Jump to content

Sunni Haideri

اراکین
  • کل پوسٹس

    28
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    7

سب کچھ Sunni Haideri نے پوسٹ کیا

  1. جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ روایت کی تحقیق 25: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ فُورَكٍ، قال: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ النَّشَابيّ ُ، قال: ثنا مَنْصُورُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْبَكْرِيُّ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ الأَبَّارِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ. ترجمہ: سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ (الفوائد لأبي الشيخ الأصبهاني 58 ص.الرقم:25.) (مسند الشهاب القضاعي 1/102.الرقم: 119.) (طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها 3/567.) ✍️:أَبُو النَّضْرِ الْبَصْرِيُّ الْأَبَّارُ: مجھول الحال۔ ✍️: وسند ضعیف والحدیث صحیح۔ اسکا صحیح درجہ کا شاھد موجود ہے۔👇 3104: أَخْبَرَنَا ‌عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌حَجَّاجٌ، عَنِ ‌ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ‌مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ‌طَلْحَةَ ، عَنْ ‌مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ : «أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ. فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَالْزَمْهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا». ترجمہ: حضرت معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ: جاہمہ نبی علیہ السلام کے پاس آۓ اور کہنے لگے کہ میں نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس بارے میں آپؐ سے مشورہ کرنے آیا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تیری والدہ ہے۔ جواب دیا کہ جی ہاں آپؑ نے فرمایا جا اس کے ساتھ (خدمت کر) رہو جنت اس کے قدموں کے نیچے(تلے) ہے۔ (سنن النسائي 6/11)۔ ✍️: یہی حدیث مستدرک میں دو جگہ موجود ہے۔👇 (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية 7248 .2502.) (شعب الإيمان: 7448.) (البر والصلة لابن الجوزي 67س.الرقم: 46.) (السنن الكبرى - البيهقي - 18/ 90.الرقم: 17890.) واسناد صحیح لہذا وہ روایت ماں کے قدموں تلے جنت ہے ثابت ہوئی کیونکہ اس کا متن دوسری صحیح روایت سے ثابت ہوگیا ہے۔ حکم الخلاصہ:ھذا حدیث صحیح۔ ✍️: ماں باپ جنت کا دروازہ ہیں. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنّ لِيَ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبٍ۔ ترجمہ: حضرت ابو الدرداء ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے،ابوالدرداء ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی» (میری ماں) کہا اور کبھی «إن أبی» (میرا باپ) کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ (سنن الترمذي :- 1900.) صحیح۔ (سنن ابن ماجه :- 3663.) صحیح ابن ماجہ میں امام سفیانؒ کے قول کو نقل نہیں کیا گیا کہ وہ کیا کیا کہتے تھے۔ واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔ ازقلم و طلب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ 19.03.2023. چھبیس(26) شعبان المعظم 1444ھ
  2. جو شخص جمعہ کے دن یہ درود شریف اَسّی مرتبہ پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف معاف کردیے جاتے ہیں۔ روایت کی تحقیق امام خطیب نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔👇 7278:- وهب بن داود بن سليمان أبو القاسم المخرمي حدث عن: إِسْمَاعِيل ابن علية. روى عنه: مُحَمَّد بن جعفر المطيري، وكان ضريرا، ولم يكن ثقة. سند: أَخْبَرَنَا أَبُو طَالِبٍ عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَقِيهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَطِيرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الضَّرِيرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ وَاقِفًا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثَمَانِينَ مَرَّةً غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَ ثَمَانِينَ عَامًا، فَقِيلَ لَهُ: كَيْفَ الصَّلاةُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَةً " ترجمہ: حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ: میں رسول اللہ کے سامنے( پاس) کھڑا تھا نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے مجھ پر جمعہ کے دن 80اسی مرتبہ درود پڑھے تو اس کے اسی(80) سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ پوچھا گیا یارسول اللہ کیسے آپ پر درود پڑھیں تو فرمایاکہ تم کہواللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَةً۔ (تاريخ بغداد ت بشار 15 /636.الرقم: 7278.) ✍️: زوائد میں امام خلدون الأحدب نے اسکو موضوع کہا۔ (زوائد تاريخ بغداد على الكتب الستة.9/293. الرقم: 2069.) ✍️: وَهْبُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الضَّرِيرُ : متھم باالوضع۔ 6904: وهب بن دَاوُد المخرمي عَن ابْن علية عَن ابْن صُهَيْب عَن أنس من صلى عَليّ يَوْم الْجُمُعَة ثَمَانِينَ مرّة غفر لَهُ ذنُوب ثَمَانِينَ عَاما قَالَ الْخَطِيب لم يكن بِثِقَة ثمَّ أورد لَهُ حَدِيثا من وَضعه سیدنا انس مروی ہے کہ جس نے مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں خطیب نے کہا کہ یہ ثقہ نہیں پھر انہوں نے اسکی وہ حدیث درج کی جو اس نے گھڑی ہے ( المغني في الضعفاء 2/727. الرقم: 6904.) امام خطیب بغدادی نے اسی وھب کا ترجمہ لکھ نے بعد یہی روایت درج کی جو ہم نے اوپر بیان کی ہے روایت 7278.اور اسی طرح اسی روایت کو وھب کے ترجمہ 7326 نمبر پر بھی درج فرمایا۔ 7326:- وهب بن داود بن سليمان أبو القاسم المخرمي حدث عن: إِسْمَاعِيل ابن علية. روى عنه: مُحَمَّد بن جعفر المطيري، وكان ضريرا، ولم يكن ثقة. اس کے اوپر والی سند مکمل بیان فرمائی۔ 4583: وهب بن داود المخرمي: عن ابن علية، قال الخطيب: لم يكن ثقة. (كتاب ديوان الضعفاء 229ص) ✍️: وسند: موضوع طریق نمبر 02.👇 1893: قال: أخبرنا عبدوس، أخبرنا أبو منصور البزاز، أخبرنا الدارقطني، حدثنا أبو عبيد القاسم بن إسماعيل، حدثنا سعيد بن محمد بن ثواب،حدثنا عون بن عمارة، حدثنا سكن البُرْجُمي، عن الحجاج بن سنان عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: "الصلاة عليّ نور على الصراط، ومن صلّى عليّ يومَ الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عامًا". ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر بھیجا ہوا درود پل صراط پر نور بن جائے گا اور جو شخص مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود بھیجتا ہے اس کے اسی سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس لابن حجر 5/467.الرقم: 1893.) ✍️: عون بن عمارة القيسي: ضعیف۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے اسکو ضعیف کہا۔👇 ✍️: 5224: عون بن عمارة القيسي، أبو محمد البصري: ضعيف، مات سنة اثنتي عشرة ومائتين. (تقريب التهذيب لابن حجر 424 ص.الرقم: 5224.) ✍️: حجاج بن سنان: متروک الحدیث۔ ✍️: حجاج کو متروک کہا امام ذھبی اور ابن حجر عسقلانی نے (/846: حجاج بن سنان: عن علي بن زيد، قال الأزدي: متروك. (ديوان الضعفاء للذھبی 73ص۔الرقم: 846.) (لسان الميزان لابن حجر 2/562۔الرقم: 2150. ✍️: علي بن زيد بن جُدْعان : ضعيف. 1: مصباح الزجاجة میں امام بوصیری نے ایک روایت کو اسی راوی کی وجہ سے سندا ضعیف فرمایا کلام امام بوصیری: هَذَا إِسْنَاد ضَعِيف لضعف عَليّ بن زيد بن جدعَان۔ (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه 3/178. الرقم: 5101.) ✍️: واسناد ضعیف جدا بل منکر۔ طریق نمبر 03. اسکو امام سخاوی اور ابن حجر ھیتمی نے ابن بشکول کے حوالے سے نقل کیا ہے لیکن اسکی سند ساتھ زکر نہیں کی یعنی بے سند وعن سهل بن عبد الله قال من قال في يوم الجمعة بعد العصر اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى إله وسلم ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاماً أخرجه ابن بشكوال ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے کھڑا ہونے سے پہلے یہ درود شریف اَسّی (80) مرتبہ پڑھے اُس کے اَسّی (80) سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اُس کے لیے اَسّی (80) سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے (القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع للسخاوی 199ص۔) (الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود لابن حجر ھیتمی 213ص۔) ✍️: حسين بن محمد المغربي نے شرح بلوغ المرام کے حاشیہ میں اسے ساقطة من کہا۔یعنی ساقط ہے۔ (البدر التمام شرح بلوغ المرام ت الزبن 10/399.) یہ روایت ( جس میں عصر کے بعد درود کا زکر ہے) بھی سند کے ساتھ نہیں ملی کافی تلاش بسیار کے بعد دلائل کو مدنظر رکھتے ہو یہی کہا جا سکتا ہے اسکو موقوف رکھا جاۓ کیونکہ یہ روایت بیان کرنے و سیدی کی طرف منسوب کرنے کے قابل نہیں دلائل کی بنیاد پر۔ خلاصہ کلام: 📖: لہذا یہ تینوں مرویات اس قابل نہیں ہیں کہ دلائل کی بنیاد پر ان کو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاۓ۔ پس ان کو سیدی معصوم الکائنات کی طرف منسوب کرنا گویا جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اعتراض ✍️: کچھ لوگوں کا اعتراض ہوتا ہے کہ جو بغیر سند کے روایت ہوتی ہےوہ موضوع نہیں ہوتی۔ ✍️: بس اتنی بات کی جاتی کہ شاید انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کہیں جب موضوع نہیں تو بیان کر سکتے عرض یہ ہے اگر موضوع نہیں ہوتی نہیں کہے سکتے تو صحیح یا ضعیف بھی تو نہیں کہے سکتے لہذا وہ ساقط ہے اسکو چھوڑ دینا چاھیے بیان بھی نہ کی جاۓ بس۔ ✍️: دوسری بات ایسے لوگوں کو سند کی ضرورت کے بارے میں پڑھنا چاھیے حدیث میں سند کی اہمیت کتنی ہے ✍️: سند کی ضرورت مختصر سا تعارف۔ تفصیل کے لیے درج ذیل حوالہ جات کو مکمل پڑھیں یہاں انکو مختصر کر کے لکھا گیا ہے۔ 📖: امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ اسناد حدیث امور دین سے ہیں اگر اسناد نہ ہوتی تو آدمی جو چاھتا کہے دیتا۔ مزید فرماتے ہیں کہ ہمارے اور لوگوں کے درمیان اسناد ستونوں کی طرح ہیں۔ صحیح مسلم : 32. 📖: اسی طرح امام ابن سرین فرماتے ہیں کہ پہلے لوگ اسناد کی تحقیق نہیں کیا کرتے تھے لیکن جب دین میں بدعات و فتنے داخل ہونے لگ گۓ سند بیان کی جانے لگ گئی۔ صحیح مسلم : 27. 📖: اللہ پاک ہماری مغفرت فرماۓ اور سیدی کی اس حدیث مبارکہ کو ہمیشہ یاد رکھنے ی توفیق دے۔ 📖: مفہوم حدیث جس نے جان بوجھ کر جھوٹ کی نسبت(منسوب) میری طرف کیا گویا اس نے اپنا راستہ جہنم کی طرف بنایا۔ ✍️✍️✍️✍️ ✍️: نوٹ درود شریف جتنا پڑھیں ثواب ملے گا۔ جب چاھیں پڑھیں یہی والا پڑھیں یا کوئی اور جس صیغہ کے ساتھ مرضی پڑھیں ثواب ضرور تو ملے گا لیکن اسکی جو تعداد اور وقت بتایا گیا ہے یہ ثابت نہیں اور اصل بات گناہ معاف والی بات کہی گئی ہے فکس کر کے 80سال یہ درست نہیں۔ ✍️: عام طور پر جیسے پڑھتے ہیں پڑھیں دورد کوئی مسلہ نہیں۔ لیکن جو خاص فضیلت ان تینوں رویات میں وارد ہیں وہ سیدی سے ثابت نہیں۔ ✍️: دورد پڑھنا ثواب ہی ثواب کا کام ہے لیکن جو فضیلت ثابت نہیں اسکو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا بلکل درست نہیں بلکہ گناہ کبیرہ و جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔ واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔ ازقلم و طالب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ 12_03_2023 انیس(19) شعبان المعظم 1444ھ۔
  3. یہ پندرویں رمضان کی ہوگی ایسی آواز ہوگی جو سوئے لوگوں کو جگادے گی اور کھڑوں کو بٹھا دے گی اور جس سال بہت سے زلزلے اور اولے ہوں گے اس جمعرات میں باپردہ عورتوں کو اپنے پردے سے نکال دے گی روایت کی تحقیق: اسکو علامہ متقی ھندی نے کنزالعمال میں بےسند درج کیا ہے۔ کنزالعمال: 39640 عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا كان صيحة في رمضان فإنه يكون معمعة في شوال، وتمييز القبائل في ذي القعدة، وتسفك الدماء في ذي الحجة والمحرم وما المحرم - يقولها ثلاث مرات - هيهات هيهات! يقتل الناس فيه هرجا هرجا، قلنا وما الصيحة يا رسول الله؟ قال: هدة في النصف من رمضان ليلة الجمعة فتكون هدة توقظ النائم وتقعد القائم وتخرج العواتق من خدورهن في ليلة جمعة في سنة كثيرة الزلازل والبرد، فإذا وافق شهر رمضان في تلك السنة ليلة الجمعة فإذا صليتم الفجر من يوم الجمعة في النصف من رمضان فادخلوا بيوتكم وأغلقوا أبوابكم وسدوا كواكم ودثروا أنفسكم وسدوا آذانكم، فإذا أحسستم بالصيحة فخروا لله سجدا وقولوا: سبحان القدوس، سبحان القدوس، ربنا القدوس، فإنه من فعل ذلك نجا ومن لم يفعل هلك." نعيم، ك". ابن مسعود ؓ سے روایت ہے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان میں ایک چیخ ہوگی تو شوال میں ایک ملی جلی آوازوں کا شور ہوگا ذیقعدہ میں قبیلوں میں غیز ہوگی ذوالحجہ میں خون بہائے جائیں گے اور محرم محرم کیا ہے تین بار فرمایا: افسوس صد افسوس! بہت زیادہ لوگ میں قتل ہوں گے ہم نے عرض کیا یارسول اللہ! چیخ کیا ہے فرمایا: یہ پندرویں رمضان کی ہوگی ایسی آواز ہوگی جو سوئے لوگوں کو جگادے گی اور کھڑوں کو بٹھا دے گی اور جس سال بہت سے زلزلے اور اولے ہوں گے اس جمعرات میں باپردہ عورتوں کو اپنے پردے سے نکال دے گی جب جمعرات اسی سال کا رمضان پڑے تو جب پندرویں رمضان جمعہ کے روز تم لوگ فجر کی نماز پڑھ لو تو ایسا کرنا کہ اپنے گھروں میں داخل ہوجانا دروازے بند کرلینا اپنے طاقچے بند کرلینا کمبل اوڑلینا اور اپنے کان بند کرلینا جب تمہیں چیخ کے آثار محسوس ہونے لگیں تو اللہ کے حضور سجدہ میں گرپڑنا اور کہنا: سبحان القدوس سبحان القدس ہمارے رب قدوس ہے اس واسطے جس نے ایسا کیا وہ نجات پاجائے گا جس نے ایسا نہ کیا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ (كتاب كنز العمال 14/ 528. الرقم: 39628.) طریق نمبر 01👇 638: حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْحَارِثِ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَتْ صَيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهُ يَكُونُ مَعْمَعَةٌ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِيِ الْقَعْدَةِ، وَتُسْفَكُ الدِّمَاءُ فِي ذِيِ الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَمَا الْمُحَرَّمُ» ، يَقُولُهَا ثَلَاثًا، «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ، يُقْتَلُ النَّاسُ فِيهَا هَرْجًا هَرْجًا» قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الصَّيْحَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هَدَّةٌ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ لَيْلَةَ جُمُعَةٍ، فَتَكُونُ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ، وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ، وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهِنَّ، فِي لَيْلَةِ جُمُعَةٍ، فِي سَنَةٍ كَثِيرَةِ الزَّلَازِلِ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْفَجْرَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَادْخُلُوا بُيُوتَكُمْ، وَاغْلِقُوا أَبْوَابَكُمْ، وَسُدُّوا كُوَاكُمْ، وَدِثِّرُوا أَنْفُسَكُمْ، وَسُدُّوا آذَانَكُمْ، فَإِذَا حَسَسْتُمْ بِالصَّيْحَةِ فَخِرُّوا لِلَّهِ سُجَّدًا، وَقُولُوا: سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، رَبُّنَا الْقُدُّوسُ، فَإِنَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ نَجَا، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ هَلَكَ " (الفتن لنعيم بن حماد 1/ 228.الرقم: 638.) ✍️: ابْنِ لَهِيعَةَ: ضعیف فی نفسہ صدوق۔ ✍️: عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ حُسَيْنٍ: مجھول۔ ✍️: محَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ : ضعیف۔ ✍️: الْحَارِثِ الْهَمْدَانِيِّ : متھم۔ ✍️: وسند موضوع طریق نمبر 02.👇 853: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ، ثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الضَّحَّاكِ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ صَوْتٌ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ فِي أَوَّلِهِ أَو فِي وَسَطِهِ أَو فِي آخِرِهِ؟ قَالَ: «لَا، بَلْ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ، إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ يَكُونُ صَوْتٌ مِنَ السَّمَاءِ يُصْعَقُ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا، وَيُخْرَسُ سَبْعُونَ أَلْفًا، وَيُعْمَى سَبْعُونَ أَلْفًا، وَيُصِمُّ سَبْعُونَ أَلْفًا» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ فَمَنِ السَّالِمُ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: «مَنْ لَزِمَ بَيْتَهُ، وَتَعَوَّذَ بِالسُّجُودِ، وَجَهَرَ بِالتَّكْبِيرِ لِلَّهِ، ثُمَّ يَتْبَعُهُ صَوْتٌ آخَرُ، وَالصَّوْتُ الْأَوَّلُ صَوْتُ جِبْرِيلَ، وَالثَّانِي صَوْتُ الشَّيْطَانِ، فَالصَّوْتُ فِي رَمَضَانَ، وَالمَعْمَعَةُ فِي شَوَّالٍ، وَتُمَيَّزُ الْقَبَائِلُ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَيَغَارُ عَلَى الْحُجَّاجِ فِي ذِي الْحِجَّةِ وَفِي الْمُحْرِمِ، وَمَا الْمُحْرَّمُ؟ أَوَّلُهُ بَلَاءٌ عَلَى أُمَّتِي، وَآخِرُهُ فَرَحٌ لِأُمَّتِي، الرَّاحِلَةُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بِقَتَبِهَا يَنْجُو عَلَيْهَا الْمُؤْمِنُ لَهُ مِنْ دَسْكَرَةٍ تَغُلُّ مِائَةَ أَلْفٍ» ( المعجم الكبير للطبراني 18/332.الرقم: 853.) (ترتيب الأمالي الخميسية للشجري 2/21.الرقم: 1444.) (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم 5/143.الرقم: 2682.) تینوں کی اسناد میں یہی راوی موجود ہے ✍️: عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الضَّحَّاكِ: متهم بالوضع والكذب. ✍️: وسند موضوع۔ طریق نمبر 03👇👇👇 8580: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُؤَمَّلِ بْنِ الْحَسَنِ، ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِيُّ، ثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَسْلَمَةَ بْنِ عُلَيٍّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «تَكُونُ هَدَّةٌ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ تُوقِظُ النَّائِمَ وَتُفْزِعُ الْيَقْظَانَ، ثُمَّ تَظْهَرُ عِصَابَةٌ فِي شَوَّالٍ، ثُمَّ مَعْمَعَةٌ فِي ذِي الْحِجَّةِ، ثُمَّ تُنْتَهَكُ الْمَحَارِمُ فِي الْمُحَرَّمِ، ثُمَّ يَكُونُ مَوْتٌ فِي صَفَرٍ، ثُمَّ تَتَنَازَعُ الْقَبَائِلُ فِي الرَّبِيعِ، ثُمَّ الْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ بَيْنَ جُمَادَى وَرَجَبٍ، ثُمَّ نَاقَةٌ مُقَتَّبَةٌ خَيْرٌ مِنْ دَسْكَرَةٍ تُقِلُّ مِائَةَ أَلْفٍ» قَدِ احْتَجَّ الشَّيْخَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِرُوَاةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ آخِرِهِمْ غَيْرَ مَسْلَمَةَ بْنِ عُلَيٍّ الْخُشَنِيِّ، وَهُوَ حَدِيثٌ غَرِيبُ الْمَتْنِ، وَمَسْلَمَةُ أَيْضًا مِمَّنْ لَا تَقُومُ الْحُجَّةُ بِهِ (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية 4 /563 .الرقم: 8580.) [التعليق - من تلخيص الذهبي]٨٥٨٠ - ذا موضوع (تاريخ أصبهان أخبار أصبهان 2/169.) دونوں کی اسناد میں مسلمہ موجود ہے۔ ✍️: مَسْلَمَةَ بْنِ عُلَيٍّ: متروک الحدیث۔ ✍️: ضعیف جدا طریق نمبر 4.👇👇👇 518: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ الزَّاهِدُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ التَّغْلِبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْأَعْنَاقِيُّ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ⦗٩٧٠⦘، عَنْ عَبْدةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ صَوْتٌ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ أَوْ فِي وَسَطِهِ أَوْ فِي آخِرِهِ؟ قَالَ: «لَا، بَلْ فِي النِّصْفِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ لَيْلَةُ جُمُعَةٍ يَكُونُ صَوْتٌ مِنَ السَّمَاءِ يُصْعَقُ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا يَتِيهُ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيَعْمَى سَبْعُونَ أَلْفًا وَيُصَمُّ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيُخْرَسُ فِيهِ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيَنْفَتِقُ فِيهِ سَبْعُونَ أَلْفَ عَذْرَاءَ» قَالُوا: فَمَنِ السَّالِمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَنْ لَزِمَ بَيْتَهُ وَتَعَوَّذَ بِالسُّجُودِ وَجَهَرَ بِالتَّكْبِيرِ» قَالَ: «وَمَعَهُ صَوْتٌ آخَرُ فَالصُّوتُ ⦗٩٧١⦘ الْأَوَّلُ صَوْتُ جِبْرِيلَ، وَالصَّوْتُ الثَّانِي صَوْتُ الشَّيْطَانِ، فَالصُّوتُ فِي رَمَضَانَ، وَالْمَعْمَعَةُ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَيُغَارُ عَلَى الْحَاجِّ فِي ذِي الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَأَمَّا الْمُحَرَّمُ أَوَّلُهُ بَلَاءٌ وَآخِرُهُ فَرَجٌ عَلَى أُمَّتِي، رَاحِلَةٌ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ يَنْجُو عَلَيْهَا الْمُؤْمِنُ خَيْرٌ مِنْ دَسْكَرَةٍ تَغُلُّ مِائَةَ أَلْفٍ» (السنن الواردة في الفتن للداني 5/969.الرقم:518.) ✍️: نَصْرُ بْنُ مَرْزُوقٍ : مجھول الحال۔ ✍️: خَالِدُ بْنُ سَلَّامٍ : مجھول الحال۔ ✍️: يَحْيَى الدُّهْنِيِّ : مجھول الحالء۔ ✍️:اسناد ضعیف جدا۔ والحدیث موضوع، طریق نمبر 05👇👇👇👇👇 وَمِنْ حَدِيثِهِ: مَا حَدَّثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ سَعِيدِ بْنِ دَاوُدَ الْأَزْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْمَوْصِلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْسَةُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهَا، وَفِي شَوَّالٍ هَمْهَمَةٌ، وَفِي ذِي الْقَعْدَةِ تَمَيَّزُ الْقَبَائِلُ بَعْضُهَا إِلَي بَعْضٍ، وَفَى ذِي الْحِجَّةِ تُرَاقُ الدِّمَاءُ، وَفَى الْمُحْرِمِ أَمْرٌ عَظِيمٌ، وَهُوَ عِنْدَ انْقِطَاعِ مُلْكِ هَؤُلَاءِ» . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟ قَالَ: «الَّذِينَ يَلُونَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ» لَيْسَ لِهَذَا الْحَدِيثِ أَصْلٌ مِنْ حَدِيثِ ثِقَةٍ، وَلَا مِنْ وَجْهٍ يَثْبُتُ (الضعفاء الكبير للعقيلي 2/52. الرقم: 1012.) ✍️: عُبَيْسَةُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ الْهَمْدَانِيُّ : متھم باالوضع۔ ✍️: عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ قَيْسٍ : قال امام ابن حجر العسقلاني صدوق له أوهام ومراسيل ✍️: وسند ،موضوع۔ محدثین نے ان کی کچھ اسناد کو اور کچھ محدثین نے تفصیلی کلام اپنی موضوعات میں نقل کیا ہے۔۔ 1: (اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسیوطی 2/320.) 2: ( الموضوعات لابن الجوزي 3/191.) 3: (الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير الجوزقانی 2/109.) 4: (تلخيص الموضوعات للذھبی 324ص۔الرقم:874وغیرہ) خلاصہ کلام: بیان کردہ روایت کی جتنی بھی اسناد ہیں ہمارے علم کے اندر ان میں سے ایک بھی بیان کرنے کے قابل نہیں لہذا دلائل کی بنیاد پر اسکو سیدی معصوم الکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرنا گویا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونا اور جہنم میں لے جانے والا فعل(کام) ہے واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔ ازقلم و وطالب: محمد عمران علی حیدری. 26_03_2023. چار(04)رمضان المبارک 1444ھ
  4. یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردا ہوں گے۔ روایت کی تحقیق جامع ترمذی :3664 وسند حسن حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ،‏‏‏‏ لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ. ترجمہ: حضرت سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر ؓ کے سلسلہ میں فرمایا: یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے، علی ان دونوں کو اس بات کی خبر مت دینا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ 📖: 533- حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا وكيع بن الجراح، حدثنا يونس بن أبى إسحاق، عن الشعبى، عن علي، قال: كنت جالسا عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فأقبل أبو بكر، وعمر، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، يا علي، لا تخبرهما" .كتاب مسند أبي يعلى-ت السناري 1/5وسند حسن امام العقائد اھلسنت ابن شاھین فرماتے ہیں کہ تفرد أبو بكر وعمر بهذه الفضيلة. یعنی : اس فضیلت میں ابوبکر و عمر اکیلے ہیں كتاب شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين 20ص 490 - حدثنا إسحاق بن زياد الأيلي، قال: نا عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثني أبي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: قال علي: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل أبو بكر، وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين، إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي» . وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن جابر، عن علي إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد (كتاب مسند البزار = البحر الزخار 2/132.) ✍️: عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم ; لین الحدیث۔ ✍️: عبد الرحمن بن إبراهيم البصري القاص ، لین الحدیث۔ 10 : - حدثنا عبيد بن عبد الواحد بن شريك البزار، ثنا ابن أبي مريم، أنبأ سفيان بن عيينة، قال حدثني إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن الحارث، عن علي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نظر إلى أبي بكر وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي» الفوائد الشهير بالغيلانيات لأبي بكر الشافعی 1/60۔ وسند حسن۔ ✍️: الأثيوبي شرح ابن ماجہ میں فرماتے ہیں کہ درج ذیل حدیث صحیح مجموع طرق کی وجہ سے۔ والحاصل أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب؛ لأن بعضها حسن لذاته، وبعضها يستشهد به. والله تعالى أعلم ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.) تخریج ✍️: حمود بن عبد الله التويجري فرماتے ہیں کہ باسناد حسن "رواه ابن ماجه بإسناد حسن وابن حبان في صحيحه." 1: (كتاب فتح المعبود في الرد على ابن محمود 133ص۔) 2: (كتاب مختصر زوائد مسند البزار على الكتب الستة ومسند أحمد لابن حجر 2/288. الرقم: 1878.) 2: ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.) 3: (كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 30/181.) 4: (كتاب فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل 1/4242.) 5: (كتاب الشريعة للآجري 4/1848.) 6: (كتاب مسانيد فراس المكتب 87ص،) 7: (كتاب فوائد أبي علي الصواف 35ص،) 8: (كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر 258ص۔) 9: (كتاب تنزيه الأصحاب عن تنقص أبي تراب 30/71.)حمود بن عبد الله التويجري) 10: ( كتاب أمالي ابن بشران - الجزء الأول948ص الرقم928.) واللہ و رسول اعلم محمد عمران علی حیدری
  5. Sunni Haideri

    ابوبکر

    *یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے۔* روایت کی تحقیق جامع ترمذی :3664 وسند حسن حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ،‏‏‏‏ لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ. ترجمہ: حضرت سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر ؓ کے سلسلہ میں فرمایا: یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے، علی ان دونوں کو اس بات کی خبر مت دینا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ 📖: 533- حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا وكيع بن الجراح، حدثنا يونس بن أبى إسحاق، عن الشعبى، عن علي، قال: كنت جالسا عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فأقبل أبو بكر، وعمر، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، يا علي، لا تخبرهما". (كتاب مسند أبي يعلى - ت السناري 1/514)وسند حسن امام العقائد اھلسنت ابن شاھین فرماتے ہیں کہ تفرد أبو بكر وعمر بهذه الفضيلة. یعنی : اس فضیلت میں ابوبکر و عمر اکیلے ہیں (كتاب شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين 204ص) 490 - حدثنا إسحاق بن زياد الأيلي، قال: نا عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثني أبي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: قال علي: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل أبو بكر، وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين، إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي» . وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن جابر، عن علي إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد (كتاب مسند البزار = البحر الزخار 2/132.) ✍️: عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم ; لین الحدیث۔ ✍️: عبد الرحمن بن إبراهيم البصري القاص ، لین الحدیث۔ 10 : - حدثنا عبيد بن عبد الواحد بن شريك البزار، ثنا ابن أبي مريم، أنبأ سفيان بن عيينة، قال حدثني إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن الحارث، عن علي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نظر إلى أبي بكر وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي» (كتاب الفوائد الشهير بالغيلانيات لأبي بكر الشافعي 1/60.) وسند حسن۔ ✍️: الأثيوبي شرح ابن ماجہ میں فرماتے ہیں کہ درج ذیل حدیث صحیح مجموع طرق کی وجہ سے۔ والحاصل أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب؛ لأن بعضها حسن لذاته، وبعضها يستشهد به. والله تعالى أعلم ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.) تخریج :- ✍️: حمود بن عبد الله التويجري فرماتے ہیں کہ باسناد حسن "رواه ابن ماجه بإسناد حسن وابن حبان في صحيحه." 1: (كتاب فتح المعبود في الرد على ابن محمود 133ص۔) 2: (كتاب مختصر زوائد مسند البزار على الكتب الستة ومسند أحمد لابن حجر 2/288. الرقم: 1878.) 2: ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.) 3: (كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 30/181.) 4: (كتاب فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل 1/4242.) 5: (كتاب الشريعة للآجري 4/1848.) 6: (كتاب مسانيد فراس المكتب 87ص،) 7: (كتاب فوائد أبي علي الصواف 35ص،) 8: (كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر 258ص۔) 9: (كتاب تنزيه الأصحاب عن تنقص أبي تراب 30/71.)حمود بن عبد الله التويجري) 10: ( كتاب أمالي ابن بشران - الجزء الأول948ص الرقم928.) واللہ و رسول اعلم
  6. علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔ -: روایت ک تحقیق ازقلم: محمد عمران علی حیدری میں کوشش کی ہے اس کے تمام طریق کو جمع کروں جنتے طریق اس کے مجھے ملے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ تقریباً بارہ مجھے ملے ہیں ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں ہے۔ 📖: ٣٢٥(325) : أخبرنا أبو طاهر الفقيه، أبنا أبو حامد بن بلال، ثنا إبراهيم بن مسعود الهمذاني، ثنا الحسن بن عطية القرشي، ثنا أبو عاتكة البصري، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اطلبوا العلم ولو بالصين , فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» هذا حديث متنه مشهور , وأسانيده ضعيفة , لا أعرف له إسنادا يثبت بمثله الحديث والله أعلم ترجمہ: حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔ (كتاب المدخل إلى السنن الكبرى-البيهقي - ت الأعظمي 241ص۔) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے اس میں۔ 📖: ٢٢(22) : وأخبرنا يعيش بن سعيد بن محمد أبو القاسم الوراق قال: حدثنا قاسم بن أصبغ قال: حدثنا محمد بن غالب التمتام قال: حدثنا الحسن بن عطية البزاز بالكوفة قال: حدثني أبو عاتكة، عن أنس بن مالك رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اطلبوا العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» (كتاب جامع بيان العلم وفضله لابن عبدالبر1/30.) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے اس میں بھی۔ 📖 ١(1) : أنبأ أبو الحسن علي بن محمد بن محمد بن أحمد بن عثمان الطرازي بنيسابور ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم ثنا الحسن بن علي بن عفان العامري، ثنا الحسن بن عطية ثنا أبوعاتكة عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اطلبوا العلم ولو بالصين، فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» (كتاب الرحلة في طلب الحديث للخطيب البغدادي 72ص) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے اس میں بھی۔ ٣ (3): أخبرنا أبو محمد عبد الله بن يحيى بن عبد الجبار السكري، أنبا يحيى بن وصيف الخواص، ثنا عبد الله بن الحسن الحراني، أنبا أبو بكر الأعين، ح وأخبرنيه أبو الحسن علي بن حمزة بن أحمد المؤذن بالبصرة ثنا أبو بكر أحمد بن عبيد الله النهرديري ثنا محمد بن يزيد الراسبي، ثنا العباس بن أبي طالب، ببغداد قالا ثنا الحسن بن عطية، عن أبي عاتكة، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اطلبوا العلم ولو بالصين» زاد العباس فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم (كتاب الرحلة في طلب الحديث للخطيب البغدادي76ص) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے اس میں بھی۔ 📖:٧٧٧ (777): طريف بن سلمان أبو عاتكة بصري حدثني آدم بن موسى قال: سمعت البخاري قال: طريف بن سلمان أبو عاتكة بصري، قال البخاري: منكر الحديث ومن حديثه ما حدثناه جعفر بن محمد الزعفراني قال: حدثنا أحمد بن أبي سريج قال: حدثنا حماد بن خالد الخياط قال: حدثنا طريف بن سلمان أبو عاتكة قال: سمعت أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اطلبوا العلم ولو بالصين، فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» لا يحفظ: ولو بالصين، إلا عن أبي عاتكة، وهو متروك الحديث، وفريضة على كل مسلم، الرواية فيها لين أيضا، متقاربة في الضعف في طلب العلم (كتاب الضعفاء الكبير للعقيلي 2/230.229) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے اس میں بھی۔ 📖: حدثنا أحمد بن عبيد الله بن محمود، ثنا أبو العباس المقنعي من حفظه في المحرم سنة ثلاث وثلاثمائة، ثنا الحسن بن عطية، عن أبي عاتكة، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اطلبوا العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» (كتاب تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان2/124) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے اس میں بھی۔ ٦٣ - أخبرنا الدوري: ثنا الحسن بن عطية، عن أبي عاتكة، عن أنس، قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم): "اطلبوا العلم ولو بالصين، فإنه فريضة على كل مسلم". (كتاب المنتخب من علل الخلال لابن قدامہ 1/129.) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے اس میں بھی۔ ٦٦٥(665): أخبرنا أبو معشر عبد الكريم قال أخبرنا أبو الفوارس عتاب بن المقدام بن عتاب الفقيه بآمد قال أخبرنا أبو الحسن علي بن القاسم بن يونس بن محمد المقرئ الموصلي إملاء قال حدثنا أبو محمد جعفر بن علي بن سهل جار ابن مخلد إملاء قال حدثنا ⦗١٣٠٤⦘ محمد بن حرب قال حدثنا الحسن بن عطية قال حدثنا أبو عاتكة عن أنس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اطلبوا العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم ". (كتاب المشيخة الكبرى - قاضي المارستان3/1303) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے اس میں بھی۔ ٦٨٣( 683) : أخبرنا أبو الفتح نصر بن أحمد الخطيب قال أخبرنا أبو صالح منصور بن نصر الكرماني قال حدثنا علي بن أحمد قال حدثنا أبو سعيد الهيثم بن كليب الشاشي قال حدثنا العباس بن محمد بن حاتم قال حدثنا الحسن بن عطية الكوفي قال حدثنا أبو عاتكة عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " اطلبوا العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم ". (كتاب المشيخة الكبرى - قاضي المارستان 3/1328) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے اس میں بھی۔ ✍️: امام أبو بكر البيهقي نے امام الأصبهاني سے رویت کی۔ 📖: وأخبرنا أبو محمد الأصبهاني، أخبرنا أبو سعيد بن زياد، حدثنا جعفر بن عامر العسكري قالا حدثنا الحسن بن عطية، عن أبي عاتكة- وفي رواية أبي عبد الله- حدثنا أبو عاتكة، عن أنس بن مالك قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "اطلبوا العلم ولو بالصين، فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم" هذا حديث متنه مشهور، وإسناده ضعيف. وقد روي من أوجه كلها ضعيف (كتاب شعب الإيمان - ط الرشد 3/194)أبو بكر البيهقي) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے اس میں بھی۔ ١٤١٩ (1419)- أخبرنا أبو الحسن علي بن أبي بكر الطرازي -بنيسابور-، حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم، حدثنا الحسن بن عطية، حدثنا أبو عاتكة، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اطلبوا العلم ولو بالصين، فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم". (٩/ ٣٦٤) في ترجمة (طريف بن سلمان أبو عاتكة). في إسناده صاحب الترجمة (طريف بن سلمان البصري أبو عاتكة) وهو ضعيف جدا، واتهمه السليماني أحمد بن علي بالكذب. وقال ابن حبان: "يروي عن أنس بن مالك إن كان رآه. . . منكر الحديث جدا، يروي عن أنس ما لا يشبه حديثه، وربما روى عنه ما ليس من حديثه". وقد سبقت ترجمته في الحديث السابق برقم (١٤١٨). والشطر الأول من الحديث: "اطلبوا العلم ولو بالصين" موضوع۔ (كتاب زوائد تاريخ بغداد على الكتب الستة لابن خلدون الأحدب7/134.135.) ✍️: أبو عاتكة البصري کذاب و متروک راوی موجود ہے۔ اس راوی پر تفصیل:- طريف بن سلمان أبو عاتكة: کذاب ✍️: ٢٩٣٧ - طريف بن سلمان أبو عاتكة عن أنس قال أبو حاتم ذاهب الحديث كتاب المغني في الضعفاء للذھبی۔ 1/315. ✍️: ٥١١ - طريف بن سلمان أبو عاتكة: شيخ من أهل العراق، يروي عن أنس بن مالك إن كان رآه، روى عنه الحسن بن عطية والكوفيون، منكر الحديث جدا، روى عن أنس ما لا يشبه حديثه، وربما روى عنه ما ليس من حديثه. (كتاب المجروحين لابن حبان ت حمدي لاابن حبان۔1/488) ✍️: ١٧٢٨ - طريف بن سلمان ويقال ابن سليمان أبو عاتكة الكوفي وقيل البصري يروي عن أنس قال البخاري منكر الحديث وقال النسائي ليس بثقة وقال الرازي ذاهب الحديث وقال الدارقطني ضعيف (كتاب الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي2/63) ✍️: ٩٦٣- طريف بن سلمان ويقال ابن سليمان أبو عاتكة. سمع أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم طلب العلم فريضة منكر الحديث. سمعت ابن حماد ذكره عن البخاري. {تاريخه الكبير: ٤ / الترجمة ٣١٣٥} (كتاب الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدی5/188) ✍️: امام ابن عراق اپنی کتاب موضوعات میں حرف الطاء المهملة میں نمبر 4پر درج کرتے ہیں (٤)(4): طريف بن سلمان وقيل بالعكس أبو عاتكة وهو بالكنية أشهر قال الذهبي في الكنى من الميزان عده أحمد بن علي السليماني فيمن عرف بوضع الحديث. (كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لابن عراق1/69.) ٢٠٠١ (2001): طريف بن سليمان، أبو عاتكة: عن أنس، قال أبو حاتم: ذاهب الحديث. (كتاب ديوان الضعفاء للذھبی 200ص) 📖: ٢٩(29) : وأخبرنا أحمد نا مسلمة، نا يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم العسقلاني، ثنا يوسف بن محمد الفريابي ببيت المقدس ثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اطلبوا العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» (كتاب جامع بيان العلم وفضله 1/37) اس کی سند میں عاتکہ تو نہیں ہے لیکن يعقوب بن إسحاق کذاب راوی موجود ہے ✍️: يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم العسقلاني:- :(٥٥)55 يعقوب بن إسحق بن إبراهيم العسقلاني كذاب. (كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/129.) ٧١٧٨(7178): يعقوب بن إسحاق بن ابراهيم بن مجمع قال البخاري روى عنه يعقوب بن محمد الزهري حديثا منكرا قلت ويعقوب ابن محمد منكر الحديث (كتاب المغني في الضعفاء للذھبی 2/757.) حکم الحدیث : موضوع ✍️✍️✍️ جن محدثین نے اس روایت کو اپنی موضوعات میں -: (كتاب تذكرة الموضوعات للفتني 17ص) (كتاب الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدی 1/292) (تلخيص كتاب الموضوعات للذھبی 57ص) (كتاب اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسیوطی 176. 1/175) (كتاب الموضوعات لابن الجوزي 1/215.) (كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لاابن عراق 1/258) (كتاب الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة۔122ص) ان درج ذیل روایات کو سیدی معصوم الکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بیان کردہ دلائل کی بنیاد پر حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اللہ پاک ہمیں محفوظ رکھے آمین۔ واللہ ورسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم۔ (ازقلم و طالب دعا : محمد عمران علی حیدری.) : مورخہ 18_12_2022. انیس(19)جمادی الاؤل 1444ھ
  7. *جس نے جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑی اس کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس میں وہ داخل ہوگا۔* 1 📕حدثنا إبراهيم بن محمد بن يحيى المزكي النيسابوري، في جماعة قالوا: ثنا محمد بن إسحاق الثقفي، ثنا أبو معمر صالح بن حرب , ثنا إسماعيل بن يحيى، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ترك صلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها» تفرد به صالح , عن إسماعيل، عنه (حلیاۃ اولیاء و طبقات اصفیاء7/254) 2 :📕473 - أخبركم أبو الفضل الزهري، نا أبي، نا محمد بن غالب، نا صالح بن حرب، نا إسماعيل بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ترك الرجل الصلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها» (حدیث ابیی فضل الزھری: صفحہ465) دونوں میں اسماعیل مسعر سے روایت کر رہا ہے اس کی حقیقت ہم آگے بیان کرتے ہیں 1 *إسماعيل بن يحيى* اس کا پورا نام: اسماعیل بن یحیی بن عبيد الله بن طلحة بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق۔ ✍️یہ ایک یضح الحدیث راوی ہے اس پر کذاب جروحات بھی موجود ہیں ✍️اور ایسے راوی کی روایت موضوع ہوتی ہے۔ ✍️اور اس پر ایک خاص جرح مسعر کے حوالہ سے ہے کہ مالک و مسعر سے یہ موضوع رویات نقل کرتا ہے۔ ✍️اور اس کذاب راوی نے یہ روایت بھی مسعر سے روایت کی ہے لہذا یہ روایت بھی موضوع ہے۔ خود صاحب حلیاۃ اولیاء (امام ابو نعیم اصبھانی رحتہ اللہ علیہ) اپنی کتاب الضعفاء الابیی نعیم صفحہ 60 پر فرماتے ہیں کہ: 12- إسماعيل بن يحيى بن عبيد الله التيمي حدث عن مسعر ومالك بالموضوعات يشمئز القلب وينفر من حديثه متروك، کہتے ہیں کہ اسماعیل مالک و مسعر سے موضوعات بیان کرتا ہے اور دل میں کراہت و نفرت سی ہے اس کے لیے اور اسکو حدیث میں ترک(چھوڑ دینا) ہے۔ 2: عطیہ عوفی راوی مشھور ضعیف الحدیث راوی ہے، ✍️لیکن یہ حدیث اسماعیل کی وجہ سے موضوع ہے ✍️اس میں صالح اور اسماعیل کا تفرد بھی ہے جیسا کہ خود صاحب حلیاۃ اولیاء نے فرمایا ہے۔ اسکا مطلب اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند بھی نہیں ہے الحکم الحدیث:- موضوع (محمد عمران علی حیدری) 01.04.2022. 28شعبان 1443ھ
  8. *سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت تین باتوں کا اقرار جرم کیا تھا؟* *اس کی حقیقت کیا ہے؟* *✍️شیعہ کی جہالت کا جواب✍️* *الصلوۃ والسلام علیک یاسیدی یارسول اللہؐ۔* *وعلی الک واصحبک یاسیدی یا خاتم المرسلین۔* *صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم* *⚔️🗡️ضرب حیدری🗡️⚔️* عبد الرحمن ابن عوف ، ابوبکر کی بیماری کے ایام میں اسکے پاس اسکی عیادت کرنے گیا اور اسے سلام کیا، باتوں باتوں میں ابوبکر نے اس سے ایسے کہا: مجھے کسی شے پر کوئی افسوس نہیں ہے، مگر صرف تین چیزوں پر افسوس ہے کہ اے کاش میں تین چیزوں کو انجام نہ دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کو انجام دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کے بارے میں رسول خدا سے سوال پوچھ لیتا، اے کاش میں فاطمہ کے گھر کی حرمت شکنی نہ کرتا، اگرچہ اس گھر کا دروازہ مجھ سے جنگ کرنے کے لیے ہی بند کیا گیا ہوتا. *الجواب بعون الوہاب* ✍️پہلی بات اس روایت کی تین اسنادہیں اور تینوں ہی قابل قبول نہیں ہیں۔ ان میں کوئی ایک سند بھی درجہ صحیح و حسن تک نہیں جاتی۔ *طریق نمبر 1* أنا حميد أنا عثمان بن صالح، حدثني الليث بن سعد بن عبد الرحمن الفهمي، حدثني علوان، عن صالح بن كيسان، عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، أن أباه عبد الرحمن بن عوف، دخل علي أبي بكر الصديق رحمة الله عليه في مرضه الذي قبض فيه ... فقال [أبو بكر] : « أجل إني لا آسي من الدنيا إلا علي ثَلاثٍ فَعَلْتُهُنَّ وَدِدْتُ أَنِّي تَرَكْتُهُنَّ، وثلاث تركتهن وددت أني فعلتهن، وثلاث وددت أني سألت عنهن رسول الله (ص)، أما اللاتي وددت أني تركتهن، فوددت أني لم أَكُنْ كَشَفْتُ بيتَ فاطِمَةَ عن شيء، وإن كانوا قد أَغْلَقُوا علي الحرب. *الخرساني،زنجويه الأموال، ج 1، ص 387۔* *الدينوري، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 21، تحقيق: خليل المنصور، باتحقيق شيري، ج1، ص36، و با تحقيق، زيني، ج1، ص24.* *تاريخ الطبري، ج 2، ص 353.* *العقد الفريد، ج 4، ص 254.* *مروج الذهب، ج 1، ص 290* ترجمہ اوپر والا ہی ہے یہ اس کی عربی عبارت ہے۔ ✍️اس سند میں علوان بن داود البجلی منکر الحدیث ہے۔۔ *1* قال البخاري: علوان بن داود ويُقال: ابن صالح *منكر الحديث.* *2* وقال العقيلي: *له حديث لا يتابع عليه، وَلا يعرف إلا به.* *3* وقال أبو سعيد بن يونس: *منكر الحديث.* *طریق نمبر 2* أخبرنا أبو البركات عبد الله بن محمد بن الفضل الفراوي وأم المؤيد نازيين المعروفة بجمعة بنت أبي حرب محمد بن الفضل بن أبي حرب قالا أنا أبو القاسم الفضل بن أبي حرب الجرجاني أنبأ أبو بكر أحمد بن الحسن نا أبو العباس أحمد بن يعقوب نا الحسن بن مكرم بن حسان البزار أبو علي ببغداد حدثني أبو الهيثم خالد بن القاسم قال حدثنا ليث بن سعد عن صالح بن كيسان عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف عن أبيه. *ابن عساكر الشافعي.* *تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 30، ص417 ـ 419۔* ✍️اس نقل کرنے کے بعد امام مدائنی نے کہا سند مختصر ہے مطلب سند میں انقطاع ہے۔ *كذا رواه خالد بن القاسم المدائني عن الليث وأسقط منه علوان بن داود وقد وقع لي عاليا من حديث الليث وفيه ذكر علوان.* ✍️امام عقیلیؒ نے علوان والے طریق کو نقل کرنے کے بعد فرمایا اور لیث والا بھی اور آخر میں فرمایا کہ *ابو بکر والی حدیث اضطراب کا شکار ہے۔* ✍️ *وأورد العقيلي أيضًا من طريق الليث:* حدثني علوان بن صالح عن صالح بن كيسان أن معاوية قدم المدينة أول حجة حجها بعد اجتماع الناس عليه ... فذكر قصة له مع عائشة بنت عثمان , وقال: لا يعرف علوان إلا بهذا مع اضطرابه في حديث أبي بكر. طریق نمبر 2 کی سند میں ایک راوی ہے ✍️أبو الهيثم خالد بن القاسم اس پر کذاب، متروک اور وضح تک ہی جرح ہے۔✍️ اس کا پورا نام: *خالد بن قاسم* ہے اور اس نے شہرت: *خالد بن القاسم المدائني* کے نام سے پائی اور اس کی کنیت:*أبو الهيثم* ہے *1* إسحاق بن راهويهؒ فرماتے ہیں کہ: *كذاب.* *2* إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فرماتے ہیں کہ: *کذاب يزيد في الأسانيد* *3* محمد بن إسماعيل البخاريؒ فرماتے ہیں کہ: *متروك تركه علي والناس.* *4* مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ فرماتے ہیں کہ: *متروك الحديث.* *5* أبو أحمد بن عدي الجرجانيؒ فرماتے ہیں کہ: *له عن الليث مناكير.* *6* امام الذهبيؒ فرماتے ہیں کہ : *ذكر فيه ما يقتضي الوضع.* *طریق نمبر 3* حدثني حفص بن عمر، ثنا الهيثم بن عدي عن يونس بن يزيد الأيلي عن الزهري أن عبد الرحمن بن عوف قال: دخلت علي أبي بكر في مرضه. *البلاذري. أنساب الأشراف، ج 3، ص 406 ، طبق برنامه الجامع الكبير.* ✍️اس طریق میں *الهيثم بن عدي* متروک الحدیث ہے۔ اور اضطراب بھی تینوں اسناد میں ہے۔ اس کا پورا نام:. *الهيثم بن عدي بن عبد الرحمن بن زيد بن أسيد بن جابر بن عدي بن خالد بن خيثم بن أبي حارثة* ہے *1:* أبو بكر البيهقيؒ فرماتے ہیں کہ *متروك الحديث، ونقل عن ابن عدي أنه: ضعيف جدا* *2:* أبو حاتم الرازيؒ فماتے ہیں کہ *متروك الحديث۔* *3:* أبو داود السجستانيؒ فرماتے ہیں کہ: *كذاب.* *4:* أبو زرعة الرازي فرماتے ہیں کہ : *ليس بشيء* *5:* امام يحيى بن معين الحنفیؒ فرماتے ہیں کہ: *ليس هو بثقة، ومرة: ليس بشيء، ومرة: ليس بثقة كان يكذب* خلاصہ کلام آپ کی پیش کردہ روایت سے استدلال کرنا ہی سرے سے غلط ہے کیوں کہ تینوں طریق میں ایک طریق بھی قابل استدلال نہی ہے۔ تینوں اسناد میں وضح،کذاب اور متروک راوی موجود ہیں۔ الحکم الحدیث: متروک (طالب دعا : محمد عمران علی حیدری) 17.09.2021. 09 صفر المظفر 1443ھ
  9. *کفار نے کہا انبیاء کو کہ تم صرف ہمارے جیسے بشر ہو* بسم اللہ الرحمن الرحیم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم. اعتراض : مفتی احمد یار خان نعیمی نے اپنی تفسیر میں کہا کہ: انبیاء کو بشر کہنے والے کافر ہی تھے اب جو انبیاء کو بشر کہے وہ مفتی صاحب کے نزدیک کافر ہے کیا انبیاء بشر نہیں ہوتے قل انما آنا بشر المثلکم قرآن میں اللہ کہتا کہ اے نبی تم کہے دو کہ میں تمھاری مثل بشر ہوں۔ اور جگہ جگہ انبیاء کو بشر کہا گیا ہے بلکہ سنیوں کی سب معبتر علماء انبیاء کی بشریت کا انکار کفر سمجھتے ہیں اب کون کافر ہے مفتی احمد یار یا پھر باقی سنی علماء قرآن و حدیث میں ثبوت موجود ہے کہ انبیاء بشر ہی ہوتے ہیں۔ *الجواب بعون الوہاب۔* پہلی بات وہابیوں کا اعتراض ہی باطل ہے جو کہ کچھ اہمیت کا حامل نہیں بس جہالت پر مبنی ہے لیکن اپنی عوام کے لیے ہم جواب دے دیتے ہیں۔ اس میں حکیم الامت نے انبیاء کرام علیہم السلام کی بشریت کا انکار کیا ہی نہیں یہی بتایا کہ موازنہ کرتے اپنے جیسا بتاتے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت، شان و عظمت کم کرنے کی کوشش کرتے لوگوں کے سامنے اور انبیاء کو کہتے کہ یہ تو بس ہمارے جیسا بشر اے لوگو تم ان کی پیروی کرو گے۔ لوگوں کے دلوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے یہ بیٹھانا چاھتے تھے یہی کہ یہ ہم جیسے ہیں بشر بس اور یہی لوگ انبیاء کی عزت کم کر کے لوگوں کے سامنے پیش کر کے انبیاء کی عزت کرنا چاھتے۔ اس پوسٹ کو مکمل پڑھیں تو سمجھ لگ جاۓ گی حکیم الامت، مفسر شہیر علامہ،مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ نے بلکل صحیح بات کی ہے عین قرآن سے وہی بات ثابت ہے۔ عقیدہ: *عقیدہ اھلسنت: تمام انبیاء کرام علہم السلام بشر ہی ہیں بشریت کا انکار کفر ہے اورحضرت محمد صلی صلی اللہ علیہ وآلہ وسم کی نورانیت کا انکار کرنا گمراہی ہے۔ ان کمال،فضائل، خصائص بہت زیادہ ہیں انکو قرآن میں نور بھی کہا گیا احادیث میں بھی آیا مفہوم ہے کہ تم میں سے کوئی بھی میری مثل نہیں۔ یہ باتیں قرآن و حدیث سے ثابت شدہ ہیں۔* *لیکن ان کو اپنے جیسا بشر کہنا اس انداز سے کہ عوام کو باور کروایا جاۓ کہ انبیاء کوئی چیز ہی نہیں بس وہ نبی ہیں اور ان پر وحی آتی باقی ہم میں ان میں کوئی فرق نہیں اور نبی ایک انسان ہوتا ہے اس انداز سے کہنے کہ ہر نتھو پھتو ایرا غیرہ لولھا لنگڑا کانا سمجھے کہ ہم میں اور انبیاء میں کوئی فرق ہی نہیں یہ تو عام بات ہے ہم بھی بشر وہ بھی بشر اور بس فرق یہی ہے کہ ان وحی آتی ہے ہم پر نہیں۔اور خاص کر جب شان نبی علیہ السلام بیان کی جارہی ہو تو کچھ نام نہاد مولویوں کو تکلیف ہونا شروع ہو جاتی ہے وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے تو وہاں یہ رٹ لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہماری مثل بشر ہیں ہماری جیسے ہیں بس تو ہم اس بات کی پرزور مزمت کرتے ہیں اور اس میں عوام الناس نبی کو عام انسان محسوس کرتی ہے اور نبوت کو عام سا عہدہ اور اس پر فائز نبی عام بشر سمجھنے لگتے ہیں۔* *2: اعتراض:.* بات یہ کہ تم نبی کو خدا بنا دیتے ہو یا اس کو خدا کے برابر کر دیتے ہو اور لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ نبی نہیں خدا ہے اس لیے ہم یہ بات ادھر کرتے ہیں۔ *الجواب بعون الوہاب:.* اگر یہ بات سچ ہے تو آپ وہاں اپنے جیسا بشر ثابت کرنے کہنے کی بجاۓ پوچھ لیا کریں کہ تم نبی کو اللہ(خدا) یا اللہ کا بیٹا یا فرشتہ یا کچھ اور سمجھتے ہو تو پھر جو جواب ملے گا سن لینا یقینا جواب یہی ہوگا ہم بتا دیتے ہیں اور یہی کہا جاۓ گا کہ بے مثل بشر سمجھتے ہیں ان کی مثل اللہ نے ان کے مرتبہ و مقام کا بنایا ہی نہیں کسی کو۔ بے شک تمام ابییاء بشر ہیں۔ تو اگر یہی جواب ملے تو پھر سمجھ جائیں حق کیا ہے۔ ھدایت اللہ ہی عطا کرتا ہے ہمارا کام آپ کو حق بتانا ہے۔ ✍️اصل علمی تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے اسے بھی پڑھ لیں:.✍️ کچھ جاہل قسم کے لوگ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ پر زبانیں کستے ہیں اور کہتے ہیں کہ کہاں ہے کوئی ایک آیت لاو جس میں ہو کہ انبیاء کو بشر کہنے والے کافر ہوں۔ ایسا مطالبہ کرنے والے یقینا جاہل ہی ہو سکتے جو قرآن کو کبھی نہ پڑھنے والے ہی ہو ہوسکتے ہیں ورنہ اس بات کا مطالبہ ہی نہ کرتا ہم کچھ آیات پیش کرتے ہیں تاکہ جہلا سمجھ سکیں کہ قرآن میں سچی بات ہے کفار نے یہی کہا انبیاء علیہم السلام کو کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر نور العرفان میں یہ بات کی ہے۔ آپ نے بلکل ٹھیک کہا ہے ایسا ہی ہے۔ اور مفتی صاحب قرآن کو گہری نظر سے سمجھنے والے انسان تھے اللہ ان کے درجات بلند فرماۓ اور سیدی معصوم کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں اور ساتھ ہی ساتھ ہماری بھی آمین۔ ✍️✍️✍️قرآنی دلائل: ۔ *بسم اللہ الرحمن الرحیم* 1: *نمبر ایک الشعراء 186* وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُـنَا وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِيْنَ. ترجمہ: تم تو نہیں مگر ہم جیسے بشر اور بیشک ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس آیت مبارکہ شان نزول دیکھ لیجیے گا کن لوگوں نے کہا تھا یہ کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو. (محمد عمران علی حیدری) 2: *نمبر دو سورۃ الإسراء نمبر 94* وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ يُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَهُمُ الۡهُدٰٓى اِلَّاۤ اَنۡ قَالُـوۡۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوۡلًا‏. ترجمہ: اور لوگوں کو ایمان لانے سے صرف یہ چیز مانع ہوئی کہ جب بھی ان کے پاس ہدایت آئی تو انہوں نے کہا کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے. (محمد عمران علی حیدری) 3: *سورۃ المؤمنون آیت 24* فَقَالَ الۡمَلَؤُا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِهٖ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ ۙ يُرِيۡدُ اَنۡ يَّـتَفَضَّلَ عَلَيۡكُمۡ ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنۡزَلَ مَلٰٓئِكَةً ۖۚ مَّا سَمِعۡنَا بِهٰذَا فِىۡۤ اٰبَآئِنَا الۡاَوَّلِيۡنَ‌. ترجمہ: پس ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا یہ تو محض تمہاری مثل بشر ہیں جو تم پر فضیلت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اگر اللہ کسی کو بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو نازل کردیتا، ہم نے تو اس بات کو اپنے پہلے باپ دادا میں سے کسی سے نہیں سنا. (محمد عمران علی حیدری) 4: *سورۃ المؤمنون آیت 33* وَقَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِهِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ الۡاٰخِرَةِ وَاَتۡرَفۡنٰهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ۙ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ ۙ يَاۡكُلُ مِمَّا تَاۡكُلُوۡنَ مِنۡهُ وَيَشۡرَبُ مِمَّا تَشۡرَبُوۡنَ. ترجمہ: اور رسول کی قوم کے وہ *کافر سردار* جنہوں نے آخرت کی ملاقات کی تکذیب کی تھی اور جن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں فراوانی عطا فرمائی تھی وہ کہنے لگے یہ رسول صرف *تمہاری مثل بشر ہے* یہ ان ہی چیزوں میں سے کھاتا ہے جن سے تم کھاتے ہو اور ان ہی چیزوں سے پیتا ہے جن سے تم پیتے ہو. (محمد عمران علی حیدری) 5: *سورۃ المؤمنون آیت 34* وَلَئِنۡ اَطَعۡتُمۡ بَشَرًا مِّثۡلَـكُمۡ اِنَّكُمۡ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَۙ. ترجمہ: اور اگر تم نے اپنے جیسے بشر کی اطاعت کی تو تم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائو گے. (محمد عمران علی حیدری) 6: *سورۃابراهيم آیت 10* قَالَتۡ رُسُلُهُمۡ اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ يَدۡعُوۡكُمۡ لِيَـغۡفِرَ لَـكُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِكُمۡ وَيُؤَخِّرَكُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى‌ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَاؕ تُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا كَانَ يَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍ. ترجمہ: ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ کے متعلق شک ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے وہ تمہیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمہارے بعض گناہ ہوں کو بخش دے اور موت کے مقرر تک تم کو عذاب سے مئو خر رکھے، انہوں نے کہا *تم تو محض ہماری مثل بشر ہو* تم تو یہ چاہتے ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جن کی ہمارے آباؤاجداد پرستش کرتے تھے سو تم ہمارے پاس کوئی روشن دلیل لاؤ. (محمد عمران علی حیدری) 7: *سورۃ يس آیت 15* قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ. ترجمہ: ان لوگوں نے کہا *تم تو صرف ہماری مثل بشر ہو* اور رحمٰن نے کچھ نازل نہیں کیا تم محض جھوٹ بولتے ہو. (محمد عمران علی حیدری) 8: *سورۃ الأنبياء آیت 3* لَاهِيَةً قُلُوۡبُهُمۡ‌ ؕ وَاَسَرُّوا النَّجۡوَى‌ۖ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا ‌ۖ هَلۡ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ‌ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَاَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ. ترجمہ: ان کے دل کھیل کود میں ہیں، اور ظالموں نے آپس میں یہ سرگوشی کی کہ یہ شخص تو تمہاری ہی مثل بشر ہے کیا تم جانتے وبجھتے جادو کے پاس جا رہے ہو. (محمد عمران علی حیدری) مفہوم کلام:۔ ثابت ہوا کہ کفار نے انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنے جیسا بشر کہا اور انبیاء کی عزت کم کرتے اور ان کی دعوت کا انکار کرتے اور اور اپنے جسا بشر کہے کر لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے نفرت پیدا کرنا چاھتے تھے۔ اور ان کو عام بشر کہتے تھے۔ پس جو کہتا ہے حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی ؒ نے غلط کہا تو وہ آنکھیں کھول کے بار بار پڑھیں اس تحریر کو پس حق یہی ہے مفتی صاحب کا موقف قرآن سے ثابت ہے۔ اب اگر کوئی مفتی صاحب پر اعتراض کرے اسی بات کی وجہ سے تو پھر یہ علمی اختلاف نہیں بلکہ مخالفت ہے۔ إن شاءالله ایک اور تحریر نور و بشر پر بنانی ہے اس میں بہت سارا علمی مواد ہوگا وقت ملتے ہی بنائی جاۓ گی إن شاءالله۔ *(طالب دعا محمد عمران علی حیدری)* 24.01.2022.
  10. *حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان(یقین) امت سے بڑھ کے ہے* مختلف الفاظ کے ساتھ یہ حدیث موجود ہے کہیں جمیع المومنین کے الفاظ ہیں تو کہیں العالمین کے ہیں اور کہیں الناس کے ہیں کہیں اھل العرض کے الفاظ ہیں۔ یہ روایت معناََ صحیح ہے۔ لو وضع إيمان أبي بكر على إيمان هذه الأمة لرجح بها۔ ترجمہ: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان امت سے بڑھ کے ہے، اس کے شواھد و مطابعت موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ حدیث درجہ حسن کی ہے بلک اس سے اوپر تک جا سکتی ہے۔ اور اسی مفہوم(مطابعت و شواھد) کی ایک موقوف روایت شعب الایمان میں موجود ہے سند کے ساتھ۔ 35: أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، حدثنا أبو بكر أحمد بن إسحاق الفقيه، حدثنا محمد بن عيسى بن السكن، حدثنا موسى بن عمران، حدثنا ابن المبارك، عن ابن شوذب، عن محمد بن جحادة، عن سلمة بن كهيل، عن هزيل بن شرحبيل قال: قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: " لو وزن إيمان أبي بكر بإيمان أهل الأرض لرجح بهم " *شعب الایمان 1/143* *مسند اسحاق بن راہویہ۔ نوادر الاصول فضائل الصحابہ* ترجمہ:سیدنا عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ: اگر ابوبکررضی اللہ عنہ کے ایمان کو اہل زمین کے ایمان سے وزن کیا جائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان بھاری ہوجائے گا۔۔ 2286: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ قَالَ : حَدَّثَنَا أَشْعَثُ ، عَنْ الحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ : مَنْ رَأَى مِنْكُمْ رُؤْيَا ؟ فَقَالَ رَجُلٌ : أَنَا رَأَيْتُ كَأَنَّ مِيزَانًا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ ، وَوُزِنَ أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَحَ عُمَرُ ، ثُمَّ رُفِعَ المِيزَانُ ، فَرَأَيْنَا الكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: ”تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک ترازو اترا، آپ اور ابوبکر تولے گئے تو آپ ابوبکر سے بھاری نکلے، ابوبکر اور عمر تولے گئے، تو ابوبکر بھاری نکلے، عمر اور عثمان تولے گئے تو عمر بھاری نکلے پھر ترازو اٹھا لیا گیا، ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے. تخریج: أبو داود في سننه باب باب في الخلفاء۔ حديث رقم 4080 أحمد في المسند باب حديث أبي بكرة نفيع بن الحارث بن كلدة۔ حديث رقم 20031 أحمد في المسند باب حديث أبي بكرة نفيع بن الحارث بن كلدة۔ حديث رقم 20082 أحمد في المسند باب حديث أبي بكرة نفيع بن الحارث بن كلدة۔ حديث رقم 20084 الحاكم في المستدرك باب أما حديث ضمرة وأبو طلحة۔ حديث رقم 4411 الحاكم في المستدرك باب وأما حديث شرحبيل بن أوس۔ حديث رقم 8304 النسائي في الكبرى باب مناقب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من المهاجرين والأنصار۔ حديث رقم 6909 الطيالسي في مسنده باب أبو بكرة۔ حديث رقم 897 ابن أبي شيبة في مصنفه باب ما قالوا فيما يخبره النبي صلى الله عليه وسلم من الرؤيا۔ حديث رقم 29887 ابن أبي شيبة في مصنفه باب ما ذكر في أبي بكر الصديق رضي الله عنہ۔ حديث رقم 31339 أحمد في فضائل الصحابة باب وهذه الأحاديث من حديث أبي بكر بن مالك عن شيوخه۔ حديث رقم 182 أحمد في فضائل الصحابة باب ومن فضائل عمر بن الخطاب من حديث أبي بكر بن مالك۔ حديث رقم 549 البزار في مسنده باب بقية حديث أبي بكرة۔ حديث رقم 3084 الطحاوي في مشكل الآثار باب باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه۔ حديث رقم 283 الحکم الحدیث: حسن۔ (طالب دعا محمد عمران علی حیدری)
  11. *ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے حدیث کی تحقیق* حُبُّ اَبِیْ بَکْرٍ وَشُکْرُہٗ وَاجِبٌ عَلٰی اُمَّتِی ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے۔ ✍️یہ روایت موضوع ہے اس کے دو طریق ہیں اور دونوں میں ایک کذاب راوی موجود ہے۔ *طریق نمبر 1:.* 2726 - أحمد بن محمد بن العلاء حدث عن عمر بن إبراهيم الكردي، روى عنه: ابن أخيه محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب 📕أخبرني الحسن بن أبي طالب، قال: حدثنا يوسف بن عمر القواس، قالا: حدثنا أبو جعفر محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب، قال: حدثني عمي أحمد بن محمد بن العلاء، قال: حدثنا *عمر بن إبراهيم يعرف بالكردي،* قال: حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن المغيرة بن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أمن الناس علي في صحبته وذات يده أبو بكر الصديق، فحبه وشكره وحفظه واجب على أمتي " 1📘: ✍️تفرد به عمر بن إبراهيم -ويعرف بالكردي- عن ابن أبي ذئب، وعمر ذاهب الحديث. *قال الخطيب أيضا (3/ 475):* ✍️ذاھب الحدیث کہنا بھی ایک سخت جرح ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ راوی کو راوی کذاب ہے۔ 📘محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى. هذامنكر جدا. *قال الدارقطني: كذاب.* طریق نمبر 2:. نا أبو بكر محمد بن إسماعيل الوراق نا علي بن محمد بن أحمد المصري نا أحمد بن يحيى بن خالد بن حماد بن المبارك نا حماد بن المبارك نا صالح بن عمر القرشي نا *عمر بن إبراهيم بن خالد* عن ابن أبي ذئب عن ابن أبي لبيبة عن أنس بن مالك قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) *حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي* وروي عن ابن أبي ذئب بإسناد آخر أخبرناه أبو بكر وجيه بن طاهر أنا أبو بكر يعقوب بن أحمد بن محمد الصيرفي أنا أبو نعيم أحمد بن محمد بن إبراهيم بن عيسى الأزهري بن الشيخ العدل نا أبو بكر أحمد بن إسحاق بن إبراهيم بن جعفر الصيدلاني إملاء نا أحمد بن محمد بن نصر اللباد *ابن عساکر جلد30.ص141* ✍️اس طریق میں بھی وہی راوی موجود ہے عمر بن ابراھیم۔ مسند الفروس بماثور الخطاب میں صاحب فردوس نے بغیر سند کے اس کو نقل کیا ہے ✍️2724 - سهل بن سعد: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي *مسند الفردوس 142/2* امام اصبھانی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسکو نقل کیا ہے وہی طرق سیدنا سھل بن سعد والا 85 - أخبرنا عمر بن أحمد، ثنا محمد بن عبد الله بن دينار والحسن بن يحيى النيسابوري قالا: ثنا أحمد بن نصر اللباد، *ثنا عمر بن إبراهيم،* ثنا محمد بن عبد الرحمن بن أبي ذئب، ثنا أبو حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي» *فضائل الخلفاء الراشدین ابی نعیم الاصبھانی۔ص89* ✍️اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے۔ وروى محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى. هذا منكر جدا. قال الدارقطني۔ عمر بن ابراھیم :كذاب. *میزان اعتدال3/180.امام ذھبی علیہ الرحمہ* اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے کذاب ہے۔ ✍️✍️✍️✍️✍️✍️📚مرکزی راوی عمر بن ابراھیم پر کلام:- ✍️أبو حاتم بن حبان البستی فرماتے ہیں کہ: لا يجوز الاحتجاج بخبره ہے۔ ✍️الخطيب البغدادي فرماتے ہیں کہ : غير ثقة، ومرة: يروي المناكير عن الاثبات۔ ثقہ سے مناکیر بیان کرتا ہے ✍️امام الدارقطني فرماتے ہیں کہ : كذاب خبيث يضع الحديث ہے۔ ✍️امام الذهبي فرماتے ہیں کہ : عمر بن ابراھیم كذاب ہے۔ ✍️میزان اعتدال جلد5ص225. الرقم: 6050. کذاب. 📖خلاصہ کلام:-✍️✍️ اس روایت کے مجھے دو طریق ملے ہیں،جس میں ایک مرکزی راوی ہے، جس کی وجہ سے یہ روایت قابل استدلال اور فضائل و مناقب میں بیان کے کے قابل نہیں ہے۔ اور محققین نے اس حدیث کو موضوعات میں درج کیا ہے جیسا امام ملا علی قاری حنفی رحمتہ اللہ علیہ امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ۔ اس راوی کا نام عمر بن إبراهيم بن خالد بن عبد الرحمن ہے۔اس کو عمر بن ابراھیم الکردی کے نام سے جانا جاتا ہے جیسا کہ اوپر رویات میں درج ہے۔یہ اسکا نسب ہے اسے الکردی کے ساتھ ساتھا القرشی الهاشمی بھی کہا جاتا ہے۔ اس راوی پر کذاب، ذاھب الحدیث،، یروی مناکیر اوریضح الحدیث کی جروحات ہیں۔ ✍️الحکم الحدیث: موضوع (طالب دعا محمد عمران علی حیدری)
  12. آذان سے پہلے اور بعد میں کیا پڑھیں اور کیا کیا پڑھ سکتے ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں. از قلم و طالب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم یا اللہ عزوجل یارسول اللہؐﷺ 🌹دورد ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور آل و اصحاب پر بے شمار لاکھوں کروڑوں اربوں کھربوں کثیرا کثیرا بار❤️ صلی اللہ علیہ وآلہ اصحابہ وبارک وسلم القرآن المجید فرقان الحمید برہان العظیم میں اللہ وحدہ لاشریک کا انعام، بے مثل قرآن میں بےمثال فرمان :۔❤️❤️ 📖اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا.📖 سورۃ الاحزاب: آیت نمبر56. ترجمہ: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر ، اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو، ✍️✍️✍️یہ تفسیر نہیں بس اس آیت میں موجود نقاط ہیں بس اگر اس کی تفسیر دیکھنی ہے تو نیچے کتب تفاسیر کے حوالہ جات دیے ہوۓ ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں غور طلب باتیں جو کہ بتانا مقصود ہیں : ۔ ✍️اللہ کی شان ان باتوں پر غور کیا جاۓ تو سمجھ آ جاۓ گی کہ قرآن کی شان کیا ہے اور پتہ چلے کہ وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ کا مفہوم کیا ہے، ✍️ قرآن سمجھنا آسان ہے اگر نظر و دل میں شان و عظمت مصطفیؐ ہو تو ورنہ اس قرآن کو پڑھ کر خوارج نے سیدنا ابوتراب، مولا کائنات، شیر خدا، جنت کے شہزادوں کے بابا، جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں بھی حق پر تھے مگر معاویہ بھی ہمارے سردار، فاتح خیبر مولا مشکل کشاہ علی حیدر کرم وجہ الکریم پر بھی کفر کا کا فتوئ لگا دیا تھا۔😭 ✍️اگر اس قرآن کو پڑھ کر صحابی رسول پر کفر و شرک کے فتوۓ لگے ہیں تو آج ہم سنیوں پر جو لگ رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ حضرت معاویہؓ کی مثال اس لیے دی کہ ایک صحابی کے مقابلہ میں ایک صحابی حق پر ہے تو خوارج نے حق پر قائم رہنے والے صحابی، خلیفہ چہارم پر فتوئ لگا دیا تھا اللہ کی شان!، آج یہی کام ایک قوم کرتی نظر آتی ہے اشارہ کافی ہے۔ خیر اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ 👇👇👇 اس آیت مبارکہ میں وقت متعین نہیں ہے اور وہ کوئی وقت بھی ہو سکتا ہے، اور اگر بات کی جاۓ فضائل درود و سلام کی تو تحریر بہت لمبی ہوجاۓ گی۔ لہذا جب پڑھیں جس وقت پڑھیں پڑھ سکتے ہیں درود و سلام، *نماز سے پہلے یا نماز کے بعد میں ہو، آذان سے پہلے ہو بعد ہو اس کے علاوہ گھر ہو مسجد میں ہو، بیٹھ کے پڑھو یا کھڑے ہو کے پڑھو، تھوڑا پڑھو زیادہ پڑھو پڑھ سکتے ہیں۔* علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر درود و سلام دکھاوۓ کے لیے بھی کوئی پڑھے تو بھی ثواب ملے باقی دینی کاموں کا ثواب نہیں ملتا اگر دکھاوے کے لیے کیا جاۓ چاھے وہ نماز ہی کیوں نہ ہو۔ سبحان الله اس آیت مبارکہ کی تفسیر کے لیے ✍️✍️اگر ان تمام تفاسیر کا خلاصہ اگر پڑھنا ہے تو تفسیر خزائن العرفان ہی پڑھ لیں۔ اور اس کے بعد تفسیر صراط الجنان بہتر ہے۔ اگر تفصیل پڑھنی ہے تو تبیان القرآن پڑھ لیں۔✍️✍️✍️ یہ تین تفاسیر تقریبا تمام کتب تفاسیر کا بہترین نچوڑ ہیں *📖1تفسیر تبیان القرآن۔* *📚 2تفسیر خزائن العرفان۔* *📗3تفسیر صراط الجنان۔* 📓4تفسیر درمنثور۔🌹 📘5تفسیر جلالین۔🌹 📙6تفسیر مدارک التنزیل۔🌹 📓7تفسیر قرطبی۔🌹 📙8تفسیر بغوی۔🌹 📘9تفسیر ابن کثیر۔🌹 📗10تفسیر روح البیان۔🌹 📕11تفسیر خزینتہ القرآن۔🌹 📓12تفسیر سراج المنیر۔🌹 📙13تفسیر نور العرفان۔🌹 📗14تفسیر ضیاء القرآن۔🌹 📕15تفسیر الحسنات۔🌹 وغیرہ کتب تفاسیر (طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) ✍️✍️✍️✍️ *ہر وہ کام جس میں اللہ کی حمد اور نبی علیہ السلام پر درودو سلام نہ ہو تو وہ کام نعمت سے خالی ہے* یہ روایت ضعیف ہے جو ہمارے ہاں فضائل و مناقب میں قابل قبول ہے۔ اس روایت کا متن بالکل ٹھیک ہے جیسا آپ ابھی پڑھیں گے : ۔ 📕امام ابو یعلیٰ الخلیلی (م 446ھ) رحمہ اللہ نے فرمایا :- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ خَزَرِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ الْمُوَفَّقِ الزَّاهِدُ بِهَمَذَانَ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الطَّيَّانِ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْقَاسِمِ الزَّاهِدُ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الشَّامِيُّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ أَمْرٍ لَمْ يُبْدَأْ فِيهِ بِحَمْدِ اللَّهِ وَالصَّلَاةِ عَلَيَّ فَهُوَ أَقْطَعُ أَبْتَرُ مَمْحُوقٌ مِنْ كُلِّ بَرَكَةٍ» ترجمہ :- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ کام جس میں اللہ کی حمد و ثنا اور مجھ پر درود و سلام نہ ہوں منقطع اور ہر نعمت سے خالی ہے [ الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي رقم الحدیث :- 119 ] ‼️ اس روایت کو الحافظ عبد القادر بن عبد الله الرهُاوى نے اپنی " الأربعون على البلدان " میں امام دیلمی نے " مسند الفردوس " میں امام تاج الدین ابن سبکی نے " طبقات الشافعية " میں باسند نقل کیا اس روایت کے حوالے سے اہل علم فرماتے ہیں :- ➊ امام سخاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف کہا [ القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع ص244 ] ➋ عرب کے محقق ناصر الدین البانی نے بھی ضعیف کہا [ ضعيف الجامع الصغير وزيادته ص613 ] ➌ عرب کے محقق شعیب ارناؤوط نے بھی ضعیف کہا [ جلاء الأفهام - ت الأرنؤوط ص441 ] ‼️ ہمارے نزدیک بھی یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا دوسرا طریق بھی ہے جس کا ذکر امام مقریزی رحمہ اللہ نے فرمایا :- وروى أبو موسى المدني، عن يونس بن يزيد، عن الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة رضي الله تبارك وتعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل كلام لا يذكر الله فيبدأ به وبالصلاة علي، فهو أقطع ممحوق من كل بركة [ إمتاع الأسماع 11/153 ] ازقلم :سید عاقب حسین رضوی۔ ✍️✍️✍️✍️ آذان کے بعد دو چیزیں پڑھنے کا ثبوت اور ساتھ ہی خوشخبری 📖حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَيْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَعْبِ بْنِ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً، ‏‏‏‏‏‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي الْوَسِيلَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ تَعَالَى، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ. ھذا حدیث صحیح ابوداؤد باب الآذان١(٥١٩) صحیح مسلم باب الصلاة ٧ (٣٨٤)، سنن الترمذی باب باب المناقب ١ (٣٦١٤)، سنن النسائی باب الأذان ٣٧ (٦٧٩)، مسند احمد (٢/١٦٨) ترجمہ: عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: جب تم مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی وہی کہو جو وہ کہتا ہے، پھر میرے اوپر درود بھیجو، اس لیے کہ جو شخص میرے اوپر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرمائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو، وسیلہ جنت میں ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گا، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا، جس شخص نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی. (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس پر عمل کوئی بھی نہیں کرتا 😭😭😭 آذان کے بعد درود و سلام پڑھا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ✍️آذان کا جواب بھی دیا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ✍️وسیلہ والی دعا بھی کیا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ❤️🌹شفاعت واجب ہے ان سب کاموں پر سبحان الله‎۔❤️ (محمد عمران علی حیدری) ✍️✍️✍️✍️ *آذان کے سے پہلے دعا پڑھنے کا ثبوت* 📖حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتِي بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ ثُمَّ يُؤَذِّنُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُهُ كَانَ تَرَكَهَا لَيْلَةً وَاحِدَةً تَعْنِي هَذِهِ الْكَلِمَاتِ. ھذا حدیث حسن ابو داؤد ١(٥٢٣) ترجمہ: حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال ؓ اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چناچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے: اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں ، وہ کہتی ہے: پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اگر کوئی آذان سے پہلے درود وسلام نہیں پڑھتا تو تواسے اس پر ملامت نہ کیا جاۓ اگر کوئی پڑھتا ہے تو اسے بھی ملامت نہ جاۓ۔✍️ ✍️آذان سے پہلے کچھ بھی نہیں ثابت کی رٹ لگانا غلط ہے کیوں کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کچھ پڑھنا ثابت ہے۔ ✍️آذان سے پہلے دعا ثابت ہے یہی پڑھی جاۓ بہتر ہے۔ ✍️اگر کوئی اس دعا کے ساتھ ذات اقدس پر درود و سلام پڑھنا چاھے تو روکا نہ جاۓ۔ ✍️اگر کوئی کہے کہ اس وقت دین کے غلبہ کی دعا تھی اب الحَمْد للهْ دین غالب ہے تو اب اس دعا کی جگہ درود و سلام پڑھ لیا جاۓ تو کافی حد تک اسکی بات ٹھیک ہے۔ ✍️ لیکن میں کہتا ہوں کہ اس دعا کو بھی پڑھا جاۓ اور ساتھ ساتھ ذات اقدس پر درود سلام بھی پڑھا جاۓ۔ ✍️نہ یہ دعا آذان کا حصہ تھی نہ ہے اور نہ درود و سلام آذان کا حصہ ہے، ✍️تو حرج نہیں ہونی چاھیے۔ ضد چھوڑیں بس نبی علیہ السلام سے محبت کریں انہی کے نام کردیں اپنا جینا مرنا پھر آپکو کبھی نہیں لگے گا کہ درود یہاں نہ پڑھو یہ والا درود نہ پڑھو اس صیغہ والا نہ پڑھو۔ پھر ایک ہی بات کرو گے درود پڑھو سلام پڑھو۔ درود و سلام پڑھو۔ ✍️اگر ایسا کیا جاۓ تو اختلاف و لڑائی جھگڑا ختم کیا جا جاسکتا ہے۔ صلی اللہ و علیہ وآلہ واصحابہ وسلم۔ الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یاحبیب اللہﷺ۔ (از قلم طالب دعا : محمد عمران علی حیدری) 02.12.2021 دو دسمبر 1443ھ
  13. آذان سے پہلے اور بعد میں کیا پڑھیں اور کیا کیا پڑھ سکتے ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں. از قلم و طالب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم یا اللہ عزوجل یارسول اللہؐﷺ 🌹دورد ذات اقدس اور آل و اصحاب پر بے شمار لاکھوں ارباں کروڑاں کھرباں بار❤️ صلی اللہ علیہ وآلہ اصحابہ وبارک وسلم القرآن المجید فرقان الحمید برہان العظیم میں اللہ وحدہ لاشریک کا انعام، بے مثل قرآن میں بےمثال فرمان :۔❤️❤️ 📖اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا.📖 سورۃ الاحزاب: آیت نمبر56. ترجمہ: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر ، اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو، ✍️✍️✍️یہ تفسیر نہیں بس اس آیت میں موجود نقاط ہیں بس اگر اس کی تفسیر دیکھنی ہے تو نیچے کتب تفاسیر کے حوالہ جات دیے ہوۓ ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں غور طلب باتیں جو کہ بتانا مقصود ہیں : ۔ ✍️اللہ کی شان ان باتوں پر غور کیا جاۓ تو سمجھ آ جاۓ گی کہ قرآن کی شان کیا ہے اور پتہ چلے کہ وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ کا مفہوم کیا ہے، ✍️ قرآن سمجھنا آسان ہے اگر نظر و دل میں شان و عظمت مصطفیؐ ہو تو ورنہ اس قرآن کو پڑھ کر خوارج نے سیدنا ابوتراب، مولا کائنات، شیر خدا، جنت کے شہزادوں کے بابا، جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں بھی حق پر تھے مگر معاویہ بھی ہمارے سردار، فاتح خیبر مولا مشکل کشاہ علی حیدر کرم وجہ الکریم پر بھی کفر کا کا فتوئ لگا دیا تھا۔😭 ✍️اگر اس قرآن کو پڑھ کر صحابی رسول پر کفر و شرک کے فتوۓ لگے ہیں تو آج ہم سنیوں پر جو لگ رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ حضرت معاویہؓ کی مثال اس لیے دی کہ ایک صحابی کے مقابلہ میں ایک صحابی حق پر ہے تو خوارج نے حق پر قائم رہنے والے صحابی، خلیفہ چہارم پر فتوئ لگا دیا تھا اللہ کی شان!، آج یہی کام ایک قوم کرتی نظر آتی ہے اشارہ کافی ہے۔ خیر اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ 👇👇👇 اس آیت مبارکہ میں وقت متعین نہیں ہے اور وہ کوئی وقت بھی ہو سکتا ہے، اور اگر بات کی جاۓ فضائل درود و سلام کی تو تحریر بہت لمبی ہوجاۓ گی۔ لہذا جب پڑھیں جس وقت پڑھیں پڑھ سکتے ہیں درود و سلام، *نماز سے پہلے یا نماز کے بعد میں ہو، آذان سے پہلے ہو بعد ہو اس کے علاوہ گھر ہو مسجد میں ہو، بیٹھ کے پڑھو یا کھڑے ہو کے پڑھو، تھوڑا پڑھو زیادہ پڑھو پڑھ سکتے ہیں۔* علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر درود و سلام دکھاوۓ کے لیے بھی کوئی پڑھے تو بھی ثواب ملے باقی دینی کاموں کا ثواب نہیں ملتا اگر دکھاوے کے لیے کیا جاۓ چاھے وہ نماز ہی کیوں نہ ہو۔ سبحان الله اس آیت مبارکہ کی تفسیر کے لیے ✍️✍️اگر ان تمام تفاسیر کا خلاصہ اگر پڑھنا ہے تو تفسیر خزائن العرفان ہی پڑھ لیں۔ اور اس کے بعد تفسیر صراط الجنان بہتر ہے۔ اگر تفصیل پڑھنی ہے تو تبیان القرآن پڑھ لیں۔✍️✍️✍️ یہ تین تفاسیر تقریبا تمام کتب تفاسیر کا بہترین نچوڑ ہیں *📖1تفسیر تبیان القرآن۔* *📚 2تفسیر خزائن العرفان۔* *📗3تفسیر صراط الجنان۔* 📓4تفسیر درمنثور۔🌹 📘5تفسیر جلالین۔🌹 📙6تفسیر مدارک التنزیل۔🌹 📓7تفسیر قرطبی۔🌹 📙8تفسیر بغوی۔🌹 📘9تفسیر ابن کثیر۔🌹 📗10تفسیر روح البیان۔🌹 📕11تفسیر خزینتہ القرآن۔🌹 📓12تفسیر سراج المنیر۔🌹 📙13تفسیر نور العرفان۔🌹 📗14تفسیر ضیاء القرآن۔🌹 📕15تفسیر الحسنات۔🌹 وغیرہ کتب تفاسیر (طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) ✍️✍️✍️✍️ *ہر وہ کام جس میں اللہ کی حمد اور نبی علیہ السلام پر درودو سلام نہ ہو تو وہ کام نعمت سے خالی ہے* یہ روایت ضعیف ہے جو ہمارے ہاں فضائل و مناقب میں قابل قبول ہے۔ اس روایت کا متن بالکل ٹھیک ہے جیسا آپ ابھی پڑھیں گے : ۔ 📕امام ابو یعلیٰ الخلیلی (م 446ھ) رحمہ اللہ نے فرمایا :- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ خَزَرِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ الْمُوَفَّقِ الزَّاهِدُ بِهَمَذَانَ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الطَّيَّانِ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْقَاسِمِ الزَّاهِدُ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الشَّامِيُّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ أَمْرٍ لَمْ يُبْدَأْ فِيهِ بِحَمْدِ اللَّهِ وَالصَّلَاةِ عَلَيَّ فَهُوَ أَقْطَعُ أَبْتَرُ مَمْحُوقٌ مِنْ كُلِّ بَرَكَةٍ» ترجمہ :- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ کام جس میں اللہ کی حمد و ثنا اور مجھ پر درود و سلام نہ ہوں منقطع اور ہر نعمت سے خالی ہے [ الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي رقم الحدیث :- 119 ] ‼️ اس روایت کو الحافظ عبد القادر بن عبد الله الرهُاوى نے اپنی " الأربعون على البلدان " میں امام دیلمی نے " مسند الفردوس " میں امام تاج الدین ابن سبکی نے " طبقات الشافعية " میں باسند نقل کیا اس روایت کے حوالے سے اہل علم فرماتے ہیں :- ➊ امام سخاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف کہا [ القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع ص244 ] ➋ عرب کے محقق ناصر الدین البانی نے بھی ضعیف کہا [ ضعيف الجامع الصغير وزيادته ص613 ] ➌ عرب کے محقق شعیب ارناؤوط نے بھی ضعیف کہا [ جلاء الأفهام - ت الأرنؤوط ص441 ] ‼️ ہمارے نزدیک بھی یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا دوسرا طریق بھی ہے جس کا ذکر امام مقریزی رحمہ اللہ نے فرمایا :- وروى أبو موسى المدني، عن يونس بن يزيد، عن الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة رضي الله تبارك وتعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل كلام لا يذكر الله فيبدأ به وبالصلاة علي، فهو أقطع ممحوق من كل بركة [ إمتاع الأسماع 11/153 ] (ازقلم :سید عاقب حسین رضوی۔) ✍️✍️✍️✍️ *آذان کے بعد دو چیزیں پڑھنے کا ثبوت اور ساتھ ہی خوشخبری* 📖حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَيْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَعْبِ بْنِ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً، ‏‏‏‏‏‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي الْوَسِيلَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ تَعَالَى، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ. *ھذا حدیث صحیح* *ابوداؤد باب الآذان١(٥١٩)* *صحیح مسلم باب الصلاة ٧ (٣٨٤)، سنن الترمذی باب باب المناقب ١ (٣٦١٤)، سنن النسائی باب الأذان ٣٧ (٦٧٩)، مسند احمد (٢/١٦٨)* ترجمہ: عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: جب تم مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی وہی کہو جو وہ کہتا ہے، پھر میرے اوپر درود بھیجو، اس لیے کہ جو شخص میرے اوپر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرمائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو، وسیلہ جنت میں ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گا، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا، جس شخص نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی. (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس پر عمل کوئی بھی نہیں کرتا 😭😭😭 آذان کے بعد درود و سلام پڑھا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ✍️آذان کا جواب بھی دیا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ✍️وسیلہ والی دعا بھی کیا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ❤️🌹شفاعت واجب ہے ان سب کاموں پر سبحان الله‎۔❤️ (محمد عمران علی حیدری) ✍️✍️✍️✍️ *آذان کے سے پہلے دعا پڑھنے کا ثبوت* 📖حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتِي بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ ثُمَّ يُؤَذِّنُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُهُ كَانَ تَرَكَهَا لَيْلَةً وَاحِدَةً تَعْنِي هَذِهِ الْكَلِمَاتِ. ھذا حدیث حسن *ابو داؤد ١(٥٢٣)* ترجمہ: حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال ؓ اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چناچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے: اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں ، وہ کہتی ہے: پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اگر کوئی آذان سے پہلے درود وسلام نہیں پڑھتا تو تواسے اس پر ملامت نہ کیا جاۓ اگر کوئی پڑھتا ہے تو اسے بھی ملامت نہ جاۓ۔✍️ ✍️آذان سے پہلے کچھ بھی نہیں ثابت کی رٹ لگانا غلط ہے کیوں کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کچھ پڑھنا ثابت ہے۔ ✍️آذان سے پہلے دعا ثابت ہے یہی پڑھی جاۓ بہتر ہے۔ ✍️اگر کوئی اس دعا کے ساتھ ذات اقدس پر درود و سلام پڑھنا چاھے تو روکا نہ جاۓ۔ ✍️اگر کوئی کہے کہ اس وقت دین کے غلبہ کی دعا تھی اب الحَمْد للهْ دین غالب ہے تو اب اس دعا کی جگہ درود و سلام پڑھ لیا جاۓ تو کافی حد تک اسکی بات ٹھیک ہے۔ ✍️ لیکن میں کہتا ہوں کہ اس دعا کو بھی پڑھا جاۓ اور ساتھ ساتھ ذات اقدس پر درود سلام بھی پڑھا جاۓ۔ ✍️نہ یہ دعا آذان کا حصہ تھی نہ ہے اور نہ درود و سلام آذان کا حصہ ہے، ✍️تو حرج نہیں ہونی چاھیے۔ ضد چھوڑیں بس نبی علیہ السلام سے محبت کریں انہی کے نام کردیں اپنا جینا مرنا پھر آپکو کبھی نہیں لگے گا کہ درود یہاں نہ پڑھو یہ والا درود نہ پڑھو اس صیغہ والا نہ پڑھو۔ پھر ایک ہی بات کرو گے درود پڑھو سلام پڑھو۔ درود و سلام پڑھو۔ ✍️اگر ایسا کیا جاۓ تو اختلاف و لڑائی جھگڑا ختم کیا جا جاسکتا ہے۔ صلی اللہ و علیہ وآلہ واصحابہ وسلم۔ الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یاحبیب اللہﷺ۔ (از قلم طالب دعا : محمد عمران علی حیدری) 02.12.2021 دو دسمبر 1443ھ
  14. وما یومن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون کا صحیح فہم کتب تفاسیر سے۔ ایک آیت کی پانچ معتبر کتب تفاسیر سے وضاحت کہ علماء کرام نے اسے کیسے سمجھا اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ از قلم طالب دعا: محمد عمران علی حیدری ( درخواست) ساری پوسٹ پڑھیں اور بزرگوں کو فالو کریں👏👏 أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم بسم اللہ الرحمن الرحیم یا اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ یارسول ﷺ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ فیض رضا جاری رہے گا ⛲ سچ کڑوا ہوتا ہے⛲ اس آیت کچھ لوگ پیش کر کے مسلمانوں کو مشرک بولتے ہیں۔ اس شرک سے کیا مراد ہے اورکون لوگ مراد ہیں؟ وَمَا يُؤۡمِنُ اَكۡثَرُهُمۡ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمۡ مُّشۡرِكُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت نمبر 106) لفظی ترجمہ: وَمَا يُؤْمِنُ : اور ایمان نہیں لاتے | اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر | بِاللّٰهِ : اللہ پر | اِلَّا : مگر | وَهُمْ : اور وہ | مُّشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع) ترجمہ: اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔ اعلئ حضرت امام اھلنست٫ عظیم البرکت٫ عظیم المرتبت٫ ولی نعمت٫ مجدد دین و ملت٫ حامی سنت٫ ماحی بدعت٫ معجزہ سید النبیاء٫ عالم شریعت٫ پیرطریقت٫ حضرت علامہ مولانا الحاج الحافظ القای الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمتہ الرحمن کا ترجمہ بھی ساتھ دیکھیں۔ ترجمہ کنزالایمان:: اور ان میں اکثر وہ ہیں جو اللہ پر یقین نہیں کرتے مگر شرک کرتے ہوئے مختلف تراجم کا موازنہ کر کے دیکھیے گا! 1 تفسیر خزائن العرفان جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی جو اللہ تعالی کی خالقیت و رزاقیت کا اقرار کرنے کے ساتھ بت پرستی کر کے غیروں کو عبادت میں اس کا شریک کرتے تھے ۔ (محمد عمران علی حیدری) 2 تفسیر تبیان القرآن اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔ (یوسف : ١٠٦)- ایمان لانے کے باوجود شرک کرنے والوں کے مصادیق :- حسن، مجاہد، عامر اور شعبی نے کہا : یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو یہ مانتے تھے کہ اللہ تعالی ان کا اور تمام کائنات کا خالق ہے، اس کے باوجود وہ بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ عکرمہ نے کہا : انہی لوگوں کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں :- ولئن سالتھم من خلقھم لیقولن اللہ فانی یوفکون۔ (الزخرف : ٨٧) اگر آپ سن سے یہ سوال کریں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر وہ کہاں بھٹک رہے ہیں۔- ولئن سالتھم من خلق السموات والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن اللہ فانی یوفکون۔ (العنکبوت : ٦١) اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے توہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر وہ کہاں بھٹک رہے ہیں۔- حسن نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں، وہ اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں، عیسائی حضرت عیسی کو اللہ کا بیٹا تو کہتے ہیں اور یہود عزیر کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں اور یہ شرک ہے۔- ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو زبان سے ایمان لاتے تھے اور ان کے دل میں کفر تھا۔ - حسن سے یہ روایت بھی ہے کہ یہ آیت ان مشرکین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں اور جب اللہ ان کو اس مصیبت سے نجات دے دیتا ہے تو وہ پھر شرک کرنے لگتے ہیں :- قل من ینجیکم من ظلمت البر والبحر تدعونہ تضرعا و خفیہ لئن انجانا من ھذہ لنکونن من الشاکرین۔ قل اللہ ینجیکم منھا ومن کل کرب ثم انتم تشرکون۔ (الانعام : ٦٣، ٦٤) آپ پوچھیے کہ تمہیں سمندروں اور خشکی کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ہے ؟ جس کو تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو، اگر وہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے، آپ کہیے کہ تمہیں اس مصیبت سے اور ہر سختی سے اللہ ہی نجات دیتا ہے پھر (بھی) تم شرک کرتے ہو۔- اور بعض لوگ وہ ہیں جو اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود نعمتوں کا اسناد اسباب کی طرف کرتے ہیں، مسبب الاسباب کی طرف نہیں کرتے مثلا کسی کو بیماری سے شفا ہوجائے تو کہتا ہے فلاں دوا سے یا فلاں ڈاکٹر کے علاج سے وہ شفا یاب ہوگیا ہے یہ نہیں کہتا کہ اسے اللہ نے شفا دی ہے۔ - اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ مصائب اور شدائد میں بھی اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے، وہ مشائخ اور اولیاء اللہ کے مزاروں پر جاکر ان کو پکارتے ہیں اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں اور ان کی نذر اور ان کی منتیں مانتے ہیں۔ ہرچند کہ اولیاء اللہ سے مدد طلب کرنا اس عقیدہ سے جائز ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی طاقت سے اور اس کے اذن سے تصرف کرتے ہیں اور یہ شرک نہیں ہے لیکن افضل اور اولی یہی ہے کہ صرف اللہ سے مدد طلب کی جائے اور بزرگوں کے وسیلہ سے اپنی حاجت برآری کے لیے دعا کی جائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن عباس کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :- اذا سئلت فاسئل اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ۔ جب تم سے سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو اور جب تم مدد طلب کرو تو اللہ سے مدد طلب کرو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥١٦، مسند احمد ج ١ ص ٢٩٣، ٣٠٣، ٣٠٧۔ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٢٩٨٨، ١٢٩٨٩، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی رقم الحدیث : ٤٢٥، شعب الایمان رقم الحدیث : ١٨٤، العقیلی ج ٣ ص ٥٣، الآجری، رقم الحدیث : ١٩٨، المستدرک ج ٣، ص ٥٤١، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٣١٤، الآداب للبیقہی رقم الحدیث : ١٠٧٣)- اور نذر عبادت مقصودہ ہے، اللہ تعالی کے سوا کسی مخلوق کی نذر اور منت مانناجائز نہیں ہے۔ (بتوں کے نام کفار نذر منت مانتے تھے اور ان کے نام چھوڑ دیتے تھے) (محمد عمران علی حیدری) 3 تفسیر نور العرفان ف ٢۔ شان نزول یہ آیت کفار مکہ کے متعلق نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کو خالق رزاق مان کر بتوں کو پوجتے تھے اور اپنے تلبیہ میں کہتے تھے کہ تیرا کوئی شریک نہیں سوائے ایک شری کے کے یعنی لا الہ بھی کہتے تھے کہ اور شرک بھی کرتے تھے اور اللہ کو ایک مان کر اس کے بیٹے بیٹیاں مانتے تھے۔ (محمد عمران علی حیدری) 4 تفسیر ضیاءالقرآن ١٤٧ یعنی ان کفار و مشرکین کی بھی عجیب حالت ہے۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا تو کہتے ہیں اللہ نے۔ تمہارا خالق کون ہے کہتے ہیں اللہ۔ بارش کون برساتا ہے اور غلہ کون اگاتا ہے تو کہتے ہیں اللہ۔ لیکن اس کے باوجود بتوں کو بھی الہ مانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ بتوں کے متعلق مشرکین کا جو عقیدہ تھا وہ متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے وہ کہتے ویقولون أانا لتارکوا الھتنا لشاعر مجنون۔ ٣٧: ٣٦ وہ کہتے ہیں کیا ایک شاعر اور دیوانے کے کہنے سے ہم اپنے خداؤں کو چھوڑ دیں۔ نیز حج کے موقعہ پر جو تلبیہ وہ کہا کرتے تھے اس سے بھی ان کے عقیدہ کا پتہ چلتا ہے۔ وہ کہا کرتے لبیک اللہم لبیک لبیک لاشریک لک الاشریکا ھولک تملکہ وما ملک ہم حاضر ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ تیرا شریک ہے جس کو تو نے اپنا شریک بنایا ہے تو اس کا مالک ہے اور جس کا وہ مالک ہے اس کا بھی تو مالک ہے۔ یا اس آیت میں مشرکین کی اس حالت کی طرف اشارہ ہے کہ جب وہ مصائب میں گھر جاتے تھے، تو اللہ تعالی کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے اور جب مصیبتیں ٹل جاتی تھیں تو پھر اس کا انکار کرتے تھے یا اس سے مراد ریاکار ہیں جو عبادت تو اللہ تعالی کی کرتے ہیں لیکن دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ فلاں مجھے اچھا سمجھے۔ یہ بھی ایمان اور شرک کو یکجا کرنے کی ایک صورت ہے اور اہل حق نے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر اسباب ظاہری کی طرف مائل ہوا اور مسبب حقیقی کی طرف سے نگاہ ہٹ گئی تو یہ بھی شرک ہوا۔ مولانا ثناء اللہ پانی پتی بل النظر الی الاسباب مع الغفلۃ عن المسبب ینافی التوحید فالموحدون ہم الصوفیہ (مظہری) یعنی سچے موحد تو صوفیائے کرام ہیں کہ ان کی نظر کسی حالت میں بھی اسباب میں نہیں الجھتی بلکہ ہر قوت مسبب الاسباب پر جمی رہتی ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) 5 تفسیر مدارک التنزیل جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے خالق اور رازق ہونے کا اقرار کرنے کے باوجود بت پرستی کرکے غیروں کو عبادت میں اللّٰہ تعالیٰ کا شریک کرتے تھے۔ (محمد عمران علی حیدری) جزاك اللهُ post no:8 14....05....2021 شوال المکرم 1442ھ
  15. ایاک نعبد اور وایاک نسعین کا صحیح فہم کتب تفاسیر سے ایک آیت کی پانچ معتبر کتب تفسیر سے وضاحت کہ علماء نے اسے کیسے سمجھا اسکی تفصیل درج ذیل ہے۔ طالب دعا محمد عمران علی حیدری ✍️( درخواست ساری پوسٹ پڑھیں اور بزرگوں کو فالو کریں👏👏 ⛲أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم⛲ ⛲بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ⛲ یا اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ یارسول ﷺ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ 🌹 فیض رضا جاری رہے گا⛲ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ترجمہ: اے پروردگار ! ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مددچاہتے ہیں۔.. مختلف کتب سے تفاسیر پیش خدمت ہیں ھدایت اللہ نے دینی ہے بس۔۔۔ 1نمبر 📘ضیاالقرآن📕 9 ف عبادت کیا ہے ؟ آپ کو لغت و تفسیر کی ساری کتابوں میں اس کا یہ معنی ملے گا۔ اقصی غایۃ الخضوع والتذلل یعنی حددرجہ کی عاجزی اور انکسار۔ مفسرین اس کی مثال سجدہ سے دیتے ہیں۔ حالانکہ صرف سجدہ ہی عبادت نہیں بلکہ حالت نماز میں تمام حرکات و سکنات عبادت ہیں۔ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، رکوع اور رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہونا، سجدہ اور اس کے بعد حالت التحیات میں دو زانو بیٹھنا، سلام کے لئے دائیں بائیں منہ پھیرنا۔ یہ سب عبادت ہیں اگر عبادت صرف تذلل و انکسار کے آخری مرتبہ کا نام ہے اور یہ آخری مرتبہ سجدہ ہی ہے تو کیا یہ باقی چیزیں عبادت نہیں۔ اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور اگر یہ ساری چیزیں مطلقا عبادت ہیں تو اگر کوئی شاگرد اپنے استاد کے سامنے اور بیٹا اپنے باپ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتا ہے یا ان کی آمد پر کھڑا ہوجاتا ہے تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ اس نے اپنے استاد یا باپ کی عبادت کی اور ان کو اپنا معبود بنا لیا۔ حاشاد وکلا۔ پھر وہ کونسی چیز ہے ہے جو ان حرکات و سکنات کو اگر یہ نماز میں ہوں تو عبادت بنا دیتی ہے اور یوں کھڑے ہونے کو (ہاتھ باندھے یا کھولے ہوئے) اور اس طرح بیٹھنے کو اور دائیں بائیں منہ پھیرنے کو تذلل و انکسار کے آخری مرتبہ پر پہنچا دیتی ہے۔ اور اگر یہی امور نماز سے خارج ہوں تو نہ ان میں غایتہ خضوع ہے اور نہ یہ عبادت متصور ہوتے ہیں۔ تو اس کا ممیز ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جس ذات کے لئے اور جس کے سامنے آپ یہ افعال کر رہے ہیں اس کے متعلق آپ کا عقیدہ کیا ہے۔ اگر آپ اس کو اللہ اور معبود یقین کرتے ہیں تو یہ سب اعمال عبادت ہیں اور سب میں غایتہ تذلل و خضوع پایا جاتا ہے لیکن اگر آپ اس کو عبد اور بندہ سمجھتے ہیں نہ خدا، نہ خدا کا بیٹا، نہ اس کی بیوی، نہ اس کا اوتار تو یہ اعمال عبادت نہیں کہلائیں گے۔ ہاں آپ ان کو احترام، اجلال اور تعظیم کہہ سکتے ہیں۔ البتہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا اجمل الصلاۃ واطیب السلام میں غیر خدا کے لئے سجدہ تعظیمی بھی ممنوع ہے۔ یہ سمجھ لینے کے بعد اب یہ بات خود بخود واضح ہوگئی کہ اللہ تعالی کی ذات پاک کے بغیر کوئی دوسری چیز ایسی نہیں جس کی عبادت شرعا یا عقلا درست ہو۔ سب سے بالاتر اور قوی تر وہ، سب کا خالق اور سب کو اپنی تربیت سے مرتبہ کمال تک پہنچانے والا وہ لطف وکرم پیہم مینہ برسانے والا وہ، بندہ ہزار خطائیں کرے لاکھوں جرم کرے اپنی رحمت سے معاف فرمانے والا وہ، اور قیامت کے دن ہر نیک وبد کی قسمت کا فیصلہ فرمانے والا وہ، تو اسے چھوڑ کر انسان کسی غیر کی عبادت کرے تو آخر کیوں ؟ بلکہ اس کے بغیر اور ہے ہی کون جو معبود اور اللہ ہو اور اس کی پرستش کی جائے ؟ اسی لیے قرآن نے ہمیں صرف یہی تعلیم نہیں دی کہ نعبدک کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں کیونکہ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تیرے ساتھ اوروں کی بھی۔ بلکہ یہ سبق سکھایا کہ ایاک نعبد۔ صرف تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور کسی کی نہیں کرتے مفسرین کرام نے ایاک کو مقدم کرنے میں حصرو تخصیص کے علاوہ دیگر لطائف کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں یہاں تین چیزیں ہیں۔ عابد، عبادت اور معبود۔ عارف کو چاہیے کہ اس مقام پر اپنے آپ کو بھی بھول جائے۔ عبادت کو بھی مقصود نہ بنائے بلکہ اس کی نگاہ ہو تو صرف اپنے معبود حقیقی پر تاکہ اس کے انوار جمال و جلال کے مشاہدہ میں استغراق کی نعمت سے سرفراز کیا جائے۔ اس لئے فرمایا ایاک نعبد۔ عابد واحد ہے لیکن صیغہ جمع کا استعمال کر رہا ہے۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ اپنی ناقص عبادت کو مقربین بارگاہ صمدیت کی اخلاص ونیاز میں ڈوبی ہوئی عبادت کے ساتھ پیش کرے تاکہ ان کی برکت سے اس کی عبادت کو بھی شرف پذیرائی نصیب ہو۔ 1 ٠ ف یعنی جیسے ہم عبادت صرف تیری ہی کرتے ہیں اسی طرح مدد بھی تجھی سے طلب کرتے ہیں تو ہی کارساز حقیقی ہے تو ہی مالک حقیقی ہے ہر کام میں ہر حاجت میں تیرے سامنے ہی دست سوال دراز کرتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس عالم اسباب میں اسباب سے قطع نظر کرلی جائے۔ بیمار ہوئے تو علاج سے کنارہ کش، تلاش رزق کے وقت وسائل معاش سے دست بردار، حصول علم کے لئے صحبت استاد سے بیزار۔ اس طریقۂ کار سے اسلام اور توحید کو کوئی سروکار نہیں۔ کیونکہ وہ جو شافی، رزاق اور حکیم ہے اسی نے ان نتائج کو ان اسباب سے وابستہ کردیا ہے۔ اسی نے ان اسباب میں تاثیر رکھی ہے۔ اب ان اسباب کی طرف رجوع استعانت بالغیر نہیں ہوگی۔ اسی طرح ان جملہ اسباب میں سب سے قوی تر اور اثر آفریں سبب دعا ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا دعاء یرد القضاء کہ دعا تو تقدیر کو بھی بدل دیتی ہے۔ اور اس میں بھی کلام نہیں کہ محبوبان خدا کے ساتھ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی عاجزانہ اور نیاز مندانہ التجاؤں کو ضرور شرف قبول بخشے گا۔ چنانچہ حدیث قدسی جسے امام بخاری (رح) اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے میں مذکور ہے کہ اللہ تعالی اپنے مقبول بندوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے۔ لان سألنی لاعطینہ ولان استعاذنی لاعیذنہ۔ اگر میرا مقبول بندہ مجھ سے مانگے گا تو میں ضرور اس کا سوال پورا کروں گا۔ اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو میں ضرور اسے پناہ دوں گا۔.. تو اب اگر کوئی شخص ان محبوبان الہی کی جناب میں خصوصا حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثناء کے حضور میں کسی نعمت کے حصول یا کسی مشکل کی کشود کے لئے التماس دعا کرتا ہے تو یہ بھی استعانت بالغیر اور شرک نہیں بلکہ عین اسلام اور عین توحید ہے۔ ہاں اگر کسی ولی، شہید یا نبی کے متعلق کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ یہ مستقل بالذات ہے اور خدا نہ چاہے تب بھی یہ کرسکتا ہے تو یہ شرک ہے اور ایسا کرنے والا مشرک ہے۔ اس حقیقت کو حضرت شاہ عبد العزیز (رح) نے نہایت بسط کے ساتھ اپنی تفسیر میں رقم فرمایا ہے۔ اور اس کا ماحصل مولانا محمود الحسن صاحب نے اپنے حاشیہ قرآن میں ان جامع الفاظ میں بیان کیا ہے :۔ ” اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہی اور غیر مستعمل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت در حقیقت حق تعالی سے ہی استعانت ہے۔ “ اور اس طرح کی استعانت تو پاکان امت کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں عرض کرتے ہیں ؂ وانت مجیری من ھجوم ملمۃ اذا انشبت فی القلب شر المخالب۔ بانی دار العلوم دیوبند عرض کرتے ہیں ؂ مدد کر اے کرم احمدی کہ تیرے سوا نہیں ہے قاسم بےکس کا کوئی حامی کار۔ (قصائد قاسمی دیوبندی) (محمد عمران علی حیدری) نمبر 2 📕نور العرفان📘 ف 6 ۔ نعبد کے جمع فرمانے سے معلوم ہوا کہ نماز جماعت سے پڑھنی چاہیے اگر ایک کی قبول ہو سب کی قبول ہو۔ ف 7 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقتا مدد اللہ کی ہے جیسے حقیقتا حمد رب کی ہے خواہ واسطے سے ہو یا بلاواسطہ خیا ل رہے کہ عبادت صرف اللہ کی ہے مدد لینا حقیقتا اللہ سے مجازا اس کے بندوں سے اس فرق کی وجہ سے ان دو چیزوں کو علیحدہ جملوں میں ارشاد فرمایا، خیال رہے کہ عبادت اور مدد لینے میں فرق یہ ہے کہ مدد تو مجازی طو رپر غیر خدا سے بھی حاصل کی جاتی ہے، رب فرماتا انما ولیکم اللہ و رسولہ اور فرماتا ہے و تعاونوا علی البر والتقوی، لیکن عبادت غیر خدا کی نہیں کی جاسکتی نہ حقیقتا نہ حکما، کیونکہ عبادت کے معنی ہیں کسی کو خالق یا خالق کی ملع مان کر اس کی بندگی یا اطاعت کرنا یہ غیر خدا کے لیے شرک ہے اگر عبادت کی طرح دوسرے سے استعانت بھی شرک ہوتی تو یہاں یوں ارشاد ہوتا ، ایاک نعبد وایاک نستعین یہ بھی خیال رہے کہ دنیاوی یا دینی امور میں کبھی اسباب سے مدد لینا یہ درپردہ رب سے ہی مدد لینا ہے ، بیمار کا حکیم کے پاس جانا مظلوم کا حاکم سے فریاد کرنا ، گنہگار کا جناب محمد سے عرض کرنا اس آیت کے خلاف نہیں۔ جیسے کسی بندہ کی تعریف کرنا الحمد للہ کے عموم کے خلاف نہیں کیونکہ وہ بھی حمد بھی بالواسطہ رب ہی کی حمد ہے ، یہ بھی خیال رہے کہ اللہ کے نیک بندے بعد وفات بھی مدد فرماتے ہیں، معراج کی رات موسیٰ (علیہ السلام) نے پچاس نمازوں کی پانچ کرا دیں، اب بھی حضور کے نام کی برکت سے کافر کلمہ پڑھ کر مومن ہوتا ہے ، لہذا صالحین سے ان کی وفات کے بعد بھی مدد مانگنا اس آیت کے خلاف نہیں۔. ( محمد عمران علی حیدری) 3نمبر صراط الجنان {ایاك نعبد و ایاك نستعین:ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔} ا س سے پہلی ایات میں بیان ہوا کہ ہر طرح کی حمد و ثنا کا حقیقی مستحق اللہ تعالی ہے جو کہ سب جہانوں کا پالنے والا، بہت مہربا ن اور رحم فرمانے والا ہے اور اس ایت سے بندوں کو سکھایا جارہا ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ !عزوجل، ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا مستحق صرف تو ہی ہے اور تیرے علاوہ اور کوئی اس لائق ہی نہیں کہ اس کی عبادت کی جا سکے اور حقیقی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے۔تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی کسی قسم کی ظاہری، باطنی، جسمانی روحانی، چھوٹی بڑی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ عبادت اور تعظیم میں فرق: عبادت کامفہوم بہت واضح ہے، سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے اس کی کسی قسم کی تعظیم کرنا’’ عبادت‘‘ کہلاتاہے اور اگر عبادت کے لائق نہ سمجھیں تو وہ محض’’ تعظیم‘‘ ہوگی عبادت نہیں کہلائے گی، جیسے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا عبادت ہے لیکن یہی نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا استاد، پیر یا ماں باپ کے لئے ہو تومحض تعظیم ہے عبادت نہیں اوردو نوں میں فرق وہی ہے جو ابھی بیان کیاگیا ہے۔ ایت’’ایاك نعبد‘‘ سے معلوم ہونے والی اہم باتیں : ایت میں جمع کے صیغے ہیں جیسے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہئے اور دوسروں کو بھی عبادت کرنے میں شریک کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ گناہگاروں کی عبادتیں اللہ تعالی کی بارگاہ کے محبوب اور مقبول بندوں کی عبادتوں کے ساتھ جمع ہو کر قبولیت کادرجہ پالیتی ہیں۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنی بندگی کا اظہار کرنا چاہئے۔ امام عبد اللہ بن احمد نسفیرحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :عبادت کو مدد طلب کرنے سے پہلے ذکر کیاگیا کیونکہ حاجت طلب کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ 📖(مدارک، الفاتحۃ، تحت الایۃ: ۴، ص۱۴) اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنے کی برکت: ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں کسی کا وسیلہ پیش کر کے اپنی حاجات کے لئے دعا کیا کرے تاکہ اس وسیلے کے صدقے دعا جلدمقبول ہو جائے اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا قران و حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ وسیلے کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ’’ یایها الذین امنوا اتقوا الله و ابتغوا الیه الوسیلة ‘‘ 📖( مائدہ: ۳۵) ترجمہ:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ اور ’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں ہیکہ ایک نابینا صحابی بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے تو اپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلمنے انہیں اس طرح دعا مانگنے کا حکم دیا: ’’ *اللہم انی اسالک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد توجہت بک الی ربی فی حاجتی ہذہ لتقضی اللہم فشفعہ فی*‘‘ اے اللہ! عزوجلمیں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی رحمت حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں اے محمد ! صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم، میں نے اپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے وسیلے سے اپنے رب عزوجل کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے ، اے اللہ!عزوجل ، پس تومیرے لئے حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔ 📖(ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، ۲/۱۵۷، الحدیث: ۱۳۸۵) نوٹ صراط الجنان سے یا محمد کے بارے ایک چھوٹی سی وضاحت میں نے درج نہی کی جب کہ تفسیر میں موجود ہے میں نے تحریر میں درج نہی وہ مضمون کافی وضاحت طلب ہے ✍️إن شاءالله اس پر موقع کی مناسبت پر ایک تحریر لکھوں گا ۔اور ادھر درج نہ کرنے کی ایک اور وجہ موضوع سے ہٹ کی تھی یہ بات اس لیےبھی۔ اگر برا لگا تو معزرت چاھتا ہوں اللہ میری غلطیوں کا معاف کرے آمین۔۔🤲 ناچیز احقر عمران { و ایاك نستعین : اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔}اس ایت میں بیان کیاگیا کہ مدد طلب کرنا خواہ واسطے کے ساتھ ہو یا واسطے کے بغیر ہو ہر طرح سے اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے اور اللہ تعالی کی ذات ہی ایسی ہے جس سے حقیقی طور پر مدد طلب کی جائے ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ’’ حقیقی مدد طلب کرنے سے مراد یہ ہے کہ جس سے مدد طلب کی جائے اسے بالذات قادر،مستقل مالک اور غنی بے نیاز جانا جائے کہ وہ اللہ تعالی کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ا س کام (یعنی مدد کرنے)کی قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے نزدیک’’ شرک‘‘ ہے اور کوئی مسلمان اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں ایسا ’’عقیدہ‘‘ نہیں رکھتا اور اللہ تعالی کے مقبول بندوں کے بارے میں مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے واسطہ اور حاجات پوری ہونے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں تو جس طرح حقیقی وجود کہ کسی کے پیدا کئے بغیر خود اپنی ذات سے موجود ہونا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے،اس کے باوجود کسی کو موجود کہنا اس وقت تک شرک نہیں جب تک وہی حقیقی وجود مراد نہ لیا جائے، یونہی حقیقی علم کہ کسی کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ہو اور حقیقی تعلیم کہ کسی چیزکی محتاجی کے بغیر از خود کسی کو سکھانا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے، اس کے باوجود دوسرے کو عالم کہنا یا اس سے علم طلب کرنا اس وقت تک شرک نہیں ہو سکتا جب تک وہی اصلی معنی مقصود نہ ہوں تو اسی طرح کسی سے مدد طلب کرنے کا معاملہ ہے کہ اس کا حقیقی معنی اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے اور وسیلہ و واسطہ کے معنی میں اللہ تعالی کے علاوہ کے لئے ثابت ہے اور حق ہے بلکہ یہ معنی تو غیرخدا ہی کے لئے خاص ہیں کیونکہ اللہ تعالی وسیلہ اور واسطہ بننے سے پاک ہے ،اس سے اوپر کون ہے کہ یہ اس کی طرف وسیلہ ہو گا اور اس کے سوا حقیقی حاجت روا کون ہے کہ یہ بیچ میں واسطہ بنے گا۔ بدمذہبوں کی طرف سے ہونے والا ایک اعتراض ذکر کر کے اس کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا سے توسل کر کے اسے کسی کے یہاں وسیلہ و ذریعہ بنایا جائے ، اس وسیلہ بننے کو ہم اولیاء کرام سے مانگتے ہیں کہ وہ دربار الہی میں ہمارا وسیلہ،ذریعہ اور قضائے حاجات کاواسطہ ہو جائیں ، اس بے وقوفی کے سوال کا جواب اللہ تعالی نے اس ایت کریمہ میں دیا ہے: ’’ و لو انهم اذ ظلموا انفسهم جآءوك فاستغفروا الله و استغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحیما 📖(۶۴)‘‘(النساء: ۶۴) ترجمہ:اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کر کے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ،تو بے شک اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔ کیا اللہ تعالی اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا پھر کیوں یہ فرمایا کہ اے نبی! تیرے پاس حاضر ہوں اورتو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تویہ دولت و نعمت پائیں۔ یہی ہمارا مطلب ہے جو قران کی ایت صاف فرما رہی ہے۔ 📖(فتاوی رضویہ، ۲۱ /۳۰۴-۳۰۵۔) زیر تفسیر ایت کریمہ کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود اعلی حضرت امام احمد رضا خاں رحمۃاللہ تعالی علیہ کا رسالہ’’برکات الامداد لاہل الاستمداد(مدد طلب کرنے والوں کے لئے امداد کی برکتیں ) ‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔ اللہ تعالی کی عطا سے بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالی ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے: یاد رہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو دوسروں کی مدد کرنے کا اختیار دیتا ہے اور اس اختیار کی بنا پر ان بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالی ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے، جیسے غزوۂ بدر میں فرشتوں نے اکر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہمکی مدد کی، لیکن اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’ و لقد نصركم الله ببدر و انتم اذلة ‘‘ 📖( ال عمران: ۱۲۳) ترجمہ:اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے۔ یہاں فرشتوں کی مدد کو اللہ تعالی کی مدد کہا گیا، اس کی وجہ یہی ہے کہ فرشتوں کو مدد کرنے کا اختیار اللہ تعالی کے دینے سے ہے تو حقیقتا یہ اللہ تعالی ہی کی مدد ہوئی۔ یہی معاملہ انبیا ء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمۃاللہ تعالی علیہمکا ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور حقیقتا وہ مدد اللہ تعالی کی ہوتی ہے، جیسے حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلامنے اپنے وزیر حضرت اصف بن برخیا رضی اللہ تعالی عنہسے تخت لانے کا فرمایا اور انہوں نے پلک جھپکنے میں تخت حاضر کردیا۔اس پر انہوں نے فرمایا: ’’ هذا من فضل ربی‘‘ترجمہ:یہ میرے رب کے فضل سے ہے۔ 📖(نمل :۴۰) اورتاجدار رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں مدد کرنے کی تو اتنی مثالیں موجود ہیں کہ اگر سب جمع کی جائیں تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے،ان میں سے چند مثالیں یہ ہیں : (1)…صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلمنے تھوڑے سے کھانے سے پورے لشکر کو سیر کیا۔ 📖(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق۔۔۔ الخ، ۳/۵۱-۵۲، الحدیث: ۴۱۰۱، الخصائص الکبری، باب معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تکثیر الطعام غیر ما تقدم، ۲/۸۵) (2)…اپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلمنے دودھ کے ایک پیالے سے ستر صحابہ کوسیراب کردیا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۴/۲۳۴، الحدیث: ۶۴۵۲، عمدۃ القاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۱۵/۵۳۶) (3)… انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر کے چودہ سو(1400)یا اس سے بھی زائد افراد کو سیراب کر دیا۔ 📖(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ، ۳/۶۹، الحدیث: ۴۱۵۲-۴۱۵۳) (4)… لعاب د ہن سے بہت سے لوگوں کوشفا عطا فرمائی ۔ 📖(الخصائص الکبری، باب ایاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ابراء المرضی۔۔۔ الخ، ۲/۱۱۵-۱۱۸) اور یہ تمام مددیں چونکہ اللہ تعالی کی عطا کردہ طاقت سے تھیں لہذا سب اللہ تعالی کی ہی مددیں ہیں۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ کی30ویں جلد میں موجود اعلی حضرت،امام اہلسنت،مولاناشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کے رسالے ’’ا لامن والعلی لناعتی المصطفی بدافع البلاء( مصطفی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کے لئے انعامات)‘‘کامطالعہ فرمائیے۔ ( محمد عمران علی حیدری) 4 نمبر 📘نور العرفان📕 ف 6 ۔ نعبد کے جمع فرمانے سے معلوم ہوا کہ نماز جماعت سے پڑھنی چاہیے اگر ایک کی قبول ہو سب کی قبول ہو۔ ف 7 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقتا مدد اللہ کی ہے جیسے حقیقتا حمد رب کی ہے خواہ واسطے سے ہو یا بلاواسطہ خیا ل رہے کہ عبادت صرف اللہ کی ہے مدد لینا حقیقتا اللہ سے مجازا اس کے بندوں سے اس فرق کی وجہ سے ان دو چیزوں کو علیحدہ جملوں میں ارشاد فرمایا، خیال رہے کہ عبادت اور مدد لینے میں فرق یہ ہے کہ مدد تو مجازی طو رپر غیر خدا سے بھی حاصل کی جاتی ہے، رب فرماتا انما ولیکم اللہ و رسولہ اور فرماتا ہے و تعاونوا علی البر والتقوی، لیکن عبادت غیر خدا کی نہیں کی جاسکتی نہ حقیقتا نہ حکما، کیونکہ عبادت کے معنی ہیں کسی کو خالق یا خالق کی ملع مان کر اس کی بندگی یا اطاعت کرنا یہ غیر خدا کے لیے شرک ہے اگر عبادت کی طرح دوسرے سے استعانت بھی شرک ہوتی تو یہاں یوں ارشاد ہوتا ، ایاک نعبد وایاک نستعین یہ بھی خیال رہے کہ دنیاوی یا دینی امور میں کبھی اسباب سے مدد لینا یہ درپردہ رب سے ہی مدد لینا ہے ، بیمار کا حکیم کے پاس جانا مظلوم کا حاکم سے فریاد کرنا ، گنہگار کا جناب محمد سے عرض کرنا اس آیت کے خلاف نہیں۔ جیسے کسی بندہ کی تعریف کرنا الحمد للہ کے عموم کے خلاف نہیں کیونکہ وہ بھی حمد بھی بالواسطہ رب ہی کی حمد ہے ، یہ بھی خیال رہے کہ اللہ کے نیک بندے بعد وفات بھی مدد فرماتے ہیں، معراج کی رات موسیٰ (علیہ السلام) نے پچاس نمازوں کی پانچ کرا دیں، اب بھی حضور کے نام کی برکت سے کافر کلمہ پڑھ کر مومن ہوتا ہے ، لہذا صالحین سے ان کی وفات کے بعد بھی مدد مانگنا اس آیت کے خلاف نہیں. ( محمد عمران علی حیدری) نمبر 5 📕تبیان القرآن📘 اللہ تعالی کا ارشاد ہے : روز جزاء کا مالک ہے (الفاتحہ : ٣) - مالک اور ملک کی دو قراءتیں : - مالک اور ملک اس آیت میں دونوں متواتر قراءتیں ہیں ‘ امام عاصم ‘ امام کسائی اور امام یعقوب کی قراءت میں مالک ہے۔ باقی پانچ ائمہ کی قرات میں ملک ہے۔ - مالک اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی مملوکہ چیزوں میں جس طرح چاہے تصرف کرنے پر قادر ہو اور ملک اس شخص کو کہتے ہیں اپنی رعایا میں احکام (امر و نہی) نافذ کرتا ہو۔ - قرآن مجید کی بعض آیات مالک کی موافقت میں ہیں اور بعض ملک کی۔ - اللہ تعالی کا ارشاد ہے : - (آیت) ” قل اللہ ملک الملک تؤتی الملک من تشآء وتنزع الملک ممن تشآء وتعزمن تشآء وتذل من تشآء، بیدک الخیر۔ 📖(آل عمران : ٢٦) کہیے : اے اللہ ! ملک کے مالک ! تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے اور تو جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت میں مبتلا کرتا ہے ‘ اور تمام بھلائی تیری ہاتھ میں ہے۔- (آیت) ” یوم لا تملک نفس لنفس شیئا، والامر یومئذ للہ . 📖(الانفطار : ١٩) یہ وہ دن ہے جس میں کوئی شخص کسی شخص کے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوگا ‘ اور اس دن اللہ ہی کا ہوگا۔- ان دونوں آیتوں سے مالک کی تائید ہوتی ہے۔ - (آیت) ” قل اعوذ برب الناس ملک الناس“۔ 📖(الناس : ٢۔ ١) آپ کہیے : میں تمام لوگوں کے رب ‘ تمام لوگوں کے بادشاہ کی پناہ میں آتا ہوں۔- (آیت) ” لمن الملک الیوم ‘ للہ الواحدالقھار “۔ 📖(المومن : ١٦) آج کس کی بادشاہی ہے ؟ اللہ کی جو واحد ہے اور سب پر غالب ہے۔- (آیت) ” الملک یومئذللہ یحکم بینہم“۔ 📖(الحج : ٥٦ ). اس دن صرف اللہ ہی کی بادشاہی ہوگی ‘ وہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ - اور ان دو آیتوں سے ملک کی تائید ہوتی ہے۔ - یوم کا عرفی اور شرعی معنی : - علامہ آلوسی لکھتے ہیں : - عرف میں طلوع شمس سے لے کر غروب شمس تک کے زمانہ کو یوم کہتے ہیں ‘ اور اعمش کے سو اہل سنت کے نزدیک شریعت میں طلوع فجر ثانی سے لے کر غروب شمس تک کے وقت کو یوم کہتے ہیں اور یوم قیامت اپنے معروف معنی میں حقیقت شرعیہ ہے۔ 📖(روح المعانی ج ١ ص ٨٤‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)- یوم قیامت کی مقدار : - قیامت کے دن کے متعلق قرآن مجید میں ہے : - (آیت) ” تخرج الملئکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ. 📖(المعارج : ٤) جبرئیل اور فرشتے اس کی طرف عروج کرتے ہیں (جس دن عذاب ہوگا) اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ - امام ابو یعلی روایت کرتے ہیں : - حضرت ابوسعید خدری (رض) روایت کرتے ہیں ‘ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید میں اس دن کے متعلق ہے کہ وہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ‘ یہ کتنا لمبادن دن ہوگا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ! مومن پر اس دن میں تخفیف کی جائے گی ‘ حتی کہ وہ جتنی دیر میں دنیا میں فرض نماز پڑھتا تھا اس پر وہ دن اس سے بھی کم وقت میں گزرے گا۔ 📖(مسند ابو یعلی ج ٢ ص ١٣٤‘ مطبوعہ دارالمامون ترات ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ) - ✍️( آقا و مولا نے کمال کردی پکی بات قسم کھاکے بتائی یہ غیب نہی تو کیا ہے یہ کام قیامت کو ہونا ہے لیکن پہلے بتا دیا گیا اور کیا غیب تجھ سے نہاں جب خدا ہی نہ چپا آپ سے ؟ عمران) اس حدیث کو حافظ ابن جریر 📖(جامع البیان ج ٢٩ ص ٤٥) اور حافظ ابن کثیر (تفسیر ابن کثیر ج ٧ ص ١١٣) نے بھی اپنی اپنی سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام ابن حبان نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ 📖(موارد الظمان الی زاوائد ابن حبان ‘ ص ٦٣٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت) - امام بیہقی نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ - علامہ سیوطی نے بھی اس کو امام احمد ‘ امام ابویعلی ‘ امام ابن جریر ‘ امام ابن حبان ‘ اور امام بیہقی ‘ کے حوالوں سے ذکر کیا ہے۔ 📖(الدرالمنثور ج ٦ ص ٢٦٥۔ ٢٦٤‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ‘ ایران) - علامہ آلوسی نے بھی اس کو مذکور الصدر حوالہ جات کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ 📖(روح المعانی ج ٢٩ ص ٥٧‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)- حضرت ابوسعید خدری (رض) کی حدیث مذکور کے متعلق حافظ الہیثمی لکھتے ہیں : - اس حدیث کو امام احمد اور امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے ‘ اس کا ایک راوی ضعیف ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ 📖(مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٣٧‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٢ ھ). نیز حافظ الہیثمی لکھتے ہیں : - حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگ رب العلمین ‘ کے سامنے آدھے دن تک کھڑے رہیں گے جو پچاس ہزار برس کا ہوگا اور مومن پر آسانی کردی جائے گی ‘ جیسے سورج کے مائل بہ غروب ہونے سے اس کے غروب ہونے تک ‘ اس حدیث کو امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔ 📖(مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٣٧‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٢ ھ) - امام احمد روایت کرتے ہیں : - حضرت ابو سعید خدری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ کافر کے لیے قیامت کا دین پچاس ہزار برس کا مقرر کیا جائے گا کیونکہ اس نے دنیا میں نیک عمل نہیں کئے۔ 📖(مسند ج ٣ ص ٧٥‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) - عدل و انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ جو لوگ دنیا میں اس طرح نماز پڑھتے ہیں کہ گویا وہ نماز میں اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہیں ‘ پھر وہ اس میں اس طرح محو ہوجاتے ہیں کہ انہیں گرد وپیش کا ہوش نہیں رہتا ‘ امام ابوحنیفہ نماز پڑھ رہے تھے کہ مسجد کی چھت سے سانپ گرپڑا ‘ افراتفری مچ گئی مگر وہ اسی محویت سے نماز پڑھتے رہے ‘ ایک انصاری صحابی کو نماز کے دوران تیر لگا ‘ خون بہتا رہا اور وہ اسی انہماک سے نماز پڑھتے رہے ‘ امام بخاری کو نماز میں تتیہ نے سترہ ڈنک مارے اور انہیں احساس تک نہ ہوا ‘ سو ایسے ہی کاملین کی یہ جزاء ہوگی کہ قیامت کے دن ان کو فی الواقع دیدار الہی عطا کیا جائے اور جب ان کو دیدار الہی عطا کیا جائے گا تو وہ اس کی دید میں ایسے مستغرق ہوں گے کہ قیامت کے ہنگامہ خیز پچاس ہزار برس گزر جائیں گے اور ان کو یوں معلوم ہوگا جیسے ایک فرض نماز پڑھنے کا وقت گزرا ہو ‘ لیکن اللہ تعالی ہم پر عدل نہیں کرم فرماتا ہے ‘ عدل کے لحاظ سے تو ہم دنیا میں بھی کسی نعمت کے مستحق نہیں ہیں ‘ اللہ تعالی دنیا میں بھی ہم کو دنیکوں کے صدقہ میں نعمتیں دیتا ہے ‘ سو آخرت میں بھی ان نیکوں کے طفیل ہم پر قیامت کا دن بہ قدر فرض نماز گزرے گا اور اپنے دیدار سے معمور فرمائے گا۔ - وقوع قیامت پر عقلی دلیل : - ہم اس دنیا میں دیکھتے رہتے ہیں کہ بعض لوگ ظلم کرتے کرتے مرجاتے ہیں اور ان کو ان کے ظلم پر کوئی سزا نہیں ملتی اور بعض لوگ ظلم سہتے سہتے مرجاتے ہیں اور ان کی مظلومیت پر کوئی جزا نہیں ملتی ‘ اگر اس جہان کے بعد کوئی اور جہان نہ ہو تو ظالم سزا کے بغیر اور مظلوم جزا کے بغیر رہ جائے گا اور یہ چیز اللہ تعالی کی حکمت کے خلاف ہے ‘ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس عالم کے بعد کوئی اور عالم ہو جس میں ظالم کو سزا دی جائے اور مظلوم کو جزا۔ - اور جزاء اور سزاء کے نظام کے برپا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس عالم کو بالکلیہ ختم کردیا جائے ‘ کیونکہ جزاء اور سزا اس وقت جاری ہوسکتی ہے جب بندوں کے اعمال ختم ہوجائیں ‘ اور جب تک تمام انسان اور یہ کائنات ختم نہیں ہوجاتی لوگوں کے اعمال کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا ‘ مثلا قابیل نے قتل کرنے کا طریقہ ایجاد کیا ‘ اب اس کے بعد جتنے قتل ہوں گے ان کے قتل کے جرم سے قابیل کے نامہ اعمال میں گناہ لکھا جاتا رہے گا ‘ اس لیے جب تک قتل کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا قابیل کا نامہ اعمال مکمل نہیں ہوگا ‘ اسی طرح ہابیل نے ظالم سے بدلہ نہ لینے کی رسم ایجاد کی ‘ اب اس کے بعد جو شخص بھی یہ نیکی کرے گا اس کی نیکی میں سے ہابیل کے نامہ اعمال میں نیکی لکھی جاتی رہے گی ‘ اس لیے جب تک اس نیکی کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا ہابیل کا نامہ اعمال مکمل نہیں ہوگا ‘ اسی طرح ایک شخص مسجد یا کنواں بنا کر مرجاتا ہے تو جب تک اس مسجد میں نماز پڑھی جاتی رہے گی ‘ جب تک اس کنوئیں سے پانی پیا جاتا رہے گا ‘ اس شخص کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جاتی رہیں گی اور کوئی شخص بت خانہ یا شراب خانہ بنا کر مرگیا تو جب تک وہاں بت پرستی یا شراب نوشی ہوتی رہے گی اس کے نامہ اعمال میں برائیاں لکھی جاتی رہیں گی۔ - اس لیے جب تک یہ دنیا اور اس دنیا میں انسان موجود ہیں اس وقت تک لوگوں کا نامہ اعمال مکمل نہیں ہوسکتا اور لوگوں کے نامہ اعمال کو مکمل کرنے کے لیے دنیا اور دنیا والوں کو مکمل ختم کرنا ضروری ہے اور اسی کا نام قیامت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی حکمت اس کی متقاضی ہے کہ جزا اور سزا کا نظام قائم کیا جائے اور جزا اور سزا کو نافذ کرنے سے پہلے قیامت کا قائم کرنا ضروری ہے۔ - وقوع قیامت پر شرعی دلائل :- یہ دنیا دارالامتحان ہے اور اس میں انسان کی آزمائش کی جاتی ہے اور اس امتحان کا نتیجہ اس دنیا میں ظاہر نہیں ہوتا لیکن نیک اور بد ‘ اطاعت گزار اور نافرمان ‘ موافق اور مخالف اور مومن اور کافر میں فرق کرنا ضروری ہے اور یہ فرق صرف قیامت کے دن ظاہر ہوگا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :۔- (آیت) ” لیجزی الذین اسآء وا بما عملوا ویجزی الذین احسنوا بالحسنی. 📖(النجم : ٣١) تاکہ برے کام کرنے والوں کو ان کی سزا دے اور نیکی کرنے والوں کو اچھی جزا دے۔ - (آیت) ” ام نجعل الذین امنوا وعملوا الصلحت کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار. 📖(ص : ٢٨) کیا ہم ایمان والوں اور نیکی کرنے والوں کو زمین میں فساد کرنے والوں کی طرح کردیں گے ؟ یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کردیں گے ؟۔ (آیت) ” ام حسب الذین اجترحوا السیات ان نجعلہم کالذین امنوا وعملوا الصلحت ‘ سوآء محیاھم ومماتھم سآء ما یحکمون. 📖 (الجاثیہ : ٢١) کیا برے کام کرنے والوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم ان کو ان لوگوں کی طرف کردیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے کہ (ان سب کی) زندگی اور موت برابر ہوجائے ؟ وہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں۔ - (آیت) ” افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون 📖(القلم : ٣٦۔ ٣٥) کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں جیسا کردیں گے تمہیں کیا ہوا ‘ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو ؟ - دنیا میں راحت اور مصیبت کا آنا مکمل جزاء اور سزا نہیں ہے : - ہر چند کہ بعض لوگوں کو دنیا میں ہی ان کی بداعمالیوں کی سزا مل جاتی ہے۔ مثلا ان کا مالی نقصان ہوجاتا ہے ‘ یا وہ ہولناک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا ان پر دشمنوں کا خوف طاری ہوجاتا ہے ‘ لیکن یہ ان کی بداعمالیوں کی پوری پوری سزا نہیں ہوتی ‘ اور ہم کتنے ہی لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ساری عمر عیش پرستی ‘ ہوس ناکیوں اور ظلم وستم کرنے میں گزار دیتے ہیں ‘ پھر اچانک ان پر کوئی مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے اور ان کی دولت اور طاقت کانشہ کافور ہوجاتا ہے۔ لیکن ان کے جرائم کے مقابلہ میں یہ بہت کم سزا ہوتی ہے ‘ اس لیے ان کی مکمل سزا کے لیے ایک اور جہاں کی ضرورت ہے جہاں قیامت کے بعد ان کو پوری پوری سزا ملے گی۔ - (آیت) ” ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلہم یرجعون۔ 📖(السجدہ : ٢١) اور ہم ان کو بڑے عذاب سے پہلے (دنیا میں) ہلکا عذاب ضرور چکھائیں گے تاکہ وہ باز آجائیں۔ - اس طرح بہت سے نیک بندے ساری عمر ظلم وستم سہتے رہتے ہیں اور مصائب برداشت کرتے رہتے ہیں اور انہیں اپنی زندگی میں آرام اور راحت کا بہت کم موقعہ ملتا ہے ‘ اس لیے اللہ تعالی قیامت کو قائم کرے گا اور ہر شخص کو اسکی نیکی اور بدی کی پوری پوری جزا اور سزا دے گا۔ (آیت) ” فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ 📖(الزلزال : ٨۔ ٧) سو جو ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کی (جزا) پائے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اس کی (سزا) پائے گا۔- دین کا لغوی معنی : - علامہ زبیدی لکھتے ہیں : - دین کا معنی ہے جزا اور مکافات ‘ قرآن مجید میں (آیت) ” مالک یوم الدین “ کا معنی ہے : یوم جزاء کا مالک ‘ دین کا معنی عادت بھی ہے ‘ کہا جاتا ہے :” مازال ذالک دینی “ میری ہمیشہ سے یہ عادت ہے ‘ اور دین کا معنی اللہ تعالی کی عبادت ہے ‘ اور دین کا معنی طاعت ہے ‘ حدیث میں ہے :- یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیۃ : وہ امام کی اطاعت سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔- (علامہ سید محمد مرتضی حسینی زبیدی حنفی متوفی ١٢٠٥‘ 📖(تاج العروس ج ٩ ص ٢٠٨۔ ٢٠٧‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ١٣٠٦ ھ) - دین ‘ شریعت اور مذہب وغیرہ کی تعریفات : میر سید شریف لکھتے ہیں : - دین ایک الہی دستور ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوتا ہے جو عقل والوں کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ دین اور ملت متحد بالذات ہیں اور مختلف بالاعتبار ہیں کیونکہ شریعت بہ حیثیت اطاعت دین ہے اور بہ حیثیت ضبط اور تحریر ملت ہے ‘ اور جس حیثیت سے اس کی طرف رجوع کیا جائے مذہب ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ دین اللہ کی طرف منسوب ہے اور ملت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب ہے اور مذہب مجتہد کی طرف منسوب ہے۔ 📖(کتاب التعریفات ص ٤٧‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ١٣٠٦ ھ) - عبودیت کا التزام کرکے حکم ماننا شریعت ہے ‘ ایک قوم یہ ہے کہ شریعت دین کا ایک راستہ ہے۔ 📖 (کتاب التعریفات ص ٥٥‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ١٣٠٦ ھ) - علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں : - ” شرعۃ ومنھاجا “ کی تفسیر میں قتادہ (رض) نے کہا : دین ایک ہے اور شریعت مختلف ہے۔ 📖(عمدۃ القاری ج ١ ص ١١٧‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ) - علامہ قطبی مالکی لکھتے ہیں : - اللہ تعالی نے اہل تورات کے لیے تورات مقرر کی اور اہل انجیل کے لیے انجیل اور اہل قرآن کیلیے قرآن مقرر کیا اور یہ تقرر شریعتوں اور عبادتوں میں ہے اور اصل توحید ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ 📖 (الجامع الاحکام القرآن ج ٢ ص ٢١١ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ ١٣٨٧ ھ) - امام بخاری مجاہد سے روایت کرتے ہیں :- اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو ایک ہی دین کی وصیت کی ہے۔ 📖(صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٦ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)- قرآن مجید میں ہے : - اللہ تعالی نے تمہارے لیے اسی دین کا راستہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جس دین کی ہم نے آپ کی طرف وحی فرمائی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) ، موسی (علیہ السلام) اور عیسی (علیہ السلام) کو دیا تھا کہ اسی دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ دالو۔ - اس آیت سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین واحد ہے اور وہ اسلام ہے۔ - (آیت) ” لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جاء “۔ (المائدہ : ٤٨) ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ شریعت اور واضح راہ عمل بنائی ہے۔ - اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر نبی کی شریعت الگ ہے۔ - قرآن مجید کی ان آیات اور احادیث اور عبارات علماء کا حاصل یہ ہے کہ جو عقائد اور اصول تمام انبیاء میں مشترک ہیں مثلا توحید ‘ رسالت قیامت جزاء ‘ سزا ‘ اللہ کی تعظیم اور اس کے شکر کا واجب ہونا ‘ قتل اور زنا کا حرام ہونا ‘ ان کا نام دین ہے اور ہر نبی نے اپنے زمانہ کے مخصوص حالات کے اعتبار سے عبادات اور نظام حیات کے جو مخصوص احکام بتائے وہ شریعت ہے ‘ ان کو مدون اور منضبط کرنا ملت ہے اور امام اور مجتہد نے کتاب اور سنت سے جو احکام مستنبط کیے ان کا نام مذہب ہے ‘ اور مشائخ طریقت نے جو اوراد اور وظائف کے مخصوص طریقے بتائے ان کا نام مسلک اور مشرب ہے اور کسی مخصوص درسگاہ کے نظریات کا نام مکتب فکر ہے ‘ مثلا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم دین کے اعتبار سے مسلمان ہیں ‘ شریعت کے اعتبار سے محمدی ہیں ‘ مذہب کے اعتبار سے ماتریدی اور حنفی ہیں اور مسلک اور مشرب کے اعتبار سے قادری ہیں اور مکتب فکر کے لحاظ سے بریلوی ہیں۔ - اللہ ‘ رب ‘ رحمن ‘ رحیم اور مالک یوم الدین میں وجہ ارتباط :- سورة فاتحہ کے شروع میں اللہ تعالی نے اپنے پانچ اسماء ذکر کئے ہیں : اللہ ‘ رب ‘ رحمن ‘ رحیم اور مالک یوم الدین اور ان میں ارتباط اس طرح ہے کہ ” اللہ “ کے تقاضے سے اس نے انسان کو پیدا کیا ‘ ” رب “ کے تقاضے سے اس نے غیر متناہی نعمتوں سے انسان کی پرورش کی ‘ ” رحمن “ کے تقاضے سے انسان کے گناہوں پر پردہ رکھا ‘” رحیم “ کے تقاضے سے انسان کی توبہ قبول کرکے اس کو معاف فرمایا اور (آیت) ” مالک یوم الدین“ کے تقاضے سے انسان کو اس کے اعمال صالحہ کی جزاء عطا فرمائی۔ - اگر یہ سوال ہو کہ ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ میں بھی اللہ تعالی کی صفت رحمن و رحیم کا ذکر ہے اور سورة فاتحہ کی ابتداء میں پھر ان صفات کا ذکر ہے ‘ اس کی کیا وجہ ہے کہ رحمن اور رحیم کو دو مرتبہ ذکر کیا ہے اور باقی اسماء کا دو مرتبہ ذکر نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس میں یہ اشارہ ہو کہ اللہ تعالی پر رحمت کا غلبہ ہے اس لیے بندہ کو اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ہر وقت اس کی رحمت پر نظر رکھنی چاہیے ‘ اس کے بعد (آیت) ” مالک یوم الدین “ فرمایا کہ کہیں اس کی رحمت سے دھوکا کھا کر انسان گناہوں پر دلیر نہ ہوجائے کیونکہ وہ ” مالک یوم الدین “ بھی ہے۔ - جس طرح اس آیت میں فرمایا ہے :- غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب ذی الطول۔ (المومن : ٤٠) وہ گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ‘ بہت سخت عذاب دینے والا قدرت والا ہے۔ - ” الحمد للہ “ میں مسند الیہ مقدم ہے اور خبر معرفہ ہے اور عربی قواعد کے مطابق ایسی ترکیب مفید حصر ہوتی ہے ‘ نیز اللہ تعالی کی صفات رب ’ رحیم ‘ اور (آیت) ” *مالک یوم الدین* “ بہ منزلہ علت ہیں ‘ اس اعتبار سے معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سوا اور کوئی حمد کا مستحق نہیں ہے کیونکہ وہی رب ہے ‘ وہی رحمن، رحیم اور مالک روز جزاء ہے ‘ اور اس میں یہ رمز ہے کہ جس میں یہ صفات نہ ہوں وہ تو ستائش کے لائق بھی نہیں ہے چہ جائیکہ وہ پرستش کا مستحق ہو اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی حمد وثناء کے لائق ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے تو ہم سے یہ کہلوایا : اے پروردگار ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔.۔ ( دعاؤں کا طلبگار محمد عمران علی حیدری ) (post5) 20.04.2021 7.رمضان المبارک1443ھ
  16. قبروں والے سن سکتے ہیں یا نہیں ✍️نجدیوں کی پیش کردہ آیت کی تفسیر : غلط فہمیوں کا ازالہ سوال! وہابی یہ آیت پیش کرتے ہیں اس کی وضاحت کر دیں؟ قبروں والے سن نہیں سکتے وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَؕ(۲۰) اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالی کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے، بلکہ وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍۚ-وَ مَا یَشْعُرُوْنَۙ-اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۠(۲۱) مردے ہیں زندہ یں، انہیں تو بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے 📖سورة نحل۲۱۲۰)۔ الجواب بعون الوہاب وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ! ✍️پہلی بات یہ آیت کفار اور ان کے بتوں کے متعلق اتری ہے۔ ✍️ایک نشانی خارجیوں ہے کہ بتوں اور کفار کے بارے میں اتری آیات مسلمانوں پر چسپاں کریں گے۔ ✍️جب یہ لوگ یہ کام کریں تو فوراََ سے سمجھ جایا کریں۔ 📖✍️✍️صحیح بخاری میں حدیث ہے3979۔مفہوم حدیث توجہ دلانا مقصد ہے۔ جب نبی علیہ السلام ایک کنویں کے پاس تھے مردہ یعنی مرے ہوؤں سے مخاطب ہوۓ آپ۔ تو آپ نے فرمایا کہ: جو کچھ میں کہے رہا ہوں یہ، یہ اسے سن رہے ہیں. 📖مشکوۃ 3967 ✍️ اب آتے ہیں پیش کردہ آیات کی طرف✍️ أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَخۡلُقُوۡنَ شَيۡـئًا وَّهُمۡ يُخۡلَقُوۡنَؕ 📖( سورۃ النحل20) ترجمہ: اور وہ جن غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ ✍️ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ یعنی عبادت کرنا لکھا ہے جیساکہ ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاوی، امام جلال الدین سیوطی، ابو سعود محمد بن محمد اور علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن معبودوں کی کفار عبادت کرتے ہیں۔ 📖تفسیر بیضاوی،جلالین، ابو سعود۔روح البیان. ✍️علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت کے لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں لفظ’’ دعا‘‘ عبادت کے معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ 📖تفسیر روح البیان ✍️ابو اللیث سمرقندی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کفار اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ا س بات پر قادر نہیں کہ کوئی چیز پیدا کر سکیں بلکہ وہ خود پتھروں اور لکڑی وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں ۔ 📖تفسیر سمرقندی ✍️ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں وہ اپنی ذات میں بھی ناقص ہیں کہ انہیں دوسروں نے بنایا ہے اور اپنی صفات میں بھی ناقص ہیں کہ یہ کسی چیز کو پیدا ہی نہیں کر سکتے۔ 📖تفسیرکبیر20 2: اَمۡوَاتٌ غَيۡرُ اَحۡيَآءٍ‌ ۚ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ اَيَّانَ يُبۡعَثُوۡنَ. 📖سورۃ النحل21 ترجمہ: وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ’’یہ بت جن کی اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے بے جان ہیں، ان میں روحیں نہیں اور نہ ہی یہ اپنی عبادت کرنے والوں کو کوئی نفع پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ 📖تفسیر ابن ابی حاتم. 📖تفسیر طبری. انہی بزرگوں کے حوالے سے امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ا س آیت کی یہی تفسیر دُرِّ منثور میں رقم فرمائی 📖در منثور، النحل امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں اگر یہ حقیقی معبود ہوتے تویہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرح زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں ، زندہ نہیں اور ان بتوں کو خبر نہیں کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے تو ایسے مجبور ، بے جان اور بے علم معبود کیسے ہوسکتے ہیں۔ 📖تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱ امام علی بن محمد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب تفسیر خازن میں فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر یہ بت معبود ہوتے جیسا کہ تمہارا گمان ہے تو یہ ضرور زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی کیونکہ جو معبود عبادت کا مستحق ہے وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہ آئے گی اور بت چونکہ مردہ ہیں زندہ نہیں لہٰذا یہ عبادت کے مستحق نہیں ۔ 📖تفسیر خازن النحل٢١ اس آیت میں ’’اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ‘‘سے مراد بت ہیں۔ ( طالب دعا: محمد عمران علی حیدری.) 22.08.2021. 13محرم الحرام 1443
  17. 🏹 شہادت امام حسین علیہ السلام کی نشاندہی🏹 1 : 15124- عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَيُقْتَلَنَّ الْحُسَيْنُ، [قَتْلًا] وَإِنِّي لَأَعْرِفُ التُّرْبَةَ الَّتِي يُقْتَلُ فِيهَا، قَرِيبًا مِنَ النَّهْرَيْنِ. ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حسین کو شہید کیا جاۓ گا اور میں اس مٹی کو پہچانتا ہوں جہاں حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جاۓ گا دو نہروں کے قریب ہے. ✍️حضرت علیؓ بھی جانتے تھے۔ ✍️اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں باقی احادیث کو بھی اس حدیث سے تقویت مل رہی ہے یزیدی ڈاکٹرز کے پاس جائیں👨‍⚕️ ✍️دعا ہے اللہ جلدی یزیدیوں کا صفایا فرما دے آمین۔🤲 رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. تخریج: ✍️ یہ حدیث درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے۔✍️ 📖ابن أبي شيبة في مصنفه باب من كره الخروج في الفتنة وتعوذ عنها ~ حديث رقم 36699 📖ابن أبي شيبة في مصنفه باب ما ذكر من حديث الأمراء والدخول عليهم ~ حديث رقم 30097۔ ( محمد عمران علی حیدری) 2 :وَفِي "مُسْنَدِ أَبِي يَعْلَى": ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ، حَتَّى يَكُونَ أَوَّلُ مَنْ يَثْلَمُهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ يُقَالَ لَهُ: يَزِيدُ 📖إسناده مرسل. وانظر المجمع "5/ 241" ترجمہ: میری امت کا امر عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہو گا جس کو یزید کہا جائیگا۔ ✍️یہ حدیث سند کے لحاظ سے سے مرسل ہے ہمارے ہاں قابل حجت ہے۔ ✍️ اور اسکا متن بالکل ٹھیک ہے۔ یزید ہی پہلا لعنتی انسان تھا جس نے اپنی من مانی کی اور اہل بیت کی بے ادبی اور شعار اسلام کی ڈھایا ہے۔واقعہ حرہ قابل غور ہے۔ ✍️جو درج نہی نہی کیا جا سکتا، آپ اس واقعہ کو پڑھ لیں ایک بار۔بس۔ 3 : ۱۲۴٤۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ مَلَکَ الْمَطَرِ اسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ یَأْتِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَہُ فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَۃَ: امْلِکِی عَلَیْنَا الْبَابَ لَا یَدْخُلْ عَلَیْنَا أَحَدٌ قَالَ وَجَائَ الْحُسَیْنُ لِیَدْخُلَ فَمَنَعَتْہُ فَوَثَبَ فَدَخَلَ فَجَعَلَ یَقْعُدُ عَلٰی ظَہَرِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلٰی مَنْکِبِہِ وَعَلٰی عَاتِقِہِ قَالَ فَقَالَ الْمَلَکُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتُحِبُّہُ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ أَمَا إِنَّ أُمَّتَکَ سَتَقْتُلُہُ وَإِنْ شِئْتَ أَرَیْتُکَ الْمَکَانَ الَّذِییُقْتَلُ فِیہِ فَضَرَبَ بِیَدِہِ فَجَائَ بِطِینَۃٍ حَمْرَاء َ فَأَخَذَتْہَا أُمُّ سَلَمَۃَ فَصَرَّتْہَا فِی خِمَارِہَا قَالَ قَالَ ثَابِتٌ بَلَغَنَا أَنَّہَا کَرْبَلَائُ. 📖اسے احمد (المسند:242/1 ح 2165 ، 282/1 ح 2553 ۔۔ 📖کتاب فضائل الصحابۃ: 779/2 ح 1381 ) 📖طبرانی(الکبیر: 110/3 ح 2822) حاکم (397/4، 398 ح8201) , بیہقی (دلائل النبوۃ :471/6) اور ابن عساکر (تاریخ دمشق : 228/14) نے حماد بن سلمۃ عن عمار بن ابی عمار عن ابن عباسؓ کی سند سے روایت کیا ہے۔ اسے حاکمؒ و ذہبیؒ دونوں نے صحیح مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ 📖حافظ ابن کثیرؒ نے کہا: اسے (کتب سبعہ میں سے)صرف احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند قوی ہے (البدایۃ و النھایۃ: 202/8 ) 📖شیخ وصی اللہ بن عباس المدنی المکی فرماتے ہیں : اس کی سند صحیح ہے۔ (تحقیق فضائل الصحابۃ: 779/2) ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دوپہر کے وقت خواب میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے جس میں خون تھا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، جسے میں آج جمع کر رہا ہوں۔ ہم نے اس دن کا حساب لگایا تو وہ وہی دن تھا، جس دن سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہوئے تھے۔ (محمد عمران علی حیدری) 3 : نبی کریم ﷺ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر سخت غمگین تھے۔ ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی۔ (مشخیۃ ابراہیم بن طہمان : ۳ و سندہ حسن و من طریق ابن طہمان رواہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق ۱۹۲/۱۴، ولہ طریق آخر عندالحاکم ۳۹۸/۴ ح ۵۲۰۲ و صححہ علیٰ شرط الشیخین و وافقہ الذہبی) 4 : شہر بن حوشب تابعی(صدوق حسن الحدیث ، و ثقہ الجمہور) سے روایت ہے کہ جب (سیدنا) حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کی شہادت کی خبر عراق سے آئی تو ام سلمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے فرمایا: عراقیوں پر لعنت ہو، عراقیوں نے آپ کو قتل کیا ہے ،اللہ انہیں قتل کرے، انہوں نے آپ سے دھوکا کیا اور آپ کو ذلیل کیا، اللہ انہیں ذلیل کرے ۔ (فضائل الصحابۃ، زوائد القطیعی جلد2 صفحہ782 حدیث 1392. مسند احمد، جلد6 صفحہ 298 حدیث550 و سندہ حسن) 5: یزال أمر أمتی قائما بالقسط حتی یثلمہ رجل من بنی أمیۃ یقال لہ یزید۔ ابن کثیر: البدایہ والنہایہ. جلد8 صفحہ231 ’’میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہو گا جس کو یزید کہا جائیگا۔‘‘ 6: (۱۲۴۳۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیُّ، قَالَ: بَعَثَنَا یَزِیدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ إِلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ دَخَلْتُ عَلٰی فُلَانٍ نَسِیَ زِیَادٌ اسْمَہُ، فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَنَعُوا مَا صَنَعُوا فَمَا تَرٰی؟ فَقَالَ: أَوْصَانِی خَلِیلِی أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ((إِنْ أَدْرَکْتَ شَیْئًا مِنْ ہٰذِہِ الْفِتَنِ فَاعْمَدْ إِلٰی أُحُدٍ،فَاکْسِرْ بِہِ حَدَّ سَیْفِکَ، ثُمَّ اقْعُدْ فِی بَیْتِکَ، قَالَ: فَإِنْ دَخَلَ عَلَیْکَ أَحَدٌ إِلَی الْبَیْتِ فَقُمْ إِلَی الْمَخْدَعِ، فَإِنْ دَخَلَ عَلَیْکَ الْمَخْدَعَ فَاجْثُ عَلٰی رُکْبَتَیْکَ، وَقُلْ بُؤْ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ فَتَکُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ، وَذٰلِکَ جَزَائُ الظَّالِمِینَ، فَقَدْ کَسَرْتُ حَدَّ سَیْفِیْ وَقَعَدْتُ فِیْ بَیْتِیْ))۔ (مسند احمد: ۱۸۱۴۵) وسندصحیح ترجمہ: ابو ا شعت صنعانی سے مروی ہے ، انھوں نے کہا: یزید بن معاویہ نے ہمیں سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مقابلہ کے لیے بھیجا، میں مدینہ منورہ پہنچا تو فلاں کے پاس حاضرہوا، زیاد نے اس کا نام بیان کیا تھا، اس نے کہا: لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، آپ سب دیکھ رہے ہیں؟ ان حالات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا: میرے خلیل ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے وصیت کی تھی کہ اگر تم ان فتنوں میں سے کسی فتنہ کو دیکھو تو اپنی تلوار کی دھار توڑ کر گھر کے اندر بیٹھ رہنا، اگر کوئی فتنہ باز شخص تمہارے گھر کے اندر گھس آئے تو تم کسی کوٹھڑی کے اندر چھپ جانا اور اگر کوئی تمہاری کو ٹھڑی میں آجائے تو تم اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جانا اور کہنا کہ تو میرے قتل کے گناہ اور اپنے گناہوں کے ساتھ واپس جا، تیرا نجام جہنم ہے اور ظالموں کا یہی بدلہ ہے، لہٰذا اے بھائی! میں تو اپنی تلوار کی دھار توڑ کر گھر کے اندر بیٹھا ہوں. (محمد عمران علی حیدری) ✍️آج لوگ کہتے ہیں یزید نے کچھ بھی نہی کیا تھا. میں مزید کیا وضاحت کروں خود ہی ساری پوسٹ پرھ لیں سمجھ لگ جاۓ گی۔۔۔إن شاءالله۔ 7 :۔ (۱۲۴۳۷)۔ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ، کَتَبَ إِلٰی قَیْسِ بْنِ الْہَیْثَمِ حِینَ مَاتَ یَزِیدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ: سَلَامٌ عَلَیْکَ أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، فِتَنًا کَقِطَعِ الدُّخَانِ، یَمُوتُ فِیہَا قَلْبُ الرَّجُلِ، کَمَا یَمُوتُ بَدَنُہُ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا، وَیُمْسِی مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیعُ أَقْوَامٌ خَلَاقَہُمْ وَدِینَہُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا۔)) وَإِنَّ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ قَدْ مَاتَ، وَأَنْتُمْ إِخْوَانُنَا وَأَشِقَّاؤُنَا، فَلَا تَسْبِقُونَا حَتّٰی نَخْتَارَ لِأَنْفُسِنَا۔ (مسند احمد: ۲۴۲۹۰ صحیح) ترجمہ: جب یزید بن معاویہ کی وفات ہوئی توضحاک بن قیس نے قیس بن ہیثم کو خط لکھا، اس کا مضمون یہ تھا، تم پرسلامتی ہو، أَمَّا بَعْدُ! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت سے پہلے اندھیری رات کے ٹکڑوں جیسے شدید اور خوفناک فتنے بپا ہوں گے اور کچھ فتنے دھوئیں کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے، تب لوگوں کے دل یوں مردہ ہوجائیں گے، جیسے بدن مردہ ہو جاتے ہیں،ایک آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور کفر کی حالت میں شام کرے گا اور ایک آدمی شام کو مومن اور صبح کو کافر ہوگا اور لوگ اپنے دین و اخلاق کو دنیا کے بدلے فروخت کرنے لگیں گے۔ یزید بن معاویہ فوت ہو چکا ہے اور تم ہمارے بھائی ہو، تم کسی معاملہ میں ہم سے سبقت نہ کرنا تاآنکہ ہم خود کسی بات کو اپنے لیے اختیار نہ کر لیں۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس حدیث میں بات ہے نوٹ کرنے والی عقل والوں کے لیے۔ سب امثال بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ یزید فوت ہوگیا🧐🤔۔ 🤷‍♂️✍️خط بھی یزید کے مرنے کے بعد لکھا گیا تھا۔ ✍️وجہ کیا تھا ایسا کیوں کرنا پڑا اسکا مطلب صاف ہے۔ ✍️یزید کی اولاد آج بھی یزید کو بے گناہ ثابت کرنا چاھتے ہیں۔ ✍️🤲بس ایک دعا ہےہم حسینی ہیں ہمارا حشر بھی انہی کے ساتھ ہو بس۔۔ آمین🤲۔ 8: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ - عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ اطْرَحُوا لأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً فَقَالَ إِنِّي لَمْ آتِكَ لأَجْلِسَ أَتَيْتُكَ لأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لاَ حُجَّةَ لَهُ وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً۔ ( صحیح مسلم جلد2حدیث4793) ترجمہ: نافع سے روایت ہے عبداﷲ بن عمر رضی ‌اللہ ‌عنہما عبداﷲ بن مطیع کے پاس آئے جب حرہ کا واقعہ ہوا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو ایک مقام ہے مدینہ سے ملا ہوا قتل ہوئے اس طرح کے ظلم مدینہ والوں پر ہوئے۔ عبداﷲ بن مطیع نے کہا ابو عبدالرحمن رضی ‌اللہ ‌عنہ ( یہ کنیت ہے عبداﷲ بن عمر رضی ‌اللہ ‌عنہما کی ) کے لیے تو شک بچھاؤ۔ انہوں نے کہا میں اس لیے نہیں آیا کہ بیٹھوں بلکہ ایک حدیث تجھ کو سنانے کے لیے آیا ہوں جو میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے، آپ فرماتے تھے جو شخص اپنا ہاتھ نکال لے اطاعت سے وہ قیامت کے دن خدا سے ملے گا اور کوئی دلیل اس کے پاس نہ ہوگی اور جو شخص مرجاوے اور کسی سے اس نے بیعت نہ کی ہو تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہوگی۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️کس نے لشکر بھیجا کدھر بھیجا نقصان کس کو ہوا؟ ✍️آج لوگ کہتے نظر آتے ہیں دو شہزادوں کی جنگ تھی لعنت تم جاہلو دشمن اہل بیت لوگ ہیں یہ کہنے والے ایسا۔ ✍️ کہاں شہزادہ جنت کہاں لخت جگر بتول سلام علیہا، کہاں جگر گوشہ ابو ترابؓ۔ ✍️اور کہاں یزید رزیل لعنتی انسان۔ جس نے صحابہ پر ظلم کیا اور اہل بیت پر بھی اور مدینہ پر بھی 😭😭😭😭ظلم۔ ✍️ سلیمان بن محمد بن عمر بجرمی المصری الشافعی.✍️ سلیمان بن محمد بن عمر بجیرمی مصری شافعی اپنی کتاب تحفة الحبيب على شرح الخطيب میں لکھتے ہیں: أَنَّ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ قَوْلًا بِلَعْنِ يَزِيدَ تَلْوِيحًا وَتَصْرِيحًا وَكَذَا لِلْإِمَامِ مَالِكٍ وَكَذَا لِأَبِي حَنِيفَةَ وَلَنَا قَوْلٌ بِذَلِكَ فِي مَذْهَبِ إمَامِنَا الشَّافِعِيِّ وَكَانَ يَقُولُ بِذَلِكَ الْأُسْتَاذُ الْبَكْرِيُّ. وَمِنْ كَلَامِ بَعْضِ أَتْبَاعِهِ فِي حَقِّ يَزِيدَ مَا لَفْظُهُ زَادَهُ اللَّهُ خِزْيًا وَمَنَعَهُ وَفِي أَسْفَلِ سِجِّيْنَ وَضَعَهُ وَفِي شَرْحِ عَقَائِدِ السَّعْدِ يَجُوزُ لَعْنُ يَزِيدَ. یزید پر اشارتاً اور واضح طور پر لعنت کرنے کے متعلق امام احمد کے اقوال موجود ہیں اور یہی صورتحال امام مالک اور ابو حنیفہ کی بھی ہے اور ہمارے امام شافعی کا مذہب بھی یہی ہے اور البکری کا قول بھی یہی ہے۔ البکری کے بعض پروکاروں نے کہا ہے کہ اللہ یزید اور اس کے لشکر کی رسوائی میں اضافہ کرے اور اسے جہنم کے نچلے ترین درجہ پر رکھے۔ ( البجيرمي، تحفة الحبيب على شرح الخطيب، 12: 369، بيروت: دار الفكر) ( طالب دعا : محمد عمران علی حیدری) 19.08.2021
  18. آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اللہ عزوجل یامحمد صلو علیہ وآلہ خاتم الانبیاء، خاتم الرسل، خاتم النبی،خاتم المرسلین. الصلوۃ والسلام علیک یاسیدی یا خاتم الانبیاءؐ. و علی آلک و اصحبک یا سیدی یا خاتم النبیینؐ. ✍️المختصر تحریر قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں 💐صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم💐 القرآن العظیم الکریم المجید میں خالق کائنات نے واضح طور حکم صادر فرما دیا : 📖 1 : مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍعَلِیۡمًا ﴿۴۰﴾سورۃ الاحزاب ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ✍️میں (محمد عمران علی حیدری)کہتا ہوں مفسرین نے اس آیت کی جتنی بھی تفاسیر کی ہیں ان تمام کا خلاصہ و مفہوم یہ تفسیر خزائن العرفان ہے اور اسی طرح ہی تراجم میں کنزالایمان ہے۔ تفسیر خزائن العرفان یعنی آخر الانبیاء کہ نبوت آپ پر ختم ہو گئی آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتی کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پا چکے ہیں مگر نزول کے بعد شریعت محمدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے ، حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے ، نص قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیث تو حد تواتر تک پہنچتی ہیں ۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضور کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے ، وہ ختم نبوت کا منکر اور کافر خارج از اسلام ہے. 📖 2 :حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمُ الۡمَيۡتَةُ وَالدَّمُ وَلَحۡمُ الۡخِنۡزِيۡرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَيۡرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالۡمُنۡخَنِقَةُ وَالۡمَوۡقُوۡذَةُ وَالۡمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيۡحَةُ وَمَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيۡتُمۡ وَمَا ذُ بِحَ عَلَى النُّصُبِ وَاَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ فِسۡقٌ‌ ؕ اَلۡيَوۡمَ يَئِسَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ دِيۡـنِكُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡهُمۡ وَاخۡشَوۡنِ‌ ؕ اَ لۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَ تۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَـكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا‌ ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِىۡ مَخۡمَصَةٍ غَيۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ‌ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ. سورۃالمائدة آیت3 ترجمہ: حرام کیا گیا تم پر مردہ جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا اور وہ جانور جو گلا کٹنے سے مرجائے اور وہ جانور جو کسی ضرب سے مرجائے اور وہ جانور جو اوپر سے گر کر مرجائے اور وہ جانور جو کسی سے ٹکرا کر مرجائے اور وہ جانور جسے کسی درندے نے کھالیا مگر وہ جسے تم ذبح کرلو اور حرام کیا گیا وہ جانور جو ذبح کیا گیا پرستش گاہوں پر، اور یہ بھی حرام کیا گیا کہ تقسیم کرو تیروں کے ذریعہ یہ سب گناہ کے کام ہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے سو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے پورا کردیا تمہارا دین اور میں نے تم اپنی نعمت پوری کردی، اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر اختیار کرنے کے لئے پسند کیا، سو جو کوئی شخص مجبور ہوجائے سخت بھوک میں جو گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو سو یقیناً اللہ تعالیٰ غفور ہے رحیم ہے۔. ✍️جب دین مکمل ہوگیا ہے تو کسی اور دین کی اب قیامت تک ضرورت نہیں سواۓ اسلام کے۔ ✍️اب اسلام کے علاوہ کوئی اور دین پیش کیا جاۓ تو اسے قبول نہیں کریں مگر ان پڑھ کم علم۔ کیونکہ قرآن کی آیات سے آخری اور دین مکمل ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ ✍️قرآن اور صحیح حدیث سے قادیانیت کو چیلنج ہے قیامت کسی اور نبی آنا ثابت نہیں کر سکیں گے ۔ ظلی بروزی ہر طرح سے یہ قادیانیت تاویلات ہیں اس ے علاوہ کچھ اور اپنی کتاب و احکام بھی بیان کرے قیامت تک ثابت نہیں کر سکیں گے۔💪۔ ✍️بس قادیانیت کی ایک جہالت یہ ہے کہ یہ ادھر ادھر کی فضول باتوں میں وقت برباد کرتے ہیں۔ ✍️کسی طرح کی نبوت باقی نہی سب ختم سیدی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد باقی اگر کوئی جاہل کٹا ظلی بروزی نبوت کا قائل ہے تو بھی وہ غلطی پر ہے۔ اس باطل تاویلی عقیدہ کو بھی قرآن و حدیث سے ثابت نہیں کر سکتے چیلنج ہے۔نبوت میں اگر کچھ بچا ہے تو وہ نبوت کے چھیالیسواں حصہ ہے اور وہ صرف اچھے خواب ہیں بس۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں وہ معارفت کی راہ ہے۔جو کہ صحابہ و اولیاء کو اکثر آتے ہیں۔ ✍️القرآن ٫٫کہے دیجیے لاو دلیل اگر سچے ہو تو۔ 💪💪صحیح احادیث💪💪 📚 1 :وَعَنْ اَبِیْ نَضْرَۃَ قَالَ: خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَلٰی مِنْبَرِ الْبَصْرَۃِ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ اِلَّا لَہُ دَعْوَۃٌ قَدْ تَنَجَّزَھَا فِی الدُّنْیَا وَاِنِّیْ قَدِ اخْتَبَاْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِاُمَّتِیْ وَاَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَافَخْرَ، وَبِیَدِیْ لِوَائُ الْحَمْدِ وَلَافَخْرَ، آدَمُ فَمَنْ دُوْنَہُ تَحْتَ لِوَائِیْ وَلَافَخْرَ وَیَطُوْلُیَوْمُ الْقِیَامَۃِ عَلٰی النَّاسِ فَیَقُوْلُ بَعْضُہْمُ لِبَعْضٍ: اِنْطَلِقُوْا بِنَا اِلٰی آدَمَ اَبِیْ الْبَشَرِ فَلْیَشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا عَزَّوَجَلَّ فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَاْتُوْنَ آدَمَ علیہ السلام فَیَقُوْلُوْنَ: یَا آدَمُ! اَنْتَ الَّذِیْ خَلَقَکَ اللّٰہُ بِیَدِہٖ وَاَسْکَنَکَ جَنَّتَہُ وَاَسْجَدَ لَکَ مَلَائِکَتَہُ اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ، اِنِّی قَدْ اُخْرِجْتُ مِنَ الْجَنَّۃِ بِخَطِیْئَتِیْ وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِیْ الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا نُوْحًا رَاْسَ النَّبِیِّیْنَ، فَیَأْتُوْنَ نُوْحًا فَیَقُوْلُوْنَ: یَانُوْحُ! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ اِنِّی دَعَوْتُ بِدَعْوَۃٍ اَغْرَقَتْ اَھْلَ الْاَرْضِ وَاِنَّہ لَایُہِمُّنِیْ الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلَ اللّٰہِ فَیَاْتُوْنَ اِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام فَیَقُوْلُوْنَ: یَا اِبْرَاہِیْمُ! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ اِنِّیْ کَذَبْتُ فِی الْاِسْلَامِ ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ، وَاللّٰہِ اِنْ حَاوَلَ بِہِنَّ اِلَّا عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ، قَوْلُہُ {اِنِّیْ سَقِیْمٌ}،وَقَوْلُہُ {بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرُھُمْ ہٰذَا فَاسْاَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ}، وَقَوْلُہُ لِاِمْرَأَتِہِ حِیْنَ اَتٰی عَلٰی الْمَلِکِ اُخْتِیْ، وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِیْ الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا مُوْسٰی علیہ السلام الَّذِیْ اِصْطَفَاہُ اللّٰہُ بِرِسَالَتِہٖوَبِکَلَامِہٖ، فَیَاْتُوْنَہُ فَیَقُوْلُوْنَ: یَامُوْسٰی اَنْتَ الَّذِیْ اِصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِرِسَالَتِہِ وَکَلَّمَکَ فَاشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ فَیَقُوْلُ: لَسْتُ ھُنَاکُمْ، اِنِّیْ قَتَلْتُ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِیْ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا عِیْسٰی رُوْحَ اللّٰہِ وَکَلِمَتَہُ، فَیَاْتُوْنَ عِیْسٰی فَیَقُوْلُوْنَ: یَا عِیْسٰی! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ، فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ اِنِّی اتُّخِذْتُ اِلٰہًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِی الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنْ اَرَاَیْتُمْ لَوْکَانَ مَتَاعٌ فِیْ وِعَائٍ مَخْتُوْمٍ عَلَیْہِ اَکَانَ یَقْدِرُ عَلٰی مَا فِیْ جَوْفِہِ حَتّٰییَعُضَّ الْخَاتَمَ قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ: لَا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: اِنَّ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَقَدْ حَضَرَ الْیَوْمَ وَقَدْ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَاَخَّرَ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَیَاْتُوْنِّیْ فَیَقُوْلُوْنَ: یَا مُحَمَّدُ! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَاَقُوْلُ: اَنَا لَھَا حَتّٰییَاْذَنَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ یَّشَائُ وَیَرْضٰی فَاِذَا أَرَادَ اللّٰہُ تَعَالٰی اَنْ یَصْدَعَ بَیْنَ خَلْقِہِ نَادٰی مُنَادٍ: أَیْنَ اَحْمَدُ وَاُمَّتُہُ فَنَحْنُ الْآخِرُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ، نَحْنُ آخِرُ الْاُمَمِ اَوَّلُ مَنْ یُّحَاسَبُ فَتُفَرَّجُ لَنَا الْاُمَمُ عَنْ طَرِیْقِنَا فَنَمْضِیْ غُرًّا مُّحَجَّلِیْنَ مِنْ اَثَرِ الطُّہُوْرِ فَتَقُوْلُ الْاُمَمُ: کَادَتْ ہٰذِہِ الْاُمَّۃُ اَنْ تَکُوْنَ اَنْبِیَائَ کُلَّہَا، فَنَاْتِیْ بَابَ الْجَنَّۃِ فَاٰخُذُ بِحَلْقَۃِ الْبَابِ فَاَقْرَعُ الْبَابَ فَیُقَالُ: مَنْ اَنْتَ فَاَقُوْلُ: اَنَا مُحَمَّدٌ، فَیُفْتَحُ لِیْ فَآتِیْ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ عَلٰی کُرْسِیِّہٖ اَوْ سَرِیْرِہِ شَکَّ حَمَّادٌ (اَحَدُ الرُّوَاۃِ) فَاَخِرُّ لَہُ سَاجِدًا فَاَحْمَدُہُ بِمَحَامِدَ لَمْ یَحْمَدْہُ بِہَا اَحَدٌ کَانَ قَبْلِیْ وَلَیْسَ یَحْمَدُہُ بِہَا اَحَدٌ بَعْدِیْ فَیَقُوْلُ: یَامُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَسَلْ تُعْطَہُ وَقُلْ تُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَرْفَعُ رَاْسِیِْ فَاَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ، فَیَقُوْلُ:اَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ کَذَا وَکَذَا (لَمْ یَحْفَظْ حَمَّادٌ) ثُمَّ اُعِیْدُ فَاَسْجُدُ فَاَقُوْلُ: مَاقُلْتُ،فَیَقُوْلُ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ، فَیَقُوْلُ: اَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ کَذَا وَکَذَا دُوْنَ الْاَوَّلِ، ثُمَّ اُعِیْدُ فَاَسْجُدُ فَاَقُوْلُ مِثْلَ ذٰلِکَ، فَیُقَالُ لِیْ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ فَیَقُوْلُ: اَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ کَذَا وَکَذَا دُوْنَ ذٰلِکَ۔)) (۱۳۱۰۰) (مسند احمد: ۲۵۴۶) (ھذا حدیث صحیح) ابو نضرہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بصرہ کے منبر پر ہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کو ایک ایک قبول شدہ دعا کرنے کا اختیار دیا گیا، اور ہر ایک نے دنیا ہی میں وہ دعا کرلی، البتہ میں نے اپنی دعا کو امت کے حق میں سفارش کر نے کے لیے چھپا رکھا ہے،میں قیامت کے دن ساری اولاد ِ *آدم کا سردار ہوں گا،* لیکن اس پر فخر نہیں ہے، سب سے پہلے میری قبر کی زمین پھٹے گی اور میں اس پر فخر نہیں کرتا،حمد کاجھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا، لیکن مجھے اس پر بھی فخر نہیں ہے، آدم علیہ السلام اور ان کے بعد کی تمام انسانیت میرے اس جھنڈے کے نیچے ہوگی اور مجھے اس پر بھی فخر نہیں ہے۔ قیامت کا دن لوگوں کے لیے انتہائی طویل ہو چکا ہوگا، بالآخر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ابو البشر آدم علیہ السلام کی خدمت میں چلیں، وہ ہمارے رب کے ہاں ہمارے حق میں سفارش کریں اور اس طرح اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان فیصلے کرے، پس لوگ جمع ہو کر حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں جا کر کہیں گے:اے آدم! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کو اپنی جنت میں ٹھہرایا اور فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ ریز کرایا، آپ رب کے ہاں جا کر سفارش تو کریں کہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرنا شروع کرے۔ وہ کہیں گے: میں یہ کام نہیں کر سکتا، میری بھول کی وجہ سے مجھے جنت میں نکالا گیا تھا، مجھے تو میری اپنی جان نے بے چین کر رکھا ہے، تم نوح علیہ السلام کی خدمت میں چلے جاؤ، وہ نبیوں کی اصل ہیں،چنانچہ وہ سب نوح علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے اور کہیں گے: اے نوح! آپ ہمارے رب کے ہاں ہمارے حق میں سفارش کریں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلے کرے، لیکن وہ کہیں گے: میں اس کی جرأت نہیں کر سکتا، میں نے تو اپنی دعا کر لی ہے، جس سے تمام اہل زمین غرق ہو گئے تھے، آج تو مجھے اپنی جان کی فکر لگی ہوئی ہے، البتہ تم اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جا کر کہیں گے: اے ابراہیم! آپ ہمارے لیے ہمارے رب سے سفارش کریں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلے کرے، وہ کہیں گے: میں اس بات کی جرأت نہیں کرسکتا، میں نے اسلام میں تین جھوٹ بولے تھے۔ حالانکہ اللہ کی قسم ہے کہ انہوں نے ان باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے دین کا دفاع ہی کیا تھا، ایک تو انہوں نے کہا تھا. {اِنِّیْ سَقِیْمٌ} (بیشک میں بیمار ہوں۔) (سورۂ صافات: ۸۹) ،دوسرا انہوں نے کہا تھا: {بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ الانبیاء 63} (ابراہیم نے) کہا بلکہ اسی نے یہ کام کیا ہے (یعنی ابراہیم نے) ان میں کا بڑا یہ ہے سو ان سے پوچھو لو اگر یہ بول سکتے ہیں ) اور تیسرا یہ کہ جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ بادشاہ کے پا س پہنچے تو کہا کہ یہ تو میری بہن ہے۔ بہرحال ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: آج تو مجھے اپنی پریشانی لگی ہوئی ہے، البتہ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ ، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا تھا اور ان کے ساتھ کلام بھی کیا تھا، وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جائیں گے اور کہیں گے: اے موسیٰ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت سے نوازا اور آپ کے ساتھ کلام بھی کیا، آپ ہمارے حق میں اللہ تعالیٰ سے یہ سفارش تو کر دیں کہ وہ ہمارا حساب شروع کر دے، وہ کہیں گے: میں اس قابل نہیں ہوں، میں نے تو ایک آدمی کو بغیر کسی جرم کے قتل کر دیا تھا، مجھے تو اپنی جان کی فکر ہے، تم لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ اللہ تعالیٰ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں، چنانچہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جا کران سے کہیں گے: اے عیسیٰ! آپ اپنے رب سے ہمارے حق میں سفارش کر یں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے۔ وہ کہیں گے: میں تو یہ کام نہیں کر سکتا، مجھے تو لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر معبود بنا لیا تھا، اس لیے مجھے تو اپنی پریشانی نے بے چین کر رکھا ہے، لیکن دیکھو اگر کوئی سامان کسی برتن میں بند کر کے اس پر مہر لگا دی گئی ہو، تو کیا مہر کو توڑے بغیر برتن کے اندر کی چیز کو حاصل کیا جا سکتا ہے؟ لوگ کہیں گے کہ نہیں۔ تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم *خاتم النّبیین ہیں،* وہ آج موجود ہیں، ان کا مقام یہ ہے کہ ان کے اگلے پچھلے تمام جہان کی بھلائیاں عطا کیے گئے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:اس کے بعد لوگ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے محمد! آپ اپنے رب سے ہمارے لیے سفارش کریں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلے کرے۔ تو میں کہوں گا: جی ہاں، جی ہاں، میں ہی اس شفاعت کے قابل ہوں ، یعنی آج میں ہی سفارش کرسکتا ہوں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جسے جسے چاہے گا اور پسند کرے گا، اسے شفاعت کی اجازت دے گا، جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو الگ الگ کرنے کا ارادہ کرے گا تو اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: احمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کی امت کہاں ہیں؟ *ہم اگرچہ زمانہ کے اعتبار سے آخر میں آئے ہیں،لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، ہم اگرچہ آخری امت ہیں* (آخری نبی علیہ السلام کی آخری امت) لیکن سب سے پہلے ہمارا حساب ہوگا۔ ہمارے راستے سے دوسری امتوں کو ہٹادیا جائے گا اور وضوء کے اثر سے میری امت کے چہرے ، ہاتھ اورپاؤں خوب چمک رہے ہوں گے، انہیں دیکھ کر دوسری امتیں رشک کرتے ہوئے کہیں گی: قریب تھا کہ اس امت کے تو سارے افراد انبیاء ہوتے، یہ امت جنت کے دروازے پر پہنچے گی۔ میں جنت کے دروازے کے کڑے کو پکڑ کر دستک دوں گا۔ پوچھا جائے گا: کون ہو؟ میں کہوں گا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہوں۔پھر میرے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کرسی یا تخت پر تشریف فرما ہوں گے،(کرسی یا تخت کا شک راوی ٔ حدیث حماد کو ہوا) میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جاکر سجدہ ریز ہو جاؤں گا اور میں اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی حمد کروں گا، جو نہ تو مجھ سے پہلے کسی نے بیان کی اور نہ بعد میں کوئی کر سکے گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گا: اے محمد! سجدہ سے سر اٹھاؤ ، مانگو تمہیں دیا جائے گا، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھا کر کہوں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! اللہ تعالیٰ فرمائے گا :جن لوگوں کے دلوں میں فلاں چیز کے برابر ایمان ہواسے جہنم سے نکال لاؤ، میں اس کے بعد دوبارہ سجدہ میں گرجاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کو جیسے منظور ہوگا، میں سجدہ میں کہوں گا، بالآخر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے رب! میری امت ،میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:جس کسی کے دل میں فلاں چیز کے برابر ایمان ہو، ان کو جہنم سے نکال لاؤ، اس کے بعد پھر میں سجدہ کروں گا اور پہلے کی طرح اللہ تعالیٰ کی تعریفیں کروں گا، بالآخر مجھے کہا جائے گا:سجدہ سے سر اٹھاؤ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ سے کہا جائے گا کہ جس کسی کے دل میں فلاں چیز کے برابر بھی ایما ن ہو، اس کو جہنم سے نکال لاؤ۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 2 :وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ، وَابْنُ حُجْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ: هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ (صحیح مسلم جلد3 حدیث 5961.) ھذا حدیث صحیح ابو صالح سمان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اور دوسرے پیغمبروں کی مثال جو کہ میرے سے پہلے ہو چکے ہیں ، ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کی زیبائش اور آرائش کی ، لیکن اس کے کونوں میں سے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی پس لوگ اس کے گرد پھرنے لگے اور انہیں وہ عمارت پسند آئی اور وہ کہنے لگے کہ یہ تو نے ایک اینٹ یہاں کیوں نہ رکھ دی گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم الانبیاء ہوں۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 3: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَتَّى يَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. (الجامع الترمذی جلد2حدیث2219) ھذا حدیث صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبیلے مشرکین سے مل جائیں، اور بتوں کی پرستش کریں، اور میری امت میں عنقریب تیس جھوٹے نکلیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 4 :حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، ح وَحَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ عَمْرٍو الْعُكْبَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَذُوعِيُّ، قَالَا: ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ، قَالَا: ثنا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: قَرَأْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ , وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّ نَبيَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ: فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ وَدَجَّالُونَ سَبْعَةٌ وَعِشْرُونَ، مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ نِسْوَةٍ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لا نَبِيَّ بَعْدِي. ✍️درج ذیل سات کتب میں یہ حدیث موجود ہے [(1) المعجم الکبیر للطبرانی 3026 3/169 ( 2) (فتح الباري 87/13) (3) الفتح الكبير 2/275 (4) الجامع الصغیر7707 امام سیوطیؒ (5) کنزالاعمال الرقم 38360 جلد14. صفحہ196 (6) غائیہ المقصد فی زوائد المسند الرقم 4483 جلد4ص250 (7) مسند احمد مخرجا 23358الرقم جلد38 ص380] ( إسناده جيد) حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: میری امت میں ستائیس(راوی کا وہم لگتا ہے کسی حدیث میں 27 تو کسی حدیث میں 30 کا زکر ہے) کذاب اور دجال ہوں گے،ان میں چار عورتیں ہوں گی،میں خاتم النبیین ہوں،میرے بعد کوئی نبی نہیں. (محمد عمران علی حیدری) ✍️کسی حدیث میں 27کا زکر ہے تو کسی میں 30 کا زکر ہے شائد راوی کا وہم ہے۔خیر اصل بات یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو نبوت کا دعوئ کرے وہ جھوٹا ہے ان احادیث ایک بات جو ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آۓ گا کسی بھی طرح کا۔ ✍️جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئ نبی ہوتا(یہ اس بات کی نفی ہے کے حضرت محمدؐ کے بعد کوئی نبی نہی) تو وہ عمر ہوتا ۔ ایک بات یاد رکھیں اگر نبوت بند نہ ہوتی جاری رہتی تو حضرت عمرؓ بھی نبی ہوتے ۔ لیکن سیدنا عمرؓ نے نہ نبوت کا دعوئ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ ✍️اس لیے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسلیمہ کذاب کے ساتھ جنگ کی اس نے بھی نبی ہونے کا دعوئ کیا تھا ✍️تو اگر آج کوئی دجال کانا نبوت کا دعوئ کرے تو جھوٹا ہے، فراڈی ہے ،مکار ہے، ذلیل ہے،نمک حرام ہے، کذاب ہے۔ کافر ہے، پیروی کرنے والا مرتد ہے، وہ اور اس کے پیرو خارج از اسلام ہیں۔ ان کو نہ اقلیت کا حق نہ ملک میں رہنے کا بس قتال قتال قتال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ باللہ تاللہ۔ یہی حق ہے۔ 📚 5: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَوْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي زَوَى لِي الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ مُلْكَ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَلَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ ؟ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ لِي:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَلَا أُهْلِكُهُمْ بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَلَا أُسَلِّطُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِ أَقْطَارِهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ بِأَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَحَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يَسْبِي بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عِيسَى:‏‏‏‏ ظَاهِرِينَ ثُمَّ اتَّفَقَا لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ. (سنن ابو داؤد جلد4 حدیث 4252.) *الشیخ شعیب الارنؤوط* إسناده صحيح. أبو أسماء: هو عمرو بن مرثد الرَّحَبي، وأبو قلابة: هو عبد الله بن زيد الجَرمي، وأيوب: هو ابن أبي تميمة السختياني. [وأخرجه مسلم (2889)، والترمذي (2317) و (2379) من طريق أيوب السختياني، ومسلم (2889)، وابن ماجه (10) و (3952) من طريق قتادة بن دعامة، كلاهما عن أبي قلابة عبد الله بن زيد الجرمي، به. ولم يخرج أحدٌ منهم الحديث بتمامه كما هو عند المصنف. وهو في "مسند أحمد" (22394) بتمامه، و"صحيح ابن حبان" (6714) و (7238)] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی یا فرمایا: میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ بدلتا نہیں میں تیری امت کے لوگوں کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو، اور ان کو جڑ سے مٹا دے گو ساری زمین کے کافر مل کر ان پر حملہ کریں، البتہ ایسا ہو گا کہ تیری امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، انہیں قید کریں گے، اور میں اپنی امت پر گمراہ کر دینے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی، اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ مشرکین سے مل نہ جائیں اور کچھ بتوں کو نہ پوجنے لگ جائیں، اور عنقریب میری امت میں تیس ( ۳۰ ) کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا وہ غالب رہے گا، ان کا مخالف ان کو ضرر نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 6 :حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا ، فَقَالَ : أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ ، قَالَ : أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي ،وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، سَمِعْتُ مُصْعَبًا۔ (صحیح بخاری جلد2 حدیث 4416 ھذا حدیث صحیح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ اور ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کو یوں بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے اور انہوں نے کہا میں نے مصعب سے سنا۔ 📚 7 :حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَعْنٌ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ۔ (صحیح بخاری شریف حدیث3532.4896 ھذا حدیث صحیح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد، احمد اور ماحی ہوں ( یعنی مٹانے والا ہوں ) کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا ( قیامت کے دن ) میرے بعد حشر ہو گا اور میں عاقب ہوں یعنی خاتم النبین ہوں۔ میرے بعد کوئی نیا پیغمبر دنیا میں نہیں آئے گا۔ تاجدار ختم نبوت زندہ باد زندہ باد لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) 17.09.2021. 09 صفر المظفر 1443ھ
  19. زمین آسمان کی کنجیاں اور سلطنت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے یا اللہ عزوجل یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہؐ ✍️اللہ نے مرتبہ دیا ہے ۔ تم کیوں جلتے ہو؟ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : رَوَاهُ الْمُحِبُّ الطَّبَرِيُّ.31 /31) 3-4: أخرجه محب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1 /366، الرقم: 109، وإسماعيل الأصبهاني في دلائل النبوة، 1 /65، الرقم: 25، والسيوطي في الخصائص الکبري، 2 /388، والثعالبي في الکشف والبيان، 7 / 468. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو اﷲ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا اور دو نورانی منبر لائے جائیں گے، ایک عرش کی دائیں جانب اور دوسرا عرش کی بائیں جانب نصب کیا جائے گا، اِن منبروں پر دو شخص نمودار ہوں گے، پس وہ جو عرش کی دائیں جانب ہو گا ندا دے گا: اے گروہانِ مخلوقات! جس نے مجھے پہچان لیا اُس نے جان لیا اور جس نے مجھے نہیں جانا (تو وہ جان لے) کہ میں جنت کا داروغہ رضوان ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جنت کی کنجیاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تھما دوں، اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اُنہیں ابو بکر و عمر (رضی اﷲ عنہما) کو تھما دوں تاکہ وہ اپنے ساتھ محبت کرنے والوں کو جنت میں داخل کر سکیں۔ پس تم آگاہ ہو جاؤ۔ پھر وہ شخص جو عرش کی بائیں جانب ہو گا ندا دے گا: جس نے مجھے جان لیا سو جان لیا اور جس نے مجھے نہیں جانا تو وہ جان لے کہ میں مالک، جہنم کا داروغہ ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جہنم کی کنجیاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دے دوں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ کنجیاں ابو بکر و عمر کو دے دوں تاکہ وہ اپنے ساتھ بغض رکھنے والوں کو جہنم میں دھکیل سکیں۔ سو تم سب اِس پر گواہ ہو جاؤ۔‘‘ اِسے محب الدین الطبری نے روایت کیا ہے۔ اس روایت کو کتاب موجبات الجنہ لابن الفاجر میں ابن الفاجر نے بھی نقل کیا ہے۔ 317 - ثنا الإمام عمي قال، ثنا أبو علي الوزير إملاءً قال، ثنا يوسف بن محمد الزاهد. -وأنبا أبو طاهر الصوفي بقراءاتي عليه قال، ثنا يوسف بن محمد في كتابه، قال، حدثنا أحمد بن إبراهيم بن أحمد قال، ثنا القاسم بن محمد السراج، ثنا محمد بن أحمد الضبي الدينوري بمكة في المسجد الحرام قال، ثنا أحمد بن يحيى قال، ثنا الصابر الجارود قال، ثنا هشيم عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((إذا كان يوم القيامة ينصب ميزانٌ من ذهبٍ أمام العرش فيأتي ملكٌ من الملائكة فيعلو أحدهما فيقول من عرفني فقد عرفني، ومن لم يعرفني فأنا رضوان خازن الجنة، وهذا مفاتيحها بيدي، أمرني الله -عز وجل- أن أدفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أدفعها إلى أبي بكر رضي الله عنه يدخل الجنة محبيه ومحبي عائشة بغير حسابٍ، ويأتي ملكٌ من الملائكة فيعلو المنبر الثاني، ويقول: من عرفني فقد عرفني، ومن لم يعرفني فأنا مالكٌ خازن النار، وهذا مفاتيحها بيدي، أمرني الله أن أدفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أدفعها إلى أبي بكر الصديق رضي الله عنه يدخل النار مبغضيه ومبغضي عائشة بغير حسابٍ)). قال أبو بكر: سمع هذا الحديث الكرخي، وقال: لو كان هذا الحديث مكتوباً على الجدار لكان الواجب أن يكتب بماء الذهب. كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر. ابن الفاخِر بابٌ في ذكر أن محبي أبي بكر وعائشة -رضي الله عنها- يدخلون الجنة بغير حساب. ✍️ اس کی سند پر کلام ہے اس حدیث کا متن بالکل قرآن و صحیح احادیث سے ثابت شدہ ہے وَلَـلۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ لَّكَ مِنَ الۡاُوۡلٰىؕ. 4 سورۃ الضحى : ترجمہ اور بیشک بعد والی ساعت آپ کے لئے پہلی ساعت سے بہتر 📖تفسیر میں مفسرین نے کیا فرمایا دو کتب سےمفہوم کہ آنے والے اَحوال آپ کے لئے گزشتہ سے بہتر و برتر ہیں گویا کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ روز بروز آپ کے درجے بلند کرے گا اور عزت پر عزت اور منصب پر منصب زیادہ فرمائے گا اورہر آنے والی گھڑی میں آپ کے مَراتب ترقیوں میں رہیں گے۔ مدارک، الضّحی، تحت الآیۃ:4 تفسیرکبیر، الضّحی، تحت الآیۃ4 2 : وَلَسَوۡفَ يُعۡطِيۡكَ رَبُّكَ فَتَرۡضٰىؕ. ( الضحی 5) :ترجمہ اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے. اسکا متن آپ خود دیکھ لیں گے۔ آپ ایک بار اوپر والی روایت کو غور سے پڑھیں پھر ان احادیث کو پڑھتے جائیں ۔إن شاءالله۔۔آپ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ 📘 1 : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا۔ صحیح بخاری جلد1 حدیث. 1344.2977.3596 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس میں واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے یہی بات اوپر والی روایت میں کی گئی بات ہے۔ ✍️یہ حدیث بخاری میں چار جگہ پر موجود ہے اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتب میں درج ہے الفاظ مختلف مفہوم ایک ہی ہے کہ ذات محبوب کبریا عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اب اسکا تعین کرنا کون کون سے خزانے ہیں ہمارے بس کی بات نہیں۔ ✍️اور نہ ہم اس مسلہ میں قید و بند لگا سکتے ہیں حدیث پر کہ ہاں یہ ہوگا یہ نہیں۔ ایسا کرنا وہابیہ کا کام ہے ہمارا نہی۔ ✍️ہم نے بس مان لیا کہ ہاں دے دی گئی ہیں اب دینے والا اور لینے والا جانے۔ ✍️میرے خیال میں اور حقائق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کنجیاں کا لفظ کہنا یہ مقصد تھا کہ رسائی،(پہنچ) اختیار ،بادشاہت اللہ نے دےدی ہے۔ 📘 2: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ, ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ: إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ, وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ, أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ, وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. صحیح بخاری جلد2 حدیث 4085 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض ( حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا مفاتيح الأرض یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ ✍️اب اس حدیث پر غور کریں تو نبی علیہ السلام فرما رہے ہین کہ اپنے حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں حوض کوثر کہاں ہے اور لفظ حضورؑ نے فرمایا اپنے یعنی میرا۔ مالکیت ظاہر ہورہی ہے۔ ✍️ سلطنت آسمان پر بھی ہے جس کی سلطنت ہو اختیار ہو و چابیاں بھی اسی کے پاس ہوتی ہیں ✍️جیسا کہ ایک بادشاہ کا وزیر ہوتا ہے بادشاہ اس کو بہت سارے اختیار دیتا ہے وزیر اسے استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ وزیر کو سب دے دیا جاتا ہے ہر چیز پر وہ حکمرانی کرتا ہے۔ جیسا حدیث میں ہے واللہ یعطی انا القاسم اسی طرح ایک اور حدیث ہے ۔ اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں. ( مشکوات شریف ص ٥٢١ )۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 3 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ. صحیح بخاری جلد1 حدیث 120. ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ «بلعوم» سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 4 :حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ ذَكَرَ دَاوُدُ،‏‏‏‏ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ مَا خَلَا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، ‏‏‏‏‏‏لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ۔ سنن الترمذی جلد2 حدیث 3666 ھذا حدیث صحیح ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر و عمر جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے نبیوں اور رسولوں کے، لیکن علی! تم انہیں نہ بتانا“۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️جسے چاہیں جو جو عطا کریں سب دیا آپ کی سلطنت میں 📘 5 :حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْوَاسِطِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا۔ سنن ابن ماجہ جلد١حدیث 118 ھذا حدیث صحیح ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں ۔ 📘 6: وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا فَاطِمَةَ عَامَ الْفَتْحِ فَنَاجَاهَا فَبَكَتْ ثُمَّ حَدَّثَهَا فَضَحِكَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا عَنْ بُكَائِهَا وَضَحِكِهَا. قَالَتْ: أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَمُوتُ فَبَكَيْتُ ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ مشکوۃ شریف ترجمہ: حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فاطمہ ؓ کو بلایا اور ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رو پڑیں ، پھر ان سے کوئی بات کی تو وہ ہنس پڑی ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تو میں نے ان کے رونے اور ان کی ہنسی کے متعلق ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتایا تھا کہ میں فوت ہو جاؤں گا تو میں رو پڑی ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتایا کہ مریم بنت عمران کے علاوہ اہل جنت کی خواتین کی میں سردار ہوں ۔‘‘ اس پر میں ہنس دی ۔ رواہ الترمذی. (محمد عمران علی حیدری) 📘 7 :ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ اﻟﺤﺎﻓﻆ، ﺛنا ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺩﺣﻴﻢ اﻟﺪﻣﺸﻘﻲ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻓﺪﻳﻚ، ﻋﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ اﻟﺰﻣﻌﻲ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺷﺮﻳﺢ، ﺃﻥ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺣﺪﺛﻪ ﺃﻇﻨﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﺃﻥ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﺣﺪﺛﻪ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: «ﻋﺸﺮﺓ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ، ﻭﻋﻤﺮ، ﻭﻋﺜﻤﺎﻥ، ﻭﻋﻠﻲ، ﻭاﻟﺰﺑﻴﺮ، ﻭﻃﻠﺤﺔ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻭﺳﻌﺪ، ﻭﺃﺑﻮ ﻋﺒﻴﺪﺓ ﺑﻦ اﻟﺠﺮاﺡ ﻭﻫﺆﻻء ﺗﺴﻌﺔ» ، ﺛﻢ ﺳﻜﺖ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﻧﻨﺸﺪﻙ اﻟﻠﻪ ﺃﻻ ﺃﺧﺒﺮﺗﻨﺎ ﻣﻦ اﻟﻌﺎﺷﺮ، ﻓﻘﺎﻝ: «ﻧﺸﺪﺗﻤﻮﻧﻲ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﺃﺑﻮ اﻷﻋﻮﺭ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ» ﺳﻜﺖ ﻋﻨﻪ اﻟﺬﻫﺒﻲ ﻓﻲ اﻟﺘﻠﺨﻴص (المستدرك علي الصحيحين: رقم الحديث 5858جلد3 498صفحہ,ط:دارالكتب العلمية۔) اگر وہابی یہ آیت پیش کریں لَّهٗ مَقَالِيۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ. 63الزمر آیت : ترجمہ اسی کے پاس آسمانوں اور زمینوں کی چابیاں ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا ہے وہی نقصان اٹھانے والے ہیں. میں پوچھنا چاھتا ہوں اوپر بیان کی گئی احادیث کو مانوں گے یا انکار کردو گے؟؟ ہاں یہ بات سنی ہی سمجھ سکتا ہے اور سمجھا سکتا ہے ورنہ ایسے نے تو سیدنا علیؓ پر بھی شرک کا فتوئ لگا دیا تھا۔ العیاذ بااللہ۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل تفاسیر کو پڑھیے ۔ خزائن العرفان۔ تبیان القرآن ۔ صرط الجنان۔ روح البیان۔ وغیرہ۔ ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضؔا مسلّم جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھادیے ہیں۔ ( طالب دعا: محمد عمران علی حیدری)
  20. 💪 بڑی جماعت💪 (سواد الاعظم) 1✍️پہلی بات قابل غور ہے بڑی جماعت کو ہی سواد الاعظم کہا جاتا ہے۔ 2✍️شروع سے لے کر قیامت تک بڑی جماعت اھلسنہ والجماعہ تھی، رہی ہے، رہے گی۔ 3✍️اگرچہ ان میں فروعی مسائل میں اختلاف ہوگا۔ لیکن عقائد میں اختلاف نہی ہوگا۔ 4✍️جیسے کہ حنفی شافعی حنبلی مالکی۔ان سب کے عقائد ایک ہیں۔ بس فروعی مسائل میں اختلاف ہے جو کہ:۔ افضل، الاولی، مستحب، مستحسن اور مباح کا اختلاف ہوتا ہے بس۔ 5✍️لیکن عقائد کی بات کی جاۓ تو سب کے ایک ہیں۔ ✍️جیسا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنا۔✍️ :اب آتے ہیں حدیث کی طرف جو سندا ضعیف ہے۔ لیکن متناََ بالکل ٹھیک ہے۔ :1📘حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ السَّلَامِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو خَلَفٍ الْأَعْمَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ . ابن ماجہ 3950 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم ( یعنی بڑی جماعت ) کو لازم پکڑو۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس میں دو راوی ہیں جس کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا گیا ہے لیکن اس کا متن ثابت شدہ ہے۔ ✍️سواد الاعظم کے الفاظ ابو خلف الاعمی کی وجہ سخت ضعیف ہیں اور دوسرا راوی معان بن رفاعہ ضعیف ہے۔ ✍️اس کی سند ضعیف ہی ہے لیکن اسکا متن ٹھیک ہے۔ جو کہ دوسری احادیث سے ثابت شدہ ہے۔ 💞 اب آتے ہیں متن حدیث کی طرف💞 ✍️سواد الاعظم سے مراد بڑی جماعت ہے میں بتا چکا ہوں اوپر الفاظ کی تبدیلی ہےبس۔ مطلب ایک ہی ہے بہت بڑی جماعت۔ یعنی عام الفاظ میں بولا جا سکتا ہے سواد الاعظم۔ ✍️آپ صرف جماعت، بڑی جماعت بولیں بہت بڑی جماعت بولیں اور یاسواد الاعظم بولیں مراد ایک ہی ہے۔ (✍️ محمد عمران علی حیدری) :2✍️(۸۷۷۷)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَقَلِیلٌ مِنْ الْآخِرِینَ} [الواقعۃ: ۱۳۔ ۱۴] شَقَّ ذٰلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، فَنَزَلَتْ: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَثُلَّۃٌ مِنْ الْآخِرِینَ} [الواقعۃ: ۳۹۔۴۰] فَقَالَ: ((اَنْتُمْ ثُلُثُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ، بَلْ اَنْتُمْ نِصْفُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ، وَتُقَاسِمُوْنَہُمُ النِّصْفَ الْبَاقِیْ۔)) (مسند احمد: ۹۰۶۹) ھذا حدیث صحیح ۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَقَلِیلٌ مِنْ الْآخِرِینَ}… (سبقت لے جانے والوں) کا بہت بڑا گروہ (سواد الاعظم) تو اگلے لوگوں میں سے ہو گا اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں سے۔ تو یہ بات مسلمانوں پر بہت گراں گزری، پس یہآیات نازل ہوئیں: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَثُلَّۃٌ مِنْ الْآخِرِینَ} … (دائیں ہاتھ والوں کا) جم غفیر(سواد الاعظم) اگلوں میں سے ہے اور بہت بڑی جماعت(سواد الاعظم) پچھلوں میں سے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جنت والوں میں سے تیسرا حصہ ہو گے، بلکہ اہل جنت کا نصف حصہ تم ہو گے اور باقی نصف میں بھی تم ان کے حصہ دار ہو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس حدیث بھی یہی الفاظ استعمال ہوۓ ہیں بڑی جماعت یعنی سواد الاعظم بولیں آپ بڑی جماعت بولیں یا پھر اھلسنہ والجماعۃ بولیں یا پھر صرف جماعت کہیں کیونکہ یہی بڑی اہل سنت و جماعت ہی ہے۔ 3📘 الفصل الثانیدوسری فصل حدیث نمبر 256 روایت ہے حضرت عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارے بہترین ہیں ۱؎ پھر وہ جو ان کے قریب ہیں پھروہ جو ان کے قریب ہیں۲؎ پھر جھوٹ ظاہر ہوگا حتی کہ آدمی قسم کھائے گا حالانکہ قسم لیا نہ جاوے گا اور گواہی دے گا حالانکہ گواہی لیا نہ جاوے گا آگاہ رہو کہ جو جنت کا وسط چاہے وہ جماعت کو مضبوط پکڑے۳؎ کیونکہ شیطان اکیلے کے ساتھ ہوتا ہے۴؎ اور وہ دو سے دور رہتا ہے ۵؎ کوئی شخص کسی اجنبی عورت سے خلوت نہ کرے کیونکہ شیطان ان کا تیسرا ہوتا ہے ۶؎ اور جس کو اس کی نیکی خوش کرے اور اس کی برائی غمگین کرے تو وہ مؤمن ہے۷؎ : شرح ۱؎ جن صحابہ نے حضور انور کی صحبت پائی،حضور سے علم و عمل حاصل کیے،حضورکی تربیت پائی وہ تو انسان کیا فرشتوں سے بڑھ گئے مگر جن کی صرف ایک نظر جمال جہاں آرا پر پڑ گئی انہیں ایمان شہودی حاصل ہوگیا۔حضور کے جمال پر ایک نظر وہ کام کرتی ہے جو عمر بھر کے چلے خلوتیں عبادتیں نہیں کرسکتیں کوئی اس جیسا نہیں ہوسکتا۔(از اشعۃ اللمعات)۲؎ یعنی تابعین و تبع تابعین بعد والوں سے افضل ہیں کہ ان میں اکثر عادل یا مستور الحال ہیں فاسق تھوڑے مگر ان کے بعدکے لوگ اس کے برعکس ہیں کہ ان میں فاسق زیادہ عادل کم ہیں بلکہ ان زمانوں کے فاسقوں میں جتنی حمیت دینی تھی بعد کے بعض عادلوں میں اتنی نہیں غیرت ایمان برابر گھٹ رہی ہے جیساکہ آگے ارشاد ہے،محمد ابن قاسم کا سندھ فتح کرنا حجاج ابن یوسف کی ایک غیرت اسلامی کی بنا پر ہوا۔۳؎ یعنی جماعت صحابہ کے عقیدے اختیار کرے ان کے سے اعمال کرنے کی کوشش کرے،نیز عامۃ المؤمنین کی راہ چلے ہمیشہ عام مسلمانوں کی راہ چلے تا ابد بڑا گروہ اہل سنت والجماعت ہی کا رہے گا اسی لیے اس کے نام میں جماعت داخل ہے اہل سنت و الجماعت۔۴؎ یعنی جو عقائد و اعمال میں مسلمانوں کی جماعت سے الگ رہا وہ شیطان کا ساتھی ہے دوزخی ہے۔۵؎ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے اور بھیڑیا بکریوں کے گلہ پر رحم کم کرتا ہے دور والی یا کنارے والی بکری کو جلد پھاڑتا ہے،یہ مضمون کتاب الاعتصام میں گزر چکا۔۶؎ عورت سے مراد اجنبی عورت ہے لہذا اپنی ذی رحم ماں بہن بیٹی ساری ذی رحم محرمہ یوں ہی اپنی بیوی اس حکم میں داخل نہیں بلکہ جوعورت صرف محرمہ تو ہو کہ اس سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو مگر ذی رحم نہ ہو جیسے ساس اس سے بھی خلوت بہتر نہیں جب کہ وہ جوان ہو۔(دیکھو شامی)خیال رہے کہ دودھ کے بھائی بہن دودھ کے چجا تائے سے پردہ فرض نہیں مگر خلوت ان سے بھی بہتر نہیں جب کہ دونوں جوان ہوں کیونکہ وہ اگرچہ محرم تو ہیں مگر ذی رحم نہیں۔۷؎ یعنی علامت ایمان یہ ہے کہ آدمی کو اپنی برائیاں اپنے گناہ برے معلوم ہوں،ان پر وہ غم کرے اور اپنی نیکیاں اچھی معلوم ہوں ان پر خوشی کرے اس کا دل مفتی ہوتا ہے جو اسے برے بھلے کاموں کا فتوی دیتا رہتا ہے اللہ ایسا ایمان نصیب کرے۔ مصنف کو اس حدیث کا حوالہ نہیں ملا،یہ حدیث نسائی شریف کی ہے اس کی اسناد کے سارے راوی قوی ہیں سواء ابراہیم ابن حسن خثعمی کے اس سے مسلم،بخاری نے احادیث نہیں لیں مگر وہ بھی ثقہ ہیں لہذا حدیث صحیح ہے اور اس مضمون کی احادیث احمد ابن حبان،طبرانی،حاکم،بیہقی نے بھی روایت کیں۔(مرقات) (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد8.صفحہ 256) (از: حکیم الامت مفسر شہیر علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ) (محمد عمران علی حیدری) : 4📘 6045 - ابن عمر، رفعه: ((لن تجتمع أمتى على ضلالة، فعليكم بالجماعة فإن يد الله على الجماعة)). للكبير (1). : (1)الطبراني جلد12 صفحہ 447 (13623)، وقال الهيثمي 5/ 218: رواه الطبراني بإسنادين رجال أحدهما ثقات رجال الصحيح خلا مرزوق مول طلحة وهو ثقة (محمد عمران علی حیدری) ✍️اگر حدیث کو دیکھیں تو اس میں جماعت کے لفظ استعمال ہوا ہے۔ ✍️جبکہ اس سے مراد بھی بڑا گروہ جماعت بھی ایک گروہ کی شکل ہوتی ہے اب آپ بیشک اس کو سواد الاعظم بھی بول سکتے ہیں۔ ✍️اچھا اس حدیث میں دیکھیں تو پتہ چلتا جماعت(سواد الاعظم) پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ اور جس پر اللہ کا ہاتھ ہو وہ ہدایت پر ہوتی ہے۔ 📘✍️اور جماعت اس میں لکھا ہے کہ لن تجتمع امتی علی ضلالۃ یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہی ہوگی اور پھر فرمایا جماعت کے ساتھ ہو جاو اور پھر فرمایا کہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔✍️ ✍️جس نے سواد الاعظم نہی کہنا وہ جماعت بول لے اگر جماعت نہی کہنا بڑا گروہ بول لے اگر یہ نہی بولنا تو سواد الاعظم بول لیں۔✍️۔ امید کرتا ہوں سمجھ لگ گئی ہوگی۔ اس پر مزید دلائل دیے جا سکتے ہیں لیکن وقت کی قلت اور حق شناس کے لیے اتنا کافی ہے۔ اعتراض وہابیہ بعض احادیث میں آیا کہ حق والوں کی تعداد کم ہوجاۓ گی۔ الجواب اس مراد ہ نہی کہ ہمیشہ کے لیے کم رہے گی جناب بلکہ کچھ عرصہ کے لیے کم ہو سکتی جیسا آپ جانتے ہیں جب عیسیؑ بطور امتی بن کر آئیں گے تو سب ان کے ساتھ ہوجائیں گے اور وہ حق پر ہی ہوں گے۔ اور دوسری بات تعداد ہماری اہل سنت کی کم ہوگی تو پوری بھی ہوجاۓ گی۔ جیسا کہ تم لوگ ان کو بھولے بھالے سنیوں کو ورغلہ کے لے جاتے ہو جب ان کو سمجھ لگتی ہے تو وہ لوگ اکثر سنی ہوجاتے ہیں۔ اور آپ لوگوں کے بڑے علماء سنی ہوتے ہیں اور ہمارے اکثر جاہل کم علم وہابی ہوتے ہیں۔ جہالت ایک جگہ اور اہل علم الگ تو ہونے ہیں نہ۔ ورنہ بعدوار کی پیدا تو آپ لوگ ہیں وہابیہ جی کوئی بنا 1860. میں تو کوئی۔1886. میں کسی نے لیا انگریز سے نام بھیک مانگ کے تو کسی نے ہندوں کے تلوے چاٹ کے جو کہ آج بھی اپنے مدرسہ میں ہندوؤں کو بلوانے سے نہی رکتے۔اپنی کم عقلی کم سمجھی اپنے پاس رکھو۔ (طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) 22.08.2021. 13محرم الحرام 1443
  21. !وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ قبلہ ۔۔۔۔الحَمْد للهْ آپ کیسے ہیں؟ ۔ بہت اچھی ویٹ سائٹ ہے اسلامی محفل۔اللہ جزاء خیر سے نوازے آمین ماشاءالله
  22. ⛲ امت شرک نہی کرے گی⛲ ✍️نبی علیہ السلام نے قسم کھا کے فرمایا کہ تم میرے بعد شرک نہی کرو گے۔✍️ ✍️شرک والوں کے درمیان تم لوگ اس طرح ہوگے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا سرخ جسم پر سیاہ بال✍️ یا اللہ عزوجل یارسول اللہ صلو علیہ وآلہ واصحابہ وسلم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ وعلی الک واصحبک یامحمد الرسول اللہ۔ 📚 1 : حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث4085) ھذا حدیث صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے (ملکیت ہے تو فرمایا اپنے )حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 2 : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ , أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ , أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ حَيْوَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , قَالَ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِي سِنِينَ كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ , ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ : إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فَرَطٌ , وَأَنَا عَلَيْكُمْ شَهِيدٌ , وَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْحَوْضُ وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَيْهِ مِنْ مَقَامِي هَذَا , وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوهَا , قَالَ : فَكَانَتْ آخِرَ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحیح بخاری جلد2حدیث 4042.) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد یعنی آٹھویں برس میں غزوہ احد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا کی۔ جیسے آپ زندوں اور مردوں سب سے رخصت ہو رہے ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”میں تم سے آگے آگے ہوں، میں تم پر گواہ رہوں گا اور مجھ سے ( قیامت کے دن ) تمہاری ملاقات حوض ( کوثر ) پر ہو گی۔ اس وقت بھی میں اپنی اس جگہ سے حوض ( کوثر ) کو دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے بارے میں مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے، ہاں میں تمہارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو۔“ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آخری دیدار تھا جو مجھ کو نصیب ہوا۔ (محمد عمران علی حیدری) 📙 3: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ: إِنِّي فَرَطُكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ إِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ خَزَائِنَ مَفَاتِيحِ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ بَعْدِي أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث3596) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں ( حوض کوثر پر ) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔ (محمد عمران علی حیدری) 📗 4: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث1344) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📖 5 : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا ، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطُكُمْ ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6426) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی جس طرح مردہ پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا آخرت میں میں تم سے آگے جاؤں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا، واللہ میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( فرمایا کہ ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے۔ 📘 6: حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا وهيب ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى ثَلَاثِ طَرَائِقَ رَاغِبِينَ رَاهِبِينَ ، وَاثْنَانِ عَلَى بَعِيرٍ ، وَثَلَاثَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَأَرْبَعَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَعَشَرَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَيَحْشُرُ بَقِيَّتَهُمُ النَّارُ ، تَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا ، وَتَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا ، وَتُصْبِحُ مَعَهُمْ حَيْثُ أَصْبَحُوا ، وَتُمْسِي مَعَهُمْ حَيْثُ أَمْسَوْا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6522) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا ( ایک فرقہ والے ) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 7: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَذَلِكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6528) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ ( امت مسلمہ ) اہل جنت کا حصہ ہو گے اور ایسا اس لیے ہو گا کہ جنت میں فرمانبردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہو گا اور *تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔* (محمد عمران علی حیدری) 📕 8: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ، أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. 6590صحیح بخاری جلد3 حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور شہداء احد کے لیے اس طرح دعا کی جس طرح میت کے لیے جنازہ میں دعا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”لوگو! میں تم سے آگے جاؤں گا اور تم پر گواہ رہوں گا اور میں واللہ اپنے حوض کی طرف اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️نبی علیہ السلام نے امت کو شرک سے اتنا ڈرایا کہ اب یہ امید ہی نہیں کی جا سکتی کہ امت شرک کرے۔ ✍️کیوں شرک کی ممانعت قرآن و حدیث میں بہت آئی ہے اس لیے۔ ✍️یہاں تک کہ آخر میں سیدی، آقا کائنات، ذات بابرکات، نے فرمایا کہ مجھے یہ امید نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ فرمایا کہ دنیا میں راغبت کرو گے۔ ✍️قرآن کہتا ہے کہ: 📖 :وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ ترجمہ: وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ النجم۔(03،) ✍️لہذا جن احادیث میں شرک کی وعید ہے وہ ان احادیث سے پہلے کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اتنا ڈرایا کہ آخر فرمایا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے۔ ✍️اگر سیدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نہ فرماتے ہیں میرے بعد شرک نہیں کرو گے تو پھر امت شرک کرتی۔ ✍️لہذا جن آیات احادیث میں شرک کی ممانعت ہے ان سے واضح طو پر شرک جلی مراد ہے جو کہ امت کبھی نہ کرے گی نہ اس پر جمع ہوگی مگر کفار۔ ✍️شرک خفی ریاکاری ہے اس کا شکار گناہ میں ہوتا ہے جو جلی ہے اس سے مراد ذات واحدہ لاشریک کے ساتھ دوسرا الہ یا خدا ماننا ہے اور یہ امت کبھی نہیں کرے گی۔ ✍️امت اجابت شرک نہیں کرے گی کبھی بھی یہ صحیح احادیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ ✍️باقی شرک ڈرایا بہت گیا ہے اور ایسا کہیں بھی نہیں کہا کے میرے بعد تم لوگ شرک کرو گے بلکہ کہا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے بلکہ دنیا کی حرص میں پڑ جاو گے۔ ✍️اور کچھ خارجی مخلوق کفار اور بتوں کے بارے نازل شدہ آیات مسلمانوں پر چسپا کرتے ہیں پریشان نہ ہوں ایسے لوگوں کو خارجی کہا جاتا ان کی یہی پہچان ہے۔ ✍️ شرک کا فتوئ لگانے والے پر واپس لوٹتا ہے ہے یہ حدیث بھی پڑھ لیں۔ 📚 :37308- عن حذيفة قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إن مما أتخوف عليكم رجلا قرأ القرآن حتى إذا رؤيت بهجته وكان ردء الإسلام أعره إلى ما شاء الله انسلخ منه، ونبذه وراء ظهره، وخرج على جاره بالسيف، ورماه بالشرك، قلت: يا رسول الله أيهما أولى بالشرك المرمى أو الرامى قال: لا بل الرامى۔ (أبو نعيم) [كنز العمال 8985] أخرجه أيضًا: ابن حبان (1/281، رقم81) ،والبزار(7/220، رقم 2793) ترجمہ: سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:. یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔ یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا. ( محمد عمران علی حیدری) : الحدیث 📖: الخوارج کلاب النار۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں۔ _____✍️ نوٹ ✍️____ _____✍️ NOTE✍️____ ✍️ خارجیت کی پہچان✍️ 📓 :وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، وَقَالَ: «إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ» ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا. : تخریج .وسند صحیح 1 صحيح بخاري ، كتاب استتابة) المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل (الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم،) 2:(الاعتصام کتاب النغی۔باب قتال الخوارج) 3:(:اسباب الخطا فی التفسیر ص975) لہذا اب کسی تاویل کی کنجائش باقی نہیں رہی سنی دوستوں اب آپ اس سے واضح طور پر سمجھ چکے ہیں۔ (ازقلم وطالب دعا: محمد عمران علی حیدری.) 26 صفر المظفر 1443ھ۔ 04.10.2021.
  23. Sunni Haideri

    امت شرک نہیں کرے گی

    ⛲ امت شرک نہی کرے گی⛲ ✍️نبی علیہ السلام نے قسم کھا کے فرمایا کہ تم میرے بعد شرک نہی کرو گے۔✍️ ✍️شرک والوں کے درمیان تم لوگ اس طرح ہوگے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا سرخ جسم پر سیاہ بال✍️ یا اللہ عزوجل یارسول اللہ صلو علیہ وآلہ واصحابہ وسلم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ وعلی الک واصحبک یامحمد الرسول اللہ۔ 📚 1 : حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث4085) ھذا حدیث صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے (ملکیت ہے تو فرمایا اپنے )حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 2 : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ , أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ , أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ حَيْوَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , قَالَ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِي سِنِينَ كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ , ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ : إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فَرَطٌ , وَأَنَا عَلَيْكُمْ شَهِيدٌ , وَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْحَوْضُ وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَيْهِ مِنْ مَقَامِي هَذَا , وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوهَا , قَالَ : فَكَانَتْ آخِرَ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحیح بخاری جلد2حدیث 4042.) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد یعنی آٹھویں برس میں غزوہ احد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا کی۔ جیسے آپ زندوں اور مردوں سب سے رخصت ہو رہے ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”میں تم سے آگے آگے ہوں، میں تم پر گواہ رہوں گا اور مجھ سے ( قیامت کے دن ) تمہاری ملاقات حوض ( کوثر ) پر ہو گی۔ اس وقت بھی میں اپنی اس جگہ سے حوض ( کوثر ) کو دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے بارے میں مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے، ہاں میں تمہارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو۔“ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آخری دیدار تھا جو مجھ کو نصیب ہوا۔ (محمد عمران علی حیدری) 📙 3: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ: إِنِّي فَرَطُكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ إِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ خَزَائِنَ مَفَاتِيحِ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ بَعْدِي أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث3596) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں ( حوض کوثر پر ) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔ (محمد عمران علی حیدری) 📗 4: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث1344) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📖 5 : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا ، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطُكُمْ ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6426) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی جس طرح مردہ پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا آخرت میں میں تم سے آگے جاؤں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا، واللہ میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( فرمایا کہ ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے۔ 📘 6: حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا وهيب ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى ثَلَاثِ طَرَائِقَ رَاغِبِينَ رَاهِبِينَ ، وَاثْنَانِ عَلَى بَعِيرٍ ، وَثَلَاثَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَأَرْبَعَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَعَشَرَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَيَحْشُرُ بَقِيَّتَهُمُ النَّارُ ، تَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا ، وَتَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا ، وَتُصْبِحُ مَعَهُمْ حَيْثُ أَصْبَحُوا ، وَتُمْسِي مَعَهُمْ حَيْثُ أَمْسَوْا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6522) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا ( ایک فرقہ والے ) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 7: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَذَلِكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6528) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ ( امت مسلمہ ) اہل جنت کا حصہ ہو گے اور ایسا اس لیے ہو گا کہ جنت میں فرمانبردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہو گا اور *تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔* (محمد عمران علی حیدری) 📕 8: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ، أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. 6590صحیح بخاری جلد3 حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور شہداء احد کے لیے اس طرح دعا کی جس طرح میت کے لیے جنازہ میں دعا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”لوگو! میں تم سے آگے جاؤں گا اور تم پر گواہ رہوں گا اور میں واللہ اپنے حوض کی طرف اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️نبی علیہ السلام نے امت کو شرک سے اتنا ڈرایا کہ اب یہ امید ہی نہیں کی جا سکتی کہ امت شرک کرے۔ ✍️کیوں شرک کی ممانعت قرآن و حدیث میں بہت آئی ہے اس لیے۔ ✍️یہاں تک کہ آخر میں سیدی، آقا کائنات، ذات بابرکات، نے فرمایا کہ مجھے یہ امید نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ فرمایا کہ دنیا میں راغبت کرو گے۔ ✍️قرآن کہتا ہے کہ: 📖 :وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ ترجمہ: وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ النجم۔(03،) ✍️لہذا جن احادیث میں شرک کی وعید ہے وہ ان احادیث سے پہلے کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اتنا ڈرایا کہ آخر فرمایا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے۔ ✍️اگر سیدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نہ فرماتے ہیں میرے بعد شرک نہیں کرو گے تو پھر امت شرک کرتی۔ ✍️لہذا جن آیات احادیث میں شرک کی ممانعت ہے ان سے واضح طو پر شرک جلی مراد ہے جو کہ امت کبھی نہ کرے گی نہ اس پر جمع ہوگی مگر کفار۔ ✍️شرک خفی ریاکاری ہے اس کا شکار گناہ میں ہوتا ہے جو جلی ہے اس سے مراد ذات واحدہ لاشریک کے ساتھ دوسرا الہ یا خدا ماننا ہے اور یہ امت کبھی نہیں کرے گی۔ ✍️امت اجابت شرک نہیں کرے گی کبھی بھی یہ صحیح احادیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ ✍️باقی شرک ڈرایا بہت گیا ہے اور ایسا کہیں بھی نہیں کہا کے میرے بعد تم لوگ شرک کرو گے بلکہ کہا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے بلکہ دنیا کی حرص میں پڑ جاو گے۔ ✍️اور کچھ خارجی مخلوق کفار اور بتوں کے بارے نازل شدہ آیات مسلمانوں پر چسپا کرتے ہیں پریشان نہ ہوں ایسے لوگوں کو خارجی کہا جاتا ان کی یہی پہچان ہے۔ ✍️ شرک کا فتوئ لگانے والے پر واپس لوٹتا ہے ہے یہ حدیث بھی پڑھ لیں۔ 📚 :37308- عن حذيفة قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إن مما أتخوف عليكم رجلا قرأ القرآن حتى إذا رؤيت بهجته وكان ردء الإسلام أعره إلى ما شاء الله انسلخ منه، ونبذه وراء ظهره، وخرج على جاره بالسيف، ورماه بالشرك، قلت: يا رسول الله أيهما أولى بالشرك المرمى أو الرامى قال: لا بل الرامى۔ (أبو نعيم) [كنز العمال 8985] أخرجه أيضًا: ابن حبان (1/281، رقم81) ،والبزار(7/220، رقم 2793) ترجمہ: سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:. یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔ یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا. ( محمد عمران علی حیدری) : الحدیث 📖: الخوارج کلاب النار۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں۔ _____✍️ نوٹ ✍️____ _____✍️ NOTE✍️____ ✍️ خارجیت کی پہچان✍️ 📓 :وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، وَقَالَ: «إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ» ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا. : تخریج .وسند صحیح 1 صحيح بخاري ، كتاب استتابة) :( المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل (الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم،) 2:(الاعتصام کتاب النغی۔باب قتال الخوارج) 3:(:اسباب الخطا فی التفسیر ص975) لہذا اب کسی تاویل کی کنجائش باقی نہیں رہی سنی دوستوں اب آپ اس سے واضح طور پر سمجھ چکے ہیں۔ (ازقلم وطالب دعا: محمد عمران علی حیدری.) 26 صفر المظفر 1443ھ۔ 04.10.2021.
  24. بد مذھبوں اور بے دینوں کے متعلق احکام ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ محترم قارئینِ کرام : سب سے پہلے یہ ذھن میں رکھ لیں ہم گستاخانہ عبارات کے اصل اسکن ساتھ دے رہیں ایک بار مکمل غور سے پڑھیں پھر اپنے ایمان اور ضمیر سے فیصلہ کریں بغیر پڑھے جاہلانہ کمنٹس سے گریز کریں شکریہ ۔ ہر سنی مسلمان کو مطلع کیا جاتا ہے کہ دیوبندی مذہب کے بانی مولوی قاسم نانوتوی صاحب نے اپنی کتاب تحذیرالناس میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا انکار کیا اور پیشوائے وہابیہ مولوی رشید احمد گنگوہی و مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے براہین قاطعہ میں سرکار مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علم مقدس کو شیطان ملعون کے علم سے کم قرار دیا۔ اور مبلغ وہابیہ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب حفظ الایمان میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب کو ہر خاص و عام انسان بچوں پاگلوں اور جانوروں کے علم غیب کی طرح بتایا۔ چوکہ یہ باتیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آخری نبی نہ ماننا یا حضور کے علم کو شیطان کے علم سے کم بتانا یا حضور کے علم غیب کو بچوں، پاگلوں اور جانوروں کے علم غیب کی طرح قرار دینا تمام مسلمانوں نانوتوی، مولوی گنگوہی، مولوی انبیٹھوی اور مولوی تھانوی بحکم شریعت اسلامیہ کافر و مرتد ہوگئے ۔ فتاوٰی حسام الحرمین میں ہے وبالجملۃ ھولاء الطوائف کلھم کفار مرتدون خارجون عن الاسلام باجماع المسلمین وقد قال فی البزازیہ والدر والغرر والفتاوی الخیریہ ومجمع الانھر والدر المختار وغیرھا من معتمدات الاسفار فی مثل ھولاء الکفار من شک فی کفرہ و عذاب فقد کفر۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ طائفے (یعنی مرزا غلام قادیانی، قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، خلیل احمد، اشرف علی تھانوی اور اس کے ہم عقیدے چیلے) سب کے سب کافر و مرتد ہیں۔ باجماع امت اسلام سے خارج ہیں۔ اور بے شک بزازیہ، درغرر، فتاوٰی خیویہ، مجمع الانہار اور درمختار وغیرہ معتمد کتابوں میں ایسے کافروں کے حق میں فرمایا کہ جو شخص ان کے عقائد کفریہ پر آگاہ ہو کر ان کے کفر و عذاب میں شک کرے تو خود کافر ہے۔ مکہ شریف کے عالم جلیل حضرت مولانا سید اسماعیل علیہ الرحمۃ الرضوان اپنے فتاوٰی میں تحیر فرماتے ہیں۔امابعد ناقول ان ھولاء الفرق الواقصیں فی السوال غلام احمد قادیانی و رشید احمد ومن تبعہ کخلیل انبیٹھی واشرف علی وغیرھم لا شبھۃ فی کفرھم بلا مجال بل لا شبھۃ فیمن شک بل فیمن توقف فی کفرھم بحال من الاحوال۔ میں حمد و صلوٰۃ کے بعد کہتا ہوں کہ یہ طائفے جن کا تذکرہ سوال میں واقع غلام احمد قادیانی، رشید احمد گنگوہی اور جو اس کے پیرو ہیں جیسے خلیل احمد اشرف علی وغیرہ ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں، نہ شک کی مجال بلکہ جو ان کے کفر میں شک کرے بلکہ کسی طرح کسی حال میں انہیں کافر کہنے میں توقف کرے اس کے کفر میں بھی شبہ نہیں ۔“ (حسام الحرمین) غیر منقسم ہندوستان کے علمائے کرام اسلام کے فتاوٰی کا مجموعہ الصوارم الھندیہ میں ہے ان لوگوں (یعنی قادیانیوں، وہابیوں، دیوبندیوں) کے پیچھے نماز پڑھنے، ان کی جنازہ کی نماز پڑھنے، ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنے، ان کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا کھانے ان کے پاس بیٹھے ان سے بات چیت کرنے اور تمام معاملات میں ان کا حکم بعینہ وہی ہے جو مرتد کا ہے۔ یعنی یہ تمام باتیں سخت حرام اشد گناہ ہیں ۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ وما ینسینک الشیطٰن فلا تقعد بعد الذکرٰی مع القوم الظٰلمین ۔ “اور اگر تجھے شیطان بھولا دے تو یاد آ جائے پر بدمذہبوں کے ساتھ نہ بیٹھ۔“ خود سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : وان مرضوا فلا تعودھم وان ماتوا فلا تشھدوم وان لقیتم فلا تسلموا علیھم ولا تجالسوھم ولا تشاربوھم ولا تواکلوھم ولا تناکحوھم ولا تصلوا علیھم ولا تصلوا علیھم (رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ و ابوداؤد عن ابی عمر وابن ماجۃ عن جابر والعقیلی وابن حبان عن انس رضی اللہ تعالٰی عنھم،چشتی) ترجمہ: اگر بدمذہب بد دین بیمار پڑیں تو ان کو پوچھنے نہ جاؤ اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازہ پر حاضر نہ ہو۔ اور ان کا سامنا ہو تو سلام نہ کرو۔ ان کے پاس نہ بیٹھو، ان کے ساتھ نہ پیو، ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ۔ ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھو، ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو۔ پھر چونکہ قادیانی، وہابی، دیوبندی، غیرمقلد، ندوی، مودودی تبلیغی یہ سب کے سب حکم شریعت اسلامیہ گمراہ، بد عقیدہ بد دین، بد مذہب ہیں اس لئے حدیث و فقہ کے ارشاد کے مطابق اس شرعی دینی مسئلہ سے سب کو آگاہ کر دیا جاتا ہے کہ قادیانیوں، غیر مقلدوں، وہابیوں، دیوبندیوں، مودودیوں و غیرہ بدمذہبوں کے پیچھے نماز پڑھنا سخت حرام ہے۔ ان سے شادی بیاہ کا رشتہ قائم کرنا اشد حرام ہے۔ ان کے ساتھ نماز پڑھنا سخت گناہ کبیرہ ہے۔ ان سے اسلامی تعلقات قائم کرنا اپنے دین کو ہلاک اور ایمان کو برباد کرنا ہے جو ان باتوں کو مان کر ان پر عمل کرے گا اس کے لئے نور ہے اور جو نہیں مانے گا اس کے لئے نار ہے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی ۔ جھوٹے مکار، دغاباز بدمذہب، بد دین خدا اور رسول کی شان میں توہین کرنے والے مرتدین براہ مکرو فریب اتحاد و اتفاق کا جھوٹا منافقانہ نعرہ بہت لگاتے ہیں اور بہت زور سے لگاتے ہیں۔ اور جو متصلب مسلمان اپنے دین و ایمان کو بچانے کیلئے ان سے الگ رہے۔ ان کے سر اختلاف و افتراق کا الزام تھوپتے ہیں جو مخلص مسلمان شرع کے روکنے کی وجہ سے ان بد مذہبوں کے پیچھے نماز نہ پڑھے۔ اس کو فسادی اور جھگڑالو بتاتے ہیں جو صحیح العقیدہ مسلمان فتاوی حسام الحرمین کے مطابق سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو کافر و مرتد کہے اس کو گالی بکنے والا قرار دیتے ہیں ایسے تمام صلح کلی منافقوں سے میرا مطالبہ ہے کہ اگر واقعی تم لوگ سنی مسلمانوں سے اتحاد و اتفاق چاہتے ہو تو سب سے پہلے بارگاہ الٰہی میں اپنے عقائد کفریہ و خیالات باطلہ سے سچی توبہ کر ڈالو۔ خدا اور رسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے سے باز آ جاؤ اور گستاخی کرنے والوں کی طرفداری کی حمایت سے الگ ہو جاؤ اور سچا سنی مذہب قبول کرلو اور اگر ایسا کرلو تو ہمارے تمہارے درمیان بالکل اتحاد و اتفاق ہو جائے گا۔ اور اگر خدانخواستہ تم اپنے اعتقادات کفریہ سے توبہ کرنے پر تیار نہیں۔ تم گستاخی کرنے اور لکھنے والے مولویوں سے رشتہ ختم نہیں کر سکتے، سنی مذہب قبول کرنا تمہیں گوارا نہیں تو ہم قرآن و حدیث کی تعلیمات حقہ کو چھوڑ کر بد دینوں، بد مذہبوں سے اتحاد نہیں کر سکتے رہا متصب سنی مسلمان کو جھگڑالو، فسادی گالی بکنے والا کہنا تو یہ پرانی دھاندلی اور زیادتی ہے۔ گالی تو وہ بک رہا ہے جس نے تقویۃ الایمان لکھی جس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو بڑا بھائی بنایا۔ جس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے انبیاء کرام کو بارگاہ الٰہی میں ذرہ ناچیز سے بھی کم تر اور چمار سے بھی زیادہ ذلیل کہا، گالی تو وہ بک رہا ہے جس نے حفظ الایمان میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب کو پاگلوں اور جانوروں، چوپایوں کے علم غیب کی طرح ٹھہرایا بدزبانی تو وہ کر رہا ہے جس نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علم مقدس کو شیطان کے علم سے کم قرار دیا۔ اصل جھگڑالو تو وہ ہے جس نے تحذیرالناس میں مسئلہ ختم نبوت کا انکار کیا اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی ماننا عوام جاہلوں کا خیال بتایا۔ واقعی فسادی تو وہ ہے جس نے براہین قاطعہ میں اللہ تعالٰی کے متعلق جھوٹ بول سکنے کا نیا عقیدہ گڑھا اور جس نے اردو زبان میں سرکار رسالت علیہ السلام کو علماء دیوبند کا شاگرد بتایا ۔ سنی مسلمان نہ جھگڑالو اور فسادی ہے نہ گالی بکنے والا وہ تو شریعت اسلامیہ کے حکم کے مطابق ان گستاخ مولویوں کو کافر و مرتد کہتا ہے جو بارگاہ احدیت اور سرکار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی کرنے اور ضروریات دین کے منکر ہیں عقائد ضروریہ دینیہ کی مخالفت کرنے والوں کو کافر و مرتد کہنا ان کے حق میں منافق کا لفظ استعمال کرنا ہرگز ہرگز گالی نہیں ہے۔ خود اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کافر، کفار، مشرکین، منافقین وغیرہ کلمات مخالفین اسلام کے حق میں ارشاد فرمائے تو کیا کوئی بد نصیب یہ کہنے کی جراءت کو سکتا ہے کہ قرآن عظیم نے گالی دی ہے۔ معاذاللہ تعالٰی منہ ۔ مسلمانو گستاخوں سے آپ کو نہ حجت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ان کا زق زق بق بق سننے کی حاجت ہے ۔ آپ ان سے گالی گلوچ اور جھگڑا نہ کرو ، بس آپ ان کی صحبت سے دور رہو۔ اپنے سے ان کو دور رکھو ۔ تمہارے آقائے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں یہی تعلیم دی ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ایاکم ویاھم لایضلونکم ولا یفتونکم ۔ (مسلم شریف) یعنی مسلمانو ! تم بدمذہبوں کی صحبت سے بچو۔ اپنے کو ان سے دور رکھو نہیں تو وہ تمہیں سچے راستے سے بہکا دیں گے اور تمہیں بے دین بنا دیں گے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں اور تمہیں سچی ہدایت پر قائم رکھے آمین ۔ ایسا بدمذھب گستاخ جس کی گستاخی حد کفر کو پہنچ چکی ہو ،یا ضروریات دین کا منکر ہو وہ کافر ہے ، اورایسا بد مذھب کہ کفریہ عقائد خود نہیں رکھتا مگر ایسے کفریہ و گستاخانہ عقائد والوں کو اپنا امام یا پیشوا بتاتا ہے یا انہیں مسلمان گردانتا ہے تو وہ بھی یقینا اجماعا کافر ہے، کیونکہ جس طرح ضروریات دین کا انکار کفر ہے اسی طرح ان کے منکر کو کافر نہ جاننابھی کفر ہے ،وجیز امام کردری و در مختار و شفائے امام قاضی عیاض و غیرہ میں ہے ۔ اللفظ للشفاء مختصرا اجمع العلماء ان من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر ۔ ’’شفاء کے الفاظ اختصارا یہ ہیں ،علماء کا اجماع ہے کہ جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ کافر ہے ۔ (کتاب الشفاء ،القسم الرابع ،البا ب ا لاول،۲/۲۰۸،مطبوعہ،دار سعادت،بیروت، در مختار ،کتاب الجھاد،باب المرتد،۱/۳۵۶،مطبوعہ ،مجتبائی،دھلی، فتاوی رضویہ اا/۳۷۸ مطبوعہ لاھور،چشتی) ایسے بدمذھبو گستاخوں سے دوستی ، محبت ، میل جول ، ان کے یہاں جانا ، انہیں اپنے یہاں بلانا ،اھل سنت کی مسجد میں آنے دینا ،درس و تبلیغ کی اجازت دینا ،ان کے ساتھ صحبت رکھنا ،ان کی طرف جھکاؤ اور مائل ہونا ،الغرض ہر وہ کام جس سے بدمذھبوں سے انسیت و تعلق و وابستگی یا میلان کا اظہار ہو بدمذھبی و سخت حرام ،اور شادی بیاہ کرنا ناجائز ،نکاح باطل محض و زناء کما صرح بہ الامام المجدد البریلوی فی ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النار،قرآن کریم کی نصوص صریحہ و احادیث شریفہ سے ان تمام کی ممانعت ثابت اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :{و لاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار }( ھود۱۱/۱۱۳)’اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی ‘‘ (کنز الایمان )اس آیت کی تفسیر میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’یہاں ظالم سے مراد کافر اور سارے گمراہ و مرتدین ہیں اور ان سے ملنے سے مراد ان سے محبت یا میل جول رکھنا ‘‘(تفسیر نور العرفان) نیزاللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :{ و اما ینسینک الشیطان فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین }(الانعام ۶/۶۸) ۔ اور اگر شیطان تجھے بھلا دے تو یاد آنے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھو ‘‘(کنز الایمان ) نیزاللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :ومن یتولھم منکم فانہ منھم }( المائدۃ ۵/۵۱ ) ’’اورتم میں جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انھیں میں سے ہے‘‘(کنز الایمان ) اور بد مذھبوں کی نسبت حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:و لا تجالسوھم و لا تواکلو ھم و لا تشاربوھم و لا تناکحوھم و لا تخالطوھم ولا تعودوا مرضاھم و لا تصلوا معھم و لا تصلوا علیھم ۔ ’’ اور ان کے ساتھ نہ بیٹھو، ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ اور پانی نہ پیو اور بیاہ شادی نہ کرو، اور میل جول نہ کرو،اور ان کے بیماروں کی عیادت نہ کرو ، اور ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو ، اور مرجائیں تو ان کا جنازہ نہ پڑھو ‘‘ ۔ (صحیح ابن حبان،۱/۲۷۷،سنن البیھقی الکبری،۱۰/۲۰۵،السنۃ لعبد اللہ بن احمد،۱/۱۲۶،اعتقاد اھل السنۃ،۱/۱۳۴،مسند الربیع،۱/۳۰۲،السنۃ لابن ابی عاصم،۱/۱۴۴،الجرح و التعدیل،۷/۵۲،میزان الاعتدال، ۲/۳۱،لسان المیزان، ۲/۵۲،المجروحین،۱/۱۸۷،تھذیب الکمال،۶/۴۹۹، العلل المتناھیۃ، ۱/۱۶۸،تغلیق التعلیق،۵/۱۲۵،الجامع لاخلاق الراوی و السامع،۲/۱۱۸،المغنی،۹/۱۱ الضعفاء للعقیلی ۱/۱۲۶ دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۰۴ھـ ،تاریخ بغداد ۸/۱۴۳، الکفایۃ فی علم الروایۃ ۱/۴۸ ،المکتبۃ العلمیۃ، المدینۃ المنورۃ،خلق افعال العباد۱/۳۰،دار المعارف السعودیۃ،الریاض،۱۳۹۸ھـ،چشتی) نیز حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ۔ گمراہوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو ، کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیںفتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم،۱/۱۲،دار احیاء التراث العربی،بیروت) نیز حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اصحاب البدع کلاب اھل النار ۔ بد مذھبی والے جہنمیوں کے کتے ہیں ۔ (التدوین فی اخبار قزوین ۲/۴۵۸، مطبوعہ،دار الکتب العلمیۃ،بیروت ،۱۹۸۷ء ، فیض القدیر ، ۱/۵۲۸ المکتبۃ التجاریۃ الکبری،مصر، ۱۳۵۶ھ رقم الحدیث ۱۰۸۰،کنز العمال ،رقم الحدیث ۱۰۹۴،) اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بد مذھب سے شادی کرنے کے بارے میں فرمایا:ایحب احدکم ان تکون کریمتہ فراش کلب فکرھتموہ ۔ ’’کیا تم میں کسی کو پسند آتا ہے کہ اس کی بیٹی یا بہن کسی کتے کے نیچے بچھے !تم اسے بہت برا جانو گے‘‘(سنن ابن ماجہ ،ابواب النکاح ص،۱۳۹،مسند احمد ۱/۸۶ دار الفکر بیروت، لبنان،چشتی) یعنی بد مذھب جہنمیوں کے کتے ہیں اور انہیں بیٹی یا بہن دینا ایسا ہے جیسے کتے کے تصرف میں دیا،بہر حال ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بد مذھب سے میل جول ،ان کے یہاں جانا ،انہیں بلانا ،اھل سنت و جماعت کی مسجد میں درس و تبلیغ کی اجازت دینا،شادی کرنا جائز نہیں ہے نیز وہ وھابی ، دیوبندی لوگ جن کی گمراہی و بد مذھبی حد کفر کو پہنچ چکی ہے ان کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ،نیز ایسا شخص جو خود تو کفریہ عقائد نہیں رکھتا مگر جن لوگوں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی ہیں انہیں مسلمان جانتا ہے وہ بھی یقینا اجماعا کافر ہے، جیسے رئیس الوھابیہ،اسماعیل دھلوی (م۱۲۴۶ھ) نے لکھا معاذ اللہ کہ:اور یہ یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے ‘‘(تقویۃ الایمان ، ص /۲۳ مطبوعہ دھلی ، ۱۳۵۶؁ھ ۱۹۴۷؁ء ، مطبوعہ ،مطبع علیمی اندرون لوھاری دروازہ، لاھور) ’’یقین مانو کہ ہر شخص خواہ وہ بڑے سے بڑا انسان ہو یا مقرب ترین فرشتہ اس کی حیثیت شان الوھیت کے مقابلہ پر ایک چمار کی حیثیت سے بھی زیادہ ذلیل ہے ‘‘(تقویۃ الایمان ،ص۲۲،مطبوعہ ،دار الاشاعت ،اردو بازار ،کراچی) دیوبند کے حجۃ الاسلام،بانیٔ مدرسۂ دیوبند ، محمد قاسم نانوتوی (م۱۲۹۷ھ)نے لکھا معاذاللہ کہ:اگر بالفرض بعد زمانۂ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی ﷺ میں کچھ فرق نہ آئے گا ‘‘ ۔ (تحذیر الناس ،ص۲۴،مطبوعہ،کتب خانہ امدادیہ ، دیوبند ،چشتی) دیوبند کے قطب عالم،رشید احمد گنگوہی (م۱۳۲۳ھ) نے لکھامعاذاللہ کہ:’’کذب داخل تحت قدرت باری تعالی ہے‘‘(فتاوی رشیدیہ،مبوب بطرز جدید،کتاب العقائدص/۲۳۷،مطبوعہ،دار اشاعت،کراچی) ۔ اس عبارت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی( معاذ اللہ نقل کفر کفر نباشد) جھوٹ بولنے پر قادر ہے ۔ دیوبند کے محدث،خلیل احمد انبیٹھوی (۱۳۴۶ھ) نے لکھا معاذاللہ کہ : الحاصل غور کرنا چاہیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کونسا ایمان کا حصہ ہے ،شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی ،فخر عالم کی وسعت علم کی کونسی نص قطعی ہے ، کہ جس سے تمام نصوص کو رد کرکے ایک شرک ثابت کرتا ہے ‘‘(براھین قاطعہ،ص/۵۵،مطبوعہ،دار الاشاعت،کراچی) دیوبند کے حکیم الامت،اشرفعلی تھانوی (م۱۳۶۳ھ) نے لکھا معاذاللہ کہ : پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانااگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل ،اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور ہی کی کیا تخصیص ہے، ایسا علم غیب تو زید و عمرو بلکہ ہر صبی(بچہ)و مجنون (پاگل)بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے(حفظ الایمان،ص/۱۳، مطبوعہ،قدیمی کتب خانہ،کراچی) ان مذکورہ بالا نام نہاد گستاخ علمائے (سو) دیوبند اپنی گستاخانہ عبارات کی روشنی میں دائرئہ اسلام سے خارج ہیں اور ایسے کافر ہیں کہ جو انہیں کافر نہ مانے ، یا ان کے کفر و عذاب میں شک کرے کافر ہے (کما مر فیما سبق) تفصیل،امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی تصانیف حسام الحرمین و تمہید ایمان و غیرھما میں ملاحظہ فرمائیں، اور عقائد اھل سنت و جماعت کی معلومات و دلائل کے لیے حکیم الامت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ کی کتاب مستطاب جاء الحق کا مطالعہ فرمائیں۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
  25. اصلی اہل حدیث اور جعلی اہل حدیث ⛲ بسم اللہ الرحمن الرحیم ⛲ یا اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ یارسول ﷺ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ _________________________ : ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہی 1: "وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْحَدِيثِ فِي هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ وَقَالَ بَعْضُهُمْ حَدِيثُ حُصَيْنٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو ابْنِ مُرَّةَ"۔ (ترمذی، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الصَّلَاةِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ،حدیث نمبر:۲۱۳،) ترجمہ:اہلحدیث کا اس میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں عمروبن مرہ کی روایت زیادہ صحیح اور بعض کہتے ہیں حصین کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) اس سے ثابت ہوا امام ترمذی اہل حدیث سے مراد محدثین کو لیتے ہیں۔ نہ کہ موجودہ دور کا نام نہاد فرقہ مراد ہے بلکہ اس وقت تو اس فرقہ کا وجود ہی نہیں تھا۔ ✍️شیر کی کھال میں گیڈر آجاۓ تو وہ گیڈر ہی رہے گا شیر نہیں بن سکتا۔✍️ 2 :الانصاری المدینی کے بارے میں لکھتے ہیں: "لَيْسَ ہُوَبِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ"۔ (ترمذی:۱/۲۱) ترجمہ:وہ اہلحدیث کے ہاں قوی نہیں ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) (اب بتاو امام ترمذیؒ فرما رہے ہیں کہ وہ (راوی) اہلحدیث کے ہاں قوی نہیں آج کے نام نہاد اہلحدیث فرقہ کے اکثر عوام کو بیت الخلاء جانے کی دعا نہیں آتی وہ سند حدیث کو کیا جانیں گے میں کہتا ہوں ان کو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ سند حدیث کیا ہوتا ہے۔ وہ کسی راوی کو ضعف صدوق ثقہ کیسے جانیں گے؟ ھھھ) ✍️ایک اور راوی کے بارے میں لکھتے ہیں: 3: "تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ"۔ (ترمذی،كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ،بَاب مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث نمبر:۳۶۹۹،) ترجمہ:اس میں بعض اہلحدیث نے حفظ کی رو سے کلام کیا ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) اب بتائیں امام ترمذیؒ نے یہاں بھی لفظ اہلحدیث استعمال کیا ہے اور فرمایا کیا ہے کہ اہلحدیث(محدثین) نے اس راوی کا حفظ(حافظہ) پر کلام کیا ہے۔ پھرایک اور جگہ لکھتے ہیں: 4: "وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ"۔ (ترمذی،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ،حدیث نمبر:۱۷۳) ترجمہ:وہ اہلِ حدیث کے ہاں ضعیف ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) لو جی ایک اور راوی کے بارے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث(محدثین) کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔ امام ترمذی اہلحدیث کوکہیں کہیں اصحاب الحدیث کہہ کربھی ذکر کرتے ہیں، حدیث "لاتزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق" کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان سے مراد اصحاب الحدیث ہیں، 5: امام بخاری نے بھی تصریح کی ہےکہ اس سے مراد لعم حدیث(حدیث کا علم رکھنے والے)کے ماہراہل العلم ہیں۔ (بخاری:۲/۱۰۸۷) (محمد عمران علی حیدری) ✍️اب کیا کہیں گے نام نہاد اہلحدیث انگریزوں سے لیا ہوا نام اور بدنام کر رہے ہیں محدثین کو اللہ اپنی پناہ میں رکھے آمین۔ 6: خطیب بغدادیؒ (۴۶۲ھ) ابوعبداللہ الحاکم کے اس زعم پرکہ حدیث طیبہ اور حدیث "من کنت مولاہ" صحیحین کی شرطوں کے مطابق ہیں، جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "فانکرعلیہ اصحاب الحدیث ذلک ولم یلتفتوا الی قولہ ولاصوبوہ علی فعلہ"۔ (تاریخ بغداد۵/۴۷۴) ترجمہ:اصحاب الحدیث نے اس پرانکار کیا ہے اور اس کی بات پرتوجہ نہیں کی اور اسے اس کے عمل میں درست نہیں کہا۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️یہاں اہلحدیث کو امام صاحب اصحاب الحدیث بول رہے ہیں اب کوئی نیا بندہ اٹھے اور وہ خود ہو اصحاب الحدیث کہنا شروع کر دے تو کیا ہم یہی کہیں گے ان کا تو زکر امام ترمذیؒ نے کیا بڑی پرانی جماعت ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ اس سے مراد محدثین حدیث کا علم رکھنے والے حفاظ حدیث. 7: حافظ ابن عبدالبر مالکی (۴۶۳ھ) بھی ایک جگہ لکھتے ہیں: "وقالت فرقة من أهل الحديث: إن وطئ في الدم فعليه دينار، وإن وطئ في انقطاعه فنصف دينار ورأت فرقہ من اھل الحدیث تطویل السجود فی ذلک"۔ (تمہید:۳/۱۷۶) ترجمہ: اہل حدیث کی ایک جماعت نے کہا ہے اگراس نے ایام میں اس سے صحبت کی تواسے ایک دینار صدقہ لازم آئے گا اور بعض اہلِ حدیث نے کہا ہے کہ اس پر دراز سجدہ اس کے ذمہ ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اب ادھر بتائیں جناب کہ بعض اہلحدیث سے کیا مراد ہے؟ میں بتاتا چلوں سنی دوستو اس سے مراد بعض محدثین ہیں۔ ✍️دوسری بات کہ ایک اہلحدیث کی جماعت سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے اہلحدیث کی بہت ساری جماعتیں ہیں ایسا نہی ہے؟ بالکل اس مراد یہی ہے تو یہاں نام نہاد اہلحدیث کیا مراد لیں گے کہ اب بہت ساری یا دو، تین، پانچ، یا اس سے زیادہ فرقے اہلحدیث کے نام سے پہلے موجود تھے؟؟ھھھھ۔ ✍️آو میں بتاتا ہوں سنی دوستو اس سے مراد محدثین کی جماعتیں ہیں جو آپ جانتے کوئی حدیث جمع کرنے والے تھے کوئی اسماء الرجال پر کام کرنے والے تھے ہر محدث نے اپنے ہر جماعت محدثین نے اپنا اپنا کام ہے ہے اس کا مطلب ہوا کہ بہت سارے گروہ تھے حدیث جمع حفظ اصول حدیث وغیرہ پر کام کرنے والے۔ اس سے اب سمجھ لگ گئی ہوگی ۔ إن شاءالله۔ 8 "یجوز عند اہل الحدیث التساہل فی الاسانید الضعیفۃ وروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ"۔ (تقریب بشرح التدریب:۱۹۶) (ضرب حیدری) ترجمہ:اہلِ حدیث کے ہاں اسانید ضعیفہ میں بشرطیکہ موضوع کی حد تک نہ ہوں؛ درگزر سے کام لینا اور اس پرعمل کرنا جائز رکھا گیا ہے۔ ✍️لو جی اب کیا کہیں گے اس سے کیا مراد ہے یہاں بھی محدثین مراد ہیں حدیث پر محدثین نے کام کیا انہی کو ہی اہلحدیث کہا جاتا ہے۔ اس ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ اگر حدیث کی سند موضوع نہ ہو اس پر حدیث پر عمل جائز رکھا گیا ہے۔ 9: حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک مقام پر حدیث "لَنْ تزال ھذہ الامۃ قائمۃ علی امراللہ" کی شرح میں لکھتے ہیں: "وقد جزم البخاري بأن المراد بهم أهل العلم بالآثار وقال أحمد بن حنبل إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم"۔ (فتح الباری:۱/۱۶۴) ترجمہ:امام بخاریؒ نے پورے یقین سے کہا ہے کہ اس سے مراد احادیث کے اہلِ علم ہیں اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اگراس سے اہلحدیث مراد نہ ہوں تومیں نہیں جانتا کہ پھرکون لوگ مراد ہوں گے۔ (محمد عمران علی حیدری) اب اس کی میں کیا وضاحت کروں آپ لوگ خود سمجھ دار ہیں۔ بس سنی دوستو ایک بات یاد رکھو غیر کا فہم نہ لو آپ لوگ اپنے علماء سے سمجھیں اگر کچھ سمجھ نہیں آتا تو۔ 10 :شامی محقق ابنِ ہمامؒ نے لکھا ہے: "وَذَهَبَ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ إلَى كُفْرِهِمْ، قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ: وَلَاأَعْلَمُ أَحَدًا وَافَقَ أَهْلَ الْحَدِيثِ عَلَى تَكْفِيرِهِمْ"۔ (ردالمحتار:۳/۴۲۸) ترجمہ: بعض محدثین ان کی تکفیر کے قائل ہیں ابن المنذر نے کہا ہے میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس پرمحدثین کی موافقت کی ہو۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️یاد رہے علامہ شامیؒ خوارج کا تذکرہ کرتے ہوۓ یہ بات فرماتے ہیں۔ 11: شیخ عبدالحق محدث دہلوی سے حدیث کی باقاعدہ اشاعت ہوئی، آپ کے دور تک لفظ اہل الحدیث اسی پرانی اصطلاح سے جاری تھا، حضرت شیخ ایک مقام پر لکھتے ہیں: "وکانوالہ اصحاب من التابعین واتباعہم وکلہم کانوا اہل الحدیث والفقہ والزھد والورع" (انوارالسنۃ لردادالجنۃ:۱٢). ترجمہ:تابعین اور تبع تابعین میں ان کے کئی ساتھی تھے اور وہ سب اہلحدیث وفقہ وزہدورع تھے۔ اہلحدیث سے مراد ترک تقلید کے نام سے ایک فقہی مسلک ہوا یہ جدید اصطلاح اسلام کی پہلی تیرہ صدیوں میں کہیں نہیں ملتی، اس کا آغاز چودھویں صدی ہجری سے ہوتا ہے؛ یایوں سمجھ لیجئے کہ تیرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں اس کے لیئے کچھ حالات سازگار ہوگئے تھے۔ (محمد عمران علی حیدری) 12: ہندوستان کے مشہور عالمِ دین مولانا محمدشاہ صاحب شاہجہانپوری لکھتے ہیں: "پچھلے زمانہ میں شاذ ونادر اس خیال کے لوگ کہیں ہوں توہوں؛ مگراس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے؛ بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں سے سنا ہے، اپنے آپ کوتووہ اہلحدیث یامحمدی یاموحد کہتے ہیں؛ مگرمخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یاوہابی یالامذہب لیا جاتا ہے"۔ (الارشاد الی سبیل الرشاد:۱۳) (محمد عمران علی حیدری) لیں جی اب آتے نام نہاد اہلحدیثوں کے گھر کی طرف. :تاریخ نام نہاد اہلحدیث :مولوی عبدالمجید صاحب سوہدروی لکھتے ہیں "مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے اشاعت السنۃ کے ذریعہ اہلحدیث کی بہت خدمت کی، لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا"۔ (سیرت ثنائی:۳۷۲)۔ (محمد عمران علی حیدری) :مولوی محمدحسین صاحب نے سیکریٹری گورنمنٹ کوجودرخواست دی اس کے آخری الفاظ یہ تھے "استعمال لفظ وہابی کی مخالفت اور اجراء نام اہلحدیث کا حکم پنجاب میں نافذ کیا جائے"۔ (اشاعۃ السنۃ:۱۱/ شمارہ نمبر:۲) (محمد عمران علی حیدری) :مشہور غیر مقلد شیخ الحدیث وہابیہ اسماعیل سلفی لکھتے ہے جماعت نے اپنا مقصد اسی دن کھو دیا تھا جِس دن سرکار انگلشیہ (انگریز) سے نیا نام اہلحدیث لیا اور تصدیق کرادی تھی ۔ (نگارشات جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 382) (محمد عمران علی حیدری) : اہلحدیث وہابی عبد القادر حصاروی لکھتے ہے انگریز گورنمنٹ نے وہابی سے اہلحدیث نام منظور کیا ۔ (فتاویٰ حصاریّہ جلد اول صفحہ نمبر 567 (محقق العصر اہلحدیث عبد القادر حصاروی ( طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) post: 12 july 2021. 12ذولحجہ 1442ھ
×
×
  • Create New...