Jump to content

Raza11

اراکین
  • کل پوسٹس

    422
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    12

سب کچھ Raza11 نے پوسٹ کیا

  1. Saeedi Sab ap inki ye khowash bhi pori ker len take inko bar bar ye kahne ka muqa na mile ke hamre un sawalon ka jawab na mila.
  2. Raza11

    قدم بوسي سنت هى

    اسلام میں قدم بوسی کا صحیح تصور اسلام کی رو سے کیا قدم بوسی سجدہ ہے؟ کیا قدم بوسی شرک ہے؟ اِس کے بارے میں اِسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ لہٰذا اِس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ اگر بعض حالات میں کسی نے تقبیلِ رِجلین (قدم بوسی) کر بھی لی تو اس پر کیا حکمِ شرعی لاگو ہوگا۔ ذیل میں اس سے متعلقہ چند احادیث و آثار درج کیے جاتے ہیں: ١۔ زارع بن عامر – جو وفدِ عبد القیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے – سے مروی ہے: لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِيْنَةَ فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا، فَنُقَبِّلُ يَدَ رَسُولِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم وَرِجْلَهُ. ”جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں سے کود کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔” اس حدیث کو صحاح ستہ میں سے سنن ابی داود (کتاب الادب، باب قبلۃ الجسد، ٤: ٣٥٧، رقم: ٥٢٢٥) میں روایت کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اسے امام بیہقی نے السنن الکبری (7: 102) میں اور امام طبرانی نے اپنی دو کتب المعجم الکبیر (٥: ٢٧٥، رقم: ٥٣١٣) اور المعجم الاوسط (1: 133، رقم: ۴۱۸) میں روایت کیا ہے۔ ٢۔ امام بخاری نے ”الادب المفرد” میں باب تقبيل الرِّجل قائم کیا ہے یعنی ”پاؤں کو بوسہ دینے کا بیان۔” اس باب کے اندر صفحہ نمبر ۳۳۹ پر حدیث نمبر ۹۷۵ کے تحت انہوں نے مذکورہ بالا حدیث کو حضرت وازع بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: قَدِمْنَا فَقِيْلَ: ذَاکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَأَخَذْنَا بِيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ نُقَبِّلُهَا. ”ہم مدینہ حاضر ہوئے تو (ہمیں) کہا گیا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور اُنہیں بوسہ دینے لگے۔” یہ الفاظ خاص مفہوم کے حامل ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے صرف ہاتھ مبارک پکڑنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ہاتھوں کے علاوہ پاؤں مبارک کو بھی بوسہ دینے کا عمل جاری رکھا درآں حالیکہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑ رکھے تھے۔ ٣۔ امام ترمذی نے اس مضمون پر ایک حدیث حضرت صفوان بن عسّال رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قومِ یہود کے بعض افراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرنے کے بعد اعلانیہ گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں: فَقَبَّلُوْا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ. وَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ. ”انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا، اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں۔” اس حدیث مبارکہ کو امام نسائی نے السنن (کتاب تحریم الدم، ۷: ۱۱۱، رقم: ۴۰۷۸) میں اور امام ابن ماجہ نے السنن (کتاب الادب، باب الرجل یقبّل ید الرجل، ٢: ١٢٢١، رقم: ٣٧٠٥) میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو الجامع میں دو جگہ روایت کیا ہے: پہلی بار ابواب الاستئذان والآداب میں باب فی قبلۃ الید والرجل (٥: ٧٧، رقم: ٢٧٣٣) میں اور دوسری بار ابواب التفسیر کے باب ومن سورۃ بنی اسرائیل (۵: ۳۰۵، رقم: ۳۱۴۴) میں۔ امام احمد بن حنبل نے المسند (۴: ۲۳۹، ۲۴۰) میں، امام حاکم نے المستدرک (۱: ۵۲، رقم: ۲۰) میں، امام طیالسی نے المسند (ص: ۱۶۰، رقم: ۱۱۶۴) میں اور امام مقدسی نے الاحادیث المختارہ (٨: ٢٩، رقم: ١٨) میں روایت کیا ہے۔ اتنے اجل محدثین کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا۔ ٤۔ علامہ ابن تیمیہ کے جلیل القدر شاگرد حافظ ابن کثیر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ١٠١ کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر خفا ہو کر جلال میں آگئے تو: فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَضِيْنَا بِاﷲِ رَبًّا وَبِکَ نَبِيًّا وَبِالإِْسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اﷲُ عَنْکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ. ” حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چوم کر عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، آپ کے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام و راہنما ہونے پر راضی ہیں، ہمیں معاف فرما دیجئے۔ اﷲ تعالیٰ آپ سے مزید راضی ہو گا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل عرض کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہو گئے۔” اس روایت کو دیگر مفسرین نے بھی متعلقہ آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے اجل صحابی کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چومنا اور خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں منع نہ فرمانا کیا (معاذ اللہ)عقیدہ توحید کی خلاف ورزی تھا۔ ۵۔ امام مقری (م ۳۸۱ھ) اپنی کتاب تقبیل الید (ص: ۶۴، رقم: ۵) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک اعرابی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور اس نے آکر عرض کیا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن میں کچھ مزید چاہتا ہوں تاکہ میرے یقین میں اضافہ ہوجائے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تو اعرابی کے بلاوے پر ایک درخت اس کے پاس آیا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔ اس کے بعد طویل روایت ہے اور آخر میں اعرابی نے تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد عرض کیا: يا رسول الله! أئذن لي أن أقبل رأسك ورجلك. “اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کاسر اقدس اور قدم مبارک چوم لوں۔” اس کے بعد روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کو اجازت مرحمت فرمائی۔ اور پھر اس اعرابی نے سجدہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت نہ دی۔ امام مقری کی روایت کردہ اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (۱۱: ۵۷) میں نقل کیا ہے۔ نیز علامہ مبارک پوری نے بھی تحفۃ الاحوذی (۷: ۴۳۷) میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔ یہ روایت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدم چومنے کی اجازت تو دی لیکن سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اگر قدم چومنا اور سجدہ کرنا برابر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ان کے مابین فرق نہ فرماتے اور دونوں سے منع فرما دیتے۔ یہاں تک آقاے نام دار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومے جانے پر چند احادیث کا حوالہ دیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قدم بوسی ہرگز کوئی شرکیہ عمل نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی ذات اقدس کے لیے بھی کبھی اس کی اجازت نہ دیتے۔ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُنہیں اِس عمل سے نہ روکنا اور سکوت فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کی اجازت نہ تھی؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ عمل سنتِ تقریری نہ قرار پایا؟ اگر پاؤں چومنا نعوذ باﷲ سجدہ ہے تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کر رہے تھے؟ کیا (معاذ اﷲ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – جو توحید کا پیغام عام کرنے اور شرک کے خاتمے کے لیے مبعوث ہوئے – خود شرک کے عمل کی اجازت دے رہے تھے؟ کاش! قدم بوسی پر اعتراض کرنے والے پہلے کچھ مطالعہ ہی کر لیتے۔ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ قدم بوسی صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مخصوص ہے۔ لہٰذا ذیل میں ہم اِس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ غیر انبیاء صالحین اور مشائخ عظام اور اکابر اسلام کی دست بوسی و قدم بوسی کی کیا حقیقت ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ علماے کرام اور مشائخ عظام کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی نسبت سے تعظیم و احترام بجا لانا منشاء اِسلام ہے۔ اِن کی تعظیم کو شرک کہنا باطل اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔ کتب سیر و احادیث کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اکابرین کی قدم بوسی ہمیشہ اہل محبت و ادب کا معمول رہی ہے۔ اِس سلسلے میں چند نظائر پیش خدمت ہیں: ١۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے، وہ بیان کرتے ہیں: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُقَبِّلُ يَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَيْهِ وَيَقُوْلُ: يَا عَمِّ ارْضَ عَنِّي. ”میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں چومتے دیکھا اور آپ ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے: اے چچا! مجھ سے راضی ہوجائیں۔” اسے امام بخاری نے الادب المفرد (ص: ٣٣٩، رقم: ٩٧٦) میں، امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء (٢: ٩٤) میں، امام مزی نے تہذیب الکمال (١٣: ٢٤٠، رقم: ٢٩٠٥) میں اور امام مقری نے تقبیل الید (ص: ٧٦، رقم: ١٥) میں روایت کیا ہے۔ 2۔ آسمان علم کے روشن ستارے اور ہر مسلک و مکتبہ فکر کے متفقہ محدث امام بخاری نے بھی اپنی کتاب الأدب المفرد میں ہاتھ چومنے پر ایک پورا باب (نمبر ٤٤٤) قائم کیا ہے۔ امام بخاری نے باب تقبيل اليد میں ”ہاتھ چومنے” کے حوالے سے تین احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے؛ اور جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری آدابِ زندگی بتارہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے۔ یہاں تک کہ امام بخاری نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امام بخاری اِس باب کے فوری بعد پاؤں چومنے کا باب – بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل – لائے ہیں۔ ظاہر ہے کہ امام بخاری نے کتاب الادب میں ان ابواب کو ترتیب دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھ چومنا اور قدم چومنا آداب میں سے ہے۔ اگر وہ اس عمل کو شرک یا سجدہ سمجھتے تو کبھی بھی آداب زندگی کے بیان پر مشتمل اپنی کتاب میں یہ ابواب قائم نہ کرتے اور نہ ہی ایسی احادیث لاتے۔ ٣۔ اسی طرح امام بخاری کے بعد امت مسلمہ کے نزدیک ثقہ ترین محدث امام مسلم کے شہر نیشاپور میں جب امام بخاری تشریف لائے اور امام مسلم ان کے پاس حاضر ہوئے تو اَئمہ کے اَحوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری کا ماتھا چوما اور پھر ان سے اجازت مانگی کہ: دعني حتی أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله. ”اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں۔” اِمام بخاری اور امام مسلم کا یہ واقعہ ابن نقطہ نے ‘التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (١: ٣٣)’میں، امام ذہبی نے ‘سیر اعلام النبلاء (١٢: ٤٣٢، ٤٣٦)’ میں، امام نووی نے ‘تذعیب الاسماء واللغات (١: ٨٨)’ میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے مقدمۃ فتح الباری (ص: ٤٨٨)’ میں اور برصغیر کے نام ور غیر مقلد نواب صدیق حسن قنوجی نے ‘الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ (ص: ٣٣٩)’ میں روایت کیا ہے۔ ٤۔ علامہ شروانی شافعی ‘حواشی (٤: ٨٤)’ میں لکھتے ہیں: قد تقرّر أنه يسنّ تقبيل يد الصالح بل ورجله. ”یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ صالح شخص کے ہاتھ اور پاؤں چومنا مسنون عمل ہے۔”
  3. wahabione Hazrat Zuhair bin Qais r.a ke mazar ko dhamake se urdya unki lash 1400 sal bad bhi sahih salamat mili subhanllah
  4. is video ko achi tara dekhe or tamam Wahabio se sawal kare kya ye shirk nahi he ? http://www.youtube.com/watch?v=XuBDZrnZoEw&feature=related
  5. HAZOOR SALALAHO ALEHE WASALAM KE RAZO E MUBARAK HAT UTHANE KI IJAZAT NAHI WOH SHIRK OR BIDAT PER YAHAN SAB KUCH BADAL GYA KAHAN GYA TOM LOGO KA SHIR OR BIDAT KA FATWA ?
  6. THIS IS INTERVIEW OF RIK CLAY FIRST WHO EXPOSED THE CONSPIRACY THEORY BEHIND OLYMPIC LONDON 2012,AFTER HIS FIRST AND LAST INTERVIEW HIS BEEN MURDERED,BUT PRETENDED THE MURDERED AS SUICIDE BY AUTHORITY,PLEASE LISTEN TO IT CAREFULLY AND AWARE OTHER FROM UP COMING THREAT . http://www.youtube.com/watch?v=4-mu-GcCvG8
  7. Raza11

    Shia Kon He

  8. Raza11

    Olympic 2012 London

    PLEASE SEE THIS VIDEO AND SPREAD IT http://www.youtube.com/watch?v=B72WB86_Zck
  9. میرے مسلمان بھائیو آج کی میری تحریر بہت سارے مسلمان بھائیوں کی آنکھیں کھول دے گی، سوائے ان کے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے یا جو جن کی مذہبی غیرت سو نہیں رہی بلکہ مر چکی ہے۔ اسلام کے بدترین دشمن قادیانی گروہ کے غلیظ ترین گستاخ رسول نے اپنی شاعری میں پیغمبروں اور دینی ہستیوں کا تمسخر اڑانے کے ساتھ مدینۃ المنوہ، مکہ شرف اور مقمامات مقڈسی کو بھی نشانہ بنا کر ملعون سلمان رشدی جیسا واجب القتل جرم کیا ہے۔ کوئی بڑی بات نہیں کہ مرزا قادیانی جیسے خنزیر صفت گستاخ اسلام کے گندے پیروکار اپنے گندے مذہبی پیشوا جیسے کی غلیظ کام کریں گے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس گستاخانہ عمل کیحوصلہ افزائی کرنے والے وہ نام نہاد مسلمان ہیں جن کا قادیانیت پرست کردار اور قادیانیوں کے لئے ان کی خدمات کسی سے ڈھی چھپی نہیں رہیں۔ لیکن ان بد بختوں کا تعارف جاننے سے پہلے ذرا رفیر رضا کی یہ گستاخانہ غزل کے کچھ اشعار پڑھ لیجے جس پر کود کو مسلمان کہنے والے واہ واہ کر رہے ہیں۔ بقول لعنت زدہ قادیانی خنزیر رفیع رضا۔ فقیر و فُقر ندارد، سگانِ دھر بھی گُم گلیم و جُبّہ و دستار بھی کلیشے ھے کوئی زلیخا نہیں اور کوئی نہیں یُوسف یہ سارا مصر کا بازار بھی کلیشے ھے طلسمِ ھوش رُبا کا کوئی جواز نہیں امیر حمزہ و عیّار بھی کلیشے ھے نہ شاہِ وقت ، نہ شہزادیاں نہ کوئی غلام اور اُن کے ساتھ یہ دربار بھی کلیشے ھے بہشت و دوزخ و برزخ کا ذکر کُفرِ عظیم گُناہ گار و خطا کار بھی کلیشے ھے نہ وُہ مدینہ ، نہ مکّہ، نہ غارِ ثَور و حِرا نفاق و مومن و کُفّار بھی کلیشے ھے وجود ِ کوہِ ندا کا اُدھر ثبوت نہیں اِدھر یہ کوچہءِ مسمار بھی کلیشے ھے بچا نہیں ھے کنارہ کوئی جُگالی سے اسی طرف نہیں، اُس پار بھی کلیشے ھے ، اب یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ آج پلید رفیع رضا نے نکہ اور مدینے کے بارے جو غلیظ زبان استعمال کی ہے میں وہ یہاں کاپی کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی لیکن اس دوزخی نے از خود جہنم کو اپنے لئے بہتر مقام قرار دیتے ہوئے جو کومنٹ لکھا ہے اس پڑھیے۔ Rafi Raza میرا نہیں خیال کہ غزل میں ایسی کوئی بات ھے جسے مذھبی جنونیت کے لئے استعمال کیا جاوے۔۔۔۔۔۔۔ڈھکے چُھپے الفاظ میں جنتی اور جہنمی کا فیصلہ کرنا میری سمجھ سے بالا ھے۔۔۔۔۔مُجھے وُہ طالبان اور خود کُش حملے کرنے والے یاد آتے ھیں جنہیں ڈرگز کے ذریعے تنویمی عمل سے گُزار کر۔۔۔۔۔اندھیرے میں عورتوں کی چھاتیوں پر ھاتھ لگوا کر یہ یقین دلایا جاتا ھے کہ تُم یہ خود کُش دھماکہ کرو تو یہ حُوریں جنت میں ملیں گی۔۔۔۔کیا خام خیالی ھے۔۔۔لیکن اس سے زیادہ یہ کہ۔۔نہایت خطرناک رجحان ھے۔۔جنت کے چکر میں کوئی کیا کُچھ کر سکتا ھے۔۔۔۔میں ۔ منیر پرویز ھی کیا۔۔۔خالد سُہیل کو بھی جہنمی نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔۔سید حیدر صاحب نے ایسا کیوں لکھا؟ میری سمجھ سے بالا ھے بھی اور نہیں بھی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں شاید جہنم میں زیادہ خوش آسائش سے رھوں گا۔۔۔۔۔ Yesterday at 6:35pm · 1 اس گستاخانہ غزل پر سر فاروق درویش، سر افتخار حیدر نے کھل کر ایمان افروز کومنٹ دیئے جون میں سے کچھ ڈیلیٹ کر دئے گئے ۔ مگر جن مسلمانوں نے اس گستاخانہ عمل کو سراہا ان کا ایمان کیا ہے اور وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ میں کچھ بتاتی ہوں 1۔ یہ کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں کہ اس توہین اسلام پر تعریف کرنے والی اس تصویر میں قران مجید کو تضادات کی کتاب قرار دینے والے بدنام خنزیر گستاخ قادیانی جمیل الرحمان کے ساتھ بیٹھی خاتون سعودیہ عرب میں مقیم قدسیہ ندیم لالی ہے جو فاروق درویش کی اینٹی گستاخ اسلام قادیانت کی مجاہدہ کہتی تھی، اسلام کے نام پر مر مٹنے کا دعوی کرتی تھی مگر کراچی سے تعلق ہونے کے باعث ایک کیو ایم کی مداخلت پر اسی شاتم اسلام جمیل الرحمان کی دوست بن کر اس سے لمے لندن پہنچ گئی اور اس کی اس کے پالے ہوئے گستاخ اسلام خنزیر رفیع رضا کی مداح ہے لیکن پھر بھی مسلمان کہلاتی ہے۔ 2۔ اس گستاخانہ شاعری پر ایک قادیانی بیوی کے شوہر ہونے کے باوجود خود کو مسلمان قرار دینے والے من۔ سور آفاق اس غزل کو لاجواب غزل قرار دے کر اپنے قادیانیوں کا زر خرید ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ اس غزل پر کو لاجواب غزل کہتے ہوئے من۔سور اافاق کا کہنا ہے کہ شاعری مذہب سے الگ چیز ہے ۔ اب ااپ ہی بتائیں کہ کیا کوئی مسلمان ایسی شاعری پر واہ واہ کرے گا یا لکھنے والے پر لعنتیں بھیجے گا؟ اب یہ من۔سور آفاق مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے لئے نعتیں لکھے یا کچھ اور کہے کوئی بھی مسلمان اس کی مسلمانی اچھی طرح جان چکا ہے 3۔ اس تصویرمیں بائیں طرف اوپر تیسرا مسخرہ خنزیر زادہ، کینیڈا میں مقیم عرفان ستار نامی وہ خبیث شاعر ہے جو علامہ اقبال کی نعتیہ شاعری کو شاعری کے سٹینڈرڈ سے ہی کم تر قرار دیتا ہے، اشعار میں اللہ اکبر جیسے مقدس الفاظ کو فضول بات قرار دیتا ہے۔ یہ مردود ابن مردود دہریہ رفیع رضا کا سپورٹر بن کر اس کی ہر گستاخئ اسلام کا کھلا سپورٹر ہے۔ لیکن اسے مسلمان قرار دینے والے لوگ کہتے ہیں کہ شاعری سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ ادب مذہب سے بالاتر شے ہے اور ان سب کا سرپرست، قادیانیوں کی ہر گستاخئ اسلام کا ذمہ دار سب سے بڑا اسلام دشمن بھارتی ایجنٹ الطاف حسین ہے جو قادیانیوں کی بی ٹیم کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اور اس کے بعد ان سب گستاخ اسلام حرکات کے زمہ دار وہ شاعر لوگ ہیں جو اردو ادب کے نام پر ان قادیانی خنزیروں کے لئے بیساکھیاں فراہم کرتے ہیں، جو مسلمان پونے کے باوجود ان گستاخ قران، گستاخ رسالت قادیانی شاعروں کے شاعری گروپ چلا کر ان کا نیٹ ورک پھیلانے کے مجرم ہو کر بھی معصوم بنتے ہیں اور جب سارا غزل جیسی کوئی مسلمان ان کی روشن خیالی اور اسلامی دشمنی یا قادیانیت سے دوستی کو بینقاب کرتی ہے ساری زندگی قادیانیوں کے گن گانے والے اختر عثمان بھی نعت پڑھ کر اپنی وال پر اعلان کر دیتے ہیں کہ ہم تو قادیانیوں کو اور ان سے تعلق رکھنے والوں کو بھی کافر سمجھتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ موت سامنے دیکھ کر خدا یاد آ جاتا ہے یا منافق سب مسلم کی لعنتوں سے ڈر جاتے ہیں۔ خنزیر رفیع رضا نے تو از خود دوزخ کو اپنے لئے بہتر جگہ قرار دے دیا ، اب ان قادیانیوں کی شاعری پر واہ واہ کرنے والے مسلمان بھائی اپنے لئے دوزخ طلب کرتے ہیں یا نبی پاک ص کے سچے امتی بن کر جنت کی طلب کرتے ہیں فیصلہ ان پر ہے۔ اللہ حافظ سیدہ سارا غزل ہاشمی
  10. ap jab deobandio ke forum per jae reply me ap english alphabets se urdu likh rahe hote hen jo yahan ni he jesa ke ab me urdu roman likh raha hon jab ke urdu likhne ke lye muje inpage ka sahara lena hota he
  11. w salam \,janab ye topics mere apne nahi likhe wohe hen han facebook per mera zati account he,ek guzaresh he forum se ke yahan per urdu likhne wala format bhi add kar den jis tara deoband forum per he os me asani se ham direct urdu me likh sakte hen shukria
  12. Raza11

    Hazaro Lante Mirza Qadiani Pe

    کوئی دجال و کاذب لامکانی ہو نہیں سکتا نبی حق کا جو مرزا قادیانی ہو نہیں سکتا سخن جس کا ھو بیہودہ زباں جس کی نہاں گالی وہ گستاخ انبیایےء حق کا ثانی ہو نہیں سکتا ہوں پیروکارجس کے دین و ملت کے کھلے غدار وہ ننگ۔۔ دین و ملت جاودانی ہو نہیں سکتا۔۔۔۔ تراجم جس کے قرآن اور حدیثوں کے ہیں رندانہ کہیں ایسا کوئی ابلیس۔۔ ثانی ہو نہیں سکتا جو شاتم گند میں ڈوبا مرا لتھڑا غلاظت میں کسی سچے عقیدے کا وہ بانی ہو نہیں سکتا کبھی دعوی حمل کا اور کبھی دعوی نبوت کا کویی پاگل بھی مثل۔۔ قادیانی ہو نہیں سکتا تماشہ جو کرے انگریز مالک کے اشارے پر کوئی مذھب فروش ایسا زمانی ہو نہیں سکتا چلو درویش بھیجیں مل کے سب مردود پر لعنت کہ سگ لعنت زدہ حق کی نشانی ہو نہیں سکتا ( کلام : فاروق
×
×
  • Create New...