Jump to content

کسی کا بھی قول رد کیا جاسکتا ہے


محمد عاقب حسین

تجویز کردہ جواب

#کسی_کا_بھی_قول_رد_کیا_جاسکتا_ہے

 

سید المحدثین امام محمد بن اسماعیل البخاری م256ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ , عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: «لَيْسَ أَحَدٌ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا يُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِهِ وَيُتْرَكُ، إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

( كتاب قرة العينين برفع اليدين في الصلاة ص73 وسندہ صحیح سفيان هو ابن عيينة وهو لا يروي إلا عن ثقة )

تابعی کبیر امام مجاہد بن جبر م104ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں مگر یہ کہ اسکا قول قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد میں کیا جاسکتا ہے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ( آپکا ہر ثابت شدہ قول ہماری سر آنکھوں پر ہے )

امام دار الحجرۃ امام مالک م179ھ رحمہ اللہ نے فرمایا :

كل يؤخذ من قوله ويرد إلا صاحب هذا القبر، ويشير إلى قبر الرسول صلى الله عليه وسلم ۔

ہر شخص کا قول قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے اس قبر (انور) کے مقیم کے سوا اور پھر آپ نے قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ فرمایا ۔

حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ نے کہا یہ قول امام مالک رحمہ اللہ سے صحیح ثابت ہے ۔

( إرشاد السالك إلى مناقب مالك ص402 )

ان اکابرین کے کلام سے واضح ہوگیا کہ دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا ایسا کوئی بھی شخص نہیں کوئی امام ، بزرگ ، ولی نہیں جس کی ہر بات قبول کی جائے یہ شرف صرف اور صرف نبی کریم علیہ السلام کو حاصل ہے اور یہ آپکی خصوصیات میں سے ہے کہ آپکی ہر بات حجت ہے ہمارے سر آنکھوں پر ہے بدقسمتی سے آج کچھ بدعتی اور راہ حق سے بھٹکہ ہوئے لوگ کچھ بزرگوں کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہماری ان پر آنکھیں بند ہیں یا فلاں بزرگ نے کہ دیا فلاں امام نے کہ دیا تو ہمارے لئے حجت ہے ہم اس سے اختلاف نہیں کریں گے .

اللہ ہمیں ایسی اندھی عقیدت سے محفوظ فرمائے آمین ۔

 

محمد عاقب حسین

Link to comment
Share on other sites

معلوم ہوا کہ یہی صحابہ کرامﷺ کا مذہب تھا کہ وہ سوائے رسولﷺ کے ہر کسی کی بات کو رد و قبول کر سکتے تھے۔ جسکی بنیاد پر جنگ  جمل و صفین ہوئی!

اس لیے کسی کا یہ کہنا کہ فلاں صحابی نے حضرت علی سے جنگ کیوں کی ؟ تو یہ اعتراض ایسے بندے کے عقیدے کی اکاسی کرتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ شاید حضرت علی سے اختلاف کرنا کوئی ناجائز امر ہے ۔ اس لیے یہ مقام رسولﷺ پاک کا ہے کہ ان کےعلاوہ کسی سے بھی اختلاف کیا جائے تو اس سے نہ ہی کسی کے ایمان میں فرق پڑے گا نہ ہی عقیدے میں خاص پر صحابی کا صحابی سے اختلاف میں تو کوئی شرعی عزر نہیں جس کا اجتہاد خطاء پر مبنی ہوا بھی تو ایک اجر تو اسکو ملے ہی ملے گا۔

Link to comment
Share on other sites

On 5/7/2024 at 10:59 AM, Qadri Sultani said:

یعنی صحابہ کرام و اجلہ تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول کی کوئی اہمیت نہیں؟

میری تحریر میں کہیں بھی صحابہ اور تابعین کے اقوال کی اہمیت کا انکار نہیں 

 

بلکہ ان کے اقوال سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرنے کا جواز ثابت ہو رہا ہے 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
×
×
  • Create New...