Jump to content

محمد حسن عطاری

اراکین
  • کل پوسٹس

    855
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    25

سب کچھ محمد حسن عطاری نے پوسٹ کیا

  1. *🌴لوگوں میں صلح کےلئے جھوٹ کی گنجائش۔۔۔🌴* وَعَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خيرا وينمي خيرا». مُتَّفق عَلَيْهِ حضرت ام کلثوم ؓبیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : *لوگوں کے درمیان صلح کرانے والا شخص جھوٹا نہیں،وہ خیر و بھلائی کی بات کرتا ہےاور خیر و بھلائی کی بات ہی آگے پہنچاتا ہے ۔* (متفق علیہ۔المشکوٰۃ المصابیح 4825)
  2. #مسئلہ داڑھی کے بال اگر گھنے نہ ہوں تو جلد کا دھونا فرض ہے اور اگر گھنے ہوں تو گلے کی طرف دبانے سے جس قدر چہرے کے گرد ے میں آئیں انکا دھونا فرض ہے جڑوں کا دھونا فرض نہیں اور جو حلقے سے نیچے ہوں انکا دھونا ضروری نہیں اور اگر کچھ حصے میں گھنے ہوں اور کچھ چھدرے،تو جہاں گھنے ھوں وہاں بال اور جہاں کم ہیں وہاں جلد کا دھونا فرض ہے (بہارِ شریعت )
  3. Dajjal Kab Aayega _ Dajjal Ki Nishaniyan _ Dajjal Kahan Rehta hai - Qayamat Ki Nishaniyan Ep#13.mp4
  4. یہ ایک نیا فرقہ ہے جو ۱۲۰۹ھ؁ میں پیدا ہوا، اِس مذہب کا بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی تھا، جس نے تمام عرب، خصوصاً حرمین شریفین میں بہت شدید فتنے پھیلائے، علما کو قتل کیا، صحابۂ کرام و ائمہ و علما و شہدا کی قبریں کھود ڈالیں ، روضۂ انور کا نام معاذاﷲ ’’صنمِ اکبر‘‘ رکھا تھا یعنی بڑا بت، اور طرح طرح کے ظلم کیے جیسا کہ صحیح حدیث میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ’’ نجد سے فتنے اٹھیں گے اور شیطان کا گروہ نکلے گا‘ وہ گروہ بارہ سو برس بعدیہ ظاہر ہوا۔ علامہ شامی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اِسے خارجی بتایا۔ اِس عبدالوہاب کے بیٹے نے ایک کتاب لکھی جس کا نام کتاب التوحید‘‘ رکھا ، اُس کا ترجمہ ہندوستان میں ’’اسماعیل دہلوی‘‘ نے کیا، جس کا نام’’تقویۃ الایمان‘‘ رکھا اور ہندوستان میں اسی نے وہابیت پھیلائی :عقائد اِن وہابیہ کا ایک بہت بڑا عقیدہ یہ ہے کہ جو اِن کے مذہب پر نہ ہو، وہ کافر مشرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بات بات پر محض بلاوجہ مسلمانوں پر حکمِ شرک و کفرلگایا کرتے اور تمام دنیا کو مشرک بتاتے ہیں ۔ چنانچہ ’’تقویۃ الایمان‘‘ صفحہ ۴۵ میں وہ حدیث لکھ کر کہ ’’آخر زمانہ میں اﷲ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو ساری دنیا سے مسلمانوں کو اٹھا لے گی۔‘‘ (4) اِس کے بعد صاف لکھ دیا: ’’سو پیغمبرِ خدا کے فرمانے کے موافق ہوا‘‘(5)، یعنی وہ ہوا چل گئی اور کوئی مسلمان روئے زمین پر نہ رہا ، مگر یہ نہ سمجھا کہ اس صورت میں خود بھی تو کافر ہوگیا۔
  5. سر تابقدم ہے تن سُلطانِ زَمن پھول لب پھول دَہن پھول ذَقن پھول بدن پھول صدقے میں تِرے باغ تو کیا لائے ہیں ’’بن‘‘ پھول اِس غُنْچۂ دل کو بھی تو اِیما ہو کہ بن پھول تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتا تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہِ محن پھول وَاللہ جو مِل جائے مِرے گل کا پسینہ مانگے نہ کبھی عِطْر نہ پھر چاہے دُلہن پھول دِل بستہ و خُوں گشتہ نہ خوشبُو نہ لطافت کیوں غنچہ کہوں ہے مِرے آقا کا دَہن پھول شب یاد تھی کن دانتوں کی شبنم کہ دَمِ صبح شوخانِ بہاری کے جڑاؤ ہیں کرن پھول دندان و لب و زلف و رُخِ شہ کے فِدائی ہیں دُرِّ عدن ، لعلِ یمن ، مُشکِ ختن پھول دِل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخنِ پا کا اتنا بھی مہِ نو پہ نہ اے چرخ کُہن! پھول کیا غازہ مَلا گردِ مدینہ کا جو ہے آج نِکھرے ہوئے جو بن میں قیامت کی پھبن پھول گرمی یہ قیامت ہے کہ کانٹے ہیں زباں پر بلبل کو بھی اے سَاقیٔ صہبَا و لبن پھول ہے کون کہ گِریہ کرے یا فاتحہ کو آئے بیکس کے اُٹھائے تِری رحمت کے بھرن پھول دل غم تجھے گھیرے ہیں خدا تجھ کو وہ چمکائے سُورج تِرے خرمن کو بنے تیری کرن پھول کیا بات رضاؔ اُس چمنستانِ کرم کی زہرا ہے کلی جس میں حُسین اور حسن پھول
  6. بلاشبہ آپ طہارت مآب رضی اللہ عنھا کی قدسی صفات وہ ذات ہے کہ جنکا نام مبارک لینے, سننے اور لکھنےسے قبل زبان,قلم اور کانوں کا باوضو و سراپا ادب ہونا ضروری ہے, آپ کا تذکرہِ خیر جب بھی سنا, پڑھا یا لکھا جائے تو ازحد ضروری ہےکہ تعظیماً سر کے ساتھ ساتھ قلب و قلم بھی جھک جائے, آپ رضی اللہ عنھا کو قرآن و صاحب ﷺ نے بے حد و حساب ایسی عظمتوں سے نواز رکھا ہے جو آپ ہی کا حصہ ہیں, باعثِ نجات سمجھتے ہوئے ان میں سے چند ایک خصوصیات کا ذکر کیا جاتاہے, 1 آپ رضی اللہ عنھا کو "سیدة نساء اھل الجنة" اور "سیدة نساء المومنین" کی بشارت سے نوازا گیا, 2 آپ رضی اللہ عنھا بھوک سے محفوظ کر دی گئیں تھیں (یعنی آپ کو بھوک نہیں لگتی تھی) 3 آپ رضی اللہ عنھا حیض و نفاس جیسے عوارضِ بشری سے سے پاک تھیں, 4 نسبِ نبوی ﷺ آپ رضی اللہ عنھا سے ہی چلا ہے, 5 بوقتِ وصال آپ کو غسل مبارک آپ کے شوہر حضرت مولا رضی اللہ عنھما نے دیا تھا, 6 یہ بھی روائت ملتی ہے کہ آپ رضی اللہ عنھا کو کسی اور نے غسل نہیں دیا تھا, بلکہ وصال سے قبل آپ نے خود غسل کیا تھا, 7 بروزِ قیامت آپ رضی اللہ عنھا کی خاطر تمام اھلِ حشر کو آنکھیں بند کرنے اور سر جھکانے کا حکم دیا جائے گا, تاکہ آپ منفرد اہتمام کے سارتھ پلصراط سے گزر سکیں, 8 آپ کو شانِ "زہرا " سے نوازا گیا, 9 آپ رضی اللہ عنہا کی ہر آمد پہ نبی کریم ﷺ کھڑے جایا کرتے تھے, 10 آپ رضی اللہ عنھا کی ہر آمد پہ سرکار ﷺ آپکو اپنی جگہ پہ بٹھاتے تھے,, 11 سرکار ﷺ سفر پہ جاتے ہوئے سب سے آخر میں آپ رضی اللہ عنھا سے ملتے تھے, 12 آپ ﷺ سفر سے واپسی پہ سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنھا سے ملتے تھے,, 13 سرکار ﷺ ایک عرصے تک ہر روز آپ رضی اللہ عنھا کے دروازے پہ آیتِ تطھیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے, 14 آپ ﷺ ,آپ رضی اللہ عنھا کے دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْبَیْتِ فرمایا کرتے تھے, 15 آپ رضی اللہ عنھا اھلِ کساء میں سے ہیں, 16 آپ کے شوہرِ نامدار مولا علی رضی اللہ عنھما ہاشمی اور کثیر فضائل و مناقب کے مالک ہیں, 16 آپ رضی اللہ عنھا کے نکاح پہ مخصوص روحانی اہتمام کیا گیا, 17 آپ رضی اللہ عنھا کے نکاح پہ سب سے زیادہ جامع دعائیں مانگی گئیں, 18 نبی کریم ﷺ نے آپ کے بچوں کے نام بطور خاص بدل کر حسن و حسین رضی اللہ عنھم رکھے, 19 آپ رضی اللہ عنھا کے صاحبزادوں( حضرت امام حسن پاک اور حضرت امام حسین پاک رضی اللہ عنھما) کو انکے بچپن میں ہی جنتی جوانوں کا سردار قرار دیا گیا, 20 آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن رضی اللہ عنھما کو "سَیِّدٌ" کی شان خود سرکار ﷺ نے عطا کی ہے, 21 آپ کے چھوٹے صاحبزادے حضرت امام حسین سید الشھداء رضی اللہ عنھما کی خاطر آپ ﷺ نے اپنے لختِ جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو قربان کر دیا تھا, تنبیہ: یاد رہے وصالِ ابراہیم رضی اللہ عنہ کاسب سے بڑا سبب سرکار ﷺ کی ختم نبوت ہے, چونکہ احادیث کے اندر ہماری نقل کردہ وجہ بھی منقول ہوئی ہے اس لیے اسے حضرت بتول پاک رضی اللہ عنھا کی خصوصیات میں میں شمار کیا گیا ہے, 22 آپ کے صاحبزداے رضی اللہ عنھم قرآن کی طرح امت کے حق میں باعثِ ہدائت ہیں, 23 نبی کریم ﷺ نے آپ کے بچوں رضی اللہ عنھم کی خاطر خطبہ چھوڑ دیا تھا, 24 آپ رضی اللہ عنھا کے گھر میں جبرئیل جیسا سید الملائکہ فرشتہ بھی بغیر اجازت کے نہیں آتا تھا, 25 آپ رضی اللہ عنھا, بشمول دیگر خواتینِ اھلبیت کے پوری کائنات کی خواتین سے زیادہ صابرہ و شاکرہ تھیں, 26 حضرت امام مھدی علیہ و علی جدہ السلام آپ ہی کی نسل مبارک سے پیدا ہونگے, 27 آپ رضی اللہ عنھا کی نسل مبارک بلا انقطاع قیامت تک چلے گی, 28 قربِ قیامت حضرت عیسٰی علیہ السلام آپ ہی کی اولاد میں سے ایک امام ذیشان( یعنی حضرت مھدی) کے پیچھے نماز پڑھیں گے, ع ‏اُس بتولِ جگر پارۂ مصطفٰے حجلہ آرائے عِفّت پہ لاکھوں سلام جسکا آنچل نہ دیکھا مہ و مِہر نے اُس رِدائے نَزاہت پہ لاکھوں سلام سیّدہ زاہرہ طیّبہ طاہرہ جانِ احمدکی راحت پہ لاکھوں سلام ( حدائق بخشش) نوٹ: یہ خصوصیات بطورِ خلاصہ کے لکھی گئیں ہیں, تفصیل کے لیے آپ رضی اللہ عنھا کی شان میں وارد ہو نے والی قرآن و حدیث کی نصوص کی طرف رجوع کیا جائے,
  7. انجینئر محمد علی مرزا کا علم ملاحظہ فرمائیں. ایک موقعہ پر تسلیم کررہا ہے کہ سیدنا زبیر رضی اللہ کا سر کاٹ کر حضرت علی رضی اللہ کے سامنے نہیں لایا گیا سوال پوچھنے والے نے باقائدہ حضرت زبیرؓ کا نام پوچھ کر تصدیق کی اور جوابآ انجنیئر مرزا نے دوٹوک انداز میں کہا کہ پہلی بار حضرت عمار بن یاسرؓ کا سر کاٹ کر حضرت امیر معاویہؓ کے سامنے لایا گیا تھا۔ اس سے پہلے کبھی کسی کا سر نہیں لایا گیا۔ یاد رہے کہ حضرت زبیرؓ کی شہادت جنگ جمل (10 جمادی الاول سن 36 ھجری ) کے بعد واپس جاتے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ایک سپاہی عمیر بن جرموز کے ہاتھوں بصرہ کے قریب ہوئی تھی اور حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت جنگ صفین (سن 37 ھجری) میں ایک سازشی گروہ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ غور سے سنیں۔۔ موصوف نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویہؓ کے سامنے حضرت عماربن یاسر رضی اللہ کا سر کاٹ کر لایا گیا اور یہ اسلامی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا! ویسے تو انجنیئر مرزا ریسرچ پیپرز لکھنے میں بڑی مہارت رکھتا ہے تو پھر دونوں بیانات میں اتنا تعارض کیوں؟؟ غور سے سنیں ۔۔۔ یہی انجنیئر مرزا صاحب دوسرے موقعہ پر اپنی پہلی بات سے صاف مکرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ حضرت علی کے سامنے جب سیدنا زبیر کا کٹا ہوا سر لایا گیا تو انہوں نے قاتل کو جہنم کی وعید سنائی!! وڈیو کے پہلے حصے میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے سر لانے کا انکار دوسرے حصے میں سر لانے کا اقرار اب اس جاہل بندے کی پیروی کرنے والے ذرا غور کریں کہ کیا یہ اتنا علم رکھتا ہے کہ دین کے معاملے میں اس کی باتوں کا یقین کر لیا جائے؟؟ ............... Video Upload soon .....
  8. رافضیوں کے نزدیک حضرت آدم علیہ السلام کافر ھیں ,, العیاذ بااللہ (باب) * (في أصول الكفر وأركانه) 1 – الحسين بن محمد، عن أحمد بن إسحاق، عن بكر بن محمد، عن أبي بصير قال: قال أبو عبد الله (عليه السلام): أصول الكفر ثلاثة: الحرص، والاستكبار، والحسد، فأما الحرص فان آدم (عليه السلام) حين نهي عن الشجرة، حمله الحرص على أن أكل منها وأما الاستكبار فإبليس حيث أمر بالسجود لآدم فأبى، وأما الحسد فابنا آدم حيث قتل أحدهما صاحبه الكافي – الشيخ الكليني – ج ٢ – الصفحة ٢٨٩ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ھیں اصول کفر تین ہیں ( 1) حرص ( 2) تکبر ( 3) حسد بھرحال حرص بیشک آدم علیہ السلام نے کی جب انھیں درخت سے روکا گیا تھا، حرص نے آدم علیہ السلام کو اسکے کھانے پر آمادہ کیا اور تکبر شیطان نے کیا جب اسے آدم علیہ السلام کے سجدہ کا حکم کیا گیا۔ حسد آدم علیہ السلام کے بیٹوں( ھابیل, قابیل) نے کیا جب ایک نے دوسرے کا قتل کیا۔ ( العیاذ بااللہ) حوالہ جات شیعہ کتب سے
  9. والدین زوجین اور اساتذہ کے حقوق ( *امام اہلسنت سیدی اعلٰیحضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ* ) باپ کی توہین کرنے والے کا شرعی حکم۔ سوتیلی ماں کی تعظیم و حرمت۔ ماں باپ میں سے زیادہ حق کس کا ہے۔ ماں کے حقوق کے بارے میں احادیث۔والدین کے نافرمان کی امامت کا شرعی حکم۔ شاگرد اور استاد کے حقوق کا بیان۔ حسد کی مذمت اور حاسد کی سزا۔ علم دین کی توہین کرنا کیسا؟۔ والدین زوجین اور اساتذہ کے حقوق .pdf
  10. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے (باقی) ہوں تو اُس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ ’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو اُسے اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے ۔ أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم، 2 / 690، الرقم : 1851، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 803، الرقم : 1147، وأبو داود في السنن، کتاب الصيام، باب فيمن مات وعليه صيام، 2 / 315، الرقم : 2400-2401، وأيضًا في کتاب الأيمان والنذور، باب ما جاء فيمن مات وعليه صيام صام عنه وليه، 3 / 237، الرقم : 3311، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 175، الرقم : 2919. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ (کی ادائیگی کا حکم) کرتی. اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ امام مسلم نے ’’صدقات کے ثواب کا فوت شدگان کو پہنچنا‘‘ کے باب میں یہ حدیث نقل کی ہے۔ أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب موت الفجأة البغتة، 1 / 467، الرقم : 1322، ومسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1004، وأبوداود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2881، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب إذا مات الفجأة هل يستحب لأهله أن يتصدقوا عنه، 6 / 250، الرقم : 3649، وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوصی هل يتصدق عنه، 2 / 906، الرقم : 2717. حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ (قبیلہ) جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا : میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی. کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو. بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں؟ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو کیونکہ وہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس کا قرض ادا کیا جائے ۔ أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإحصار وجزاء الصيد، باب الحج والنذور عن الميت، والرّجل يحجّ عن المرأة، 2 / 656، الرقم : 1754، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب الحج عن الميت الذي نذر أن يحج، 5 / 116، الرقم : 2632، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 346، الرقم : 3041. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور وہ اس وقت موجود نہ تھے۔ وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ہے اور میں اُس وقت حاضر نہ تھا، اگر میں ان کی طرف سے کوئی صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں. حضرت سعد عرض گزار ہوئے کہ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے ۔ أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوصايا، باب إذا قال أرضي أو بستاني صدقة عن أمي فهوجائز، 3 / 1013، الرقم : 2605، وعبد الرزاق في المصنف، 9 / 159، الرقم : 16337، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 18، الرقم : 537، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 278، الرقم : 12411، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 615. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہو چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! اس آدمی نے عرض کیا : میرے پاس ایک باغ ہے، آپ گواہ رہیں کہ میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا.‘‘ اِسے امام ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے، اور علماء کا یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’میت کو صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔ بعض محدثین نے یہ حدیث بواسطہ حضرت عمرو بن دینار اور حضرت عکرمہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔ أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 56، الرقم : 669، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في من مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2882، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 252، الرقم : 3655، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 370، الرقم : 3504. حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اُمّ سعد (یعنی میری والدہ ماجدہ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ سو (ان کی طرف سے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی (پلانا) تو انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ اُمّ سعد کا کنواں ہے۔‘‘ أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في فضل سقي المائ، 2 / 130، الرقم : 1681، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 41، الرقم : 1424، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 362، الرقم : 1912. حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ فوت ہو گئیں تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! انہوں نے عرض کیا : تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی پلانا. (تو انہوں نے ایک کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا.) پس یہ کنواں مدینہ منورہ میں سعد یا آل سعد کی پانی کی سبیل (کے نام سے مشہور) تھا.‘‘ أخرجه النسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب ذکر اختلاف علی سفيان، 6 / 254-255، الرقم : 3662-3666، وابن ماجه في السنن، کتاب الأدب، باب فضل صدقة المائ، 2 / 1214، الرقم : 3684، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 284، الرقم : 22512، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 20، الرقم : 5379. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے مال چھوڑا ہے، لیکن اُنہوں نے وصیت نہیں کی. اگر میں اُن کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ) اُن کے گناہوں کا کفّارہ ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں.‘‘ اِسے امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1630، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 251، الرقم : 3652، وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوص هل يتصدق عنه، 2 / 206، الرقم : 2716، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 371، الرقم : 8828.(دعاؤں کا طالب ڈاکٹر فیض احمد چشتی ) حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور اُن پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بتاؤ اگر اُس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اُس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں؟ اُس عورت نے عرض کیا : ہاں. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس اﷲ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض (پہلے) ادا کیا جائے۔‘‘ اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 804، الرقم : 1148، وابن حبان في الصحيح، 8 / 299، 335، الرقم : 3530، 3570، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 255، الرقم : 8012. حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا : میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی. اس عورت نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (بھی باقی) تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو. اس نے عرض کیا : میری ماں نے حج بھی کبھی نہیں کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج بھی ادا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو (اسے ان سب اعمال کا ثواب پہنچے گا).‘‘ اِسے امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 805، الرقم : 1149، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في المتصدّق يرث صدقته، 3 / 54، الرقم : 667، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 66-67، الرقم : 6314-6316، وابن ماجه في السنن، کتاب الصدقات، باب من تصدق بصدقه ثم ورثها، 2 / 800، الرقم : 2394، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 349، 351، 359، 361، الرقم : 23006، 23021، 23082، 23104. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے اور اس پر دو ماہ کے روزے باقی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تیری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تو ادا کرتی؟ اُس نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا حق زیادہ ادا کرنے کے لائق ہے۔ أخرجه النسائي في السنن الکبری، 2 / 173-174، الرقم : 2912-2915، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام من نذر، 1 / 559، الرقم : 1758. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : میری بہن وفات پا چکی ہے اور اُس نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اُس کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس پر قرض ہوتا تو تم یقینا ادا کر دیتے، پس اللہ تعالیٰ وفاء کا زیادہ حق دار ہے۔ أخرجه ابن حبان في الصحيح، باب الکفارة، 9 / 306، الرقم : 3993، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 339، الرقم : 14724. حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے۔‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ أخرجه النسائي في السنن، کتاب الحج، باب الحج عن الميت الذی لم يحج، 5 / 116، الرقم : 2634، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 87، الرقم : 5877، وأيضًا في المعجم الکبير، 18 / 284، الرقم : 727، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 10 / 213.(دعاؤں کا طالب ڈاکٹر فیض احمد چشتی ) حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء من الکفارة، 3 / 96، الرقم : 718، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه، 1 / 558، الرقم : 1757، وابن خزيمه في الصحيح،3 / 273، الرقم : 2056. حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے۔‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ أخرجه النسائي في السنن، کتاب الحج، باب الحج عن الميت الذی لم يحج، 5 / 116، الرقم : 2634، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 87، الرقم : 5877، وأيضًا في المعجم الکبير، 18 / 284، الرقم : 727، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 10 / 213. حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء من الکفارة، 3 / 96، الرقم : 718، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه، 1 / 558، الرقم : 1757، وابن خزيمه في الصحيح،3 / 273، الرقم : 2056. ابراہیم بن صالح بن درہم کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد کو فرماتے ہوئے سنا : ہم حج کے ارادے سے گئے تو ایک آدمی نے ہم سے کہا : کیا تمہارے ایک طرف اُبلّہ نامی بستی ہے؟ ہم نے کہا : ہاں. اس نے کہا : تم میں سے کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مسجد عشار میں میرے لیے دو یا چار رکعتیں پڑھے اور کہے کہ ان کا ثواب ابو ہریرہ کے لیے ہے؟ میں نے اپنے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مسجد عشار سے ایسے شہیدوں کو اُٹھائے گا کہ شہدائے بدر کے ساتھ اُن کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوگا.‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔ أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب في ذکر البصرة، 4 / 113، الرقم : 4308. حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیںکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اُونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور ہشام بن العاص نے اپنے باپ کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب اُنہیں ملے گا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا باپ توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اس کی طرف سے روزے رکھے یا صدقہ کیا تو یہ اسے نفع پہنچائیں گے۔‘‘ اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 181، الرقم : 6704. حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور (ان کے بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے والد کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب انہیں ملے گا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا والد توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اِس کے لیے روزے رکھے یا صدقہ کیا یا کوئی غلام آزاد کیا تو ان چیزوں کا ثواب اُسے ملے گا.‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 58، الرقم : 12078، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 192، وبدر الدين العينيفی عمدة القاري، 3 / 119. حضرت عطائ، حضرت سفیان اور حضرت زید بن اسلم ث سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اپنے مرحوم باپ کی طرف سے غلام آزاد کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں.‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12083، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 279، الرقم : 12421، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119. حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حسین رضی اﷲ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اُن کی طرف سے غلام آزاد کرتے تھے۔ أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12088، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119.(دعاؤں کا طالب ڈاکٹر فیض احمد چشتی ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے والدین کی طرف سے حج کیا یا اُن کا قرض ادا کیا وہ روزِ قیامت نیکو کاروں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا أخرجه الدارقطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 260، الرقم : 110، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 11، الرقم : 7800، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 146. حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر کوئی آدمی اپنے والدین کے لئے حج کرتا ہے تو اُس کا اور اُس کے والدین کا حج قبول کر لیا جاتا ہے، آسمانوں میں اُن کی اَرواح کو بشارتیں دی جاتی ہیں اور اُس بندے کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیکو کار لکھ دیا جاتا ہے ۔ أخرجه الدار قطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 259، الرقم : 109، وابن قدامة في المغني، 3 / 102. حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسا سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا، جس کے ہاتھ، پیر اور آنکھیں سیاہ ہوں. سو قربانی کرنے کے لیے ایسا مینڈھا لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! چھری لاؤ، پھر فرمایا : اس کو پتھر سے تیز کرو. میں نے اس کو تیز کیا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے، پھر فرمایا : اللہ کے نام سے، اے اللہ! محمد، آلِ محمد اور اُمتِ محمد کی طرف سے اس کو قبول فرما. پھر اس کی قربانی کی.‘‘ اِسے امام مسلم، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔ أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب استحباب الضحية وذبحها مباشرة بلا توکيل والتسمية والتکبير، 3 / 1557، الرقم : 1967، وأبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، 3 / 94، الرقم : 2792، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 78، الرقم : 24535، وابن حبان في الصحيح، 13 / 236، الرقم : 5915، وأبو عوانة في المسند، 5 / 62، الرقم : 7791. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن دونوں مُردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور اُنہیں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا. ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا. جب کہ دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیر کر اُس کے دو حصے کر دیئے۔ ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر نصب کر دیا. پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی ۔ أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب الغيبة، 5 / 2249، الرقم : 5705، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، الرقم : 292، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب التنزه عن البول، 1 / 30، الرقم : 31، وأبو داود في السنن،کتاب الطهارة، باب الاستبراء من البول، 1 / 6، الرقم : 20.(دعاؤں کا طالب ڈاکٹر فیض احمد چشتی ) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اُن کی طرف گئے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نماز جنازہ پڑھ لی، اُنہیں قبر میں رکھ دیا گیا اور قبر کو برابر کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسبیح فرمائی. پس ہم نے بھی طویل تسبیح کی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر فرمائی تو ہم نے بھی تکبیر کہی. اِس پر عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! آپ نے تسبیح و تکبیر کیوں فرمائی؟ ارشاد ہوا : اس نیک بندے پر قبر تنگ ہو گئی تھی. (ہم نے تسبیح و تکبیر کی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اِس پر فراخی فرما دی. أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 360، الرقم : 14916. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔ أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 / 1255، الرقم : 1631، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 28، الرقم : 38، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 117، الرقم : 2880، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 / 88، الرقم : 239. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو. أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا اﷲ، 2 / 631، الرقم : 916، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين المريض عن الموت والدعاء له عنده، 3 / 306، الرقم : 976، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في التلقين، 3 / 190، الرقم : 3117، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 / 5، الرقم : 1826. ’ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا اﷲ، 2 / 631، الرقم : 917، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 / 464، الرقم : 1444، وابن أبي شيبة في المصنف، کتاب الجنائز، باب في تلقين الميت، 2 / 446، الرقم : 10857. امام ابن عابدین شامی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث مبارکہ - اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو - کو اس کے حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے گا کیوں کہ اﷲ تعالیٰ تدفین کے بعد مردے میں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اس پر واضح آثار (روایات) موجود ہیں.‘‘ ابن عابدين الشامي في رد المحتار، 2 / 191. حضرت سعید بن عبد اﷲ اَودی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھے۔ اُنہوں نے فرمایا : جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کر کے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا.) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا. پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو. لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا. پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا. جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ. پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو. (اور یوں کہو : ) اے فلاں ابن حوائ.‘‘ اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا : اس کی اسناد صالح ہیں، جب کہ ضیاء مقدسی نے اسے احکام میں قوی قرار دیا ہے۔ ابن ملقن انصاری نے فرمایا : اس کے صرف ایک راوی سعید بن عبد اﷲ کو میں نہیں جانتا، لیکن اس روایت کے کثیر شواہد ہیں جو اسے تقویت بہم پہنچاتے ہیں. أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 249، الرقم : 7979، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 324؛ 3 / 45، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 135-136، وابن الملقن في خلاصة البدر المنير، 1 / 274-275، الرقم : 958، والهندي في کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 15 / 256-257، الرقم : 42406. حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اس کی قبر پر ٹھہرتے اور فرماتے : اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور (اللہ تعالیٰ سے) اس کے لیے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات میں) ثابت قدمی کی التجا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیے جائیں گے۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابو داود اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور امام مقدسی نے فرمایا : اِس کی اسناد حسن ہیں. أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت في وقت الإنصراف، 3 / 215، الرقم : 3221، والبزار في المسند، 2 / 91، الرقم : 445، والحاکم في المستدرک، 1 / 526، الرقم : 1372، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 522، الرقم : 378.(دعاؤں کا طالب ڈاکٹر فیض احمد چشتی ) ملا علی قاری اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی طرف اشارہ ہے اور ہمارے مذہب (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے، بخلاف اُس شخص کے جس نے یہ گمان کیا کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جاسکتا ہے بلکہ وہ اتنے شواہد سے مضبوط ہے کہ وہ درجہ حسن تک جا پہنچی ہے۔‘‘ مرقاة المفاتيح، 1 / 327.
  11. محمد حسن عطاری

    Surah Al Rehman

    surah al rehman.mp3
  12. محترم قارئینِ کرام : دشمنان اسلام لوگوں کی پوری کوشش رہی ہے کہ اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ ایک دوسرے کا دشمن ثابت کیا جائے ۔ کبھی وہ ان کی زبان سے ایک دوسرے پر لعنت کہلواتے ہیں ، کبھی ایک دوسرے کو برا بھلا کہلواتے ہیں اور ان کے اسلام میں شک کرواتے ہیں ۔ درحقیقت یہ ان کے اپنے جذبات ہیں جنہیں وہ زبردستی اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زبان سے کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسی تمام روایات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی سند میں کوئی نہ کوئی جھوٹا راوی جیسے ابو مخنف ، ہشام کلبی ، سیف بن عمر یا واقدی ضرور موجود ہو گا ۔ یہاں ہم چند روایات اور کچھ نکات پیش کر رہے ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کی ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے تھی ؟ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی ﷲ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا ۔ (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259) حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258،چشتی) حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا ۔ امارات معاویہ رضی ﷲعنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے ۔ ( شرح عقیدہ واسطیہ) حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے ۔ (البدایہ ج 8 ص 130) حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کو صاحب فضل کہا ۔ (البدایہ‘ ج 8ص 131) حضرت ابو امامہ رضی ﷲ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ‘ افضل ہونا تو کجا ہے ۔ (الروضہ الندیہ‘ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406) حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ سے رجوع کیا ۔ ( موطا امام مالک) حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا ۔ (تاج العروس ص 221) حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا ۔ (بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ) حضرت علی کے بھائی عقیل اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ کے بھائی زیاد بن ابی سفیان ، حضرت علی کے قریبی ساتھی تھے اور آپ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ ایک بار عقیل ، معاویہ کے پاس بیٹھے تھے تو معاویہ نے جی کھول کر علی کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا : ’’اے ابو یزید (عقیل) ! میں علی بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں ۔ علی قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں ۔ علی میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں ۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا : ’’امیر المومنین ! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی ۔‘‘ ( ابن عساکر۔ 42/416،چشتی) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے بعد جو خط شہروں میں بھیجا، اس میں فرمایا: ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم میں اور اہل شام میں مقابلہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک ، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اس معاملے میں نہ وہ ہم سے زیادہ تھے اور نہ ہم ان سے۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے ۔ ( سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58) ایک شخص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا ۔ آپ نے فرمایا : اس بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھ لیجیے ، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں۔‘‘ اس نے کہا : ’’امیر المومنین! آپ کی رائے، میرے نزدیک علی کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے۔ کیا آپ ان صاحب (علی) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم سے عزت بخشی ہے ؟ آپ نے انہیں فرمایا تھا : علی ! آپ میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسیٰ کے نزدیک ہارون (علیہما الصلوۃ والسلام) کی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ابن عساکر۔ 42/170) خوارج نے حضرت علی ، معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا : “میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے ۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا ۔ ” آپ نے فرمایا : “بیان کرو ۔” کہنے لگا : “آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا ۔” آپ نے فرمایا : “کاش ! تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے ۔ ( طبری۔ 3/2-357) جنگ صفین کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : “لوگو! آپ لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کی گورنری کو ناپسند مت کریں ۔ اگر آپ نے انہیں کھو دیا تو آپ دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے ۔ ( ابن ابی شیبہ المصنف 14/38850) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : لَمَّا رَجَعَ عَلِيٌّ مِنْ صِفِّينَ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يَمْلِكُ أَبَدًا , فَتَكَلَّمَ بِأَشْيَاءَ كَانَ لَا يَتَكَلَّمُ بِهَا , وَحَدَّثَ بِأَحَادِيثَ كَانَ لَا يَتَحَدَّثُ بِهَا , فَقَالَ : فِيمَا يَقُولُ : " أَيُّهَا النَّاسُ , لَا تَكْرَهُوا إِمَارَةَ مُعَاوِيَةَ , وَاللَّهِ لَوْ قَدْ فَقَدْتُمُوهُ ! لَقَدْ رَأَيْتُمُ الرُّءُوسَ تَنْزُو مِنْ كَوَاهِلِهَا كَالْحَنْظَلِ ! " ۔(مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الْجَمَلِ » بَابُ مَا ذُكِرَ فِي صِفِّينَ ... رقم الحديث: 37151،چشتی) یزید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صلح ہو گئی تو علی اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے ۔‘‘ پھر معاویہ کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا: ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ کو معاف کر دیا جائے گا ۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا ۔ ( ابن عساکر۔ 59/139) ان واقعات کو پڑھنے کے بعد کوئی ذی شعور بے سند اور لا یعنی بات نہیں کر سکتا ایک اور بات امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما ہم سے زیادہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ہیں جب انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ان سے سالانہ وظائف بهی قبول کرتے رہے تو ہمیں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کا کوئی حق نہیں. کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کسی کافر یا فاسق کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے . اب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید درپردہ سرداران نوجوانان جنت رضی اللہ عنہما پر تنقید ہے ۔ حضرت امیر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مقابلہ میں جنگ آزما ہونے کے بعد بھی ان کے تمام فضائل کے معترف تھے اورانہوں نے بارہا اوربرملا ان کا اعتراف کیا ، جنگ صفین کی تیاریوں کے وقت جب ابو مسلم خولانی ان کو سمجھانے کے لئے گئے اور کہا معاویہ میں نے سنا ہے کہ تم علی سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہو، تم کو سبقت اسلام کا شرف حاصل نہیں ہے ، پھر کس برتے پر اٹھو گے تو انہوں نے صاف صاف اعتراف کیا کہ مجھے اس کا دعویٰ نہیں ہے کہ میں فضل میں ان کے مثل ہوں ، میں تو صرف قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو مانگتا ہوں ، اپنی وفات کے کچھ دنوں پہلے انہوں نے مجمع عام میں جو تقریر کی تھی، اس کے الفاظ یہ تھے کہ میرے بعد آنے والا مجھ سے بہتر نہیں ہوگا، جیسا کہ میں اپنے پیش رو سے بہتر نہیں ہوں ۔ (ابن الاثیر:۴/۲،مطبوعہ یورپ) وہ نہ صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ؛ بلکہ خاندانی بنی ہاشم کے شرف و فضیلت کے معترف تھے ، ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ بنی امیہ اشرف ہیں یا بنی ہاشم ، انہوں نے زمانہ جاہلیت کی پوری تاریخ دہرا کر دونوں کی فضیلت کا اعتراف کیا اورآخر میں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی بعثت کے بعد بنی ہاشم کی فضیلت کو کون پہنچ سکتا ہے ۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۳۸) حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لوگو! معاویہ کی گورنری کو ناپسند نہ کرو۔ واللہ! اگر تم نے انہیں کھو دیا تو تم ضرور دیکھو گے کہ سر ، شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گر رہے ہوں گے جیسا کہ حنظل کا پھل اپنے پودے سے گرتا ہے ۔ (ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ کتاب الجمل، باب صفین۔ جلد 14)( 38850۔ ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ۔ 12/40) حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : زید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ کے درمیان صلح ہو گئی تو علی (رضی اللہ عنہ) اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے ۔‘‘ پھر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو معاف کر دیا جائے گا۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا ۔ ( ابن عساکر۔ 59/139،چشتی) اہل تشیع کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ایک مراسلہ (Circular) نقل کیا گیا ہے جو آپ نے جنگ صفین کے بارے میں شہروں میں بھیجا۔ اس میں لکھا ہے : حضرت علی علیہ السلام کا خط، جو آپ نے شہروں کی جانب لکھا، اس میں آپ نے اپنے اور اہل صفین کے درمیان ہونے والے واقعے کو بیان فرمایا : ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم اہل شام کے ساتھ ایک میدان میں اکٹھے ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اللہ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کے معاملے میں نہ ہم ان سے بڑھ کر تھے اور نہ وہ ہم سے بڑھ کر۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے۔ ہم نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہو سکتا ہے، اس کا وقتی علاج یہ کیا جائے کہ آتش جنگ کو خاموش کر دیا جائے اور لوگوں کو جذبات کو پرسکون ہو لینے دیا جائے۔ اس کے بعد جب حکومت کو استحکام حاصل ہو جائے گا اور حالات سازگار ہو جائیں گے تو ہم اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ حق (یعنی قصاص) کو اس کے مقام پر رکھ لیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کا علاج صرف جنگ ہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ نے اپنے پاؤں پھیلا دیے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ شعلے بھڑک اٹھے اور مستقل ہو گئے۔ سب نے دیکھا کہ جنگ نے دونوں فریقوں کو دانت سے کاٹنا شروع کر دیا ہے اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پر آمادہ ہو گئے اور میں نے بھی ان کی بات کو مان لیا اور تیزی سے بڑھ کر ان کے مطالبہ صلح کو قبول کر لیا۔ یہاں تک کہ ان پر حجت واضح ہو گئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہو گیا۔ اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا تو گویا اپنے آپ کو ہلاکت سے نکال لے گا ورنہ اسی گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ گردش ایام اسی کے سر پر منڈلا رہی ہو گی ۔ (سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58،چشتی) یہ تحریر وہ خط ہے جو نہج البلاغہ کے مولف شریف رضی کے مطابق مختلف شہروں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے بھیجا گیا تاکہ اس جنگ سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقطہ نظر کو واضح کیا جا سکے ۔ انڈر لائن الفاظ سے واضح ہے کہ آپ ، اہل شام کو عین مسلمان سمجھتے تھے اور ہر حال میں صلح چاہتے تھے ۔ اس سے ابو مخنف کی ان روایات کی بھی تردید ہو جاتی ہے جن کے مطابق حضرت علی جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کے مجبور کر دینے پر وہ بادل نخواستہ جنگ بندی کے لیئے تیار ہوئے تھے ۔ فرمان مولا علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے بھائی ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے بھائی ہیں ان سے خطاء اجتہادی ہوئی ہم سب ساتھ ہونگے ۔ (ازالۃُ الخفاء جلد 4 صفحہ 522) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے حوالے سے بڑے نیک جذبات تھے اور اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے تعلق سے ان کا رویہ ہمیشہ ہم دردانہ اور مشفقانہ رہا ہے آیئے اس سلسلے میں ایک مختصر مضمون پڑھتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تعلق اتنا ہمدردانہ تھا کہ جب قیصر روم نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے مقبوضات پر قبضہ کرنے کا خطرناک منصوبہ بنایا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے قیصر روم کو ایسا تہدید نامہ لکھا جس کو پڑھ کر اس کے ہوش اڑ گئے اور وہ اپنے ارادے سے باز آ گیا خط کا مضمون یہ تھا : اے لعنتی انسان، مجھے اپنے اللہ کی قسم ہے کہ اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے ملک کی طرف واپس لوٹ نہ گیا تو پھر میں اور میرے چچا زاد بھائی (حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ) تیرے خلاف صلح کر لیں گے . پھر تجھے تیرے ہی ملک سے نکال بھگائیں گے اور اس زمین کو اس کی وسعتوں کے باوجود تجھ پر تنگ کر دیں گے ۔ (البدایہ و النہایہ، ج:٨،ص:١١٩) خارج نے حضرت مولا علی ، حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا : "میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے ۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا ۔ " حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "بیان کرو ۔" کہنے لگا : " آج میرے بھائی نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا ہو گا ۔" حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "کاش تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے ۔ (تاریخ طبری ۔ 3/2-357،چشتی) ایک شخص نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس بارے میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن حضرت ابی طالب سے پوچھ لیجیئے ، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں ۔ اس نے کہا : امیر المومنین آپ کی رائے ، میرے نزدیک علی (رضی اللہ عنہ) کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے ۔ کیا آپ ان صاحب (حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے علم سے عزت بخشی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا تھا : علی (رضی اللہ عنہ) آپ میرے لیئے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسی کے نزدیک ہارون (علیہما الصّلوۃ والسّلام) کی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ابن عساکر۔ 42/170) حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ ایک بار حضرت عقیل رضی اللہ عنہ ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جی کھول کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا : ’’اے ابو یزید (عقیل) ! میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں ۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا : ’’امیر المومنین ! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی ۔ (ابن عساکر۔ 42/416) ذرا سوچیں کہ اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے لیے ہم دردی کے جذبات نہ ہوتے تو وہ قیصر روم کو ایسا تہدید نامہ کبھی نہ لکھتے بلکہ اگر کوئی ذاتی پرخاش ہوتی تو در پردہ یا علانیہ قیصر روم کی مدد بھی کرتے. حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ سلوک ان دونوں کے برادرانہ تعلقات کی روشن دلیل ہے ۔ اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی کتنی قدر تھی اس کا اندازہ اس وصیت نامے سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے اپنے مرض الموت میں اپنے بیٹے یزید پلید کےلیے لکھوایا تھا ۔ اس وصیت نامے کا ایک خاص اقتباس آپ بھی پڑھیں : البتہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے تم کو (یعنی یزید کو) خطرہ ہے ، اہل عراق انہیں تمہارے مقابلے میں لا کر چھوڑ دیں گے . جب وہ تمہارے مقابلے میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو درگزر سے کام لینا کہ وہ قرابت دار ، بڑے حق دار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عزیز ہیں ۔ (تاریخ طبری ج:٥،ص:١٩٦،چشتی) شیعہ مولوی ملا باقر مجلسی کتاب جلاء العیون میں لکھتا ہے : حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ وصال کے وقت یزید کو یہ وصیت فرماگئے کہ امام حسین رضی ﷲ عنہ پس ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے ۔ تجھے معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بدن کے ٹکڑے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گوشت و خون سے انہوں نے پرورش پائی ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ عراق والے ان کو اپنی طرف بلائیں گے اور ان کی مدد نہ کریں گے ۔ تنہا چھوڑ دیں گے اگر ان پر قابو پالے تو ان کے حقوق کو پہچاننا ‘ ان کا مرتبہ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے اس کو یاد رکھنا ‘ خبردار ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا ۔ (جلاء العیون جلد دوم صفحہ نمبر 421,422) ایک اور شیعہ عالم ناسخ التواریخ لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے مزید کو یہ وصیت فرمائی : کہ اے بیٹا! ہوس نہ کرنا اور خبردار جب ﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو تیری گردن میں حسین بن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کا خون نہ ہو ۔ ورنہ کبھی آسائش نہ دیکھے گا اور ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا ۔ محترم قارئینِ کرام : غور کیجئے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ ‘ یزید کو یہ وصیت کر رہے ہیں کہ ان کی تعظیم کرنا بوقت مصیبت ان کی مدد کرنا ۔ اب اگر یزید پلید اپنے والد کی وصیت پر عمل نہ کرے تو اس میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کا کیا قصور ؟ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے یزید پلید کو کافر لکھا ہے اور اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید پلید ‘ شرابی ‘ ظالم اور امام حسین رضی ﷲ عنہ کے خون کا ذمہ دار ہے ‘ لیکن اس کے بدلے میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بدنام کرنا یہ کون سی دیانت ہے ؟ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193،چشتی) حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193) اہل تشیع کے بڑے عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید لکھتے ہیں : معاویہ دنیا میں پہلے شخص تھے جنہوں نے دس دس لاکھ درہم بطور عطیہ دیئے ۔ ان کا بیٹا یزید پہلا آدمی تھا جس نے ان عطیات کو دوگنا کیا ۔ حضرت علی کے دونوں بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو ہر سال دس دس لاکھ درہم دیئے جاتے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کو بھی دیئے جاتے ۔ (ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ) جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھرپور عزت کرتے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477،چشتی) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو تحفے بھیجنا اتنی معروف بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس سے انکار نہیں ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں : معاویہ ہر سال حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے ۔ ( ابو مخنف۔ مقتل الحسین علیہ السلام۔ قم: مطبعہ امیر) محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فرق مراتب بے شمار اور حق بدست حیدر کرار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار طعن ان پر بھی کار فجار جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی ہے یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاوی رضویہ جلد 10 صفحہ 201 قدیم ایڈیشن)،(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی) اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اہلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توہین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاہلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔ ان شواہد سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ پر اہل بیت سے بغض و عناد کا جو الزام لگایا گیا ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے. اس لیے ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کے بارے میں سب و شتم سے ہرگز کام نہ لیں اور ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کریں کہ یہی اسوہ رسول ہے ، اسی میں ملت کی بھلائی ہے اور اسی میں ہم سب کی نجات ہے
  13. *آمین آہستہ یعنی پست آواز میں کہنا سنت ہے* ڈاکٹر فیض احمد چشتی ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ محترم قارٸینِ کرام اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد ہے : اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ۔ ترجمہ : تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو،یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(الأعراف:55،) مذکورہ آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آہستہ دُعاء کرنے کا حکم دیا ہے اور آمین کہنا بھی ایک دُعاء ہے ۔ (1) حضرت عطاء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آمین کہنا دُعاء ہے ۔(بخاری:1/156) (2) حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ علیہمالسّلام کی دُعاء پر جو آمین کہا تھا اُس کو بھی قرآن کریم میں ”دُعاء“قرار دیا گیاہے ۔(یونس:89) ۔ (تفسیر بغوی۔چشتی) (3) آمین کامعنی ہی دُعاء کے ہیں ، چنانچہ اس کےمعنی”اِسْمَعْ وَاسْتَجِبْ“کے ہیں، یعنی اے اللہ! سن لیجئے اور قبول فرمالیجئے۔ لہٰذا مذکورہ بالا وجوہات کی بنیاد آمین بھی قرآن کریم کے مطابق آہستہ اور خفیہ کہنا چاہیئے تاکہ دُعاء کے اَدب کا لحاظ اور اُس کی رِعایت کی جاسکے ۔ لفظِ آمین کو اللہ کے ناموں میں سے ایک نام بھی کہا گیا ہے ، چنانچہ کئی روایات میں ہے : آمِينَ : اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ“ یعنی آمین اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:7971) پس گویا آمین کہنے والا اللہ کا ذکر کرتا ہے اورذکر میں اصل ”اِخفاء“ یعنی ہلکے ذکر کرناہے،چنانچہ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے آہستہ ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ،پس اِس سے معلوم ہواکہ آمین آہستہ کہنا چاہیئے تاکہ ذکرکے اَدب کا لحاظ اور اُس کی رِعایت کی جاسکے۔ علّامہ فخر الدّین رازی رحمة اللہ جوکہ شافعی المسلک ہیں ، اُنہوں نے آمین کے بارے میں اِسی مذکورہ بالا تحقیق کو بڑے اچھے اور عُمدہ انداز میں پیش کیا ہے ،جواُن ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں : ”فِي قَوْلِهِ : «آمِينَ» وَجْهَانِ:أَحَدُهُمَا: أَنَّهُ دُعَاءٌ. وَالثَّانِي: أَنَّهُ مِنْ أسماء اللَّهِ، فَإِنْ كَانَ دُعَاءً وَجَبَ إِخْفَاؤُهُ لِقَوْلِهِ تَعَالَى:ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً وَإِنْ كَانَ اسْمًا مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى وَجَبَ إِخْفَاؤُهُ لِقَوْلِهِ تَعَالَى:﴿وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً﴾فَإِنْ لَمْ يَثْبُتِ الْوُجُوبُ فَلَا أَقَلَّ مِنَ النَّدْبِيَّةِ وَنَحْنُ بِهَذَا الْقَوْلِ نَقُولُ“۔(تفسیر کبیر للرازی:14/282،چشتی) ترجمہ:آمین کے بارے میں دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ یہ دُعاء ہے اور دوسرا یہ کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے،پس اگر یہ دُعاء ہے تو اس کو ہلکی آواز میں پڑھنا واجب ہےاِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:”تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو“اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہےتب بھی اس کو ہلکی آواز میں پڑھنا واجب ہے، اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”اوراپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی کرتا ہوا اور ڈرتاہوا یاد کرتا رہ“۔پس اگر(آمین کو آہستہ کہنے کا)وجوب ثابت نہ بھی ہو تب بھی یہ مستحب ہونے سے کم تو نہیں ہوگا ، اور ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَرَأَ:{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}قَالَ: "آمِينَ " وَأَخْفَى بِهَا صَوْتَهُ۔ (مسند احمد:18854) ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیں نماز پڑھائی اور جب سورہ فاتحہ ختم کی تو آہستہ آواز میں آمین کہی۔ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ:كَانَ عُمَرُ وَعَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا لَا يَجْهَرَانِ بِ{بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ}وَلَا بِالتَّعَوُّذِ,وَلَا بِالتَّأْمِينِ۔ (شرح معانی الآثار:1208۔چشتی) ترجمہ : حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما تسمیہ ، تعوذ اور آمین بلند آواز میں نہیں کہا کرتے تھے ۔ خَمْسٌ يُخْفِيَنَّ:سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ،وَالتَّعَوُّذُ، وَبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَآمِينَ، وَاللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ۔ (مصنف عبد الرزاق:2597) ترجمہ : مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہیں گے: ثناء ، تعوذ ، تسمیہ ،آمین اور تحمید ۔ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،قَالَ:أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا الْعَنْبَسِ قَالَ : سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ، يُحَدِّثُ عَنْ وَائِلٍ، وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ وَائِلٍ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَرَأَ{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}قَالَ : «آمِينَ» خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ۔(مسند ابوداؤد الطیالسی:1117،چشتی) ترجمہ:حضرت شُعبہ سے مَروی ہے کہ سلمہ بن کُہیل فرماتے ہیں کہ میں نے حُجر ابو العنبَس سے سنا ہے وہ فرمارہے تھے کہ میں نے علقمہ بن وائل سے سنا ، وہ (اپنے والد) حضرت وائل بن حُجر سے نقل کرتے ہیں جبکہ (حضرت حُجر ابو العنبَس کے قول کے مطابق) میں نے خود بھی حضرت وائل بن حُجر سے سنا ہے کہ اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ نماز پڑھی ، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے (سورۃا لفاتحہ کے اختتام پر) ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾پڑھاتوآہستہ آواز میں آمین کہا ۔ سفیان ثوری اور شُعبہ کی روایت کا تعارض : حضرت وائل بن حُجر کی مذکورہ بالا روایت حدیث کی کئی معتبر کتابوں میں موجود ہے، اِس کو حضرت سُفیان ثوری اوراِمام شُعبہ دونوں ہی نے نقل کیا ہے، حضرت شُعبہ کی روایت میں آمین آہستہ کہنے کا تذکرہ ہے جبکہ حضرت سُفیان ثوری زور سے آمین کہنا نقل کرتے ہیں،اور دونوں ہی کی روایت کردہ حدیث صحیح ہے ،اس میں صحت و ضعف کا کوئی فرق نہیں ،لہٰذاروایات کے اِس تعارض کو دور کرنے کیلئے ترجیح کے طریقے پر عمل کیا گیا ہے ،آمین بالجہر کے قائلین نے حضرت سفیان ثوری کی روایت کو ترجیح دی ہے جبکہ آمین بالسّر کے مسلَک کو اختیار کرنے والے اِمام شُعبہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ﴿آمین بالسّر کی روایت کے راجح ہونے کی وجوہات﴾ حضرت شُعبہ کی روایت جس میں آمین کا سراً ہونا مذکور ہے ، اُس کے راجح ہونے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں : (1) آمین کے آہستہ کہنے کی روایت اَوفَق بالقرآن یعنی قرآن کریم کے زیادہ مطابق ہے،اِس لئے کہ ”آمین“بالاتفاق ایک دُعائیہ کلمہ ہے اور دُعاء کے بارے میں قرآن کریم کا حکم یہ ہے کہ اُسے آہستہ مانگنا چاہیئے ،پس اِسی لئے آمین کا کلمہ بھی آہستہ ہی کہنا چاہیئے ۔ (2) آمین کے آہستہ کہنے پربہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حتی کہ خلفاء راشدین اورحضرت عبد اللہ بن مسعود اور تابعین کا بھی عمل ہے جو خود ایک بہت بڑی وجہ ترجیح ہے جس سے حضرت شُعبہ کی آمین بالسّر کی روایت کا راجح ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ (3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا زورسے آمین کہنا تعلیم و تلقین کیلئے یعنی سکھانے کیلئے تھا ، مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی ،چنانچہ خود صحابی رسول حضرت ابووائل بن حجر نے اس کی صراحت کی ہے ، چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ”فَقَالَ : «آمِينَ» يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ مَا أَرَاهُ إِلَّا يُعَلِّمُنَا“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے (سورۃ الفاتحہ کے بعد) بلند آواز سے آمین کہا ،جس کے بارے میں میرا خیال یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےہمیں سکھانے کیلئے زور سے آمین کہا تھا ۔ ( الکنیٰ و الاسماء للدولابی:1090،چشتی) اِسی طرح حضرت وائل بن حُجر ہی کی ایک روایت میں ہے:”فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ:«آمِينَ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ“کے الفاظ مَروی ہیں،یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سورۃا لفاتحہ سے فارغ ہوئےتو تین مرتبہ آمین کہا ۔ (طبرانی کبیر:22/22) غور کیجئے !مذکورہ روایت کا اِس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں کہ یہ تین مرتبہ آمین کہنالوگوں کو تعلیم دینے اوراُنہیں سکھانے کیلئے تھا ،پس جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کاخلافِ معمول ایک سے زائد مرتبہ آمین کہنا لوگوں کو سکھانے کیلئے تھا اِسی طرح خلافِ معمول آواز سے آمین کہنا بھی تعلیم و تلقین کیلئے تھا،کوئی مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی ،ورنہ ان روایاتِ جہریہ کے ہوتے ہوئے حضرت عُمر ،حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابہ کرام کے سراً آمین کہنے کا کیا مطلب ہوگا ۔ (4) آمین کے زور سے کہنے کا مطلب بہت زیادہ اونچی آواز کے ساتھ آمین کہنا نہیں بلکہ اس سے”جہرِ خفیف“یعنی ہلکی آواز سے آمین کہنا مراد ہےجو سراً آمین کہنے کے خلاف نہیں ،اور اس کی تائید کئی روایات سے ہوتی ہے ،چنانچہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت ہےجس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آمین کہنے کی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے : ”حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر اتنی آواز سے آمین کہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے متصل پہلی صف کے کچھ لوگوں نے سنا ۔ (ابواداؤد:934) روایتِ مذکورہ میں ”مِنْ“ تبعیضیہ یعنی بعضیت کو بیان کرنے کیلئے ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ”پہلی صف کےکچھ لوگوں نے سنا“پوری صف کے لوگوں کا سننا مراد نہیں ، کیونکہ اگر یہ تبعیض کیلئے نہ ہو اور مطلب یہ لیا جائے کہ پہلی صف کے تمام لوگوں نے سن لیا تو یہ درست نہ ہوگا کیونکہ یہ کیسے مُمکن ہوسکتا ہے کہ پہلی صف میں دور تک دائیں بائیں جانب کےتمام لوگوں نے تو سن لیا ہو لیکن اِمام کے بالکل پیچھے قریب کے دوسری صف میں کھڑے ہوئےلوگوں تک بھی آواز نہ پہنچی ہو ۔اِسی طرح ایک روایت میں ہے :”حَتَّى يُسْمِعَ مَنْ يَلِيهِ“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اِتنی آواز سے آمین کہتے کہ اپنے سے متصل لوگوں کوسنادیا کرتے تھے۔(مصنّف عبد الرزاق:2632۔چشتی) پس اِن روایات کی روشنی میں روایاتِ جہریہ کا مطلب بھی ”جہرِ خفیف“ہی لیا جائے گا اوریہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ عمل بھی لوگوں کو تعلیم دینے اور سکھانے کیلئےتھا ۔پس اِس طرح روایات کا باہمی تضاد بھی باقی نہ رہے گا ،حضرات صحابہ کرام کے عمل کی اتباع بھی ہوجائے گی اور دُعاء کا جو اصل ادب ہے اُس کی رعایت بھی ہوسکے گی ۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ، عَنْ مَالِکٍ، عَنْ سُمَیٍّ، مَوْلَی أَبِی بَکْرٍ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَالَ الإِمَامُ:غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّینَ ۔ (الفاتحۃ: 7) فَقُولُوا:آمِینَ، فَإِنَّہُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُہُ قَوْلَ المَلاَئِکَۃِ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ۔ ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جب امام غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّین کہے تو تم آمین کہو کیوں کہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہو گا تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (صحیح بخاری، ج1، کِتَابُ الْاَذَان، باب جھَْرِ الْمَامُوْنِ بِا التَّامِیْن، ص342، حدیث743) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، وَابْنُ خَشْرَمٍ قَالَا : أَخْبَرَنَا عِیسیٰ بْنُ یُونُسَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا یَقُولُ: ” لَا تُبَادِرُوا الْاِمَامَ إِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُواوَإِذَا قَالَ:وَلَا الضَّالِّینَ فَقُولُوا: آمِینَ، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا: اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ۔ ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمیں تلقین کیا کرتے کہ امام سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کرو جب تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ وَلَا الضَّالِّینَ کہے تو تم آمین کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کہو۔ (صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، بَابُ اِتْمَامِ الْمَامُوْمِ بِالْاِمَامِ ، ص 345 ، حدیث، 836) نوٹ : چونکہ اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ آہستہ کہی جاتی ہے لہٰذا آمین بھی آہستہ کہی جائے اور فرشتوں کی آمین بھی آہستہ ہوا کرتی ہے ۔ حَدَّثَنَا سُلَیْمٰنُ بْنُ شُعَیْبٍ الْکَیْسَانِیْ قَالَ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا اَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ کَانَ عُمَرَ وَ عَلِیُّ لَا یُجْھَرَانِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ وَلَا بِالتَّعَوُّذِ وَلَا بِالتَّامِیْنِ۔ ترجمہ:حضرت وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما بِسْمِ اللّٰہ، اعوذ باللّٰہ اور آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔(طحاوی شریف، ج1، باب قِرْأَۃِ بِسْمِ اللّٰہ فِیْ الصَّلوٰۃِ، ص419، حدیث1119۔چشتی) عَنِ الثَّوْرِیِّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ: خَمْسٌ یُخْفَیْنَ: سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَالتَّعَوُّذُ، وَبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، وَآمِینَ، وَاللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔ ترجمہ : حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پانچ باتیں آہستہ کہی جائیں (1) سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِک(2)اَعُوْذُ بِاللّٰہ(3)بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، (4)آمِینَ اور(5) اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔(مصنف عبد الرَّزَّاق، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَا یُخْفِی الْإِمَامُ، حدیث2597)۔
  14. محمد حسن عطاری

    Nahf Al Kabir

    Nahf AL Kabir.pdf
  15. Oun Ul Iftah Sharah Noor ul Aizah .pdf Oun Ul Iftah Sharah Noor ul Aizah .pdf
×
×
  • Create New...