Jump to content

Raza11

اراکین
  • کل پوسٹس

    422
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    12

سب کچھ Raza11 نے پوسٹ کیا

  1. السلام علیکم گزارش ہے کہ مجھے وہ تمام کتابیں چاہیے اعلی حضرت رحمت الله علیہ کی رد قادیانیت پر آپ نے کل کتنی کتابیں لیکھی ہے اور آگر ممکن ہوسکے ان کتابوں کو یہاں پر آپ لوڈ کردیں تاک آسانی سے رسائی ہوسکے جزاکم الله
  2. قبورِ اولیاء اللہ و صالحین علیہم الرّحمہ سے تبرک ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ جمہور امتِ مسلمہ میں حصولِ برکت کا ایک ذریعہ قبورِ اولیاء و صالحین پر حاضری بھی رہا ہے۔ تاریخِ اسلام میں شاید ہی کوئی ایسی بابرکت ہستی گزری ہوگی جس کی قبر مبارک پر عامۃ الناس اور اکابرینِ امت نے حاضری نہ دی ہو۔ انبیاء کرام علیہم السلام سے لے کر اہلِ بیتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، صالحین، زاہدین، محدّثین اور اولیاء رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم کی قبور پر حاضری امتِ مسلمہ کی تاریخ کا حصہ رہی ہے۔ سطورِ ذیل میں اسی حوالے سے دلیل کے طور پر چند صالحین کی قبور پر عامۃ الناس اور ائمہ کی حاضری کے واقعات درج کئے جاتے ہیں۔ (1) حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی قبر سے تبرک امام شمس الدین سخاوی (متوفی 902ھ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : وجعل علي قبره قبة فهو يزار ويتبرک به. ’’اُن کی قبر مبارک پر قبہ بنایا گیا، اس کی زیارت کی جاتی ہے اور اس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ شمس الدين سخاوي، التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة، 1 : 307 (2) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر سے تبرک امام ابنِ عبد البر الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنھم میں سے تھے۔ معرکۂ قسطنطنیہ میں آپ شریک جہاد ہوئے۔ دشمن کی سرحد کے قریب آپ رضی اللہ عنہ بیمار پڑگئے۔ مرض نے شدت اختیارکی تو وصیت فرمائی : إذا أنا متّ فاحملوني، فإذا صاففتم العدو فادفنوني تحت أقدامکم. ’’جب میں فوت ہوجاؤں تو میری میت ساتھ اُٹھا لینا، پھر جب دشمن کے سامنے صف آرا ہوجاؤ تو مجھے اپنے قدموں میں دفن کر دینا۔‘‘ ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 404 - 405 چنانچہ آپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے مجاہدینِ اسلام نے آپ کو قلعہ کے دامن میں دفن کردیا اور دشمنوں کو متنبہ کیا کہ اگر اس جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی بے حرمتی کی گئی توبلادِ اسلامیہ میں اُن کا کوئی گرجا محفوظ نہ رہے گا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کا دشمن بھی احترام کرنے پر مجبور ہوگئے اور بہت جلد اس کے فیوض و برکات کا لوگوں کوپتہ چل گیا کہ یہاں کی جانے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ علامہ ابنِ عبد البر مزید فرماتے ہیں : وقبر أبي أيوب قرب سورها معلوم. . . يستسقون به، فيسقون. ’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی قبر قلعہ کی فصیل کے قریب ہے، سب کو معلوم ہے کہ وہاں پہنچ کر لوگ اس کے وسیلہ سے بارش کے لیے دعا کرتے ہیں تو بارش ہوجاتی ہے۔‘‘ ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 405 حضرت مجاہد بن جبیر فرماتے ہیں : کانوا إذا أمحلوا کشفوا عن قبره، فمطروا. ’’جب بھی قحط پڑ جائے تو (حصولِ برکت کے لئے) لوگ قبر کھول دیتے ہیں، تو بارش ہوجاتی ہے۔‘‘ ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 4 : 6 (3) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا امامِ اعظم رضی اللہ عنہ کی قبر سے تبرک خطيب بغدادی (م 463ھ) اور بہت سے ائمہ کی تحقیق کے مطابق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد میں ہوتے تو حصولِ برکت کی غرض سے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی زیارت کرتے۔ خطيب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ امام شافعی، امام ابو حنیفہ (متوفی150ھ) کے مزار کی برکات کے بارے میں خود اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : إنّي لأتبرّک بأبي حنيفة، وأجيء إلي قبره في کلّ يوم. يعني زائرًا. فإذا عُرضت لي حاجة صلّيت رکعتين، وجئتُ إلي قبره، و سألت اﷲ تعالي الحاجة عنده، فما تبعد عنّي حتي تقضي. ’’میں امام ابو حنیفہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہوکر) حاجت برآری کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ (قبر کی برکت کے سبب) میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے۔‘‘ 1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 123 2. ابن حجر هيتمي، الخيرات الحسان في مناقب الإمام الأعظم : 94 3. ابن عابدين شامي، رد المحتار علي الدر المختار، 1 : 41 4. زاهد الکوثري، مقالات الکوثري : 381 (4) امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کی قبر سے تبرک امام موسیٰ بن جعفر کاظم (متوفی 183ھ) کی قبر مبارک کے بارے میں ابو علی الخلال کہتے ہیں : ما همّني أمر فقصدت قبر موسي بن جعفر فتوسلت به إلا سهل اﷲ تعالي لي ما أحب. ’’جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تو میں امام موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جا کر اُن کو وسیلہ بناتا تو جیسے میں چاہتا اﷲ تعالیٰ ویسے ہی میرے لئے راستہ نکال دیتا۔‘‘ خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 120 امام المحدّثین شاہ عبد الحق محدّث دہلوی (م 1052ھ) اشعۃ اللّمعات میں حضرت موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی قبرِ انور کے حوالے سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا درج ذیل قول نقل کرتے ہیں : ’’حضرت موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی قبرِ انور قبولیتِ دعا کے لیے تریاقِ مجرّب ہے۔‘‘ عبدالحق محدّث دهلوي، أشعة اللمعات شرح مشکوٰة المصابيح، 2 : 923 (5) امام علی رضی اللہ عنہ رضا بن موسیٰ کی قبر سے تبرک مشہور محدّث امام ابنِ حبان (م 354ھ) حضرت امام علی رضا بن موسیٰ علیہ السلام کے مزار مبارک کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قد زرته مراراً کثيرة، وما حلّت بي شدّة في وقت مقامي بطوس، وزرت قبر علي بن موسي الرضا صلوات اﷲ علي جده وعليه، ودعوت اﷲ تعاليٰ إزالتها عنّي إلا استجيب لي، وزالت عنّي تلک الشدّة وهذا شئ جرّبته مراراً فوجدته کذلک، أماتنا اﷲ علي محبة المصطفيٰ وأهل بيته صلي اﷲ وسلم عليه وعليهم أجمعين. ’’میں نے اُن کے مزار کی کئی مرتبہ زیارت کی ہے، شہر طوس قیام کے دوران جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آئی اور حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر، اللہ تعالیٰ سے وہ مشکل دور کرنے کی دعا کی تو وہ دعا ضرور قبول ہوئی، اور مشکل دور ہوگئی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے میں نے بارہا آزمایا تو اسی طرح پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور نبی اکرم اور آپ کے اہلِ بیت صلی اﷲ وسلم علیہ وعلیہم اجمعین کی محبت پر موت نصیب فرمائے۔‘‘ ابن أبي حاتم رازي، کتاب الثقات، 8 : 457، رقم : 14411 (6)۔ سید المحدّثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک امام ذہبی (م 748ھ) نے امیر المؤمنین فی الحدیث اور سید المحدّثین امام محمد بن اسماعیل بخاری (م 256ھ) کی قبر مبارک سے تبرک کا ایک واقعہ درج کیا ہے : ابو الفتح نصر بن حسن السکتی سمرقندی نے بیان کیا کہ ایک بار سمرقند میں کچھ سالوں سے بارش نہ ہوئی تو لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی پس انہوں نے کئی بار نمازِ استسقاء ادا کی لیکن بارش نہ ہوئی۔ اسی اثناء اُن کے پاس ایک صالح شخص جو ’’صلاح‘‘ کے نام سے معروف تھا، سمر قند کے قاضی کے پاس گیا اور اس سے کہا : میں آپ سے اپنی ایک رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ قاضی نے کہا : وہ کیا ہے؟ اس نے کہا : أري أن تخرج ويخرج الناس معک إلي قبر الإمام محمد بن إسماعيل البخاري، وقبره بخرتنک، ونستسقي عنده فعسي اﷲ أن يسقينا. قال : فقال القاضي : نعم، ما رأيت. فخرج القاضي والناس معه، واستسقي القاضي بالناس، وبکي الناس عند القبر وتشفعوا بصاحبه. فأرسل اﷲ تعالي السماء بماء عظيم غزير، أقام الناس من أجله بخرتنک سبعة أيام أو نحوها لا يستطيع أحد الوصول إلي سمرقند من کثرة المطر وغزارته، وبين خرتنک وسمرقند نحو ثلاثة أميال. ’’میری رائے ہے کہ آپ کو اور آپ کے ساتھ تمام لوگوں کو امام محمد بن اسماعیل بخاری کی قبر مبارک پر حاضری دینی چاہیے، ان کی قبر خرتنک میں واقع ہے، ہمیں قبر کے پاس جا کر بارش طلب کرنی چاہیے عین ممکن ہے کہ اﷲتعالیٰ ہمیں بارش سے سیراب کردے۔ قاضی نے کہا : آپ کی رائے بہت اچھی ہے۔ پس قاضی اور اس کے ساتھ تمام لوگ وہاں جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے قاضی نے لوگوں کے ساتھ مل کر بارش کے لئے دعا کی اور لوگ قبر کے پاس رونے لگے اور اللہ کے حضور صاحبِ قبر کی سفارش کرنے لگے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اسی وقت (اپنے صالح بندہ کی برکت کے سبب) وافر پانی کے ساتھ بادلوں کو بھیج دیا، تمام لوگ تقریباً سات دن تک خرتنک میں رکے رہے، اُن میں سے کسی ایک میں بھی کثیر بارش کی وجہ سے سمرقند پہنچنے کی ہمت نہ تھی حالانکہ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘ ذهبي، سير أعلام النبلاء، 12 : 469 (7) امام ابراہیم بن اسحاق حربی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک علامہ ابنِ جوزی اولیاء کرام کی سوانح پر اپنی کتاب صفۃ الصفوۃ میں امام ابراہیم بن اسحاق حربی کے بارے میں لکھتے ہیں : و قبره ظاهر يتبرّک به النّاس. ’’اور ان کی قبر (اپنے فیوض و برکات کے اعتبار سے) ظاہر ہے۔ لوگ اس سے برکت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 266 (8) حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابر صوفیہ و محدّثین میں ہوتا ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں آپ کی ذات مرجعء اہلِ علم تھی۔ آپ مشہور بزرگ اور ولی کامل حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں : کان من المشائخ الکبار، مجاب الدعوة، يستشفي بقبره. يقول البغداديون : قبر معروف ترياق مجرّب. ’’آپ بزرگ ترین مشائخ میں سے تھے۔ آپ کی دعا قبول ہوتی تھی۔ آج بھی آپ کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوکر شفایابی کی دعا کی جاتی ہے۔ اہلِ بغداد کہتے ہیں : حضرت معروف کرخی کی قبر مجرّب اکسیر ہے۔‘‘ 1. قشيري، الرسالة القشيرية : 41 2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 122 3. ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 214 حضرت معروف کرخی کی قبر مبارک کے بارے میں عبدالرحمٰن بن محمد الزاہری فرماتے ہیں : قبر معروف الکرخي مجرّب لقضاء الحوائج، ويقال : إنّه من قرأ عنده مائة مرّة : قُلْ هُوَ اﷲُ أحَدٌ، وسأل اﷲ تعالي ما يريد، قضي اﷲ له حاجته. ’’قضائے حاجات کے لئے حضرت معروف کرخی کی قبر مجرّب ہے، کہا جاتا ہے کہ جو شخص اس کے پاس سو مرتبہ سورۃ اخلاص (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) پڑھ کر اﷲتعالیٰ سے جو چاہے طلب کرے، اﷲتعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔‘‘ خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 123 (9) حضرت علی رحمۃ اللہ علیہ بن محمد بن بشار کی قبر سے تبرک علامہ محمد بن ابو یعلی حنبلی (متوفی 521ھ) ’’طبقات الحنابلۃ‘‘ (2 : 63) میں صوفی زاہد علی بن محمد بن بشار کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ جب اُن کاوصال ہوا تو دفن بالعقبة قريباً من النجمي، وقبره الآن ظاهر يتبرک الناس بزيارته. ’’انہیں نجمی کے قریب گھاٹی میں دفن کیاگیا، اب وہاں اُن کی قبر مشہور و معروف ہے، لوگ اس کی زیارت سے برکت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (10) حضرت ابو الحسن علی بن محمد بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک علامہ محمد بن ابو یعلی حنبلی ہی ایک اور فقیہ زاہد ابو الحسن علی بن محمد بن عبدالرحمٰن بغدادی کے ترجمہ میں درج کرتے ہیں : مات بآمد سنة سبع أو ثمان وستين وأربعمائة، وقبره هناک، يقصد و يتبرک به. ’’آپ کا 467ھ / 468ھ میں آمد کے مقام پر وصال ہوا، یہی آپ کی قبر ہے جس کا قصد کیا جاتا اور برکت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ ابن ابي يعلي حنبلي، طبقات الحنابلة، 2 : 234 (11) حافظِ حدیث عبدالغنی مقدسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک علامہ ابنِ نقطہ حنبلی (م 629ھ) نے حافظِ حدیث عبدالغنی بن عبدالواحد مقدسی کے ترجمہ میں درج کیا ہے : بلغنا أنه توفي بمصر في بيع الأوّل من سنة ستمائة في يوم الإثنين الرابع والعشرين من الشهر، وقبره بالقرافة يتبرک به. ’’ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ پیر کے روز ربیع الاوّل کے مہینہ 624ھ میں مصر میں اُن کا وصال ہوا، اُن کی قبر قرافہ میں واقع ہے جس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ ابن نقطه، التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد، 1 : 370 (12) حضرت عثمان بن موسیٰ طائی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک امام ابنِ رجب حنبلی (م 795ھ) حضرت عثمان بن موسیٰ طائی کے تعارف میں لکھتے ہیں : ويقال : إن الدعاء يستجاب عند قبره. ’’کہا جاتا ہے کہ ان کی قبر کے پاس دعا قبول ہوتی ہے۔‘‘ ابن رجب، ذيل طبقات الحنابلة، 4 : 287 معتبر کتب سے درج بالا تحقیقات سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، اولیاء عظام اور محدّثینِ کبار کی قبورِ مبارکہ پر حاضری دینا، زیارت کرنا اور اُن سے برکت حاصل کرنا عام مسلمانوں اور اکابرینِ امت کا طریقہ رہا ہے۔ جلیل القدر محدّثین، فقہاء اور صالحین اپنے زمانہ کے اور ما قبل زمانہ کے اکابر شیوخ و صوفیاء کی قبور پر حصولِ برکت کے لئے اور حلِ مشکلات کے لئے حاضر ہونے کو اپنی خوش بختی سمجھتے تھے۔ عامۃ الناس اور اکابر اِن بابرکت قبور کو مستجاب الدعاء ٹھہراتے تھے اور وہاں پہنچ کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اُن کی برکت کے سبب سے بارش، شفایابی اور دیگر مشکلات کا حل طلب کرتے تھے۔ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ وہ ائمہ جو امت کے لئے اصولِ دین مرتب کرتے رہے ان کا اپنا عمل یہ تھا کہ وہ صالحین کی قبروں سے حصولِ برکت کو سعادت سمجھتے تھے۔ صاف ظاہر ہے اگر اس عمل میں ذرا بھر بھی شرک و بدعت کا شائبہ ہوتا تو یہ ہرگز اس پر کاربند نہ ہوتے۔ 6۔ قبورِ اولیاء اور صالحین سے تبرک پر ائمہ کے اقوال قبورِ صالحین سے تبرک کو اطراف واکناف کے علماء کی طرف سے جواز کی سند حاصل ہے۔ اس پر چند ائمہ کرام کے درج ذیل اقوال ہیں۔ 1۔ اس حدیث کے تحت ابنِ عبدالبر نے شرح مؤطا التمہید میں لکھا ہے : وفي هذا الحديث دليل علي التّبرّک بمواضع الأنبياء والصّالحين ومقامهم ومساکنهم. ’’اس حدیث میں انبیاء اور صالحین کے رہنے والی جگہوں، مقامات اور ان کی رہائش گاہوں سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘ ابن عبدالبر، التمهيد، 13 : 66 (1) امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا قول حجۃ الاسلام امام ابوحامد محمد غزالی (م 505ھ) احیاء علوم الدین میں آداب السفر کے ضمن میں فرماتے ہیں : ويدخل في جملته زيارة قبور الأنبياء عليهم السلام، وزيارة قبور الصحابة والتابعين وسائر العلماء والأولياء، وکل من يتبرک بمشاهدته في حياته يتبرک بزيارته بعد وفاته. ’’سفر کی دوسری قسم میں انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ، تابعین اور دیگر علماء و اولیاء کے مزارات کی زیارت بھی داخل ہے۔ ہر وہ شخص کہ جس کی زندگی میں زیارت سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے، وفات کے بعد بھی اس کی زیارت سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘ غزالي، إحياء علوم الدين، 2 : 247 (2) امام ابن الحاج فاسی رحمۃ اللہ علیہ کا قول امام ابن الحاج فاسی (م 737ھ) نے اپنی کتاب المدخل میں مزاراتِ اولیاء سے برکت حاصل کرنے پر لکھا ہے : وما زال النّاس من العلماء والأکابر کابرًا عن کابر مشرقاً ومغرباً يتبرّکون بزيارة قبورهم ويجدون برکة ذلک حسًا ومعني. ’’مشرق و مغرب کے علماء اور اکابر مزاراتِ اولیاء کی زیارت سے برکت حاصل کرتے رہے ہیں اور حسی اور معنوی طور پر اس کی برکت پاتے رہے ہیں۔‘‘ ابن الحاج، المدخل، 1 : 249 (3) امام ابوعبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ بن نعمان کا قول اِمام ابن الحاج الفاسی رحمۃ اللہ علیہ امام ابو عبداﷲ بن نعمان کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اولیاء کرام کی قبروں کے پاس برکت کی غرض سے دعا کرنا اور ان کو وسیلہ بنانا ہمارے علماء محققین، ائمہِ دین کا معمول ہے۔ امام ابو عبداﷲ بن نعمان فرماتے ہیں : تحقق لذوي البصائر والاعتبار أن زيارة قبور الصّالحين محبوبة لأجل التبرّک مع الاعتبار فإنّ برکة الصّالحين جارية بعد مماتهم کما کانت في حياتهم والدعاء عند قبور الصّالحين والتشفّع بهم معمول به عند علمائنا المحققين من أئمة الدّين. ’’اربابِ بصیرت و اعتبار کے نزدیک ثابت ہے کہ اولیائے کرام کے مزارات کی زیارت برکت اور عبرت حاصل کرنے کے لیے محبوب عمل ہے، کیونکہ اولیائے کرام کی برکت ان کی (ظاہری) زندگی کی طرح وصال کے بعد بھی جاری ہے، اولیائے کرام کی قبروں کے پاس دعا کرنا اور ان کو وسیلہ بنانا ہمارے علماء محققین، ائمہ دین کا معمول ہے۔‘‘ ابن الحاج، المدخل، 1 : 249 (4) علامہ ابنِ جزی رحمۃ اللہ علیہ کا قول علامہ ابنِ جزی الکلبی المالکی (م 741 ھ) نے انبیاء کرام علیھم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی قبور سے برکت حاصل کرنے پر لکھا ہے : ومن المواضع التي ينبغي قصدها تبرکاً قبر إسماعيل عليه السلام وأمه هاجر و هما في الحجر، وقبر آدم عليه السلام في جبل أبي قبيس، والغار المذکور في القرآن وهو في جبل أبي ثور، والغار الذي في جبل حراء حيث ابتداء نزول الوحي علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، وزيارة قبور من بمکة والمدينة من الصحابة والتابعين والأئمة. ’’وہ مقامات جن سے برکت حاصل کرنے کے لئے جانا چاہئے ان میں مقامِ حجر میں واقع حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیھما السلام کی قبور ہیں، جبلِ ابی قبیس پر حضرت آدم علیہ السلام کی قبر ہے، قرآن میں مذکور غار جبلِ ابی ثور پر واقع ہے، وہ غار جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء ہوئی جبلِ حراء میں واقع ہے، اسی طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ کی قبور مشہور زیارت گاہیں ہیں۔‘‘ ابن جزي، القوانين الفقهية، 1 : 96 (5) علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کا قول علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ زیارتِ قبور کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے قبورِ اولیاء کے بارے میں لکھتے ہیں : وأما الأولياء فإنهم متفاوتون في القرب من اﷲ تعالٰي، ونفع الزائرين بحسب معارفهم وأسرارهم. ’’اولیاء کو اللہ رب العزت کے ہاں قربت کے لحاظ سے مختلف مقام حاصل ہوتے ہیں، (اس وجہ سے) زائرین کو (اُن کی قبور کی زیارت کے وقت) اُن کے معارف اور اسرار کے حسبِ حال نفع حاصل ہوتا ہے۔‘‘ ابن عابدين، حاشية رد المحتار علي الدر المختار، 2 : 242 (6)۔ علامہ سلیمان بن عمر البجیرمی رحمۃ اللہ علیہ کا قول علامہ سلیمان بن عمر بن محمد البجیرمی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م 1221ھ) قبورِ صالحین سے تبرک پر لکھتے ہیں : إن قصد بتقبيل أضرحتهم أي وأعتابهم التبرک لم يکره. ’’اگر اولیاء کی قبور یا اُن کے دروازوں کی چوکھٹ کو بطور تبرک چوما جائے تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔‘‘ بجيرمي، حاشية البجيرمي علي شرح منهج الطلاب، 1 : 495 - 496 (7)۔ علامہ عبدالحمید شروانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول علامہ عبدالحمید شروانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م 1301ھ) نے قبورِ اولیاء سے تبرک پر تحریر کیا ہے : إن قصد بتقبيل أضرحتهم التبرک لم يکره. ’’اولیاء کی قبور کو حصولِ برکت کے لئے چومنا مکروہ نہیں۔‘‘ شرواني، حواشي الشرواني علي تحفة المنهاج بشرح المنهاج، 3 : 175 کیمیا پیدا کن اَز مشتِ گلے بوسہ زن بر آستانِ کاملے اﷲ رب العزت کی فضل اور عطاء سے بعض ہستیاں، ان کے آثار اور مقامات فیض رساں اور بابرکت ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک اہل ایمان نہ صرف یہ کہ آثارِ انبیاء و اولیاء سے حصولِ برکت کو سعادت سمجھتے ہیں بلکہ کسی صالح بزرگ ہستی، متبرک مقام اور آثار سے حصولِ فیض اور برکت کے لئے دور دراز علاقوں کا سفر بھی اختیار کرتے رہے ہیں۔ جسے وہ منافی توحید نہیں سمجھتے تھے او نہ کسی نے اس عمل خیر کو شرک بدعت قرار دیا۔
  3. اہلسنّت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب جانتا ہے اور اپنے مقبول بندوں کو بھی غیب بتلاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کے علم غیب میں واضح فرق ہے ۔ نمبر۱: اللہ تعالیٰ کا علم غیب ذاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو غیب جاننے میں کسی کی امداد کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی کی عطا سے علم غیب کا مالک بنا ہے ، بلکہ اس کا علم غیب ذاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کا جو علم غیب ہے یہ ان کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے ہے ۔ یہ غیب کا علم رکھنے میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مالک اپنی ملکیت میں سے بعض کا کسی اور کو مالک بنا دے ‘ تو اب پہلا اوردوسرا مالک ایک نہیں بن جائیں گے بلکہ پہلے مالک کا مِلک ذاتی طور پر ہے اور دوسرے مالک کا مِلک عطائی ہے ۔ نمبر۲: نہ کوئی اللہ تعالیٰ کی ابتدا اور اتنہا ہے اور نہ ہی کوئی اللہ تعالیٰ کے علم کا ابتدا اور انتہا ہے ۔ برخلاف اللہ تعالیٰ کے مقبولوں کے علم غیب کے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے مقبولوں کو علم غیب عطا فرمایا ہے اس کی ابتدا اور انتہاء ہے یعنی وہ متناہی ہے جیسے حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کو لوح محفوظ کا علم عطا فرمایا گیا ہے تو یہ متناہی ہے کیونکہ لوح محفوظ کی بھی ابتدا اور انتہاء ہے ۔ نمبر۳: اللہ تعالیٰ کو جو ایک شی کا علم غیب ہے تو غیر متناہی(ان گنت) وجوہات سے ہے برخلاف اس کے جو علم غیب اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبولوں کو عطا کیا ہے وہ اشیاء معلومہ کی متناہی وجوہات سے ہے ۔ یعنی مقبولانِ بارگاہ ایزدی کو ایک شی کا علم صرف ایک یا چند وجوہ سے ہو گا کہ اس شی کا رنگ کیا ہے ‘ طول عرض وغیرہ کیا ہے ؟اللہ تعالیٰ کو اس شی کا علم ان گنت وجوہات سے ہے ۔ نمبر۴: بعض لوگ علم غیب کو اللہ تعالیٰ کا خاصہ بیان کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں کہ ہر شیٔ ہر وقت جاننا صرف اللہ تعالیٰ کا ہی خاصہ ہے غیر اس میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ ان کی یہ قید لغو ہے حالانکہ ایک شیٔ کو ہر وقت جاننا اللہ تعالیٰ کا ہی خاصہ ہے لیکن اللہ کی عطا سے کسی اور کو بھی اس کاعلم ہو جو اس کا عطائی علم غیب ہو گا ۔ ذاتی طور پر علم غیب خاص اللہ تعالیٰ کا ہی ہے ۔ ہر ایک شیٔ کو ہر وجہ سے ہر وقت ذاتی طور پر جاننا صر ف اللہ تعالیٰ کا ہی خاصہ ہے ۔ اگر ایسا ہی علم کسی اور کا ہو تو پھر شرک لازم آئے گا ۔ اس مسئلہ پر چند آیات قرآنیہ ملاحظہ ہوں : آیت نمبر۱: قرآن میں ہے : وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہٖ من یشآء ۔ (پارہ ۴ ، رکوع ۹ ، سور ۃ آل عمران ، آیت۱۷۹) اس آیت کی تفسیر خازن میں اس طور پر کئی گئی ہے ولکن اللہ یصطفی و یختار من رسلہٖ فیطلعہ علی من یشاء من غیبہ۔ آیت اور اس کی تفسیر کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ’’اللہ تعالیٰ تم کو غیب پر خبردار نہیں کرتا لیکن اپنے برگزیدہ رسولوں سے جس کو چاہے اس کو اپنے غیب پر خبر دے دیتا ہے ۔ اب اس آیت شریف اور اس کی تفسیر سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ رسولوں کو غیب کی خبریں دیتا ہے اور ان کو اپنا غیب عطا کرتا ہے ۔ حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام انبیاء و رسولوں (علیہم السلام) سے برگزیدہ ہیں ۔ لہذا آپ کیلئے بھی اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب ثابت ہو گیا ۔ جو آدمی آپ کے عطائی غیب کا منکر ہے تو وہ آپ کو برگزیدہ رسول نہیں سمجھتا ۔ اسی تفسیر خازن میں اس آیت کے شان نزول میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے : قال السدی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرضت علی امتی افی صورھا فی الطین کما عرضت علی آدم و اعلمت من یومن بی و من یکفر بی مبلغ ذلک المناقین فقالوا استہزائً زعم محمدانہ یعلم من یومن بہ و من یکفربہ ممن لم یخلق بعد و نحن معہ وما یعرفنا مبلغ ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم و قام علی المنبر محمد اللہ تعالیٰ داشنی علیہ ثم قال ما بال اقوام طنعوا فی علمی لا تسالونی عن شی فیما بینکم و بین الساعۃ الا بناتکم بہ فقام عبد اللہ بن خذافہ السنہمی فقال من ابی یا رسول اللہ فقال حذافۃ فقام عمر فقال یا رسول اللہ رضینا باللہ ربا وابالاسلام دینا و بالقرآن اماماً ربک نبیا فاعف عنا فاللہ عنک فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فھل انتم منتھون فھل انتم منتھون ۔ (خازن ص ۳۸۲، جلد اوّل) اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے سامنے میری اُمت کو پیش کیا گیا جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا تھا ۔ جب میرے سامنے اُمت کو پیش کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کا علم بھی عطا کر دیا جو ایمان لائیں گے اور ان کا علم بھی دے دیا جو ایمان نہیں لائیں گے ۔ جب یہ بات منافقین تک پہنچی تو انہوں نے اس کا مذاق اڑ ایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ گمان کرتے ہیں کہ جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ۔ ان میں سے بھی وہ مومن اور غیر مومن کو جانتے ہیں حالانکہ ہم تو ان کے پاس رہتے ہیں ہمیں وہ نہیں جانتے ۔ جب منافقین کی یہ بات حضور علیہ الصلوٰہ والسلام تک پہنچی تو آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا اقوام کو کیا حق پہنچتا ہے کہ میرے علم پر طعن کریں ۔ آپ نے فرمایا قیامت تک کے سوالات مجھ سے پوچھ لو میں ہر شیٔ کے بارے میں تمہیں خبر دوں گا ۔ حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی نے اپنے والد کی خبر پوچھی ۔ حضور علیہ السلام نے ان کو ان کے والد کی خبر دے دی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑ ے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اللہ تعالیٰ کو رب اور سلام کو دین مانتے ہیں اور قرآن کو امام مانتے ہیں اور آپ کو نبی مانتے ہیں ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا بیان جاری رکھا اور فرمایا کیا تم میرے علم پر طعن کرنے سے باز نہیں آؤ گے ۔ اس حدیث شریف سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں : نمبر۱: حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھ پر میری اُمت پیش کی گئی اور مجھے ان کا علم بھی عطا کیا گیا جو مجھ پر ایمان نہیں لائیں گے اور ان کا علم بھی عطا کیا گیا جو مجھ پر ایمان لائیں ‘ پومن اور یکفر دونوں مضارع کے صیغے اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قیامت تک پیدا ہونے والے ہر فرد کا علم ہے اور ان میں سے مومن غیر مومن کا بھی پتہ ہے ۔ اس سے مراد قیامت تک آنے والے افراد کا علم ہے اسی پر تو منافقین نے اعتراض کیا ۔ زعم محمدانہ یعلم من یومن بہ و یکفر ممن لم یخلق بعد و نحن معہ و ما یغفرفنا۔کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی تو یہ ہے کہ جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ‘ اُن میں سے بھی مومن اور غیر مومن کو جانتے ہیں حالانکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ہمیں تو نہیں پہچانتے لہذا ۔آپ کا قیامت تک کے لوگوں کے احوال کو جاننے والا دعویٰ غلط ہے ۔ (معاذ اللہ) یہ بھی پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے لوگوں کے دل کی دنیا کا بھی علم تھا ۔ کیونکہ ایمان و کفر کا تعلق دل سے ہے ۔ نمبر۲: حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کے علم غیب (عطائی) کا انکار سب سے پہلے منافقین نے کیا ہے کسی مسلمان نے نہیں کیا ۔ لہذا آج جو لوگ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کے علم غیب کا انکار کرتے ہیں وہ منافقین کے نقش قدم پر گامزن ہیں او ر ان کی سنت کو تازہ کرتے ہیں ۔ نمبر۳: جب حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کے پاس منافقین کے انکار اور اعتراض کی خبر پہنچی تو آپ نے اپنے علم غیب جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عطا تھی اس کو ثابت کرنے اور منافقین کا ردّ کرنے کا اتنا اہتمام فرمایا کہ منبر بچھانے کا حکم کیا اور باقاعدہ جلسہ منعقد کر کے ان کے اعتراض کا جواب دیا ۔ نمبر۴:حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے منکرین علم غیب کے ردّ میں جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ بڑ ے نصیحت آموز ہیں اور لرزا دینے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا’ان لوگوں کو میرے علم پر طعن کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے ‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے علم غیب کے انکار کو طعن کے لفظ سے تعبیر کیا ۔ وہ کتنا ہی بدبخت انسان ہے جو آپ کے علم غیب کا انکار کر کے آپ پر طعنہ کرتا ہے اور آپ کو تکلیف پہنچاتا ہے ۔ نمبر۵: حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے منکرین علم غیب کو چیلنج کیا کہ قیامت تک ہونے والی کسی شیٔ کے بارے میں مجھ سے سوال کرو میں ہر شیٔ کے بارے میں تم کو خبر دو ں گا ۔ آپ نے کلّی علم کے بارے فرمایا کیونکہ حدیث شریف میں ہے عن شیٔ نکرہ میز نفی میں ہے جو کہ سید عموم ہے اس سے کسی کی تخصیص نہیں کی جا سکتی ۔ بلکہ ہر شیٔ کا حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کا علم ہے ۔ نمبر۶: ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی نے غیب کی خبر پوچھی ۔ یعنی حضور علیہ الصلوٰہ والسلام سے سوال کیا کہ میرا (باپ) والد کون ہے ۔ صحابی نے اس والد (باپ) کے بارے سوال نہیں کیا جس کا ان کی ماں سے نکاح تھا ۔ یہ سوال کرنا تو معقول بات نہیں لگتی کیونکہ اس باپ کو تو وہ دوسرے لوگوں کی بجائے خود زیادہ جانتے تھے ۔ انہوں نے حضور علیہ الصلوٰہ والسلام سے جو والد کا سوال کیا تو پوچھنا یہ چاہتے تھے کہ میں نطفہ کی کا ہوں کیونکہ لوگوں نے ان کو والد الزنا ہونے سے مہتمم کر رکھا تھاتو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بتایا کہ تو حذافہ کے نطفہ سے پیدا ہوا ہے اور حلالی ہے ۔ تمہارا نسب درست ہے لہذا حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے غیب پوچھنے پر خبر دے دی۔ نمبر۷: جب حضور علیہ الصلوٰہ والسلام منکرین علم غیب کا غصہ کی حالت میں ردّ فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بڑ ا اضطراب پھیل گیا ۔ جب بھی صحابی آپ کی ایسی حالت کو دیکھتے تو مضطرب ہو جاتے وہ یہ سوچتے کہ پہلے سب کچھ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کیلئے ہم نے ترک کیا ہے اور اگر آپ ہم سے ناراض ہو گئے تو ہم سے زیادہ خسارے میں کون ہو گا ؟ اس لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اُٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کو نبی تسلیم کرتے ہیں ۔ ہم نے آپ کے علم غیب پر اعتراض نہیں کیا ہم تو آپ کو نبی یعنی غیب کی خبریں دینے والامانتے ہیں ۔ نمبر۷: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری طرح منکرین کا ردّ فرمایا اور غیب کی خبریں پوچھنے کی دعوت دی پھر آپ نے فرمایا ’’فھل انتم منتھون‘‘ کیا تم اب بھی میرے علم پر طعن کرنے سے باز نہیں آؤ گے ۔ آپ نے بڑ ی تاکید کے ساتھ علم غیب پر طعن کرنے والوں کو روکا ۔ مسلمانوں نے تو پہلے بھی انکار نہیں کیا تھا اور بعد میں اُمت مسلمہ کا اس بات پر اجماع رہا کہ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام بعطائے الٰہی علم غیب جانتے ہیں ۔ یہاں تک کہ گیارھویں صدی میں آ کر بعض نام نہاد لوگوں نے یہ گمان کیا اُمت مسلمہ کو حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کی وہ تقریر بھول چکی ہو گی اس لئے انہوں نے پھر آپ کے علم غیب پر طعن کرنا شروع کیا۔ آیت نمبر۲۔: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک ۔ (پارہ ۳، رکوع ۱۳) اس آیت کی تفسیر ‘تفسیر خازن میں بایں طور ہے ۔ یقول اللہ عزوجل بحمد صلی اللہ علیہ وسلم ذلک الذی ذکرت لک من حدیث زکریا و یحییٰ و مریم و عیسیٰ علیہم السلام من اخبار الغیب ۔ (خازن ص ۲۹۲ جز اوّل) اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرمایا کہ میں نے جو آپ کو حضرت زکریا ‘ حضرت یحییٰ ‘ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی باتیں بتائی ہیں یہ غیب کی خبروں سے ہیں ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیب کی خبروں کی تعلیم دی اور ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام اللہ تعالیٰ کے بتانے سے غیب جانتے ہیں ۔ آیت نمبر ۳: دوسرے مقام پر ہے : تلک من انباء الغیب نوحیھا الیک ۔ (پارہ ۱۲، رکوع ۴، سورہ ھود ، آیت ۴۹) اس آیت کی تفسیر‘ تفسیر خازن میں یوں ہے ۔ ہذا خطاب للنبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ان ھذہ القصۃ التی اخبرناک یا محمد من قصۃ نوح و خبر قولہ من انباء الغیب یعنی من اخبار الغیب۔ (تفسیر خازن جز ثالث ، ص ۱۹۳) خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام اور آپ کی قوم کا قصہ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کو بتلایا اور فرمایا اے محبوب یہ غیب کی چیزیں ہیں ۔ ٘آیت نمبر۴:اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہٖ احداً الا من ارتضیٰ من رسول (پارہ ۲۹، ع ۱۲، سورۃ جن ، آیت ۲۶، ۲۷)اس آیت کی تفسیر ‘تفسیر خازن میں یوں ہے ۔ ملاحظہ ہو: ھو عالم ماغاب عن العبار فلا یطع علی الغیب الذی یعلمہ والفردبہ احدا من الناس ثم استثنی فقال تعالیٰ الا من ارتضیٰ من الرسول۔یعنی الا من یعطفیہ لرسالۃ و نبوتہ فینظرہ علی من یشاء من الغیب حتی یستدل علی نبویۃ بما یخبر بہ من المغیبات فیکون ذالک معزجۃ لہ۔ (خازن ص ۱۳۶، جز سابع) آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھنے والا ہے ۔ پس نہیں مطلع کرتا اپنے غیب پر کسی ایک کو مگر رسولوں میں سے جسے چاہے اس پر غیب کا اظہار کر دیتا ہے ۔ تفسیر میں یوں وضاحت کی گئی کہ اللہ تعالیٰ رسولوں میں سے جس کو چن لیتا ہے اس کو جتنا چاہتا ہے غیب عطا فرما دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ غیب اپنے مصطفے ٰ نبی کو اس لئے دیتا ہے تا کہ وہ نبی اپنی نبوت کے دعوی کی دلیل کیلئے ایک علم غیب کو پیش کرے ۔ لہذا یہ غیب کا علم مصطفے ٰ نبی کا معجزہ ہو گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام نبیوں میں سے زیادہ برگزیدہ ہیں ۔ لہذا آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے علم غیب عطا کیا ہے اور علم غیب آپ کا معجزہ ہے جو آپ کے عطائی علم غیب کا انکار کرتا ہے ۔ وہ آپ کے مرتضیٰ اور مصطفے ٰ یعنی برگزیدہ ہونے کا انکار کرتا ہے ۔ آیت نمبر۵: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وما ھو علی الغیب بضنین (پارہ ۲۰، رکوع ۶ ، سورہ التکویر ، آیت ۳۴) تفسیر خازن سے اس کی تفسیر ملاحظہ ہو (وما ھو) یعنی محمدا صلی اللہ علیہ وسلم (علی الغیب) اسی الوحی و خبر اسماء وما طلع علیہ مما کان غائبا عن علمہ من القصص والانبا (بضنین) ای بیخیل یقول انہ یاتیہ علم الغیب ولا یبخل بہ علیکم و یخبرکم بہ ولا یکتمہ کما یکتم الکاہن ما عندہ حتی یا خذ علیہ حلوانا۔ (خازن ص ۱۸۰، جز سابع) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت محمد مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وسلم غیب بتاتے ہیں ۔ بخل نہیں کرتے ۔ تفسیر خازن میں آیت میں مذکور لفظ غیب کی وضاحت کی گئی کہ وہ غیب کیا ہے ۔ وہ وحی ہے اور آسمان کی خبریں اور وہ تمام خبریں اور قصص ہیں جن کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتائے یہ تمام غیب بتانے میں آپ بخیل نہیں ہے ۔ تفسیر میں مزید وضاح کی گئی ہے حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کے پاس علم غیب ہے اور اس کے اظہار میں بخل نہیں کرتے اور نہ ہی اس کو چھپاتے ہیں جیسا کہ کاہن جو کچھ اس کے پاس ہوتا ہے اس کو چھپاتا ہے اس پر اُجرت وصول کرتا ہے ۔ اب اس مسئلہ پر چند احادیث ملاحظہ ہو: نمبر۱:عن عبدالرحمن ابن عائش قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رایت ر بی عزوجل فی احسن صورۃ فقال فیہم یختصم الملاء الاعلیٰ قلت انت اعلم قال فوضع کفہ بین کتفی فوجدت بردھا بین ثدیی فعلمت ما فی السموات والارض و تلاو کذلک نری ابراہیم ملکوت السموات والارض فیکون من الموقنین ۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۷۰، کتاب الصلوٰۃ باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ دوسری فصل) حضرت عبد الرحمن بن عائش سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا میں نے اپنے رب عزوجل کو احسن صورۃ میں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا ملاء اعلیٰ کے فرشتے کس بارے جھگڑ رہے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ تو خوب جانتا ہے ۔ آپ نے فرمایا ’’پس اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا میں نے دست قدرت کی ٹھنڈک کو اپنے دونوں پستانوں کے درمیان محسوس کیا ‘ پس میں نے ہر اس شی کو جان لیا جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے اور حضور علیہ السلام نے یہ آیت پڑ ھی ۰جس کا ترجمہ یہ ہے ) ’’اسی طرح دکھاتے ہیں ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت تا کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے ‘‘۔ شیخ محقق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فعلمت ما فی السموات والارض کے تحت لکھتے ہیں : پس دانستم ہر چہ در آسمان ہا و ہرچہ در زمین بود عبارت است از حصول تمامہ علوم جزوی و کلی و احاطہ آں (اشعۃ للمعات شرح مشکوٰۃ ص ۲۳۳، جز اوّل) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمینوں کی ہر شیٔ کا علم مجھے آ گیا یعنی جزوی علوم اور کلّی علوم آپ کو حاصل ہو گئے ۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بطور دلیل یہ آیت پڑ ھی کذلک نری ابراہیم ملکوت السموات والارض لیکون من الموقنین ۔ کہ جیسے آپ کو ہم نے ہر شیٔ دکھا دی اور علم دے دیا ایسے ہی ہم ابراہیم علیہ السلام کو زمین و آسمان کے ملکوت دکھاتے ہیں ۔ آیت کریمہ میں چونکہ ماضی کے قصہ کی حکایت کی جا رہی ہے ۔ اس لئے کذلک ارینا ہونا چاہیئے تھا لیکن نُری استمرار پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اب بھی عادت جاری ہے کہ اپنے محبوبوں کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت دکھاتا ہے ۔ شیخ محقق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشاہدہ میں فرق بیان کیا ہے ۔ اہل تحقیق گفتہ اند کہ تفاوت است درمیاں ایں دو روایت زیراکہ خلیل علیہ السلام ملک آسمان رادید و حبیب ہر چہ در آسمان و زمین بود حالی از ذوات و صفات و ظواہر و بواطن ہمسہ رادید و خلیل حاصل شد مرا اورا یقین بوجوب ذاتی و وحدت حق بعد از دیدن ملکوت آسمان و زمین چنانکہ حال اہل استدلال و ارباب سلوک و محبان و طالبان میبا شد و حبیب حاصل شد مرا اور ا یقین و وصول الی اللہ اوّل پس از آں دانست عالم را و حقائق آنرا چنانکہ شان مجذوبان و محبوبان و مطلوبان ست۔ پہلا فرق یہ ہے کہ حضرت (خلیل ) ابراہیم علیہ السلام نے زمین و آسمانوں کے ملک کو دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زمین اور آسمانوں کو ہی نہیں دیکھا بلکہ زمین اور آسمانوں کو اور ذوات اور صفات تھیں ‘ظاہر تھیں یا باطن تھی سب کو دیکھا ۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وجوب ذاتی اور وحدت حق کا یقین زمین و آسمان کے ملکوت دیکھنے کے بعد حاصل ہوا جو کہ اہل استدلال ارباب سلوک اور محبان اور طالبان کا حال ہے ۔ اور (حبیب) حضرت محمد مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین اور وصول الی اللہ عالم اور اس کے حقائق کے مشاہدہ سے پہلے حاصل تھا جو کہ مجذوبان اور مطلوبان کی شان ہے ۔ حدیث ۶: فاذا انا بربی تبارک و تعالیٰ فی احسن صورۃ فقال یا محمد قلت لیبک رب قال قیم یختصم والملاء الا علیٰ قلت لا ادری قالہا ثلثا قال فرأیتہ وضع کفہ بین کتفی حتی وجدت بردانا ملہ بین ثدیی فتجلی لی کل شیٔ و عرفت فقال یا محمد قلت لبیک رب قال فیہم یختصم الملا الاعلیٰ قلت فی الکفارات ۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۷۳، کتاب الصلوٰۃ باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ تیسری فصل) پس اچانک میں اپنے رب کو احسن صورۃ میں دیکھتا ہوں ۔ پس فرمایا اللہ تعالیٰ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )میں نے عرض کیا ’’لبیک ‘‘ اے میرے رب ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ملّا اعلیٰ کس بارے میں بحث کر رہے ہیں ‘‘، میں نے کہا میں نہیں جانتا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کلمات تین مرتبہ د ہرائے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس دست قدرت کے پوروں کی ٹھنڈک کو اپنے پستانوں کے درمیان پایا۔ پس میرے لئے ہر شیٔ ظاہر اور روشن ہو گئی اور میں نے ہر شیٔ کو پہچان لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نے عرض کیا لبیک ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ملّا اعلیٰ کس میں بحث کر رہے ہیں ۔ میں نے کہا کفارات میں ۔ فتجلی لی کل شیٔ و عرفت کی شرح میں شیخ محقق علیہ الرحمۃ نے فرمایا: پس ظاہر شدد روش شد ط رمرا ہر چیز از علوم و شناختم ہمہ۔ پھر میرے لئے علوم سے ہر چیز روشن اور ظاہر ہو گئی اور میں نے ہر شیٔ کو پہچان لیا۔ پہلی حدیث میں تھا فعلمت اس میں ہے عرفت۔ علم عام ہے کلی کا ہو یا جزی کا اور عرفان خاص ہے کہ یہ جزئیات کی ہوتی ہے ۔ لہذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زمین آسمان اور ان میں موجود جزی جزی کو دیکھا اور علم حاصل کیا۔ اسی حدیث شریف کے آخر میں ہے فقال صلی اللہ علیہ وسلم انھا حق حق فادرسو ھا ثم تعلموھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ روایت حق ہے اس کو پڑ ھاؤ اور خود اسے یاد رکھو ۔ اس میں آپ کا علم غیب واضح ہے آپ کو پتہ تھا کہ بعد میں ایسی قوم آئے گی جو میرے علم غیب پر اعتراض کرے گی ۔ اس لئے لہذا یہ حدیث جس میں میرے علم غیب کا ثبوت ہے ۔ یہ لوگوں کو پڑ ھاؤ اور اس کی تبلیغ کرو ۔ کچھ لوگ اس حدیث کی صحت کے بارے میں شک کرتے ہیں ۔ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ الباری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا ہذا حدیث صحیح۔ یہ صحیح حدیث ہے ۔ (مشکوٰۃ ص ۷۲)
  4. یہ تحریر مجھے فیس بوک پر ملی اس تحریر میں کافی باتیں قابلے غور ہے اس لیے آپ لوگوں کے سامنےپیش کر رہا ہوں تاکہ اس پر مفید بحث کی جائے جزاکم الله Muhammad Hanif Dar جادو کی حقیقت ! یہ روایت بخاری شریف سمیت ساری حدیث کی کتابوں میں آئی ھے،، اور راوی سارے ثقہ ھیں،، روایت کے لحاظ سے اس پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی ،مگر اس پر کچھ سوال وارد ھوتے ھیں جن کا جواب تو کوئی دیتا نہیں، مگر راویوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش ضرور کی جاتی ھے ! ایک تھے ھشام ابن عروہ ابن زبیرؓ،، جنہوں نے اپنی عمر کے آخری ایام میں عراق میں جا کر اس حدیث کو140ھ میں بیان کیا،، ان کے ماضی کی اتھارٹی پر امام بخاری نے اس حدیث کو لے لیا،،اور ان کی آخری کیفیت کو نہیں دیکھا،،جب کہ وہ سٹھیا گئے تھے - اب امام بخاریؒ کے بعد تو پھر دوسرے محدثین ان کی روایت پر ٹوٹ پڑے،جب کہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ نے جو براہ راست ان کے شاگرد تھے ان دونوں نے ان سے جادو کی حدیث نہیں لی،، بلکہ امام مالک نے تو صاف کہہ دیا کہ ھشام کی عراقی روایات سے بُو آتی ھے،، امام ابو حنیفہ کے اصولِ حدیث میں یہ بات طے شدہ ھے اور امام ابوحنیفہ کا حدیث لینے کے معاملے میں رویہ تمام ائمہ سے زیادہ سخت اور منطقی ھے،، آپ فرماتے ھیں کہ جو واقعہ عقلاً اپنے وقوع پر بہت سارے افراد کا مطالبہ کرتا ھے،، اس کو کوئی ایک آدھ بندہ روایت کرے تو وہ حدیث مشکوک ھو گی،، اب آپ غور فرمایئے کہ ںبیﷺ پر جادو ھوا،، 6 ماہ رھا،،بعض روایات میں ایک سال رھا،، اور کیفیت یہ بیان کی گئی ھے کہ ،،کان یدورُ و یدورُ لا یدری ما اصابہ او ما بہ،، آپ چکر پر چکر کاٹتے مگر آپﷺ کو سمجھ نہ لگتی کہ آپ کو ھوا کیا ھے،، بعض دفعہ آپ اپنی بیویوں کے پاس نہ گئے ھوتے مگر آپ کو خیال ھوتا کہ آپ گئے تھے،، اور بعض دفعہ دیگر معاملات میں بھی اس قسم کا مغالطہ لگا،، اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اس وقت نبیﷺ کی 9 بیویوں تھیں،، اگر یہ معاملہ اس حد تک خراب تھا تو یہ سب بیویوں کی طرف سے آنا چاھئے تھے،، جب کہ یہ صرف ایک بیوی حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب ھے،، اگر یہ واقعہ ایسے ھی تھا تو عقل کہتی ھے کہ حضرت عائشہؓ کو سب سے پہلے اپنے والد کو خبردار کرنا چاھیئے تھا کہ آپ کے خلیل کے ساتھ یہ ھو گیا ھے،یوں یہ تمام صحابہ میں مشہور ھو جانا چاھئے تھا،،نبی ﷺ پر جادو قیامت تھی کوئی معمولی زکام کا واقعہ نہیں تھا،، نبوت اور وحی داؤ پر لگی ھوئی تھی،،مگر یہ نہیں ھوا، خیر حضرت عائشہؓ کو دوسرے نمبر پر اپنی سوکنوں کے ساتھ اس کو شیئر کرنا چاھئے تھا اور ان سے بھی تصدیق کرنی تھی کہ کیا ان کو بھی نبیﷺ کی ذات میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نظر آئی ھے،، وہ بھی نہیں ھوا ، حضرت عائشہؓ نے ذکر بھی کیا تو صرف ایک بندے سے یعنی اپنے بھانجے عروہ سے،، عروہ نے بھی اسے چھپائے رکھا اور کسی سے ذکر نہیں کیا سوائے اپنے ایک بیٹے کے،، وہ بیٹا بھی اسے 70 سال سینے سے لگائے رھا اور جب حضرت عائشہؓ سمیت کوئی صحابی اس کی تصدیق کرنے والا نہ رھا تو 90 سال کی عمر میں عراق جا کر یہ واقعہ بیان کیا،، اور مدینے والوں کو عراق سے خبر آئی کہ نبیﷺ پر جادو بھی ھوا تھا،،اب اس پر میں اپنی زبان میں تو کچھ نہیں کہتا مگرفقہ حنفی کے امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی احکام القرآن میں اس پر جو تبصرہ کیا ھے اسی پر کفایت کرتا ھوں " کہ اس حدیث کو زندیقوں نے گھڑا ھے،، اللہ انہیں قتل کرے،، نبیﷺ پر ایمان اور اس حدیث پر یقین ایک سینے میں جمع نہیں ھو سکتے،، اگر آپﷺ پر جادو ھو گیا ھے تو پھر نبوت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ھے اور اگر نبی تھے تو پھر جادو کا امکان تک نہیں" افسوس یہ ھے کہ امام ابوحنیفہ کے اس حدیث کو مسترد کر دینے اور امام ابوبکر الجصاص کے انکار کے باوجود ،ماشاء اللہ احناف ھی اسے اولمپک کی مشعل کی طرح لئے دوڑ رھے ھیں ،کیونکہ اس سے ان کی روٹیاں جُڑی ھیں،، یہ کالے کے مقابلے میں چٹا جادو کر کے کماتے ھیں،، اور یوں کالے اور چٹے جادو کے تال میل سے جادو کی سائیکل کے یہ دو پیڈل چل رھے ھیں،، یہ ایک بہت بڑا سوال ھے کہ شرک کے یہ اڈے جو زیادہ تر زندیقوں کے قبضے میں ھیں،، عیسائی جادوگر اور شیعہ عامل اپنی دکانیں اسی حدیث اور ھمارے بزرگوں کے تعاون سے ھی چلا رھے ھیں،، جہاں نہ صرف ایمان لٹتا ھے بلکہ مال کے ساتھ عصمتیں بھی بھینٹ چڑھتی ھیں،، ھم آخر لوگوں کو کیسے روکیں اور کیسے یقین دلائیں کے اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان نہیں دے سکتا،، اس صحیح حدیث کو بھی ھم آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہیں سنا سکتے کہ " سارے زمین والے اور سارے آسمان والے، تیرے پچھلے جو مر گئے وہ بھی جو قیامت تک آنے والے ھیں وہ بھی ملکر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاھئیں تو نہیں پہنچا سکتے ،سوائے اس کے جو اللہ نے رحم مادر میں تیرے مقدر میں لکھ دیا تھا،، اور اگر یہ سارے تجھے نفع دینا چاھیئں تو رائی کے دانے کے برابر نفع نہیں دے سکتے سوائے اس کے جو رحم مادر میں اللہ نے تیرے لئے لکھ دیا ھے،، سیاھی خشک ھو گئی ھے اور قلم روک لیا گیا ھے،،، جو اللہ اپنے رسول کی ھی حفاظت نہیں کر سکتا،، اس پر کوئی کیسے توکل کرے ؟،، وہ جوسورہ جن میں فرماتا ھے رسول کے آگے پیچھے نگران ھوتے ھیں جو اس کی حفاظت کرتے ھیں،، پتہ نہیں وہ محافظ جادو کے وقت لنچ بریک پر گئے ھوئے تھے،، بہرحال لوگ ایک جملہ کہہ کر سارے قرآن اور توکل والی احادیث پر پانی پھیر دیتے ھیں کہ جی " جادو تو نبیوں پر بھی ھو جاتا ھے" اور جادو تو برحق ھے،، اگر جادو برحق ھے تو پھر باطل کیا ھے ،،؟ کاش ھم ضد چھوڑ کر ایمان بالرسالت کا جائزہ لیں،کہیں یہ ویسا ھی ایمان تو نہیں ،،انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ،، رسول اللہ تو وہ بھی مانتے تھے،مگر اس رسول کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کیا؟ ھم نے قتل کر دیا مسیح عیسی ابن مریم اللہ کے رسول کو،،، اور ھم نے بدنام کر دیا محمد رسول اللہﷺ کو،، جادو کے غلبے کی دو صورتیں ھیں،، تیسری ممکن نہیں ! ایک یہ کہ شیاطین کے ذریعے کسی پر غلبہ پا لیا جائے،، اور جو سمجھتا ھے کہ شیطان نے نبی ﷺ پر غلبہ پا لیا تھا،، اس نے اللہ کی بھی تکذیب کی اور رسول ﷺ کی بھی ،،کیونکہ اللہ پاک کے دربار میں ابلیس نے جو باپ ھے شیاطین کا اس نے اعتراف کیا کہ " لاُغوینھم اجمعین،، الا عبادک منھم المخلصین،، میں لازم اغوا کروں گا سب کو،، سوائے تیرے ان بندوں کے کہ جن کو تو خالص کر لے،،، اب کون سا شیطان نبی پر غلبہ پا سکتا تھا،، پھر اللہ کی تکذیب یوں کرتے اور راویوں کی پوجا کرتے ھے،،کہ اللہ پاک فرما رھا ھے کہ،، انَۜ عبادی لیس لک علیھم سلطان ،، میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہ چلے گا ،، اب دوسری صورت رہ گئی کسی کی قوت متخیلہ کا دوسرے کی قوت متخیلہ پر غالب آ جانا ،، یہ بھی نبیﷺ کی تکذیب اور لبید یہودی پر ایمان کے مترادف ھے،جس ھستی کا دل سوتے میں بھی رب کے ساتھ آن لائن رھتا تھا ان کے بارے میں یہ سوچنا کہ اس یہودی کی قوت متخیلہ نے ھمارے نبی ﷺ کی قوت متخیلہ پر غلبہ پا کر انہیں وہ سوچنے اور کرنے پر مجبور کر دیا جو وہ چاھتا تھا،،، اور یوں سال بھر نبیﷺ لبید اعصم یہودی کے رحم و کرم پر رھے،، جب وہ چاھتا نبیﷺ کو نماز پڑھتے اٹھا کر گھر بھیج دیتا اور صحابہ منہ دیکھتے رہ جاتے،، یہانتک کہ حضرت ذوالیدینؓ نے کنڈہ بجا کر کہا کہ سرکارﷺ ھمیں تو کسی طرف لگائیں،، دو رکعت پڑھ کر اٹھ آئے ھیں،، کیا نماز کم ھو گئی ھے یا آپ بھول گئے ھیں ؟؟، آپﷺ نے غصے کے عالم میں فرمایا نہ نماز کم ھوئی ھے اور نہ میں بھولا ھوں،،مگر ذوالیدیؓن نے اصرار کیا،جس پر آپ نے دیگر صحابہ کی طرف دیکھا اور انہوں نے بھی سر ھلا کر ذوالیدیؓن کی تصدیق کی تب نبی کریمﷺ نے جا کر باقی دو رکعت پوری کیں اور سلام پھیرا،، کبھی وہ خیال ڈالتا کہ آپ جنابﷺ اپنی فلاں زوجہ سے مل آئے ھیں مگر وہ زوجہ انکار کرتیں،، الغرض یہ ھے ھمارے آج کے فوٹو اسٹیٹ احناف کا موقف اور ایمان اپنے نبیﷺ کے بارے میں،،مگر پہلے احناف ایسے نہیں تھے،کیونکہ وہ سفید جادو کی دکانیں نہیں چلاتے تھے،، ابوبکر الجصاص جو محدث تھے اور علماء احناف میں مجتہد تھے،، علامہ شاہ اسماعیل شہید نے انہیں تنویر العینین میں ان کو مجتہد لکھا ھے،، الغرض وہ احکام القرآن میں اس حدیث پر بحث کرتے ھوئے لکھتے ھیں " جو لوگ نبی پر جادو کی تصدیق کرتے ھیں بعید نہیں کہ وہ نبی کے معجزات کو بھی من قبیل السحر قرار دے دیں یا خود نبی کو ھی ساحر قرار دے دیں،، کتنی شرمناک بات ھے کہ ان لوگوں نے اس بات پر یقین کر لیا کہ ان کے نبیﷺ پر جادو کر دیا گیا،یہانتک آپﷺ کی طرف منسوب کیا جاتا ھے،،کہ میں نے کوئی کام نہیں کیا ھوتا تھا اور سمجھتا تھا کر لیا ھے،،اور کوئی بات نہیں کہی ھوتی تھی مگر سمجھتا تھا کہ میں نے کی ھے،، ۔۔۔۔۔۔۔ دراصل یہ حدیثیں ملحدوں کی وضع کردہ ھیں، جو رذیلوں اور اوباشوں کو اھمیت دیتے ھیں ،، جو بتدریج اس لئے گھڑی گئی ھیں کہ انبیاء کے معجزات کو باطل قرار دیا جائے اور ان میں شبہ ڈالا جائے اور لوگوں کو اس کا قائل کیا جائے کہ جادوگری اور معجزہ ایک ھی قسم سے تعلق رکھتے ھیں،،اس قسم کی روایات بیان کرنے والوں پر تعجب ھوتا ھے کہ ایک طرف تو وہ انبیاء کی تصدیق کرتے ھیں اور معجزات کو ثابت کرتے ھیں مگر دوسری طرف وہ اس کی بھی تصدیق کرتے ھیں کہ جادوگر بھی یہ کام کر سکتا ھے،، اب نبی پر ایمان اور جادو ایک سینے میں جمع نہیں ھو سکتے،، " یہ ھے لہجہ امام المحدث ابو بکر جصاص کا،،منکرین حدیث کے فتوے داغنے والوں سے گزارش ھے کہ سارے فتوؤں کا رخ پھیرئیے اپنے ان اکابر کی طرف تا کہ آپ کو فتوے دینے کا کوئی مزہ بھی آئےاس روایت پر تفصیلی نظر ڈالی جائے تو پہلی بات یہ ھے کہ 140 سال تک یہ روایت سینہ بسینہ ایک فرد سے ایک فرد تک منتقل ھوتی رھی، اسے دوسرا آدمی دیکھنا نصیب نہ ھوا، 7 ھجری سے 140 ھ تک اس کا صرف ایک راوی چلتا ھے،، یہ روایت ھشام سے سوائے عراقیوں کے اور کوئی روایت نہیں کرتا،، حافظ عقیلی کے مطابق 132ھ میں ھشام سٹھیا گئے تھے، اور کہتے تھے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے 9 سال کی عمر میں شادی کی تھی،حالانکہ وہ ان سے 13 سال بڑی تھیں،، گویا جب وہ 9 سال کی تھیں تو ھشام کے پیدا ھونے میں بھی ابھی چار سال باقی تھے ، دماغ خراب ھونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ھو سکتا ھے،، اسی زمانے میں انہوں نے حضرت عائشہؓ کی شادی بھی چھ سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں کرائی تھی، راوی اس کے بھی سارے عراقی ھیں اور وہ بھی 140 سال سینہ بسینہ چلتی ھوئی عراق سے مدینے آئی تھی،،مدینے والوں کو نہ جادو کا پتہ تھا نہ چھ سال کی شادی کا،، امام مالک ھشام کے مشہور ترین شاگردوں میں سے ھیں مگر اس روایت کو چھوتے تک نہیں،، اوربھی کوئی مدنی محدث اس سے واقف نہیں،، اس روایت کے متن میں اتنا اضطراب ھے کہ یقین کرنا مشکل ھوتا ھے کہ یہ صحیح الدماغ آدمی کا بیان ھے،، جتنے آدمی ان سے ملتے ھیں ھر ایک کو ایک نیا آئیٹم پکڑا دیتے ھیں،، کسی میں تعویز نکالا جاتا ھے،،اور بالوں میں سے گرھیں کھولی جاتی ھیں،، یہ گرھیں مارنے ھی والے خوب جانتے ھیں کہ گرھیں کیسے کھولی جاتی ھیں،، ھمارا تجربہ تو یہ ھے کہ بال ٹوٹ جاتا ھے مگر اس کی گرہ کھلنی مشکل ھے،، کہیں کسی تانت میں گرہ مروائی جاتی ھے،،کہیں کہا جاتا ھے کہ نبی پاکﷺ نے نکلوایا ھی نہیں تھا،،جب نکلوایا ھی نہیں تھا تو پھر گرھوں والی کہانی خود بخود جھوٹ ثابت ھو جاتی ھے،کیونکہ بخاری و مسلم تو گرھوں والی بات روایت ھی نہیں کرتے اور نہ جادو نکلوانے کی بات کرتے ھیں،، اب چونکہ سورہ فلق میں گرہ میں پھونک مارنے کا ذکر ھے،،اس لئے گرہ تو لگوانی ضروری تھی،،لہذا اگلے ایڈیشن میں جادو نکلوا کر گرھیں کھلوائیں گئیں،، مگر مکے کے ابتدائی سالوں مین نازل ھونے والی مکی معوذتین کو گرہ میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کا جملہ دیکھ کر انہیں 7 ھ کے واقعے میں جوڑا گیا،، امام ابو حنیفہ تو جادو کے قائل ھی نہیں،، ابو بکر بھی قائل نہیں،،مگر آج کے احناف اس کے ساتھ کچھ یوں چمٹ گئے ھیں گویا یہ فقہ حنفی کا ھی کوئی مسئلہ ھے،، عمل نہ کریں تو عبادات کے مسائل میں 90 ٪ بخاری پر نہ کریں تو دین کا کچھ نہیں بگڑتا،، اور عمل کرنے پہ آ جائیں تو جادو کو دین اور ایمان کا مسئلہ بنا دیں،، جو چاھے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے، معوذتین اور جادو ! پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ! سورہ الفلق اور سورہ الناس جن کو جوڑ کر معوذتین کہا جاتا ھے،،یعنی وہ دو سورتیں جن میں مختلف خطرات سے اللہ کی پناہ حاصل کی جاتی ھے، یہ سورتیں ابتدائی مکی دور میں 20 ویں اور 21 ویں نمبر پر نازل ھوئیں جب کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس مختلف قسم کے سماجی ،اخلاقی، اور گروھی دباؤ کا سامنا کر رھی تھی،نبی کریم ﷺ کے خلاف ھر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رھا تھا، رات کے اندھیرے میں اگر آپ کے خلاف گٹھ جوڑ ھوتے تھے تو دن کی روشنی میں حرمِ مکی کے زائرین تک رسائی حاصل کر کے ان کے کانوں میں نبی ﷺکے خلاف زھر انڈیلا جاتا،ان سب کو مدنظر رکھتے ھوئے اللہ پاک نے ان میں سے ھر ھر فتنے کا نام لے کر اپنے نبیﷺ کو اپنی پناہ کی یقین دھانی کروا دی ، کہ آپ ان الفاظ سے ھماری پناہ طلب کر کے بے فکر ھو جائیے،ھم جانیں اور آپ کے دشمن جانیں،، ان سورتوں کے نزول کے ساتھ ھی نبی ﷺ نے ان کی تلاوت اور ورد کو معمول بنا لیا اور سوتے وقت بھی ان آیات کو پڑھ کر اپنے ھاتھوں پر پھونکتے اور پھر پورے بدن اطہر پر پھیر کر حصار بنا لیتے، آپ نے ساری زندگی اس کو اپنا معمول بنائے رکھا تا آنکہ مرض الموت میں جب کہ آپ کی ھمت جواب دے گئی تو سیدہ کائنات ام المومنین عائشہ صدیقہ طاھرہ طیبہ ؓ آپ کے دست مبارک کو سہارہ دے کر آپ کے چہرہ اقدس کے قریب کرتیں، جب آپ ان سورتوں کو پڑھ کر پھونک مار لیتے تو ام المومنینؓ نبی کے ھاتھوں کو ان کے بدن پر پھیر دیتیں، ظاھر ھے جب اللہ پاک نے قل کے حکم کے ساتھ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا اور آپ نے عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ آج مجھ پر ایسی آیات نازل ھوئی ھیں جیسی قرآن میں آج تک نازل نہیں ھوئی تھیں، تو آپ نے انہیں بطور ورد کے اختیار فرمایا،، ان آیات میں صرف ایک آیت " و من شر النفثاتِ فی العقد" کو لے کر انہیں جادو کی دلیل بنا دیا گیا ھے کہ اگر جادو نہیں ھوا تھا تو پھر گرھوں میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کیوں مانگی گئی ھے؟ اب سب سے پہلے نوٹ کرنے کی بات یہ ھے کہ یہ حکم کہ" قل اعوذُ برب الفلق" تو مکے کے ابتدائی مشکل دور میں نازل ھوا، نبی نے بحیثیتِ "نبی "اللہ کے حکم کی پیروی شروع کر دی جو کہ آپ کا فرضِ منصبی تھا، پھر اس کے باوجود اگر 12 یا 15 سال کے بعد مدینے میں آپﷺ پر جادو ھو گیا اور یہ سورتیں اللہ کے وعدے کے مطابق آپ پر جادو ھونے کو نہ روک سکیں تو اب یہ جادو کا علاج کیا اور کیسے کریں گی؟؟ ایک معتزلی شیخ جو کہ اللہ کو بھی معطل مانتا تھا، اس کے پاس ایک شخص آیا کہ میری اونٹنی کوئی چوری کر کے لے گیا ھے تو آپ دعا کر دیجئے کہ اللہ پاک اسے لوٹا لائے ! اب شیخ نے دعا شروع کی " ائے اللہ تو نے تو نہیں چاھا تھا کہ اس شخص کی اونٹنی چوری ھو،مگر چور کھول کر لے گیا،، ائے اللہ اس کی اونٹنی لوٹا کر لے آ،اس کی یہ دعا سن کر وہ اونٹ چرانے والا دیہاتی بھی تڑپ اٹھا، اس کے ایمان اور ضمیر نےاللہ کی ھستی بے ھمتا کے بارے میں شیخ کے الفاظ اور ان سے مترشح عقیدے کو قبول نہ کیا وہ پکارا " یاشیخ الغبی ! اوے بےوقوف مولوی جب چور کا ارادہ پہلے ھی میرے رب کے ارادے کو شکست دے چکا ھے تو اب وہ رب میری اونٹنی کیسے لوٹا سکتا ھے؟ کیا وہ چور کی منت سماجت کر کے واپس لائے گا ؟،، چور نے تو میری اونٹنی چرائی تھی مگر احمق انسان تُو تو میرے ایمان پر ڈاکا ڈالنے لگا ھے؟ 15 سال پڑھنے کے بعد بھی اگر لبید ابن عاصم اللہ کی حفاظت اور نبیﷺ کی عصمت میں نقب لگا چکا ھے تو اب ان سورتوں سے اس شگاف کو کیسے پر کیا جا سکتا ھے ؟ یہ تو سکندر کے گرنے کے بعد پاکستانی پولیس کی ھوائی فائرنگ جیسی بات ھو جائے گی ! کیا ھم پی ایچ ڈی لوگوں سے اس دیہاتی کے ایمان کی گہرائی اور گیرائی زیادہ نہیں؟ یہ سوال ھمارے ذھن میں پیدا کیوں نہیں ھوتا کہ جب اتنے عرصے کا ورد نبی ﷺ کی حفاظت نہیں کر سکا اور عین وقت پر جواب دے گیا،،تو اب نبی ﷺکو یہ کہنا کہ " قل اعوذُ برب الفلق' کوئی عقل و فہم میں آنے والی بات ھے،یا کوئی یہ ثابت کرنا چاھتا ھے کہ نبیﷺ نے ان سورتوں کا ورد کبھی نہیں کیا تھا،بلکہ ان کو رکھ کر بھول گئے تھے اور فرشتے نے آ کر یاد دلایا کہ جناب معوذتین نام کی دو سورتیں بھی آپ پر 15 سال پہلے نازل کی گئی تھیں،،وہ ڈھونڈیں کدھر رکھی ھوئی ھیں؟ ساری مصیبت ھمارے جادوئی ماحول کی پیدا کردہ ھے، راویوں کے زمانے میں بھی جو جو طریقہ جادو کا مروج تھا وہ سارا انہوں نے قسطوں میں نبیﷺ پر جادو والی حدیث میں ڈالا،، بخاری میں چند لائنیں ھیں، اور پتلے اور سوئیوں کا کوئی ذکر نہیں،مگر بعد والوں نے" خالی جگہ پُر کرو" کا کام خوب کیا، اور ایک پتلا انہوں نے نبی کا بنوایا،، شکر ھے عربوں میں دال ماش کا رواج نہیں تھا ورنہ وہ ماش کی دال کا پتلا بناتے،، پھر اس میں سوئیاں چبوتے ھیں، پھر سوئیاں نکالتے وقت نبی ﷺکے چہرہ اقدس کے تآثرات بھی نوٹ کرتے ھیں کہ حضور سوئی نکلنے پر منہ کیسا بناتے ھیں،لکھتے ھیں سوئی نکلنے پر تکلیف کا اظہار کرتے ،پھر راحت محسوس کرتے ! الغرض الفاظ بھی بڑے ظالم ھوتے ھیں،، پتھر اور مٹی کی دیواروں کو پھلانگا جا سکتا ھے ان میں نقب بھی لگائی جا سکتی ھے مگر الفاظ کی اسیری سے رھائی ناممکن ھے کیونکہ الفاظ کی دیواریں انسان کے اندر ھوتی ھیں، اور نادیدہ ھوتی ھیں،، صرف اس ایک لفظ نفاثات ،، یعنی پھونکوں نے کس طرح لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ھے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ھے، پتھر کی دیواروں کے پیچھے اسیری غنیمت ھے کہ اس اسیری میں بڑی بڑی انمول تفسیروں اور تحریروں نے جنم لیا ھے،ابن تیمیہ کی جیل کی تحریریں،، سید قطب کی جیل کی تفسیر، مودودی صاحب کی تفھیم کی تکمیل، اور امام سرخسی کی اندھے کنوئیں میں سے اپنے شاگردوں کو ڈکٹیٹ کروائی گئی وہ تفسیر جو دو بیل گاڑیوں پر لاد کر لائی گئی،،مگر الفاظ کی اسیری انسانی صلاحیتوں کو بانجھ بنا دیتی ھے،، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ھیں،حضرت عائشہ صدیقہؓ کی 16 سال میں شادی اور 19 سال میں رخصتی کی حدیث بھی بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں موجود ھے،مگر 6 سال کے لفظ کے اسیروں کی نظروں میں اس کی اھمیت ھی کوئی نہیں،، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے تو اپنی شرح بخاری میں اس کا ترجمہ تک کرنا پسند نہیں فرمایا کجا یہ کہ اس کی تفسیر سے نبی کے دامن پر لگا دھبہ صاف کرنے کو کوشش کی جاتی، اب دیکھیں ھمارے اسلاف ان الفاظ کا کیا ترجمہ کیا کرتے تھے، اس صورتحال میں کہ جب مختلف جماعتوں نے اپنے اپنے کام بانٹے ھوئے تھے،کچھ حاجیوں کو گھیرتے اور نبی کی ذات کے بارے میں ان کے کان میں پھونکتے، کچھ تجارتی قافلوں کو نشانہ بناتے اور ان میں گھوم پھر کر اپنے جوھر دکھاتے، کچھ اردگرد کی بستیوں میں چلے جاتے، پھر واپس آنے والے حرم میں بیٹھ کر رات کے اندھیروں میں اپنی اپنی کار گزاری سناتے اور ان کے" گرو" ان میں کمی بیشی کی نشاندھی کر کے کل کے لئے نئے اھداف مقرر کرتے اور لائحہ عمل تیار کرتے، اس پس منظر میں ان سورتوں کا نزول ھوا ،، یہ وھی پھونکیں ھیں جن کے بارے میں اللہ پاک نے پہلے سورہ الصف اور پھر سورہ توبہ میں ذکر فرمایا ھے،یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواھھم، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون،،، اور یریدون ان یطفئوا نور اللہ بافواھھم، و یابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون،، یہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں کے زور سے بجھانا چاھتے اور اللہ اپنے نور کی تکمیل سے کم کسی بات پر راضی نہیں ھے،، اگرچہ یہ کافرون کو کتنا بھی ناپسند ھو، یہ وھی پھونکیں ھیں جب کو اقبال نے کہا ھے " نور خدا ھے کفر کی حرکت پہ خندہ زن - - - پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ! یہ وہ پروپیگنڈے کی پھونکیں ھیں جن کو جادوگرنیوں کی پھونکیں بنا کر پھر جادو کی دیو مالا تیار ھوئی ھے ! اب ترجموں میں نگاہ ڈال لیں،یہ ان اسلاف اور علماء کا ترجمہ ھے جو جادو کی حقیقت سے انکار کرتے ھیں،لہذا وہ گرھوں میں پھونکیں مارنے والی جادوگرنیوں کی بجائے کانوں مین پھونکیں مارنے والی جماعتیں مراد لیتے ھیں 1-قاضی بیضاوی اپنی شرح میں اس کی ترجمانی یوں کرتے ھیں، قیل المراد بالانفث فی العقد ، ابطال عزائم الرجال،، کہا گیا ھے کہ پھونک مارنے والیوں سے مراد وہ عورتیں ھیں جو مردوں کے مستحکم ارادوں کو اپنے حیلوں سے پاش پاش کر دیتی ھیں( ھند زوجہ ابوسفیانؓ اور ام جمیل زوجہ ابو لہب ذھن مین رھے،جو عورتوں میں اس مہم کی سرخیل تھیں ) 2- عبدالحق حقانی لکھتے ھیں،پس آیت کے معنی یہ ھوئے کہ عورتوں کے شر سے پناہ مانگنی چاھئے جو مردوں کی ھمتوں اور مستحکم ارادوں کو مکر کی پھونک مار کر کمزور کر دیتی ھیں 3- عبید اللہ سندھی لکھتے ھیں' اور ھمیں ان جماعتوں کے شر سے بچا جو زھریلی پھونک مار مار کر عقیدے کو کمزور کر دیتی ھیں؛ آگے تفسیر میں لکھتے ھیں کہ کچھ لوگ ان سے مراد کوئی جادو گرنی فرض کر لیتے ھیں جو اپنے جادوگروں سے جادو کراتی ھے اور قرآن میں ان کے شر سے پناہ مانگی جا رھی ھے وغیرہ ،، ان کے نزدیک اس قسم کی تاویل اگرچہ ھو سکتی ھے تا کہ اس کا آیت کے ساتھ تال میل پیدا کیا جائے،مگر اس آیت سے جادوگرنیاں مراد لینا قرآن مجید سے ثابت نہیں ھے اور یہ بات قرآن اور نبوت کی شان کے بھی خلاف ھے،اس لئے ھم عورتوں کی جگہ جماعتوں کو لیتے ھیں اور جماعت کو عربی میں مؤنث کے صیغے میں لیا جاتا ھے، یعنی ان جماعتوں کے شر سے پناہ مانگی جاتی ھے جو اپنے غلط پروپیگنڈے سے انسان کی فطری ترقی کو روکتی ھیں،،( المقام المحمود ص 217 ) 4- صوبہ خیبر پختونخواہ کے مشہور عالم شیخ محمد طاھر پنج پیری کہتے ھیں،النفٰثٰتِ فی العقد سے مجالس میں پھونک مارنے والے مراد ھیں، اور اس کی بہترین تفسیر وھی ھے جو خود قرآن نے کی ھے،یریدون لیطفئوا نور اللہ بافوھھم ( الصف-التوبہ) سورہ الفلق میں اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺکو دعا سکھائی ھے کہ جو لوگ نورِ اسلام کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاھتے ھیں آپ ان کے عزائم اور مقصد سے اللہ کی پناہ طلب کریں! اب ما تتلوا الشیاطین ،، اور النفاثات سے یہ استدلال کرنا کہ چند شیطانی کلمات ِ خبیثہ سے کوئی جادوگر مافوق الفطرت کام یا خلاف عادت کرشمہ سر انجام دے سکتا ھے نیز کسی کو نفع یا نقصان دے سکتا ھے تو یہ ایک باطل اور قرآن و سنت کی تمام تعلیمات کے خلاف عقیدہ ھے اور قرآن و سنت پر مبنی عقیدے کے خلاف کسی بھی روایت کو قبول کرنا سارے سرمایہ دین اور متاعِ ایمان سے ھاتھ دھونا ھے، دنیا میں کوئی ایسا علم اپنا وجود نہیں رکھتا جس میں مجرد چند الفاظ کو لکھ کر کہیں دبا کر کسی کو مافوق الفطرت طریقے سے نفع یا نقصان پہنچایا جا سکے، اگر یہ طاقت دنیا میں جاری و ساری کرنی ھوتی تو اللہ پاک اپنے کلام سے یہ کام لیتا ،،جیسا کہ اس نے خود سورہ الرعد میں ارشاد فرمایا ھے" ولو انَۜ قرآناً سیرت بہ الجبالُ او قطعت بہ الارضَ او کلم بہ الموتی ،بل للہ الامرُ جمیعاً (الرعد 31 ) اور اگر کوئی ایسا کلام ھوتا جس سے پہاڑ چلائے جا سکتے ،یا زمین پھاڑی جا سکتی( یا فاصلے جھٹ پٹ طے کیئے جا سکتے) یا جس کے ذریعے مردے سے کلام کیا جا سکتا تو وہ یہی قرآن ھوتا،،مگر اللہ نے یہ سارے کام اپنے ھاتھ میں رکھے ھیں،، تو جب اللہ نے اپنے کلام میں یہ تاثیر نہیں رکھی بلکہ نبیوں سلام اللہ علیھم اجمعین سمیت تمام لوگوں کو اپنے در کا غلام اور سوالی رکھا ھے تو لبید ابن اعصم نام کے کافر یہودی کے کلام میں یہ تاثیر مان لینا کہ وہ تین میل دور ایک کنوئیں سے اللہ کے محبوب، نبیوں کے امام ،صاحب معراج اور مقام محمود کے مکین ﷺ کے دل و دماغ کو کنٹرول کر رھا تھا،، لبید کافر کو اللہ سے بالاتر اور اس کے کلام کو اللہ کے کلام سے زیادہ پر تاثیراور طاقتور ماننا ھے ( معاذ اللہ،) (ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ، انک انت الوھاب) اب دیکھئے اس سورت الفلق میں ساری مخلوق کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،نہ کہ خود مخلوق سے،، اور رات کے اندھیرے کے شر سے پناہ مانگی جب وہ چھا جائے،اب نہ تو رات بذات خود کوئی نقصان دہ چیز ھے بلکہ اللہ نے اسے اپنی نشانی گردانا ھے اور نہ اندھیرے میں کوئی نفع نقصان کی صلاحیت ھے،، بلکہ اندھیرے میں حشرات الارض نکل آتے ھیں سانپ بچھو اور درندے وغیرہ جو انسان کے فطری دشمن ھیں ان کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،، نیز رات کی سیاھی کو پردے کے طور پر استعمال کر کے کچھ لوگوں کی سر گوشیوں یعنی منصوبہ بندیوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،، اب گرھوں میں پھونکیں مارنی والییوں کے شر سے پناہ مانگنا ،، نہ تو کسی گرہ میں کوئی شر یا خیر ھوتی ھے اور نہ ھی کسی پھونک میں کوئی خیر اور شر ھوتی ھے،، اصل چیز جو خیر اور شر ھے وہ ان منصوبہ بندیوں اور سرگوشیوں کے مقصد میں ھے ،نبی کریم ﷺ بھی رات کی تاریکی میں ھی دارِ ارقم میں ساتھیوں کے ساتھ ملا کرتے تھے،، یہ خیر کی سرگوشیاں اور خیر کا اجتماع ھوتا تھا،،اسی طرح حسد کرنے والے کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے جب وہ حسد میٹیریلائز کرے حسد کو عمل میں لا کر کوئی وار کرے،،اس وار سے پناہ مانگی گئی ھے،،صرف حسد دل میں رکھنا کسی دوسرے کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ خود صاحبِ حسد کے لئے نقصان دہ ھے، ذرا " اذا حسد " کی اصطلاح کو غور سے پڑھیں،کیونکہ بنو امیہ میں ابوجہل اور ولید ابن مغیرہ مکمل طور پر حسد کی وجہ حضورﷺ کی رسالت کو نہیں مان رھے تھے کہ اس طرح بنو ھاشم کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی یہانتک کہ آخر کار نبی پاکﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے ،،آگے چل کے یہود مدینہ اسی بیماری کا شکار ھوئے کہ نبی کو اولاد کی طرح پہچانتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول ھیں،مگر اس حسد میں مبتلا ھوگئے کہ بنو اسماعیل کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی اور نبی ﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے مگر دونوں گروہ اللہ کے وعدے کے مطابق آپ کے بارے میں اپنے مذموم ارادوں میں ناکام ھو گئے پھر لبیداعصم کیسے کامیاب ھو گیا ؟ سورہ فلق میں تو عقد میں پھونکیں مارنی والیاں ذکر ھیں مگر لبید بن اعصم تو مرد تھا؟ کیا جادو صرف عورتوں سے ھی ھوتا ھے، یہ جادو ھے یا بچہ جو صرف دائیاں پیدا کرتی ھیں ؟ عربوں کی اصطلاحات کو قرآن حکیم نے استعمال فرمایا ھے ،مثلاً حمالۃ الحطب،، لکڑیاں اٹھائے پھرنے والی، یہ ابولہب کی بیوی کی ھجو ھے،کیونکہ یہ اصطلاح چغل خور کے لئے استعمال ھوتی تھی کہ اس کو آگ لگانے کے لئے کسی سے لکڑی مانگنے کی ضرورت نہیں ھوتی، اپنی لکڑیاں خود ساتھ اٹھائے پھرتا ھے،جہاں چاھتا ھے جب چاھتا ھے آگ لگا دیتا ھے،، تو اس کو لکڑیاں اٹھانے والی کہا گیا یعنی چغل خور، اسی طرح عقدہ میں گرہ لگانے کی اصطلاح بھی استعمال ھوتی تھی جیسے ھمارے یہاں مکار عورت کے لئے آسمان ٹاکی لگانے کی اصطلاح استعمال ھوتی ھے، گرہ یا عقدہ اورعقیدہ تو وہ ھوتا ھے کہ جو غیر متحرک ھوتا ھے،ادھر ادھر نہیں ھوتا،جس گرہ کو ڈھیلا رکھنا مقصود ھوتا تھا،عرب اس میں کوئی چیز پھنسا دیتے تھے،مثلاً کوئی چھوٹا سا ڈنڈہ ٹائپ چیز،، ان جماعتوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ڈنڈے کی جگہ اپنی پھونکیں یعنی اپنے وسوسے استعمال کرتی ھیں عقائد کو ادھر اُدھر کرنے کے لئے،اور یہ بات ھر وہ شخص جانتا ھے جس نے اسلام کے ابتدائی دور میں نبیﷺ کا عکاظ کے میلے میں جانا اور ابولہب کا حضورق کے پیچھے پیچھے رھنا جہاں آپ بات شروع کرتے ابو لہب کہتا کہ میں اس کا تایا ھوں، اس کا دماغ خراب ھو گیا ھے، اس کی بات کا برا نہ منانا اور ساتھ ھی کنکریوں کی مٹھی بھر کر اپ پر پھینکتا کہ محمد گھر چلو،اس پر نئے لوگ ٹھٹھک جاتے، تائے کا معزز حلیہ اور آپ ﷺکا خاموش ھو جانا، دیکھ کر وہ آگے چل دیتے،، اسکی پلاننگ رات کو حرم میں ھی کی جاتی تھی کہ کل میلہ ھے اور کس نے کیا کردار کیسے ادا کرنا ھے،، ابولہب کی تصدیق کے لئے کچھ لوگ بھی ساتھ ساتھ چلتے رھتے تھے موسی علیہ السلام پر جادو کا پسِ منظر اور پیش منظر ! موسی علیہ السلام نے جب 10 سال کے بعد مدین سے واپسی کا سفر شروع کیا تو طور پہاڑ کی وادی طوی میں دھند کی وجہ سے رستہ بھول گئے ، نہایت مشکل وقت تھا ،بعض روایات کے مطابق آپ کی زوجہ کو دردِ زہ شروع ھوا ،، ادھر موسی علیہ السلام رستہ بھول گئے جبکہ ان کی زوجہ کو کسی تجربے کار دائی اور نیوٹریشن کی ضرورت تھی،، موسی علیہ السلام نے طور کی جانب آگ کی لپٹ دیکھی اور سمجھا کہ کوئی بستی ھے ،گھر والی سے کہا کہ تم ٹھہرو میں آگ بھی لے آتا ھوں کہ جلا کر سردی کا علاج اور کھانے پینے کا کوئی بندوبست کیا جائے ،، نیز وھاں سے رستہ بھی پوچھ لوں گا ،،، یوں موسی آگ لینے نکلے تھے ،نبوت و رسالت لے کر پلٹے راہ پوچھنے گئے تھے ،راہ دکھانے والے بن کر پلٹے ، فرعون کے پاس جب آئے اور اس کو اپنے معجزات دکھائے تو اس نے یوں سمجھا کہ گویا وہ دس سال جنگل میں کسی جادوگر کے پاس لگا کر آئے ھیں ، اس نے کہا کہ موسی یہ بات تو مناسب نہیں ،،سیاست میں آنا ھے تو سیاسی لیڈروں کی طرح آؤ، یہ جادوگری اور سیاست کا آپس میں کیا تعلق ھے ؟ اپنی قوم کو بھی بار بار سمجھایا کہ موسی کی تحریک کے پس پشت سیاسی وجوھات ھیں وہ تمہارے باپ دادا کا مثالی نظام لپیٹ کر اپنی اجارہ داری جمانا چاھتا ھے اور یوسف کے خاندان کو دوبارہ واپس حکومت میں لانا چاھتا ھے ! اس نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ ھمیں موقع دیا جائے کہ ھم بھی تیرے معجزات کی طرح معجزات دکھانے والے بندے لے آئیں تا کہ جادوگر کا مقابلہ جادگروں سے ھو کر پیغمبری والا کانٹا ایک دفعہ نکل جائے ، پھر سیاسی طور پہ تمہارا بندوبست کرتے ھیں ،، فرعون نے جگہ اور دن موسی علیہ السلام پر چھوڑ دیا کہ تم ھمیں تاریخ دو کہ کب یہ مقابلہ ھونا چاھئے ،، موسی علیہ السلام نے عید کا دن ( یوم الزینہ ) اور چاشت کا وقت دے دیا ، فرعون نے ھرکارے بھیج کر اعلانات کروائے اور پبلک کو جمع ھونے کے لئے حکم دے دیا ، عید کے دن چاشت کے وقت اردگرد کی بستیوں سے عوام دارالخلافے میں جمع ھو گئے ، جادوگر بھی آگئے اور موسی علیہ السلام بھی آگئے ! مقابلہ شروع ھوتا ھے !! جادوگروں نے آپس میں مشورہ کیا ،، (قالوا إن ھذان لساحران یریدان أن یخرجاكم من أرضكم بسحرھما ویذھبا بطریقتكم المثلى * فأجمعوا كیدكم ثم ائتوا صفا وقد أفلح الیوم من استعلى) کہنے لگے یہ دونوں سوائے جادوگر ھونے کے اور( پیغمبر ،وغیرہ) کچھ نہیں ھیں، یہ دونوں تم لوگوں کو تمہارے وطن سے نکال باھر کرنا چاھتے ھیں، اور تمہارے باپ دادا کے مثالی سسٹم کا خاتمہ چاھتے ھیں ،، سو آج اپنی چالیں جمع کر لو( "کید " گویا جادو سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں ) اور پھر صف در صف آؤ اور آج جو غالب رھا وھی کامیاب ٹھہرے گا " ھم اپنا نظام بچانے میں یا موسی اپنا نظام لانے میں ! اس کے بعد انہوں نے موسی علیہ السلام کو پیش کش کی کہ وہ اگر چاھئیں تو پہلے اپنی چال چل لیں ،یعنی جو دکھانا ھے وہ دکھا لیں بعد میں ھم دکھا لیں گے ،مگر موسی علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ ،القوا ما انتم ملقون- ڈالو جو تم نے ڈالنا ھے (یعنی تم نے جو سپ نکالنے ھیں نکال لو ) پنجابی کا یہ جملہ اسی سے لیا گیا ھے- انہوں نے رسیاں اور ڈنڈے پھینکے اور نعرہ لگایا : بعزۃ فرعون انا لنحن الغالبون ! فرعون کی طاقت سے ھم ھی غالب رھیں گے ( بیوقوقی کی حد ھے کہ فرعون اپنی مدد کے لئے ان کو لایا ھے اور وہ اپنی مدد کے لئے جے فرعون کا نعرہ لگا رھے تھے ) ان کی آواز اور نعروں کی لے نے وہ سماں باندھا کہ مجمع ھپناٹائز ھو گیا ،، اور وہ اپنا خیال مجمعے کے دماغوں کو فارورڈ کرنے میں کامیاب ھو گئے کہ رسیاں اور ڈنڈے بھی حرکت کرنا شروع ھو گئے ھیں ! موسی علیہ السلام پر جادو ھونا ضروری تھا ! اللہ پاک نے وہ خیال جو مجمعے کے ذھنوں کی اسکرین پہ چل رھا تھا ، وہ موسی کو بھی دکھا دیا ،، اور دکھایا جانا بہت ضروری تھا ،یہ جادو کی اس جنگ میں ٹرننگ پؤائنٹ تھا ،، اگر مجمع ان رسیوں کو دورٹا ھوا دیکھ رھا ھے اور موسی ان کو ساکت دیکھ رھے ھوں تو ظاھر ھے کہ موسی کہیں گے کہ ثابت ھو گیا کہ تمہاری رسیاں نہ سانپ بن سکیں اور نہ حرکت کر سکیں ! اور وہ مجمع جس کو وہ دوڑتی نظر آ رھی تھیں وہ موسی علیہ السلام کا منہ دیکھنا شروع ھو جاتا کہ " نبی اور جھوٹ "؟؟ مجمع موسی علیہ السلام کو جھوٹا سمجھتا موسی جتنا اصرار کرتے قسمیں کھاتے کہ رسیاں اور ڈنڈے حرکت نہیں کر رھے ،، اتنے بڑے جھوٹے اور ڈھیٹ ثابت ھوتے چلے جاتے ،موسی علیہ السلام کی دعوت کا وہ آخری دن ھوتا ،، اور جدھر سے وہ گزرتے لوگ ان کا تمسخر اڑاتے پھرتے ، اس لئے موسی علیہ السلام کو یہ دکھانا بہت ضروری تھا کہ مجمع کیا دیکھ رھا ھے تا کہ وہ جلدی میں کوئی اسٹیٹمنٹ نہ دے دیں ! جب موسی علیہ السلام نے اس خیال کو اپنے دماغ کی اسکریں پہ اوپن کر کے دیکھ لیا " تو اب انہیں خوف محسوس ھوا اور وہ بھی ایک جھونکے کی طرح ، فاوجس فی نفسہ خیفۃً موسی' ! خوف یہ تھا کہ بظاھر رسیاں بھی چل رھی ھیں، ڈنڈے بھی حرکت کر رھے ھیں ،، میرا عصا بھی حرکت کرے گا ،، تو حرکت تو مماثل ھو گئ ،، اب یہ پبلک فیصلہ کیسے کرے گی کہ معجزہ کیا ھے اور جادو کیا ھے ؟؟ ان کی نظر میں ، تو میں بھی جادوگر ثابت ھو گیا ،، ؟ اللہ پاک نے فرمایا کہ تو بے خوف ھو جا ،تجھے جتانا ، پبلک پہ حق واضح کرنا ھمارے ذمے ھے ،اس میدان سے جیت کر تو ھی نکلے گا اے موسی ! اب اللہ پاک نے موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ تیرے دائیں ھاتھ میں جو ھے اسے ڈال دے ،،واضح رھے اس عصا میں اللہ کے حکم کے بعد ھی فنکشنز ایکٹیویٹ ھوتے تھے ، اور وہ (ملٹی پَل )مختلف ھوتے تھے ، بعض دفعہ خود موسی علیہ السلام کے لئے بھی سرپرائز ھوتے تھے ! ھمارے مفسرین تفسیر کیا کرتے ھیں کہ موسی علیہ السلام کا عصا وہ رسیاں اور ڈنڈے نگل گیا ۔۔ یہ تو فرعون کی تمنا تھی کہ کاش ایسا ھو جائے ، اگر موسی علیہ السلام کا عصا ان دوڑتی رسیوں اور ڈنڈوں کو نگل جاتا تو موسی علیہ السلام ان سے بڑے جادوگر تو ثابت ھو جاتے ،مگر رسول اور نبی کبھی ثابت نہ ھوتے اور نہ ھی عصا معجزہ قرار پاتا ،، اور ثبوت بھی غائب ھو جاتا ،، قرآن بار بار کہتا کہ " تلقف ما صنعوا ،، وہ عصا اس چیز کو نگل گیا جو جادوگروں نے بنائی تھی ، اور پھر وضاحت کرتا ھے کہ " انما صنعوا کید ساحر " درحقیقت انہوں نے جادو کا Trick کیا تھا ،، وہ عصا اس Trick کو کھا گیا اور وہ ڈنڈے سوٹے اور رسیاں ادھر بے حس و حرکت پڑی کی پڑی رہ گئیں ،، جن لوگوں کے سامنے سے موسی علیہ السلام کا عصا گزر رھا تھا ،ان کی آنکھوں پر سے مسمریزم کے اثرات ڈی میگناٹائز ھوتے چلے جا رھے تھے،، آخر میں وہ آنکھیں موسی کے عصا کو تو گوشت پوست کا دوڑتا ھوا سانپ دیکھ رھی تھیں جبکہ انہی آنکھوں کے سامنے وہ رسیاں بے جان پڑی تھی ! اس حقیقت کا سب سے پہلے ادراک خود جادوگروں کو ھوا جو ماھر فن تھے کہ یہ جادو نہیں بلکہ واقعتاً موسی کے عصا کی Kingdom تبدیل ھو گئ ھے وہ نباتات سے حیوانات میں تبدیل ھو گیا ھے اور یہ کام خدا کے سوا کوئی نہیں کر سکتا ،، سب سے پہلے وھی ربِ موسی اور ھارون کے سامنے گویا کہ بےساختہ اس طرح گرے جیسے کوئی کسی کو دھکا دے کر گراتا ھے ، اس کے بعد فرعون سے مکالموں میں وہ مسلسل اللہ کی ھی عظمت بیان کرتے جا رھے ھیں، موسی اور ھارون علیہما السلام کو تو وہ بھول ھی گئے ھیں اللہ کے ھی ترانے پڑھ رھے ھیں ،، اب بتایئے کہ موسی علیہ السلام اور اللہ کے رسول محمد مصطفی ﷺ پر جادو میں کیا مماثلت ھے ؟ وھاں تو مقابلہ ھو رھا تھا جادوگروں سے اور اللہ کا نبی جادوگروں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا تھا ، پوری قوم کھڑی تھی ، رب کائنات قدم قدم اور لمحہ بلمحہ ھدایات دے رھا ھے ! جبکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے کیس میں جو گزر رھا ھے وہ سب اکیلی جان پہ گزر رھا ھے ،، بیوی گلہ کرتی ھے تشریف نہیں لائے ،،فرماتے ھیں ھو کر گیا ھوں ،، کمرے مین چکر پر چکر لگاتے ھیں،" کان یدور و یدور ولا یدری ما بہ ،، چکر پہ چکر لگاتے مگر سمجھ نہ لگتی کیا ھے ،، مسکرانا بھول گئے اور گھلتے چلے گئے ، ایک دن کی بات نہیں ایک سال ،، نبوت کا ایک سال ،، اس میں آنے والی وحی ،، نمازوں میں بھولنا ،، یہی وہ دور ھے جس میں آپ مسلسل نمازوں میں بھول رھے ھیں جو آپ بیس سال سے پڑھتے چلے آرھے تھے ،، تین پڑھ کر اٹھ کر حجرے میں چلے جاتے اور یاد کروانے پہ غصہ فرماتے کہ میں بھولا نہین ھوں ،پھر ابوبکرؓ و عمرؓ کی تصدیق کے بعد مزید ایک رکعت پڑھائی ، کبھی پانچویں کے لئے کھڑے ھو جاتے ،، جادو کی کہانی اور انہی راویوں کے ذریعے پھر نبی ﷺ کی زندگی کے یہ واقعات ؟ یہاں تو چار درھم کے بدلے کیا گیا جادو پوری نبوت پر غالب نظر آرھا ھے ،،موسی علیہ السلام کے واقعے اور اس میں مماثلت کیا ھے؟؟
  5. http://www.dailymotion.com/video/x36vkn8_allama-iqbal-aur-nazariya-imam-mehdi-a-s-part-1_school https://www.facebook.com/PakistanRadio.Net/videos/1102643976431818/
  6. http://www.awaztoday.tv/News-Talk-Shows/94024/Almas-Bobby-Mufti-Abdul-Qavi-Flirting-Very-Funny-Video.aspx کیا اسلام میں اس طرح کا مذاق جائز ہے ،کیا دیوبندیوں کی مت ماری گئی ہے یا ان میں شرم وحیا کچھ باقی نہیں رہا
  7. مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک اس فتوے کے خلاف صاحب شان کی طرف سے کوئی تردید نہیں آئی ،ہونا تو یہ چاہیے تھا کے جن صاحب سے یہ فتوی منسوب ہے اور سوشل میڈیا پر کافی دنوں سے گشت کر رہا ہے انکی طرف سے فوری تردید ہوجانی چاہیے تھی یا جامعہ بنوریہ اسکی تردید کردے لیکن ابھی تک ہماری علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی ہے پہر آشرف تھانوی کا فتوی بھی سب کے سامنے ہے جس میں کم وبیش اسی طرح کی بات نظر آتی ہے ،اس لیے دیوبندی حضرات اس کی وضاحت کرے دوم؛آپ لوگوں یاد ہوں گو کہ مناظرے اہل سنت مفتی حنیف قریشی نے ،ت 2007 میں طالب رحمن کے ساتھ مناظرے میں اسکا ایک فتوی دیکھایا تھا جس میں انکی طرف سے بھن اور بھائی کا نکاح جائز قرار دیا تھا تبلیغی جماعت کے انوکھے طرز تبلیغ سے کچھ بعید نہیں
  8. گزارش ہے کہ یہ فتوی آصلی ہے کہ نہیں یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن وہابیوں کا فتوی جھاد نکاح آج کل کافی مشھور ہے جس پر داعش تنظیم بڑی سرعت کے ساتھ عمل پیرا ہے اور جامعہ بنوریہ کراچی سے بھی بچیوں کو اس سلسل میں ترغیب دیگئی ہے بلکہ بچھلے دنوں شام میں ایسی لڑکیاں برآمد ہوئی ہیں جنکا تعلق پاکستان سے تھا اور جنکو جہاد نکاح کے لئے لایا گیا تھا تو جانب یہ وہابی دیوبندیوں سے ہر چیز کی توقع رکھے
  9. السلام علیکم گزارش ہے کہ بهشتی زیور میں آشرف علی تهانوی حکیم دیوبند سے ایک سؤال پوچها گیا جس کا جواب دیوبند کے حکیم نے جو جواب دیا سو دیا لیکن کیا کوئی عقل سلیم اس جواب کو قبول کرسکتا ہے مجهے صرف یہ کوئی بتائے شکریہ
  10. ..................................... دیوبندی جمشید کی گستاخی کا دفاع کرنے کهل کر سامنے آگئے ہیں لینک کلیک کریں اور انکو جواب دیں
  11. میراثی جنید جمشید کہ واقعے سے ایک بات کهل کر سامنے آگئی کہ وہابی کسی بهی روپ میں ہو وہ انتهائی خطرناک ہوتا ہے ،جسے آپنی آخرت پیاری ہے وہ ان سے دوری اختیاری کرے آحقر جب صغیر سن تها تو آپنے مامو کہ ساته ایک درس میں ہمیشہ جایا کرتا چونک مامو مولانا مودودی کہ خیالات کو پسند کرتے تهے اور انکی کتبات ہمیشہ آپکے پاس ہوتی آپ وہابیت کہ قریب تهے آحقر صغیر سن ہونے وجوہ سے ان باتوں سے واقف نہیں تها ،ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کے دوران درس جو صاحب درس فرما رہے تهے انهوں کها نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے دیکهنا چاہیے کہ جیسے ایک ڈاکیا آپ کہ پاس آکر ڈاک دیکر چالا گیا ،یہ ہے وہابیت اب عوام ناس کیا سمجهے وہ تو مولانا کی داڑہی اور قرآن پڑهناوپڑهانا دیکه کر متاثر ہوجاتے ہیں اور ان جیسوں کے ہاتوں آپنی آخرت خراب کردیتے ہیں ،اللہ ہمیں آپنی پناہ میں رکهے آمین.
  12. یہ دیوبندی فیض ہے جس میں اس طرح لعنتی میراثی نکلتے کوئی ان کے مولوی طارق جمیل پوچهے یا یہ وہ تبلیغ جس کلیے تم لوگوں کا اجتماع کرتے اور سہ روزہ چالیس روزہ لگاتے ہو
  13. Raza11

    مقدمہ بهالپور

    گزارش ہے مجهے ایک کتاب کی تلاش ہے جو مقدمہ بهالپور پر لیکهی گئی ہے جس میں قادیان حضرات سے یی مقدمہ لڑا گیا مصنف کا نام ہے غلام محمد گهوٹوی جس کسی بهائی کہ پاس کوئی لینک ہے اس کتاب کہ متعلقیہاں پر شئیر کرے جزاکم اللہ.
  14. جزاک اللہ مغل بهائی ،مزید لینک دیان جن میں قوی دلائل ہو ،تاکےان دیوبندیوں ناطقہ بند ہوجائے ،مسلک پاکستان صریح دشمن ہے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کستاخ تو تها ہی اسکی امت کا بهی چهپاہوا دشمن ہے .
  15. السلام علیکم مجهے حوالہ چاہیے اس بات کا کہ شاہ اسماعیل دہلوی نے انگریز سرکار کہ خلاف جهاد سے انکار کیا تها اور شاہ اسماعیل دہلوی کا دیوبندیوں سے کیا تعلق بنتا ہے ،برہکرام اس بات پر تهوڑی ڈالیں، دوم اس بات کا بهی حوالہ دیں کہ دار العلوم دیوبند آپنے ابتداء سے ہی انگریز سرکار کی معاون مدد گار رہی تهی ،یہ تمام حوالہ جات ان شاء اللہ ہم دیوبندیوں کی مٹی پلیت کرنے استعمال کریں گئے جو آج کل سید زید حامد باخوبی کر رہیں ہے.
  16. بد مذہبوں کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب پر یہ چند نئے اعتراضات اٹهائے گئے ہیں گزارش ہے ان اعتراضات کا جواب شافی و علمی دیا جائے
  17. Raza11

    پیر نصیر دین شاہ

    السلام علیکم مجهے پیر نصیر دین شاه صاحب کے بارے جانا ہے کہ کیا آپ اہل سنت والجماعت مسلک بریلوی سے تعلق رکهتے تهےاور کیا آپ اسی مسلک پر آخری دم تک رہے کچه انکے آپ لوگ روشنی ڈالیں جزاک اللہ.
  18. جناب کس طرح آپ نے اس تصویر کو رد کر دیا مجهے یہ تصویر ایک سنی ویپ سائٹ سے ملی ہے .
×
×
  • Create New...