Jump to content

محمد حسن عطاری

اراکین
  • کل پوسٹس

    855
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    25

سب کچھ محمد حسن عطاری نے پوسٹ کیا

  1. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام شمس الدین ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان الذهبی رحمة الله علیہ متوفٰی۷٤٨ھ پس جب تمام اہل ایمان کا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ پر اجماع و اتفاق ہو گیا اور سیدنا امام حسن بن علی رضی الله عنہما نے امر خلافت سے نزول فرمایا تو اس سال کو عام الجماعة ( یعنی مسلمانوں کے اجماع و اتحاد ) کا نام دیا گیا اور ساری امت ایک شخص پر متفق ہو گئی ۔ یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ اس سال مملکت اسلامیہ میں موجود تمام لوگوں نے افضل شخص کی موجودگی میں مفضول کی خلافت کو جائز سمجھا ۔ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی بیعت کی حالانکہ وہ بالیقین ان سے افضل تھے ۔ جیسے حضرت سعد ، حضرت ابن عمر ، حضرت حسن اور متعدد اصحاب بدر و حدیبیہ رضی الله عنہم اجمعین ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیا تھے؟ بشری کمزوریوں کے باوجود ( بخدا ) وہ منصبِ امارت کے قابل صاحبِ شرف و ھیبت ، صاحبِ حلم ، بہت سخی ، بڑی خوبیوں کے مالک تھے ۔ اسی بناء پر الله تعالی ان سے مسامحت فرما کر ان سے درگزر فرمائے گا ۔ اسلامی سلطنت کے پہلے بادشاہ تھے بہت زیرک اور دوراندیش ۔ مگر خلفائے راشدین کے مقام و مرتبے کو نہ پہنچے ۔ حاشا و کلا ۔ حوالہ درج ذیل ہے المقدمة الزهرا في إيضاح الإمامة الكبرى ، لامام ابى عبد الله محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، ص 22 تا 23 ، مطبوعة دار الفرقان للنشر و التوزيع القاهرة ، طبع اول ١٤٢٩ه‍/٢٠٠٨ء
  2. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو المظفر منصور بن محمد بن عبد الجبار السمعانى الشافعی رحمة الله علیہ متوفٰی٤٨٩ه‍ یہ بات حاشیہ ادراک میں رکھ لیجئے کہ تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم عدول ہے ( یعنی اہل عدالت ہیں ) اور ان سب کی روایت بلا تخصیص قبول کرنا واجب ہے معتزلہ کا مذہب ہے کہ صحابہ میں فاسقوں کا گروہ تھا اور ان میں سے کثیر نے فسق کیا اور یہ وہ اصحاب جنہوں نے حضرت علی المرتضٰی رضی الله عنہ سے جنگ کی خصوصاً حضرت امیر معاویہ ، حضرت عمرو بن العاص اور دیگر صحابہ و تابعین میں سے جو حضرت امیر معاویہ کے ساتھ تھے اور بعض فوت ہوئے ، ( ان میں ) حضرت ابو طلحہ ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی الله عنہم اجمعین ( بھی شامل تھے ) ان میں سے کثیر معتزلہ نے دعویٰ کیا کہ ان صحابہ نے فسق کیا اور پھر تائب ہوئے ۔ معتزلہ کہتے ہیں : ہمیں ان تین کی توبہ کا علم ہے مگر معاویہ اور ان کے ساتھیوں کی توبہ کا علم نہیں ۔ ہم الله تعالی کی بارگاہ میں معتزلہ کے اس قول سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ ان لوگوں نے حضرت علی المرتضٰی کرم الله وجہہ الکریم کے ساتھ تاویل کی بناء پر قتال کیا کیونکہ امامِ حق حضرت عثمان رضی الله عنہ کو ناحق شہید کیا گیا ۔ اور قاتلین حضرت علی المرتضٰی رضی الله عنہ کے اعوان و انصار تھے اور سب ان کے ساتھ تھے اور اس کے ساتھ یہ دعوی بھی ہے کہ حق حضرت علی المرتضٰی رضی الله عنہ کے ساتھ تھا لیکن ہم ان لوگوں کو فاسق نہیں کہتے کیونکہ وہ اس معاملے میں تاویل کرنے والے تھے ۔ اس لیے بھی ان کی تفسیق نہیں کرتے کہ تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کی عدالت قطعی ہے اس لئے دلیل قطعی کے بغیر ان سے عدالت زائل نہ ہو گی ۔ حوالہ درج ذیل ہے قواطع الأدلة في الأصول ، لامام ابى المظفر منصور بن محمد بن عبد الجبار السمعاني الشافعی ، تحت " احوال الراوى و الشرائط المعتبرة فيه ، جلد 1 ص 343 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤١٨ه‍/١٩٩٧ء
  3. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام شہاب الدین ابو العباس احمد بن ادریس بن عبد الرحمن الصنهاجى القرافی المالکی رحمة الله علیہ متوفٰی٦٨٤ھ اگر کوئی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ یا کسی دوسرے صحابی کو گالی دے ( تو اس کے حکم میں تفصیل ہے ) اگر انہیں گمراہی اور کفر کی طرف منسوب کرے تو واجب القتل ہے یا عوامی حماقتوں میں سے کسی حماقت کا اظہار کرے تو اسے سخت سزا دی جائے ۔ حوالہ درج ذیل ہے الذخيرة فى فروع المالكية ، لامام شهاب الدين ابى العباس احمد بن ادريس بن عبد الرحمن القرافى المالكى ، تحت " كتاب الجنايات ، جلد 9 ص 320 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء
  4. عقیدہ حاضر و ناظر حاضروناظر کا معنی مختار الصحاح میں ابن ابی بکر رازی کہتے ہیں: الناظر فی المقلۃ السواد الاصغر الذی فیہ الماء العین۔ (المختار الصحاح ص 491) جہاں تک ہماری نظر کام کرے وہاں تک ہم ناظر ہیں اور جس جگہ تک ہماری دسترس ہو کہ تصرف کرلیں وہاں تک ہم حاضر ہیں۔ روح اعظم کی کائنات میں جلوہ گری نبی اکرم ﷺ کے لیے لفظ حاضروناظر بولا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کی بشریت مطہرہ اور جسم خاص ہر جگہ ہر شخص کے سامنے موجود ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ اپنے مقام رفیع پر فائز ہونے کے باوجود تمام کائنات کو ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح ملاحظہ فرماتے ہیں نبی اکرم ﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے اعتبار سے بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوسکتے ہیں اور اولیائے کرام بیداری میں آپ کے جمال اقدس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضور انور ﷺ بھی انہیں نظر رحمت و عنایت سے مسرور و محفوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضور ﷺ کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا، سرکار کے حاضروناظر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھناحضور کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ عقیدہ ظنیہ اور از قبیل فضائل ہے۔ اس کے لیے دلائل قطعیہ کا ہونا ہی ضروری نہیں، بلکہ دلائل ظنیہ بھی مقید مقصد ہیں۔ قرآن سے ثبوت 1: ارشاد باری تعالیٰ ہے: یایھاالنبی انا ارسلنک شاھدا الاحزاب 33 اے غیب کی خبریں دینے والے بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضروناظر ۔ علامہ ابوالسعود اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں اے نبی! ہم نے تمہیں ان لوگوں پر شاہد (حاضروناظر) بنا کر بھیجا جن کی طرف آپ مبعوث ہیں۔ آپ ان کے احوال و اعمال کا مشاہدہ اور نگرانی کرتے ہیں۔ آپ ان سے صادر ہونے والی تصدیق و تکذیب اور ہدایت و ضلالت کے بارے میں گواہی حاصل کرتے ہیں اور قیامت کے دن ان کے حق میں یا ان کے خلاف جو گواہی آپ دیں گے مقبول ہوگی۔ تفسیر ابوالسعود ج 7 ص 42، احیاء التراث العربی، بیروت علامہ سلمان جمل نے الفتوحات الالٰہیہ ج 2 ص 442 اور علامہ سید محمود آلوسی نے تفسیر روح المعانی ج 22 ص 45 میں یہی تفسیر کی ہے۔ امام محی السنۃ علاءالدین خازن رحمہ اللہ علیہ نے نے ایک تفسیر یہ بیان کی ہے شاھدا علی الخلق کلھم یوم القیامۃ۔ آپ قیامت کے دن تمام مخلوق پر گواہ ہوں گے۔ (تفسیر لباب التاویل فی معانی التنزیل ج 5 ص 266، مصطفیٰ البابی مصر) نبی اکرم ﷺ کی دعوت اسلام ہرمومن و کافر کو شامل ہے۔ لہذا امت دعوت میں ہر مومن و کافر داخل ہے۔ البتہ! امت اجابت میں صرف وہ خوش قسمت افراد داخل ہیں جو حضور ﷺ کی دعوت پر مشرف بااسلام ہوئے۔ آیت مبارکہ کی تفسیر میں علی من بعثت الیھم (جن کی طرف آپ کو بھیجا گیا) اور علی الخلق کلھم کہہ کر حضرات مفسرین نے اشارہ کیا ہے کہ آپ صرف اہل ایمان کو ہی نہیں، بلکہ کافروں کے احوال بھی مشاہدہ فرمارہے ہیں۔ اسی لیے آپ مومنوں کے حق میں اور کافروں کے خلاف گواہی دیں گے۔ امام فخرالدین رازی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمان شاھدا میں کئی احتمال ہیں (پہلا احتمال یہ ہے کہ )آپ قیامت کے دن مخلوق پر گواہی دینے والے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ویکون الرسول علیکم شھیدا (رسول تم پر گواہ ہوں گے اور نگہبان) اس بنا پر نبی اکرم ﷺ شاہد بنا کر بھیجے گئے ہیں، یعنی آپ گواہ بنتے ہیں اور آخرت میں آپ شہید ہوں گے یعنی اس گواہی کو ادا کریں گے جس کے آپ حامل بنے تھے۔ 📘 ( تفسیر کبیر ج 25 ص 216) علامہ اسماعیل حقی فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کا مطلب یہ ہے کہ اس ظاہر و باطن میں آپ ﷺ کی سنت کی حقیقی پیروی کی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ آپ موجودات کا خلاصہ اور نچوڑ ہیں۔ آپ ہی محبوب ازلی ہیں، باقی تمام مخلوق آپ کے تابع ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا۔ چونکہ نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کی پہلی مخلوق ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ربوبیت کے شاہد ہیں اور عدم سے وجود کی طرف نکالی جانے والی تمام ارواح ، نفوس، احرام و ارکان، اجسام و اجساد، معدنیات ، نباتات، حیوانات، فرشتوں، جنات، شیاطین اور انسانوں وغیرہ کےشاہد ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے افعال کے اسرار عجائب صنعت اور غرائب قدرت میں سے جس چیز کا ادراک مخلوق کے لیے ممکن ہو وہ آپ کے مشاہدہ سے خارج نہ رہے، آپ کو ایسا مشاہدہ عطا کیا کہ کوئی دوسرا اس میں آ پ کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا علمت ماکان وما یکون (ہم نے جان لیا وہ سب جو ہوچکا اور جو ہوگا) کیونکہ آپ نے سب کا مشاہدہ کیا۔ اور ایک لمحہ بھی غائب نہیں رہے۔ آپ نے آدم علیہ السلام کی پیدائش ملاحظہ فرمائی، اسی لیے فرمایا: ہم اس وقت بھی نبی تھے جب کہ آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے درمیان تھے، یعنی ہم پیدا ہوگئے تھے اور جانتے تھے کہ ہم نبی ہیں اور ہمارے لیے نبوت کا حکم کیا گیا ہے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کا جسم اور ان کی روح ابھی پیدا نہیں کی گئی تھی۔ آپ نے ان کی پیدائش، اعزاز و اکرام کا مشاہدہ کیا اور خلاف ورزی کی بنا پر جنت سے نکالا جانا ملاحظہ فرمایا: آپ نے ابلیس کی پیدائش دیکھی اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے سبب اس پر جو کچھ گزرا ، اسے راندہ درگاہ اور ملعون قرار دیا گیا، سب کچھ ملاحظہ فرمایا، ایک حکم کی مخالفت کی بنا پر اس کی طویل عبادت اور وسیع علم رائگاں گیا۔ انبیاء ورسل اور ان کی امتوں پر وارد ہونے والے حالات کے علوم آپ کو حاصل ہوئے۔ 📘 (روح البیان ج 9 ص 18) ویکون الرسول علیکم شھیدا۔ اور یہ رسول تمہارے گواہ (اور حاضروناظر ہیں) (البقرہ آیت 143) علامہ اسماعیل حقی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہم الرحمہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے گواہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نور نبوت کے ذریعہ ہر دیندار کے بارے میں جانتے ہیں کہ اس کے دین کا مرتبہ کیا ہے ، اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے اور اس حجاب کو بھی جانتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمال دین سے روک دیا گیا ہے۔ پس آپ امتیوں کے گناہ، ان کے ایمان کی حقیقت، ان کے اعمال ، نیکیوں، برائیوں اور اخلاص و نفاق وغیرہ کو جانتے ہیں۔ روح البیان ج 9 ص248 تفسیر عزیزی فارسی ج 1 ص 518 امام ابن الحاج فرماتے ہیں نبی اکرم ﷺ اپنی امت کو ملاحظہ فرماتےہیں۔ ان کے احوال نیتوں، عزائم اور خیالات کو جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آپ کی حیات مبارکہ اور وصال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ آپ پر عیاں ہے اور اس میں کچھ اخفا نہیں ہے۔ (المدخل، ج 1 ص 262، ) وجئنا بک علی ھؤلاء شھیدا۔ اور ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔ (النساء 41) ان آیات مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ کو شاہد اور شہید کہا گیا ہے۔ ان دونوں کا مصدر شہود اور شہادت ہے۔ آئیے دیکھیں کہ علماء لغت اور ائمہ دین نے اس کا کیا معنی بیان کیا ہے امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں الشھود والشھادۃ الحضور مع المشاھدۃ اما بالبصر او بالبصیرۃ والشھادۃ قول صادر عن علم حصل بمشاھدۃ بصیرۃ او بصر۔۔۔ واما الشھید فقد یقال للشاھد والمشاھد للشئ وکذا قولہ فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھؤلاء شھید۔ ترجمہ: شہود اور شہادۃ کا معنی مشاہدہ کے ساتھ حاضر ہونا ہے۔ مشاہدہ آنکھ سے ہو یا بصیرت سے شہادت اس قول کو کہتے ہیں جو آنکھ یا بصیرت کے مشاہدہ سےحاصل ہونے والے علم کی بنا پر صادر ہو، رہا شہید تو وہ گواہ اور شے کا مشاہدہ کرنے والے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہی معنی ہے (جس کا ترجمہ ہے) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔ ( المفردات ص 269، 70) امام رازی فرماتے ہیں شہادت ، مشاہدہ اور شہود کا معنی دیکھنا ہے، جب تم کسی چیز کو دیکھو تو تم کہتے ہو شھدت کذا (میں نے فلاں چیز دیکھی) چونکہ آنکھ کے دیکھنے اور دل کے پہچاننے میں شدید مناسبت ہے، اس دل کی معرفت اور پہچان کو بھی مشاہدہ اور شہود بھی کہا جاتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج 4 ص 113، 114) امام قرطبی فرماتے ہیں شہادت کی تین شرطیں ہیں جن کے بغیر وہ مکمل نہیں ہوتی 1: حاضر ہونا 2: جو کچھ دیکھا ہے اسے محفوظ رکھنا 3: گواہی کا ادا کرنا 📘( التذکرہ ص 183) امام ابوالقاسم قشیری فرماتے ہیں ومعنی الشاھد الحاضر فکل ما ھو حاضر قلبک فھو شاھد لک (الرسالہ القشیریہ ص 47) قرآن پاک سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ شاہد ہیں اور شاہد کا معنی حاضر ہے جیسے کہ امام قشیری نے فرمایا کہ امام اصفہانی کے مطابق شہادت کا معنی حضور مع المشاہدہ ہے۔ خواہ مشاہدہ سر کی آنکھوں سے ہو یا دل کی بصیرت سے۔ کہنے دیجیے کہ قرآن پاک کی آیات سے ثابت ہوگیا کہ حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نےحاضروناظر بنایا ہے۔ اس عقیدے کو اپنی نادانی کی بنا پر کوئی شخص نہیں مانتا تو بے شک نہ مانے لیکن اسے شرک قرار دینے کا کوئی قطعا جواز نہیں ہے۔ حضور ﷺ کس کی نسبت سے حاضروناظر ہیں؟ اس سے پہلے مستند تفاسیر کے حوالہ سے بیان کیا جاچکا ہے۔ امام رازی اور امام خازن نے فرمایا کہ آپ قیامت کے دن تمام مخلوق پر گواہ ہوں گے، امام ابوسعود نے فرمایا: جن کی طرف آپ کو بھیجا گیا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے جو امام رازی نے بیان کیا کیونکہ حدیث پاک میں ہے: ارسلت الی الخلق ۔ ہم تمام مخلوق کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 1167، ج 2) مخالفین کہتے ہیں کہ شاہد اور شہید کے الفاظ دوسرے لوگوں کے لیے بھی وارد ہوئے ہیں کیا آپ انہیں بھی نبی اکرم ﷺ کی طرح حاضروناظر مانیں گے؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر شاہد اپنی شہادت کے دائرہ کار تک حاضروناظر رہتا ہے، نبی اکرم ﷺ تو تمام امت اور تمام مخلوق کے شاہد ہیں، کوئی ایسا شاہد نہیں پیش کیا جاسکتا جس کی شہادت کا دائرہ اتنا وسیع ہو، لہذا نبی اکرم ﷺ کی طرح کسی کو حاضروناظر ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم۔ (الاحزاب آیت 6) علامہ آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا النبی اولی) ای احق واقرب الیھم (من انفسھم) نبی ان کی جانوں کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں اور ان کے زیادہ قریب ہیں۔ (روح المعانی ج 21 ص 151) شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے پیغمبر نزدیک تر است بمومناں از ذات ہائے ایشاں۔ (مدارج النبوۃ فارسی ج 1 ص 81) پیغمبر مومنوں کے زیادہ قریب ہیں ان کی ذوات سے بھی۔ دیوبندی مکتب فکر کا پہلا امام قاسم نانوتوی کہتا ہے النبی اولی بالمومنین من انفسھم جس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نزدیک ہے مومنوں سے بہ نسبت ان کی جانوں کے یعنی ان کی جانیں ان سے اتنی نزدیک نہیں جتنا نبی ان سے نزدیک ہے۔ اصل معنی اولیٰ کے اقرب ہیں۔ (آب حیات ، ص 73 تحذیرالناس ص 10) اللہ اکبر! عقیدہ حاضروناظر کی کتنی کھلی تائید اور ترجمانی ہے۔ اب بھی اگر کوئی شخص نہ مانے تو ہمارے پاس اس کا کیا علاج ہے؟ کیا یہ قرب صرف صحابہ کرام سے خاص تھا یا قیامت تک آنے والے تمام مومنوں کو شامل ہے؟ اس سلسلےمیں امام بخاری کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ خود کریں۔ ما من مومن الا وانا الناس بہ فی الدنیا والاخرۃ ہم دنیا اور آخرت میں دوسرے تمام لوگوں کی نسبت ہرمومن کے زیادہ قریب ہیں۔ (صحیح البخاری ج 2 ص 705، حدیث نمبر 2399)
  5. قارئین کرام! جیسے کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ دیوبندیوں کی طرف سے اور بالخصوص ابو عیوب اینڈ کمپنی کی طرف سے امام اہل سنت پر اعتراض ہوتا ہے کہ آپ نے حالت جنابت میں درود شریف پڑھنے کو جائز لکھا ہے. اور دوسری طرف دیوبندی علامہ فیض احمد اویسی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فیض احمد اویسی صاحب کے فتوے سے امام اہل سنت گستاخ قرار پاتے ہیں. آئیے سب سے پہلے ہم امام اہل سنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ اور فیض احمد اویسی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں 📝 دونوں کتب کی اصل عبارات کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں : 🔮 امام اہل سنت کی کتاب عرفان شریعت کی عبارت ہے کہ "اور درود شریف پڑھ سکتا ہے مگر کلی کے بعد چاہئے" 📗 عرفان شریعت صفحہ40 🔮 حضرت فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ہے: "لیکن یہ ہیں کہ آج کل کے مفتی او مفت کہ فتاوی جڑ دیا کہ جنابت کے وقت درود پڑھنا جائز اتنا شرم نہیں کہ درود شریف فی الفور بارگاہ رسالت میں پہنچ کر فورا ایجاب رسول خدا ہوتا ہے لیکن مجبور ہیں ایسے بدبخت مفتی کیوں کہ عشق رسول ﷺ سے محروم ہیں ۔۔ 📘 شہد سے میٹھا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 139،140 اسی طرح ابو عیوب دیوبندی نے پیر مہر علی شاہ صاحب کا ایک نقل کیا اور اس سے بھی بے ادبی ثابت کرنے کی کوشش وہ تو آنے والے وقت میں ہم اپنے قارئین کو بتائیں گے کہ پیر صاحب کا مقام و مرتبہ دیوبندیوں کے نزدیک کیا ہے اس سے پہلے آپ پیر صاحب کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں پیر مہر علی شاہ صاحب فرماتے ہیں *"بے وضو اور ناپاک راستے میں دورود شریف پڑھنا بے ادبی ہے"* فتاویٰ مہر یہ، ص، 187 قارئین کرام! آپ نے دونوں عبارتوں کو ملاحظہ فرمایا اور پیر مہر علی شاہ صاحب کی بھی، دیوبندی ان حوالوں کو پیش کرکے بہت خوش ہوتے ہیں کہ دیکھو تمہارے فیض احمد اویسی صاحب کے فتوے سے اعلیٰ حضرت گستاخ ہوئے. جب دماغ بند ہو اور اس میں گندھ بھی ہو تو دیوبندی اس طرح کی باتیں کرکے اپنے ساہ دل کو تسکین پہنچاتے ہے. امام اہل سنت نے جو فتویٰ لکھا ہے وہ بالکل درست اور صحیح ارشاد فرمایا کیونکہ وہ جمہور کا علماء سے ثابت ہے. یہاں تک کہ دیوبندیوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا اور فتویٰ دیا ہے کہ حالت جنابت میں درود شریف پڑھنا جائز ہے دیوخوانی مولوی تقی عثمانی سے ایک سوال ہوا جس کے جواب میں تقی عثمانی دیوبندی جواب دیتا ہے "حالت جنابت میں صرف قرآن کریم کی تلاوت ممنوع ہے لیکن دعائیں اذکار و تسبیحات اور درود شریف پڑھنا ناجائز نہیں، البتہ مستحب یہ ہے کہ درود شریف اور اذکار و دعا کے لئے کم ازکم وضو کرلے ۔۔ 📜 فتاوی عثمانی جلد 01 صفحہ 330 اسی طرح ہم آپ کے سامنے دیوبندیوں بڑے بڑے مفتیوں کے فتاوٰی بھی یہی نقل کردیتے کہ آئندہ کسی دیوبندی کو اعتراض کی گنجائش باقی نہ رہے حالتِ جنابت میں قرآنِ کریم یا درود پڑھنا سوال بیوی سے ہم بستری کے بعد اگر غسل نہیں کیا ہو تو کیا قرآنِ کریم کی کوئی سورت یا کوئی درود شریف جو زبانی یاد ہو، پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ جواب حالتِ جنابت میں قرآنِ کریم چھوئے بغیر زبانی تلاوت بھی جائز نہیں۔ البتہ قرآنِ پاک کی وہ آیات جو دعا کے معنیٰ پر مشتمل ہوں (مثلاً: آیۃ الکرسی یا قرآنی دعائیں وغیرہ) انہیں دعا یا وِرد کی نیت سے پڑھنے کی، اسی طرح درود شریف پڑھنے کی گنجائش ہے، تاہم اس کے لیے بھی مستحب ہے ان اَذکار سے پہلے وضو کرلیا جائے۔ الفتاوى الهنديہ (2 / 44) ( ومنها) حرمة قراءة القرآن، لاتقرأ الحائض والنفساء والجنب شيئاً من القرآن، والآية وما دونها سواء في التحريم على الأصح، إلا أن لايقصد بما دون الآية القراءة مثل أن يقول: الحمد لله يريد الشكر أو بسم الله عند الأكل أو غيره فإنه لا بأس به الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1 / 293) "(ولا بأس) لحائض وجنب (بقراءة أدعية ومسها وحملها وذكر الله تعالى، وتسبيح) و في الرد "(قوله: ولا بأس) يشير إلى أن وضوء الجنب لهذه الأشياء مستحب، كوضوء المحدث". فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 144103200326 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ یوسف بنوری ٹاؤن ناپاکی یا حالت جنابت میں ذکراللہ یا درود شریف یا کچھ ایسا کلمہ جیسے سبحان اللہ ماشاءاللہ الحمدللہ وغیرہ کہنا کیسا ہے؟ سوال ناپاکی یا حالت جنابت میں ذکراللہ یا درود شریف یا کچھ ایسا کلمہ جیسے سبحان اللہ ماشاءاللہ الحمدللہ وغیرہ کہنا کیسا ہے؟ جواب Ref No. 40/792 الجواب وباللہ التوفیق بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جائز اور درست ہے، ذکراللہ ، تسبیح اور درود شریف کے لئے وضو کی ضرورت نہیں البتہ حالت جنابت میں احتیاط یہ ہے کہ جلد غسل کرلے اور پاکی کی حالت میں ذکر کرے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند ماخذ :دار الافتاء دار العلوم (وقف) دیوبند فتوی نمبر :1393 تاریخ اجراء :Sep 22, 2018, قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ دیوبندیوں کے مفتیوں نے بھی یہی بات لکھی ہے جو امام اہل سنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کی ہے. اب آتے ہیں علامہ فیض احمد اویسی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت طرف، یہ علامہ صاحب کی اپنی ذاتی رائے ہے، اب علامہ صاحب کی ذاتی رائے کو پیش کرکے پوری جماعت پر تھوپنا کسی دجال ہی کا ہوسکتا ہے بقول دیوبندیوں کے آئے ملاحظہ فرمائیں *الغرض کسی آٓدمی کی ذاتی رائے جس کو جماعت نے قبول نہ کیا ہو ، اس کو جماعت کا عقیدہ قرار دینا کسی دجّال کا ہی کام ہوگا ۔* [ مسئلہ وحدة الوجود ، صفحہ ٧ ۔۔۔ آز محمود عالم صفدر ] لہٰذا ابو عیوب اینڈ کمپنی کو پنا دجال ہونا مبارک ہو پھر بھی اگر کوئی وہابی دیوبندی سرپھرا اپنے علماء دیوبند کا باغی بن کر یہ کہے کہ نہیں جی یہ مذموم اختلاف ہے، تو اس پر ہم دیوبندی کو اسی کے اپنے مولوی کا گیلا جوتا اس کے سر پر مارتے ہیں دیوبندی مولوی لکھتا ہے اگر فقہی اعتبار سے کوئی موقف جمہور کے خلاف ہو، تو اکثر اور جمہور فقہائے کرام کے نزدیک وہ بھی مذموم نہیں (علمی و تحقیقی رسائل، 8-380) دیوبندی مولوی لکھتا ہے *"اور جمہور کی مخالفت کرنے والے پر شذوذ کی وعید صادق نہیں آتی"* (علمی و تحقیقی رسائل جلد،٨،ص،٤٠٣) قارئین کرام! دیکھا آپ نے جو دیوبندی اس مسئلہ کو مذموم اختلاف بناکر پیش کررہے تھے ہم نے اللہ کے فضل سے دیوبندیوں کے گھر سے یہ ثابت کردیا کہ یہ مذموم اختلاف ہرگز نہیں اور جس نے جمہور کی مخالفت کی اس پر شذوذ کی وعید صادق نہیں آتی.. اب کس منہ سے دیوبندی اعتراض کرتے ہیں ہم اپنے قارئین سے کہے گے کہ ان اصولوں کو یاد رکھے دیوبندی جو بھی اعتراض کرے ان اصولوں کو سامنے رکھے تو ان کے اعتراضات کی کوئی حقیقت نہیں رہتی انکے اپنے علماء نے ان کے سروں پر جوتے مارے ہے پیر مہر علی شاہ صاحب کا حوالہ دے کر ابو ایوب اینڈ کمپنی نے بے ادبی ثابت کرنے کی کوشش کی مگر ابو ایوب دیوبندی اپنی کتاب دست و گریباں میں لکھتا ہے اور ہے بھی یہی بات کے شاہ صاحب (پیر مہر علی) بریلوی نہ تھے (دست و گریباں ج،١/٧٠) ایک طرف تو پیر مہر علی شاہ صاحب کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ وہ بریلوی نہیں ہے اور دوسری طرف انکو علماء اہل سنت بریلوی میں شمار کرکے بریلوی بھی بتایا جارہا ہے اس تضاد بیانی کے کے بارے میں ابو ایوب خود کہتا ہے جس کی باتوں میں تضاد ہو وہ جاہل ہوتا ہے (دست و گریباں) لہٰذا دیوبندیوں کو اپنا جاہل ہونا مبارک. اور پھر خود دیوبندیوں نے پیر مہر علی شاہ صاحب کو اولیاء دیوبند میں شمار کیا ہے حوالہ محفوظ اب جو دیوبندی پیر صاحب کے فتوے نقل کرکے امام اہل سنت اور آپکے والد علامہ نقی علی خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو بے ادب ثابت کرنے کی کوشش کی وہ فتویٰ اب خود دیوبندیوں کے گلے میں اٹگ گیا دیوبندی خود اپنے ہی اصول سے بے ادب گستاخ ثابت ہوگئے الحمدللہ ہم نے دیوبندیوں کے اس اعتراض کا منہ توڑ جواب دے دیا ہے اب اگر کسی دیوبندی میں جواب لکھنے ہمت ہو تو سب سے پہلے اپنے علماء کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب لکھے
  6. The discourse of the Fuqaha about building over graves is from two perspectives: 1. Building in a graveyard allocated for the burial of the dead from the Muslims, and on this the four madhhabs have agreed it is prohibited [muharrama], and that this action necessitates the destruction of that structure, and they provided reasons for this: that it is forced occupation of that space without due right, and the place becomes restricted by the structure. (Among those who related agreement on this are Imam Nawawi al-Shafii in al-majmu‘ (5/266), Imam al-Hattab al-Maliki in mawahib al-jalil (2/245) and Imam al-Buhuti al-Hanbali in kashshaf al-qina‘ (2/211)) 2. Building in an unallocated graveyard, which may be a private graveyard or its like, and the discourse surrounding this is from two perspectives: a. That the intention for building over the grave is adornment, ostentation and boasting; this is prohibited [haram] according to the majority of the Fuqaha, and this was said by the Malikis, Hanafis and Hanbalis (See Radd al-Muhtar by Imam Ibn Abidin al-Hanafi (2/237), Al-Mawahib al-Jalil by Imam al-Hattab al-Maliki (2/242) and Al-Furu‘ by Ibn al-Muflih al-Hanbali (2/272)) b. That the intention for building is not for ostentation and boasting; on this the Fuqaha have agreed on its undesirability [karaha] (See Al-bahr Al-Ra’iq by Imam Ibn Nujaym al-Hanafi (2/209), Mawahib al-Jalil by Imam al-Hattab al-Maliki (2/245) and Al-Majmu‘ by Imam al-Nawawi al-Shafii (5/166) and Sharh al-Muntaha al-Iradat by Imam al-Buhuti al-Hanbali (2/142)) Note: some Fuqaha have adopted (the position that it is) acceptable to build over graves in an unallocated graveyard, without undesirability. It is a view according to the Hanafis Ibn Abidin related in al-Hashiya (2/237) in his statement [after quoting the mu‘tamad opinion] ‘and from the laws in Jami‘ Al-Fatawa (it is stated): it has been said building is not undesirable when the dead is from the masha’ikh and the ‘ulama’ and the high-ranking’; and a view according to the Malikis related by Ibn al-Hattab in al-mawahib al-jalil (2/243) in his statement ‘as for the disagreement over building lodges over them when it is not in a restricted land, and is in unassigned places and in the possession of men, Ibn al-Qassar deemed that permissible and others have said the apparent (position) of the madhhab is the opposite of this’. لكلام عن البناء على القبور من جهتين عند الفقهاء : الأولى : البناء على المقبرة المسبلة لدفن موتى المسلمين وهذا قد اتفق أصحاب المذاهب الأربعة على أنه محرم وأن هذا الفعل موجب لهدم ذلك البناء وعللوه بعلل منها : أنه غصب لذلك المكان بغير حق ، وفيه تضييق للمكان بذلك البناء . وممن حكى الإتفاق على هذا الإمام النووي الشافعي في ” المجموع ” (5/266) ، و الإمام الحطاب المالكي في ” مواهب الجليل ” (2/245) ، والإمام البهوتي الحنبلي في ” كشاف القناع ” (2/211) . الثانية : البناء في غير المقبرة المسبلة كأن يكون البناء في مقبرة خاصة ونحوه وهذا الكلام فيه من جهتين : الأولى : أن يكون القصد من البناء على القبر الزينة والمباهاة والمفاخرة فهذا حرام عند جمهور الفقهاء وبه قال الحنفية والمالكية والحنابلة . انظر :” رد المحتار ” للإمام ابن عابدين الحنفي (2/237) ، و ” مواهب الجليل ” للإمام الحطاب المالكي (2/242) ، و ” الفروع ” لإبن مفلح الحنبلي (2/272) . الثانية : أن لايكون البناء بقصد المباهاة والمفاخرة فهذا قد اتفق الفقهاء على كراهته . انظر : ” البحر الرائق ” للإمام ابن نجيم الحنفي (2/209) ، و ” مواهب الجليل ” للإمام الحطاب المالكي (2/245) ، و” المجموع ” للإمام النووي الشافعي (5/166) ، و ” شرح منتهى الإرادات ” للإمام البهوتي الحنبلي (2/142) . تنبيه : ذهب بعض الفقهاء إلى القول بجواز البناء على القبور في المقبرة ( غير المسبلة ) من غير كراهة وهو قول عند الحنفية حكاه ابن عابدين في ” الحاشية ” (2/237) بقوله : وفي الأحكام عن جامع الفتاوى : وقيل لايكره البناء إذا كان الميت من المشايخ والعلماء والسادات . أهـ ، وقول عند المالكية حكاه الحطاب في ” مواهب الجليل ” (2/243) بقوله : وأما الخلاف في بناء البيوت عليها إذا كانت في غير أرض محبسة وفي المواضع المباحة وفي ملك الإنسان فأباح ذلك ابن القصار وقال غيره : ظاهر المذهب خلافه انتهى . يتبع إن شاء الله تعالى
  7. حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب زیادہ حلیم و بردبار تھے السنتہ الخلال صفحہ 443 رقم 681 حضرت سیدنا مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر تم سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو کہتے یہی مہدی یعنی ہدایت یافتہ ہیں السنتہ الخلال صفحہ 438 رقم 669 امام عمش رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے عدل و انصاف کا تذکرہ ہوا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کاش اپ لوگ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ دیکھ لیتے السنتہ الخلال صفحہ437 رقم 667 ایک دفعہ امام احمد بن حنبل رحتہ اللہ علیہ سے ایک شخص نے عرض کی اے ابو عبداللہ میرا ماموں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بدگوئی کرتا ہے بعض اوقات مجھے اس کے ساتھ کھانا پڑتا ہے ؟ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فورا ارشاد فرمایا اس کے ساتھ کھانا مت کھایا کرو السنتہ الخلال صفحہ 448 رقم693 حضرت معافی بن عمران رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ جیسے چھ سو بزرگوں سے بھی افضل ہیں السنتہ الخلال صفحہ 435 رقم 664
  8. حضرت سیدنا عبدالوہاب شعرانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس نے صحابہ اکرام علیھم الرضوان کی عزت پر حملہ کیا یقینا اس نے اپنے ایمان پر حملہ کیا اسی لیے اس کا سدباب لازم ہے خاص طور پر حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ زیادہ اہم ہے الیواقیت والجواہر صفحہ 445
  9. حضرت سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جیسی حکمرانی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کی ہے ویسی حکومت اس امت کا کوئی فرد نہیں کرے گا طبقات ابن سعد جلد 6 صفحہ نمبر 20
  10. فاتح مصر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والا حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہتر نہیں دیکھا ابن عساکر جلد 59 صفحہ 161
  11. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا میرے بعد گروہ بندی سے بچنا اگر تم نے ایسا کیا تو یاد رکھو کے امیر معاویہ شام میں ہوں گے( یعنی اگر تم نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تمہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے ابن عساکر جلد 59 صفحہ 124
  12. Download the full book – HERE Or Read online: https://archive.org/stream/WhenAlAlbaniDisagreesWithHimself
  13. Imam al Tirmidhi in his al-Jami (vol.5, pp. 376-377, no. 3298, under Kitab Tafsir al Qur’an, as edited by the “Salafi” – Ahmad Shakir) narrated: بسم الله الرحمن الرحيم حدثنا عبد بن حميد ، وغير واحد ، والمعنى واحد ، قالوا : حدثنا يونس بنمحمد قال : حدثنا شيبان بن عبد الرحمن ، عن قتادة ، قال : حدث الحسن ، عن أبي هريرة ، قال : بينما نبي الله صلى الله عليه وسلمجالس وأصحابه إذ أتى عليهم سحاب ، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم : ” ” هل تدرون ما هذا ؟ ” “فقالوا : الله ورسوله أعلم . قال : ” ” هذا العنان هذه روايا الأرض يسوقه الله تبارك وتعالى إلى قوم لايشكرونه ولا يدعونه ” ” ثم قال : ” ” هل تدرون ما فوقكم ” ” ؟ قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : ” “فإنها الرقيع ، سقف محفوظ ، وموج مكفوف ” ” ، ثم قال : ” ” هل تدرون كم بينكم وبينها ؟ ” ” قالوا: الله ورسوله أعلم . قال : ” ” بينكم وبينها مسيرة خمس مائة سنة ” ” . ثم قال : ” ” هل تدرون مافوق ذلك ؟ ” ” قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : ” ” فإن فوق ذلك سماءين ، ما بينهما مسيرة خمسمائةعام ” ” حتى عد سبع سماوات ، ما بين كل سماءين ما بين السماء والأرض ، ثم قال : ” ” هل تدرونما فوق ذلك ؟ ” ” قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : ” ” فإن فوق ذلك العرش وبينه وبين السماء بعد مابين السماءين ” ” . ثم قال : ” ” هل تدرون ما الذي تحتكم ” ” ؟ قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : ” “فإنها الأرض ” ” . ثم قال : ” ” هل تدرون ما الذي تحت ذلك ” ” ؟ قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : ” ” فإن تحتها أرضا أخرى ، بينهما مسيرة خمس مائة سنة ” ” حتى عد سبع أرضين ، بين كل أرضينمسيرة خمس مائة سنة . ثم قال : ” ” والذي نفس محمد بيده لو أنكم دليتم بحبل إلى الأرض السفلىلهبط على الله ” ” . ثم قرأ هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم . هذا حديثغريب من هذا الوجه . ويروى عن أيوب ، ويونس بن عبيد ، وعلي بن زيد ، قالوا : لم يسمع الحسنمن أبي هريرة ، وفسر بعض أهل العلم هذا الحديث ، فقالوا : إنما هبط على علم الله وقدرته وسلطانه .علم الله وقدرته وسلطانه في كل مكان ، وهو على العرش كما وصف في كتابه * The red highlighted portion of the Hadith translates as: “By Him in whose hand Muhammad’s soul is, if you were to drop a rope to the lowest ard (land/earth), it would descend upon Allah.” Imam al-Tirmidhi expounded on this narration by saying (bluetext): “Some of the people of knowledge explained this Hadith by saying: Verily it would descend upon the knowledge of Allah, and His power and His authority, for Allah’s knowledge, His power and His authority is in every place, and He is ‘alal-arsh, as He described Himself in his Book” Ibn Qayyim al Jawziyya, the student of Ibn Taymiyya commented on this in his al-Sawa’iq al-Mursala: قال ابن القيم في الصواعق ص 400 فقوله ” لو دليتم بحبل لهبط على الله ” اذا هبط في قبضته المحيطة بالعالم فقد هبط عليه والعالم فيقبضته وهو فوق عرشه , ولو ان احدنا امسك بيده او برجله كرة قبضتها يده من جميع جوانبها ثموقعت حصاة من اعلى الكرة الى اسفلها لوقعت في يده وهبطت عليه , ولم يلزم من ذلك ان تكونالكرة والحصاة فوقه وهو تحتها , ولله المثل الاعلى وانما يؤتى الرجل من سوء فهمه او من سوءقصده من كليهما , فاذا هما اجتمعا كمل نصيبه من الضلال واما تأويل الترمذي وغيره له بالعلم فقال شيخنا : هو ظاهر الفساد من جنس تأويلات الجهمية بلبتقدير ثبوته , فانما يدل على الاحاطة , والاحاطة ثابتة عقلا ونقلا وفطرة The red portion above states that the Ta’wil of al Tirmidhi and other than him was commented on by his Shaykh – meaning Ibn Taymiyya – as follows: “It is clear corruption / evil (zahir al fassad) from the sort of figurative interpretation’s (Ta’wilat) of the Jahmiyya…” Of course, Ibn Taymiyya is speaking nonsense but his comments highlight that even the Ahl al-Hadith were not safe from his slander. (courtesy of Abul Hasan)
  14. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمتہ اللہ متوفی 1340ھ جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے بحوالہ احکام شریعت صفحہ 118 مطبوعہ نظامیہ کتاب گھر لاہور
  15. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام جمال الدين ابو اسحاق ابراھیم بن على بن يوسف فیروز آبادی الشیرازی الشافعى رحمة الله علیہ متوفٰی٤٧٦ھ یہ سلف کے بارے بہت بڑا بول ہے ( یعنی طعن ہے ) ان معترضین کے فساد قول کی دلیل ائمہ کا یہ ارشاد ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کی عدالت ثابت اور نزاھت (طہارت نفسی ) معلوم و معروف ہے ۔ اس لئے ان کی عدالت و نزاہت زائل نہیں ہو سکتی سوائے قطعی دلیل کے ۔ اور اس لئے بھی کہ ان سے کوئی ( مانع عدالت اور ) قابل اعتماد معصیت ظاہر نہ ہوئی ۔ بلاشبہ ان میں جنگیں ہوئیں جن میں وہ متاولین تھے ( یعنی ان کی جنگیں تاویل پر مبنی تھیں ) اسی بناء پر خیار صحابہ و تابعین کی بڑی تعداد حضرت علی المرتضٰی کرم الله وجہہ الکریم کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی اس لڑائی سے کنارہ کش رہی ۔ اور جب انہیں شبہ لاحق ہوا تو حضرت علی المرتضٰی کرم الله وجہہ الکریم کی معیت میں لڑنے سے معذرت کر لی جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت عبد الله بن عمر ، حضرت ابن مسعود کے ساتھی اور دیگر صحابہ رضی الله عنہم ۔ حضرت علی المرتضٰی رضی الله عنہ ان کی گواہی قبول کرنے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے اس لئے جائز نہیں کہ ان کی عدالت میں قدح کی جائے ۔ حوالہ درج ذیل ہے اللمع فى اصول الفقه ، لامام أبى إسحاق إبراهيم بن على الفيروز اباذي الشيرازي ، تحت " باب القول في الجرح و التعديل ، ص 206 تا 207 ، مطبوعة مكتبة نظام يعقوبى الخاصة البحرين ، طبع اول ١٤٣٤ه‍/٢٠١٣ء
  16. Another Fabrication in Tahdhir al-Nas The Deobandis have done it again! The book “ Tahdhir al-Nas” which was written by their own scholar Shaykh Qasim Nanotvee, has been tempered again by Deobandis. It is the same book upon which Fatwa of Kufr was issued by two hundred and sixty leading scholars of India and thirty three leading scholars from Makkah al muazzama and Medina al munawara.. Original Translation "Prophets are higher /chosen one among their followers( Ummati) only in knowledge. When it comes to good deeds, the ummati( followers) attain the equal status of prophets and some times they go above them " Deobandis have deleted “ Only in Knowledge”! In the fabricated version it reads"Prophets are higher /chosen one among their followers( Ummati). When it comes to good deeds, the ummati( followers) attain the equal status of prophets and some times they go above
  17. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو العباس احمد بن محمد بن احمد المقری التلسمانی المالكى رحمة الله علیہ متوفٰی١٠٤١ھ ان میں سے کسی ( بدبخت ) نے شعر پڑھا *فلا تعجبا من عوى خلف ذي علا … لكل علي في الأنام معاويه* میں کہتا ہوں : اس شعر میں صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کے ساتھ بے ادبی کا جو معاملہ ہے وہ پوشیدہ نہیں ۔ الله تعالی اس اندلسی شاعر پر رحم فرمائے کہ اس نے رجز کبیر میں کہا ۔ من یکن ۔۔ جو شخص حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے قدح کرے ۔ وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک بھونکنے والا کتا ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے نفح الطيب من غصن الاندلس الرطيب ، لامام ابى العباس احمد بن محمد بن احمد المقري التلمساني المالكى ، الباب الخامس ، تحت " احمد بن صابر القيسى ، جلد 2 ص 655 ، رقم : 291 ، مطبوعة دار صادر بيروت
  18. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام محی الدین ابو زکریا احمد بن ابراهيم ابن النحاس الدمشقی رحمة الله علیہ متوفٰی٨١٤ھ کئی ائمہ نے اس پر اجماع نقل کیا کہ جو شخص ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کو سب و شتم کرے وہ کافر ہے ۔البتہ شیخین ( حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق ) رضی الله عنہما کو گالی دینے والے کی تکفیر کے بارے علماء کا اختلاف ہے ۔ اسی طرح دیگر اصحاب رسول ﷺ پر لعن طعن کرنے والے کے بارے اختلاف یے ۔ اس مسئلہ میں اقوال ائمہ بہت ہیں ۔ ان اقوال کا حاصل یہ ہے کہ ساب یعنی گالی دینے والے کا معاملہ ارتکابِ کفر اور ارتکابِ گناہ کبیرہ کے درمیان دائر ہے ۔ ہم الله تعالی سے اس کی ناراضگی کے اسباب اور موجبات عذاب سے حفاظت کے طلبگار ہیں ۔ حوالہ درج ذیل ہے تنبيه الغافلين عن اعمال الجاهلين ، لامام محی الدین ابی زکریا احمد بن إبراهيم ابن النحاس الدمشقي ، الباب الخامس : في ذكر جملة من الكبائر و الصغائر ، تحت " سب الصحابة رضي الله عنهم ، ص 163 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٠٧ه‍/١٩٨٧ء
×
×
  • Create New...