Jump to content

Qadri Sultani

مدیرِ اعلیٰ
  • کل پوسٹس

    1,548
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    77

سب کچھ Qadri Sultani نے پوسٹ کیا

  1. عدیل وہابی نے جو اعتراضات کیے وہ خود بھی اپنے اعتراضات کو نہیں سمجھتے۔ بیچارے کو اس کے مولویوں نے آگے لگایا ہوا ہے اور اس کو وہ بتاتیں ہیں جس کا اس کو خود بھی نہیں معلوم ہوتا۔جناب کے اعتراضات کے ۲ پہلو ہیں۔ اول یہ کہ مالک الدار مجہول ہیں۔ دوم یہ کہ س روایت میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ الاعمش درمیان سے غائب ہے جبکہ اس کی سندجو مصنف ابن ابی شیبہ میں بیان ہوئی ہےاس میں الاعمش موجود ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہےتو کیا وجہ ہےکہ امام بخاری نے الاعمش کو درمیان سے غائب کر دیا اس بات سے امام بخاری یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ ایک تو یہ واقعہ ہی مستند نہیں ہے اس لئے انہوں نے اس کو سرے سے نقل ہی نہیں کیا ہے اودوسرے اس کی سند میں الاعمش ہے جس کا ابو صالح سمان سے انقطاع موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے الاعمش کو درمیان سے غائب کر دیا جس سے انہوں نے اس بات کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ اس روایت کی سند بھی صحیح نہیں ہے اور اس میں الاعمش کا ابو صالح سمان سے انقطاع ہے اور جو بات ہم گزشتہ صفحات امام احمد بن حنبل اور سفیان کے حوالے سے نقل کر چکے ہیں اسی بات کی جانب امام بخاری نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ اب ہم جناب غیر مقلد جاہل کے اعتراضات کے جوابات اس کے عالم زبیر علی زئی کی کتاب سے دیتے ہیں تاکہ اس کو سمجھ آ سکے۔ ان کے معتعمد غیر مقلد عالم زبیر علی زئی کے نزدیک محدثین کا سند کو صحیح کہنا اس روایت کے ایک ایک راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ موصوف اپنی کتاب نور العینین جدید ایڈیشن ص56 پر محمود بن اسحاق الخزاعی کی توثیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔\ حافظ ابن حجر نے محمود بن اسحاق کی سند سے ایک روایت نقل کرکے اسے"حسن" لکھا ہے۔[موافقہ الخبر الخبرج۱ ص417]۔لہذا محمود مذکور حافظ ابن حجر کے نزدیک صدوق ہے۔
  2. عدیل وہابی کو اب پتا چل جائے گا کہ حق کس طرف ہے۔یہ جو بات بھی کرے گا ہم انشاء اللہ تحقیق جواب دیں گئے۔اس نے اس بات کا اعتراف نہں کیا کہ جو صحابہ کرام پر الزام تراشی کی ہے اس کے بارے میں کیا رائے ہے۔
  3. اب عدیل وہابی یہ بتائے کہ اس کے متعمد عالم زبیر علی زئی کسی محدث کی طرف سے سند کو صحیح کہنا راویوں کی توثیق ہوتی ہے کہ نہیں؟ اس کو جواب دے پھر ہم اس کو مزید جواب دیں گئے۔ جیسے اس نے کہا کہ زبیر علی زئی نے محب اللہ شاہ راشدی کے جوابات دیے ہیں۔اس طرح یہ بھی بتائے کہ زبیر علی زئی نے سند کو صحیح کہنے سے کیا مراد لیا ہے۔
  4. عدیل صاحب نے یہ واضح کر دیا کہ غیر مقلدیت جہالیت کا نام اور اپنے عالم کی تقلید کا نام ہے۔یہ زبیر علی زئی سے بڑامتاثر ہے ،اگر زیبر علی زئی کی علمی حالت دیکھنی ہو تو اپنے ہی مسلک کے عالم کی تحقیق پڑھ لو۔
  5. جناب عدیل وہابی صاحب یہ بتائیں کہ غیر مقلد زبیر علی زئی کا کون سا حوالہ ہے جس کا جواب نہیں دیا گیا۔ آپ کے اپنے علماء نے انکا رد لکھ دیا ہے۔ اگر آپ کوئی حوالہ بتائیں جس کا رد نہیں لکھا وہ بتا دیں،ہم آپ کی تسلی کرا دیں گئے۔ مزید یہ ہے کہ کسی محدث نے ابو صالح کی روایت کو مالک الدار سے مرسل نہیں کہا۔اس کے برعکس محدثین کرام نے مالک الدار و مالک بن عیاض کے شاگردوں میں ابو صالح کا نام لکھا ہے۔ اگر بالفرض آپ کا پیش کردہ حوالہ مان بھی لیں پھر اصول کے تحت بھی جمہور محدثین کی بات حجت ہوتی ہے۔جیسا کہ آپ کے پسندیدہ عالم نے زبیر علی زئی کا اصول ہے۔اب ذرا مسلکی حمایت کو ترک کر کے علماء کرام کے حوالہ جات پڑھ لیں۔ التاريخ الكبير - البخاري ج 7 ص 304 رقم 1295 - - ۔ مالك بن عياض الدار أن عمر قال في قحط يا رب لا آلو الا ما عجزت عنه قاله على عن محمد بن خازم عن ابى صالح عن مالك الدار الجرح والتعديل - الرازي ج 8 ص 213 : رقم 944 - مالك بن عياض مولى عمربن الخطاب روى عن ابى بكر الصديق وعمر بن الخطاب رضى الله عنهما روى عنه . أبو صالح السمان سمعت ابى يقول ذلك تهذيب الكمال - المزي ج 22 ص 624 : وقال عبد الرحمان ( 2 ) بن أبي حاتم ، عن أبيه : مالك بن عياض مولى عمر بن الخطاب . روى عن أبي بكر ، وعمر . روى عنه أبو صالح السمان . روى له أبو داود ، والنسائي في " اليوم والليلة " ، وابن ماجة - الثقات - ابن حبان ج 5 ص 384 : مالك بن عياض الدار يروى عن عمر بن الخطاب روى عنه أبو صالح السمان وكان مولى لعمر بن الخطاب أصله من جبلان مالك بن صحار الهمداني يروى عن حذيفة وابن عباس روى عنه الشعبي - الطبقات الكبرى - محمد بن سعد ج 5 ص 12 : مالك الدار مولى عمر بن الخطاب وقد انتموا إلى جبلان من حمير وروى مالك الدار عن أبي بكر الصديق وعمر رحمهما الله روى عنه أبو صالح السمان وكان معروفا - تاريخ مدينة دمشق - ابن عساكر ج 65 ص 489 : 7180 - مالك بن عياض المعروف بمالك الدار المدني مولى عمر بن الخطاب ويقال الجبلاني سمع أبا بكر الصديق وعمر بن الخطاب وأبا عبيدة ۔ بن الجراح ومعاذ بن جبل وروى عنه أبو صالح السمان وعبد الرحمن بن سعيد بن يربوع وابناه عون بن مالك وعبد الله بن مالك :علامہ الذهبي: تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام رقم 94 - مَالِكُ بْنُ عِيَاضٍ الْمَدَنِيُّ، يُعْرَفُ بِمَالِكِ الدَّارِ. [الوفاة: 61 - 70 ه] سَمِعَ: أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ. رَوَى عَنْهُ: ابْنَاهُ عَوْنٌ وَعَبْدُ اللَّهِ، وَأَبُو صَالِحٍ السَّمَّانِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ يَرْبُوعٍ. وَكَانَ خَازِنًا لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. محدث ابن خیثمہ اپنی تاریخ کبیررقم:1817 پر لکھتے ہیں۔ سَمِعْتُ مُصْعَب بن عَبْد الله يقول: مالك الدار مولى عمر بن الخطاب، روى عن أبي بكر، وعمر بن الخطاب وقد انتسب [ق/122/أ] ولده في جبلان، روى عن مالك الدار: أبو صالح ذكوان. محدث ابن عساکر اپنی تاریخ دمشق جلد56 ص491 پر امام یحیی بن معین کے حوالے سے مالک الدار کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ أخبرنا أبو البركات بن المبارك أنا أبو طاهر الباقلاني أنا يوسف بن رباح أنا أبو بكر المهندس نا أبو بشر الدولابي نا معاوية بن صالح قال سمعت يحيى بن معين يقول في تسمية تابعي أهل المدينة ومحدثيهم مالك الدار مولى عمر ۔ بن الخطاب محدث ابن عساکر اپنی تاریخ جلد56 ص492 پر امام علی بن المدینی کے حوالہ سے لکھتےہیں۔ أخبرنا أبو القاسم إسماعيل بن أحمد أنا عمر بن عبيد الله بن عمر أنا عبد الواحد ابن محمد أنا الحسن بن محمد بن إسحاق عن إسماعيل قال سمعت علي ابن المديني يقول كان مالك الدار خازنا لعمر اور محدث المقدمی اپنی کتاب تاریخ رقم:337 پر لکھتے ہیں۔ مالك الدار خازن عمر بن الخطاب هو مالك بن عياض حميري ان حوالہ جات سے مالک الدار کا حضرت عمر فاروق سے روایت کرنا اور اور ابوصالح کے ان سے ترجمہ کرنا واضح ہے۔ان حوالہ جات کے بعد ارسال کا اعتراض جہال کے علاوہ کون کرسکتا ہے۔
  6. عدیل خان اپنے کسی بڑے سے لکھوا لاؤ کہ وہ حجت نہیں اور یہاں پوسٹ کر دو ہمارے سوالات کے جوابات شیر مادر کی طرح ہضم کر رہے ہو کچھ شرم کرو بس کاپی پیسٹ کے علاوہ آتا ہی کیا ہے
  7. عرض یہ ہے کہ تدلیس پر علماء احناف اور علماء اہل سنت پر تدلیس کے حوالہ سے جتنے حوالہ جات غیر مقلدین نے پیش کیے ہیں ان کے جوابات فیصل خان صاحب کی کتاب ترک رفع الیدین پر تاریخی دستاویز ملاحظہ کریں۔
  8. امید ہے کہ آئندہ کسی لا مذہب متعصب کو ایسی رویات پیش کرنے کے ہمت نہی ہوگی۔ اگر اعتراض کرنا ہے تو پھر اپنے علماء کرام پر کریں جنھوں نے الاعمش کی تدلیس کے دفاع پر کتابیں لکھیں۔ ہم پر فتوی اور اپنے علماء کو حلوہ
  9. اب مناسب ہے کہ وہابی عدیل کے لئے چند حوالہ جات صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور کتب حدیث سےپیش کیئے جائیں جن میں صحابہ کرام نے آپس میں چند الفاظ کہے،اب یہ وہابی بتائے کہ اس روایت کے بارے میں کیا جوابات یہں۔جو وہ جواب دے گا ہمارا بھی اس کی پیش کردہ روایات [ مگر جو حضرات جمہور محدثین کے خلاف امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کے مطابق اعمش کی ابو وائل یا ابو صالح سے معنعن روایت کو سماع پر محمول کرتے ہوئے صحیح سمجھتے ہیں وہ اس روایت کے مطابق صحابی رسول سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ پر کیا حکم لگاتے ہیں۔۔۔؟ اسی طرح ایک توروایت میں ہے کہ سیدنا عائشہ ؓ نے مشہور صحابی رسول عمرو بن العاصؓ کی شدید تکذیب اور ان پر شدید جرح کی۔ دیکھئے المستدرک حاکم (ج٤ص١٣ح ]٦٨٢٢ کا جواب ہے۔ (1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور کثیر صحابہ کے سامنے ایک معاملے پر اختلاف کی وجہ سے حضرت اسید بن حضیر نے حضرت سعد بن عبادہ کو مخاطب کر کے کہا: "اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم منافقوں کا کردار ادا کرتے ہو اور ان کے دفاع میں زور بیان صرف کرتے ہو۔" اس معاملے پر انصار صحابہ کے دو گروہ آپس میں بھڑک اٹھے اور قریب تھا کہ لڑ پڑتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسلسل خاموش کرواتے رہے حتیٰ کہ وہ چپ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خاموشی اختیار کر لی۔ دیکھئے صحیح بخاری (کتاب المغازی، باب حدیث الافک، حدیث 4141) (2) حضرت ابو ہریرہ نے خیبر کی غنیمت تقسیم ہوتے وقت حضرت ابان بن سعید کے لئے کہا: اے اللہ کے رسول! انہیں (غنیمت کا مال) مت دیجئے۔ اس پر حضرت ابان نے حضرت ابوہریرہ کے لئے کہا: "او بلے نما جانور! تم یہ (کیا) کہہ رہے ہو اور (کہاں سے) ہمارے پاس ضال (پہاڑ) کی چوٹی سے اتر آئے ہو۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شدید الفاظ کے باوجود ان سے صرف اتنا فرمایا: ابان بیٹھ جاؤ۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فیمن جاء بعد الغنیمۃ لا سہم لہ، حدیث 2723) (3) ایک معاملے میں حضرت ابی بن کعب نے خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہا: "آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر عذاب نہ بنیں۔" حضرت عمر نے اپنے معاملے کی توجیہہ ضرور دی لیکن ان سخت الفاظ پر غصہ ہرگز نہ کیا۔ (صحیح مسلم، کتاب الاداب، باب الاستیذان، حدیث 5633) (4) حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایک اختلاف کے حوالے سے کہا: "میرے اور اس جھوٹے، گناہگار، عہد شکن اور خائن کے درمیان فیصلہ کر دیں۔" (صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر، باب حکم الفی، حدیث 4577) اسی حدیث میں موجود ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے کہا: "تم نے انہیں جھوٹا، گناہگار، عہد شکن اور خائن خیال کیا تھا اور اللہ جانتا ہے کہ وہ سچے، نیک، راست رو اور حق کے پیروکار تھے۔" پھر اپنے حوالے سے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان سے کہا: "پھر ابوبکر فوت ہوئے اور مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر کا جانشین بنا تو تم نے مجھے جھوٹا، گناہگار، عہد شکن اور خائن خیال کیا اور اللہ جانتا ہے کہ مَیں سچا، نیک، راست رو اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔" حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے بارے اس گمان اور ان الزامات کی کوئی تردید نہ کی۔ تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح مسلم (کتاب الجہاد و السیر، باب حکم الفی، حدیث 4577) (5) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے واقعہ افک کی وجہ سے ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن حضرت حمنہ کے لئے کہا: "حمنہ نے غلط راستہ اختیار کیا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئیں۔" (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، حدیث 4141) (6) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دورِ صحابہ سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کے بارے فرمایا: "وہ عورت اسلام میں (داخل ہونے کے باوجود) علانیہ بُرائی (زنا)کرتی تھی۔" (صحیح مسلم، کتاب اللعان، حدیث 3758) (7) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کے موقع پر اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کے گھر میں کہا: آپ نے دیکھا! لوگوں نے کیا کیا ہے؟ مجھے تو حکومت کا کچھ حصہ نہیں ملا۔ اس پر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں لوگوں میں بھیجا کہ ان کے رکنے سے اور اختلاف ہو گا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت ہو جانے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا: "اس موضوع پر جس نے ہم سے بات کرنی ہے وہ اپنا سر اٹھائے، یقیناً ہم اس سے اور اس کے باپ سے خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔" حضرت حبیب بن مسلمہ نے حضرت ابن عمر سے کہا: اس وقت آپ نے اس بات کا جواب کیوں نہ دیا؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ انہوں نے تو جواب دینے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں جواب میں کہا جائے: "خلافت کا تم سے زیادہ حقدار وہ شخص ہے جس نے تم سے اور تمھارے باپ سے اسلام کی سربلندی کے لئے جنگ لڑی تھی۔ مگر مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا میری اس بات سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف بڑھ جائے اور خونریزی ہو جائے اور میری طرف ایسی باتیں منسوب ہو جائیں جو میں نے کہی نہ ہوں۔ نیز مجھے وہ اجر و ثواب یاد آیا جو صبر کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنتوں میں تیار کر رکھا ہے۔" حضرت حبیب نے یہ سب سُن کر کہا: اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور فتنوں سے بچ گئے۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق۔۔۔۔، حدیث 4108) (8) حضرت ابن عباس نے ایک اختلاف کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن زبیر کے بارے میں کہا: "معاذ اللہ! یہ تو اللہ تعالیٰ نے ابن زبیر اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں ہی لکھ دیا ہے کہ حرم پاک کی بے حرمتی کریں" (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث 4665) (9) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا اور کہا "آپ کو کیا چیز روکتی ہے کہ آپ ابوتراب (حضرت علی) کو بُرا بھلا کہیں۔" اس کے جواب میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنے، حضرت علی کے فضائل بیان کئے اور انہی فضائل کی وجہ سے حضرت علی کو بُرا کہنے سے انکار کیا۔ دیکھئے صحیح مسلم (کتاب فضائل صحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب، حدیث 6220) (10) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شاگرد تابعی عروہ بیان کرتے ہیں: "مَیں نے حضرت حسان بن ثابت کو بُرا بھلا کہا کیونکہ وہ واقعہ افک میں حضرت عائشہ کے متعلق بہت کچھ کہا کرتے تھے۔" (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، حدیث 4145) اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دوسرے شاگرد تابعی مسروق نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو قرآن کی آیت کا مصداق ٹھہراتے ہوئے عذابِ عظیم کا مستحق قرار دیا۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تردید کرنے کی بجائے فرمایا: "اس سے سخت عذاب اور کیا ہو گا کہ وہ دنیا میں اندھا ہو گیا ہے۔" مگر اپنے ان شاگردوں کے سامنے وہ حضرت حسان بن ثابت کی یہ تعریف بھی ضرور کرتی تھیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع اور حمایت کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، حدیث 4146) (11)مدینہ منورہ میں آل مروان سے جو شخص عامل بنایا گیا، اس کا حال یہ تھا کہ صحابی رسول سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور حکم دیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالی دیں۔ حضرت سہل نے انکار کیا تو اس نے کہا: "اگر تم اس سے انکار کرتے ہو تو کہو: اللہ ابو تراب (حضرت علی) پر لعنت کرے۔" حضرت سہل بن سعد نے اس قدر شدید توہین کے باوجود اشتعال میں آئے بغیر جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت والی حدیث سُنا دی۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل صحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب، حدیث 6229) (12)حضرت مغیرہ بن شعبہ کے پاس کوفہ کا ایک شخص آیا اور کسی کو شدید بُرا بھلا کہنے لگا۔ حضرت سعید بن زید بھی وہاں موجود تھے انہوں نے پوچھا: اے مغیرہ! یہ کسے بُرا بھلا کہہ رہا ہے؟ حضرت مغیرہ نے کہا: یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالیاں دے رہا ہے۔ حضرت سعید بن زید نے اس پر حضرت مغیرہ کا تین دفعہ نام لے کر کہا: "کیا مَیں یہ نہیں سنتا کہ آپ کے سامنے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی جاتی ہیں لیکن آپ نہ ان کا انکار کرتے ہیں نہ اس سے کسی کو روکتے ہیں۔" اس کے بعد حضرت سعید بن زید نے حضرت علی کی دیگر صحابہ کے ساتھ جنتی ہونے کی بشارت والی حدیث بیان کی۔ (الفتح الربانی فی ترتیب مسند احمد، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل العشرۃ المبشرین۔۔۔۔، حدیث 11591) (13) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مروان کو حجاز کا گورنر بنایا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور یزید بن معاویہ کا بار بار تذکرہ کیا تاکہ اس کے والد (حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر صحابی رسول حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعتراض کیا تو مروان نے کہا: انہیں پکڑ لو۔ حضرت عبدالرحمٰن اپنی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر چلے گئے تو لوگ انہیں پکڑ نہ سکے۔ اس پر مروان نے قرآن کی ایک مذمت والی آیت کا مصداق حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ٹھہرا دیا۔ اس پر حضرت عائشہ نے پردے کے پیچھے سے فرمایا: ہمارے بارے میں تو اللہ نے (مذمت کی) آیت کوئی نازل نہیں کی، ہاں میری تہمت سے براءت والی آیات ضرور نازل ہوئی تھیں۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث 4827) (14)حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امام (حکمران) کی اطاعت کرنے والی حدیث بیان کی تو ان کے شاگرد تابعی عبدالرحمان بن عبدالرب الکعبہ نے کہا: "یہ جو آپ کے چچا ذاد معاویہ ہیں وہ تو ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں۔۔۔۔" حضرت عبداللہ بن عمرو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے یہ سننے پر پہلے تو گھڑی بھر خاموش رہے اور پھر کوئی تردید کرنے کی بجائے صرف یہ کہا: "اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔" (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب الوفاء۔۔۔۔، حدیث 4776) صحابہ کرام کے درمیان پیش آنے والے ان واقعات کو بار بار پڑھئے بلکہ جو احباب شوق رکھتے ہیں، وہ اصلی کتب سے ان واقعات کو مکمل ملاحظہ کریں۔ ان حوالہ جات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ خود صحابہ کرام نے اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے پر شدید تیز و تند تنقید کر رکھی ہے۔ حتیٰ کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اس طرح کا جب معاملہ آیا آپ نے فریقین کو خاموش تو ضرور کروایا لیکن اگر اختلاف کی وجہ حالات و واقعات کی سنگینی تھی تو کسی کو بھی شدید تنبیہ تک نہ کی گئی۔ اسی طرح صحابہ کرام نے آپس میں فروعی و سیاسی اختلافات کی بنا پر سخت ترین جملوں میں ایک دوسرے کی مذمت کی۔ جو سامنے کر سکتے تھے انہوں نے سامنے ہی مذمت کی اور جو کسی فتنے کی وجہ سے سامنے مذمت نہ کر سکتے تھے، انہوں نے علیحدہ ضرور اپنے نزدیک ہونے والی ناانصافی اور غلط طرز عمل پر شدید احتجاج کیا چاہے سامنے کوئی صحابی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی صحابی کسی گناہ میں ملوث تھا تو بھی اس کی نشاندہی کی گئی اور یہ لحاظ نہیں کیا گیا کہ صرف شرفِ صحابیت کی وجہ سے اس سے صرفِ نظر کیا گیا ہو۔
  10. اور یہ بات ذہین نشین کر لیں کہ ہم اس روایت کو اس سند کے صحیح یا ضعیف ہونے کی وجہ سے رد نہیں کرتے ۔اہل سنت و جماعت ان روایات کی تاویل کرتے ہیں۔جبکہ جن روایات کو آپ نے الاعمش کے تدلیس اور اپنے موقف پر دلائل کے طور پر استعمال کیاہے آپ کو ایسی حرکت پر شرم آنی چائیے۔ مزید یہ کہ جن روایت کا آپ نے ذکر کیا ہے اس میں المستدرک والی روایت کو تو خود علامہ ذہبی نے علی شرط پر صحیح کہا ہے۔ اگر آپ نے مشاجرات صحابہ کی آڑ لینی ہے تو پھر بتائیں کہ بخاری اور مسلم میں جو صحابہ کرام کے آپس کے اختلافات ذکر کیے ہیں تو پھر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے۔ امام محمد بن الحسین الآجری کا فرمان : امام ابو بکر محمد بن الحسین بن عبداللہ آجری المتوفی ۳۶۰ ھ نے اپنی معروف کتاب‘‘ کتاب الشریعۃ'' میں (باب نمبر ۲۵۷ص ۹۳۲نسخہ مر قمہ) باب یہی قائم کیا ہے۔ ‘‘باب ذکر الکف عما شجر بین أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و رحمۃ اللہ علیھم أجمعین'' کہ یہ باب اس کے متعلق ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان ہونے والے اختلافات سے گریز کیا جائے اللہ تعالیٰ کی ان سب پر رحمتیں ہوں۔'' امام آجری نے اس باب میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے اور اپنے اس موقف پر بہت سے دلائل ذکر کئے ہیں جو دس صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان دلائل سے قطع نظر ہم یہاں صرف ان کے موقف کا خلاصہ پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ‘‘فضائل صحابہ کرام و اہلِ بیت کے سلسلے میں جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس پر غور و فکر کرنےو الے پر لازم ہے کہ وہ ان سب سے محبت کرے ان کے بارے میں رحمت اور بخشش کی دعا کرے اور ان کی محبت کو اللہ کے ہاں اپنے لئے وسیلہ بنائے، ان کے مابین جو اختلافات ہوئے ہیں، ان کو ذکر نہ کرے نہ ان کی چھان بین کرے اور نہ ہی ان پر بحث کرے ہمیں تو ان کے بارے میں استغفار کرنے اور ان کے حق میں رحمت کی دعا کرنے، ان سے محبت اور ان کی اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، جیسا کہ قرآن مجید، احادیث رسول اور ائمہ مسلمین کے اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں۔ ہمیں ان کے مابین مشاجرات (اختلافات)کے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں رسول اللہ ﷺ کی مصاحبت اور رشتہ کا شرف حاصل ہے ان کے اسی شرف صحبت کی بنا پر اللہ تعالی ٰ نے انہیں معاف کر دینے کا اعلان فرمایا ہے اور اپنی کتاب میں اس بات کی ضمانت دی ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی قیامت کے دن شرمسار نہیں کروں گا، ان کے اوصاف کا اللہ تعالیٰ نے تورات و انجیل میں تذکرہ کیا ہے اور ان کی بہترین تعریف کی ہے، ان کی توبہ کا اور اپنی رضا و خوشنودی کا ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں تو ان مشاجرات کے بارے میں محض اپنی معلومات میں اضافہ چاہتا ہوں تا کہ میں ان حالات سے بچ سکوں جن میں وہ مبتلا ہوئے ہیں ، تو اسے سمجھایا جائے گا کہ تم تو فتنہ کے طلب گار ہو کیونکہ تم ایسی بات کے درپے ہو جو تمہارے لئے نقصان کا باعث ہے، کسی فائدہ کی اس سے کوئی توقع نہیں۔ اس کی بجائے اگر تم فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب کی صورت میں اپنی اصلاح کی کوشش کرتے تو یہ تمہارے لئے بہتر تھا بالخصوص اس دور میں جب کہ بدعات ضالہ عام ہو رہی ہیں، لہذا تمہارے لئے یہی بہتر تھا کہ تم اپنے کھانے پینے، اپنے لباس کی فکر کرو کہ یہ کہاں سے آیا ہے، یہ روپیہ پیسہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کہاں خرچ کیا جا رہا ہے، نیز ہمیں اس بارے میں بھی خطرہ ہے کہ مشاجرات صحابہ میں تمہاری چھان بین اور بحث و تکرار کے نتیجہ میں تمہارا دل بدعت کی طرف مائل ہو جائے گا شیطان کے ہاتھوں تم کھیلنے لگو گے۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ ان سے محبت کرو، ان کے لئے بخشش طلب کرو اور ان کی اتباع کرو، اگر تم ان کو برا کہنے لگو گے، اور ان سے بغض و نفرت کرنے لگو گے، باطل راستہ پر چل نکلو گے، جو شخص بغض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح و توصیف کرتا ہے بعض کی مذمت کرتا ہے اور ان پر طعن و تشنیع کرتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہے کیونکہ اس پر تو سب صحابہ کرام سے محبت اور سب کے بارے میں استغفار واجب ہے۔ (الشریعۃ ص۲۴۸۵ ، ۲۴۹۱ج۵)
  11. اب معاملہ یہ کہ بظاہر اگر کوئی روایت صحابہ کی شان کی خلاف ہو تو اس کی تاویل کی ضرورت کیوں ہوتی ہے۔تو جناب عدیل خان صاحب کو چاہیے کہ تاویل کی بحث پڑھ لیں تاکہ ایسی باتیں نہ کریں۔ تاویل کی وجوہات میں اس ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن پاک اور احادیث میں متواتر اصحاب رسول صلی اللہ کی شان موجود ہے۔ اب حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی شان میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث پیش خدمت ہیں۔ قال البخاري 4323 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَيْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَيْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ فَلَقِيَ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ فَقُتِلَ دُرَيْدٌ وَهَزَمَ اللَّهُ أَصْحَابَهُ قَالَ أَبُو مُوسَى وَبَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُكْبَتِهِ رَمَاهُ جُشَمِيٌّ بِسَهْمٍ فَأَثْبَتَهُ فِي رُكْبَتِهِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا عَمِّ مَنْ رَمَاكَ فَأَشَارَ إِلَى أَبِي مُوسَى فَقَالَ ذَاكَ قَاتِلِي الَّذِي رَمَانِي فَقَصَدْتُ لَهُ فَلَحِقْتُهُ فَلَمَّا رَآنِي وَلَّى فَاتَّبَعْتُهُ وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ أَلَا تَسْتَحْيِي أَلَا تَثْبُتُ فَكَفَّ فَاخْتَلَفْنَا ضَرْبَتَيْنِ بِالسَّيْفِ فَقَتَلْتُهُ ثُمَّ قُلْتُ لِأَبِي عَامِرٍ قَتَلَ اللَّهُ صَاحِبَكَ قَالَ فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ فَنَزَعْتُهُ فَنَزَا مِنْهُ الْمَاءُ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي أَقْرِئْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلَامَ وَقُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِي وَاسْتَخْلَفَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ فَمَكُثَ يَسِيرًا ثُمَّ مَاتَ فَرَجَعْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ عَلَى سَرِيرٍ مُرْمَلٍ وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرِ بِظَهْرِهِ وَجَنْبَيْهِ فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَخَبَرِ أَبِي عَامِرٍ وَقَالَ قُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِي فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ مِنْ النَّاسِ فَقُلْتُ وَلِي فَاسْتَغْفِرْ فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلًا كَرِيمًا قَالَ أَبُو بُرْدَةَ إِحْدَاهُمَا لِأَبِي عَامِرٍ وَالْأُخْرَى لِأَبِي مُوسَى مسلم 6489- [164-2497] حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، جَمِيعًا ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ : حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ : كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ ، وَمَعَهُ بِلاَلٌ ، فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ ، فَقَالَ : أَلاَ تُنْجِزُ لِي ، يَا مُحَمَّدُ مَا وَعَدْتَنِي ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْشِرْ فَقَالَ لَهُ الأَعْرَابِيُّ : أَكْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ أَبْشِرْ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي مُوسَى وَبِلاَلٍ ، كَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ ، فَقَالَ : إِنَّ هَذَا قَدْ رَدَّ الْبُشْرَى ، فَاقْبَلاَ أَنْتُمَا فَقَالاَ : قَبِلْنَا ، يَا رَسُولَ اللهِ ، ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ ، وَمَجَّ فِيهِ ، ثُمَّ قَالَ : اشْرَبَا مِنْهُ ، وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا ، وَأَبْشِرَا فَأَخَذَا الْقَدَحَ ، فَفَعَلاَ مَا أَمَرَهُمَا بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَنَادَتْهُمَا أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ : أَفْضِلاَ لِأُمِّكُمَا مِمَّا فِي إِنَائِكُمَا فَأَفْضَلاَ لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً. بن سعد في الطبقات (4/ 10 قال: أخبرنا أبو أسامة حماد بن أسامة ووهب بن جرير بن حازم قالا: حدثنا هشام الدستوائي عن قتادة عن أنس بن مالك قال: بعثني الأشعري إلى عمر فقال عمر: كيف تركت الأشعري؟ فقلت له: تركته يعلم الناس القرآن، فقال: أما إنه كبير( وفي رواية كيس ) ولا تسمعها إياه، ثم قال: كيف تركت الأعراب؟ قلت: الأشعريين؟ قال: بل أهل البصرة، قلت: أما إنهم لو سمعوا هذا لشق عليهم، قال: فلا تبلغهم فإنهمأعراب إلا أن يرزق الله رجلا جهادا، قال وهب في حديثه: في سبيل الله.
  12. اب جناب کو کوئی حوالہ نہیں ملا تومشاجرات صحابہ کے واقعات کو لکھ کر اپنی طبیعت کو خوش کرنےکی لا یعنی کوشش جاری ہے۔ پہلے تو عدیل صاحب کا اپنا مطالعہ نہیں ہے صرف کاپی پیسٹ پر اکتفاء کیا ہے۔ دوم یہ کہ مشاجرات صحابہ کرام کے بارے میں اگر سند صحیح بھی ہو تو اس کی تاویل کی جاتی ہے۔آپ کی عقل میں بات ڈالنے کے لئے امام نووی کا حوالہ ہی پیش خدمت ہے۔ امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی المتوفی ۶۷۶ھ شرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں: ‘‘و مذھب أھل السنۃ و الحق إحسان الظن بھم و الإمساک عما شجر بینھم و تاویل قتالھم، و إنھم مجتھدون متأولون لم یقصد و امعصیۃ ولا محض الدنیا، بل اعتقد و اکل فریق أنہ المحق و مخلافہ باغ فوجب قتالہ لیر جع الی أمر اللہ، وکان بعضھم مصیباً و بعضھم مخطئاً معذوراً فی الخطأ لأنہ بإجتھاد و لمجتھد إذاأ خطألا إثم علیہ وکان علی رضی اللہ عنہ ھو المحق المصیب فی ذلک الحروب ھذا مذھب أھل السنۃ و کانت القضایا مشتبۃ حتی أن جماعۃ من الصحابۃ تحیرو ا فیھا فاعتزلو االطائفتین ولم یقاتلو اولو تیقنو االصواب لم یتأ خرواعن مساعدتہ''(شرح صحیح مسلم ص ۳۹۰ج۲، کتاب الفتن ، باب إذا التقی المسلمان بسیفیھما إلخ)‘‘ اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جامعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے۔''
  13. اور جناب اعتراض کرنے سے پہلے پڑھ لیا کریں کہ امام نووی نے کس حدیث کے تحت امام الاعمش کی تدلیس کا اعتراض کیا ہے۔وہ حدیث صحیح مسلم کی ہے۔ [15] وَأَمَّا قَوْلُ مُسْلِمٍ فِي حَدِيثِ جَابِرٍ (حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَا ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ) فَهَذَا إِسْنَادٌ كُلُّهُمْ كُوفِيُّونَ إِلَّا جَابِرًا وَأَبَا سُفْيَانَ فَإِنَّ جَابِرًا مَدَنِيٌّ وَأَبَا ۔سُفْيَانَ وَاسِطِيٌّ ويقال۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَقَوْلُ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَعَ أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ وَالْمُدَلِّسُ إِذَا قَالَ عَنْ لَا يُحْتَجُّ بِهِ إلا أن يَثْبُتَ سَمَاعُهُ مِنْ جِهَةٍ أُخْرَى ۔المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج اور جناب اس سند میں سفیان ثوری بھی ہیں جن کی تدلیس پر اعتراض نہیں کیا گیا اس سند پر امام نووی کا اعتراض ایک اور وجہ سے بھی مناسب نہیں کیونکہ محدثین کرام نے الاعمش کی سفیان سے روایت کو محمول علی السماع کہا ہے۔
  14. اب امام نووی کے حوالہ کا جواب اپنے ہی عالم محب اللہ شاہ راشدی کے حوالے سے پڑھ لیں۔ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ حافظ نووی کا ابو صالح کی ایک روایت پر کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تو شیخ محب اللہ راشدی رحمہ اللہ ان کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ابو صالح سے اعمش کی روایت کے بارے میں یہ فرمایا کہ بغیر سماع کی تصریح کے ان کی روایت حجت نہیں تو یہ انہوں نے محض اس لئے کہا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے جو آئندہ ان شاء اللہ ذکر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش کی ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام نووی رحمہ اللہ پر حجت نہیں۔" (ص 332-333) آگے چل کر آپ مزید فرماتے ہیں: "کسی راوی پر ائمہ فن کے کلام – تعدیلا وتجریحا، توثیقا وتضعیفا – کے تین ماخذ ہوتے ہیں۔ کبھی یہ تینوں یک جا پائے جاتے ہیں کبھی ان میں سے کوئی ایک۔ 1- کس امام نے کسی راوی پر کلام کیا ہے وہ اس کے معاصر تھے اور ان کا حال (حدیث میں) مشاہدہ سے معلوم کر کے اس پر کلام کیا ہو۔ 2- وہ ان کے معاصر تھے لیکن ان سے متقدم ائمہ فن کے اس راوی پر کیے ہوئے کلام کی بناء پر ان پر کلام کیا۔ 3- اس راوی کی روایت کو دوسرے ثقات رواۃ کی روایات سے مقابلہ کر کے اور اس کی روایت پر روایتا ودرایتا اچھی طرح تدبر کرنے کے بعد ان کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو۔ اس تیسری قسم کی التنکیل میں امام ابن معین وغیرہ کی مثالیں دے کر بخوبی وضاحت کر دی گئی ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اعمش کے معاصر تو یقینا نہیں تھے لیکن ان کے متعلق متقدمین کی تصریحات انہیں بوجہ اتم حاصل تھیں۔ اسی طرح کسی راوی کی روایات کی روایت ودرایت کے اصول پر پرکھ کر اس کے بارے میں کسی فیصلہ دینے کا بھی انہیں اچھا ملکہ حاصل تھا۔۔۔۔ میری گذارش یہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اعمش رحمہ اللہ کے متعلق جو کچھ فرمایا وہ متقدمین کی تصریحات اور خود ان کی تحقیق دونوں پر مبنی ہے۔" (ص 333-334) آگے شیخ راشدی مزید فرماتے ہیں: "بہرحال حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا اعمش کے بارے میں ان کبار شیوخ کو مستثنیٰ کرنا حقائق ودلائل اور ان کی روایات کو بدقت نظر پرکھنے پر مبنی ہے۔ اب اگر ان کی رائے کو صحیح نہیں سمجھتے تو یہ بے دلیل بات ہے آپ نے محض عمومی دلیل پیش کی ہے ان کبار شیوخ کے بارے میں متقدمین کی تصریحات سے خصوصی طور پر کوئی دلیل پیش نہیں فرمائی۔ یعنی اعمش ان سے بھی تدلیس کرتا تھا۔ محض مدلس ہونا تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو بھی تسلیم ہے لیکن انہوں نے علی وجہ البصیرت اس عموم سے ایک استثناء کی ہے جس کو آپ ٹھوس دلائل سے رد نہیں کر سکتے۔" آخر میں بطور تنبیہ شیخ صاحب فرماتے ہیں: "تنبیہ: دنیا میں ایسا کوئی کلیہ نہیں جس سے کچھ نہ کچھ مستثنیات نہ ہوں یا ان میں سے کوئی شاذ ونادر فرد خارج نہ ہو لیکن پوری دنیا اکثریت پر ہی اعتماد کرتی ہے۔ اگر اکثر افراد اس کلیہ سے خارج نہیں ہوتے تو وہ کلیہ مسلمہ ہو جاتا ہے۔ امام اعمش کے متعلق اب تک جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس کا بھی یہ حال ہے کیونکہ دو تین مواضع ایسے ہیں جہاں ائمہ فن نے تصریح فرمائی ہے کہ یہاں اعمش نے ابو صالح یا ابو وائل سے تدلیس کی ہے اور قرائن بھی اس کے موید ہیں تو ان مواضع کو مستثنیات میں سے قرار دیا جائے گا اور وہاں عدم سماع وعدم انقطاع تسلیم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر جہاں ائمہ فن میں سے نہ کسی امام نے یہ تصریح فرمائی ہو کہ یہاں اعمش نے ابو صالح، ابو وائل یا ابراہیم وغیرہ سے تدلیس کی ہے اور نہ وہاں کچھ ایسے قرائن ہی موجود ہوں جن سے تدلیس کا شبہ پڑتا ہو تو وہاں یہ کلیہ صحیح ہو گا اور وہاں اعمش کی معنعن روایات بھی سماع پر محمول ہوں گی۔ واللہ اعلم" (ص 339)
  15. عرض یہ ہے کہ جو وہابی اعتراض کر رہا ہے اس نے ہماری پوسٹ پڑھی نہیں۔ ہم نے اس کے تمام اعتراضات کے جوابات ان کے علمائے کرام کے حوالہ سےپیش کردیے ہیں۔ وہابی جناب نے امام نووی کا حوالہ پکڑا ہوا ہے اور جلیل القدر محدثین کرام کے جوابات ہضم کرلیئے ہیں۔ مالک الدار جب خود صحابی ہیں تو اس میں ارسال لغوی تو بنا مگر ارسال اصطلاحی کیسے ثابت ہوا۔
  16. جناب عدیل خاں صاحب لگتا ہے آپ کی بصارت بھی جواب دے گئی ہے۔سیدی اعلیٰ حضرت پر وارد اعتراض کا جواب فقیر نے لگا دیا ہے۔ عباس رضوی صاحب کی عبارت کا جواب بھی ان شاء اللہ کل تک دے دیا جائے گا۔لیکن انصاف سے کام لیتے ہوئے ہمارے بھی کچھ سوال آپ پر قرض ہیں ان کا جواب بھی دے دو یا مان لو کہ آپ لاجواب ہو چکے ہو
  17. محترم عدیل خان صاحب حضرت سلیمان بن اعمش کی تدلیس کا جواب خود آپ کے فورم میں موجود آرٹیکل سے ہی دے دیا گیا۔آس کے علاوہ آپ کے زبیر علی زئی صاحب کے استاد آپ کے تمام دلائل کا قلع قمع کر دیا حضرت مالک الداروالی ایک روایت کو خود آپ کے البانی نے حسن لکھا اس کا جواب آپ گول کر گئے مالک الدار کا مجہول نہ ہوناکا جواب بھی موجود ہے لیکن آپ کاپی پیسٹ کے علاہ کچھ کریں تو سمجھ آۓ
  18. مالک الدار کو حافظ الخلیلی نے اپنی کتاب الارشاد میں متفق علیہ کہا ہے۔اگر کوئی اعتراض کرے کہ متفق علیہ سے ثقہ کیسے ثابت ہوتا ہے تو اس بارے میں چند اقوال پیش خدمت ہیں جس میں محدثین کرام نے متفق علیہ کہا اور اس سے مراد راوی کی توثیق ہے۔ عبيد الله بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ( 1 / 192 برقم 16 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( عالم متفق عليه مخرج ) .. 2) عبد الله بن نافع الزبيري ( 1 / 228 برقم 53 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( من أصحاب مالك متفق عليه ) .. 3) ابو عاصم النبيل ( 1 / 239 برقم 70 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : (متفق عليه مخرج يروي عنه البخاري ويفتخر به ) 4) عبد الرحمن بن القاسم العتقي الزاهد ( 1 / 239 برقم 70 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( متفق عليه اول من حمل الموطأ الى مصر إمام روى عنه الحارث ابن مسكين واقرانه ) 5) الامام سفيان بن عيينة ( 1 / 239 برقم 70 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( إمام متفق عليه بلا مدافعة ) أهـ ..
  19. مزید عرض یہ ہے کہ محدث کی ویب سائٹ پر کسی صاحب نے اس حدیث پر یہ بھی اعتراض کیا ہے۔ ايك اور وجہ اس روايت كے ضعف كي يہ ہو سكتي ہے كی ابو صالح جو يہاں مالك بن عياض سے روايت كر رہے ہيں ان كا بقول امام ابو زرعة حضرت ابو ذر سے سماع ثابت نهيں كذا في التهذيب (3/190)۔ تحفة التحصيل (ص ١٠١) للعراقي اور جامع التحصيل (ص ١٧٤) للعلائي ميں يہ ہے كہ ذكوان أبو صالح السمان معروف قال أبو زرعة لم يلق أبا ذر وهو عن أبي بكر وعن عمر وعن علي رضي الله عنهم مرسل اس سے واضح ہے كہ ابو صالح كا حضرت علي سے بھي سماع ثابت نہيں ہے- تو يہ محال ہوگا کہ وہ مالک الدار سے روايت كریں جو كہ ايك مخضرم تھے- اسي اختلاف كي طرف الخليلي نے اشاره كيا ہے- جيسا كہ وه الارشاد ميں مالك الدار كے ترجمہ ميں فرماتے ہیں: يقال : إن أبا صالح سمع مالك الدار هذا الحديث ، والباقون أرسلوه "كها گيا هے كہ ابز صالح نے اس روايت كو مالك الدار سے سنا ہے- جبكہ باقي اسے مرسل روايت كرتے ہيں-" جواب: عرض یہ ہے کہ مذکورہ حوالہ میں کسی حوالہ سے ابا صالح ذکوان کا مالک الدار سے سماع کے نفی ثابت نہں ہوتی۔ مزید یہ کہ محدثین کرام نے مالک الدار سے ابو صالح کی روایت کی تصریح کی ہے۔ 8375- مالك بن عياض «1» : مولى عمر، هو الّذي يقال له مالك الدّار. له إدراك، وسمع من أبي بكر الصّديق، وروى عن الشّيخين، ومعاذ، وأبي عبيدة. روى عنه أبو صالح السمان، وابناه: عون، وعبد اللَّه ابنا مالك. وأخرج البخاريّ في التّاريخ من طريق أبي صالح ذكوان، عن مالك الدّار- أنّ عمر قال في قحوط المطر: يا رب، لا آلو إلا ما عجزت عنه. الكتاب: الإصابة في تمييز الصحابة المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) 1295 - مالك بْن عياض الدار أن عُمَر قَالَ فِي قحط يا رب لا آلو إلا ما عجزت عنه قَالَه علي عَنْ مُحَمَّد بْن خازم (5) عن ابى صالح عَنْ مالك الدار. الكتاب: التاريخ الكبير المؤلف: محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله (المتوفى: 256هـ) مَالِكٌ الدَّارُ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , وَقَدِ انْتَمَوْا إِلَى جُبْلَانَ مِنْ حِمْيَرَ , وَرَوَى مَالِكٌ الدَّارُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَعُمَرَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ. رَوَى عَنْهُ أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ , وَكَانَ مَعْرُوفًا الكتاب: الطبقات الكبرى المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) 7180 - مالك بن عياض المعروف بمالك الدار المدني (4) مولى عمر بن الخطاب ويقال الجبلاني (5) سمع أبا بكر الصديق وعمر بن الخطاب وأبا عبيدة بن الجراح ومعاذ بن جبل وروى عنه أبو صالح السمان الكتاب: تاريخ دمشق المؤلف: أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله المعروف بابن عساكر (المتوفى: 571هـ) 1817- 1816) مالك الدار: سَمِعْتُ مُصْعَب بن عَبْد الله يقول: مالك الدار مولى عمر بن الخطاب، روى عن أبي بكر، وعمر بن الخطاب وقد انتسب [ق/122/أ] ولده في جبلان، روى عن مالك الدار: أبو صالح ذكوان.
  20. اس معاملہ میں عرض یہ کہ مالک الدار مجہول نہیں ہیں۔ کیونکہ ابن سعد نے ان کو معروف لکھا ہے۔ 598- مالك الدار مولى عُمَر بْن الْخَطَّاب. وقد انتموا إلى جبلان من حمير. وروى مالك الدار عَنْ أَبِي بَكْر الصِّدِّيق وعُمَر. رحمهما اللَّه. روى عَنْهُ أَبُو صالح السمان. وكان معروفا. الكتاب: الطبقات الكبرى المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اور یہ بات مخفی نہیں کہ معروف سے مجہول کی نفی ہوتی ہے۔ حافظ خلیلی نے مالک الدار کو تابعی لکھا اور ساتھ ہی محدثین کرام سے ان کی تعریف ثابت کی۔ مَالِكُ الدَّارِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ الرِّعَاءِ عَنْهُ: تَابِعِيُّ , قَدِيمٌ , مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ , أَثْنَى عَلَيْهِ التَّابِعُونَ الكتاب: الإرشاد في معرفة علماء الحديث المؤلف: أبو يعلى الخليلي
×
×
  • Create New...