Jump to content

Qadri Sultani

مدیرِ اعلیٰ
  • کل پوسٹس

    1,554
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    79

سب کچھ Qadri Sultani نے پوسٹ کیا

  1. محترم عدیل خان صاحب حضرت سلیمان بن اعمش کی تدلیس کا جواب خود آپ کے فورم میں موجود آرٹیکل سے ہی دے دیا گیا۔آس کے علاوہ آپ کے زبیر علی زئی صاحب کے استاد آپ کے تمام دلائل کا قلع قمع کر دیا حضرت مالک الداروالی ایک روایت کو خود آپ کے البانی نے حسن لکھا اس کا جواب آپ گول کر گئے مالک الدار کا مجہول نہ ہوناکا جواب بھی موجود ہے لیکن آپ کاپی پیسٹ کے علاہ کچھ کریں تو سمجھ آۓ
  2. مالک الدار کو حافظ الخلیلی نے اپنی کتاب الارشاد میں متفق علیہ کہا ہے۔اگر کوئی اعتراض کرے کہ متفق علیہ سے ثقہ کیسے ثابت ہوتا ہے تو اس بارے میں چند اقوال پیش خدمت ہیں جس میں محدثین کرام نے متفق علیہ کہا اور اس سے مراد راوی کی توثیق ہے۔ عبيد الله بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ( 1 / 192 برقم 16 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( عالم متفق عليه مخرج ) .. 2) عبد الله بن نافع الزبيري ( 1 / 228 برقم 53 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( من أصحاب مالك متفق عليه ) .. 3) ابو عاصم النبيل ( 1 / 239 برقم 70 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : (متفق عليه مخرج يروي عنه البخاري ويفتخر به ) 4) عبد الرحمن بن القاسم العتقي الزاهد ( 1 / 239 برقم 70 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( متفق عليه اول من حمل الموطأ الى مصر إمام روى عنه الحارث ابن مسكين واقرانه ) 5) الامام سفيان بن عيينة ( 1 / 239 برقم 70 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( إمام متفق عليه بلا مدافعة ) أهـ ..
  3. مزید عرض یہ ہے کہ محدث کی ویب سائٹ پر کسی صاحب نے اس حدیث پر یہ بھی اعتراض کیا ہے۔ ايك اور وجہ اس روايت كے ضعف كي يہ ہو سكتي ہے كی ابو صالح جو يہاں مالك بن عياض سے روايت كر رہے ہيں ان كا بقول امام ابو زرعة حضرت ابو ذر سے سماع ثابت نهيں كذا في التهذيب (3/190)۔ تحفة التحصيل (ص ١٠١) للعراقي اور جامع التحصيل (ص ١٧٤) للعلائي ميں يہ ہے كہ ذكوان أبو صالح السمان معروف قال أبو زرعة لم يلق أبا ذر وهو عن أبي بكر وعن عمر وعن علي رضي الله عنهم مرسل اس سے واضح ہے كہ ابو صالح كا حضرت علي سے بھي سماع ثابت نہيں ہے- تو يہ محال ہوگا کہ وہ مالک الدار سے روايت كریں جو كہ ايك مخضرم تھے- اسي اختلاف كي طرف الخليلي نے اشاره كيا ہے- جيسا كہ وه الارشاد ميں مالك الدار كے ترجمہ ميں فرماتے ہیں: يقال : إن أبا صالح سمع مالك الدار هذا الحديث ، والباقون أرسلوه "كها گيا هے كہ ابز صالح نے اس روايت كو مالك الدار سے سنا ہے- جبكہ باقي اسے مرسل روايت كرتے ہيں-" جواب: عرض یہ ہے کہ مذکورہ حوالہ میں کسی حوالہ سے ابا صالح ذکوان کا مالک الدار سے سماع کے نفی ثابت نہں ہوتی۔ مزید یہ کہ محدثین کرام نے مالک الدار سے ابو صالح کی روایت کی تصریح کی ہے۔ 8375- مالك بن عياض «1» : مولى عمر، هو الّذي يقال له مالك الدّار. له إدراك، وسمع من أبي بكر الصّديق، وروى عن الشّيخين، ومعاذ، وأبي عبيدة. روى عنه أبو صالح السمان، وابناه: عون، وعبد اللَّه ابنا مالك. وأخرج البخاريّ في التّاريخ من طريق أبي صالح ذكوان، عن مالك الدّار- أنّ عمر قال في قحوط المطر: يا رب، لا آلو إلا ما عجزت عنه. الكتاب: الإصابة في تمييز الصحابة المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) 1295 - مالك بْن عياض الدار أن عُمَر قَالَ فِي قحط يا رب لا آلو إلا ما عجزت عنه قَالَه علي عَنْ مُحَمَّد بْن خازم (5) عن ابى صالح عَنْ مالك الدار. الكتاب: التاريخ الكبير المؤلف: محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله (المتوفى: 256هـ) مَالِكٌ الدَّارُ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , وَقَدِ انْتَمَوْا إِلَى جُبْلَانَ مِنْ حِمْيَرَ , وَرَوَى مَالِكٌ الدَّارُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَعُمَرَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ. رَوَى عَنْهُ أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ , وَكَانَ مَعْرُوفًا الكتاب: الطبقات الكبرى المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) 7180 - مالك بن عياض المعروف بمالك الدار المدني (4) مولى عمر بن الخطاب ويقال الجبلاني (5) سمع أبا بكر الصديق وعمر بن الخطاب وأبا عبيدة بن الجراح ومعاذ بن جبل وروى عنه أبو صالح السمان الكتاب: تاريخ دمشق المؤلف: أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله المعروف بابن عساكر (المتوفى: 571هـ) 1817- 1816) مالك الدار: سَمِعْتُ مُصْعَب بن عَبْد الله يقول: مالك الدار مولى عمر بن الخطاب، روى عن أبي بكر، وعمر بن الخطاب وقد انتسب [ق/122/أ] ولده في جبلان، روى عن مالك الدار: أبو صالح ذكوان.
  4. اس معاملہ میں عرض یہ کہ مالک الدار مجہول نہیں ہیں۔ کیونکہ ابن سعد نے ان کو معروف لکھا ہے۔ 598- مالك الدار مولى عُمَر بْن الْخَطَّاب. وقد انتموا إلى جبلان من حمير. وروى مالك الدار عَنْ أَبِي بَكْر الصِّدِّيق وعُمَر. رحمهما اللَّه. روى عَنْهُ أَبُو صالح السمان. وكان معروفا. الكتاب: الطبقات الكبرى المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اور یہ بات مخفی نہیں کہ معروف سے مجہول کی نفی ہوتی ہے۔ حافظ خلیلی نے مالک الدار کو تابعی لکھا اور ساتھ ہی محدثین کرام سے ان کی تعریف ثابت کی۔ مَالِكُ الدَّارِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ الرِّعَاءِ عَنْهُ: تَابِعِيُّ , قَدِيمٌ , مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ , أَثْنَى عَلَيْهِ التَّابِعُونَ الكتاب: الإرشاد في معرفة علماء الحديث المؤلف: أبو يعلى الخليلي
  5. اب معاملہ رہا کہ محدثین کا کسی سند کو صحیح کہنا اس سند کی توثیق ہوتی ہے کہ نہیں۔ اس معاملہ پر غیر مقلدین کے ہی ۲ متعصب عالم کفایت اللہ سنابلی اور طاہر رفیق کی ایک پوسٹَ پیش خدمت ہے۔ ضمنی توثیق یہ میری اپنی تعبیر ہے لوگوں کو سمجھانے کے لئے ، اور یہ فرق بتانے کے لے کچھ رواۃ کی واضح طور پر توثیق ملتی ہے اور کچھ کی اس طرح کی اس سے مروی روایت کی کوئی ناقد صحیح کہہ دئے تو محدثین اسے بھی توثیق ہی کا نام دیتے ہیں میں نے ضمنی تعبیر دوونوں‌ حالتوں میں‌ تفریق کے لئے استمال کی ۔ جہاں تک محدثین کی بات ہے تو وہ واضح طور پر تصحیح کو ثقہ کہتے ہیں یعنی ضمنی توثیق کی تعبر نہ استعمال کرکے تقہ وتوثیق کا لفظ‌ استعمال کرتے ہیں۔ امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628)نے کہا: وَفِي تَصْحِيح التِّرْمِذِيّ إِيَّاه توثيقها وتوثيق سعد بن إِسْحَاق، وَلَا يضر الثِّقَة أَن لَا يروي عَنهُ إِلَّا وَاحِد، وَالله أعلم. [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 395]. امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا: الثقة: من وثَّقَه كثيرٌ ولم يُضعَّف.ودُونَه: من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17]. امام زيلعي رحمه الله (المتوفى762)نے کہا: فَكَذَلِكَ لَا يُوجِبُ جَهَالَةَ الْحَالِ بِانْفِرَادِ رَاوٍ وَاحِدٍ عَنْهُ بَعْدَ وُجُودِ مَا يَقْتَضِي تَعْدِيلَهُ، وَهُوَ تَصْحِيحُ التِّرْمِذِيِّ، [نصب الراية 1/ 149]. امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804)نے کہا: وَقَالَ غَيره: فِيهِ جَهَالَة، مَا رَوَى عَنهُ سُوَى ابْن خُنَيْس. وَجزم بِهَذَا الذَّهَبِيّ فِي «الْمُغنِي» فَقَالَ: لَا يعرف لَكِن صحّح الْحَاكِم حَدِيثه - كَمَا ترَى - وَكَذَا ابْن حبَان، وَهُوَ مُؤذن بمعرفته وثقته.[البدر المنير لابن الملقن: 4/ 269]. حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا: قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248]. عصرحاضر میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا: أن ضبة هذا قد وثقه ابن حبان، وقال الحافظ ابن خلفون الأندلسي: "ثقة مشهور"، وكذلك وثقه كل من صحّح حديثه؛ إما بإخراجه إياه في "الصحيح" كمسلم وأبي عوانة؛ أو بالنص على صحته كالترمذي. [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 7/ 16]. حافظ‌ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا بھی یہی اصول ہے جیساکہ متعدد کتب میں‌ انہوں نے صراحت کررکھی ہے۔ کفایت اللہ, ‏مارچ 16, 2013 جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی محدث کی روایت کو صحیح الاسناد کہتا ہے تو اسکی طرف اسے اس سند میں موجود میں رواۃ کی ضمنا توثیق بھی ہوتی ہے ۔ لیکن یہاں میرے پیش نظر دو اہم باتیں ہیں ۱۔ اس ضمنی توثیق اور بالصراحت توثیق میں فرق ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضمنی توثیق یقینا ایک ناقد محدث کی طرف سے اس راوی کی توثیق ہی ہے لیکن اسکا درجہ اس ثقہ راوی والا نہیں ہے جسکی توثیق بالصراحت کی جائے گی ۔ اور اس فرق کا فائدہ اختلاف کے وقت ظاہر ہوگا ۔ ۲۔ کوئی محدث صحیح احادیث جمع کرنے کی شرط لگا کر چند روایات جمع کرتا ہے اپنی کسی بھی کتاب میں اس میں موجود کسی مجہول یا ضعیف راوی, اور کسی خاص سند کو صحیح قرار دیتا ہے اس میں موجود اسی قبیل کے راوی کے درجہ کے درمیان فرق ۔ اس بارہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ صحیحین میں بھی کچھ مجروح وضعیف رواۃ کی مرویات موجود ہیں , لیکن صحیح بخاری یا مسلم میں انکی مرویات موجود ہونے کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہتے کہ ان نقاد نے انکی توثیق کی ہے , بلکہ ہم کہتے ہیں کہ انکی مرویات انہوں نے اصالۃ ذکر نہیں کیں بلکہ استشادا وغیرہ پیش کی ہیں ۔ کیا یہ اصول دیگر محدثین کی کتب مثلا صحیح ابن حبان صحیح ابن خزیمہ , ابن الجارود وغیرہ پر نہیں لگ سکتا ؟ حالانکہ امت اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ ان برگزیدہ ہستیوں نے صرف صحیح احادیث جمع کرنی کی سعی مشکور تو کی ہے لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ اور پھر انکی صحیح قرار شدہ احادیث پر جرح ونقد کرکے علتیں واضح کرکے انکے موقف کے سقم کو واضح کر دیا جاتا ہے ۔ تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ تصحیح حدیث میں جس طرح ان سے تسامح ہوا ہے ایسے ہی ان رواۃ کے بارہ میں بھی ہوا ہو جو انکی ان کتب میں مذکور ہیں ۔ ہاں اگر یہ ناقد محدثین کسی سند کو بعینہ صحیح الاسناد وغیرہ کہتے ہیں تو پھر انکی طرف سے رواۃ کی ثقاہت اور اتصال سند اور عدم علت کی گارنٹی ہی ہوگی ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مثلا امام حاکم بہت سی احادیث کو على شرط الشیخین صحیح الاسناد قرار دیتے ہیں اور علامہ ذہبی انکی موافقت بھی کر رہے ہوتے ہیں مگر اسکے باوجود اس میں علت قادحہ پائی جاتی ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ائمہ کا صحیح الاسناد کہنا بھی کوئی اتنا زیادہ مضبوط نہیں ہے ۔ یہ میری کچھ آراء ہیں ان پر آپکے علمی رد کا انتظار ہے ۔ وجزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم
  6. مزید عرض یہ ہے کہ زبیر علی زئی کے استاد محب اللہ شاہ راشدی نے بھی ان کی درگت بنائی تھی اس مسئلہ پر۔ تسکین القلب المشوش بإعطاء التحقیق فی تدلیس الثوری والأعمش یہ مطبوع ہے۔ مقالات راشدیہ جلد اول
  7. اب اس مسئلہ تدلیس پرجس غیر مقلد نےساری کہانی زبیر علی زئی سے لی ہے،اس کا رد قارئین کرام نےملاحظہ کیا۔ اب اسی مسئلہ تدلیس پر زبیر علی زئی متصعب غیر مقلد کے ایک شاگرد ابن البشیر الحسینوی نے جو لکھا وہ ملاحظہ کریں۔ امام شافعی اور مسئلہ تدلیس میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ فاضل مرکز التربیۃ الاسلامیۃ فیصل آباد مدرس جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور امام شافعی اور مسئلہ تدلیس میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات جس نے ایک بار بھی تدلیس کی اس کی عن والی حدیث ضعیف ہے ؟! قال بعض الناس : جس نے ایک بار بھی تدلیس کی اس کی عن والی حدیث ضعیف ہے خواہ وہ قلیل التدلیس ہو یا کثیر التدلیس ۔ یہ نظریہ درست نہیں اس نظریہ کو اپنانے میں بے شمار صحیح احادیث کو ضعیف کہا جائے گا حالانکہ وہ محدثین کے ہاں صحیح تھیں یہی خدشہ آج سے کئی سال پہلے استاد محترم کے استاذ محترم محب اللہ شاہ راشدی محدث سندھ محب اللہ رحمہ اللہ نے کہا تھا ۔کہ (لیکن اگر اس موقف کو سامنے رکھ کر ہم دواوین حدیث کو تلاش کرنا شروع کردیں تو بہت سی روایات جن کو سلف سے لے کر خلف تک صحیح ومتصل قرار دیتے آئے ہیں ان میں سے اچھی خاصی تعداد ضعیفہ بن جائے گی)(مقالات راشدیہ ١/٣٢٨)۔ ہماری معروضات پڑھ کر قاری علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہے کہ بعض الناس کی مسئلہ تدلیس میں تحقیقات سلف کے خلاف ہیں ۔اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔ پہلی مثال: قال بعض الناس : ''اسماعیل بن ابی خالد عنعن وھو مدلس (الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین :٣٦/٢ وھو من الثالثۃ) اس بنا پر وہ کئی ایک احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں مثلا (انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ من السن الاربعۃ)میں سرسری نظر دیکھنے سے ہمیں مندرجہ ذیل احادیث پر اطلاع ہوئی ہے جن کوصرف اس وجہ سے ضعیف کہا گیا ہے کہ ان میں اسماعیل بن ابی خادلد مدلس راوی ہیں اور عن سے بیان کر رہے ہیں ۔ انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفہ من السنن الاربعہ ص:١٠٦ ح ٢٩٣٠، ص١٥٢ ح ٤٢٧٠، ص ٤٣٧ ح:١٦١٢وغیرہ ۔ اسماعیل بن ابی خالد کے عنعنہ کا حکم: ابن ابی خالد کا عنعنہ مقبول ہے، کیونکہ وہ قلیل التدلیس ہیں، چنانچہ امام یعقوب بن شیبۃ رحمہ اللہ نے امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے مدلس کی بابت دریافت کیا تو امام صاحب نے جواباً فرمایا: ''إن کان الغالب علیہ التدلیس فلا یقول: حدثنا'' ''جب اس پر تدلیس غالب ہو تب اس کی روایت صراحتِ سماع کے ساتھ قبول کی جائے گی۔'' (الکفایۃ للبغدادی: ٢/ ٣٨٧، سندہ صحیح) گویا قلیل التدلیس مدلس کا عنعنہ مقبول ہے، الا یہ کہ کسی روایت میں تدلیس ثابت ہوجائے تو وہ اس عمومی قاعدہ سے مستثنیٰ ہوگی۔ امام مسلم رحمہ اللہ بھی مقدمہ صحیح مسلم میں فرماتے ہیں: ''إنما کان تفقد من تفقد منھم سماع رواۃ الحدیث ممن روی عنھم إذا کان الراوي ممن عرف بالتدلیس في الحدیث وشھر بہ فحینئذٍ یبحثون عن سماعہ في روایتہ ویتفقدون ذلک منہ کی تنزاع عنھم علۃ التدلیس.'' (مقدمہ صحیح مسلم، ص: ٢٢) امام مسلم رحمہ اللہ کے اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ جو راوی کثیر التدلیس ہو اس کے سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی، جس کے لیے انھوں نے ''عُرِفَ'' اور''شُھِرَ بِہٖ'' کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور کوئی راوی تدلیس میں اسی وقت مشہور ہوگا، جب وہ کثرت سے تدلیس کرے گا، گویا قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا اور آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ابن ابی خالد کو نسائی نے مطلق طور پر مدلسین میں شمار کیا ہے اور حافظ عجلی نے توضیح فرما دی کہ وہ شعبی سے تدلیس کرتے ہیں۔ اور جو راوی کسی خاص استاد سے تدلیس کرے تو اس کی باقی شیوخ سے مرویات سماع پر محمول کی جاتی ہیں، چنانچہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ''ذکر من عرف بالتدلیس وکان لہ شیوخ لا یدلس عنھم؛ فحدیثہ عنھم متصل.'' (شرح علل الترمذي: ٢/ ٨٥٧) ''وہ مدلسین جو خاص اساتذہ سے تدلیس کرتے ہیں ان کی دیگر شیوخ سے معنعن روایات سماع پر محمول کی جائیں گی۔'' شیخ محمد بن طلعت بھی رقمطراز ہیں: ''اسماعیل بن ابی خالد کی تدلیس شعبی سے روایت کرنے میں خاص ہے، لہٰذا کسی اور استاذ سے عنعنہ میں توقف نہیں کیا جائے گا۔'' (معجم المدلسین، ص: ٨٥) اس لیے اسماعیل بن ابی خالد کی شعبی کے علاوہ دیگر شیوخ سے معنعن روایت سماع پر محمول کی جائے گی۔ جو مدلس راوی کسی شیخ کا خاص شاگرد ہو تو اس کی اس مخصوص استاذ سے معنعن روایت بھی سماع پر محمول ہوگی، جیسا کہ حافظ عجلی رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیل، قیس کے خاص ترین شاگرد ہیں، بلکہ أروی الناس ہیں، اور ان کی مرویات کی تعداد پانچ صد کے لگ بھگ بتلائی ہے، اس لیے اسماعیل کی قیس سے معنعن روایت سماع پر محمول کی جائے گی، چنانچہ امام حمیدی نے ابن جریج عن عطاء کو سماع پر محمول کیا ہے۔ (الکفایۃ للخطیب البغدادي: ٢/ ٤٠٩، رقم: ١١٩٠ ۔إسنادہ صحیح۔) کیونکہ ابن جریج عطاء کے اخص ترین شاگرد ہیں اور ابن جریج، اسماعیل بن ابی خالد سے بڑے مدلس ہیں۔ گویا ابن ابی خالد کی معنعن روایت کے مقبول ہونے کے قرائن تین ہیں: ١۔ وہ قلیل التدلیس ہیں۔ ٢۔ صرف شعبی سے تدلیس کرتے ہیں۔ ٣۔ قیس کے خاص شاگرد ہیں اور نوحہ والی روایت بھی قیس ہی سے بیان کرتے ہیں۔ ان تینوں قرائن کی مزید تفصیل ہمارے مضمون ''التوضیح والتنقیح في مسئلۃ التدلیس'' میں ملاحظہ فرمائیں۔ دوسرا جواب: شعبی سے تدلیس: اسماعیل بن ابی خالد کے عنعنہ کے حوالے سے دوسرا جواب یہ ہے کہ موصوف صرف شعبی سے تدلیس کرتے ہیں، جیسا کہ امام احمد، امام یحییٰ بن سعید القطان سے نقل کرتے ہیں کہ ''دیۃ الخطأ أخماسا ما دون النفس'' والی حدیث اسماعیل نے شعبی سے نہیں سنی۔ (العلل و معرفۃ الرجال للإمام أحمد: ٢/ ٢٦٦، فقرۃ: ٢٢٠٥، مسائل الإمام أحمد و ابن راھویہ: ٢/ ٢١٤، مسئلۃ: ٢٣٥١، روایۃ الکوسج) اسی طرح دوسری حدیث: ''لما جاء نعی جعفر'' بھی ابن ابی خالد نے شعبی سے سنی نہیں۔ (العلل و معرفۃ الرجال: ٣/ ٢١٦، فقرۃ: ٤٩٣٣) امام عبداﷲ بن امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم نے امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ سے ''إسماعیل بن أبي خالد عن عامر عن شریح'' وغیرہ کی احادیث کی بابت دریافت کیا کہ میری کتاب میں ''إسماعیل قال: حدثنا عامر عن شریح، حدثنا عامر عن شریح''ہے (اسماعیل صراحتِ سماع کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں)۔ امام یحییٰ فرمانے لگے: اسماعیل عن عامر؟ میں نے عرض کی: میری کتاب میں ''حدثنا عامر، حدثنا عامر'' ہے۔ مجھے یحییٰ رحمہ اللہ فرمانے لگے: یہ روایات صحیح ہیں، اگر ان کو اسماعیل نے عامر شعبی سے سنا نہ ہوتا تو میں اس کی خبر دیتا۔ (العلل و معرفۃ الرجال: ١/ ٥١٩، فقرۃ: ١٢١٨) اس کی مزید توضیح یوں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ یہ سبھی احادیث صحیح ہیں؟ یعنی ابن ابی خالد عن عامر کی وہ احادیث جن میں وہ حدثنا عامر نہیں کہتے؟ گویا انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔ امام یحییٰ رحمہ اللہ فرمانے لگے: جب ابن ابی خالد اسے سننے کا ارادہ نہ کریں (تدلیس کریں) تو میں آپ کو خبردار کر دیتا۔ (العلل و معرفۃ الرجال: ٣/ ٩٠، فقرہ: ٤٣٢٠) امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے بھی امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ آپ اسماعیل عن عامر کو صحاح پر محمول کرتے ہیں؟ جواب دیا: ہاں! (الجرح والتعدیل: ٢/ ١٧٥ ۔سندہ صحیح۔) امام ابن القطان کے ان تینوں اقوال کو سامنے رکھنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ اسماعیل نے شعبی سے روایت کرتے ہوئے کن کن حدیثوں میں تدلیس کی ہے، پھر تدلیس شدہ روایات کی صراحت کر دی، جیسا کہ دو حدیثوں کا حوالہ ابھی گزر چکا ہے اور جن مرویات میں تدلیس نہیں ہے ان میں ابن ابی خالد کے عنعنہ کو قبول بھی کیا ہے، جیسا کہ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے استفسار میں فرمایا۔ اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ کو فرمایا کہ ابن ابی خالد اگر تدلیس کرتے تو میں ضرور اس کی اطلاع آپ کو دے دیتا، یعنی اسماعیل، شعبی سے روایت کرتے ہوئے، سبھی معنعن روایات میں تدلیس نہیں کرتے، اگر تدلیس ہے تو وہ بھی انتہائی تھوڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسماعیل کا کسی اور استاذ سے تدلیس کرنا ثابت ہے؟ بالخصوص قیس بن ابی حازم سے؟ اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ اسماعیل کسی اور شیخ سے تدلیس نہیں کرتے، صرف چند احادیث میں شعبی سے تدلیس کرتے ہیں، لہٰذا شعبی کے علاوہ باقی شیوخ سے معنعن روایت مقبول ہوگی، الّا یہ کہ اس میں کوئی نکارت پائی جائے۔ یہ غلط ہے کہ جس نے زندگی میں صرف ایک بار تدلیس کی اس کی عن والی احادیث ضعیف ہے ،اسی غلطی کی بنا پر وہ بہت زیادہ احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ محدثین سلف و خلف کے نزدیک صحیح ہیں اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔ پہلی مثال: محدثین کے نزدیک اسماعیل بن ابی خالد کی عن والی حدیث صحیح اور استاد محترم کے نزدیک ضعیف ۔ محدثین کا اسماعیل بن خالد کی عن سے مروی حدیث کو قبول کرنا: متعدد محدثین نے اسماعیل بن ابی خالد کے بدونِ تدلیس عنعنہ کو قبول کیا ہے۔ ذیل میں ان کے اسماء درج ہیں۔ ١۔ امام ترمذی ٢٧٩ھ، سنن الترمذی (حدیث: ٢٥٥١، ٣٠٥٧، ٣٨٢١، وقال: حسن صحیح) و (حدیث: ١٩٢٥، ٢١٦٨ وقال: صحیح) و (حدیث: ٣٧١١، وقال: حسن صحیح غریب)۔ ٢۔ امام الأئمۃ ابن خزیمہ ٣١١ھ۔ صحیح ابن خزیمۃ (٤/ ١٣، ح: ٢٢٥٩) ٣۔ امام ابو عوانہ ٣١٦ھ۔ مسند أبي عوانۃ، المستخرج علی صحیح مسلم (١/ ٣٧، ٥٨، ٥٩، ٩٦، ٣٧٦ و ٢/ ٨٦ مرتین، ص: ٣٦٦)۔ ٤۔ امام ابو نُعیم ٤٣٠ھ۔ المسند المستخرج علی صحیح مسلم (١/ ١٣٧، ١٣٨، ح: ١٧٨ و ٢/ ٤٠٩، ٤١٠، ٤١١، ٤٩٤، ح: ١٨٤٣، ١٨٤٤، ١٨٤٧، ١٨٤٨، ٢٠٤٦ و ٣/ ١٠٩، ح: ٢٣٢٤ و ٤/ ٦٦، ح: ٣٢٤٥)۔ ٥۔ امام ابن الجارود ٣٠٧ھ۔ المنتقی (حدیث: ٣٣٤) اس کتاب کی روایت حسن درجہ سے کم نہیں ہے۔ (سیر أعلام النبلاء: ١٤/ ٢٣٩) ٦۔ امام ابن حبان ٣٥٤ھ۔ صحیح ابن حبان (١/ ١٥٢، ٢٦١۔ ٢٦٢ مرتین، ح: ٩٠، ٣٠٤، ٣٠٥ و ٣/ ٢٨٨، ح: ٢١٣٤ و ٤/ ٢٨٥، ح: ٢٩٨٨ و ٥/ ٩٩، ح: ٣٢٣٢ و ٦/ ١٧٥، ٢٦٨، ح: ٤١٢٩، ٤٣١٥ و ٧/ ٥٣، ٥٨٩، ح: ٤٥٦٤، ٥٩٥٣ و ٨/ ١١، ١٢١، ١٦٢، ٢٣٧، ح: ٢١٢٦، ٦٤١٢، ٦٤٩٤، ٦٦٣٩...)۔ ٧۔ امام حاکم ٤٠٥ھ۔ المستدرک (١/ ٣٢٢۔ ٣٢٣ و ٢/ ٤٦٦، ٤٨٨ و ٣/ ٨٤، ٤٤٠ و ٤/ ٦، ٥٤٦، ٥٨٨) وقال: ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ. و (٢/ ١٥٧) وقال: ھذا حدیث صحیح الإسناد علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ. و (٣/ ٩٩، ٤٩٩) وقال: ھذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ. ٨۔ ابو الحسن احمد بن محمد بن منصور عتیقی ٤٤١ھ۔ (امام محدث ثقۃ) المنتقی: حافظ ابوبکر احمد بن محمد بن غالب برقانی خوارزمی ٤٢٥ھ (حافظ ثبت) في ''التخریج لصحیح الحدیث عن الشیوخ الثقات علی شرط کتاب محمد بن إسماعیل البخاري وکتاب مسلم بن الحجاج القشیری أو أحدھما'' (التخریج علی الصحیحین) (ص: ٣٩، حدیث: ١٣ وقال ھو حدیث صحیح) و (ص: ٥٢۔ ٥٣) حدیث: (٢٩، ٣٠) ٩۔ قاضی ابو یعلی الفراء ٤٥٨ھ۔ في ''ستۃ مجالس من أمالی'' (ص: ٥٠، ح: ٢) وقال: ھذا حدیث صحیح. ١٠۔ محدث امام البانی ١٤٢٠ھ۔ السلسلۃ الصحیحۃ (حدیث: ٤٧٥، ٧٦٤، ٧٦٨، ٨٠٨، ٨٣٣، ١٢٥٣، ١٥٦٤، ١٨٧٦، ٢٦٦٣، ٢٨٢٥، ٢٨٣١) ظلال الجنۃ (حدیث: ٣٩٢، ٤٤٦۔ ٤٥١، (٤٦١ وراجع: الصحیحۃ: ٣٠٥٦) ٧٣٩، ١١٧٥، ١١٧٦) سنن أبي داود (٧/ ٤٠٠، حدیث: ٢٣٨٠ و ٨/ ١٠٨) صفۃ صلاۃ النبي (٣/ ٨٦٤) وغیرہ. تلک عشرۃ کاملۃ. کیا بعض الناس ان محدثین کے مقابلے میں اپنی تائید میں کوئی معتبر حوالہ پیش کر سکتے ہیں؟ ملحوظ رہے کہ بعض مقامات پر اسماعیل بن ابی خالد کے متابع یا شاہد موجود ہیں، مگر ہمارا مقصود صرف اس قدر ہے کہ محدثین نے اسماعیل کے عنعنہ بدونِ تدلیس کو باعثِ جرح قرار نہیں دیا۔ جیسا کہ معترض باور کرا رہے ہیں۔ کیاخوب کہا یمن کے عظیم محدث شیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ نے ،وہ فرماتے ہیں : ''و نحن ما نظن ان المتاخرین یعثرون علی ما لم یعثر علیہ المتقدمون اللھم الا فی النادر ۔'' ہمارا نہیں خیال کہ متاخرین اس بات پر اطلاع پا لیں جس پر متقدمین اطلاع نہ پا سکے ہوں ،ہاں کبھی کبھار ایسا ہو سکتا ہے ۔(اسئلۃ فی المصطلح ،السوال ٢٠) نیز ایک سوال کے جواب میں کہا: ''ارونی شخصا یحفظ مثل یحفظ البخاری ،او احمد بن حنبل ،او تکون لہ معرفۃ بعلم الرجال مثل یحی بن معین ،او لہ معرفۃ بالعلل مثل علی بن المدینی ،والدارقطنی ،بل مثل معشار الواحد من ہولاء ،ففرق کبیر بین المتقدمین والمتاخرین ۔'' مجھے ایک ایسا شخص دکھائیں جو امام بخاری رحمہ اللہ یا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرح کا حافظہ رکھتا ہو یا اسے امام یحی بن معین رحمہ اللہ کی طرح علم رجال کی معرفت ہو یا اسے امام علی بن مدینی رحمہ اللہ اور امام دار قطنی رحمہ اللہ کی طرح علل حدیث کی معرفت ہو ،بلکہ ان کے عشر عشیر کے برابر بھی موجودہ دور میں کوئی نہیں ۔لہذا متقدمین اور متاخرین میں بہت فرق ہے ۔ اس سنہری قول سے معلوم ہوا کہ جب کسی حدیث کو محدثین صحیح کہہ رہے ہوں تو ان کی تحقیق سر آنکھوں پر ہے اور جو ان کی تحقیق کی خلاف ورزی کرے گا اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ آج سے کئی سال پہلے محب اللہ شاہ راشدی محدث سندھ نے بعض الناس کے متعلق ظاہر کیا تھا ۔کہ (لیکن اگر اس موقف کو سامنے رکھ کر ہم دواوین حدیث کو تلاش کرنا شروع کردیں تو بہت سی روایات جن کو سلف سے کر خلف تک صحیح ومتصل قرار دیتے آئے ہیں ان میں سے اچھی خاصی تعداد ضعیفہ بن جائے گی)(مقالات راشدیہ ١/٣٢٨)۔ (مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری ) دوسری مثال : محدثین کے نزدیک امام زہری کی عن والی حدیث صحیح اوربعض الناس کے نزدیک ضعیف !! ہم اہل علم علماء سے انصاف چاہتے ہیں ؟ بعض الناس لکھتے ہیں : ''امام شافعی اس اصول میں اکیلے نہیں بلکہ جمہور علماء ان کے ساتھ ہیں لہذا زرکشی کا ''وہو نص غریب لم یحکمہ الجمہور ''(النکت:ص١٨٨)کہنا غلط ہے اگر کوئی شخص اس پر بضد ہے کہ اس منھج اور اصول میں امام شافعی اکیلے تھے یا جمھور کے خلاف تھے !!تو وہ درج ذیل اقتباسات پر ٹھنڈے دل سے غور کرے : (٢)امام ابو قدید عبیداللہ بن فضالہ النسائی (ثقہ مامون )سے روایت ہے کہ (امام )اسحق بن راھویہ نے فرمایا: میں نے احمد بن حنبل کی طرف لکھ کر بھیجا اور درخواست کی کہ وہ میری ضرورت کی ضرورت کے مطابق (امام)شافعی کی کتابوں میں سے (کچھ )بھیجیں تو انھوں نے میرے پاس الرسالہ بھیجی ۔(کتاب الجرح والتعدیل :٧/٢٠٤وسندہ صحیح ،تاریخ دمشق لابن عساکر :٥٤/٢٩١۔٢٩٢،نیز دیکھئے مناقب الشافعی للبیھقی :١/٢٣٤وسندہ صحیح ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کتاب الرسالہ سے راضی (متفق)تھے اور تدلیس کے اس مسئلے میں ان کی طرف سے امام شافعی پر رد ثابت نہیں ،لہذا ان کے نزدیک بھی مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہے چاہے قلیل التدلیس ہو یا کثیر التدلیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: امام اسحق بن راہویہ کے پاس امام شافعی کی کتاب الرسالہ پہنچی،لیکن انھوں نے تدلیس کے اس مسئلے پر کوئی رد نہیں فرمایا،جیسا کہ کسی روایت سے ثابت نہیں ،لہذا معلوم ہوا کہ وہ تدلیس کے مسئلے میں امام شافعی کے موافق تھے ۔'' (ماہنامہ محدث لاہور جنوری ٢٠١٠ص:٩٦۔٩٧) جواب: یہ کہاں کی تحقیق ہے کہ جمھور کو ثابت کرنے کی خاطر اس طرح کا طریقہ اپنایا جائے ،کتاب کی تعریف سے یہ کب لازم آتا ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی ہے ان سب چیزوں سے اتفاق ہو۔موصوف اس اندازسے استدلال کرنے میں اکیلے ہیں سلف و خلف میں ان کا ساتھی کوئی بھی نہیں ۔کیا کوئی شخص ہمیں دکھایا جا سکتا ہے کہ امام شافعی سے لے کرآج تک کسی عالم نے اس طریقے سے امام شافعی کے موقف کی تائید میں استدلال کیا ہواور کہا ہو کہ امام احمد اورامام اسحق بن راہویہ کا بھی امام شافعی والا موقف ہے !!!اور دلیل میں یہ حوالہ پیش کیا ہو اس طریقے سے جرح و تعدیل کے اصول ثابت کرنے والوں کی تحقیق کیا گل کھلائے گی ۔ہم نے تو اختصار کی خاطر صرف دو حوالے پیش کئے ورنہ سارا مضمون اسی طرح کی بے شمار بے بنیاد باتوں سے لبریز ہے ۔ قلیل اور کثیر تدلیس کے درمیان فرق کرنا عرب علماء نے شروع کیا ہے ؟!! بعض الناس لکھتے ہیں : ''اصول حدیث کے اس بنیادی مسئلے کے خلاف عرب ممالک میں حاتم شریف العونی ،ناصر بن حمد الفھد اور عبداللہ بن عبدالرحمن سعد وغیرھم نے منھج المتقدمین والمتاخرین کے نام سے ایک نیا اصول متعارف کرانے کی کوشش شروع کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ مدلسین کی دو قسمیں ہیں : (١) کثیر التدلیس مثلا بقیہ بن الولید ،حجاج بن ارطاۃ اور ابو جناب الکلبی وغیرھم۔ (٢) قلیل التدلیس مثلا قتادہ ،اعمش ،ہشیم ،ثوری،ابن جریج اور ولید بن مسلم وغیرھم ،دیکھئے :منھج المتقدمین والمتاخرین فی التدلیس لناصر بن حمد الفھد ،ص١٥٥،١٥٦۔ ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ صرف وہی روایت ضعیف ہو تی ہے جس میں اس کا تدلیس کرنا ثابت ہو ورنہ صحیح اور مقبول ہوتی ہے ۔''(الحدیث حضرو ) جواب : بعض الناس کی عبارت سے معلوم سے ہوتا ہے کہ قلیل اور کثیر تدلیس کے درمیان فرق کرناپندرھویں صدی میں کچھ عرب علماء نے شروع کر دیا ہے ۔یہ بات درست نہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ تحقیق کا معیار بالکل غلط ہے کہ جس اصول کو رد کرنا ہو وہاں بڑی دلیری سے کہہ دینا کہ یہ اصول اب کی ایجاد ہے اور جس اصول کو خود اپنانا ہو وہاں بے بنیاد باتوں سے عمارت کھڑی کرکے اپنا اصول ثابت کرلیا ،اس کی مثالیں اپنے وقت پر (اشکالات اور ان کے جوابات)میں آئیں گی ان شاء اللہ ۔لیکن یہ انداز بہرحال درست نہیں ہے زیر بحث اصول میں بھی کچھ ایسی ہی صورت نظر آتی ہے کیونکہ قلیل اور کثیر تدلیس کے درمیان فرق کرنا متقدمین محدثین بڑے بڑے جھابذہ سے صراحت کے ساتھ سے ثابت ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے (مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری )نیز قلیل و کثیر میں فرق تو بدیع الدین شاہ راشدی اور محب اللہ شاہ راشدی رحمھما اللہ بھی کرتے تھے کیا یہ بھی عرب علماء ہیں ۔!! امام الجرح والتعدیل شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ راشدی سندھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :ابن عیینہ کی تدلیس مرتبہ ثانیہ کی تدلیس ہے اور محدثین کے نزدیک اس کی معنعن روایت مقبول ہے ،کما فی طبقات المدلسین لابن حجر ص دو)نشاط العبد ص16) کیا محدث العصر ارشاد الحق اثری بھی قلیل و کثیر تدلیس کے قائل ہیں؟! بعض الناس نے یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اثری صاحب بھی قلیل و کثیر تدلیس کے فرق کے قائل نہیں ۔یہ بات بھی درست نہیں محض اپنے افراد زیادہ کرنے کی سعی ہے ،آئیں ملاحظہ فرمائیں کہ محدث العصر استاذ محترم ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا موقف کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں : ''ان کو بالفرض اصطلاحی مدلس کے معنی میں لیا جائے تب بھی غور طلب بات یہ ہے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ تو اس مدلس کے معنعن روایت پر نقد کرتے ہیں جو تدلیس میں معروف و مشہورہو ۔اس کے الفاظ ہیں:اذا کان الراوی ممن عرف بالتدلیس فی الحدیث وشہر بہ ۔(مقدمہ صحیح مسلم ص:٢٣ج١)اسی طرح امام علی بن مدینی سے پوچھا گیا کہ راوی مدلس ہو اور وہ حدثنا کہے تو کیا وہ حجت ہے ؟انھوں نے فرمایا:اذا کان الغالب علیہ التدلیس فلا حتی یقول حدثنا ۔''(الکفایۃ ص ٥١٢) جب اس پر تدلیس غالب ہو تو وہ اس وقت حجت نہیں ۔الا یہ کہ وہ حدثنا کہے ۔امام علی بن مدینی رحہ اللہ کے قول سے بھی معلوم ہوتا ہے اس مدلس کا عنعنہ ھجت نہیں جو کثیر التدلیس ہو اور تدلیس میں مشھور ہو اس اعتبار سے بھی مکحول رحمہ اللہ جب تدلیس میں معروف و مشھور نہیں تو اس کا عنعنہ مقبول ہے یہ بات ہم نے محض ایک رائے اور ایک مسلک کے طور پر ذکر کی ہے تا کہ قارئین اس نقطہ نظر سے بھی آگاہ ہو جائیں ۔ (توضیح الکلام ص:٣١٤،ط:جدید) علماء امت کیا اثری صاحب قلیل و کثیر تدلیس کے فرق کے قائل نہیں ہیں ۔!!!؟کیا اپنے اصول کو اپنانے کے لئے اور افراد اپنے ساتھ ذکر کرنے کے انصاف کو چھوڑنا تحقیق ہے ۔ مزید تفصیلات کے لئے ہمارا قیمتی سلسلہ (اشکالات اور ان کے جوابات )کا مطالعہ کریں ۔ مسئلہ تدلیس اور امام شافعی کے رد میں حافظ خبیب احمد الاثری کا ایک مفصل مضمون بھی تکمیل کے مراحل میں ہے ۔وہ بھی محدث فورم پرآن لائن کریں گے ان شاء اللہ Posted 14th March 2013 by ibnay basheer
  8. اس معاملہ میں تحقیق سے ہٹ کر باتیں کیں جا رہی ہیں، مخالفین الاعمش کی تدلیس اور محدثین کرام کی حدیث کی تصحیح کا معاملہ بڑا کر کے پیش کر رہے ہیں۔ اگر ہم کوئی بات کریں تو شاید بات سمجھ نہ آئے،مناسب ہوگا کہ ان کو ان ہی کی زبان میں بات سمجھائی جائے، امام اعمش رحمہ اللہ کے شیوخ واساتذہ امام اعمش نے صحابہ میں سے صرف سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا اور ان کی نماز کے طریقے پر ایک حکایت بھی نقل کی ہے مگر اس کے علاوہ ان سے روایت نہیں لی۔ اس اعتبار سے آپ کے سب سے افضل ترین شیخ صحابی رسول تھے۔ اس کے علاوہ آپ نے بے شمار کبار وصغار تابعین سے روایات لی ہیں جن میں: أبو وائل، زيد بن وهب، أبي عمرو الشيباني، إبراهيم النخعي، سعيد بن جبير، أبي صالح السمان، مجاهد، أبي ظبيان، خيثمة بن عبد الرحمن، زر بن حبيش، عبد الرحمن بن أبي ليلى، كميل بن زياد، المعرور بن سويد، الوليد بن عبادة بن الصامت، تميم بن سلمة، سالم بن أبي الجعد، عبد الله بن مرة الهمداني، عمارة بن عمير الليثي، قيس بن أبي حازم، محمد بن عبد الرحمن بن يزيد النخعي، هلال بن يساف، أبي حازم الأشجعي سلمان، أبي العالية الرياحي، إسماعيل بن رجاء، ثابت بن عبيد، أبي بشر، حبيب بن أبي ثابت، الحكم، ذر بن عبد الله، زياد بن الحصين، سعيد بن عبيدة، الشعبي، المنهال بن عمرو، أبي سبرة النخعي، أبي السفر الهمداني، عمرو بن مرة، اور يحيى بن وثاب وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے ان شیوخ میں سے ابو صالح السمان کے متعلق امام اعمش نے خود فرمایا ہے کہ: "سمعت من أبي صالح ألف حديث" "میں نے ابو صالح سے ایک ہزار احادیث سنی" (العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبد اللہ: 2910، 5588)​ گویا ابو صالح آپ کے سے قریبی شیوخ میں سے ہیں جن سے انہوں نے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔ بلکہ آپ کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بزریعہ ابو صالح کو محدثین نے اصح الاسانید بھی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ ابراہیم النخعی بھی آپ کے قریبی شیوخ میں سے تھے جن کی احادیث کو آپ دوسروں کی نسبت سب سے زیادہ جانتے تھے، چنانچہ آپ کے شاگرد امام وکیع فرماتے ہیں: "الأعمش أحفظ لإسناد إبراهيم من منصور" "اعمش ابراہیم (نخعی) کی اسناد کے منصور (بن معتمر) سے زیادہ بڑے حافظ ہیں۔" (سنن الترمذی: تحت ح 70 واسنادہ صحیح)​ جبکہ یحیی بن وثاب سے آپ نے عبد اللہ بن مسعود کی قراءت کا علم حاصل کیا۔ اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے ابو العالیہ الریاحی سے بھی علم قراءت سیکھا ہے۔ مغلطائی حنفی نے اکمال میں حافظ اسماعیلی کی ایک کتاب کو ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے امام اعمش کے شیوخ کو جمع کیا ہے۔ اس کتاب کا نام ہے: امام اعمش رحمہ اللہ کے تلامذہ امام اعمش کے تلامذہ میں بڑے بڑے علماء محدثین و فقہاء شامل ہیں۔ آپ کے علمی رتبے کی وجہ سے آپ کے ساتھیوں اور ہم عصر لوگوں نے بھی آپ سے روایتیں لی ہیں۔ ان میں الحكم بن عتيبة، أبو إسحاق السبيعي، طلحة بن مصرف، حبيب بن أبي ثابت، عاصم بن أبي النجود، أيوب السختياني، زيد بن أسلم، صفوان بن سليم، سهيل بن أبي صالح، أبان بن تغلب، خالد الحذاء، سليمان التيمي، اور إسماعيل بن أبي خالد شامل ہیں، یہ سب آپ کے اقران یا ہم عصر ساتھیوں میں سے تھے۔ ان کے علاوہ آپ سے درج ذیل لوگوں نے بھی شرف تلمذ حاصل کیا ہے: أبو حنيفة نعمان بن ثابت، الأوزاعي، سعيد بن أبي عروبة، ابن إسحاق، شعبة، معمر، سفيان الثوري، شيبان، جرير بن حازم، زائدة، جرير بن عبد الحميد، أبو معاوية، حفص بن غياث، عبد الله بن إدريس، علي بن مسهر، وكيع، أبو أسامة، سفيان بن عيينة، أحمد بن بشير، إسحاق بن يوسف الأزرق، سعد بن الصلت، عبد الله بن نمير، عبد الرحمن بن مغراء، عثام بن علي، يحيى بن سعيد الأموي، يحيى بن سعيد القطان، يونس بن بكير، يعلى بن عبيد، جعفر بن عون، الخريبي، عبيد الله بن موسى، اور أبو نعيم الفضل بن دكين وغیرہ۔ ان میں سے امام سفیان الثوری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ امام اعمش کی حدیث کو سب سے زیادہ جانتے تھے۔ چنانچہ ابو بکر بن ابی عتاب الاعین نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا: "من أحب الناس إليك في حديث الأعمش؟" "آپ کو اعمش کی حدیث میں کون سب سے زیادہ محبوب ہے؟" آپ نے فرمایا: "سفيان، قلت شعبة؟ قال: سفيان" "سفیان زیاد محبوب ہیں" میں نے پوچھا شعبہ نہیں؟ آپ نے پھر فرمایا: "سفیان"۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1/63-64)​ اسی طرح امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لم يكن أحد أعلم بحديث الأعمش من الثوري" "ثوری سے زیادہ اعمش کی حدیث کو کوئی نہیں جانتا" (ایضا)​ امام اعمش کے ایک دوسرے شاگرد ابو معاویہ فرماتے ہیں: "كان سفيان يأتيني ههنا فيذاكرني حديث الأعمش فما رأيت أحدا أعلم بحديث الأعمش منه" "سفیان میرے پاس یہاں تشریف لائے اور آپ نے اعمش کی حدیث ذکر کرنا شروع کیں، تو میں نے ان سے زیادہ کسی کو اعمش کی حدیث کا عالم نہیں دیکھا" (ایضا)​ امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں: "أحفظ أصحاب الأعمش الثوري" "الثوری اعمش کے سب سے احفظ اصحاب میں سے ہیں" (ایضا)​ اور ابو معاویہ کے متعلق امام حاکم نے فرمایا: "أبا معاوية أحفظ أصحاب الأعمش" "ابو معاویہ اعمش کے سب سے احفظ اصحاب میں سے ہیں" (مستدرک علی الصحیحین: 1/501)​ اسی طرح حفص بن غیاث کو اوثق اصحاب اعمش کہا گیا ہے چنانچہ امام علی بن المدینی فرماتے ہیں: "سمعت يحيى ابن سعيد يقول : أوثق أصحاب الأعمش حفص بن غياث . فأنكرت ذلك ، ثم قدمت الكوفة بأخرة ، فأخرج إلى عمر بن حفص كتاب أبيه عن الأعمش ، فجعلت أترحم على يحيى ، فقال لى : تنظر فى كتاب أبى و تترحم على يحيى ؟ قلت : سمعته يقول : حفص أوثق أصحاب الأعمش ، و لم أعلم حتى رأيت كتابه" "میں یحیی بن سعید (القطان) کو کہتے سنا کہ حفص بن غیاث اوثق اصحاب اعمش ہیں۔ تو میں نے ان کی اس بات کا انکار کیا۔ بعد میں جب میں کوفہ آیا تو حفص کے بیٹے عمر اپنے والد کی کتاب میرے پاس لے آئے جس میں انہوں نے اعمش کی روایات لکھ رکھی تھیں، میں نے اس کتاب کو دیکھا تو یحیی کی تعریف کرنے لگا۔ عمر بن حفص نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کتاب میرے والد کی دیکھ رہے ہیں اور تعریف آپ یحی کی کر رہے ہیں؟ تو میں نے کہا کہ میں نے یحیی کو کہتے سنا تھا کہ حفص اوثق اصحاب اعمش ہیں اور اس بات کا علم مجھے نہیں تھا جب تک میں نے ان کی یہ کتاب نہیں پڑھی تھی۔" (تاریخ بغداد: 8/198 "شيوخ الأعمش" (اکمال: 6/94)۔ اب محدث فورم پر غیر مقلد کے ہی ایک صاحب نے اپنے مسلک کے متعصب عالم زبیر علی زئی کا رد لکھا،مضمون پیش خدمت ہے۔ امام اعمش رحمہ اللہ اور تدلیس امام اعمش ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر التدلیس بھی تھے اس لئے ان کی غیر مسموع معنعن روایات عام طور پر ضعیف ہوتی ہیں سوائے ان خاص روایات کہ جن میں یہ صراحت مل جائے کہ اس میں انہوں نے تدلیس نہیں کی ہے مثلا کسی خاص شیخ سے روایت یا کسی خاص شاگرد سے روایت۔ 1- چنانچہ امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "إنما أفسد حديث أهل الكوفة الأعمش وأبو إسحاق" "اہل کوفہ کی حدیث کو اعمش اور ابو اسحاق نے مفسد کیا ہے" یعنی تدلیس کی وجہ سے۔ (احوال الرجال: 1/126، واسنادہ صحیح)​ 2- مغیرہ بن مقسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "أهلك أهل الكوفة أبو إسحاق وأعيمشكم هذا" "اہل کوفہ کو ابو اسحاق اور تمہارے ان اعمش نے ہلاک کر دیا ہے" (احوال الرجال: 1/129، واسنادہ صحیح، ومیزان الاعتدال: 2/224)​ 3- امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وقالوا لا يقبل تدليس الأعمش لأنه إذا وقف أحال على غير مليء يعنون على غير ثقة إذا سألته عمن هذا" "اور انہوں (محدثین) نے کہا: اعمش کی تدلیس غیر مقبول ہے کیونکہ انہیں جب (معنعن روایت میں) پوچھا جاتا تو غیر ثقہ کا حوالہ دیتے تھے۔ جب آپ سے پوچھا جاتا کہ یہ روایت کس سے ہے؟ تو کہتے: موسیٰ بن طریف سے (کذاب)، عبایہ بن ربعی سے (متروک متہم) اور حسن بن ذکوان سے (ضعیف)" (التمہید: 1/30)​ 4- حافظ علائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "مشهور بالتدليس مكثر منه" "آپ تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں اور آپ کثرت سے تدلیس کیا کرتے تھے" (جامع التحصیل: 1/188)​ 5- امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "أحد الائمة الثقات، عداده في صغار التابعين، ما نقموا عليه إلا التدليس" "آپ آئمہ ثقات میں سے تھے۔ آپ کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ پر کسی قسم کی کوئی جرح نہیں ہے سوائے تدلیس کے" (میزان الاعتدال: 2/224)​ آپ مزید فرماتے ہیں: "قلت: وهو يدلس، وربما دلس عن ضعيف، ولا يدرى به، فمتى قال حدثنا فلا كلام، ومتى قال " عن " تطرق إلى احتمال التدليس" "میں کہتا ہوں کہ اعمش تدلیس کیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ ضعیف راوی سے بھی تدلیس کیا کرتے تھےاور آپ کو اس کا علم نہ ہوتا۔ لہٰذا جب آپ حدثنا کہیں تو ان کی روایت کے حجت ہونے میں کوئی کلام نہیں لیکن جب آپ "عن" کہیں تو اس میں تدلیس کا احتمال موجود ہے۔" (میزان الاعتدال: 2/224)​ 6- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب طبقات المدلسین (ص 33) میں امام اعمش کو دوسرے طبقے کا مدلس شمار کیا۔ البتہ بعد میں آپ نے خود اس بات سے رجوع کرتے ہوئے النکت علی کتاب ابن الصلاح میں انہیں تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: "الثالثة: من أكثروا من التدليس وعرفوا به، وهم..... وسليمان الاعمش....." "تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو کثرت سے تدلیس کرنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے اور وہ ہیں۔۔۔۔ اور سلیمان الاعمش۔۔۔" (النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر: 2/640)​ یاد رہے کہ النکت علی ابن الصلاح کو ابن حجر نے طبقات المدلسین کے بعد تالیف کیا تھا۔ لہٰذا یہی ابن حجر کا آخری موقف ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات پر ابن حجر نے اعمش کی کئی روایات کو ان کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف بھی قرار دیا ہے۔ 7- بلکہ امام اعمش تو کبھی کبھار تدلیس تسویہ بھی کیا کرتے تھے (یعنی اس میں راوی اپنے شیخ سے اوپر کے کسی ضعیف وغیرہ راوی کو گراتا ہے)، چنانچہ علامہ نووی نے "الارشاد" (34) میں اور خطیب بغدادی نے "الکفایہ" (ص 3644) میں امام عثمان بن سعید الدارمی سے نقل کیا ہے امام اعمش بعض اوقات تدلیس تسویہ بھی کیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ اس تدلیس کا وقوع امام اعمش سے بہت قلیل ہوا ہے اس لئے ان کی تمام روایات کو اس تدلیس کی وجہ سے رد نہیں کیا جاتا بلکہ صرف اسی خاص روایت کو رد کیا جائے جس میں ان سے تدلیس تسویہ ثابت ہو۔ البتہ جو لوگ مدلس کے ایک بار تدلیس کرنے پر بھی اس کی تمام معنعن روایات کو ضعیف ٹھہراتے ہیں، ان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ نیز دیکھیں انوار البدر فی وضع الدین علی الصدر للشیخ کفایت اللہ السنابلی: 118-122​ پس ثابت ہوا کہ امام اعمش کثرت سے تدلیس کیا کرتے تھے لہٰذا ان کی معنعن روایات عدم سماع وعدم متابعت کی صورت میں غیر مقبول ہوں گی۔ لیکن اس اصول کی چند استثنائی حالتیں بھی ہیں جن کا ذکر ہم اب کریں گے، ان شاء اللہ: استثنائی حالت # 1: امام اعمش رحمہ اللہ سے روایت کرنے والے اگر امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ ہوں تو ان کی معنعن روایات بھی سماع پر محمول ہوتی ہیں کیونکہ امام شعبہ اپنے شیوخ سے صرف وہی احادیث لیتے تھے جو انہوں نے اپنے شیخ سے براہ راست سنی ہوں۔ چنانچہ امام شعبہ فرماتے ہیں: "كل شئ حدثتكم به فذلك الرجل حدثني انه سمعه من فلان" "جو حدیث بھی میں تمہیں کسی شخص سے بیان کروں تو اس روایت کو اس شخص نے مجھے براہ راست سنائی ہے کہ اس نے خود اسے فلان سے سنا ہے۔" (الجرح والتعدیل: 1/173)​ امام شعبہ مزید فرماتے ہیں: "كفيتكم تدليس ثلاثة: الاعمش وابي اسحاق و قتاده" " میں آپ کے لئے تین اشخاص کی تدلیس کے لئے کافی ہوں: اعمش، ابو اسحاق، قتادہ" (طبقات المدلسین لابن حجر: ص 151)​ اسی طرح امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "كلما حدث به شعبة عن رجل فقد كفاك امره فلا تحتاج ان تقول لذلك الرجل سمع ممن حدث عنه" "جو روایت بھی شعبہ کسی شخص سے بیان کریں تو تمہیں ان کا یہ عمل ہی کافی ہو گا لہٰذاتمہیں اس شخص کے متعلق یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کہ اس نے یہ روایت اپنے شیخ سے سنی ہے یا نہیں۔" (الجرح والتعدیل: 2/35، واسنادہ صحیح)​ اسی لئے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ امام شعبہ کے متعلق فرماتے ہیں: " كان لا يأخذ عن أحد ممن وصف بالتدليس إلا ما صرح فيه ذلك المدلس بسماعه من شيخه" "شعبہ تدلیس سے متصف راویوں سے صرف وہی احادیث لیتے تھے جن میں انہوں نے اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کی ہو " (النکت علی ابن الصلاح: 1/259)​ استثنائی حالت # 2: امام اعمش سے اگر امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ روایت کریں تو بھی ان کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے کیونکہ اپنے شیخ شعبہ کی طرح، امام قطان بھی اپنے مدلس شیوخ سے صرف وہی روایات لیتے ہیں جو انہوں نے اپنے شیخ سے خود سنی ہوں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں: "والقطان لا يحمل من حديث شيوخه المدلسين الا ما كان مسموعا لهم صرح بذلك الإسماعيلي" "اور القطان اپنے مدلس شیوخ سے صرف وہی حدیث لیتے تھے جن کا انہوں نے سماع کیا ہو، اس بات کی صراحت اسماعیلی نے کی ہے۔" (فتح الباری: 1/309 ط دار المعرفہ)​ استثنائی حالت # 3: امام اعمش کی جو روایات امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں تو وہ بھی سماع پر محمول ہوتی ہیں۔ محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "كان عامة حديث الأعمش عند حفص بن غياث على الخبر والسماع" "حفص بن غیاث کے پاس اعمش کی عام روایتیں خبر وسماع پر محمول ہیں۔" (تاریخ بغداد: 8/194، واسنادہ صحیح)​ اسی طرح حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: "قلت اعتمد البخاري على حفص هذا في حديث الأعمش لأنه كان يميز بين ما صرح به الأعمش بالسماع وبين ما دلسه نبه على ذلك أبو الفضل بن طاهر وهو كما" "میں کہتا ہوں کہ امام بخاری نے اس حدیث میں اعمش کی حدیث میں سماع کے لئے ان کی حفص سے روایت پر اعتماد کیا ہے کیونکہ حفص اعمش کی مصرح بالسماع اور مدلس روایات میں تمیز کیا کرتے تھے، اس کی ابو الفضل بن طاہر نے صراحت کی ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا انہوں نے کہا ہے۔" (فتح الباری: 1/398)​ استثنائی حالت # 4: امام اعمش اگر ابو سفیان طلحہ بن نافع رحمہ اللہ سے روایت کریں تو ان کی معنعن روایات صحیح ہوتی ہیں کیونکہ: 1- ابراہیم نخعی کے بعد امام اعمش نے سب سے زیادہ روایات اپنے اس شیخ سے لی ہیں۔ اور اعمش کو ان کی روایات میں تخصص حاصل ہے حتی کہ ابو سفیان کو "صاحبِ اعمش" کہا جانے لگا اور اعمش کےمتعلق کہا جانے لگا: "رَاويتُه" کہ وہ ابو سفیان کا راوی ہے۔ 2- امام الجرح والتعدیل ابن عدی نے فرمایا ہے کہ اعمش کی ابو سفیان سے روایات مستقیم ہیں۔ چنانچہ آپ ابو سفیان کے متعلق فرماتے ہیں: "روى عن جابر أحاديثَ صالحة؛ رواها الأعمش عنه، ورواها عن الأعمشِ الثِّقاتُ، وهو لا بأسَ به، وقد روى الأعمشُ عنه أحاديثَ مستقيمة" کہ انہوں نے جابر سے صالح احادیث روایت کی ہیں انہیں اعمش نے ان سے روایت کیا ہے اور اعمش سے انہیں ثقہ راویوں نے نقل کیا ہے، ان (ابو سفیان) میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اعمش نے ان سے مستقیم روایات نقل کی ہیں۔ (الکامل لابن عدی: 5/181: قال الشيخ أبو إسحاق الحويني: ووقع فيه تصحيف واضطراب، تصويبه من مختصره، للمقريزي (ص: 440 - 441)، ومن النقل في تهذيب الكمال (13/440)، وهدي الساري (ص: 4111)، وغيرها)​ حدیث کی استقامت تدلیس قادح کے عدم وجود پر دلیل ہے۔ استثنائی حالت # 4، 5، 6: امام اعمش اگر اپنے درج ذیل تین اساتذہ سے روایت کریں تو ان کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے الا یہ کہ کسی خاص روایت میں تدلیس ثابت ہو جائے۔ 1- ابو صالح السمان 2- ابو وائل شقیق 3- ابراہیم بن یزید النخعی چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں: "قلت: وهو يدلس، وربما دلس عن ضعيف، ولا يدرى به، فمتى قال حدثنا فلا كلام، ومتى قال " عن " تطرق إلى احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم: كإبراهيم، ]وأبي[ وائل، وأبي صالح السمان، فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال" " میں کہتا ہوں کہ اعمش تدلیس کیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ ضعیف راوی سے بھی تدلیس کیا کرتے تھے اور انہیں اس کا علم نہیں ہوتا لہٰذا جب آپ حدثنا کہیں تو اس کی روایت کے حجت ہونے میں کوئی کلام نہیں اور جب آپ "عن" کہیں تو اس میں تدلیس کا احتمال آجاتا ہے سوائے ان شیوخ میں جن سے آپ نے کثرت سے روایات لی ہیں مثلا ابراہیم (النخعی)، ابی وائل (شقیق بن سلمہ)، اور ابو صالح السمان، کیونکہ ان کی روایت اس صنف سے اتصال پر محمول ہوتی ہے۔" (میزان الاعتدال: 2/224)​ امام ذہبی اس فن کے امام اور صاحبِ استقراء التام ہیں، ان کی یہ تخصیص ان کے استقراء و تحقیق پر مبنی ہے لہٰذا ان کی یہ بات حجت ہے۔ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ وغیرہ نے امام ذہبی کے اس فیصلے کو نہ مانتے ہوئے چند دلائل پیش کر کے فرمایا ہے کہ ذہبی کی یہ بات صحیح نہیں ہے تو ان کے استاد شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے ان کے رد میں ایک مضمون لکھا بنام "تسكين القلب المشوش باعطاء التحقيق في تدليس الثوري والأعمش" (دیکھیں مقالات راشدیہ: ج 1 ص 306) یہاں پر میں اس مضمون کا مختصر سے مختصر خلاصہ کرنے کی کوشش کروں گا۔اس مضمون میں آپ نے شیخ زبیر رحمہ اللہ کے ان دلائل کا مدلل رد کرتے ہوئے فرمایا جن کی بنیاد پر آپ نے اعمش کی ان شیوخ سے تدلیس ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ: "درج بالا جو دلائل آپ نے پیش کیے ہیں وہ سب عمومی ہیں اور ان سے چند مخصوص شیوخ سے تدلیس نہ کرنے کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ ایسے امثلہ موجود ہیں کہ مدلس راوی تیسرے مرتبہ کا ہے لیکن ائمہ نے کے متعلق یہ ےتصریح فرمائی ہے کہ یہ مدلس فلاں فلاں شیخ سے تدلیس نہیں کرتا۔۔۔۔ لہٰذا اعمش کے معرف بالتدلیس ہونے کے باوجود معین مخصوص شیوخ سے تدلیس نہ کرنے پر آپ متعجب کیوں ہو رہے ہیں۔" (ص 332) حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ حافظ نووی کا ابو صالح کی ایک روایت پر کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تو شیخ محب اللہ راشدی رحمہ اللہ ان کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ابو صالح سے اعمش کی روایت کے بارے میں یہ فرمایا کہ بغیر سماع کی تصریح کے ان کی روایت حجت نہیں تو یہ انہوں نے محض اس لئے کہا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے جو آئندہ ان شاء اللہ ذکر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش کی ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام نووی رحمہ اللہ پر حجت نہیں۔" (ص 332-333) آگے چل کر آپ مزید فرماتے ہیں: "کسی راوی پر ائمہ فن کے کلام – تعدیلا وتجریحا، توثیقا وتضعیفا – کے تین ماخذ ہوتے ہیں۔ کبھی یہ تینوں یک جا پائے جاتے ہیں کبھی ان میں سے کوئی ایک۔ 1- کس امام نے کسی راوی پر کلام کیا ہے وہ اس کے معاصر تھے اور ان کا حال (حدیث میں) مشاہدہ سے معلوم کر کے اس پر کلام کیا ہو۔ 2- وہ ان کے معاصر تھے لیکن ان سے متقدم ائمہ فن کے اس راوی پر کیے ہوئے کلام کی بناء پر ان پر کلام کیا۔ 3- اس راوی کی روایت کو دوسرے ثقات رواۃ کی روایات سے مقابلہ کر کے اور اس کی روایت پر روایتا ودرایتا اچھی طرح تدبر کرنے کے بعد ان کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو۔ اس تیسری قسم کی التنکیل میں امام ابن معین وغیرہ کی مثالیں دے کر بخوبی وضاحت کر دی گئی ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اعمش کے معاصر تو یقینا نہیں تھے لیکن ان کے متعلق متقدمین کی تصریحات انہیں بوجہ اتم حاصل تھیں۔ اسی طرح کسی راوی کی روایات کی روایت ودرایت کے اصول پر پرکھ کر اس کے بارے میں کسی فیصلہ دینے کا بھی انہیں اچھا ملکہ حاصل تھا۔۔۔۔ میری گذارش یہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اعمش رحمہ اللہ کے متعلق جو کچھ فرمایا وہ متقدمین کی تصریحات اور خود ان کی تحقیق دونوں پر مبنی ہے۔" (ص 333-334) آگے شیخ راشدی مزید فرماتے ہیں: "بہرحال حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا اعمش کے بارے میں ان کبار شیوخ کو مستثنیٰ کرنا حقائق ودلائل اور ان کی روایات کو بدقت نظر پرکھنے پر مبنی ہے۔ اب اگر ان کی رائے کو صحیح نہیں سمجھتے تو یہ بے دلیل بات ہے آپ نے محض عمومی دلیل پیش کی ہے ان کبار شیوخ کے بارے میں متقدمین کی تصریحات سے خصوصی طور پر کوئی دلیل پیش نہیں فرمائی۔ یعنی اعمش ان سے بھی تدلیس کرتا تھا۔ محض مدلس ہونا تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو بھی تسلیم ہے لیکن انہوں نے علی وجہ البصیرت اس عموم سے ایک استثناء کی ہے جس کو آپ ٹھوس دلائل سے رد نہیں کر سکتے۔" آخر میں بطور تنبیہ شیخ صاحب فرماتے ہیں: "تنبیہ: دنیا میں ایسا کوئی کلیہ نہیں جس سے کچھ نہ کچھ مستثنیات نہ ہوں یا ان میں سے کوئی شاذ ونادر فرد خارج نہ ہو لیکن پوری دنیا اکثریت پر ہی اعتماد کرتی ہے۔ اگر اکثر افراد اس کلیہ سے خارج نہیں ہوتے تو وہ کلیہ مسلمہ ہو جاتا ہے۔ امام اعمش کے متعلق اب تک جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس کا بھی یہ حال ہے کیونکہ دو تین مواضع ایسے ہیں جہاں ائمہ فن نے تصریح فرمائی ہے کہ یہاں اعمش نے ابو صالح یا ابو وائل سے تدلیس کی ہے اور قرائن بھی اس کے موید ہیں تو ان مواضع کو مستثنیات میں سے قرار دیا جائے گا اور وہاں عدم سماع وعدم انقطاع تسلیم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر جہاں ائمہ فن میں سے نہ کسی امام نے یہ تصریح فرمائی ہو کہ یہاں اعمش نے ابو صالح، ابو وائل یا ابراہیم وغیرہ سے تدلیس کی ہے اور نہ وہاں کچھ ایسے قرائن ہی موجود ہوں جن سے تدلیس کا شبہ پڑتا ہو تو وہاں یہ کلیہ صحیح ہو گا اور وہاں اعمش کی معنعن روایات بھی سماع پر محمول ہوں گی۔ واللہ اعلم" (ص 339) شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے ایک مضمون لکھا ہے بنام "سلیمان الاعمش کی ابو صالح وغیرہ سے معنعن روایات کا حکم" (تحقیقی مقالات: ج 3 ص 300)۔ اس میں انہوں نے ایسی ہی اس کلیہ سے مستثنی چندروایات پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اعمش کی ابو صالح، ابو وائل اور ابراہیم سے تمام معنعن روایات ضعیف ہیں۔ حالانکہ شیخ راشدی نے صراحت کر دی ہے کہ چند مستثنیات کی بنیاد پر اس اصولِ کلیہ کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا شیخ زبیر نے اس مضمون میں جتنی بھی مثالیں پیش کی ہیں وہ ان مستثنیات میں شامل ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اس مضمون میں جتنی بھی مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے مشکل ہی کسی روایت میں اعمش نے واقعی میں اپنے ان شیوخ سے تدلیس کی ہے، بلکہ محض ان پر اعتراض ہیں۔ ذیل میں ہم ان مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں: پہلی مثال پیش کرتے ہوئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حالانکہ امام ثوری کا اعمش کی ابو صالح سے کسی خاص روایت پر کلام کرنے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ یہ روایت اعمش نے ابو صالح سے اس لئے نہیں سنی کیونکہ انہوں نے لازما تدلیس کی ہے بلکہ تدلیس کے علاوہ اعمش کی غلطی یا وہم بھی اس انقطاع کی وجہ ہو سکتی ہے اور تو اور قرائن بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ چنانچہ بعض روایات میں اعمش نے خود اس روایت کو نقل کرنے میں تردد اور شک کا اظہار کیا ہے، چنانچہ امام احمد اپنی مسند میں نقل کرتے ہیں: "حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ سَمِعْتُهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قال رسولُ صلي الله عليه وسلم: " الْإِمَامُ ضَامِنٌ" عبد اللہ بن نمیر نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی انہوں نے کہا میں ابو صالح کے زریعے حدیث بیان کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود ان سے سنی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الامام ضامن۔۔۔۔ اولا: اس حدیث میں امام اعمش خود اسے ابو صالح سے روایت کرنے میں شک میں مبتلا ہیں تو ان کے شک ووہم کے بارے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تدلیس ہے جو قصدا کی جاتی ہے؟ ثانیا: اگر امام ثوری کے محض "مجھے لگتا ہے" کو یقین پر محمول کیا جا سکتا ہے، تو امام اعمش کے اسی "مجھے لگتا ہے" کو کیوں یقین پر محمول کر کے یہ نہیں کہا جاتا کہ اعمش نے یہ روایت ابو صالح سے سنی ہے؟ ثالثا: اس حدیث میں دوسرے مقامات پر امام اعمش نے سماع کی تصریح بھی کردی ہے لہٰذا تدلیس ہو یا وہم سب شبہات اس سے دور ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ امام طحاوی اس حدیث کی روایت میں فرماتے ہیں: "حدثنا أبو أمية قال: حدثنا سريج بن النعمان الجوهري قال: حدثنا هشيم , عن الأعمش قال: حدثنا أبو صالح , عن أبي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله" (شرح مشکل الآثار للطحاوی: 5/432، واسنادہ حسن)۔ اس میں امام اعمش نے بالیقین سماع کی تصریح کر دی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس کی سند میں ہشیم مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں لہٰذا اس میں تدلیس کا "احتمال" ہے، تو عرض ہے کہ امام ہشیم اس میں منفرد نہیں ہیں۔ ابراہیم بن احمد الرؤاسی نے بھی اعمش سے اپنی روایت میں سماع کی تصریح نقل کی ہے، چنانچہ امام دارقطنی فرماتے ہیں: "وقال إبراهيم بن حميد الرؤاسي: عن الأعمش، عن رجل، عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال الأعمش: وقد سمعته من أبي صالح" ابراہیم بن احمد الرؤاسی (ثقہ) عن اعمش عن رجل عن ابو صالح عن ابو ہریرہ کے طریق سے اس حدیث کو نقل کرتے ہیں، اور اعمش نے کہا: کہ میں نے یہ حدیث ابو صالح سے سنی ہے۔ (علل الدارقطنی: 10/195)۔ اس کے علاوہ اس حدیث کو امام اعمش سے "حفص بن غیاث" نے بھی روایت کیا ہے۔ چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں: "حديث أبي هريرة رواه سفيان الثوري، وحفص بن غياث، وغير واحد، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم" ابو ہریرہ کی حدیث کو سفیان الثوری، حفص بن غیاث اور دوسروں نے اعمش عن ابو صالح عن ابو ہریرہ عن النبی ﷺ کے طریق سے روایت کیا ہے۔ (سنن الترمذی: 1/402)۔ نیز حفص کی روایت کے لئے دیکھیں شرح مشکل الآثار (5/432، واسنادہ صحیح)۔ اور اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ حفص کی اعمش سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں اعمش پر تدلیس کا الزام رفع ہوا، والحمد للہ۔ اور اگر یہ روایت واقعی میں منقطع ہوتی تو بھی انقطاع کی وجہ تدلیس نہیں بلکہ اعمش کا وہم وشک ہو گا جیسا کہ انہوں نے خود اقرار کیا ہے۔ اس مثال کے بعد شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے دوسری، تیسری، پانچویں، چھٹی، بارہویں، اور تیرہویں مثالوں کے تحت امام حاکم،امام بیہقی، ابن القطان الفاسی، طحاوی، ابن الجوزی، اور ابن المدینی کے حوالے پیش کیے ہیں لیکن ان سب نے اسی الامام ضامن والی حدیث پر ہی کلام کیا ہے جس کا جواب اوپر دے دیا گیا ہے۔ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک اور مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں: حالانکہ اس حدیث میں بھی اصلا امام اعمش نے تدلیس کی ہی نہیں۔ بلکہ جس حدیث کے تحت مؤلف نے یہ بات کہی ہے وہ صحیح مسلم کی ہی حدیث ہے اور ابو الفضل ابن عمار نے اس سے پہلے خود کہا ہے کہ: "وهو حديث رواه الخلق عن الأعمش عن أبي صالح فلم يذكر الخبر في إسناده غير أبي أسامة فإنه قال فيه عن الأعمش قال حدثنا أبو صالح" اس حدیث کو ایک جماعت نے اعمش سے نقل کیا ہے لیکن انہوں نے اس سند میں خبر (یعنی سماع) ذکر نہیں کیا ہے سوائے ابو اسامہ (ثقہ ثبت) کے کیونکہ انہوں نے اعمش سے اپنی روایت میں کہا ہے: عن اعمش قال حدثنا ابو صالح۔ (علل الاحادیث فی صحیح مسلم: 1/136)۔ چنانچہ مصنف نے خود کہا ہے کہ اس روایت میں اعمش نے ابو صالح سے سماع کی تصریح کر دی ہے تو پھر اس میں تدلیس کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ مزید مثال پیش کرتے ہوئے،شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس روایت میں امام دارقطنی کو خود بھی پورا یقین نہیں ہے کہ اعمش نے واقعتا تدلیس کی ہے یا نہیں۔ اس لئے "شاید" ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہاں تدلیس کی ہو اور اس صورت میں یہ روایت ان مستثنیات میں شمار ہو گی جن کا ذکر شیخ محب اللہ راشدی نے کیا ہے۔ لیکن یہاں ایک اور "شاید" کی گنجائش بھی ہے اور وہ یہ کہ شاید اعمش نے یہاں تدلیس نہ کی ہو بلکہ ان سے روایت کرنے والے کی طرف سے غلطی ہو۔ لہٰذا یہاں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اعمش نے تدلیس کی ہے۔ اور اگر تدلیس کی ہے تو اس خاص روایت کو اعمش کی ان مستثنیات میں شمار کیا جائے گا جن میں انہوں نے ابو صالح سے تدلیس کی ہے اور یہ نہیں کہ ان کی ابو صالح سے تمام معنعن روایات ضعیف ہو جاتی ہیں۔ نویں مثال دیتے ہوئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہاں پر کوئی کلام کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ امام ابن خزیمہ اور شیخ زبیر خود اقرار کر رہے ہیں کہ اس حدیث میں اعمش نے تدلیس نہیں کی ہے۔ لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا اس مثال سے وجہ استدلال یہ ہے کہ امام ابن خزیمہ نے اعمش کی روایت کے ابو صالح سے ہونے کے باوجود اس میں ان کی تدلیس پر تحقیق کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اعمش کی ابو صالح سے تمام معنعن روایات کو سماع پر محمول نہیں سمجھتے تھے۔ البتہ اس کا جواب شیخ محب اللہ راشدی پہلے ہی اوپر دے چکے ہیں ان کے الفاظ کو میں دوبارہ یہاں نقل کرتا ہوں جو انہوں نے امام نووی کے قول کے جواب میں کہے تھے: " لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ابو صالح سے اعمش کی روایت کے بارے میں یہ فرمایا کہ بغیر سماع کی تصریح کے ان کی روایت حجت نہیں تو یہ انہوں نے محض اس لئے کہا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے جو آئندہ ان شاء اللہ ذکر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش کی ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام نووی رحمہ اللہ پر حجت نہیں۔" اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ ودیگر تمام لوگ جن کی مثالیں شیخ زبیر رحمہ اللہ نے اس مضمون میں بیان کی ہیں، انہوں نے ابو صالح سے اعمش کے سماع کی تحقیق کی ہے تو یہ انہوں نے محض اس لئے کیا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ یا دیگر کسی پر حجت نہیں۔ ((من عرف حجة علي من لم يعرف – یعنی جو جانتا ہے وہ نہ جاننے والے پر حجت ہے)) آپ مزید لکھتے ہیں: "آپ نے پہلے جو کچھ لکھا یا اس فقرہ میں امام نووی رحمہ اللہ کا حوالہ دیا ان میں اعمش کے ان تینوں ابراہیم، ابو وائل، ابو صالح کے متعلق کوئی خصوصی دلیل پیش نہیں کی گئی کہ یہ یا یہ دلیل ہے اس پر کہ اعمش واقعتا ان تینوں سے بھی تدلیس کرتا تھا۔ ہر جگہ صرف یہ ہے کہ "الاعمش مدلس" یا "کان یدلس" لیکن ان کی تدلیس سے وہ (ذہبی رحمہ اللہ) غیر واقف نہیں۔ دیکھئے المیزان وغیرہ۔ یعنی حافظ ذہبی رحمہ اللہ اعمش کے مدلس ہونے کے منکر نہیں بلکہ وہ چند شیوخ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ان سے تدلیس نہیں کرتا تھا لہٰذا وہ روایات جو ان سے مروی ہیں وہ اتصال پر مبنی ہیں اور یہ تخصیص متقدمین کی تصریحات کے علاوہ ان کی اپنی تحقیق پر مبنی ہے۔ حافظ ذہبی علم الروایہ والدرایہ دونوں میں مہارت تامہ رکھتے ہیں اور وہ نقد الرجال میں صاحب الاستقراء التام ہیں۔ جب وہ چند شیوخ خصوصا ابراہیم ابووائل وابو صالح کی تخصیص کرتے ہیں تو لا محالہ ان کی یہ تخصیص علم وتحقیق کی روشنی پر مبنی ہو گی۔ انہوں نے اعمش کی روایات کو اچھی طرح پرکھا ہو گا۔ ان شیوخ سے جو روایات مروی ہیں ان کو دوسرے ثقات کی روایات سے مقابلہ اور ان سے موازنہ کیا ہو گا اور دواوین حدیث میں جو روایات اعمش کی ان شیوخ سے مروی ہیں ان پر دقت نظر ڈالی ہو گی، پھر اس تحقیق عمیق کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا۔" لہٰذا اس مثال ودیگر تمام مثالوں میں ابن خزیمہ وغیرہ نے اعمش کی ابو صالح سے روایت پر تحقیق صرف اس لئے کی کیونکہ اعمش معروف بالتدلیس ہیں لیکن انہوں نے کبھی امام ذہبی کے اس فیصلے کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی کہ مام اعمش سے واقعی ان شیوخ کی عام روایات میں ویسے ہی تدلیس ثابت ہے جیسے ان کی دیگر رواۃ سے ثابت ہے۔ امام ذہبی نے اپنی تحقیق کے بعد یہ تخصیص کی ہے جبکہ دیگر ائمہ نے بنا کسی تحقیق کے عام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے ہیں۔ اعمش عن ابو صالح پر مذکورہ مثالوں کے بعد شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اعمش کی ابراہیم النخعی رحمہ اللہ سے تدلیس ثابت کرنے کے لئے فرماتے ہیں: اللہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ پر رحم کرے، یہ مثال بہت عجیب ہے نہ تو اس میں کہیں دور دور تک یہ اشارہ ہے کہ اعمش نے اس میں تدلیس کی ہے اور نہ ابن مہدی کے قول میں کہیں کوئی اشارہ ہے کہ یہ حدیث اعمش کے عنعنہ یا تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے! اس بات کا ثبوت کہاں ہے کہ ضعف کے بے شمار اسباب میں سے یہاں تدلیس ہی مراد ہے؟ یا پھر ایسا ہے کہ ضعیف حدیث کا صرف ایک ہی سبب ہو سکتا ہے اور وہ ہے تدلیس، دوسرا کوئی نہیں!؟؟ مزید یہ کہ اگر اس روایت میں وجہِ ضعف تدلیس ہوتی تو امام ابن مہدی یا تو اسے منقطع کہتے یا یہ کہتے کہ یہ روایت اعمش نے ابراہیم سے نہیں سنی جیسا کہ محدثین کا طریقہ ہے اور یہ کہ ضعف اس مجھول شخص سے آیا ہے جس کو سند سے گرایا گیا ہے۔ لیکن یہاں امام ابن مہدی نے ضعف کو امام اعمش کی طرف منسوب کیا ہے، گویا یہ حدیث ان کی نکارت، حافظہ، یا ان کے اپنے کسی دوسرے نقص کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اگر وجہِ ضعف تدلیس ہوتی تو ضعف کو امام اعمش کی طرف منسوب نہ کیا جاتا بلکہ اس مجھول شخص کی طرف منسوب کیا جاتا جس سے اعمش نے یہ روایت لی ہے۔ لہٰذا بغیر کسی دلیل یہاں وجہِ ضعف تدلیس بتانا بالکل غلط ہے۔ اعمش کی ابراہیم سے تدلیس کے ثبوت کے لئے شیخ زبیر دوسری مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عرض ہے کہ یقینا یہ روایت اعمش اور ابراہیم کے درمیان منقطع ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس انقطاع کی وجہ لازما تدلیس ہی ہے؟؟ تو جواب ہے ہرگز نہیں بلکہ اس روایت میں انقطاع کی وجہ امام اعمش کی اپنی غلطی اور حافظے میں چوک ہے۔ اس روایت کو ابراہیم سے روایت کرنے میں امام اعمش کو غلطی لگی ہے اور اس بات کا اقرار خود انہوں نے کیا ہے اور حیرانگی کی بات ہے کہ اس بات کی وضاحت امام احمد نے امام سفیان کے اسی مذکورہ قول کے ساتھ ہی کر دی تھی جس کا ذکر شیخ زبیر نے اوپر کیا ہے لیکن انہوں نے شاید اسے نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ امام احمد فرماتے ہیں: "قال وكيع قال الأعمش أرى إبراهيم ذكره" وکیع کہتے ہیں کہ اعمش نے (اس حدیث کی روایت کے وقت) کہا مجھے لگتا ہے کہ اس حدیث کو ابراہیم نے ذکر کیا تھا۔ (کتاب العلل) یعنی امام اعمش کو شک ہے کہ انہوں نے یہ حدیث ابراہیم سے لی ہے یا کسی اور سے۔ لہٰذامام اعمش کے شک کو تدلیس بتانا بہت بڑی غلطی ہے۔ وہم اور شک تو ہر کوئی کرتا ہے تو کیا ہر وہم کرنے والا مدلس ٹھہرے گا؟؟ اور تو اور امام احمد نے ایک دوسری جگہ اس بات کی مزید وضاحت فرمائی ہے کہ یہ روایت امام اعمش کے شک کی وجہ سے منقطع ہے نہ کہ تدلیس کی وجہ سے، چنانچہ امام ابو داؤد السجستانی فرماتے ہیں: "سمعت أحمد، يقول في حديث الأعمش، عن إبراهيم " أن رجلا ضحك خلف النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة، فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يعيد الوضوء والصلاة , قال أحمد: يقول الأعمش: أرى إبراهيم، قال: يعلم أنه ليس من حديث إبراهيم المشهور، يعني بقوله: لما قال وأبهم، يعني: بقوله أرى" میں نے احمد کو اعمش کی ابراہیم سے حدیث کے متعلق کہتے سنا کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پیچھے نماز کے دوران ہنس پڑا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے وضوء اور نماز دونوں کو دہرانے کا حکم دیا۔ امام احمد کہتے ہیں کہ اعمش نے اس حدیث کے متعلق کہا ہے کہ میرا خیال ہے ابراہیم نے اسے روایت کیا ہے۔ نیز احمد نے کہا: اعمش کو اس بات کا علم تھا کہ یہ حدیث ابراہیم کی مشہور حدیث میں سے نہیں ہے یعنی اعمش کے وہم کرنے کی وجہ سے یعنی ان کے 'میرا خیال ہے' کہنے کی وجہ سے۔ (مسائل الامام احمد روایۃ ابی داود السجستانی: 1/414-415)۔ لہٰذا اس حدیث میں وجہِ انقطاع وہم ہے نہ کہ تدلیس۔ آگے شیخ زبیر اعمش کی ابو وائل سے تدلیس کے ثبوت کے لئے فرماتے ہیں: امام اعمش نے اس حدیث میں بھی اصلا کوئی تدلیس نہیں کی ہے۔ امام احمد کے یہ کہنے کہ "اعمش نے اسے ابو وائل سے نہیں سنا" کی وجہ انہوں نے ایک دوسری روایت میں بیان کر دی ہے۔ چنانچہ مہنا فرماتے ہیں کہ میں نے احمد سے پوچھا کہ پھر یہ حدیث اعمش نے کس سے سنی ہے؟ تو امام احمد نے جواب دیا: "كان الأعمش يرويه عن الحسن بن عمرو الفقيمي عن أبي وائل فخرج الحسن بن عمرو وجعله عن أبي وائل ولم يسمع منه" اعمش نے اس حدیث کو الحسن بن عمرو الفقیمی عن ابو وائل کے طریق سے روایت کیا ہے لیکن انہوں نے الحسن بن عمرو کو نکال دیا اور ابو وائل سے براہ راست روایت کر دی، اور یہ انہوں نے ان سے نہیں سنی۔ (جامع التحصیل: 1/189)۔ الغرض امام احمد کے مطابق یہ حدیث اعمش نے ابو وائل سے اس لئے نہیں سنی کیونکہ ایک دوسرے طریق میں اعمش اور ابو وائل کے درمیان الحسن بن عمرو کا واسطہ موجود ہے۔ حالانکہ اس واسطہ کے ساتھ یہ سند ضعیف ہے لہٰذا اس ضعیف سند کی بناء پر اس کو منقطع کہنا ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ الحسن بن عمرو الفقیمی کی اس روایت کو امام ابن عدی نے الکامل میں اس طرح روایت کیا ہے: "حدثنا ابن صاعد، حدثنا عبد الجبار بن العلاء، حدثنا عمرو بن عبد الغفار الفقيمي الكوفي لقيته بمكة، [ عن الأعمش ] (1) حدثنا الحسن بن عمرو عن شقيق بن سلمة، عن عبدا لله قال لقد رأيتني ما أكف شعرا، ولا ثوبا، ولا نتوضأ من موطىء." (الکامل لابن عدی: 6/253)۔ اس سند میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امام اعمش سے اس روایت کو واسطہ کے ساتھ روایت کرنے والا عمرو بن عبد الغافر الفقیمی ہے اور یہ ضعیف ہے اور امام ابن عدی نے بھی اس کی اعمش سے تمام روایات کو غیر محفوظ کہا ہے، چنانچہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام ابن عدی فرماتے ہیں: "وهذه الأحاديث، عن الأعمش غير محفوظة" اور یہ تمام روایتیں اعمش سے غیر محفوظ ہیں۔ لہٰذا کسی غیر محفوظ روایت میں وارد واسطے کی بنا پر بغیر واسطے والی روایت کو منقطع نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے یہاں امام اعمش پر تدلیس کا الزام غلط ہے۔ آخری مثال پیش کرتے ہوئے شیخ زبیر فرماتے ہیں: حالانکہ جس روایت کے تحت امام ابو زرعہ نے یہ کہا ہے وہ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے اور اس روایت میں امام اعمش نے ابو وائل سے ایک سے زائد مقامات پر سماع کی تصریح کر دی ہے مثلا دیکھئے مسند احمد (ح 23241، 23414)۔ اس کے علاوہ امام ابو زرعہ خود فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ان سے روایت کرنے والوں میں امام شعبہ، اورامام یحیی بن سعید القطان بھی شامل ہیں اور ان دونوں کی روایات اپنے شیوخ سے سماع پر محمول ہوتی ہیں، الغرض اس روایت کا شعبہ اور القطان سے ہونے کے باوجود بھی اگر امام ابو زرعہ نے اس میں اعمش کی تدلیس کا ذکر کیا ہے تو کیا ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ شعبہ اور قطان کی روایات اعمش سے سماع پر محمول نہیں ہوتیں!؟ حالانکہ اس بات کے خود شیخ زبیر بھی قائل نہیں تھے۔ لہٰذا یہ سولہویں اور آخری مثال بھی صحیح نہیں ہے۔ شیخ زبیر نے امام اعمش کی ان تین شیوخ سے تدلیس ثابت کرنے کے لئے 16 مثالیں پیش کی ہیں اور حیرانگی کی بات ہے کہ ان سولہ کی سولہ مثالوں میں امام اعمش سے تدلیس کا ثبوت نہیں ملتا! لہٰذا امام ذہبی کی بات بالکل صحیح ثابت ہوتی ہے اور اس کے خلاف اب تک ایک بھی مثال ایسی نہیں ملی جس میں واقعتا امام اعمش نے ان شیوخ سے تدلیس کی ہو! اور اگر ایک دو مثالیں مل بھی جائیں تو ان سے اس اصول پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور وہ مثالیں محض اس کلیہ سے مستثنیٰ ہوں گی۔ -------------------------------- (1) - الکامل میں "عن الاعمش" کا حوالہ چھوٹ گیا ہے جو کہ غلطی ہے جبکہ سیاق و سباق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اعمش کا واسطہ موجود ہے۔ اور امام احمد کی بات بھی اس پر تائید کرتی ہے کہ اس حدیث کو اعمش کے زریعے حسن بن عمرو سے روایت کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا لنک بھی ملاحظہ کریں۔
  9. عدیل خان صاحب آپ کی پوسٹس دیکھ کر واقعی یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ وہابی عقل سے پیدل ہوتے ہیں۔ ہمارے فورم کے رولز کے مطابق کسی بھی بد مذہب ویب سائیٹ کا لنک ایڈ نہیں کیا جا سکتا۔اس لیے آپ کے دیئے گئے لنکس کو ریموو کر دیا گیا۔ آپ نے جو لنکس دیئے تھے ان میں صرف ایک بات کا جواب دینے کی ناتمام سعی کی گئی تھی جس کا جواب اسی عربی ویب سائیٹ میں دے دیا گیا تھا۔ آپ کو کہا تھا کہ پوری پوسٹ کوٹ کرنے کی بجائے صرف متعلقہ حصہ کوٹ کیا کریں لیکن چونکہ آپ وہابی ہیں اس لیے سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ اور لنکس ریموو کرنے سے خود بھی فتح یابی کی باتیں کرنا وہابیہ کی بد حواسی کی نشانی ہے۔ آپ کے سر پر دجال البانی کے کذب کا جواب باقی ہے۔اس کی منافقت سب کے سامنے ہے۔اس کے علاوہ رضا عسقلانی صاحب نے جو جواب دیئے ان کا جواب دینا آپ کے سر پر قرض ہے۔ محترم خلیل رانا صاحب نے آپ کے گھر سے گوہی پیش کی لیکن آپ چونکہ صرف کاپی پیسٹ کرنا جانتے ہیں اس لیے جواب دینے سے قاصر ہیں۔۔ اگر پھر کوئی فضول پوسٹ کی جس میں جواب نہ دیا گیا تو مجبوراً ہمیں آپ کی وہ پوسٹس ڈیلیٹ کرنا پڑیں گی۔
  10. ٹاپک سے غیر متعلقہ تمام پوسٹس کو ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔ عدیل خان صاحب کاپی پیسٹ کرنے کوئی بندہ عربی دان نہیں بن جاتا۔ اور کیا کسی کتاب کا رد اسی زبان میں کرنا فرض ہے؟؟ رضا عسقلانی صاحب نے آپ کی پیش کردہ تمام روایات کا جواب خود آپ کے گھر سے دیا لیکن آپ لوگ جواب الجواب دینے سے ابھی تک قاصر ہیں اور کاپی پیسٹ میں مگن ہیں۔ اگر آپ کا یہی حال ہے تو کسی نے سچ ہی کہا کہ وہابی اور عقل متضاد چیزیں ہیں۔
  11. بد مذہب ویب سائیٹ کا لنک دینا فورم کے رولز کے مطابق منع ہے۔ وہابی غیر مقلد حضرات کے ہر اعتراض کا جواب دیا جا چکا اس لیے خوامخواہ بحث برائے بحث کی ضرورت نہیں۔ بھٹی صاحب صرف کاپی پیسٹ کرنے سے بندہ مناظر نہیں بن جاتا خو بھی تحقیق کیا کریں
  12. Jawab pehlay he mojood hay...Plz visit the following links.. http://www.islamimehfil.com/topic/16546-hadaiq-e-bakhshish-vol3-par-aitiraaz-ka-dandaan-e-shikan-jawab/ http://www.islamimehfil.com/topic/1360-alahazrat-per-ummul-momineen-ki-toheen-ke-ilzam-ki-haqiqat/ http://www.islamimehfil.com/topic/3420-hidayqy-bakshish-par-aitraaz/
  13. According to my opinion he is Sulah Kulli.You can listen his speeches in which he has clearly asked that THQ is Mujaddid.But some days ago I listened his one clip in which he was saying that he was not right about this issue(about THQ).I will post that clip whenever I find.
  14. جزاک اللہ خیرا کتاب کا نام۔۔۔امام اعظم رضی اللہ عنہ اور علمِ حدیث مصنف۔۔مفتی ابراہیم حنفی صاحب لنک http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=b27d44c8-7278-47ef-af14-379a71ee0e3b
  15. دیوبندی تحریفات کا جواب ہمارے اکابرین دے چکے الحمد للہ ملاحظہ فرمائیں تقدیس الوکیل
  16. لسٹ بمع حوالہ پیش کریں۔۔ دیوبندی آج تک اپنی کفری عبارات کا جواب تو دے نہ سکے اور علم غیب پر بحث میں پیش پیش ہیں۔
×
×
  • Create New...