Jump to content

Raza11

اراکین
  • کل پوسٹس

    422
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    12

سب کچھ Raza11 نے پوسٹ کیا

  1. Raza11

    Qadianiat Ka Be Rahem Chande Ka Nizam

    تیرہ مارچ کو جرمنی کے شہر ڈارم شاڈ کے قریب فونک شاڈ میں جرمنی کی وفاقی پولیس نے جماعت احمدیہ کے چار گھروں پر چھپا مار کر جماعت احمدیہ کے صدر ثنا اللہ سمت چار لوگوں کو گرفتار کر لیا جس میں اظہر جوئیا ، عمر جوئیا اور ناصر جوئیا شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ جماعت احمدیہ کے کارکنوں کی ایک لمبے عرصے سے سیاسی پناہ میں غیر قانونی مدد کرنے والا جرمن وکیل بوش برگ اور اس کی ایک احمدی سیکرٹری روبینا کے گھروں پر بھی چھپے مارے گئے اور تمام لوگوں کے گھروں کی مکمل تلاشی لی گئی ۔ تمام مواد اور دستاویزات پولیس نے اپنے قبضے میں لے لیا ۔ ان کے تمام فون اور کئی ٹیلی فون سمیں اور کمپوٹروں کی ھارڈ ڈسکوں کی کاپیاں بھی کر لی گئیں ۔ ان پر وفاقی جرمن پولیس نے پاکستان سے غیر قانونی لوگوں کی سمگلنگ اور انکی سیاسی پناہ میں غیر قانونی مددکا الزم لگایا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ جماعت احمدیہ کے رہمناوں کا ایک گروپ لمبے عرصے سے لوگوں کو اسمگل کر رہا تھا ۔ یہ جرمنی کی تاریخ میں ایک بڑی پولیس کی کاروائی تھی جس میں ایک بھاری پولیس نفری استعمال کی گئی۔ جس میں ایک سو چالیس سے زائد وفاقی پولیس فورس کے کمانڈوز اور اسی سے زائد پولیس گاڑیاں ایک دن میں استعمال ہوئیں۔ یہ خبر جرمنی کے بہت سے اخبارات اور ریڈیوز میں آچکی ہے ۔ یہ پولیس کمانڈرز چھاپے ابھی تک مسلسل دوسرے شہروں میں احمدیوں کے گھروں میں مار جا رہے ہیں اور تلاشی کے دوران تمام دستاویزات کو قبضے میں کر لیا جاتا ہے ۔ سیاسی اور سماجی حوالے سے جماعت ا حمدیہ میں عام کارکنوں کو نہایت بے رحمی اور غیر انسانی طریقوں سے استعمال اور بلیک میل کئےجانےکی اطلاعات پہلے بھی آتی رہی ہیں ۔ جماعت احمدیہ کی مرکزی قیادت کی یہ ہدایات ہیں کہ زیادہ سے زیادہ احمدی افراد کو جو پاکستان میں رہائش پذیر ہیں ان کو پاکستان سے لا کر تمام یورپ اور خاص طور پر جرمنی میں تمام قانونی اور غیر طریقوں سے آباد کیا جائے اور پھر ان سے زیادہ سے زیادہ مالی مفادات حاصل کیے جائیں جو چندہ کی شکل میں ہیں۔ اس سے جماعت کی اعلی کونسل کو نہ صرف قائم رکھا جائے بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی کیا جائے ۔ احمدیوں کو یورپ میں آباد کرنا احمدیوں کی سنٹرل لیڈرشپ کی پالیسی ہے کیونکہ اس کا تمام تر معاشی فائد ہ کسی عام احمدی کو نہیں بلکہ مرکزی قیادت کو ہوتا ہے۔ جبکہ اس ایجنٹی کے کام کے لیے مدد کے نام پر عام غریب احمدیوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ فونک شتاڈ میں بھی ایسا ہی ہوا ہو ۔ احمدیہ جماعت کا ہر ممبر اپنی بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کی کل آمدن میں سے تقریبا تیس فیصد مرکزی قیادت اور اسکے خاندان کو مختلف چندوں کی شکل میں ادا کرتا ہے ۔ صرف جرمنی میں سے سالانہ چودہ ملین یورو کا چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ اس میں سے بیس فیصد جرمنی میں اپنے نظام کو مضبوط اور مزید وسیع کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے اور بقیہ اسی فیصد مرکزی قیادت کو لندن بھج دیا جاتا ہے ۔ اور یہی طریقہ تمام دنیا میں استعمال جاتا ہے جس سے جماعت احمدیہ کی مرکزی قیادت یا میاں(مزرا)خاندان دنیا کے امیر خاندانوں میں شمار ہوتا ہے ۔ جماعت احمدیہ کا ہر ممبر اپنی تمام آمدن میں سے لازمی چندہ جو ، چندہ عام کہلاتا ہے ادا کرتا ہے ۔ جو کسی سرکاری ٹیکس کی طرح جماعتی عہدار نہایت جبرانہ طریقے وصول کرتے ہیں ۔ بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ چند ے بھی لازمی ہیں اس کے علاوہ اور بہت سے بے شمار چندے ہیں جن میں سو مساجد کا چندہ ، تحریک جدید کا چندہ ، وقفے جدید ، چندہ سالانہ جلسہ ، چندہ سالانہ اجتماع ، چندہ مجلس ، چندہ اشاعت ، نصرت جہاں آگے بڑھو چندہ، بلال فنڈ، طاہر فنڈ وغیر وغیرہ ۔ پھر وصعت پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ بھی زیادہ سے زیادہ کی جائے اور اس کا چندہ ادا کیا جائے ۔ چندہ وصعت کم ازکم دس فیصد ہے جو زندگی بھر ادا کیا جاتا ہے اور مرنے کے بعد بھی لازمی دینا ہوتا ہے ۔ جو اس وجہ سے لیا جاتا ہے کہ اس شخص کو مرنے کے بعد بہشتی مقبرے میں دفن کیا جائے اس چندے کی وجہ سے بے شمار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ مرنے والا صرف ایک مکان یا کچھ تھوڑی سی جائیداد چھوڑا گیا اس کے اہل خانہ نے یہ مکان یا قلیل سے جائیداد فروخت کر کے خود کرایہ کے مکان یا خستہ حالی میں صرف اس لیے جابسے کہ دس فیصد ادا کرکے مرنے والے کو بہشی مقبرے میں دفن کیا جاسکے ۔ مرنے والے کو جنت ملی یا ملی یہ تو ایک بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن ان زندہ ورثہ کو زندگی میں ہی دوزخ ضرور مل جاتی ہے جو حقیقت ہے ۔ یہاں ان گنت اقسام کے مختلف چندے ہیں جن کو مرکزی قیادت نے خود شعوری طور بہت پیچیدہ بنا یا ہوا ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو اس فنانس سسٹم کے زریعے عام احمدیوں سے بے دریغ پیسہ لوٹا جاتا ہے اور دوسری طرف اس فنانس ہرا پھیری کو کوئی عام احمدیہ سمجھ نہیں سکتا۔ جس کا اندازہ اس سے با آسانی ہو سکتا ہے کہ صرف جرمنی سے جو سالانہ چودہ ملین یورو کا چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے یہ ایک بہت بڑی رقم ہے ۔ جو عام احمدی کارکن اپنی دن رات کام کرکے خون پسنے کی کمائی جماعت احمدیہ کی اشرفیہ کو اخراجات کے لئے دیتا ہے اس کے علاوہ ہر احمدی یہ تمام چندے لازمی ادا کرتا ہے وہ چاہے بے روز گار ہو یا سوشل ہلپ پر زندہ ہو عورت یا مرد ہو یا پھر چاہیے بچہ ہی کیوں نا ہو وہ اپنی ہر سانس پر چندہ دیتا ہے۔ اب تو حاملہ عورت کو بھی آنے والے بچے کا لازمی چندہ دینا پڑتا ہے ۔ جماعت میں کسی ایک کو بھی اپنے چندے کے متعلق پوچھنے اور خلفے پر کسی ایک سوال کی بھی اجازت نہیں ہے حالانکہ اسلام میں ہر سوال کی اجازت ہے ا ور کہا گیا کہ اگر علم حاصل کرنا ہو تو سوال کرو۔ لیکن جماعت احمدیہ میں سوال کی کوئی گنجا ئش موجود نہیں ہے ماسوائے اندھی تقلید کے ۔ یہ شاید اس لیے بھی کہ جماعت کی قیادت برطانیہ کے شاہی خاندان سے کسی قدر بھی کم معیار پر زندہ نہیں ہے۔ برطانیہ کا شاہی خاندان بھی عام شہریوں کے ٹیکس پر عیاشیاں کر تا ہے اور جماعت احمدیہ کی مرکزی قیادت بھی ایسا ہی کرتی ہے کیونکہ ان کا سنٹر بھی وہیں ہے اور یہ برٹش شاہی خاندان سے کافی متاثر ہیں ۔ اس جماعت کی مرکزی قیادت جیگواہ اور مرسڈیز سے کم کار استعمال نہیں کرتے ٹرینوں اور ہوائی جہازوں میں بزنس کلاس میں اپنے تمام عملے سمیت عام غریب احمدی کے چندے پر سفر کرتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ ان کا تمام خاندان اور اہل عیال بھی تمام زندگی بھر عام احمدی ممبران کے چندے پر ہی پلتے ہیں ۔ جماعت احمدیہ میں چوری اوپر سے سینہ زور کا قانون بھی خوب چلتا ہے ۔ کیونکہ اگر کوئی بھی عام ممبر عہدار کا حکم نہیں مانتا یا چندے میں کوہتاہی کرتا ہے تو سخت ترین سزا کا مستحق ہو تا ہے۔ اس کو ہرجگہ ذلیل وسوا کیا جاتا ہے اسے اچھوتوں کی طرح الگ تھلگ بیٹھایا جاتا ہے شادی بیاہ اور کسی بھی تقریب میں اس کو بلایا نہیں جاتا اس کا سوشل بائی کاٹ کیا جاتا ہے اس کے تمام اہل خانہ جس میں میاں کو اپنی بیوی سے اور بچوں تک سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا چلوں ہمبرگ میں ایک جنازہ جماعت احمدیہ نے اس لیے نہیں پڑھا اور مرگ پر آئے تمام افراد گھروں کو کھسکنا شروع ہوگے کیونکہ مرنے والے شخص کا سگا بھائی یہاں آگیا تھا جو احمدیہ جماعت کو چھوڑ چکا تھا ۔ پھر بھائی کی بیوی نے منت سماجت کرکے بھائی کی میت پر افسوس کرنے والے بھائی کو جانے کے لیے کہا اور اس کے جانے کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ یہ صرف ایک مثال تھی ایسی بے شما ر بلکہ اس سے بھی زیادہ مثالیں جماعت احمدیہ کی تاریخ کا حصہ ہیں جنکو یہاں بیان کرنے کی جگہ نہیں ہے ۔ یہ احمدیہ جماعت کم اور چندہ جماعت زیادہ ہے ۔ کیونکہ اس میں سب سے زیادہ چندے پر زور دیا جاتا بلکہ حقیقت میں صرف چندے پر ہی زور دیا جاتا ہے اور اس جماعت کے حکمران اس عام اور غریب احمدیوں سے اکٹھے کیے گئے چندے سے نہ صرف عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں بلکہ اس پیسے سے سر مایہ کاری کرکے مزید سرمایہ یا دولت سود کی شکل میں اکٹھا کرتے ہیں کیونکہ سود صرف غریب مسلمان عوام کے لیے ممنوع ہے اسلام کے ٹھکیداروں کے لیے نہیں وہ کسی بھی فرقے سے ہوں ۔ جماعت احمدیہ کی زیادہ سرمایہ کاری انڈیا اور افریقہ میں ہے اور پاکستان میں قومی بچت بھی انہیں اللہ لوگوں کے زیر سایہ سود کا خوب کاروبار کرتا ہے ۔ جب پاک وہند الگ ہوئے تھے تو لوگوں کو انڈیا میں زمین کے بدلے یہاں پاکستان میں زمین ملیں تھیں لیکن جماعت احمدیہ کے سربراہ اعلی نے فرمان جاری کیا کہ کوئی احمدی زمینوں کے لیے درخواست نہیں دے گا کیونکہ حضور نے خود سب کی درخواستیں جمع کرا کے تمام عام غریب احمدیوں کی تمام زمینیں اپنے نام کر کر لیں اور آج انکی پنجاب اور سندھ میں زمینیں نہیں بلکہ ریاستیں ہیں ۔چناب نگر بھی میاں یا مرزا خاندان کی ملکیت ہے جہاں پر زمیں عام لوگوں کو لیز پر دی گی ہے ۔ جماعت احمدیہ کی قیادت کا یہی بڑھتا معاشی دباو اور زہنی تشدد اب آہستہ آہستہ جماعت احمدیہ میں ٹوٹ پھوٹ کا باعث بن رہا ہے اور اس میں سے مختلف لو گ گرپوں کی شکل میں نکل رہے ہیں جو اس میں موجود ہیں وہ بھی نہایت غیر مطمین اور اذیت میں ہیں(اس پر پھر کھبی بات کریں گئے کہ اذیت کے باوجود یہ عام احمدی اس جماعت میں کیوں ہیں اور اس کو چھوڑتے کیوں نہیں دیتے)ان بہت سے عام احمدیوں کے بڑھتے استعفوں کو روکنے کے لیے جماعت اپنا دور وحشت کا آمرانہ نظام سخت سے سخت تر اور پیچیدہ کرتی جارہی ہے ۔ جماعت احمدیہ میں یہی بھیانک آمریت اس میں شدید انتشار کا باعث ہے جو آنے والے وقتوں میں پھٹے گا ۔ جماعت احمدیہ کی طرح دوسری اقلیتوں کا بھی اسی قسم کا المیہ ہے ۔جماعت احمدیہ کے عام کارکنوں جن کی حالات زندگی یورپ میں رہتے ہوئے بھی عام افراد کی نسبتا زیادہ مالی مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہے ۔ جبکہ انکی مرکزی قیادت کسی شاہی خاندان کی طرح پر تعیش زندگی گزار رہی ہے ۔ صرف جماعت احمدیہ ہی نہیں بلکہ تمام مذہبی جماعتیں عام لوگوں کی لاعلمی یا موت کے خوف کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور عام لوگوں کو جنت کے خواب دیکھا کر انکی آج کی زندگی کو دوزخ سے بھی بدتر بنا دیتی ہیں جبکہ ان جماعتوں کی قیادتیں دنیا میں ہی جنت سے زیادہ اچھی زندگی گزاتے ہیں ۔ یہ کھلی اور صاف دھوکہ دہی ، تضاد اور طبقاتی فرق ہے جس کو سمجھنا ہی ہمارا اول مقصد ہے ۔ہمیں ہر استحصال کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے وہ اقلیتی ،مذہبی ، قومی ، علاقائی، نسلی، معاشی، جنسی یا پھر سماجی بنیادوں پرکوئی ایک بھی استحصال ہو ہمیں مل کر ا سکے خلاف ناقابل مصالحت جنگ کرنی ہے ۔ نوٹ: میں ان تمام اپنے احمدی دوستوں ،ساتھیوں اور ہمدروں کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے جماعت احمدیہ کے ہولناک اقسام چندہ اور بھیانک نظام جماعت کے بارے معلومات فراہم کیں اور میں یہ آرٹیکل لکھ سکا۔ جنہوں نے تاکید کی ہے کہ میں ان کے نام شائع نہ کروں ۔ کیونکہ یہ اگلی بار خود اپنے ناموں سے مضامیں کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں اپنے تمام کوائف کے ساتھ۔ہم کسی کے عقدے کے خلاف نہیں ہیں وہ ہر شخص کا حق ہے اور اس کا ذاتی مسلہ ہے لیکن عقدے کی بنیاد پر دوکانداری اور جو عام غریب عوام پر ظلم و استحصال کیا جاتا ہے ہم اس کے خلاف ناقابل مصالحت طبقاتی جنگ کی حمایت میں ہیں۔
  2. میں پیدائشی قادیانی تھا۔جس کا مجھے دکھ ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے ۵۵سال قادیانی ماحول میں گزارے جس کا مجھے پچھتاوا ہے، پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی گزری ہوئی زندگی ایک خوفناک اژدھے کی مانند دکھائی دیتی ہے جس نے زندگی کی تمام خوصورتیوں کو نگل لیا ہو۔ مجھے بچپن سے ہی جھوٹ سے شدید نفرت ہے اور قادیانیت کی چونکہ بنیاد ہی جھوٹ پر ہے اس لیے مجھے قدرتی طور پر قادیانیت سے نفرت تھی۔ میں نے کبھی بھی قادیانیت کی تبلیغ نہیں کی۔ نہ ہی کسی الزام لگنے پر قادیانیت کا دفاع کیا۔ کیونکہ بطور قادیانی جتنا اندر سے قادیانیت کو میں جانتا تھا کوئی مسلمان تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں جانتا۔ پھر بھی میں ’’روایتی قادیانی‘‘ کی سی زندگی گزار رہا تھا۔ یہ ’’روایتی قادیانی‘‘ کون ہیں؟ یہ دراصل عام قادیانی میں جو مرزا صاحب اور ان کے جانشینوں کی جعلی نبوتوں خلافتوں اور حماقتوں کو اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ خاموشی سے زندگی گزارے چلے جاتے ہیں۔ جماعت احمدیہ میں ایسے مرزائیوں کی کثرت ہے۔ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی ان کے نام نہاد خلفاء اور قادیانیوں کی ام المؤمنین(معاذ اللہ) اور چھوٹی آپا اور بڑی آپا کو اپنی نجی محفلوں میں ننگی گالیاں دیتے ہیں لیکن جماعت کے عہدیداروں کے سامنے ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس طرح یہ ایک دوہری زندگی گزار رہے ہیں جو کہ بجا طور پر منافقت کی زندگی ہے۔ ان کے اعصاب اس دوہری اداکاری سے ٹوٹ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب خاتم الانبیاء محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے مجھے قادیانی زندگی کے عذاب سے نکالاجس کے لیے میں اللہ عزو جل کا بے شمار شکر ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ باقی قادیانیوں کو بھی اس مصیبت سے نکالے۔ آمین یہ قادیانی بے چارے بے حد مجبور ہیں۔ ان کے آپس میں رشتے ہیں جنھوں نے انھیں مجبور کر رکھا ہے کہ خاموشی سے جماعت احمدیہ کے اندر ہی زندگی گزاریں۔ بعض نے تو مجبوری کی بنا پر جماعت احمدیہ کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ مثلاً میں نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار قادیانی کو ڈنمارک کے محمد اسلم علی پوری صاحب کا مضمون پڑھنے کے لییدیا تو اس نے کہاہم نے جماعت نہ چھوڑنے کا اور جماعت کے خلاف مضامین نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ سچ کا تو سامنا کرو۔ کہنے لگا کہ ہم سچے ہیں یا جھوٹے ہم بہرحال یہ جماعت نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا جینا مرنا رشتہ داری سب کچھ جماعت کے اندر ہی ہے ہم کہاں جائیں؟ میں نے کہا کہ تمہیں خوف ہے کہ سچ پڑھ لو گے تو جھوٹ بھاگ جائے گا ضمیر ملامت کرتا رہے گا۔ میں یہ منافقانہ زندگی گزارتے تنگ آچکا تھا۔ آخر خدا تعالیٰ کو مجھ پر ترس آگیا اور اس نے مجھے جماعت احمدیہ سے نکلنے کا راستہ دکھایا۔ جب میں نے جماعت احمدیہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اپنے قادیانی دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنے اس فیصلہ سے آگاہ کیا تو انھیں بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی قادیانیت چھوڑ کر اسلام کے دامن میں پناہ لے لیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بڑی جرات کا کام ہے ہمارے ماں باپ بہن بھائی بیویاں بیٹیاں داماد اور سب رشتہ دار دوست احمدی ہیں ہم ان سب کو چھوڑ کر احمدیت سے نکلنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا کہ تم منافقت کی زندگی گزار رہے ہو اسی سے تو یہ زیادہ آسان ہے کہ ایک دفعہ ہمت کر کے جماعت احمدیہ کو خیر باد کہہ دو اور حقیقی زندگی گزارنا شروع کر دو ۔ لیکن وہ یہ جرأت نہ کر سکے اور جب میں نے احمدیت یعنی قادیانیت چھوڑی تو وہ مجھ پر رشک کرتے تھے۔ کیونکہ وہ قادیانیت کے چنگل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں وہ جھوٹ کو سچ کہنے پر مجبور ہیں۔ وہ جماعت کو چندے ادا کرنے سے تنگ ہیں اس مہنگائی کے دور میں غریبوں سے زبردستی چندہ لینا کہاں کی شرافت ہے؟ شرافت کی جبیں پر ہے پسینہ ! میں نے اپنے قادیانی دوستوں کو جب مرزا غلام احمد قادیانی کی جعلی اور جھوٹی نبوت کے بارے میں لٹریچر بھیجا تو انھوں نے مجھے کہا ہمیں لٹریچر دے کر کیا آپ نے ہمارے وارنٹ نکلوانے ہیں؟ میں نے انھیں کہا کہ کیا تم مرزا غلام احمد قادیانی کو سچا سمجھتے ہو؟ تو وہ مرزا صاحب اور ان کے متعلقین کو ننگی گالیاں دینے لگے۔ میں ان لوگوں کا نام نہیں لینا چاہتا وگرنہ ان کے لیے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی ان کا ناطقہ بند کر دیں گے مجھے ان پر ترس آتا ہے وہ میری تحریریں پڑھ کر مسکراتے ہیں۔ الفاظ کے پردے میں ہم جن سے مخاطب ہیں وہ جان گئے ہوں گے کیوں نام لیا جائے۔جماعت احمدیہ کے بعض سادہ دل لوگ بڑوں کی بددعا اور لعنتوں سے بھی ڈرتے ہیں کیونکہ جماعت احمدیہ کے راہنماؤں کا وطیرہ ہے کہ وہ شروع سے ہی اپنے مخالفوں کو موت سے ڈراتے ہیں۔ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے زندہ رکھے جسے چاہے اپنے ہاں بلا لے۔ اس لیے وہ کسی ایسی موت کی دھمکی سے نہیں ڈرتے اور اسے ان کی دماغی بیماری سے تعبیر کرتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے بڑے جماعت چھوڑ کر چلے جانے والوں اور جماعت کے اندر رہ کر ان کی مخالفت کرنے والوں کے لیے بددعائیں کرتے ہیں لعنتیں بھیجتے ہیں اور دنیا میں ان کے ذلیل و خوار ہونے کی پیشگوئیاں کرتے رہتے ہیں اور کرتے چلے آئے ہیں۔ جب کہ ختم نبوت کی حفاظت کرنے والے ہمیشہ سرخرو ہوتے ہیں اور یہ ذلیل و خوار! مرزا غلام احمد قادیانی نے امام مہدی ، مسیح موعود نبی رسول کرشن ہونے اور اس طرح دوسرے مختلفدعوے کیے۔ یہ بیمار ذہنیت کا آدمی تھا جو خود کو حاملہ ہو جانے اور حضرت عیسیٰ کی روح اپنے اندر نفخ ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔(کشتی نوح مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۹،صفحہ ۵۰از مرزا غلام احمد قادیانی) مرزا قادیانی کا ایک صحبت یافتہ قاضی یار محمد لکھتا ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی (مردانہ) طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔ سمجھنے کے لیے اشارہ کافی ہے۔‘‘ (اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر۱۳۴،ازقاضی یار محمد) جب سے یہ کائنات تخلیق ہوئی ہے۔ گھٹیا سے گھٹیا ذہنیت کے کسی شخص نے بھی خالق کائنات اللہ وحدہ لا شریک کی پاک ہستی پر ایسا گندا ،گھناؤنا، کفریہ اور شرمناک الزام نہیں لگایا۔ ہو سکتا ہے یہ شیطان ہو جس نے مرزا صاحب کے ساتھ یہ جنسی ڈرامہ کھیلا ہو ۔ مرزا صاحب کے گندے خیالوں اور گندی حرکتوں کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے خوفناک عذاب سے دیا اور دنیا ہی میں اپنی نجاست کے ڈھیر پر اس نے آخری سانس لیا۔ (سیرۃ المہدی،جلد۱صفحہ ۱۱،ازمرزا بشیر احمد ولد مرزا غلام احمد ،روایت نمبر۱۲) کاش مرزائی مرزا صاحب کے خاتمہ کے حالات پڑھ کر ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیں اور قادیانیت کو خیر باد کہہ دیں! مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی ہونے کے بعد ان کے پہلے گدی نشین حکیم نور الدین تھے جن کو قادیانی جماعت’’خلیفہ اول‘‘ کے نام سے پکارتی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے بیٹے کی روایت کے مطابق حکیم نور الدین انتہائی گندے شخص تھے جو مدتوں نہیں نہاتے تھے۔ یہ ’’بدبودار قادیانی خلیفہ گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں جا رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے گھوڑے کو حکم دیا کہ خلیفہ اوّل کا خاتمہ کر دو۔ وہ خلیفہ بحکم الٰہی اس گھوڑے کے بدکنے سے اس نیچے گرنے لگا تو اس کا پاؤں رکاب میں پھنس گیا گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہا اور نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والی جماعت کے خلیفہ کی ہڈیاں چٹخاتا رہا۔ جب گھوڑا رکا تو قدرت اپنا حساب پورا کر چکی تھی زخموں نے گنگرین(ناسور) کی صورت اختیار کر لی اور خلیفہ اوّل نور الدین بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے عذابِ الٰہی دنیا میں جھیلتے ہوئے ملک عدم کو سدھار گئے۔ بعد میں خاندان پر بھی مصائب کا پہاڑ ٹوٹا۔ حکیم نور الدین کے درد ناک انجام کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر الدین محمود جسے قادیانی جماعت’’خلیفہ ثانی‘‘ کے نام سے جانتی ہے جانشین ہوا خلافت پر جھگڑا ہوا مولوی محمد علی لاہوری کو خلافت نہ ملی مرزا قادیانی کی بیوی نے ریشہ دوانیوں سے اپنے نوجوان بیٹے کو زبردستی خلیفہ بنوا دیا۔ یہ عیاش اور لااُبالی جوان تھا جسے خلافت ملنے پر مرزا قادیانی کے وفادار ساتھی مولوی محمد علی لاہوری احتجاجاً اس جماعت سے نکل گئے۔ اور اپنا لاہور ی مرزائیوں کا گروپ تشکیل دے دیا۔ بشیر الدین محمود نے خلیفہ بنتے ہی ایسی گھناؤنی حرکتیں کیں کہ خود شرم بھی شرما گئی۔ ان کی قصرِ خلافت نامی رہائشگاہ دراصل ’’قصرِخباثت‘‘ تھی جہاں عینی شاہدین کے مطابق صرف عقیدتوں کا خراج ہی بھینٹ نہیں چڑھا بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے یہاں عصمتیں بھی لٹتی رہیں اس مقدس عیاش نے اپنے شکار گرفت میں لانے کے لیے نہایت دلکش پھندے لگا رکھے تھے اسے معصوم لڑکیوں کو رام کرنے کا ایسا سلیقہ آتا تھا کہ قصرِ خلافت کے عشرت کدے میں جانے والی بہت سی عورتیں اپنی عزت لٹا کر واپس آئیں۔ خلیفہ ثانی مذہب کی آڑ میں عصمتوں پر ڈاکے ڈالتا رہا۔ چناب نگر(سابقہ ربوہ) میں مختلف حیلوں بہانوں سے اس عیاش خلیفہ نے عصمتیں لوٹیں اور ظلم پہ ظلم کرتا رہا۔ اس خلیفہ کی رنگین داستانوں کے قادیانی جماعت کے اپنے ہی لوگوں کے تبصرے حلفی بیانات مباہلے اور قسمیں موجود ہیں۔ خدائے برتر ایسے ظالم انسان کو کبھی معاف نہیں کرتے چنانچہ احمدی جماعت کے اس خلیفہ’’ثانی‘‘ جسے قادیانی ’’فضل عمر‘‘ بھی کہتے ہیں کی زندگی کا خاتمہ بھی انتہائی دردناک حالات میں ہوا۔ اسے زندگی کے آخری بارہ سال میں بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتے مرتے دیکھ کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ اس کو فالج ہو گیا تھا اس کی شکل و صورت جنونی پاگلوں کی سی بن گئی تھی۔ وہ سر ہلاتا رہتا منہ میں کچھ ممیاتا رہتا اس کے سرکے زیادہ تر بال اڑچکے تھے۔ پھر بھی انھیں کھینچتا رہتا،داڑھی نوچتا رہتا۔ وہ اپنی ہی نجاست ہاتھ منہ پر مل لیا کرتا تھا۔ بہت سے لوگ ان واقعات اور حالات کے عینی شاہد ہیں۔ اس ’’خلیفہ ثانی‘‘ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ جماعت احمدیہ میں اٹھانوے فیصد منافق ہیں جس کی بنا پر جماعت کو ان کے پاگل ہونے کی افواہ اڑانی پڑی۔ ایک لمبا عرصہ اذیت ناک زندگی بستر پر گزارنے کے بعد جب یہ شخصیت دنیا سے رخصت ہوئی تو اس کا جسم بھی عبرت کا نمونہ تھا۔ ایک لمبا عرصہ تک ایک ہی حالت میں بستر پر لیٹے رہنے کی وجہ سے لاش اکڑ کر گویا کہ مرغ کا چرغہ بن چکی تھی۔ ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ کر بمشکل سیدھا کیا گیا۔ چہری پر گھنٹوں ماہرین سے خصوصی میک اپ کروایا گیا۔ جسم کی کافی دیر تک صفائی کی گئی اور پھر عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مرکری بلب کی تیز روشنی میں لاش کو اس طرح رکھا گیا کہ چہرے پر مصنوعی نور نظر آئے لیکن قادیانی تو ساری باتوں سے واقف تھے۔ خدا تعالیٰ ایسے حقیقی انجام اور مصنوعی نور سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے،آمین۔ قادیانی جماعت کے خلیفہ دوم کی تدفین کے بعد اس کے عزیز واقارب اور پوری جماعت احمدیہ نے سکھ کا سانس لیا۔ پھر مورثی وراثت اور چندوں کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنے کے خاطر انھی کے بڑے بیٹے مرزا ناصر احمد گدی نشین ہوئے۔ یہ حضرت گھوڑوں کی ریس کے بڑے شوقین تھے۔ ان کے اس شہنشاہی شوق نے چناب نگر(سابقہ ربوہ) میں گھڑ دوڑ کے دوران ایک غریب شخص کی جان بھی لے لی۔ خلیفہ مرزا ناصر احمد نے ۷۸ سال کی عمر میں فاطمہ جناح میڈیکل کی ایک ۲۷ سالہ طالبہ کو یہ کہتے ہوئے اپنے عقد میں لے لیا کہ ’’آج دولہا اپنا نکاح خود ہی پڑھائے گا‘‘ اس ۷۸ سالہ بوڑھے دولہا نے اپنے ازکار رفتہ اعضاء میں جوانی بھرنے کے لیے کشتوں کا استعمال شروع کر دیا اور کشتوں کے راس نہ آنے پر خود ہی کشتہ ہو گیا۔ اس کا جسم پھول کر کپا ہو گیا اور آناً فاناً خدائے قہار کے قہر کی گرفت میں آکر کشتوں ہی کی آگ میں جھلس کر ملک عدم کو سدھار گیا۔ آنجہانی مرزا ناصر احمد کا چھوٹا بیٹا مرزا لقمان شادی شدہ تھا اس کا ایک بیٹا تھا۔ مرزا طاہر احمد نے اپنی گدی نشینی کا پروگرام ترتیب دیا تو اس سودے بازی میں اپنی بیٹی کا رشتہ بہت پہلے مرزا لقمان سے کر دیا اس کی پہلی بیوی کو طلاق دلوائی گئی اور اس سے اس کا بیٹا چھین لیا۔ جب مرزا ناصر احمد کی موت کے بعد مرزا طاہر احمد گدی نشین ہوا تو ان کے بڑے سوتیلے بھائی مرزا رفیع احمد خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہوئے میدان میں آگئے۔ ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنے حواریوں سمیت سراپا احتجاج بن گئے اور سڑکوں پر آگئے۔ لیکن انھیں بزور قوت اپنے گھروں میں دھکیل دیا کر ’’خلافت‘‘ پر قبضہ کر لیا گیا۔ مرزاطاہر احمد جماعت کے چوتھے خلیفہ آمرانہ مزاج کے حامل تھے۔ ان کی شروع سے یہ عادت تھی کہ وہ کسی کی بات نہیں مانتے تھے ان کی فرعونی عادات نے نہ صرف مرزا طاہر بلکہ پوری قادیانی جماعت کو دنیا بھر میں ذلیل کیا۔ اپنی زبان درازی ہی کی وجہ سے وہ پاکستان سے بھاگ کر لندن اپنے آقاؤں کے ہاں پناہ گزین ہوئے۔ ان کے دور خلافت میں بھی کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں تھی وہ جب چاہتے اور جسے بھی چاہتے پل بھر میں ذلیل کر دیتے ۔ انھوں نے نظریں ملا کر بات نہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ قادیانی لڑکیوں کو سدا سکھی رہنے کی دعا دینے والا یہ خلیفہ دس لاکھ کا حق مہر لکھوانے کے باوجود اپنی بیٹی کو طلاق سے نہ بچا سکا آخر مرزا لقمان کی پہلی بیوی نے طلاق لینے اور بچہ چھیننے پر بددعا دی ہو گی! مرزا طاہر احمد ہومیو پیتھک ڈاکٹر کہلوانے کے شوقین تھا اور اس کا یہی شوق انسانوں کے لیے مصیبت کا باعث بن گیا۔ مرزا طاہر احمد چاہتے تھے کہ عورتیں صرف ’’احمدی لڑکے‘‘ ہی پیدا کریں جن میں ذات پات یا نسل کا کوئی لحاظ نہ ہو۔ قادیانیوں کو’’ نر نسل ‘‘پیدا کرنے کی گولیاں دیتے رہے جن میں مردانہ طاقت بند ہونے کا دعویٰ کیا جاتا۔ شاید قدرت ان کے ان ہتھکنڈوں پر ہنس رہی تھی دوسروں کو لڑکے دینے والا یہ ڈاکٹر (ہومیو پیتھک) اپنی بیوی کو لڑکا نہ دے سکا اور ان کے اپنے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ جن سے دنیا حقیقت جان گئی۔ خلیفہ طاہر احمد نے اپنی عمر کے آخری چند سالوں میں اس دیدہ دلیری سے جھوٹ بولے کہ کراماً کاتبین بھی ان کے جھوٹ لکھتے ہوئے حیران ہوتے ہوں گے وہ جھوٹ کی انتہا پر پہنچتے ہوئے ایک روز بیس کروڑ احمدیوں کی جماعت کا خلیفہ ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے۔ ان کے ذہنی توازن کا یہ حال تھا کہ امامت کے دوران عجیب و غریب حرکتیں کرتے رہتے۔ کبھی باوضو نماز پڑھاتے تو کبھی بے وضو ہی پڑھا دیتے۔ رکوع کی جگہ سجدہ اور سجدہ کی جگہ رکوع ۔ کبھی دوران نماز ہی یہ کہتے ہو ئے گھر کو چل دیتے کہ ٹھہرو! ابھی وضو کر کے آتا ہوں۔ غرضیکہ اپنے پیشرؤں کی طرح گرتے پڑتے اٹھتے بیٹھتے لیٹتے روتے مرزا طاہر احمد کی بھی بڑی مشکل سے جان نکلی پھر پرستاروں کے دیدار کے لیے جب لاش رکھی گئی تو چہرہ سیا ہ ہونے کے ساتھ ساتھ لاش سے اچانک تعفن اٹھا اور ان پرستاروں کو فوراً کمرے سے باہر نکال دیا گیا اور لاش بند کر کے تدفین کے لیے روانہ کر دی گئی۔ لوگوں نے یہ مناظر براہِ راست ٹی وی پر دیکھے۔ کافی لوگ اس کے گواہ ہیں۔ میں اپنے قادیانی دوستوں اور رشتہ داروں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ نے تو اپنے روحانی سربراہوں کی حیات اور اموات کو دیکھا ہے پھر قادیانی چنگل سے کیوں نہیں نکل جاتے؟ مجھے آپ لوگوں سے ہمدردی ہے کیونکہ میرا اور آپ کا ۵۵سال کا ساتھ رہا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس طرح اس نے قادیانیت سے نکلنے میں میری غیبی مدد فرمائی ہے اس طرح باقی قادیانیوں کی بھی مدد فرمائے اور وہ منافقت کی زندگی چھوڑ کر حقیقی زندگی گزارنا شروع کر دیں ۔ آمین یا رب العالمین
  3. بھائیو زمانہ جانتا ہے کہ قادیانیوں کا چیف پادری اور غلیظ ترین گستاخ اسلام مسخرہ مرزا قادیانی ہیضے میں مبتلا ہو کر مونہہ سے گندگی نکالتا ، گندگی میں لتھرا بیت الخلا میں دردناک موت مرا۔ لہذا شان الہیت ، شان رسالت، عظمت قرآن کے بارے گستاخانہ تحریریں لکھنے والے پاگل کتے رفیع رجا قادیانی اور جمیل رحمن پادری بدترین گستاخ رسول ہیں اور ان کا ساتھ دینے والے قادیانی بیویوں کے دین فروش شوہر ان گستاخین رسول کے ساتھی بھی اسی دردناک عذاب کے لائق ہیں ۔ اور ویسے بھی یہ گستاخ اسلام قادیانی رفیع رضا اپنے گروپ اور فورم پر کئی دفعہ خود بھی اعلان کر چکا ہے کہ اسے کینسر ہو چکا ہے۔ اگر جھوٹا اعلان بھی تھا تو اللہ سچ کرنے والا ہے ۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک کسی گستاخ رسول اور اس کے حواری کے لئے کی کوئی معافی نہیں۔ اس کے لئے میں بھائی عبدللہ حیدر صاحب کی ایمان افروز تحریر دے رہی ہوں۔ اس وقت اسلام اور کفر کا مقابلہ بڑی شدت سے جاری ہے۔ اس معرکے کے بہت سے پہلو ہیں۔ آج یہ معرکہ اس انتہا پر پہنچ گیا ہے کہ اللہ کے دشمنوں نے نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کو نشانہ بنا لیا ہے۔ مسلسل گستاخیاں کر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی طرف سے بہت شدید خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ اسلام ان کو دنیا میں ابھرتا ہوا اور پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ فروغ اسلام کو روکنے میں وہ پوری طرح بے بس ہیں۔ اور شدید پیچ وتاب کھا رہے ہیں تو آج غصہ کہاں نکل رہا ہے!! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاکے چھاپ کر وہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کے خلاف، اسلام کے خلاف، اور حامل قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف فلمیں بنا رہے ہیں، ان فلموں، خاکوں کی خوب تشہیر ہو رہی ہے، ڈرامے سٹیج کیے جا رہے ہیں۔ اس پر مختلف ممالک، ان کی حکومتیں پارلیمنٹوں کے ممبر، ان کے بڑے بڑے سیاستدان سب کے سب اس خباثت اور گستاخی میں شریک ہیں اور وہ اسے اپنا جمہوری حق قرار دے رہے ہیں۔ یہ معرکہ کتنا شدید ہے اس کا ہر مسلمان کو آج شعور ہونا چاہیے اور اس مسئلے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس بات سے ہر کلمہ گو کو آگاہ ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں ان گستاخیوں کو سیاسی مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ یہ مسئلہ شریعت اسلامیہ کا ایک معرکتہ الآراء مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی حقیقت واقعیت، اس کی شدت اور اس کی حساسیت کا پورا ادراک ہونا چاہیے۔ ہماری حکومتیں بڑی بے حس ہیں۔ بس پارلیمنٹ کی ایک رسمی سی قرار داد پیش کر لی، وہ اسی پر ہی بڑے خوش ہیں۔ اس کو اپنا کارنامہ قرار دیتے ہیں کہ جی دیکھو! ہم نے تو اسمبلی کے فلور پر قرار داد پیش کر دی، کارٹونوں اور خاکوں کے خلاف۔ گویا اس سے ان کی ذمہ داریاں ادا ہوگئی ہیں۔ جیسے دنیا میں دیگر سیاسی مسئلے کھڑے ہوتے ہیں،تو حکومتیں ان مسائل میں اپنا موٴقف بیان کر دیتی ہیں اس مسئلے کو بھی آج اسی حد تک سمجھا جا رہا ہے۔ محترم بھائیو ! دیکھو یہ اللہ کے دشمن کس شدت سے اس مسئلے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، ہماری قرار دادوں کا ان پر کوئی اثر نہیں، ہماری اسمبلیوں اور پارلیمنٹوں میں ان گستاخوں کے متعلق کیا کہا جا رہا ہے، ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ان باتوں کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دے رہے۔ ان کو کوئی پروا نہیں۔ یہ طریقے بھی ان کے ہیں اور آج مغرب اس بات پر مطمئن ہے کہ آج مسلمانوں کے رسول کی شان میں جتنی چاہیں گستاخیاں کر لیں، یہ محض قرار دادیں پاس کریں گے، جلوس نکالیں گے اور سڑکوں پر نکل کر اپنا غصہ ختم کر لیں گے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا، وہ اس بات سے پوری طرح مطمئن ہیں۔ گستاخ رسول ملعون ہے میرے بھائیو ! آج میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کی حساسیت کے بارے میں کچھ شرعی رہنمائی عرض کروں تاکہ اس مسئلہ کی حقیقت سمجھ میں آ جائے اور پھر بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس بات کا ہمیں شعور حاصل ہو۔ اللہ کریم نے قرآن میں فرمایا : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُوٴْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ (الاحزاب: 57) "جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے" ”مطلب یہ کہ وہ لوگ جو اللہ کی گستاخیاں کریں اور اس کے رسول کی گستاخیاں کریں ان کو ایذا (تکلیف) پہنچائیں۔ اللہ کی طرف سے ان لوگوں پر لعنتیں ہیں دنیا میں بھی وہ لوگ ملعون ہیں اورآخرت میں بھی ملعون ہیں۔“ اے ایمان کے دعویدار مسلمانو ! ایسے ملعونوں سے تمھیں نمٹنا ہے تاکہ تم محبت رسول کے سلسلے میں رب کے حضور سرخرو ہو سکو۔ ورنہ جہاں وہ اپنے برے انجام سے دوچار ہوں گے مسلمانو! تم بھی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر مجرم ٹھہرو گے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس آیت کو پیش کرکے اس سے یہ نتیجہ نقل فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ کے رسول کی گستاخی کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدس پر سب وشتم کرے تو ایسا شخص ملعون ہے۔ اللہ کا قرآن کبھی کسی مسلمان شخص کو ملعون نہیں کہہ سکتا، ایسا ہر شخص جو گستاخی کرے اگر وہ مسلمان ہے تو اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ بالاتفاق امت مسلمہ کے نزدیک یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ ایسا شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، اس کا حکم (مرتد) کا ہے۔ ایسے فعل کا مرتکب ایک ہو یا پوری جماعت۔ ان کی سزا صرف ایک ہے کہ ایسے لوگوں اور ایسی قوموں کوزندہ رہنے کا حق ہی نہیں ہے… یہ فریضہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر عائد کیا ہے صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے ہمیں سمجھ آئے گا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ گستاخوں کی سزائیں، عہد رسول اللہ اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں کیا تھیں؟ انھوں نے اس مسئلہ پر امت مسلمہ کے لئے کیا اسوہ حسنہ چھوڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا، آپ کی ذات کو گالی بکنے والا خواہ مسلمان ہو یا کافر، تمام ائمہ، مجتہدین اور فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق واجب القتل ہے، وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلوائے تب بھی قتل واجب ہے یہ مسئلہ ایسا حساس ہے کہ کوئی کافر بھی گستاخی کرے گا تو سزا قتل ہے۔ ( تحریر عبدللہ حیدر )
  4. Raza11

    Qadianat Ki Sachi Tahriren

    by Voice of Pakistan on Wednesday, April 18, 2012 at 9:11pm · بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ سبحان تعالیٰ اور اللہ کے دین کے باغی ، خدا کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نبوت کے منکرگروہ کے بنیادی عقائد سے پردہ اٹھانے کیلئے ایک مفصل اور جامع تحریر پیش کر رھا ھوں تاکہ ھراس مسلمان کو ان کی خود ساختہ سوچ اور مذھب کے بارے آگاھی ھو جو اس مذھب کے زندیقانہ عقائد اوران کی اسلام دشمن فکر سے ابھی تک پوری طرح واقف نہیں ھیں ۔ ان قادیانی حضرات کو خود ان کے پیشوا مرزا قادیانی کی لکھی ہوئی تحریروں کے آئینے میں دیکھئے، سوچئے اور فیصلہ کیجئے کیا یہ ہمارے دوست ہیں یا بد ترین دشمن ۔ کیا یہ دل آزار، توہین آمیز اوراشتعال انگیز تحریریں مسلمانوں کیلئے قابل برداشت ہیں اورکیا امت مسلمہ ایسے لوگوں کو گوارا کر سکتی ہے ؟ قادیانیت کے ان عقائد کو پڑھ کرآپ دوستوں کو بڑی حد تک اس بات کا بھی اندازہ ھو جائے گا کہ پاکستان سے فرار ھو کر مغربی ممالک میں اپنے گورے آقاؤں کی گود میں بیٹھے شاتم ِ اسلام اور گستاخ ِ قرآن مرزائی اور جعلی آئی ڈیوں میں چھپے دینی و ملی ھستیوں کی توہین کرنے والے قادیانی مختلف سائیٹس پر کھلے عام اللہ سبحان تعالی کی شان، قرآن حکیم کی عظمت ، انبیا اکرام، صحابہ اجمعین اوراھل ِ بیت کی توھین میں غلاظت کیوں لکھتےھیں اوروہ مسلمان برادرز جو ترویج ِادب اور باھمی اخوت ، بھائی چارے کے نام پران سے دوستیاں نبھا کرنا چاھتے ہوئے بھی ان کے دائرہ کارمیں اضافے کا باعث بن رھے ہیں یا ان کے آلہ کار بن کر نیٹ پراسلام دوست اورمحب الوطن مسلمانوں کے بارے شر پھیلاتے ہیں ان کی دینی اورقومی غیرت کس روشن خیالی میں گم ہے؟ قسطوں میں فراڈ اور عیارانہ دعوے مرزا جی نے اپنی تصانیف میں اتنا جھوٹ لکھا ہے جو ایک صحیح الدماغ شخص لکھ ہی نہیں سکتا۔ اس نے قسطوں میں بہت سے دعوے کئے اور یہ بات مد نظر رھے کہ ھر جھوٹے دعوے سے مکر جانے کے بعد اگلے منصب کا دعویٰ اس کے پہلے دعوے کو باطل اور فراڈ ثابت کرتا رھا ۔ دعوی نمبر ۱مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔۔۔۔ تصنیف الاحمدیہ ج ۳ ص ۳۳ ۔۔۔۔۔۔ دعوی نمبر ۲ دوسرا دعویٰ محدثیت کا کیا۔۔۔۔۔۔ دعوی نمبر ۳ تیسرا د?عویٰ مھدیت کا کیا ۔۔۔ تذکرہ الشہادتین ص ۲۔۔۔۔۔۔ دعوی نمبر ۴ چھوتھا دعویٰ مثلیت مسیح کا کیا ۔۔۔۔ تابلیغِ رسالت ج ۲ ص ۲۱۔۔۔۔۔ دعوی نمبر ۶ پانچواں دعویٰ مسیح ہونے کا کیا ۔۔۔ جس میں کہا کہ خود مریم بنا رہا اور مریمیت کی صفات کے ساتھ نشو و نما پاتا رہا اور جب دو برس گزر گئے تو دعوی نمبر عیسیٰ کی روح میرے پیٹ میں پھونکی گئی اور استعاراً میں حاملہ ہو گیا اور پھر دس ماہ لیکن اس سے کم مجھے الہام سے عیسیٰ بنا دیا گیاکشتیِ نوح ۔۔۔ ص ۶۸ ۔ ۶۹۔۔۔۔۔۔دعوی نمبر ۶ چھٹا دعویٰ ظلی نبی ہونے کا کیا ۔۔۔ کلمہ فصل ۔۔۔ ص ۱۰۴۔۔۔۔۔۔ دعوی نمبر ۷ ساتواں دعویٰ بروزی بنی ہونے کا کیا ۔۔۔ اخبار الفصل۔۔۔۔۔۔ دعوی نمبر ۸ آٹھواں دعویٰ حقیقی نبی ہونے کا کیا۔۔۔۔۔۔ دعوی نمبر ۹ نواں دعویٰ کیا کہ میں نیا نبی نہیں خود محمد ہوں اور پہلے والے محمد سے افضل ہوں انہیں ۳۰۰۰ معجزات دیے گئے جب کہ مجھے ۳ لاکھ معجزات ملے روحانی خزائن ۔۔۔ ج ۱۷ ص ۱۵۳۔۔۔۔۔۔ دعویٰ خدائی نمبر ١ میں نے اپنے تئیں خدا کے طور پر دیکھا ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں وہی ہوں اور میں نے آسمان کو تخلیق کیا ہے۔(آئینہ کمالات صفحہ ٥٦٤، مرزا غلام احمد قادیانی )نمبر٢ خدا نمائی کا آئینہ میں ہوں ۔(نزول المسیح ص ٨٤)نمبر ٣ ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو حق اور بلندی کا مظہر ہو گا ، گویا خدا آسمان سے اترے گا ۔ (تذکرہ ط ٢ص ٦٤٦(انجام آتھم ص ٦٢)نمبر ٤ مجھ سے میرے رب نے بیعت کی ۔ ( دافع البلاء ص ٦) نبوت کے جھوٹے دعوے نمبر ١ پس مسیح موعود (مرزا غلام احمد ) خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ۔ اس لیے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں ہاں! اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی ۔ (کلمہ الفصل صفحہ ١٥٨مصنفہ مرزا بشیر احمد ایڈیشن اول ) نمبر ٢ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تین ہزار معجزات ہیں ۔ (تحفہ گولڑویہ صفحہ ٦٧مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی ) میرے معجزات کی تعداد دس لاکھ ہے۔ (براہین احمدیہ صفحہ ٥٧ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی ) نمبر ٣ انہوں نے (یعنی مسلمانوں نے) یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا کے خزانے ختم ہو گئے ۔۔۔۔۔۔ان کا یہ سمجھنا خدا تعالیٰ کی ۔۔۔۔۔۔ قدر کو ہی نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے ورنہ ایک نبی تو کیا میں تو کہتا ہوں ہزاروں نبی ہونگے ۔ (انوار خلافت، مصنفہ بشیر الدین محمود احمد صفحہ ٦٢) نمبر ٤ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں ۔ (بدر٥مارچ 190نمبر ٥ میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا اور میرا نام نبی رکھا ۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی ٦٨) نمبر ٦ اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے یہ کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اسے ضرور کہوں گا کہ تو جھوٹا ہے کذاب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں ۔ ( انوار خلافت صفحہ ٦٥) نمبر ٧ یہ بات بالکل روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے ۔ (حقیقت النبوت مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ قادیان ص ٢٢٨)نمبر ٨ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا ، میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں ، اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں ۔ بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔ (کشتی نوح صفحہ ٥٦، طبع اول قادیان ١٩٠٢) دعویٰ ِ نبوت سے انکار اور پھر مکر کر دعویٰ ِ نبوت مرزا فروری ۱۸۹۴ کو اپنی کتاب روحانی خراین جلد۹ میں خود لکھتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” میں نے نہ نبوت کا دعوی کیا اور نہ ہی اپنے آپ کو نبی کہا ؛ یہ کیسے ھو سکتا تھا کہ میں دعوی نبوت کر کے اسلام سے خارج ھو جاوں اور کافر بن جاوں” اور پھرہے نبوت کا جھوٹا دعوی کرکے اپنے ہی لکھے اور کہے کے مطابق خود کو کافر ثابت کرتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتا ھے ۔۔۔۔۔۔ ” سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا ” دافع البلاء صفحہ ۱۱؛ خزایین جلد ۱۸ صفحہ ۲۳۱ اور پھرایک اور جگہ لکھتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ”مجھے ہر گز ہر گز دعویٰ نبوت نہیں، میں امت سے خارج نہیں ہونا چاہتا۔میں لیلہ القدر ، ملائکہ کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں کا انکاری نہیں۔حضور سلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا قائل ہوں اور حضور کو خاتم الانبیائ مانتا ہوں اور حضور کی امت میں بعد میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نہ نیا آئے گا نہ پرانا آئے گا ”آسمانی نشانی ص ۲۸ حتی کہ ۱۷ میی ۱۹۰۸ تک مرزا خود بنوت کا انکاری ہے اور اپنی کتاب ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۲۰ میں کھلا دھوکہ دیتے ہویے یا مکاری سے دعوی نبوت سے انکار کرتے ہویے لکھتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نبوت کا دعوی کرتا ہوں ۔ سو اس تہمت کے جواب میں بجز اسکے کہ لعنت اللہ علی الکازبین کہوں اور کیا کہوں؟ ” اور پھر خود ہی قلابازی کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ۔۔۔۔۔ ” اللہ نے مجھ پر وحی بھیجی اور میرا نام رسل رکھا یعنی پہلے ایک رسول ہوتا تھا اورپھر مجھ میں سارے رسول جمع کر دیے گئے ہیں۔میں آدم بھی ہوں۔ شیش بھی ہوں۔ یعقوب بھی ہوں اور ابراہیم بھی ہوں۔اسمائیل بھی میں اور محمد احمد بھی میں ہوں” حقیقت الوھی ۔۔۔ ص ۷۲ تمام انبیاء کے مجموعہ ھونے کا دجالی دعویٰ دنیا میں کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا ۔ میں آدم ہوں ۔ میں نوح ہوں ، میں ابراہیم ، میں اسحاق ہوں ، میں یعقوب ہوں ، میں اسماعیل ہوں ۔ میں داود ہوں ، میں موسیٰ ہوں ، میں عیسیٰ ابن مریم ہوں ، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ ( تتمہ حقیقت الوحی ، مرزا غلام احمد ص ٨٤) نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ( نعوذ باللہ) ۔ اس امت میں نبی کا نام پانے کیلئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ہیں ۔ (حقیقت الوحی ، مرزا غلام احمد صفحہ ٣٩١) سیدنا و مولانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نمبر ١ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھالیتے تھے حالانکہ مشہو رتھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے۔ (مکتوب مرزا غلام احمد قادیانی مندرجہ اخبار الفضل ٢٢فروری ١٩٢٤ ) نمبر ٢ مرزا قادیانی کا ذہنی ارتقاء آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھا ۔ ( بحوالہ قادیانی مذہب صفحہ ٢٦٦، اشاعت نہم مطبوعہ لاہور )نمبر ٣ اسلام محمد عربی کے زمانہ میں پہلی رات کے چاند کی طرح تھا اور مرزا قادیانی کے زمانہ میں چودہویں رات کے چاند کی طرح ہو گیا ۔ (خطبہ الہامیہ صفحہ ١٨٤) نمبر ٤ مرزا قادیانی کی فتح مبین آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح مبین سے بڑھ کر ہے ۔ (خطبہ الہامیہ صفحہ ١٩٣) نمبر ٥ اس کے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیے چاند گرہن کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا اب کیا تو انکار کرے گا ۔ ( اعجاز احمدی مصنفہ غلام احمد قادیانی ص ٧١) نمبر ٦ محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں ۔ ۔ ۔ محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے قادیان میں (قاضی محمد ظہور الدین اکمل اخبار بدر نمبر ٤٣، جدل ٢قادیان ٢٥اکتوبر ١٩٠٦) نمبر ٧ دنیا میں کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا ۔ (حقیقت الوحی ص ٨٩ از مرزا غلام احمد قادیانی ) نمبر ٨ اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمد صلعم کو اتارا تا کہ اپنے وعدہ کو پورا کرے۔ (کلمہ الفصل ص ١٠٥، از مرزا بشیر احمد ) نمبر ٩ سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا ۔ ( دافع البلاء کلاں تختی ص ١١، تختی خورد ص ٢٣، انجام آتھم ص ٦٢) نمبر ١٠ مرزائیوں نے ١٧جولائی ١٩٢٢ کے ( الفضل) میں دعویٰ کیا کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے حتیٰ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ سکتا ہے ۔ نمبر١١ مرزا غلام احمد لکھتا ہے : خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہ اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ ( ایک غلطی کا ازالہ صفحہ نمبر ١٠)نمبر ١٢ منم مسیح زماں و منم کلیم خدا منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد ۔ ۔ ۔ ترجمہ ! میں مسیح ہوں موسی کلیم اللہ ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور احمد مجتبیٰ ہوں ۔ (تریاق القلوب ص ٥ ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین نمبر١ آپ کا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام )خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناء کار اور کسبیعورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ، حاشیہ ص ٧ مصنفہ غلام احمد قادیانی )نمبر ٢ مسیح (علیہ السلام ) کا چال چلن کیا تھا ، ایک کھاؤ پیو ، نہ زاہد ، نہ عابد نہ حق کا پرستار ، متکبر ، خود بین ، خدائی کا دعویٰ کرنے والا ۔ (مکتوبات احمدیہ صفحہ نمبر ٢١ تا ٢٤ جلد ٣)نمبر ٣ یورپ کے لوگوںکو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے ۔ (کشتی نوح حاشیہ ص ٧٥ مصنفہ غلام احمد قادیانی )نمبر ٤ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے۔ (دافع البلاء ص ٢٠)نمبر ٥ عیسیٰ کو گالی دینے ، بد زبانی کرنے اور جھوٹ بولنے کی عادت تھی اور چور بھی تھے ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ص ٥،٦)نمبر ٦ یسوع اسلیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکتا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور خراب چلن ، نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتداء ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ خدائی کادعویٰ شراب خوری کا ایک بد نتیجہ ہے۔ (ست بچن ، حاشیہ ، صفحہ ١٧٢، مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی ) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی توہین پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو اب نئی خلافت لو ۔ ایک زندہ علی ( مرزا صاحب ) تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی (حضرت علیؓ ) کو تلاش کرتے ہو۔ (ملفوظات احمدیہ ، ١٣١جلد اول ) حضرت فاطمہ الزاہرا رضی اللہ تعالی عنہا کی توہین حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں ۔( ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ ص ٩مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی ) حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی توہین نمبر١ دافع البلاء میں ص ١٣پر مرزا غلام احمد نے لکھا ہے میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے بر تر ہوں۔نمبر٢ مجھ میں اور تمہارے حسین میں بڑا فرق ہے کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔ (اعجاز احمدی صفحہ ٦٩)نمبر ٣ اور میں خدا کا کشتہ ہوں اور تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے ۔ (اعجاز احمدی صفحہ ٨١)نمبر ٤ کربلا ئیست سیر ہر آنم صد حسین اس در گر یبانم ۔ ۔ ۔ میری سیر ہر وقت کربلا میں ہے ۔ میرے گریبان میں سو حسین پڑے ہیں ۔ (نزول المسیح ص ٩٩مصنفہ مرزا غلام احمد )نمبر ٥ اے قوم شیعہ ! اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں سے ایک ہے کہ اس حسین سے بڑھ کر ہے ۔ (دافع البلاء ص ١٣، مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی )نمبر ٦ تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا اور تمہارا ورد صرف حسین ہے۔۔۔۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے۔ ( اعجاز احمد ی ص ٨٢، مصنفہ مرزا غلام احمد )اس عبارت میں مرزا صاحب نے حضرت حسین کے ذکر کو "گوہ" کے ڈھیر سے تشبیہ دی ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی توہین نمبر١ حضرت مسیح موعود نے اسکے متعلق بڑا زور دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو بار بار یہاں نہ آئے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہے ۔ پس جو قادیان سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاٹا جائے گا تم ڈرو کہ تم میں سے نہ کوئی کاٹا جائے پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا ۔ آخر ماؤں کا دودھ بھی سوکھ جایا کرتا ہے کیا مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں۔ (مرزا بشیر الدین محمود احمد مندرجہ حقیقت الرؤیا ص ٤٦)نمبر ٢ قرآن شریف میں تین شہروں کا ذکر ہے یعنی مکہ اور مدینہ اور قادیان کا ۔ (خطبہ الہامیہ ص ٢٠حاشیہ) مسلمانوں کی توہین نمبر١ کل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا اور میری دعوت کی تصدیق کر لی مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔ (آئینہ کمالات ص ٥٤٧)نمبر٢ جو دشمن میرا مخالف ہے وہ عیسائی ، یہودی ، مشرک اور جہنمی ہے۔ (نزول المسیح ص ٤، تذکرہ ٢٢٧)نمبر ٣ میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں ۔ (نجم الہدیٰ ص ٥٣مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)نمبر ٤ جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔( انوارالاسلام ص ٣٠مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی) اسلام کی مقدس اصطلاحات کا ناجائز استعمال نمبر١ ام المومنین کی اصطلاح کا استعمال مرزا غلام احمد قادیانی کی بیوی کیلئے کیا جاتا ہے ۔یہ اصطلاح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کیلئے مخصوص ہے۔نمبر٢ سیدۃالنساء کی اصطلاح بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی بیٹی کیلئے استعمال کی جاتی ہے حالانکہ حدیث پاک کی رو سے یہ اصطلاح صرف خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیلئے مخصوص ہے۔ دین اسلام کی توہین قادیانیوں کے نزدیک مرزا قادیانی کی نبوت کے بغیر دین اسلام لعنتی ، شیطانی ، مردہ اور قابل نفرت ہے ۔(ضمیمہ براہین پنجم ص ١٨٣، ملفوظات ص ١٢٧جلد١) تمام مسلمان کافر ہیں نمبر١ جو شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے۔ (حقیقت الوحی نمبر ١٦٣، از مرزا غلام احمد قادیانی )نمبر٢ کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد ) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ (آئینہ صداقت ص ٣٥، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود خلیفہ قادیان )نمبر ٣ تحریک احمدیت اسلام کے ساتھ وہی رشتہ رکھتی ہے جو عیسائیت کا یہودیت کے ساتھ تھا ۔ (محمد علی لاہور قادیانی مباحثہ راولپنڈی ص ٢٤٠)نمبر ٤ ہر ایک ایسا شخص جو موسی کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا ،یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے پر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (کلمۃ الفصل ص ١١٠ ) حرمت ِ جہاد سے انکار نمبر١ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔ (صفحہ ١٧ ضمیمہ بہ عنوان گورنمنٹ کی توجہ کے لائق شہادۃ القرآن )نمبر ٢ دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد ( ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ٤١ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی) پاکستان پر قبضہ کرنے کے ارادے بلوچستان کی کل آبادی پانچ لاکھ یا چھ لاکھ ہے ۔زیادہ آبادی کو احمدی بنانا مشکل ہے لیکن تھوڑے آدمیوں کو تو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلد احمدی بنایا جا سکتا ہے اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنالیں تو کم از کم ایک صوبہ تو ایسا ہو گا جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے پس میں جماعت کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگو ں کیلئے یہ عمدہ موقع ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور اسے ضائع نہ ہونے دیں ۔ پس تبلیغ کے ذریعے بلوچستان کو اپنا صوبہ بنالو تا کہ تاریخ میں آپ کا نام رہے۔ ( مرزا محمود احمد کا بیان مندرجہ الفضل ١٣اگست ١٩٤٨) قرآن مجید کی توہین نمبر١ قرآن شریف میں گندی گالیاں بھری ہیں اور قرآن عظیم سخت زبانی کے طریق کے استعمال کر رہا ہے ۔ (ازالہ اوہام ص ٢٨،٢٩)نمبر ٢ میں قرآن کی غلطیاں نکالنے آیا ہوں جو تفسیروں کی وجہ سے واقع ہو گئی ہیں ۔ (ازالہ اوہام ص ٣٧١)نمبر ٣ قرآن مجید زمین پرسے اٹھ گیا تھا میں قرآن کو آسمان پر سے لایا ہوں ۔ (ایضاً حاشیہ ض ٣٨٠) مرزا قادیانی کی تقلید میں قرآن ِ حکیم کی توہیں کرنے والے مرتد قادیانی جمیل الرحمن کی طرف سے توہین قرآن کا ثبوت دیکھنے کیلئے میرا یہ نوٹ ملاحظہ کیجئے ، ذیل میں لنک دیا جا رھا ھے https://www.facebook.com/note.php?note_id=457554438704 اکھنڈ بھارت کا خواب یہ اور بات ہے ہم ہندوستان کی تقسیم پر رضامند ہوئے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح جلد متحد ہوجائیں ۔(مرزا بشیر الدین محمود احمد ، الفضل ، ربوہ ، ١٧مئی ١٩٤٧) یہاں میں آپ دوستو کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ قادیانی حضرات اپنے مردوں کو امانتا دفن کرتے ہھیں اور ان کا عقیدہ ھے کہ اکھنڈ بھارت بننے کے بعد یہ اپنے انجہانی مردوں کی ھڈیاں بھارت میں واقع قادیان کے قبرستان میں جا کر مٹی میں دبائیں گے اس سلسلے میں میرا یہ مضمون ،، چناب نگر کے انجہانیوں کا خواب اکھنڈ بھارت ،، ضرور پڑھئے گا جو مختلف جرائد اور نیٹ سائیٹس پر شائع ھو چکا ھے جس کا لنک ذیل میں دیا جا رھا ھے https://www.facebook.com/note.php?note_id=465147468704 پاکستان سے ازلی و ابدی دشمنی اللہ تعالیٰ اس ملک پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیگا ۔ آپ (احمدی) بے فکر رہیں ۔ چند دنوں میں (احمدی )خوشخبری سنیں گے کہ یہ ملک صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو گیا ہے۔( مرزا طاہر قادیانی خلیفہ چہارم کا سالانہ جلسہ لندن ١٩٨٥) اس مضمون کو تحریر کرتے ھوئے مرزا قادیانی اور اس کے تمام پیروکاروں کی کتابوں کے مکمل حوالہ جات ساتھ دیئے گئے ھیں تاکہ کوئی قادیانی صاحب یہ الزام نہ لگا سکے کہ اس تحریر میں کسی قسم کی دروغ گوئی سے کام لیا گیا ھے
  5. کائنات کا سب سے پلید جانگلی سور مرزا قادیانی تمام دینی ہستیوں کے بارے بکواس کرتا دردناک موت مر گیا ۔ اب اس کے چیلے یورپی ملکوں میں بیٹھے اپنے انگریز کافروں کے آلہ کار بن کر دین کے بارے گستاخانہ تحریروں سے امت مسلمہ کے جذبات بھڑکانے میں مصروف ہیں، پینتیس برس قبل ربوہ ریلوے سٹیشن پر مسلمانوں کا قتل عام کرنے کے جرم میں مطلوب قادیانی خبیث یورپی ملکوں کو بھاگ چکے ہیں جہاں کافر ملکوں کی پناہ میں فیس بک اور مختلف نیٹ سائٹ پر سلمان رشدی جیسے کافرانہ جملے کستے اور اردو ادب کے نام پر مسلمانوں کو پھنسا کر قادینیت کی تبلیغ کرنے والے یہ واجب القتل لوگ کھے عام اسلامی ہستیوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کا ساتھ دیے والے منصور آفاق جیسے وہ منافقین ہیں جو قادیانی کاتون سے شادی رچا کر برطانیہ کی شہریت کی قیمت پر بک کر قادیانیت کا خادم بنا بیٹھا ہے نعتیں لکھ کر مسلمانوں کو بیوقوف بنانے ولا یہ پلید جوکر بدترین شاتم اسلام رفیع رضا کے گروپ کا ایڈمن بھی ہے اور اسلام دشمن لٹریچر پھیلانے کا انچارج بھی، ان قادیانیوں کی سپورٹ کرنے والے اور اس کے گستاخ دین شاعری گروپ چلانے والے گروپ ایڈمن اختر عثمان جیسے وہ لعنتی لوگ بھی ہیں جو میلادوں اور مجلسوں میں نعتیں اور مرثیے پڑھ کر پیسہ کماتے ہیں ۔ خود کو مسلمان کہلوانے والے اختر عثمان جیسے لوگ ھی قادیانیت کے پلید کتوں جیسے پلید اور ناپاک ہیں، کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ قادیانیوں کا جو یار ہے وہ دین اور ملک و قوم کا غدار ہے۔ کافر بھی جہنمی اور کافر کا یار بھی جہنمی ہے۔ یاد رکھیں رفیع رضا، جمیل الرخمن، عبدل جلیل عباد، کالد ملک ساحل، ظفر خان وغیرہ وہ قادیانی ہیں جو ختم نبوت تحریک میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث رہے ہیں اور ملک سے فرار ہو کر یورپی ملکوں میں مقیم ہیں۔ منصور افاق جیسے لعنتی یورپی ویزے کی کاطر قادیانی کاتون سے شادی کر کے ان کا سپپورٹر بن چکا ہے اور اختر عثمان جیسے لعنتی شاعر قادیانیوں کے فنڈزکھانے اور قادیانیوں کی سپورٹ کے بدلے پیسہ کماے میں مصروف ہیں۔ لعنت ہے ان سب لوگوں پر جو ان قادیانیوں کے گروپ اور نیٹ ورکوں کے ایڈمن ہیں اور مسلمان بھی کہلواتے ہیں۔ اختر ہشمان تم پر تمپہاری اگلی پچھلی نسلوں اور سات پشتوں پر لعنت لعنت لعنت ہے۔ جیسا ٹیرھا اور بھینگا مرزا تھا ویسا لعنتی ٹیڑھا بھینگا تو ہے۔ اس پر بھی لعنت اور تجھ پر بھی لعنت۔ سارے جہان کی لعنت۔
  6. بہت کم مسلمان بھائی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مشہور شاعر عبید اللہ علیم قادیانیت کی تبلیغ کرنے والا وہ شیطانی چرخہ تھا جو ساری زندگی مرزا خبیث قادیانی کا پرچار کرتا رہا۔ آج کل سب قادیانی شیطانی چرخے اور قادیانیت کے خنزیر سپورٹر منصور آفاق، فاتح الدین بشیر جیسے اسلام دشمن خنزیر، رفیع رضا کے اینٹی اسلام گستاخ اسلام شاعری گروپ میں عبید اللہ علیم کی شاعری کا پرچار کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ اللہ تعالی ایسے منافق لوگوں کو بے نقاب کرتا ہے لوگوں کو نعتیں پڑھ کر بے وقوف بناتے ہیں مگر دراصل اپنے قادیانی خنزیر سرپرستوں کے آلہ کار ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں رفیع رضا، جمیل رحمن، خالد ملک ساحل، عبدالجلیل عباد، خواجہ عبدل مومن، خواجہ حنیف تمنا، ظفر خان ، طیبہ جمیل، عمرانہ نصیر کٹر قادیانی خنزیر لوگ ہیں اور ۔ نعتیں پڑھ کر مسلمانوں کو بیوقوف بنانے والا قادیانی کتیا یاسمین حبیب کا چوتھا شوہر سور منصور آفاق ، ہر فورم پر اسلام کی توہین کرنے والا مکروہ صورت لعنتی فاتح الدین بشیر، امریکہ میں بدکار عورتوں کے اڈے چلانے والا علامہ اقبال کے نرتیہ اشعار کی توہین کرنے والا عرفان ستار ، صبح میلاد اور رات کو مجلس پڑھنے والا پیشہ ور بکاؤ شاعر اختر عثمان ، فیصل آباد میں چرس اور شراب کا دھندہ کرنے والا علی زریون ان قادیانی خنزیروں کو پروموٹ کرنے والے خبیث اور لعنتی کنزیر ہیں۔ جو لوگ جھوٹ بول کر عبید اللہ علیم کو مسلمان قرار دیتے ہیں ان کے لئے یہ ویڈیو شایع کر رہی ہوں تاکہ مسلمان بھائیوں کو پتہ چل جائے کہ یہ عبید اللہ علیم واقعی پلید قادیانی خنزیر تھا۔ اور قادیانی شاعروں کی شاعری پروموٹ کرنے والے بھی قادیانیوں کے ایجنٹ اور لعنتی ہیں جن کی ڈیوٹی اور مقصد قادیانیت کا دائرہ وسیع تر کرنا اور مسلمانوں کو پھنسانا ہے۔ مگر اللہ کا عذاب دیکھیں کہ مرزا قادیانی بھی عذاب میں مبتلا ہو کر بیت الخلا میں مرا اور اس ویڈیو میں نطر آنے والا مرزا کا خلیفہ مرزا ناصر اور عبید اللہ علیم بھی دردناک عذاب میں مبتلا ہو کر جہنم کو سدھارے۔ قادیانی بھی لعنت زدہ ہیں اور ان کے حامی اور سپورٹر بھی لعنتوں کے لائق ہیں
  7. پیارے مسلمان بھائیو یہ ہیں بدترین گستاخ رسالت پلید قادیانی خنزیر رفیع رضا جو پاکستان سے بھاگ کر کینیڈا پہنچی سرگودھا کے ہندو تاجر نتھو رام کی رکھیل اور آج کل کینیڈا میں قحبہ خانہ چلانے والی قادیانی خاتون کا بیٹا ہے جو ہمیشہ اسلام، رسالت اور اہل بیت کی کھلی توہین کرتا ہے اور اب حسب عادے نعت شریف، واقعہ کربلا پر شاعری کرنے کو جگالی کرنا کہہ کر تمام مسلاک کے مسلمانوں کی دل آزاری کر رہا ہے۔ دوسرا اس کا اس کا اور قادیانیت کا سپورٹر لعنتی وہ منصور آفاق ہے جو ایک طرف اپنی وال پوسٹز پر نعتیں پڑھ کر مسلمانوں کو بیوقوف بناتا ہے اور دوسری طرف رفیع رضا اور دوسرے قادیانیوں کی اسلام دشمن گستاخیوں کی حمایت کر کے اپنی سرپرست قادینیت کی خدمت کر رہا ہے یہ خبیث آج کل دوبارہ سے مسلمانوں کے شاعری گروپوں کے مشاعرے میں گھس رہا ہے، یو کے کے ویزے اور نیشنلٹی کے لئے رفیع رضا کی سابقہ رکھیل قادیانی خنزیرنی یاسمین حبیب سے چوتھی شادی کرنے والا مسخرہ منصور آفاق اپنے لالچی پالتو منافق مسلمانوں کے ساتھ مل کر رفیع رضا اور جمیل رخمن جیسے گستاخ اسلام قادینیوں کی ہر توہین کو سپورٹ کر ہا ہے۔ یہ دونوں گندے ترین خبیث لوگ اپنی بیسیوں جعلی آئی ڈیوں میں خود ہی اپنے کافرانہ کومنٹ لائیک کرتے اور مخالفت کرنے والے مسلمان بھائیوں کو رسوا کرتے ہیں ۔ افسوس ہے کہ پاکستان کے مسلمان ارشد وٹو جیسے معصوم یا دوغلے لوگ بھی منصور آفاق کے مہرے بن کر طیبہ جمیل جیسی غلیظ قادیانی مبلغہ کی وہ شاعری پروموٹ کر رہے ہیں جن کو نیٹ پر چوری کی شاعری قرار دیا جا رہا ہے۔ رفیع رضا دو مرتبہ اپنے گروپ اور آئی ڈی سے یہ اعلان کر چکا ہے کہ اسے کینسر ہے ۔ اگر یہ جھوٹا ڈرامہ تھا تو دعا پے کہ اللہ سچ ثابت کرے گا کیونکہ رفیع رضا جیسا شیطان خود اپنے کومنٹس میں بار بار لکھتا ہے کہ نعوذ باللہ کوئی اللہ شفا نہیں دیتا بلکہ سائنس اور ڈاکٹر شفا دیتے ہیں اور اسلام کا دشمن کینڈا اور عیسائیت مسلمانوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ پاک گستاخ قران و اسلام جمیل رحمن، رفیع رضا، خالد ملک ساحل جیسے قادیانیوں اور منصور آفاق جیسے دوغلے اسلام دشمنوں کو ان کے جھوٹے اور گستاخ اسلام جوکر مرزا جیسی ذلت آمیز عبرتناک موت دے اور ارشد وٹو جیسے سب مسلمانوں کو نہ سمجھی یا کسی بھی مصلحت کے تحت قادیانیوں کی خدمت سے توبہ کرنے کی توفیق دے۔ کاش کینیڈا اور یوکے میں کوئی غیرت مند مسلمان ان باسٹرڈ رفیع اور منصور آفاق کو جہنم واصل کرے۔ اللہ پاک سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ ہمارے روشن خیال شاعر بھائیوں کو ان تاریک خیال قادیانیوں کافروں کی صحبت سے بچنے کی توفیق دیں۔
  8. Guzaresh he ke ye maloom karna he ke Moulana Abdul Shakoor Lakhnovi sab kis maslak se the or inki kya kya kya Khadmat hen islam ke lye Shoukria
  9. Raza11

    Kash Me Khuda Hoti

    KAASH ME KHUDA HOTI " مضمون کا عنوان پڑھ کر آپ حیران ضرور ہوئے ہونگے کہ عجیب بے تکا سا گستاخانہ عنوان ہے لیکن تھوڑا سا تحمل اور برداشت سے کام لیں کیونکہ اگر عنوان پڑھ کر ہی آپ دلبرداشتہ ہو جائیں گے توباقی سارا مضمون ادھورا رہ جائے ۔ تو دل پر ہاتھ رکھ کر ” استغفار “ اور ” نعوذ باﷲ “ کی تسبیح کا ورد کرتے ہوئے مضمون کو پڑھنا شروع کریںکیونکہ عنوان میرا خود ساختہ نہیں بلکہ ۔۔۔! ” جیم“ نما نشان سے خود کو متعارف کروانے والے ایک معروف ابلاغی ادارے کے مکمل تعاون سے حال ہی میں بنائی گئی ایک فلم کا ہے جس فلم کا مرکزی خیال ” جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کیا“ یعنی ” دو بچے ہی اچھے “ اور” غیر دیندار گھرانہ خوشحال گھرانہ“ ہے۔ اس فلم پر زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد واشخاص نے تبصرے کیے!ملک کے ایک مشہور اخبار کے صحافیوں سے گفت وشنید کا اتفاق ہوا۔ ان اخبار نویسوں میں سے اکثر کی یہ رائے تھی کہ ”فلم “ بڑی ہٹ ہوئی ہے اور پاکستان نے اس فلم کے ذریعے کروڑوں کا بزنس کیا ہے ۔صحافی برادری کا خیال تھا کہ پاکستانی تاریخ میں یہ خوش آئند بات ہے اس سے ملک کے معاشی بحران میں کمی واقع ہوگئی وغیرہ وغیرہ ۔ خیر صحافی بھائیوں کی گفتگو سن کر میں بڑا رنجیدہ ہوا کیونکہ اسی اخبار کے ایک صاحب قلم نے اس فلم کی کچھ حقیقت ِ حال کا اظہار کیا تھا۔ میں نے ان کے سامنے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا اور اس کے علاوہ کچھ سنی سنائی باتیں بیان کیں تو کوئی ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ ان حضرات کا یہ رویہ دیکھ کر میں بھی متذبذب ہوگیا اور کہنے لگا کہ بھائی میں نے بھی خود تو نہیں دیکھی بس ایک صاحب قلم کی لکھی ہوئی بات تمہارے سامنے بیان کی ہے اور چند سنی سنائی سی باتیں۔ آخر کار فیصلہ اس بات پر ہواکہ تحقیق کے لیے فلم دیکھی جائے۔ بہر حال ابتداءسے انتہاءتک دیکھنے کی ہمت وجرات توکسی میں نہ تھی کیونکہ اس فلم میں اسلام کا جس انداز سے مذاق اڑایا گیا ہے اور اسلامی معاشرے کے چہرے کو جس طرح سے مسخ کیا گیا ہے ، اسلامی طرزِ معاشرت کو اس قطع وبرید کے ساتھ پیش کیا گیاہے جیسا کہ وہ بے جان جسم جس کے ناک ، کان ، ہونٹ کاٹ دیے گئے ہوں ، آنکھیں باہر نکال دی گئی ہو اور اس جسم کا کوئی پرسا نِ حال نہ ہو ۔ اس لاوارث لاشے کو دیکھ کر لوگ جس طرح خوف اور ہیبت محسوس کرتے ہیں اسی طرح یہ فلم دیکھنے کے بعد ناسمجھ لوگ اسلام سے خوف کھانے لگیں۔ خیر فلم چلتی رہی اور ایک ایک کر کے صحافی برادری استغفار پڑھتے ہوئے اٹھتی چلی گئی۔ اب یہ دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا کہ اس فلم میں روا اسلامی توہین آمیز ہر ہر ادا کو نوٹ کیا گیا ہے لیکن یہ دعویٰ ضرور ہے کہ جو بات بھی لکھی گئی ہے وہ سو فیصد درست لکھی گئی ہے ۔ بڑھا چڑھا کر نہیں ! تو فلم کی روداد سنائے دیتے ہیں۔ نقل ِ کفر ۔ کفر نہ باشد! اسلامی معاشرہ! انتہائی سخت ، ذ لت آمیز، حقارت بھرا، جھوٹ فراڈ پر مبنی، زیادہ بچے پیدا کرنے کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار، مار پیٹ کا علمبردار، غیرت کے نام پر قتل تک کی گنجائش، گھروالوں کو دھونس دھمکی اور ہمیشہ رعب میں رکھنا ، بات بے بات گالم گلوچ ، گھر کا ماحول ایسا آسیب زدہ ، نحوست بھرا ، رعب خوردہ کے دو بندوں کو گھر میں ہنس کر بات تک کرنے کی گنجائش نہیں ، دین کے داعی کو” دیوان اقبال “ تک سے اپنی مرضی کا فال نکالنے کی اجازت اور گھر والوںکا جائے نماز سے اٹھنا بھی محال ، بازار ِ حسن میں عصمت فروشی کرنے والی سے خلوت نشینی کر کے لڑکی جنوانے کے عوض ایڈوانس رقم لینا ۔ اس ایگریمنٹ کے ساتھ کہ لڑکی بھی عصمت فروشی کرے گی ۔ دین کا ٹھیکے دار شرافت واخلاق سے گری ہوئی اس حرکت کے ارتکاب کے لیے مسجد میں جاکر قرآن مجید سے فال نکالتا ہے جو کہ اس کے حق میں درست نکلتا ہے اور اس گری ہوئی حرکت کو کرنے سے پہلے سنت ِ رسول کو گٹر میں بہا دیتا ہے، یہ ساری تصویر کشی ایک دینی گھرانے کی کی گئی ہے۔غرض فلم کے اندر ہر طرح کی تکالیف اور مصیبتوں میں گھرے اس گھر کو جھنم نظیر بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مدِ مقابل روشن خیال اور غیر دینی گھرانے کو دکھایا گیا ہے جن کی زندگی کو انتہائی خوش وخرم دکھایا گیاہے کیونکہ اس روشن خیال گھرانے نے ” دو بچے ہی اچھے “ کے فارمولے پر عمل کیا ہوتا ہے۔اس گھرانے کی تعلیم وتربیت ،خوراک وپوشاک انتہائی اعلیٰ اور معیاری ، ان کے مزاج میں نرمی شائستگی ، اخلاق وکردار بظاہر اچھا ، گھر میں خوشحالی اور ہر قسم کی فراخی ۔ نہ مار پیٹ نہ دھونس دھمکی کا ماحول ، نہ خوف وحراس کی باز گشت ۔غرض ہر طرح کی مسرتوں اور خوشحالیوں سے بھرپور جنت نظیر گھرانے کے طور پراس خاندا ن کو دکھایا گیا ہے۔ فلم کے ڈائیلاگ! نعوذ باﷲ کی تسبیح کے ساتھ۔۔۔! حکیم صاحب جو پوری فلم میں دین کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں اس کے گھر نامرد لڑکے کی ولادت پر ہجڑا کہتاہے کہ فرشتے غلطی سے ہماری ایک چیز تمہارے ہاں دے گئے ہیں۔ حکیم صاحب اپنی بیٹی سے کہتاہے: رز ق کا ذمہ تو اﷲ تعالیٰ نے لے رکھا ہے ۔ جواباً بیٹی کہتی ہے : تو پھر ضرور فرشتوں کے پاس ہمار ا پتہ غلط لکھاہوگا کیونکہ ہمارے گھر تو رزق نہیں پہنچ رہا! دنیا میں جو اتنے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو کیا وہ اس لیے مر رہے ہیں کہ ”خدا “ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہا؟ باپ کہتا ہے : نعوذبا اﷲ کہہ خبیث ۔ تو اس پر لڑکی کہتی ہے : آپ کہیں نعوذ بااﷲابا ۔ کیونکہ میں تو اﷲ کی عزت بڑھا رہی ہوں۔ لڑکی پھر گویا ہوتی ہے : حکیم شفائت اﷲ نے کتنے بچے پیدا کرنے ہیں اور ماسٹر اختر حسین نے کتنے ۔۔۔یہ اﷲ میاں بیٹھ کر فرشتوں کو نہیں لکھواتے! حکیم صاحب حدیث سناتے ہیں:” زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کروکہ میں (محمد )قیامت کے روز اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا“ جواباً بیٹی کہتی ہے : تو بہ کریں ابا! اتنے بڑے پیغمبر ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ کہاہوگا انہوں نے بڑی ہو میری امت عزت میں، رتبے میں، ترقی میں ۔ وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چاہے گدھے ہوں لیکن سب سے زیادہ ہوں، چاہے فاقے کاٹ کر مر رہے ہوں لیکن سب سے زیادہ ہوں! ایک مقام پر بیٹی کہتی ہے : کاش میں خدا ہوتی ! میں ہر مرد سے ایک بچہ جنواتی ۔ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی شکست پر بیٹی والد سے کہتی ہے : ابا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اﷲ اوپر بیٹھ کر یہ فیصلے کرتے ہیں کہ انضمام نے کتنے رنز بنانے ہیں اور ٹنڈولکر نے کتنے؟ سارے پاکستانی دعائیں کرتے ہیں اور آسٹریلیا والے بغیر دعاوں کے ہی 20 سال سے جیت رہے ہیں۔ انڈیا پاکستان کا میچ کیا ہوتا ہے کہ پورے پاکستان نے اﷲ کو پریشان کیا ہوتاہے اور سارے انڈیا نے بھگوان کو مصیبت میں ڈالا ہوتا ہے۔ اگر ا ﷲ میاں نے ہی میچ جتوانا ہوتا تو 17، 17 سال کیوں لگادیتے ہمیں میچ جتوانے میں؟ ایک مقام پر لڑکی باپ سے کہتی ہے: آپ کا اور میرا خدا جدا جدا ہے کیونکہ جو دین آپ ہم پر ٹھونس رہے ہیں وہ ہمیں سمجھ نہیں آرہا۔ حکیم صاحب نامرد بیٹے کے بارے میں کہتا ہے: میرا بیٹا سوّر سے بھی بدتر تھااسی وجہ سے اس کو میں نے قتل کیا۔ نامرد بیٹے کے قتل کے بعد حکیم کہتا ہے : اسے قتل کر کے میں نے خدا کی غلطی کو ٹھیک کر دیا۔ ایک مقام پر کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں اور بیٹا پیدا کرنے کا ہنر مرد ہی کا ہے۔ بیٹی باپ سے کہتی ہے: بیٹیو ں کی قطار لگائی آپ نے خود۔۔۔! اور نام لگا رہے ہیں” اﷲ“ کا۔ آخر میں لڑکی ناظرین سے التجاءکرتی ہے : لوگوں سے کہو ! اور بھیک منگے پیدا مت کرو! روتی صورتیں اور بسورتی زندگیاں پہلے ہی بہت ہیں۔”جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو۔“ اور لڑکی کہتی ہے میرا سوال یہ ہے کہ : صرف مارنا ہی جرم ہے پیدا کرنا کیوں نہیں ؟ حرمت ِ قرآن پر تو مسلم امہ یک جاں ویک زباں ہوجایا کرتے تھے ۔ پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے ، جلسے ، جلوس شروع ہوجاتے تھے ۔ ناموس رسالت پر تو پوری دنیا کو ناکوں چنے چبوائے جاتے تھے ۔ امہات المومنین کے احترام کو اگر مجروح کیاجاتا تو ازواج مطہرات کی شان پر مرمٹنے والے چین سے نہیں بیٹھتے تھے ۔ لیکن نہ جانے امت مسلمہ کو کوئی سانپ سونگ گیا ، ان کے بیدار ضمیروں کو کوئی لاری لپے دے کر سلا گیا، نہ جانے ان کے غیرت وحمیت کے جنازے کو کوئی کندھا دے کر دفنا گیا، امت مسلمہ کے یک لخت جسم میں انجانے رہزنوں نے نقب زنی کی اور کھرچی لے کر ان کے قلب سے حب رسول ، ازواج حب رسول ، اصحاب حب رسول کے پودوں کو ایک ایک کر کے اکھاڑ پھینکا ! یا پھر اُمت ِمسلمہ کو کانوں کان اس کی خبر ہی نہیں ہوئی ، یا ان غلیظ اور توہین آمیز مناظر کو ان کی آنکھوں نے دیکھنا گوارہ نہ کیا۔ ماقبل میں ذکر کیے گئے کفریہ ڈائیلاگ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس فلم میں ان سارے جرائم اور گناہوں کا ارتکاب کیا گیا ۔ بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے نکل گئے ہیں کہ خدا بننے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اور اﷲ کے آخری نبی جناب محمد الرسول اﷲ ﷺ کی حدیث کا انکار کر کے کہا گیاہے کہ نعوذ با ﷲ ہم حدیث میں اپنی مرضی کی تاویل کر کے حضور ﷺ کی عزت بڑھا رہے ہیں۔۔۔! سر عام اس قسم کی گستاخیاں کی گئیں ، اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کیے گئے ، اسلام کے بنیادی عقیدے ” تقدیر “ کے متعلق اول فول بکا گیا ۔فرشتوں کی توہین کا ارتکاب کیا گیا ، اسلام کے بنیاد میں نقب لگانے کی کوشش کی گئی ۔ جو غیروں سے پچاس سالوں میں نہ ہوسکا ” آستین کے سانپ “ کی مانند اپنوں نے وہ ایک فلم کے ذریعے ہی کرڈالالیکن۔۔۔! اعلیٰ عہدوں پر فائز کسی سرکاری وغیر سرکای شخصیت کی جانب سے نہ تو اس پر کوئی ایکشن لیا گیا اور نہ ہی مذمتی بیان آیا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کا کوئی احتجاج بھی اس فلم پر رکارڈ نہیں کیا گیا۔ اسلام کی دعوے دار جماعتیں بھی اس معاملے پر تحمل وبرداشت کا مظاہرہ کرتی رہیں ۔ کسی تنظیم یا اعلیٰ شخصیت کی جانب سے شعائر اﷲ اور شعائر اسلام کی دھجیاں بکھیرنے والی ،درجن بھر گستاخیوں کی جامع اس فلم پر پابندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ تعجب اس فلم کے بنانے والوں پر نہیں خاموش رہنے والوں پر ہے ! ا س فلم کا مشہور ڈائیلاگ جو زبان زد عام ہوچکا ہے یہ ہے کہ ۔۔۔” جب ہمیں کھلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا“ ! کیا رزق کے ذمہ دار والدین ہیں ؟قرآن مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اﷲ نے اپنے ذمہ نہ لے رکھا ہو ۔ وہ اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور عارضی ٹھکانے کوبھی ۔ ہر بات ایک واضح کتاب میں درج ہے ۔ (سورة ھود : آیت نمبر ۵) ۔ پانی کے اندر مچھلیوں کو رزق دینے والا کون ہے ؟ جنگلوں میں جانوروں کی پرورش کرنے والا کون ہے ؟صحراوں اور بیابانوں میں مختلف النوع حشرات کے رزق کا کفیل کون ہے ؟پہاڑوں اور چٹانوں کے اندر بسنے والے کیڑوں کو ان مہر زدہ چٹانوں میں زرق کو ن مہیا کرتا ہے ؟ فضاوں میں اڑنے والے پرندوں اور زمین پر رینگنے والی مخلوق کا پیٹ کون بھرتاہے اس نیلگوں آسمان تلے پرورش پزیز مختلف الانواع قسم کی مخلوقات کے رزق کا کفیل جب وہ قادر ِ مطلق ذات ہے تو اشرف المخلوقات کے تمغہ امتیاز سے نوازے گئے اس نبی نوع انسان کے رزق کا ذمہ داراس ذات کے سوا کون ہوسکتا ہے ۔؟ جب رزق کا ذمہ اﷲ کاہے تو اس جملے ” جب ہمیں کھلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا“ کا کیا مقصد؟اﷲ پر تہمت زنی کرنے والی اس بدبخت لڑکی کے اس جملے پر ذرا غور کرومسلمانوں! ” فرشتوں کے پاس ضرور ہماراایڈیس غلط لکھا ہوگا“ کیونکہ ہمارے ہاں تو رزق نہیں پہنچ رہا“ تو اس فقرے کا کیا مطلب ؟کیا ماقبل میں ذکر کی گئی قرآن کی آیت کا صریح انکار نہیں ؟کیا معاشی بدحالی کی صورتیںدکھا کر ” مسلم نسل کشی “ کی مہم پرپلیننگ کے تحت عملد رآمد شروع کردیا گیا ہے ۔ خاندانی منصوبہ بندی کا ڈونگ رچانے کے بعد ،” دو بچے ہی اچھے“ کا نسخہ متعارف کروانے کے بعد ” کم بچے خوشخال گھرانہ “جیسے فقرے جو مٹھائی میں زہر بند کرنے کے مترادف ہے کی شاندار کامیابی کے بعد اب نیا جملہ مارکیٹ میں لایا گیا ہے ! کہ ” جب ہمیں کھلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا“ ۔ ظالموں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش مت کرو۔ اپنی وفاداری کی تاریخ رقم کرنے کی فکر میں مسلمانوں کی نسل کشی مہم کا حصہ مت بنو ، کھلتے پھولوں کو مسل کر ان سے زندگی کا حق مت چھینو! فلم کے ایک سین میں پیغمبر دو جہاں ﷺ پر نازل کی گئی آخری الہامی کتاب ”قرآن مجید “ کی بے حرمتی اس انداز میںکی گئی کہ ۔۔۔تھانیدار ایک حکیم صاحب سے قتل کی تفتیش کے دوران سگریٹ کی مالش کرتے ہوئے اس میں تمباکو برابر کرتے ہیں اور احترام اور تقدس کا خیال دل میں لائے بنا دراز سے قرآن کریم کے نسخہ کو نکالتے ہیں اور سامنے برا جمان حکیم صاحب کے سامنے میز کے کنارے پر قرآن کریم رکھتے ہوئے( بلکہ تقریباً پٹختے ہوئے) اس پر ہاتھ رکھ کر صدق بیانی کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ حکیم صاحب بظاہر قرآن کے تقدس کا لاج رکھتے ہوئے اس پر ہاتھ رکھنے سے احتراز کرتے ہیں اور اعتراف جرم کرلیتے ہیں ۔ تھانیدار صاحب بغیر کسی ظاہری وباطنی احتیاط واحترام کے قرآن مجید کو اٹھا کر دراز میں رکھ دیتے ہیں اور چند لمحے توقف کے بعد پھر سے سگریٹ کو سلگانے لگتے ہیں۔ اس گھناونی فلم کا ایک تاریک منظر یہ بھی ہے کہ۔۔۔ حکیم صاحب کی بیٹی کے رشتے کے سلسلے میں آئے ہوئے مہمان دوران گفتگو حکیم صاحب سے یہ کہتے ہیں کہ دولہا کا نام تو ” مصطفی“ ہے اور تمہاری بیٹی کا نام ” عائشہ “ ہے یہ بھی اچھی بات ہے کیا ہی مقدس سنت پوری ہو رہی ہے، جس پر حکیم صاحب گویا ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح تو میری دیگر بیٹیوں کے نام بھی ازواج مطہرات کے ناموں جیسے ہی ہیں تو کیا (نعوذ بااﷲ) میں ان کی شادی بھی ” مصطفی “ سے کروادوں! فلموں میں پیغمبر دوجہاں ﷺ کے پاک نام کو استعمال کرنا، آپ کی ازواج مطہرات کے مقدس ناموں کا استعمال کرنا۔ غلیظ اور کمینے جوڑے کی جھوٹی شادی کو آقائے نامدار ﷺ کی ازدواجی زندگی سے تعبیر کرنا، دیگر بیٹیوں کے نام ازواج مطہرات کے ناموں سے مشابہہ رکھ کر اس فلم کے کردار اور نبی آخر الزمان ﷺکے مابین مشابہت اور تمثیل کی صورت پیش کر کے پیغمبر انقلاب کی ازدواجی حیثیت کو مجروح کرنا۔ یہ کہاں کا انصاف ، کہاں کی شرافت ، کہاں کی انسانیت اور کہاں کی مسلمانی ہے ؟امت محمدیہ کے نوخیز نسلوں کی آبیاری جب اس طرح بدبودار متعفن ماحول میں کی جائے گی، ان کھلتے پھولوں کے اخلاق وکرادار کو جب اس طرح روندا اور کچلا جائے گا۔ امت مسلمہ کے ان ہنستے کھیلتے معصوم بچوں کو جب اس طرح کی آلودہ فلمیں دکھائی جائیں گی تو رفتہ رفتہ ان کے پاک قلوب بھی آلودگی کا شکار ہونے لگیں گے ، ان کے کچے ذہنوں میںخباثت اگلتی یہ فلمیں انمٹ نقش چھوڑ دے گی اور لادینیت کے بہتے طوفانوں میںبے سہارے تنکوں کی طرح انہیں بہا لے جائے گی۔ وہ طوفان جس کا نہ کوئی کنارہ ہے نہ ہی کوئی منزل ، وہ کشتی جس کا نہ کوئی ملاح ہو نہ ہی کوئی مسافر ۔ بستیاں اجاڑتے اس طوفان میں جو اس تنکے اور بے سہارا کشتی کا حال ہوتا ہے کہ کبھی ایک چٹان سے ٹکراتی ہے تو کبھی دوسرے چٹان سے ۔ ایک بھنور میں سے نکلتی ہے تو دوسری کھائی اس کی منتظر نظر آتی ہے۔ تباہی پھیلانے والے اس طوفان کے مدوجزر کے رحم وکرم پر جس کشتی کو چھوڑ دیا جائے تو اسے پاش پاش ہونے سے کون روک سکتاہے ؟ اس کشتی کو ریزہ ریزہ ہو کر اس طوفان کا حصہ بننے سے کون روک سکتا ہے؟چند ہی لمحوںمیں اس کشتی کا نام ونشان ختم ہوکر رہ جائے گا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بھی اس طوفان میں شدت کا باعث بن سکے گی اور بس! اگر کل قیامت کے دن شافع محشر جناب محمد الرسول اﷲ ﷺ اعراض فرمالیں کہ میری ناموس پر کوئی احتجاج کرنے والا بھی نہ تھا ، میری لاڈلی ”حمیرا“کی تقدس کا لاج رکھنے والا کوئی نہ تھا ، امہات المومنین کے کردار کو داغ دار کر کے پیش کیا جارہا تھا اس داغ کو اپنے سینوں پر لینے کے لیے کوئی ایک تنظیم ، جماعت ، صاحب اقتداراور جاہ حشمت کا مالک کوئی ایک فرد تیار نہ تھا۔ لوح پر لکھے گئے اس پاک کلام کے احترام کو جب سرِ بازار نیلام کیا جارہاتھا ، اس لاریب کتاب کی آیتوں کا سرعام انکار کیا جارہا تھا ۔ تو اس جرم کا ارتکاب کرنے والے بدبخت کو کوئی ”مجرم “ کہنے کو تیار نہ تھا ، کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار نہ تھا ، کوئی ان کے اس گھناونے جرم کو آشکار کرنے کے لیے آمادہ نہ تھا ، صحافت کو چوتھے ستون سے تعبیر کرنے والے ذرائع ابلاغ کے دوسرے ادارے اس عظیم جر م پر خصوصی ایڈیشن نکالنے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ مصلحت کی لمبی چادریں صرف اس وجہ سے اوڑھی گئی تھیں کہ یہ فلم ایک بڑے ابلاغی ادارے کی جانب سے ریلیز کی گئی ہے کہ اگر ہم اس کے خلا ف آواز اٹھائیں گے تو یہ ادارہ ہماری کردار کشی کردیگا، میڈیا کی طاقت سے ہمیں رسوا کرد ے گا ۔ اپنی فکر تو تمہیں خوب تھی لیکن تمہارے سامنے میرا مذاق اڑایا جا رہا تھا ، مجھ پر نازل کی گئی آخری کتاب قرآن کریم کا مذاق اڑا یا جارہا تھا ، فرشتوں کا مذاق اڑایا جارہا تھا ، میری ازواج کا مذاق اڑایا جارہا تھالیکن اس وقت تمہیں اپنے کردار کی فکر تھی ، اپنی عزت کی فکر تھی ہماری نہیں تو کل تم نے مجھ سے اعراض کیا آج میں تم سے اعراض کرتاہوں تو بتاو کیا حال ہوگا اس وقت! قابل قدر قارئین !اس مضمون کے توسط سے میری ہر خاص وعام مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے ، جوان اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک ایک فرد سے گزارش ہے کہ ۔۔۔!ہر سطح پر گمراہی کے اس طوفان کے آگے بند باندھا جائے ، ہر نہج پر اپنا احتجاج اس کے خلاف رکارڈ کروایا جائے ، اس چینل کو دیکھنا بند کیا جائے ، اشتہار دینے والے اس چینل کو اس وقت تک اشتہارات نہ دیں، نعت خواں حضرات اس چینل کے پلیٹ فارم سے نعت خوانی اس وقت تک ترک کردیں ۔ کہ جب تک سر عام گستاخیاں کرنے والے عوام اور میڈیا کے سامنے اعتراف جرم نہ کر لیں اور اس پر قوم سے صدق دل سے معافی طلب نہ کر لیں ۔ محترم قارئین! ہو سکتا ہے اس تھوڑے سے بائیکاٹ سے گستاخیوں کے مرتکب ٹولے کو توبہ کی توفیق مل جائے ۔ یا کم از کم اس معمولی سے احتجاج کے طفیل حوض کوثر پر آقا مدنی کریم ﷺ کے ہاتھوں کوثر کا جام ہی نصیب ہوجائے
  10. Moulana Sab ki chand Ap beetian molaheza ki jeye
  11. منافقین کو چوڑیاں مبارک ولد الحرام اور خنزیر صرف یورپ کے قحبہ خانوں اور جنگلوں میں نہیں ہوتے بلکہ قادیانی خنزیروں کے ان نام نہاد ادبی گروپوں میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں جن میں ہروقت دین اسلام ، اللہ اس کے نبیوں اور شریعت کا کھلا مزاق اڑایا جاتا ہے۔ آج کل کائنات کے سب سے بڑے خنزیر مرزا ملعون قادیانی کے حرامزادے پیروکار رفیع رضا کے گروپ میں نعت ، مرثیہ، واقعہ کربلا ، مذہب، شریعت کی کھلی توہین کی جا رہی ہے۔ خود کو مسلمان کہنے اور نعتیں پڑھ کر مسلمانوں کو بیوقوف بنانے والا قادیانی راہبہ یاسمین حبیب کا لعنتی شوہر منصور آفاق احمد فراز کو میر تقی میرسے بڑا شاعر قرار دینے اور پاکستان کو برا بھلا کہنے میں مصروف برطانوی نیشنیلٹی دینے والے اپنے قادیانی مالکوں کو خوش کر رہا ہے، اردو ادب کے مکروہ اور لعنت زدہ کردار توہین الہیت اور اہانت دین پر شعر فرما رہے ہیں۔ اللہ کی لعنت ہے ان بزدل اور ڈرپوک اور منافق ادیبوں اور شاعروں پر جو سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش ہیں۔ میں ان خنزیرزادوں کے نیا تخلیقی شاعری گروپ پر ان حرامزادوں کی طرف سے توہین اسلام اور اہانتِ دین پر لکھے اشعار میں سے صرف ایک گستاخانہ شعر کاپی کر رہی ہوں۔ آسمانوں سے تو اتری ہے نبوت نہ کتاب آسمانوں میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں آج میں ان تمام نام نہاد مسلمان شعرا کو چوڑیاں پیش کر رہی ہوں جو جمیل رخمن جیسے باسٹرڈ شاتم اسلام قادیانی کی طرف سے قران پاک کو تضادات کی کتاب قرار دینے کے جرم پر بھی خاموش رہے اوررفیع رضا جیسے حرامزادے کی بار بار توہین دین ، توہین رسالت یا قادیانیوں کے پٹھو بدبخت منصور آفاق جیسے خنزیروں کی اسلام دشمن منافقت پر تالیاں بجاتے یا بزدل ہجڑوں کی طرح چپ چاپ تماشہ دیکھتے ہیں۔ سیدہ سارا غزل ہاشمی
  12. is badbakht ko bhi sono ye bhi is ka bhai ek or wahabi Alam he sheikh Al arefi is ka nam he apni taraf se sorat tufaha yani apple bana di is ne or baqaeda oski telawat bhi kar raha he [media]http://www.youtube.com/watch?v=UlB5fXoPc-g&feature=related[/media]
  13. Raza11

    40 Ahadees Khatm E Nabowat Per

    بسم اﷲ الرحمن الرحیم 1۔ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” بے شک نبوت اور رسالت منقطع ہو چکی پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ نبی ۔ (ترمذی) 2۔ امین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہے کہ آقائے کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے فرمایا” میں خاتم الانبیاءہوں اور میری مسجدا نبیاءکی مساجد کی آخری ہے“۔( کنز العمال) 3۔سیدنا ابو ہریرة رضی ا ﷲعنہ حضور اقدس صلی ا ﷲ علیہ وسلم کا فرمان عالی نقل کرتے ہیں فرمایا” میں آخر الانبیاءہوں اور میری مسجد آخر المساجد ہے“(مسلم) 4۔ نبی کریم علیہ الصلوة التسلیم نے اپنے صاحبزادے سیدنا ابراہیم رضی اﷲعنہ کی وفات کے موقع پر ارشاد فرمایا” اگر ابراہیم زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا لیکن میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ (بخاری) 5۔اور فرمایا اس کے جنت میں ايک دودھ پلانے والی کا انتظام ہے۔اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔(ابن ماجہ) 6۔عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے فرمایا رسول کریم علیہ الصلوة التسلیم نے ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب (رضی اﷲ عنہ) ہوتا“(ترمذی) 7۔سیدنا ابوہریرة رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیہم اجمعین نے سرکار عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ کو نبوت کب ملی تو فرمایا” جب آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے “ (یعنی ان میں ابھی روح نہیں روح پھونکی گئی تھی مرتبہ کہ اعتبار سے میں ا س وقت بھی اﷲ کا نبی تھا)۔ (ترمذی) 8۔سیدنا عرباض بن سارےہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” میں اﷲ کے نزديک اس وقت خاتم النبیین مقرر ہو چکا تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی گار ہے ہی کی شکل میں تھے“۔(ترمذی) 9۔فرمایا رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ” میں پیدائش کے اعتبار سے تمام انبیاءسے اول ہوں اور بعثت کے اعتبار سے آخری ہوں۔ (یعنی میرا آخری نبی ہونا اسو قت مقرر ہو چکا تھا) (خضائص کبری) 10۔ حدیث معراج میں سید نا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ”معراج کے موقع پر فرشتوں نے سیدنا جبرئیل امین علیہ الصلوة التسلیم سے دریافت کیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ تو فرمایا”محمد“ صلی اﷲ علیہ وسلم کے رسول اور خاتم النبین ہیں“۔ (ترجمان السنہ از مولانا بدر عالم) 11۔سیدنا ابو ہریرة رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ا ﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” مجھے باقی انبیا ءپر چھ باتوں کی وجہ سے فضلیت دی گئی۔ ۱۔ مجھے جامع کلمات عطا کيے گئے۔ ۲۔ دشمن پر رعب اور دبدبہ کے ذریعے میری مدد کی گئی۔ ۳۔میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیا۔ ۴۔ میرے ليے تمام زمین کو پاک کر کے مسجد بنا دیا گیا۔ ۵۔ مجھے ساری مخلوق کی طرف بھیجا گیا۔ ۶۔ میرے بعد سلسلہ نبوت ختم کر دیا گیا۔ (بخاری ومسلم) 12۔سیدنا رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا ”( شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو نلا کر فرمایا) ”میں اورقیامت اس طرح ہیں جس طرح ےہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں“ بتلانا يہ مقصود ہے کہ میرے بعد قیامت تو آئے گی لیکن کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ ( بخاری) 13۔ سیدنا نعیم بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی ا ﷲعلیہ وسلم نے فرمایا” بے شک عنقریب میری امت میں تیں (30) جھوٹے ہونگے ان میں سے ہر ايک کہے گا وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔( منصف ابن ابی شیبہ) 14۔ سیدنا ابو ہر یرة رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ”نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دوگروہ آپس میں نہ لڑیں، دونوں میں بڑی جنگ ہو گی اور دونوں کا دعوی ايک ہو گا اور قیامت ا سوقت قائم نہ ہو گی جب تک کہ تیس کے قریب جھوٹے دجال نہ ظاہر ہو جائیں ہر ايک کہے گا” میں ا ﷲ کا رسول ہوں“ ( بخاری) 15۔سیدنا ابو امامہ الباھلی سے مروی ہے کہ رسول ا کرم صلی ا ﷲعلیہ وسلم نے فرمایا ”میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو“۔( ابن ماجہ) 16۔ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور عالم صلی ا ﷲعلیہ وسلم نے فرمایا” بے شک میں ا ﷲکابندہ ہوں اور انبیاءکرام کا خاتم ہوں؟ ( مستدرک حاکم ۔مسند احمد) 17۔سیدنا ابو ہریرہ رضی ا ﷲعنہ فرماتے ہیں کہ رسول ا کرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہم (امت محمديہ علیہا الصلوة والسلام) اہل دنیا میں سب سے آخر میں آئے اور روز قیامت کے وہ اولین ہیں جن کا تمام مخلوقات میںسب سے پہلے حساب ہو گا۔(مسلم) 18۔سیدنا ضحاک بن نوفل رسول کریم علیہ الصلوة السلام سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا”میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں“ (المعجم الکبیر للطبرانی) 19۔فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ” میں تمام رسولوں کا قائد ہو ں لیکن فخر نہیں کرتا اور تمام انبیاءکا ختم کرنے والا ہوں (یعنی نبوت ختم کرنے والا) مگر فخر نہیں کرتا اور میں پہلا شفاعت کرنےو لا ہوں اور مقبول شفاعت ہوں اور کوئی فخر نہیں کرتا“ (مسلم) 20۔سیدنا ابو ہریرة رضی اﷲ عنہ راوی ہے کہ رسول کریم علیہ الصلوة التسلیم نے فرمایا ” میری اور مجھ سے پہلے انبیا کرام کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے کوئی مکان بنایا اس میں ہر طرح سے زیب و زنیت کی مگر ايک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی،لوگ عظیم الشان مکان کی تعمیر ديکھ کر حیرانی کا اظہار کریں اور کہیں کہ اس جگہ بھی اینٹ رکھ دی جاتی تا کہ تعمیر مکمل ہو جاتی۔ ختم الرسل نے فرمایا ”قیامت تک آنے والے انسانو! نبوت کے گھر کی وہ آخری اینٹ میں ہوں لہذا نبوت کا مکان مکمل ہو گیا“۔ (بخاری) 21۔ سیدنا ابو ہریرة رضی ا ﷲعنہ سے روایت ہے فرمایا” ہم سب س آخر والے روز قیامت مقدم ہوں گے اور ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگے حالانکہ پہلے والوں کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی او رہمیں ان سب کے بعد“ ( مسلم) 22۔سیدنا جبیر بن مطعم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ”رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا“ بے شک میرے کئی نام ہیں: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، ماحی ہوں یعنی اﷲ میرے ذرےعے کفر کو مٹا دے گا۔ اور حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا اور عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو“(مسلم) 23۔سیدنا محمد بن جبیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے فرمایا” میرے پانچ نام ہیں: میں محمد ہوں، احمد ہوں، ماحی ہوں اور میرے ذريعے کفر کو مٹائے گا۔ حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا اور عاقب ہو ں (یعنی میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا) (بخاری) 24۔ فرمایا خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے ”میرے بعد جو شخص دعوی نبوت کرےگا وہ دجال، کذاب ہوگا۔( ترمذی، ابو داؤد، مشکوة)۔ 25۔حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک سیدنا ابو ہریرة رضی اﷲ عنہ کے ساتھ رہا میں نے خو سنا کہ وہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ” نبی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاءکیا کرتے تھے جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تو اﷲ تعالی خود کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنا دیتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ چار خلفاءہوں گے اور بہت ہونگے، صحابہ نے عرض کیا ان کے متعلق آپ کی حکم ديتے ہیں فرمایا ہر ايک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو، اور ان کے حق اطاعت کوپورا کرو، اس لئے کہ اﷲ تعالی ان کی رعیت کے متعلق ان سے سوال کرےگا۔(بخاری) 26۔سیدنا ابو ہریرة نے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوة السلام نے فرمایا ” نبی اسرائیل کا نظام حکومت ان کے انبیاءچلایا کرتے تھے جب کبھی ايک نبی رخصت ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا اور بے شک میرے بعد تم میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔( مصنف ابن ابی شیبہ) 27۔سیدنا سعد بن ابی وقاص رحمتہ اﷲ سے مروی ہے کہ ”غزوہ تبوک میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو مدینہ میں خواتین اور بچوں کے پاس چھوڑا تو عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا تو فرمایا ! اے علی! کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے موسی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم) 28۔سیدنا ابوذر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا اے ابو ذر! انبیا ءمیں سب سے پہلے آدم علیہ السلام اور سب سے آخر میں محمد صلی ا ﷲعلیہ وسلم ہوں۔(فردوس ماثور دیلمی) 29۔ام کرز رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوة السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبوت ختم ہو گئی صرف مبشرات(سچے خواب) باقی رہ گئے۔(ابن ماجہ) 30۔سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرمایا! اے لوگو علامات نبوت میں سے صرف سچے خواب مہر نبوت ديکھی جس کا رنگ جسم کے رنگ کے مشابہ تھا ( مسلم) 31۔سیدنا جابر بن سمرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت ديکھی جس کا رنگ جس کے رنگ کے مشابہ تھا ۔(مسلم) 32۔سیدنا علی رضی ا ﷲ عنہ سے مروی ايک طویل روایت ہے فرمایا”حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں“(ترمذی) 33۔سیدنا ابو ہریرة سے روایت ہے کہ رسول کریم علیہ الصلوة السلام نے فرمایا” میں سویا ہوا تھا میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اورمیرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے جو مجھے بہت بھاری لگے اور میں ان سے متفکر ہوا پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان کو پھونک مار کر اڑادوںمیں نے پھونک ماری تو وہ اڑگئے، میں نے اس خواب کی تعبیر يہ لی کہ میں دوکذابوں کے درمیان ہوں، ايک صاحب صنعا ءاور دوسرا صاحب یمامہ۔ (مسلم) 34۔سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اےک حدیث کے آخر میں ہے” میں نے اسی کی تعمیر يہ لی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخص کا ظہور ہوگا ايک ان میں سے صنعاءکا رہنے والا عنسی اور دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسلمہ ہے۔ (مسلم) 35۔ سیدنا وھب بن منبہ سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے ايک حدیث کے ذیل میں روایت کرتے ہیں کہ ” حضرت نوح علیہ السلام کی امت کہے گی اے احمد صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کو ےہ کیسے معلوم ہوا حالانکہ آپ علیہ السلام (آخری نبی) اور آپ کی امت امتوں میں آخری امت ہے “ (مستدرک حاکم) 36۔فرمایا ختم الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم نے ” میرے بعد کوئی نبی نہیں اورنہ تمہارے بعدکوئی امت ہے پس اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں قائم کرو، رمضان کے رورے رکھو، اور اپنے اولوالامر (اہل الرائے علمائ) کی اطاعت کرو پس اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ “ ( کنزالعمال) 37۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” اے لوگو‘ بےشک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ہے ، آگاہ روہوپس اپنے رب کی عبادت کرو، اور پانچ نمازں ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو، اور صلی رحمی کرو، اور خوشدلی سے زکوة اداکرو، اور ان لوگوں کی اطاعت کرو جو تمہارے امور کے والی ہیں اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔(ابو اؤد، ترمذی) 38۔سیدنا ثوبان رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا خاتم النبیین علیہ الصلوة التسلیم نے ”میری امت میں تیس جھوٹ پیدا ہونگے، ہر ايک کہے کا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں“ (ابو اؤد، ترمذی) 39۔فرمایا رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ” قیامت کے دن کسی نبی کے ہزاروں امتی ہونگے کسی کے ساتھ سینکڑوں کسی ساتھ چند اور کسی نبی کے ساتھ کوئی امتی نہ ہوگا۔جبکہ میری امت کا نظارہ قابل دید ہوگا میرے چاروں طرف تاحدنگاہ میری امت کا سیلاب ہوگا“ (بخاری ، مسلم،شکواة) 40۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے راویت ہے کہ اﷲ تعالی نے فرمایا ” میں نے آپ کی امت کو سب سے آخر میں بھیجا اور يہ حساب میں سب سے پہلے ہو گی اور آپ نبیوں میں سے سب پہلے پیدا کیا اور سب سے آخر میں بھیجا اور آپ کو فاتح یعنی دورہ نبوت شروع کرنے والا بنایا اور آپ ہی کو اس کا ختم کرنے والا بنایا“۔
  14. http://Deobandi Terrorists ko Americi Funds Milnay ka Raaz Fash
  15. Bahizaeed hameed Say kahiyn woh jahan kahiy ham aaiyn gay Hafiz Tahir Mahmood Ashrafi Chairman Pakistan Ulema Council On 25-Sep-2011, at 12:37 PM, [email protected] wrote: > Basid Ahtram janab Tahir Ashrafi sab;Guzaresh he ke apka ijtemaa baroz e jamaa mubarak faisalabad me jis me apne phir. Janab Zaid Hamid ke khilaf Ilzamat lagae ju ke daleel se mu barer the,kya apki nazr ye behtar na hota ke ap un ilzamat ko dalail ke sat awam nas ke samne pesh karte take ham awam ko Zaid Hamid ke mu taliq jis khosh fahmi ahsas he woh zail hojata or apke kam ko ek dini fareedha samajh ke apke sat kare shareek hojate ,lakin bohat afsos ke sat kahna parta he ke ap mahez ilzam be gher daleel ki policy per kar farma he jo batore alam ke apko suit nei karta,ek martaba phir me apko dawat deta hon ke aye or apne ilzamat sabit karen kisi forum per Quran or Sunat ke hawale se agr apki sahih nikli to Inshallah ham sab apke sat hen or agr ni to apko asi baton se tauba karen or Janab Zaid Hamid ke mission Takmeel e Pakistan me sat den . وما علبنا للبلاغFarooq Raza Alteejani > Sent from my BlackBerry® smartphone from du
  16. GUZARESH,KE IS FAQEER NE MOVLI HAFIZ TAHIR ASHRAFI KO ZAID HAMID PER APNI BAKWAS NASHR KARNE PER CHALLENGE KYA THA LAKIN HAR BAR AE BAE SHAN KAR TA RAH DEOBANDI MOLVI,LAKIN MERA AJ BHI OSKO CHALLENGE HE KE WOH AE IS FORUM PER YA KISI BHI FORUM PER OR MUNAZIRA KAR LEN HAMRE SATH,SHUKRIA
  17. <p>Guzaresh he Maloon Imtiaz Alam Jo secretary general hen SAFMA ke , ek debate show me jiska nam he Awam ki Adalat. Hazoor Salaho Alaihe Wasalam ki Sulah Hudaibia ko Begharti se Taabeer kia he ,Yaad rahe Imtiaz Alam ke Deobandi Ulooma se khob tar marasim he ,Ahle suna ke Ulooma se por Zor Darkhowast he ke is Shakhs sarzinish kare or is per Fatwa lagaen.
  18. Mashallah Jazak Allah Bohat khob Taheed bhai Ap ne Bohat hi Umda Bayan pesh kya he Allah apko doi Jahaan me khush rakhe Ameen.
  19. Jazzak Allah,Toheed bhai,Mashallah kafi umda mazmoon likha apne,Meri Guzaresh he ek Baqaeda esa thread bana chaheye jo Sirf inke cheeda cheeda Molvio ka Ziker ho,Yani har ek Biography us me Hame milti ho take ham jese log Dokha nahi kahe Shukria
×
×
  • Create New...