپ ہماری تسلی کرادیں۔طاہر القادری نے کہا کہ آئین ووٹرز اور الیکشن لڑنے والے افراد کے درمیان فرق واضح کرتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری طور پر لکھ کر دیں،سٹیٹمنٹ دیں کہ آپ نے دونوں کا حلف اٹھایا ہوا ہے،نوٹیفکیشن بھی دیں۔چھ سال پہلے شہریت حاصل کی تھی کیا پاکستان کا شہری ہونے پر آپ دوسری شہریت رکھ سکتے ہیں، سیکشن (3)14 کے تحت آپ کے پاس اس کے حوالہ سے کوئی قانونی ثبوت ہے۔طاہر القادری نے کہا کہ آئین مجھے اس چیز کی اجازت دیتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اگر کینیڈا کی شہری ہوں گے تو پھر ان کے قوانین کے تحت آپ بات کریں گے، یہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ کیا آپ نے ملک کے نام کا حلف نہیں لیا ہوا اسی آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دوہری شہریت کا حامل شخص پاکستان پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا ایک شخص جو ممبر نہیں بن سکتا جو ممبر نہیں بن سکتا کیاوہ ملک کی شہریت اور اس کی عدالتوں میں درخواست دے سکتا ہے۔ اس پر طاہر القادری نے کہا کہ پارلیمنٹ کا ممبر بننا الگ موضوع ہے جبکہ دوہری شہریت ایک الگ موضوع ہے۔ مجھے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں لیکن ایک ووٹر ہونے کی حیثیت سے درخواست دائر کر سکتا ہوں ویسے بھی پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ برطانیہ اور کینیڈا کا جو شہری وہ پاکستانی شہریت بھی رکھ سکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ملک اور ان کے جانشینوں کا وفادار رہوں گا اور اگر کوئی دوسرا ملک ان کے ملک پر حملہ کرے تو اس کے لئے وہ ہتھیار بھی اٹھا سکتے ہیں تو پھر ایسے شخص کو پاکستان کے الیکشن کمشن پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس / طاہر القادری کیس
  17. نوائے وقت سپریم کورٹ نے طاہرالقادری کی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی درخواست خارج کردی، طاہرالقادری اپنا حق دعویٰ اورنیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے. عدالتی حکم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تین دن سماعت کے بعد طاہرالقادری کی پٹیشن خارج کردی،،، عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہرالقادری اپنا حق دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام رہے ،حقائق کی روشنی میں ان کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ دہری شہریت کے باعث طاہر القادری رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے نااہل ہیں،آئین کا آرٹیکل تریسٹھ ون طاہر القادری پر پابندی عائد کرتا ہے۔ تاہم وہ بطور ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہر القادری نے جوزبان استعمال کی اس پر توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن عدالت توہین عدالت کی کارروائی کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سماعت کے دوران جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے طاہرالقادری نے کہا کہ تین دن سے ان کا ٹرائل کیا جا رہا ہے، آپ نے وہ سوالات پوچھے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا، کیا آپ بیرون ملک شہریوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔ اس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو شخص یہاں آتا ہے اس سے سوالات تو پوچھنے پڑتے ہیں۔ چیف جسٹس نے طاہرالقادری کو ہدایت کی کہ عدالت کااحترام ملحوظ خاطررکھیں، آپ نے یہ سب کچھ کرنا ہے تو پریس میں کریں، آپ نے یہ حرکت کرکے عدالت کونیچادکھانے کی کوشش کی۔ طاہرالقادری نے کہا کہ ملکہ برطانیہ سے حلف لیناایسے ہی ہے جیسے پرویز مشرف سے حلف لینا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، آپ عدلیہ کی تضحیک کررہے ہیں،، آپ کیخلاف کارروائی کی جاسکتی ہے،،، طاہرالقادری پھربھی بازنہ آئے،،،کہنے لگے کہ آپ خود اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ اس پرچیف جسٹس نے طاہرالقادری کوواپس نشست پربٹھا دیا، جس کے بعد اٹارنی جنرل عرفان قادرنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ طاہر القادری کا حق دعویٰ بنتا ہے، عدالت نے ایک سو چوراسی تھری کے تحت درخواستیں سننے کا دائرہ خود وسیع کر دیا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے طاہر القادری سے بنیادی حقوق، نیک نیت اور قانونی جواز پوچھے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ بطوراٹارنی جنرل ان سوالات کے بارے میں کیا کہتے ہیں، درخواست گزاردوہزار پانچ سے دہری شہریت کی وجہ سے رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ان کی رائے کے مطابق اکتیس جولائی دوہزار نو کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، اس کیس میں نیک نیت کا تعین کرنے کے لیے بدنیتی ثابت کرنا ہوگی،چیف جسٹس نےریمارکس دیے کہ ایک جمہوری حکومت مدت پوری کررہی ہے، انتخابات ہونے والے ہیں، ایسی صورت حال میں ایک شخص آکر کہتا ہے کہ سب کچھ ختم کر دیں، کیا اسے نیک نیتی سمجھا جائے۔ درخواست گزار کی وفاداری کہیں اور ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل منیر پراچہ نے کہا کہ طاہرالقادری نے دو سال کے لیے الیکشن ملتوی کرانے کی بات کی۔۔۔ طاہرالقادری پھر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کہا،،،سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر طاہرالقادری کی تئیس دسمبر کی تقریر کی ویڈیو بھی پیش کی گئی۔
  18. اسلام آباد… سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو متعلق ڈاکٹر طاہر القادری کی درخواست خارج کردی ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 3 دن تک درخواست کی سماعت کی۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہرالقادری اپنا حق دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام رہے ،حقائق کی روشنی میں ان کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہر القادری نے جوزبان استعمال کی اس پر توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے، عدالت توہین عدالت کی کارروائی کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار بنیادی حقوق اور نیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے ، دہری شہریت کے باعث طاہر القادری رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے نااہل ہیں،آئین کا آرٹیکل 63 ون طاہر القادری پر پابندی عائد کرتا ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہر القادری بطور ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جوشخص یہاں آتا ہے اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ عدالت میں سماعت کے دوران طاہرالقادری کی جانب سے جارحانہ رویہ بھی دیکھنے میں آیا۔ طاہرالقادری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ طاہرالقادری نے سماعت کے دوران کہا کہ 3 دن سے میرا ہی ٹرائل کیا جا رہا ہے، آپ نے وہ سوالات پوچھے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا، کیا آپ بیرون ملک شہریوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو شخص یہاں آتا ہے اس سے سوالات تو پوچھنے پڑتے ہیں۔ چیف جسٹس نے طاہرالقادری کو ہدایت کی کہ عدالت کااحترام ملحوظ خاطر رکھیں، آپ نے یہ سب کچھ کرنا ہے تو پریس میں کریں، آپ نے یہ حرکت کر کے عدالت کونیچادکھانے کی کوشش کی، آپ عدالتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، آپ عدلیہ کی تضحیک کر رہے ہیں۔ طاہرالقادری نے کہا کہ آپ خود اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے طاہرالقادری کو واپس نشست پر بٹھا دیا، جس کے بعد اٹارنی جنرل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ طاہر القادری کا حق دعویٰ بنتا ہے، عدالت نے 184 تھری کے تحت درخواستیں سننے کا دائرہ خود وسیع کر دیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے طاہر القادری سے بنیادی حقوق، نیک نیت اور قانونی جواز پوچھے، چیف جسٹس اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ بطور اٹارنی جنرل ان سوالات کے بارے میں کیا کہتے ہیں، درخواست گزار2005 سے دہری شہریت کی وجہ سے رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری رائے کے مطابق 31 جولائی2009 کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، اس کیس میں نیک نیت کا تعین کرنے کے لیے بدنیتی ثابت کرنا ہوگی، جب تک بدنیتی کے شواہد نہ ہوں کسی کی نیک نیتی پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جمہوری حکومت مدت پوری کررہی ہے، انتخابات ہونے والے ہیں، ایسی صورت حال میں ایک شخص آکر کہتا ہے کہ سب کچھ ختم کر دیں، کیا اسے نیک نیتی سمجھا جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں بد نیتی بھی نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سسٹم کو چلنے نہ دینا نیک نیتی ہے یا بد نیتی۔
  19. آپ کو اعتراض جوتے کی نوک پر رکھے جانے پر ہے یا نا رکھے جانے پر؟ باقی رہا علمائے دین کی کسی رائے سے اختلاف کرنا وہ بھی کسی دلیل کی بنیاد پر تو وہ قطعاً بتمیزی نہیں اگر خودساختہ توجیہات پر ایسے جیّد علما کے اقوال کو ردّ کرنے کی یہی دلیل ہے اور یہ بدتمیزی بھی نہیں تو ہم نے تو پھر کہا کہ آپ کی رائے کو شخصیت پسندی کی بیماری قرار دیتے ہوئے جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے! چلئے اگر دلیل ہی تمیز اور بدتمیزی کا معیار ہے تو آپ کی رائے کے ردّ میں تو مظفروارثی کا بیان بھی دلیل ہی ہے کہ وہ ذاتی طور پر ڈاکٹرپادری سے آپ سے زیادہ قریب اور منہاج القرآن میں شامل بھی رہے۔ چلئیے اگر پھر بھی یہ بدتمیزی ہے تو یہ بتائیں کہ اپنے خلاف تنقید کرنے والوں کو کالے چہرے والے کہنا کہاں کی تمیز ہے؟ اس طرح میڈیا پر بہ بانگِ دہل بد تمیزی کرنے والے کو آپ خود تمیز سے صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔ آگے آپ کی ذاتیات پر بکواس کا جواب صرف اتنا ہے کہ اب تک جو آپ تمیز اور تہذیب کا درس دیتے نظر آرہے تھے اب یہ خود بھول چکے ہیں کہ ابھی تک آپ کی ذات پر میری طرف سے کوئی بات نہیں کی گئی۔
  20. پہلے ہی دو بار بتلا چکا کہ لفظ پادری پر حضور تاج الشریعہ کا جواب دوسرے ٹاپک میں موجود ہے۔ بار بار ایک ہی سوال دہرانے سے کیا فائدہ جناب۔ باقی ڈاکٹرپادری نے کس سیاق و سباق میں یہ بات کہی اس پر گفتگو ہوچکی فورم سرچ کرلیں افاقہ ہوگا۔
  21. یہ مقصد آپ کا نہیں ڈاکڑپادری کا ہے۔ جج لاہور ہائیکورٹ کا، ٹربیونل بھی لاہور ہائیکورٹ کا تشکیل کردہ لیکن پھر بھی یہی رونا رو رہے ہیں کہ کورٹ کا فیصلہ نہیں۔ کورٹ کا فیصلہ یک طرفہ نہیں بلکہ تحقیقاتی ٹربیونل کے تشکیل پاتے ہی ڈاکٹرپادری کو اپنے ڈرامے کا ڈراپ سین صاف نظر آنے لگا اس لئے فوراً عدالتی تحقیقات سے منہ چرا کر بھاگ لئے۔ ورنہ اس ٹربیونل میں ڈاکٹرپادری کے بیانات اور دیگر بیانات کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں ہی ہوئی تھی۔ آج اتنے سالوں بعد جب سوشل میڈیا کی بدولت ڈاکٹرپادری کا ڈرامہ عوام کے سامنے آیا تو بھی وسیم بادامی یاد آیا۔ عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی ہمت ڈاکٹرپادری میں آج بھی نہیں۔ اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ ڈاکٹرپادری کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ جہاں انہیں اپنی دال گلتی نظر نہیں آتی وہاں سے یہ فرار اختیار کرلیتے ہیں ورنہ جس طرح وسیم بادامی کے پروگرام میں اس فیصلہ کا ناکام جواب دینے کی کوشش کی اسی طرح حنیف قریشی کے مناظرے کی دعوت کا بھی جواب دے دیتے، یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ وہی ڈاکٹرپادری ہیں جو سیاستدانوں کو مناظرے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ یہ عدالتی معاملہ تھا جناب، ڈاکٹرپادری کا جلسہ نہیں جہاں وہ پھدک پھدک کر جذباتی بیان کرتے جائیں اور عوام بےچاری سر ہلا کر سب کچھ مانتی جائے۔ اسی لئے عدالت نے ڈاکٹرپادری کے دعووں کی تحقیقات کے لئے ٹربیونل بنایا اور یہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا ٹربیونل نہیں۔ تحقیقاتی ٹربیونل اکثر ہی کورٹ کے حکم پر تشکیل دیا جاتا ہے۔ سو اسے صرف ٹربیونل قرار دے کر یہ تاثر دینا کہ گویا لاہور ہائیکورٹ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں مصطفوی انقلاب اور لانگ مارچ کی نوعیت کا ایک ڈرامہ ہی ہے اور کچھ نہیں۔ باقی اس ٹربیونل کے اختیارات پر پچھلی پوسٹ پر بات کرچکا جس سے کنی کترا گئے۔ اس ٹربیونل کے فیصلے کو کس عدالت میں چیلنج کیا گیا اس کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ غالباً ۲۰۰۸ میں ایسا ہی ٹربیونل شریف برادران کی الیکشن میں اہلیت کے معاملے پر بھی بنایا گیا تھا جس کے فیصلے کو بعد میں سپریم کورٹ میں چلینج کیا گیا تھا۔ ہم مہاورۃً کچھ کہہ دیں تو بیہودگی کہلاتی ہے اور اپنے خلاف تنقید کو برداشت نہ کرتے ہوئے ڈاکٹرپادری چیخ چیخ کر فیسبک یوزرز کو کالے چہرے والے کہیں تو آپ جیسوں کے نزدیک شیخ الاسلام قرار پاتے ہیں۔ میرے نفس کی تو بات ہی کیا، میرا کون سا ڈاکٹرپادری سے ذاتی نوعیت کا اختلاف ہے جو میرا نفس مجھے اکسائے۔ چلئیے اگر اسے میری یاوہ گوئی بھی مان لیجئیے تو بھی نفس کی ڈگڈگی پر ناچنے والے آپ بھی قرار پائیں گے کہ میرے الفاظ کو ذاتی طور پر لے کر اب آپ خود بھی مدافعتی طور پر یاوہ گوئی پر اتر آئے ہیں۔ خیر یہ باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی پہلے آپ اس عدالتی فیصلے پر تو مکمل بات کرلیں۔
  22. محترم میرے پیراگراف کو غور سے پڑھ تو لیتے۔ یا پھر آپ کے نزدیک سیاسی اور مذہبی اتحاد میں کوئی فرق ہی نہیں؟ سیاسی اتحاد بھی جنہوں نے کیا انہیں اپنے ہی مسلک کے دیگر علما سے تنقید کا سامنا بہرحال کرنا ہی پڑا۔ آپ مذہبی اتحاد کو پوری طرح نظرانداز کرکے صرف سیاسی اتحاد پر بات کرکے چلتے بنے۔ اس کا راز کیا ہے؟ طبعیتاً تھوڑا جلالی واقع ہوا ہوں لیکن الحمدُاللہ اپنی غلطی اعتراف کرنے میں شرماتا نہیں۔ لیکن اس پوسٹ میں آپ کی ذاتی رائے کو جوتے کی نوک پر رکھنا کس طور پر بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے؟ آپ جن کی خود کوئی شناخت نہیں، کوئی مقام نہیں، ہر دوسرے مسئلہ پر اپنی ذاتی فہم کے سامنے علمائےدین کے قول کو ردّ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر وہ اپنی اوقات سے بڑھ کر جیّد علما کی تحقیق کو ردّ کرنا بدتمیزی کے زمرے میں نہیں آتا تو میرے جیسے عامی کا آپ جیسے عامی کی رائے کو ٹھکرانا کیونکر بدتمیزی کہلائے گا؟ حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی بات نہ کریں، وہ تو میدانِ کربلا میں گئے ہی راضی بہ رضا ہوکر تھے۔ حضورسرورِکونین ﷺ نے تو بہت پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہاں میرا لختِ جگر شہید کردیا جائے گا۔ لہذا اس وقت مذاکرات کی بات اتمامِ حجت کے لئے تھی کہ کل کو یزیدی یہ نہ کہتے پھریں کہ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ تو خود قتال کے ہی ارادے سے آئے تھے۔ جبکہ ڈاکٹرپادری کا لانگ مارچ تو تھا ہی شہرت حاصل کرنے کا ڈرامہ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کربلا گئے سب کچھ لٹانے کی تیاری کرکے۔ ڈاکٹرپادری گئے بلٹ پروف بم پروف، تمام سہولیاتِ زندگی سے پوری طرح آراستہ کنٹینر میں اور سڑک پر سخت سردی میں سڑنے کے لئے شیلڈ بنا کر لے گئے بےوقوف عوام کو۔ پھر مذاکرات کی دہائی تو صرف اس لئے تھی کہ خود پادری کو بھی اندازہ تھا کہ اب عوام کی بس ہو گئی ہے اس پہلے کہ سارا انقلاب اسلام آباد کے نالوں میں بہہ جائے نکلنے کی ترکیب کرو۔ پھدک پھدک کر وزیراعظم کے خلاف عدالتی فیصلہ کو اپنے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اعلان کردیا کہ آدھا کام ہو گیا ہے آدھا کل تک ہو جائے گا، شکرانے کے نفل پڑھ لئے گئے اور اگلے دن اسی وزیراعظم سے معاہدے پر دستخط کروا کے اسے ملک کیلئے تاریخی دستاویز قرار دے دیا جس کی نہ تو کوئی آئینی حیثیت ہے اور نہ قانونی۔
×
×
  • Create New...