
Aabid inayat
اراکین-
کل پوسٹس
63 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
-
جیتے ہوئے دن
4
سب کچھ Aabid inayat نے پوسٹ کیا
-
Mojza Mai Ambiya Aleh Salam Ka Ikhtiyar
Aabid inayat replied to Toheedi Bhai's topic in عقائد اہلسنت
گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔۔ اسلام علیکم معزز قارئین کرام ! خلق و کسب بندہ جس فعل کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے چاہے وہ فعل امور عادیہ سے ہو یا امور غیر عادیہ سے ہو بندہ کے اس ارادہ کے تحت اس فعل کو انجام دینے کو کسب اور اس ارادہ کے بعد جو اللہ پاک اس ارادہ کے مطابق فعل پیدا کرتا ہے اسے خلق کہتے ہیں ۔ علامہ سعد الدین تفتازانی فرماتے ہیں کہ : دلیل سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ خالق صرف اللہ پاک ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے بعض افعال میں بندہ کی قدرت اور اسکے ارادہ کا دخل ہوتا ہے اور بعض میں ایسی جیسے کسی چیز کو پکڑنے والے کی حرکت اور رعشہ والے کی حرکت لہذا اس اشکال سے چھٹکارے کے لیے ہمیں یہ کہنا پڑا کہ اللہ پاک خالق ہے اور بندہ کاسب اور تحقیق اس امر کی یہ ہے کہ فعل کی طرف بندے کا اپنی قدرت و ارادہ کو صرف کرنا کسب ہے اور اس کے قصد و ارادہ کے بعد اللہ پاک کا اس کہ ارادہ کے مطابق فعل کو پیدا کردینا خلق ہے اور فعل واحد دو قدرتوں کہ ساتھ متعلق ہوکر مقدور ہے ۔لیکن انکی جہتیں مختلف ہیں پس وہ فعل واحد اللہ پاک کا بلحاظ خلق و ایجاد مقدور ہے اور بندے کا بلحاظ کسب مقدور ہے ۔ علامہ محب اللہ بہاری فرماتے ہیں کہ: احناف کے نزدیک قدرت مخلوقہ کو فعل کے قصد مصمم کی طرح خرچ کرنا کسب ہے پس اس قدرت مذکورہ کی تاثیر اس قصد میں ہوتی ہے اور اللہ پاک کی عادت جاریہ یہ ہے کہ وہ اس قصد کے مطابق فعل کو پیدا فرما دیتا ہے ۔ خلق و کسب کی مزید وضاحت یہ حقیقت تو واضح ہوچکی تمام تر مخلوقات ملائکہ اور جنات ،انسان اور حیوانات کہ ساتھ جو مختلف افعال و اعمال قائم ہیں ان سب کا خالق حقیقی اللہ تعالی ہے لیکن آیا یہ تمام افعال ان تمام مخلوقات سے بالاختیار صادر ہوتے ہیں یا نہیں اس میں مذاہب مختلف ہیں ۔ جبریہ اس کے قائل ہیں بندے اپنے افعال و اعمال میں مجبور محض ہیں جیسے قلم بدست کاتب اور مردہ بدست زندہ کے ہو جبکہ قدریہ بندوں کو افعال میں قادر مطلق اور خالق تسلیم کرتے ہیں جبکہ اہل سنت بندوں کو نہ تو مجبور محض مانتے ہیں اور نہ مختار مطلق لہذا اہل سنت کہ مذہب پر بے شمار قرآنی آیات دلیل ہیں مثال کے طور پر شاہ عبدالعزیز علیہ رحمہ تفسیر عزیزی میں ایاک نعبد وایاک نستعین کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایاک نعبد میں جبریہ کا رد ہے جو کہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے جبکہ ایاک نستعین میں قدریہ کا رد ہے جو کہ کہتے ہیں انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے لہذا یہ دونوں گروہ مردود ہیں جبکہ حق کا راستہ وہی جو کہ اہل سنت کا ہے جو کہ کہتے ہیں اے اللہ بندگی ہم تیری کرتے ہیں مگر توفیق تو ہی دیتا ہے۔ اسی طرح شرح عقائد نسفی میں ہے کہ : بندوں کے لیے افعال اختیاریہ ہیں جن پر انکو ثواب دیا جاتا ہے اگر اطاعت کے قبیل سے ہوں اور ان کو عذاب دیا جاتا ہے اگر وہ معصیت کے قبیل سے ہوں نہ کہ جیسے جبریہ نے خیال کیا کہ بندے کا سرے سے کوئی فعل ہی نہیں اور اسکی حرکات جمادات کی حرکات کی طرح ہیں (جیسے انھے کوئی انسان حرکت دے) اسے ان پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی قصد و ارادہ و اختیار لیکن جب دلیل سے ثابت ہوچکا کہ صرف اللہ تعالٰی ہی خالق ہے جیسے اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ہرچیز کا خالق ہے اور فعل عبد بھی شئے ہی ہے اور یہ امر بھی بدیہی اور واضح ہے کہ بندے کی قدرت و ارادہ کو بعض افعال میں دخل ہے جیسے حرکت بطش (یعنی کسی شئے کو پکڑنے کے لیے حرکت کرنا) اور بعض میں دخل نہیں جیسے رعشہ والے کی حرکت تو ہم اس مشکل سوال سے یوں خلاصی چاہتے ہیں کہ اللہ پاک خالق ہے اور بندہ کاسب ہے اور تحقیق اس کی یہ ہے بندے کا اپنی قدرت و ارادہ کو فعل کی طرف پھیرنا کسب ہے اور اللہ پاک کا اس کے بعد فعل کو ایجاد کرنا خلق ہے اور مقدور واحد دو قدرتوں کے تحت داخل ہے لیکن دو مختلف جہات کہ حوالہ سے لہذا اس میں کوئی استحالہ نہیں پس فعل عبد مقدور باری تعالٰی ہے از روئے ایجاد و خلق اور مقدور عبد ہے از روئے کسب ۔۔۔۔۔ فخر المتکلمین امام رازی اپنی تفسیر کبیر میں سورہ انفال کی ٰآت 17 کہ تحت رقمطراز ہیں کہ : { وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ } أثبت كونه عليه السلام رامياً، ونفى عنه كونه رامياً، فوجب حمله على أنه رماه كسباً وما رماه خلقاً ۔ ۔ ۔۔ مفھوم : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کنکریوں کے پھینکنے کی نفی کی گئی اور پھر اثبات جبکہ نفی کا محمل بطور خلق ہے جبکہ اثبات بطور کسب ۔ ۔ ۔ ۔ اب ہم ذیل میں امور غیر عادیہ یعنی معجزات و کرامات میں کسب کہ دخل پر بحث نقل کریں گے ۔ ۔ ۔ امور غیر عادیہ میں کسب کا دخل : علامہ سعد الدین تفتا زانی شرح مقاصد میں فرماتے ہیں کہ : پھر کرامات کو جائز ماننے اور درست ماننے والوں میں سے بعض اس طرف گئے ہیں کہ کرامت کا ولی کہ قصد و ارادہ کے ساتھ صادر ہونا ممتنع (یعنی ناممکن ) ہے جبکہ امام الحرمین فرماتے ہیں کہ سب وجوہ جو کہ کرامت کے تقییدات و تخصیصات میں ذکر کیئے گئے وہ ناتمام و ضعیف ہیں جبکہ ہمارے نزدیک مختار یہ ہے کہ جملہ خوارق عادات کا بطور کرامات سرزد ہونا درست اور صحیح ہے (خواہ ارادہ و قصد سے ہوں خواہ دعوٰی کے مطابق ہوں اور خواہ معجزات کی قبیل سے ہوں )۔۔۔۔ بشک امر خارق پر قدرت دینا اور مزاحمت و مدافعت ترک کردینا اللہ پاک قادر و مختار کی طرف سے افادہ مطلوب یعنی معجزات کے تصدیق نبی کے لیے سرزد ہونے میں کافی ہے (خواہ بالفعل یعنی اللہ کے فعل کی تاثیر سے ہوں یا پھر نبی اور رسول کی تاثیر کسبی و سببی بھی شامل ہو) اور اسی لیے معتزلہ نے یہ مذہب اپنایا ہے کہ معجزہ اللہ کا فعل ہوتا ہے جو اس کے امر و حکم سے واقع ہوتا ہے یا پھر اس کے قدرت کے عطا کرنے سے ۔۔ ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معتزلہ اور اہل سنت میں فرق یہ ہے کہ وہ بندہ کی قدرت کو مستقل و مؤثر جانتے ہیں مگر اہل سنت کے نزدیک بندہ محض کاسب ہے اس میں خلق و ایجاد کی قدرت نہیں ہوتی بلکہ محض فعل کی بطور کسب استطاعت ہوتی جو کہ فعل مقدور میں بطور سبب کے مؤثر ہوتی ہے نہ کے بطور علت کے ۔ ۔ ۔ الکرامۃ ظھور امر خارق للعادۃ من قبلہ بلا دعوٰی النبوۃ وھی جائزۃ ولو بقصد الولی ومن جنس المعجزات لشمول قدرۃ اللہ تعاٰلی وواقعۃ کقصۃ مریم واٰصف واصحٰب کہف ۔۔۔۔ نیز علامہ تفتا زانی کرامت اور معجزہ کا فرق اور اس میں ولی کے کسب کہ دخل کو مزید واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یعنی کرامت خلاف معمول امر کے بغیر دعوٰی نبوت کہ ولی سے سرزد ہونے کا نام ہے اور اسکا صدور ممکن ہے اگرچہ ولی کہ قصد و ارادہ سے ہی ہو اور معجزات انبیاء کی جنس سے ہی ہو کیونکہ اللہ پاک کی قدرت اس کو محیط و شامل ہے اور کرامت بالفعل واقع اور متحقق بھی ہے جیسے حضرت مریم علیہ السلام اور حضرت آصف بن برخیا اور اصحاب کہف کا قصہ اور اسی قسم کے واقعات صحابہ کرام ،تابعین اور بہت سے صالحین سے بتواتر ثابت ہیں ۔۔ چناچہ علامہ عبدالعزیز پرہاروی فرماتے ہیں کہ : بعض نے یہ شرط لگائی کہ معجزہ نبی و رسول کا مقدور نہیں ہونا چاہیے لہذا جب وہ پانی پر چلے اور ہوا میں اڑے تو اس کا معجزہ پانی پر چلنے اور ہوا میں اڑنے والا مقدور فعل نہیں ہے بلکہ ان افعال کی قدرت و طاقت اسکا معجزہ ہے اور یہ قدرت اس کے اختیار مشیّت سے نہیں جبکہ صحیح یہ ہے کہ چلنا اور اڑنا معجزہ ہے (اور اسکا مقدور ہونا ان بعض کے نزدیک بھی مسلّم ہے ) لہذا معجزہ کے نبی کے مقدور نہ ہونے کی شرط لغو اور باطل ہوگئی ۔ علامہ برخودار ملتانی بطور محشی علامہ عبدالعزیز پرہاوری کی عبارت کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ : کیونکہ معجزہ خلاف عادۃ فعل ہوتا ہے اس لیے وہ خلاف عادہ فعل اللہ پاک کی مخلوق اور اللہ کے نبی کے مقدور ہونے کہ باوجود معجزہ ہے ۔۔۔۔ میر سید نے شرح مواقف میں فرمایا کہ : یعنی اگر معجزہ نبی کے قدرت و اختیار میں ہو تو اس کا صادر ہونا اللہ پاک کی طرف سے اس نبی کی تصدیق کے قائم مقام نہیں ہوگا لیکن یہ استدلال لغو ہے کیونکہ نبی کا قادر ہونا باوجود غیر نبی کے اس پر بطور عادت جاریہ اور معمول کے قادر نہ ہونے کے معجزہ ہے نیز یہ نبی کے لیے دعوٰی نبوت میں مؤید اور مصدّق ہے ۔ علامہ آمدی فرماتے ہیں کہ معجزہ کا نبی کی قدرت میں ہونا متصور ہوسکتا ہے یا نہیں اس میں ائمہ کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ پانی پر چلنے اور ہوا میں اڑنے والی مثال میں معجزہ اڑنے اور چلنے والی حرکت کا نام نہیں کیونکہ یہ تو نبی کی مقدور ہے اس میں اللہ تعالٰی کی طرف سے اس پر قدرت و استطاعت پیدا کرنے کی وجہ سے ۔ یہاں معجزہ صرف اور صرف اڑنے اور پانی پر چلنے کی استطاعت ہے اور یہ استطاعت و قدرت نبی کے مقدور نہیں ہے اور دوسرے ائمہ کا مذہب مختار یہ ہے کہ حرکت خلاف عادت جاریہ کے ہونے کی وجہ سے معجزہ ہے اور اللہ پاک کی مخلوق ہے اگرچہ خدا اور اسکے رسول کی قدرت و استطاعت میں بھی ہے اور یہی مذہب صحیح ترین ہے ۔ امام غزالی احیاء العلوم فی الدین میں رقم طراز ہیں کہ : نبی کی صفات میں سے جو دوسری صفت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نبی کو فی نفسہ ایک ایسی صفت حاصل ہوتی ہے جس سے وہ خلاف عادت امور (یعنی امور غیر عادیہ یا مافوق الاسباب العادیہ) کام کرلیتا ہے جیسا کہ ہمیں ایک صفت حاصل ہے جس سے ہم اپنے ارادہ و اختیار سے حرکات کرتے ہیں اور اسی کو قدرت کہتے ہیں اگرچہ قدرت اور مقدور دونوں اللہ پاک کے افعال سے ہیں یعنی کسب بھی اللہ پاک کا عطا کردہ ہے اور کسب کہ بعد اس پر جو فعل واقع ہوتا ہے وہ بھی اللہ پاک کا پیدا کردہ ہے ۔ اسی موضوع پر علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں رقمطراز ہیں کہ : نبی کے لیے ایک صفت ہوتی ہے کہ جس سے وہ افعال غیر عادیہ کرلیتا ہے جیسے غیر نبی کو صفت حاصل ہوتی یے کہ جس سے وہ افعال عادیہ انجام دیتا ہے ۔ فائدہ : قارئین کرام الحمدللہ اس عاجز نے جو بات محض اللہ کی عطا سے لکھی تھی آج اس کی تصدیق دنیائے اسلام کی دو مایا ناز ہستیوں یعنی امام غزالی اور امام ابن حجر عسقلانی سے ہوگئی جو کہ بیک وقت بالترتیب عظیم صوفی مفسر و محدث و متکلم و فلسفی اور فقیہ و اصولی ہیں اور ہم نے اس کو بطور تحدیث نعمت کہ فائدہ کہ ضمن میں بیان کیا بالکل یہی بات ہم نے مافوق الاسباب امور کے تحت انبیاء کے ان امور میں کسب کہ اثبات و دخل کہ ضمن میں لکھی تھی مثال دیتے ہوئے کہ جیسے امور عادیہ میں عوام الناس بطور کاسب کہ فاعل ہیں اسی طرح امور غیر عادیہ میں انبیاء بطور کاسب کہ فاعل ہوتے ہیں جبکہ فاعل حقیقی ہر دو امور میں اللہ پاک ہی ہے اور بعینہ یہی بات امام غزالی و عسقلانی علیھما الرحمہ بھی فرمارہے ہیں سبحان اللہ ۔ماشاء اللہ ۔ ۔ امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں کہ : شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے فتوحات میں لکھا کہ افعال غیر عادیہ کا ظہور قوی نفسیہ سے ہوتا ہے کیونکہ عالم کہ تمام اجسام انکی ہمت نفسیہ کہ تابع ہوجاتے ہیں اور یہ تمام افعال غیر عادیہ اللہ پاک کے خلق سے مخلوق کی قدرت میں ہوتے ہیں لیکن افعال غیر عادیہ بطریق کرامت فقط ان لوگوں کہ لیے ہوتے ہیں جو کہ بطور خلاف عادت اپنی طبیعت کو شریعت کہ موافق ڈھال لیتے ہیں اور اپنی حرکت و سکون میں شریعت کی پیروی کرتے ہیں ۔ پھر اس سے بھی زیادہ صراحت امام شعرانی نے وضاحت کی کہ : ائمہ مسلمین نے معجزہ اور کرامت میں کئی اور وجہوں سے بھی فرق بیان کیا ہے جنہیں ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں بعض ائمہ نے کہا کہ معجزہ اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ معجزہ نبی کے قصد (کسب) اور اس کے چیلنج سے واقع ہوتا ہے اور کرامت کبھی ولی کے قصد (کسب) کے بغیر بھی واقع ہوتی ہے اور بعض ائمہ نے یہ کہا کہ یہ جائز ہے کہ کرامت ولی کہ قصد (یعنی کسب) سے واقع ہو اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ معجزہ کے ساتھ نبی چیلنج بھی کرتا ہے جبکہ ولی نہیں کرتا جبکہ وقوع دونوں کا کسب و قصد سے جائز ہے ۔ ۔ ۔والسلام (بحوالہ مقام ولایت و نبوت و گلشن توحید و رسالت از علامہ سعیدی و سیالوی ) جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ گذشتہ سے پیوستہ اسلام علیکم معزز قارئین کرام ! امور غیر عادیہ میں انبیاء اور اولیاء کے کسب کہ دخل کی تفصیل علامہ ابن حجر ہیتمی کا فیصلہ : علامہ ابن حجر ہیتمی امام الحرمین کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ : فمنھم من شرط ان لا یختارھا الولی وبھذا فرقوا بینھا وبین المعجزۃ وھذا غیر صحیح۔ مفھوم : کہ جنھوں نے یہ شرط لگائی کہ ولی کی کرامت میں اس کے قصد و ارادہ اور اختیار کا دخل نہیں ہوتا اور یہ فرق ہے معجزہ اور کرامت میں تو یہ قول صحیح نہیں ۔ (فتاوٰی حدیثیہ ) حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ہمعات میں فرماتے ہیں کہ :جاننا چاہیے کہ مجھے آگاہ فرمایا گیا کہ خوارق عادات یعنی معجزات اور کرامات بذات خود عادت جاریہ اور معمول کے مطابق چلنے والے امور کے قبیل سے ہیں مگر بایں معنٰی کہ اللہ پاک کی سنت اس طرح سے جاری ہے کہ جب کوئی نفس ناطقہ کسب اور مجاہدہ و ریاضت کے زریعے یا جبلّی اور پیدائشی استعداد کی وجہ سے بلند مرتبہ پر فائز ہوتا ہے تو اس پر غیبی امور منکشف ہوتے ہیں یا اسکی دعا مقبول ہوتی ہے وعلٰی ھذا القیاس جیسے کہ اللہ پاک کا قانون قدرت ہے کہ جب کوئی شخص تریاق استعمال کرتا ہے تو اس سے سانپ کا زہر دور ہوجاتا ہے یا گوشت اور مکھن استعمال کرتا ہے تو توانا اور قوی تر ہوجاتا ہے وعلٰی ھذا القیاس۔ لیکن چونکہ یہ امر (معجزہ اور کرامت) مانوس طریقہ کار یا عادت جاریہ کہ خلاف ہوتا ہے تو ا سکو خارق عادت کہہ دیتے ہیں نیز مجھے مطلع کیا گیا کہ خوارق عادات کہ ہر انواع کے لیے مخصوص کسب اور فعل ہوتا ہے جو کہ اسکا ذریعہ اور وسیلہ بنتا ہے اور جب اس سے تمسک کیا جائے تو وہ خارق عادت یعنی معجزہ اور کرامت صادر ہوجاتا ہے ۔آگے مزید مثالیں نقل کرتے ہوئے وہ اولیاء اللہ کے تصرفات کو نقل کرتے ہیں کہ جن میں اولیاء اللہ کا دلوں کو مسخر کرنا ،عاصی کو توبہ کا فیضان پہنچانا یا کسی کام کا مدرکہ کسی کہ دماغ میں داخل کردینا اور امراض کو دور کردینا وغیر شامل ہے ۔ ۔ ۔ اولیاء کرام کہ اس قصد و ارادہ پر مقصود اور مراد کا ترتب کیسے ہوتا ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی اشعۃ للمعات میں رقمطراز ہیں کہ : گفتی اند بسم اللہ الرحمٰن الرحیم از عارف ہمچوں کلمہ کن است ۔ یعنی عارف کی زبان سے بسم اللہ کا صادر ہونا اسی مؤثر و مفید ہے کہ جس طرح باری تعالٰی سے کلمہ کن ،کہ اس کے بعد فوری طور پر وہ شئے موجود ہوجاتی ہے ،اسی طرح عارف کے کسی کام کے ارادے پر بسم اللہ پڑھنے سے وہ کام فورا ہوجاتا ہے نیز فرماتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ گو کرامت کہ قصد و ارادہ کے ساتھ اولیاء کرام سے صدور پر بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے لیکن صواب اور حق مذہب یہی ہے کہ انکا قصد و ارادہ کے ساتھ وقوع پذیر ہونا صحیح اور درست ہے اور بغیر قصد و ارادہ کے ساتھ سرزد ہونا بھی ۔ ۔ ۔ ۔ فائدہ:- معزز قارئین کرام یہ وہی شیخ عبدالحق محدث دہلوی ہیں کہ جنکے حوالہ سے معجزہ کے باب میں نبی کے کسب کے انکار کا قول فریق مخالف نے نقل کیا الحمدللہ انھی کی کتاب اشعۃ للمعات سے اس قول کی صحیح توجیہ واضح ہوگئی کہ مدارج النبوت میں شیخ کے قول کو معجزات کی قسم اول( کہ جس میں فقط فعل باری تعالٰی پایا جاتا ہے ) کی قبیل سے مانا جائے گا وگرنہ شیخ صاحب کی عبارات میں تعارض لازم آئے گا اور اسکی کوئی بھی دوسری تاویل یا تطبیق کرنا قریبا نامکمن ہوجائے گا ۔۔۔ ( اشعۃ للمعات بحوالہ گلشن توحید و رسالت) اب آخر میں فریق مخالف کہ گھر کی گواہی کے بعد اس تمام بحث کا خلاصہ پیش کیا جائے گا اور پھر آخر میں چند اعتراضات کہ جوابات اور چند سوالات کرکے اپنی بات کو ختم کریں گے ان شاء اللہ العزیز ۔ ۔ ۔ قرآن پاک کی سورہ ص آیۃ 39 میں ارشاد باری تعالٰی ہے : قَالَ رَبِّ ٱغْفِرْ لِي وَهَب لِي مُلْكاً لاَّ يَنبَغِي لأَحَدٍ مِّن بَعْدِيۤ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْوَهَّابُ فَسَخَّرْنَا لَهُ ٱلرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَآءً حَيْثُ أَصَابَ وَٱلشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَغَوَّاصٍ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي ٱلأَصْفَادِ هَـٰذَا عَطَآؤُنَا فَٱمْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ترجمہ حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب : (حضرت سلمان علیہ السلام نے) کہا اے میرے رب میرا قصور معاف کر اور مجھ کو ایسی سلطنت دے کہ میرے سوا کسی کو میسر نہ ہوآپ بڑے دینے والے ہیں سو ہم نے ہوا کو انکے تابع کردیا کہ وہ انکے حکم سے جہاں چاہتے نرمی سے چلتی اور جنات کو بھی ان کے تابع کردیا ۔یعنی تعمیر بنانے والوں کو بھی اور موتی وغیرہ کے لیے غوطہ خوروں کو بھی اور دوسرے جنات کو بھی جو کہ زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے سو خواہ دو یا نہ دو تم سے کوئی دار و گیر نہیں ہے ۔ آگے اسکی تفسیر بیان القرآن میں تھانوی صاحب رقمطراز ہیں کہ : ہم نے یہ سامان دیکر اشارہ فرمایا کہ یہ ہمارا عطیہ ہے سو خواہ کسی کو دو یا نہ دو تم سے کچھ دار و گیر نہیں یعنی جتنا سامان ہم نے تم کو دیا ہے اس میں تم کو خازن و خارس نہیں بنایا جیسا دوسرے ملوک خزائن ملکیہ کے مالک نہیں ہوتے ناظم ہوتے ہیں بلکہ تم کو مالک ہی بنادیا ہے مالکانہ تصرفات کے مختار ہو تو اس سے حقوق واجبہ کے ترک سے تخییر لازم نہیں آتی ۔(بیان القرآن سورہ ص آیت 39) فائدہ : فریق مخالف کے حکیم الامت نے واشگاف الفاظ میں اعلان کردیا کہ ہواؤں اور جنات پر تصرف کے لیے اللہ پاک نے سیدنا سلمان علیہ السلام کو مالکانہ اختیارات عطا فرمادیئے مگر تھانوی صاحب نے حضرت سلمان علیہ السلام کی ان امور غیر عادیہ میں بطور کاسب مالک و مختار ہونے کی تصریح بطور معجزہ کے نہیں کی آئیے ہم دیگر امہات التفاسیر سے یہ واضح کرتے چلیں کہ یہ تمام امور حضرت سلمان علیہ السلام کا معجزہ تھے ۔ ۔ ۔ علامہ زمحشری تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں کہ : ۔۔۔۔۔فأراد أن يطلب من ربه معجزة، فطلب على حسب ألفه ملكاً زائداً على الممالك زيادة خارقة للعادة بالغة حدّ الإعجاز، ليكون ذلك دليلاً على نبوّته قاهراً للمبعوث إليهم، وأن يكون معجزة حتى يخرق العادات۔ ۔۔ ۔ مفھوم : سلمان علیہ السلام نے اپنے رب سے معجزہ طلب کرنے کا ارادہ کیا پس انھوں نے اپنی منشاء کے مطابق ایسا معجزہ طلب کیا کہ جسکی وجہ سے انکی ملکیت دوسروں کی ملکیت پر زائد رہے ساتھ ایسی زیادتی ک جو کہ ایسی خرق عادت ہو جو کہ حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہو اور جو ان کی نبوت کی دلیل قاہرہ بن سکے ایسا معجزہ جو کہ تمام خرق عادات کو شامل ہو ۔ فخر المتکلمین و مفسرین امام رازی اسی آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ : ۔۔۔ أن الملك هو القدرة فكان المراد أقدرني على أشياء لا يقدر عليها غيري ألبتة، ليصير اقتداري عليها معجزة تدل على صحة نبوتي ورسالتي. والدليل على صحة هذا الكلام أنه تعالى قال: { فَسَخَّرْنَا لَهُ ٱلرّيحَ تَجْرِى بِأَمْرِهِ رُخَاء حَيْثُ أَصَابَ } فكون الريح جارياً بأمره قدرة عجيبة وملك عجيب، ولا شك أنه معجزة دالة على نبوته فكان قوله: { هَبْ لِى مُلْكاً لاَّ يَنبَغِى لأَحَدٍ مّن بَعْدِى } هو هذا المعنى لأن شرط المعجزة أن لا يقدر غيره على معارضتها، فقوله: { لاَّ يَنبَغِى لأَحَدٍ مّن بَعْدِى } يعني لا يقدر أحد على معارضته ۔۔۔۔ مفھوم : ملک کا معنی قدرت ہے پس سلمان علیہ السلام کی دعا سے مراد یہ تھی اے اللہ مجھے ان چیزوں پر قادر کردے جن پر میرا غیر کسی بھی وجہ سے قادر نہ ہوسکے تاکہ ان چیزوں پر قدرت میری نبوت و رسالت کی دلیل بطور صحت معجزہ ہوجائے اور اس کلام کی صحت پر دلیل یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس دعا کے بعد فرمایا کہ ہم نے ہوا کو سلمان علیہ السلام کے تابع کردیا جو کہ ان کے حکم سے نرمی سے چلتی اور ہوا کے انکے حکم سے چلنے میں عجیب قدرت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انکا معجزہ ہے جو کہ انکی نبوت پر دال ہے اور انکا یہ قول کہ مجھے ایسا ملک عطا فرما جو کہ میرے بعد کسی کی ملک میں نہ ہو معجزہ کی شرائط پر دلالت کرتا ہے کیونکہ معجزہ کی شرط ہوتی ہے کہ اس کا معارض اس پر قادر نہیں ہوتا لہزا ان کے اس قول کے میرے علاوہ اس پر کوئی قادر نہ ہو میں اس بات پر دلالت ہے کہ کوئی بھی شخص اس معجزہ میں انکے مقابل بطور قادر کہ نہ آسکے ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے علاوہ اس امر پر بے شمار تفسیر حوالہ جات پیش کیئے جاسکتے ہیں کہ معجزہ اور کرامت پر انبیاء اور اولیاء کا قصد بصورت کسب کے ثابت ہے لہذا ماننے والوں کہ لیے فقط انھی تسلی و تشفی کا وافر سامان موجود ہے جبکہ نہ ماننے والوں کے لیے دفتر کے دفتر بےکار ۔ ۔ ۔ خلاصہ بحث الحمدللہ ان تمام عبارات کا خلاصہ نکات کی صورت میں درج زیل ہے ۔۔۔۔۔۔ لغت میں ہر حرق عادت کو معجزہ کہتے ہیں۔ نبی کے اعلان نبوت سے پہلے صادر ہونے والے حرق عادت کو ارہاص کہتے ہیں جو کہ بنیاد نبوت ہوتا ۔ اعلان نبوت کے بعد جو خرق عادات ہوں انھے علمائے امت نے معجزہ جبکہ قرآن نے دلیل، برہان اور آیہ کے نام سے یاد کیا۔ معجزہ کی تین اقسام معروف ہیں اول کہ جو فقط فعل الٰہی ہوں جیسے نزول قرآن اور نبی علیہ السلام پر بادلوں کا سایہ کرنا دوم ایسا خرق عادت کہ جس میں نبی دعا کرئے اور اللہ پاک اس پر اپنا فعل خلق فرمادے خواہ وہ فعل جز وقتی ہو یا پھر نبی کے کسب کہ تحت اسے کل وقتی عطا کردیا جائے اور تیسری اور آخری قسم ایسے خوارق عادات کی ہے جو کہ کثرت سے انبیاء و اولیاء سے ثابت ہیں کہ جن میں انبیاء و اولیاء کا کسب کسی بھی غیر عادی امر میں بطور سبب عادی کہ کار فرما ہوتا ہے جبکہ اس کے نتیجہ میں اللہ پاک اپنا فعل خلق و ایجاد انبیاء و اولیاء کے کسب کے ساتھ مربوط فرما کر نتیجتا اس خرق عادت امر کو فعلا واقع فرمادیتا ہے ۔نیز جب ایک قوم نے کہا کہ معجزہ نبی کی قدرت میں نہیں ہوتا لیکن اس بات کو میر سید شریف نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ جب نبی ایسا فعل پیش کرئے جو کہ عادۃ دوسروں کی طاقت اور قدرت میں نہ ہو تو وہ بحرحال معجزہ ہے اور معجزہ نبی کی قدرت و طاقت میں ہوتا ہے ۔اور انبیاء کی وہ طاقت و قدرت معجزہ کی اسی تسیری قسم کے ساتھ خاص ہے اور ایسے معجزات قرآن و سنت میں بے شمار ہیں جیسے حضرت سلمان علیہ السلام کا معجزہ کہ ہوائیں اور جنات ان کے تابع اور انکے حکم سے چلتے تھے جیسے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ کے مادر زاد اندھوں اور برص کے مریضوں اور مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے نیز مٹ سے پرندے بنا کر ان میں نفح صور فرماکر ان میں جان ڈال دیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ ۔۔ ۔ والسلام جاری ہے ۔ ۔ ۔ -
Mojza Mai Ambiya Aleh Salam Ka Ikhtiyar
Aabid inayat replied to Toheedi Bhai's topic in عقائد اہلسنت
معجزہ کی تعریف شرح العقيدة الطحاوية میں امام علي بن علي بن محمد بن أبي العز الدمشقي رقم طراز ہیں کہ ۔۔۔ المعجزة في اللغة تعم كل خارق للعادة مفھوم :لغت میں ہر خرق عادت کو معجزہ کہتے ہیں۔ اسی طرح شرح عقائد نسفی میں ہے کہ : المعجزہ ھی امر یظاھر بخلاف العادۃ علٰ ید مدعی النبوۃ عند تحدی المنکرین علٰی وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ ۔ مفھوم : یعنی معجزہ وہ امر ہے جو خلاف معمول اور عادت جاریہ کے خلاف مدعی نبوت کے ہاتھ پر بطور چیلنج ایسے وقت میں ظاہر ہو کہ جب وہ منکرین کو اس کی مثل لانے کا چیلنج دے اور وہ نہ لاسکیں یعنی اس سے عاجز آجائیں ۔ امام قسطلانی علیہ رحمہ جو خاتم المحدثین امام ابن حجر عسقلانی علیہ رحمہ کے معروف شاگرد ہیں اور شارح بخاری بھی ہیں اپنی مشھور زمانہ تصنیف "المواھب اللدنیہ " کے باب معجزات میں پہلی فصل کے تحت معجزہ کی تعریف اور شرائط کے تحت رقمطراز ہیں : معجزہ کی تعریف اور شرائط :- معجزہ ایک ایسا خلاف عادت کام ہوتا کہ جس کے ساتھ چیلنج متصل ہوتا ہے اور یہ انبیاء کرام علیہ الصلوۃ والتسلیم کی صداقت پر دلالت کرتا ہے ۔ معجزہ کی وجہ تسمیہ :- اسے معجزہ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ انسان (وہ انسان کہ جس پر بطور معارض یا چیلنج کوئی نبی اپنا معجزہ بطور حجت پیش کرے از آبی ٹوکول ) اسکی مثل لانے سے قاصر ہوتا ہے ۔بس اس کے لیے چند شرائط ہیں ۔ معجزہ کی شرائط ۔ ۔ ۔ نمبر ایک : یہ کام عام عادت کے خلاف ہو جیسے چاند کا پھٹ جانا ،انگلیوں کہ درمیان سے پانی کا جاری ہوجانا عصا کا سانپ بن جانا ،چٹان سے اونٹنی کا نکلنا اور پہاڑ کا گر جانا ۔ نمبر دو :- معجزہ کے ساتھ تحدی یعنی چیلنج ملا ہوا ہو یعنی منکرین کو مقابلے کا چیلنج کیا جائے ۔ نمبر تین :-تیسری شرط یہ ہے کہ چیلنج کرنے والا جو کچھ لایا ہے کوئی دوسرا اسکے مقابلے میں اس معجزہ کی مثل نہ لاسکے اس بات کو بعض نے یوں تعبیر کیا ہے کہ رسالت کے دعوٰی میں معارضہ کا خوف نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ نیز فرماتے ہیں کہ تحدی یعنی چیلنج کے کی قید سے جو چیز نکل گئی جو نبوت کے چیلنج کے بغیر ہو اور وہ ولی کی کرامت ہے اسی طرح دعوٰی نبوت کے ساتھ ملے ہونے کی قید سے وہ امور جو چیلنج سے پہلے خلاف عادت ظاہر ہوئے وہ بھی نکل گئے جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بادلوں کا سایہ کرنا اور سینہ مبارک کا چاک ہونا جو کہ اعلان نبوت سے پہلے ظاہر ہوئے تھے ۔ ۔ ۔۔ ۔ یہ معجزات نہیں بلکہ کرامات ہیں اور انکا اولیاء کرام سے ظہور جائز ہے کیونکہ انبیاء علیھم السلام اعلان نبوت سے پہلے بھی اولیاء سے ہرگز کم درجہ میں نہیں ہوتے اس لیے ان سے بھی ان خرق عادات کا ظہور جائز ہے لیکن اس وقت ان امور کو انبیاء کرام سے جڑے ہونے کی وجہ سے بجائے کرامت کہ " ارہاص " یعنی نبوت کی بنیاد کہا جاتا ہے جس طرح علامہ سید جرجانی نے شرح مواقف میں اور دوسرے حضرات نے بھی ایسا ہی نقل کیا ۔جمہور ائمہ اصول کا یہی مذہب ہے ۔ ۔ ۔۔ ۔ پھر چوتھی شرط کہ تحت ارقام فرماتے ہیں کہ ۔۔ معجزہ کی چوتھی شرط :- یہ ہے کہ دعوٰی کرنے والے کہ دعوٰی کے مطابق واضح ہو یعنی اگر رسالت کا دعوٰی کرنے والا یہ کہے کہ میری نبوت کی نشانی یہ ہے کہ میرا یہ ہاتھ کلام کرے گا یا یہ جانور بولے گا پس اسکا ہاتھ یا جانور اس کو جھٹلانے کے ساتھ کلام کرے اور کہے کہ اس نے جھوٹ بولا اور یہ نبی نہیں ہے تو یہ کلام جو اللہ پاک نے اس مدعی کے ہاتھ پر جاری کیا وہ اس کے دعوٰی کے موافق نہ تھا جس طرح مروی ہے کہ مسیلمہ کذاب (اللہ اس پر لعنت کرے) نے کنویں میں تھوک کر کہا کہ اسکا پانی زیادہ ہوجائے گا تو اس کنوئیں کا پنی نیچے اتر گیا اور پانی چلا گیا ۔۔ لہذا ان شرائط میں سے جب کوئی شرط نہ پائی جائے گی تو تو وہ معجزہ نہ ہوگا ۔ پھر آگے چل کر امام صاحب نے لفظ معجزہ پر اس طریق سے بھی گفتگو کی ہے کہ قرآن پاک میں یہ لفظ نہیں آیا بلکہ قرآن پاک میں انبیاء کرام کے معجزہ کے لیے لفظ " آیت " " البینہ " اور " البرہان " آیا ہے یعنی نشانی ۔۔ لیکن ساتھ ہی کہا کہ بڑے بڑے ائمہ کبار نے ان سب چیزوں پر لفظ معجزہ کا اطلاق فرمایا ہے ۔ ۔ ۔ فائدہ :- معجزہ کی اس تعریف سے ثابت ہوا کہ لغت میں ہر خرق عادت کو معجزہ کہتے ہیں چاہے وہ نبوت کے ساتھ خاص کوئی خرق عادت امر ہو یا پھر ولی کی ولایت پر دال کوئی کرامت نیز معجزہ کی اس تعریف سے یہ بھی ثابت ہوا کہ معجزہ کی کئی اقسام ہیں ان میں سے بعض وہ ہیں کہ جنکے ساتھ نبی کی نبوت کا چیلنج یعنی تحدی شامل ہوتا ہے اور بعض وہ ہیں کہ جو بغیر تحدی یعنی بغیر نبی کے قصد و ارادہ و چیلنج کے ساتھ واقع ہوتے ہیں مزید یہ کہ اگر وہ اعلان نبوت سے پہلے ہوں تو انھے نبوت کی بنیاد یعنی ارہاص کہا جائے گا اور اگر اعلان نبوت کے بعد ہوں تو انھے معجزہ کہا جائے گا قطع نظر اس کہ کے اس میں تحدی شامل ہو یا نہ ہو نبی کا ارادہ و قصد شامل ہو یا نہ ہو چناچہ اسی ضمن میں علامہ غلام رسول سعیدی اپنی مشھور زمانہ تصنیف " مقام ولایت و نبوت " میں لکھتے ہیں کہ بعثت کے بعد نبی کے ہاتھ پر جو خلاف عادت فعل صادر ہو اسے معجزہ کہتے ہیں عام ازیں کہ تحدی ہو یا نہ ہو نیز خلاف عادت امور کی تین صورتیں ہیں اول یہ کے وہ خلاف عادت فعل فقط اللہ تعالٰی کا فعل ہو اور نبی کے کسب اور اختیار کا اس میں بالکل بھی دخل نہ ہو جیسے نزول قرآن یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا مگر اس میں آپ کے کسب اور قصد کا کوئی دخل نہیں (یعنی نہ تو آپ کوئی ایسا کسب فرماتے تھے کہ جس سے قرآن آپ پر نازل ہوجایا کرتا کہ جب بھی آپ وہ کسب فرمائیں اللہ پاک آپ پر قرآن کا نزول فرمائے اور نہ ہی آپ ایسا کوئی قصد فرماتے تھے کہ آپ پر قرآن نازل ہونا شروع ہوجائے از آبی ٹوکول) کہ آپ جب چاہتے تو قرآن کو اپنے اوپر نازل کرالیتے ۔۔۔ خلاف عادت افعال کی دوسری قسم یہ ہے کہ نبی اللہ پاک سے کسی خلاف عادت امر پر دعا مانگےاور اللہ پاک اس دعا کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے وہ امر غیر عادی (نبی کے ہاتھ پر ) ظاہر فرمادے پھر اس امر غیر عادی کا ظہور محض وقتی طور پر ہو تو اس میں بھی نبی کے کسب کا (براہ راست) کوئی عمل دخل نہیں ہوتا (سوائے اسکے کہ نبی بطور کسب دعا فرماتا ہے ) جیسے حضور کی دعا سے چاند کا شق ہونا وغیرہ پھر یہ اگر اللہ پاک وہ امر غیر عادی مستقل طور پر نبی کو عطا کردے تو اس میں پھر نبی کے کسب کا عمل دخل ہوتا ہے کہ جب چاہے کرئے اور جب چاہے نہ کرئے اس پر دلیل حضرت موسٰی علیہ السلام کی وہ دعا ہے کہ جو انھوں نے اپنی زبان کی لکنت دور کرنے کے لیے مانگی تھی تو اللہ پاک نے بطور امر غیر عادی انکی اس دعا کی برکت سے ان کی زبان سے وہ گرہ کھول دی اور پھر مستقل طور پر وہ امر حضرت موسٰی کو تفویض کردیا کہ جب چاہتے بغیر لکنت کہ کلام فرماتے ہر بار نئی دعا کی ضرورت پیش نہ آتی تھی ۔۔۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ نبی کے قصد و اختیار اور کسب سے کوئی امرخارق واقع ہو جیسا کہ اس پر حدیث بخاری شاہد ہے کہ حضرت عبداللہ بن عتیک کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو وہ اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور فریاد کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفا کے قصد و ارادہ کے ساتھ صحابی کی پنڈلی پر پر بطور کسب اپنا ہاتھ پھیرا تو نتیجتا اللہ پاک نے آپ کے ہاتھ پھیرنے کہ کسب کی برکت سے صحابی کی پنڈلی میں فعل شفا کو پیدا فرمادیا ۔ فائدہ :- اس حدیث سے یہ صاف ظاہر ہوا کہ صحابی رسول ہر قسم کی مشکل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں بطور مستغیث حاضر ہوا کرتے تھےچاہے وہ مشکل یا مصیبت امر عادی سے متعلق ہو یا امر غیر عادی سے متعلق نیز اس حدیث یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کے استغاثہ پر کوئی طعن نہیں کیا بلکہ اپنا پیارا پیارا لعاب دہن لگا کر اس امر غیر عادی میں بطور شفاء کے کسب کو انجام دیا اور پھر اللہ پاک نے بطور خلق و ایجاد اس کسب کی برکت سے آپ کے لعاب دہن میں شفاء کو پیدا فرمادیا اور یوں صحابی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ پھر سے ٹھیک ہوگئی بلکہ میرا ایمان ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئی معزز قارئین کرام اس طریق کی سینکڑوں احادیث ہیں جو کہ متواترہ طور پر امت میں رائج چلی آرہی ہیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک جبہ سے صحابہ کرام کا شفاء حاصل کرنا موئے مبارک سے فتح و شفاء حاصل کرنا اور آپکے مبارک ناخنوں اور چادر مبارکہ کو صحابہ کرام کا اپنے کفن میں رکھنے کی وصیت کرنا اور آپ کے جسم مبارک سے مس چادر کو بطور کفن کے پہننا حتٰی کہ ابی ابن سلول جیسا رئیس المنافقین اجل منافق بھی آپ کے کرتہ مبارکہ سے شفاعت کا قائل تھا لہزا اسکی وصیت پر اسکے بیٹے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتہ مبارک مانگا اور آپ نے عطا فرمایا نیز اسی طریق پر قرآن پاک سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معجزات ثابت ہیں کہ آپ علیہ السلام اپنے قصد و ارادہ سے مٹی سے پرندے بناتے پھر ان میں خود ہی پھونک مارتے تو وہ اللہ کے فعل خلق وایجاد سے اصل پرندے بن جاتے اسی طرح آپ مادر زاد اندھوں اور برص کے مریضوں پر اپنا دست شفاء بطور کسب کے پھیرتے تو اللہ پاک آپ کے دست شفاء کی برکت سے اس میں فعل شفاء کو بطور خلق و ایجاد کے پیدا فرمادیتا اور یوں سینکڑوں مریض روزانہ آپکی مبارک بارگاہ سے فیض یاب ہوکر رو بہ صحت ہوجاتے ۔خیر بات بہت لمبی ہوگئی ہم عرض کررہے تھے معجزہ کی تعریف معجزہ اور کرامت میں فرق نیز معجزہ اور کرامت میں نبی یا ولی کا اختیار بطور کسب کے ہونا اب ہم آئندہ صفحات میں معجزہ یا کرامت میں نبی یا ولی کے کسب کہ عمل دخل کے ہونے یا نہ ہونے پر تفصیلی گفتگو نقل کریں گے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ مسئلہ خلق و کسب کو اچھے طریق سے سمجھ لیا جائے ۔ ۔ ۔ لہذا ہمارا اس سے اگلا مراسلہ خلق و کسب کی بحث پر نیز معجزہ اور کرامت میں نبی یا ولی کے کسب کہ عمل دخل کی بحث پر مشتمل ہوگا قدرے تفصیل کے ساتھ تب تک کے لیے والسلام ۔ ۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ -
Mojza Mai Ambiya Aleh Salam Ka Ikhtiyar
Aabid inayat replied to Toheedi Bhai's topic in عقائد اہلسنت
بطور کسب معجزات و کرامات انبیاء اولیاء کا فعل ہی ہوا کرتی ہیں اور انھے اس امر پر بطور کسب کے بھرپور قدرت حاصل ہوتی ہے بالکل اسی طرح سے کہ جیسے عام مادی زندگی میں ہمیں اپنے تمام تر افعال پر بطور کسب کے تو قدرت حاصل ہے مگر ان کسائب پر مرتب ہونے والے اخروی اور حتمی نتائج اللہ پاک کے فعل خلق و ایجاد کے ہی رہین ہوتے ہیں فرق فقط اتنا ہے کہ ایک عام انسان کا اکتساب فقط امور عادیہ کے بطور ہی نتیجہ خیز ہوتا ہے جبکہ انبیاء و اولیاء کا کسب معجزہ و کرامت امور غیر عادیہ کے بطور نتیجہ خیز ہوا کرتا ہے لہذا ان دونوں امور میں بطور کسب و اختیار کے کوئی فرق نہیں سوائے اس کے انبیاء و اولیاء کے فعل کسب میں ایک خاص ملکی قوت اللہ پاک نے رکھ دی ہوتی ہے اور جب وہ اس قوت کو بطور کسب کے استعمال کرتے ہیں تو نتیجتا اللہ پاک ان کے ہاتھوں پر امور غیر عادیہ کی صورت میں افعال کو تخلیق کرتا ہے کہ جسے عموم میں خرق عادت یا معجزہ یا کرامت کہہ دیا جاتاہے ۔۔۔ لہذا ثابت یہ ہوا کہ جس طرح ہم اور ہمارے اعمال بحیثیت کسب ہمارے افعال کہلاتے ہیں مگر ہمارے ان افعال کے جو نتائج ہوتے ہیں وہ رہین ہوتے ہیں اللہ کے فعل خلق و ایجاد کے یعنی ہمارے کسائب سے جو نتائج مرتب ہوتے ہیں وہ مرہون منت ہیں اللہ کے فعل خلق و ایجاد کے بالکل اسی طرح معجزہ اور کرامت میں بھی اولیاء اللہ کا خصوصی کسب ہی زیر قدرت انبیاء و الیاء کے ہوتا ہے نیز اس پر بھی نتائج بطور حتمی نتیجہ کے بارگاہ الہٰی سے ہی بطور خلق و ایجاد کے مرتب ہوتے ہیں -
Question: Makalaat E Kazmi: Chapter Tawheed.
Aabid inayat replied to MuhammedAli's topic in مناظرہ اور ردِ بدمذہب
اس آیت میں اگر غور کیا جائے تو " لیقربونا الی اللہ زلفٰی " سے پہلے" ما نعبدھم " بھی ہے لہذا " لیقربونا " کو " مانعبدھم " کے تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا چاہیے تبھی ہم اس آیت کے گوہر مقصود کو پاسکتے ہیں۔ اس آیت میں "مانعبدھم " کہہ کرمشرکین مکہ نے اپنے معبودان باطلہ کی عبادت کا کھلم کھلا اعتراف کیا ہے جو کہ اس آیت میں شرک جلی کا بہت بڑا اور واضح قرینہ ہے مگربعض لوگ ہیں کہ انکی نظر نہ جانے کیوں فقط " لیقربونا " پر جاکر اٹک جاتی ہے " مانعبدھم " پر نہ جانے کیوں نہیں جاتی جو کہ اس آیت میں شرک کا بہت بڑا اور واضح قرینہ ہے۔ چناچہ اس آیت میں لفظ " لیقربونا " مشرکین کے اس فعل عبث کی علت کے بطور آیا ہے کیونکہ مطلق اللہ کا تقرب حاصل کرنا گناہ نہیں ہے بلکہ اللہ کا تقرب حاصل کرنا تو عین ایمان ہے اور اس کے لیے وسائل اختیار کرنا بھی اصول دین کے عین مطابق ہے جیسے کہ نماز جو کہ غیر خدا ہے اور فعل بندہ ہے مگر تقرب الہٰی کا ایک بہت بڑا زریعہ ہے اسی طرح حرمت رسول ،تعظیم و توقیر اور ادب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی بارگاہ صمدیت میں تقرب کا بہت بڑا زریعہ ہے لہذا اس آیت میں تنقید مطلقا " مانعبدھم " کی علت یعنی " لیقربونا " پر نہیں بلکہ بذات خود فعل " نعبدھم " پر ہے جو کہ شرک جلی ہے،پس ثابت ہوا کہ قرب الہٰی کے لیے وسیلہ اختیار کرنا شرک نہیں بلکہ اس وسیلہ کو معبود بنا لینا شرک ہے اور یہی وہ شرک ہے جو کہ مشرکین مکہ کیا کرتے تھے اور برملا اس کا اعتراف بھی کیا کرتے جب کہ آج کہ دور کا کوئی جاہل سے جاہل مسلمان کسی بھی نبی یا ولی کی عبادت نہیں کرتا اور نہ ہی انکے بارے میں معبودیت کا کوئی ایسا عقیدہ رکھتا ہے ہاں مگر ان کو بارگاہ الہٰی میں تقرب کا وسیلہ ضرور جانتا ہے ۔۔ -
فتنون کا دور ہے اور یہ فتنے کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام کے دور سے ہی شروع ہوگئے تھے امام بخاری علیہ رحمہ نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ وہ خارجیوں کو کائنات کی بدترین مخلوق گردانتے تھے کیونکہ وہ خارجی کفار کہ حق میں وارد شدہ آیات کو پڑھ پڑھ کر مومنین پر چسپاں کیا کرتے تھے ۔۔ وہ خارجی اپنے زعم میں توحید پرست اوراپنی توحید کو صحابہ کرام کی توحید سے بھی کامل اور اکمل سمجھنے والے تھے اور یوں وہ توحید کہ اصل اور حقیقی ٹھیکدار بنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور ایک طبقہ آج کہ دور کا ہے ، جسکا بھی بعینیہ وہی دعوٰی ہے کہ سوائے انکے کوئی موحد و مومن ہی نہیں لہذا اس طبقہ کواورکوئی کام ہی نہیں سوائے اس کے یہ بھی قرآن اور حدیث کو فقط اس لیے کھنگالتے ہیں کہ کہیں سے انکو امت مسلمہ کہ جمہور پر کفر و شرک کا حکم لگانے کی کوئی سبیل میسر آجائے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ معزز قارئین کرام کیا آپ نے کبھی ہلکا سا بھی تدبرکیا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا قول پر ؟؟؟ کیا ہے تو آپ پر صاف ظاہر ہوجائے گا کہ اس وقت کہ نام نہاد توحید پرست خارجی کس قدر دیدہ دلیر تھے کہ وہ اپنی توحید میں خود کو صحابہ کرام سے بھی بڑھ کرسمجھتے تھے تبھی تو وہ اسلام کے خیر القرون کے دور کے اصحاب اور تابعین مسلمانوں پر شرک کہ فتوے لگاتے تھے قارئین کرام کیا آپ امیجن کرسکتے ہیں کہ اسلام کہ ابتدائی دور میں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ بہترین جماعت یعنی صحابہ کرام موجود ہوں اور پھر انھی کے شاگرد یعنی تابعین کرام کا طبقہ بھی موجود ہو جو کہ براہ راست صحابہ کرام سے فیض حاصل کررہا ہو اور چند نام نہاد توحید پرستوں کا ٹولہ اٹھے اور توحید کے پرچار کے زعم میں اس پاکیزہ جماعت پرکفر و شرک کے بے جا فتوے لگانا شروع کردے آپ ان کی دیدہ دلیری دیکھیئے ہٹ دھرمی اور جرات کو دیکھیئے اور سر دھنیے انکی توحید پرستی پر۔ اب اتے ہیں اصل مدعا پر دیکھا گیا ہے کہ انـٹرنیٹ پر اسی طبقہ کی اکثریت سورہ یوسف کی آیت نمبرایک سو چھ کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے اور یوں زمانہ خیر القرون کے خارجیوں کی طرح یہ آیت جگہ جگہ نقل کرکے آج کہ دور کے مومنین پر چسپاں کرتے ہوئے انھے کافر و مشرک قرار دینے میں دھڑا دھڑ مصروف عمل ہے لہذا یہ لوگ اس کام کو کچھ اس دلجمعی اور سرعت سے انجام دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑا کار ثواب ہو ۔ تو آئیے معزز قارئین کرام اس آیت سے انکے باطل استدلال کی قلعی کھولیں اور جو مغالطہ دیا جاتا ہے اس کا پردہ چاک کریں لیکن اس سے بھی پہلے ایک بدیہی قاعدہ جان لیں کہ عربی کا مشھور مقولہ ہے کہ الاشیاء تعرف باضدادھا یعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں اور ایک قاعدہ یہ بھی ہے اجتماع ضدین محال ہے یعنی دو ایسی اشیاء جو کہ ایک دوسرے کی ضد ہوں انکا بیک وقت کسی ایک جگہ پایا جانا ناممکن ہے یعنی ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی شخص بیک وقت مومن ومسلم بھی ہو اور مشرک و کافر بھی ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اسلام اور کفر ضد ہیں اور توحید اور شرک آپس میں ضد ہیں اور ایک شخص مسلم تب بنتا ہے جبکہ وہ توحید پر ایمان لے آئے یعنی اللہ کی واحدانیت پر لہذا جب کوئی اللہ کی واحدانیت پر ایمان لے آئے تو تبھی وہ حقیقی مومن ہوگا اور وہ ایک حالت یعنی حالت توحید میں ہوگا اب اسے بیک وقت مومن بھی کہنا اور مشرک بھی کہنا چہ معنی دارد؟؟؟ یا تو وہ مسلم ہوگا یا پھر مشرک دونوں میں کسی ایک حالت پر اسکا ایمان ہوگا اور ایمان معاملہ ہے اصلا دل سے ماننے کا اور یقین رکھنے کا اور پھر اسکے بعد اس کا بڑا رکن ہے زبان سے اقرار ۔ خیر یہ تو تمہید تھی بات کو سمجھانے کی اب آتے ہیں سورہ یوسف کی مزکورہ بالا آیت کی طرف ۔۔۔ معزز قارئین کرام آپ سورہ یوسف کی اس آیت کی تفسیر میں امہات التفاسیر میں سے کوئی سی بھی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں کہ تقریبا سب مفسرین نے یہ تصریح کی ہے یہ آیت مشرکین مکہ کی بابت نازل ہوئی لہذا ہم بجائے تمام مفسرین کو نقل کرنے کہ فقط اسی ٹولہ کہ ممدوح مفسر یعنی امام حافظ ابن کثیر علیہ رحمہ کی تفسیر نقل کرتے ہیں جو کہ شیخ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ہیں۔ آپ اپنی تفسیر میں اسی آیت کہ تحت رقم طراز ہیں کہ : وقوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِٱللَّهِ إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } قال ابن عباس: من إِيمانهم أنهم إِذا قيل لهم: من خلق السموات، ومن خلق الأرض، ومن خلق الجبال؟ قالوا: الله، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد وعطاء وعكرمة والشعبي وقتادة والضحاك وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وفي الصحيحين: أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكاً هو لك، تملكه وما ملك. وفي صحيح مسلم: أنهم كانوا إِذا قالوا: لبيك لا شريك لك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد قد " أي: حسب حسب، لا تزيدوا على هذا. مفھوم : آپ دیکھیئے معزز قارئین کرام کہ امام ابن کثیر نے پہلے اس آیت کی تفسیر میں قول ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ انکا یعنی مشرکین کا ایمان یہ تھا کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان اور پہاڑ کس نے پیدا کیئے ہیں تو وہ کہتے کہ اللہ نے مگر اس کے باوجود وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھراتے۔اور اسی طرح کا قول مجاہد ،عطا،عکرمہ ،شعبی،قتادہ ،ضحاک اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم سے بھی ہے ۔ جبکہ صحیحین میں روایت ہے کہ : مشرکین مکہ حج کہ تلبیہ میں یہ پڑھتے تھے کہ میں حاضر ہوں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک بنایا اور تو اسکا بھی مالک ہے اور صحیح مسلم میں مزید یہ ہے کہ جب مشرک ایسا کہتے تو یعنی کہ لبیک لا شریک لک تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہتے کہ بس بس ،بس اسی قدر کافی ہے اس کہ آگے مت کہو معزز قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ اس آیت کا بیک گراؤنڈ کیا تھا اور یہ کیونکر اور کن کے بارے میں نازل ہوئی ؟ تمام مفسرین نے بالاتفاق اس آیت کہ شان نزول میں مشرکین کہ تلبیہ والا واقعہ نقل کرکے اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ کی اکثریت سمیت منافقین مدینہ کی اقلیت تھی کہ جو کہ اس آیت کا حقیقی مصداق بنے، کہ وہی لوگ اس وقت اکثریت میں تھے نہ کہ مسلمان جیسا کہ خود آیت میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی مشرک ہے تو اس وقت جن لوگوں کی اکثریت تھی وہ مشرکین مکہ اور منافقین تھے نہ کہ اس وقت کہ حقیقی مسلمان جو کہ صحابہ کرام تھے معاذاللہ اگر آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرستوں کہ کلیہ کہ مطابق اس آیت کا اطلاق کیا جائے تو یہ تہمت اور بہتان سیدھا جاکر صحابہ کرام پر وارد ہوتا ہے کہ آخر اس وقت کون لوگ تھے جو ایمان والے تھے ؟؟؟ ظاہر ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت صحابہ کرام ہی ایمان والے تھے مگر کیا اس آیت کی رو سے صحابہ کرام کی اکثریت مشرکوں کی تھی نعوذباللہ من ذالک نہیں نہیں ایسا ہرگز نہ تھا بلکہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ یہ آیت درحقیقت مشرکین مکہ اور منافقین کی مذمت میں نازل ہوئی جو کہ حقیقت میں مسلمانوں کہ مقابلہ میں اکثریت میں تھے اور اس آیت میں جو لفظ ایمان آیا ہے یعنی ان مشرکوں کو جو ایمان رکھنے والا کہا گیا تو وہ محض لغوی اعتبار سے ایمان والا کہا گیا ہے نہ کہ شرعی اور حقیقی اعتبار سےکیونکہ وہ لوگ اللہ پاک کی خالقیت اور ربوبیت کا چونکہ اقرار کرتے تھے لہذا انکے اس اقرار کرنے کی باعث انکے اس اقرارپرصوری اعتبارسے لفظ ایمان کا اطلاق اللہ پاک نے کیا ہے لہذا وہ لوگ اللہ کی خالقیت اور رزاقیت اور مالکیت اور ربوبیت کا تو اقرار کرتے تھے مگراکیلے اللہ کی معبودیت کا اعتراف نہیں کرتے تھے اسی لیے اپنے تلبیہ میں اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا الزام بھی نعوذباللہ من ذالک اللہ کی ذات پر دھرتے تھے کہ تیرا کوئی شریک نہیں اور جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ شریک ہمارے لیے تو نے خود بنایا ہے لہذا ہم اس کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ تیرے بنانے سے تیرا شریک ہے اور توہی اس کا بھی مالک ہے ۔ جب کہ آج کہ دور میں کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی غیر اللہ کسی نبی ولی یا نیک شخص کی عبادت نہیں کرتا اور نہ ہی زبان سے یہ کہتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر فلاں نبی یا ولی تیرے خاص شریک ہیں کہ تو انکا مالک بھی ہے اور تونے انھے ہمارے لیے اپنا شریک خود بنایا ہے نعوذ باللہ من ذالک الخرافات ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم طرفہ تماشا یہ ہے کہ آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرست سورہ یوسف کی اس آیت کو ان معنی میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھی مشرک ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا دعوٰی ہے کہ اگر کوئی کلمہ گو کوئی ایسا اعتقاد رکھے کہ جس سے شرک لازم آتا ہو یعنی اس سے لزوم کفر ثابت ہوتا ہو تو اس کلمہ گو کو اس کے اس اعتقاد کی لزومیت کفر سے آگاہ کیا جائے اگر پھر بھی وہ اس پر اڑا رہے اور اپنے اس کفر پر التزام برتے تو اس کا یہ کفر لزوم سے نکل التزام کفر کے معنی میں داخل ہوکر اس معین شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کردئے گا پھر اسے کافر یا مشرک یا پھر مرتد کہیں گے نہ کہ بیک وقت مسلمان بھی اور مشرک بھی اور یہ ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ جس سے ادنٰی سی عقل رکھنے والا انسان بھی واقف ہوگا چناچہ اسی بات کو مشھور ویب بیسڈ جریدے کے ممشھور سلفی رائٹر جناب حامد کمال الدین نے اپنی کتاب نواقض اسلام میں کچھ یون واضح کیا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ یہاں ”کلمہ گو“ والی غلط فہمی کا ازالہ ایک بار پھر ضروری ہے۔ نواقض اسلام کہتے ہی ان باتوں کو ہیں جو کسی شخص کو اسلام سے خارج کر دیں یعنی کلمہ گو کو کلمہ گو نہ رہنے دیں۔ نواقضِ اسلام ہیں ہی وہ باتیں جو آدمی کے کلمہ گو ہونے کو کالعدم کردیں۔ نواقض اسلام کسی کافر کو اسلام سے خارج کرنے والی باتوں کو نہیں کہا جاتا! بلکہ نواقض اسلام تو عین وہ باتیں ہیں جو کسی ”کلمہ گو“ کو کافر قرار دینے کیلئے علماءاور ائمہ نے بیان کی ہیں۔ پس یہ بات جان لینے کے بعد اس امر کی گنجائش نہیں رہتی کہ آپ کسی کلمہ پڑھنے والے شخص کو طاغوت کی مسند پر دیکھیں یا کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے پائیں تو اسے ”بہرحال مسلمان“ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں، کیونکہ وہ آپ کے خیال میں کلمہ پڑھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ برصغیر کے بعض موحد حلقوں میں __کسی شخص کو ’مشرک‘ تو نسبتاً بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے (کسی کو ایک خاص فرقے کی مسجد میں محض آتے جاتے بھی دیکھ لیا تو جھٹ سے ”مشرک“ کہہ ڈالا!) مگر جب اس کو ”کافر“ کہنے کا سوال آئے تو تب یہ لوگ ’محتاط‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں! حالانکہ ان دونوں باتوں کے لئے ایک ہی درجہ کی احتیاط لازم ہے، کیونکہ یہ دونوں باتیں دراصل لازم وملزوم ہیں۔ جتنا کسی کو ”کافر“ قرار دینا خطرناک ہے اتنا ہی اُس کو ”مشرک“ قرار دینا خطرناک ہے۔ ہر دو کی سنگینی ایک سی ہے۔ یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے ایک خاص طبقے کے ہاں کسی شخص کو ’مشرک‘ کہہ دینے میں کسی ”احتیاط“ یا کسی ”توقف“ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ تمام کی تمام احتیاط یہ لوگ اس ”مشرک“ کو ”کافر“ سمجھنے کیلئے پس انداز رکھتے ہیں! جبکہ معاملہ یہ ہے کہ احتیاط دراصل پہلا قدم اٹھانے کے وقت ہی درکار ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ہر وہ شخص جس سے شرک کے زمرے میں آنے والا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فوراً مشرک نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے کفر کا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فی الفور کافر نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے فسق کا کوئی کام سرزد ہو اُس کو معاً فاسق اور جس سے بدعت کا کوئی کام ہو اس کو جھٹ سے بدعتی نہیں کہہ دیاجائے گا۔ حکمِ مطلق بیان کرنا (کہ فلاں اعتقاد یا فلاں رویہ رکھنے والے شخص کا شریعت کے اندر یہ حکم ہے ایک چیز ہے اور اُس کو بنیاد بنا کر کسی متعین شخص پر وہ فتویٰ لگا دینا ایک اور چیز۔ کسی شخص کے ایسے فعل کی بنا پرجو ہمارے نزدیک شرک کے زمرے میں آتا ہے، اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شروط ہیں: وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جتنی احتیاط ہوسکے وہ یہیں پر، یعنی کسی کو مشرک قرار دیتے وقت، کی جانا ہوتی ہے۔ ’توقف‘ کا اصل مقام یہ ہے۔ لیکن اگر اس سے گزر جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور آپ اُس شخص کو ”مشرک“ ہی قرار دے ڈالتے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ یہ شخص ”مشرک“ تو ہو گیا ہے مگر ہے یہ ”مسلمان“، البتہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔ حق یہ ہے کہ جب آپ نے کسی کو ”مشرک“ کہہ ڈالا تو اُس کو ”کافر“ کہنے میں آپ نے کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ ”احتیاط“ ضروری ہے تو وہ اُس کو مشرک کہتے وقت ہی کر لیا کریں۔ ”شرکِ اکبر“ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور ابدی جہنم کا مستحق۔ اس غلط فہمی کے باعث لوگوں میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ سب مشرک کافر نہیں ہوتے! گویا بعض مشرک مسلمان ہوتے ہیں اور بعض مشرک کافر! اصل قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ کلمہ گو شخص جو شرک کے زمرے میں آنے والے کسی فعل میں پڑ جائے اس کو تب تک مشرک نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اہل علم کے ہاتھوں اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر مشرک ہونے کا باقاعدہ حکم نہ لگا دیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوجاتا اس کے اس شرکیہ فعل کو شرک تو برملا کہا جائے گا اور اس شرک سے اس کو روکا بھی ضرور جائے گا مگر اس شخص کو ”مشرک“ کہنے سے احتیاط برتی جائے گی۔ البتہ جب وہ شرعی قواعد وضوابط کی رو سے اہل علم کے ہاتھوں مشرک ہی قرار دے دیا جائے تو اس وقت وہ دائرۂ اسلام سے خارج بھی شمار ہوگا۔ آج کے نام نہاد توحید پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح روایات پیش کی جاتی ہیں کہ جنکے مفھوم کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے جمہور یا پھر من حیث المجموع ،امت پر شرک جلی کا کوئی خطرہ نہ تھا تو یہ نام نہاد توحید پرست آج کہ دور کے مومنین کی اکثریت کو مشرک ثابت کرنے کے لیے پھر سورہ یوسف کی زیر بحث آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان لکیر کے فقیروں کے فہم کے مطابق ایک تو اس آیت میں لفظ مومن آیا ہے اور دوسرا کثیر لہذا ثابت ہوا کہ آج کہ دور کے جو اکثر مومن ہیں وہ لازما مشرک بھی ٹھرے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کس قدر بھونڈا استدلال ہے یہ ، اور یہی چیز ہم نے اوپر بھی واضح کی کہ آیت میں اگرچہ لفظ مومن آیا ہے مگر وہ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ صوری اور عرفی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور آیت کا شان نزول میں مفسرین نے تینون طبقات کا یعنی مشرکین مکہ ،منافقین مدینہ اور اہل کتاب یہود و نصارٰی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے بحرحال مزکورہ بالا تینوں طبقات میں کسی ایک کو یا پھر تینوں کومشترکہ طور پر بھی اگر اس آیت کے شان نزول کا مصداق مان لیا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ آیت بحرحال اس وقت کے حقیقی مومنین کے حق میں ہرگز نازل نہیں ہوئی اور اسی چیز کو ہم نے اوپر واضح کیا ۔ ۔ اعتراض: جو لوگ ایمان لا کر اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کرتے ان کے لئے امن اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (سورہ الانعام ٨٢) جب یہ ایت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہے ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے نیک بندے(لقمان رضی اللہ عنہ) کا قول نہیں سنا کہ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم عظیم ہے(بخاری کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم رقم ٣٢، ٤٧٧٦) ازالہ اعتراض : سورہ انعام کی اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ ایک مسلمان مسلم ہوتے ہوئے بھی شرک کی آمیزش سے خود کو آلود کرسکتا ہے اور ایسا کرچکنے کہ بعد بھی وہ مسلم ہی کہلواتا ہے درست نہیں کیونکہ جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام گھبرا گئے اور انھوں نے لفظ ظلم کا حقیقی و معروف معنی مراد لیا جو کہ کمی و ذیادتی پر دلالت کرتا ہے چناچہ انھوں نے گھبرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ ہم میں سے کون ہوگا کہ جس سے کبھی نہ کبھی کسی دوسرے کہ حق میں کوئی کمی و بیشی نہ ہوئی ہوگی ؟؟؟ تو کیا ہمارے تمام اعمال ضائع گئے ؟؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیہ کہ حقیقی معنی ان پر واضح کرنے کے لیے سورہ لقمان کی آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد معروف معنوں والا ظلم نہیں بلکہ شرک ہے آیت کی یہ تفسیر سن کر صحابہ کرام کے بے قرار دلوں کو چین میسر ہوا ۔۔۔ اس آیت میں صحابہ کرام کے لیے تنبیہ نہیں بلکہ مژدہ جانفزا تھا کہ ظلم تو حقیقی طور پر ان لوگوں کا ہے کہ جو شرک کرتے ہیں جبکہ تم لوگ تو شرک سے تائب ہوکر پکے سچے مومن ہو ۔۔ اعتراض : فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان جب تک شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی حدیث پیش ہے “" قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢) ازالہ اعتراض : آپکی پیش کردہ اس روایت کی وضاحت میں مفتی ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب انے مضمون عقیدہ توحید اور امت توحید میں رقمطراز ہیں کہ ۔۔ امت مسلمہ کی یہ ایمانی عظمت اب بھی برقرار ہے عقیدہ توحید باقی ہے۔ لیکن چمک میں فرق آنے لگا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حقیقت خود بیان فرمائی ۔ (۱) ’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں خدا کی قسم تمہارے بارے میں خطرہ محسوس نہیں کرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم کہیں دنیا کی محبت میں ڈوب نہ جائو۔ (بخاری شریف حدیث نمبر۱۳۴۴،مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۹۶) (۲) حضرت عبادہ بن نُسَیّ کہتے ہیں میں حضرت شداد بن اوس کے پاس ان کی جائے نماز میں داخل ہوا تو وہ رو رہے تھے میں نے پوچھا اے ابو عبدالرحمن رونے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت شداد نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے ایک حدیث سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ میں نے کہا وہ کونسی حدیث ہے انہوں نے کہا اس دوران کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ایسی کیفیت ملاحظہ کی جس سے میں غمگین ہوا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والدین آپ پر قربان ہو جائیں آپ کے چہرہ مبارک پر میں کیسی کیفیت دیکھ رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک امر کی وجہ سے میں رنجیدہ ہوں جس کا مجھے میرے بعد اپنی امت پرخطرہ ہے۔ میں نے کہا وہ کونسا امر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شرک اور شھوت خفیہ ہے حضرت شداد کہتے ہیں میں نے کہا کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار میری امت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے نہ چاند کی نہ کسی بت کی عبادت کریں گے اور نہ ہی کسی پتھر کی لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کیلئے ریاکاری کریں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ریا شرک ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ریا شرک ہے میں نے کہا شہوت خفیہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے صبح کے وقت روزے کی حالت میں ہوگا اسے دنیا کی شھوتوں میں سے کوئی شھوت عارض ہو جائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا۔ (مستدرک للحاکم جلد نمبر۵ ،ص۴۷۰، کتاب الرقاق، باب الشھوۃ الخفیہ ،حدیث نمبر۸۰۱۰ ،مطبوعہ دارالمعرفۃ ، مسند امام احمد جلد نمبر۵، ص۸۳۵ حدیث نمبر۱۷۲۵۰ ،مطبوعہ عالم الکتب ، ابن ماجہ کتاب الزھد باب الریا والسمعہ، حدیث نمبر۴۲۰۵ ، بیہقی شعب ایمان ،باب فی اخلاص العمل و ترک الریا ،جلد نمبر۵، ص۳۳۳ ، حدیث نمبر۶۸۳۰ ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، حلیہ الاولیا، جلد نمبر۱،ص۲۴۷،مطبوعہ دارا احیاء التراث العربی ) امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (۳) حضرت عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں میں۔ حضرت ابو درداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ حضرت شداد بن اوس اورحضرت عوف بن مالک تشریف لے آئے اور فرمایا اے لوگو میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس کی وجہ سے مجھے تجھ پر شھوت خفیہ اور شرک کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ حضرت عبادہ اور حضرت ابو درداء نے کہا اے اللہ معاف کرے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ ارشاد نہیں فرمایا: شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔ جہاں تک شھوت خفیہ کا تعلق ہے۔ اسے ہم جانتے ہیں وہ دنیا اور عورتوں کی خواہش ہے۔ اے شداد جس شرک سے آپ ہمیں ڈرار ہے ہیں یہ شرک کیا ہے۔ حضرت شداد نے کہا تم خود ہی مجھے بتا ئو جس نے کسی بندے کیلئے دکھلاوا کرتے ہوئے نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا صدقہ کیا۔ کیا اس نے شرک کیا؟ حضرت عبادہ اور حضرت ابو دردا نے کہا ہاں حضرت شداد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جس نے ریاکاری کرتے ہوئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے ریا کرتے ہوئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کرتے ہوئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔ (سیر اعلام النبلاء للذھبی جلد نمبر۴،ص۹۵،مطبوعہ دارالفکر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز میں شرک کی جڑیں کاٹیں کہ ہمیشہ کیلئے اسے ختم کردیا چنانچہ شیطان کو یہ مایوسی صرف جزیرہ عرب کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہوئی ملاحظہ ہو۔ (۴) حضرت جابر سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ نمازی اسکی بندگی کریں۔ ( البدایہ ، ابن کثیر جلد نمبر1،ص۶۶،مطبوعہ دارالمعرفۃ) اس مضمون کی موید اور بھی متعدد احادیث ہیں۔ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے اس امت کا کلمہ توحید پر یقین اتنا دیرپا ہے کہ جب نماز روزہ کا نام بھی باقی نہیں رہے گا یہ کلمہ اس وقت بھی ہوگا اور اس وقت بھی معتبر ہوگا، چنانچہ اس امت میں پہلے عمل میں کمزوری واقع ہوگی عقیدہ توحید بعد میں باقی رہے گا۔امت جس مرحلہ سے گذر رہی ہے یہ امت کے شرک جلی (بت پرستی) میں مبتلا ہونے کا مرحلہ نہیں بلکہ شرک خفی ریا کاری اور دنیا میں رغبت کا مرحلہ ہے۔ ایک حدیث شریف میں جو کچھ قبائل کے مشرک ہو جانے کا ذکر ہے وہ بعد کامعاملہ ہے۔دیکھیے (۵) حضرت حذیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا روزہ کیا ہے صدقہ کیا ہے اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے باقی رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لا الہ الا اللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہ رہے ہیں۔ حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہوگا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا؟ حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا اے صلہ یہ کلمہ ان کو نارجھنم سے نجات دے گا۔تین مرتبہ یہ کہا۔(مستدرک للحا کم جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۶۶۶ حدیث نمبر ۸۵۰۸، سنن ابن ماجہ ، باب ذھا ب القرآن والعلم حد یث نمبر ۴۰۴۹، کتا ب النہایہ فی الفتن لا بن کثیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۰) امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے اس حدیث شریف میں جن حا لات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات یقینا نہیں آئے ، ابھی تو نما زیو ں سے مسجد یں بھر ی ہو ئی ہیں روزے دار روزہ رکھتے ہیں آج کے حا لات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہو نگے جب نماز روزے کا نا م بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہوگا ۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا بھی کلمہ معتبر ہوگا ،چنانچہ آج کے مسلما نوں پر تھوک کے لحا ظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قراردے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکا ن توخدائی کے جھوٹے دعوے کا بھی ہے (معاذاللہ) جب کوئی جھوٹا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خود اللہ ہوں (معا ذاللہ) اس کا رب ذوالجلا ل کے علاوہ کسی اور کو معبود مان کر شرک کرنے کا امکا ن موجود ہے لیکن امت میں ہر طرف پھیل جا نے والا شرک وہ شرک خفی ہے ۔ ریا کا ری ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبین حضر ت محمد مصطفےَصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرادینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے وہ امت سید المر سلین حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث کرنے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک کے بارے میں شرک کو کیسے برداشت کر سکتی ہے جن کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ان کے نزدیک ازلی ابدی حی قیوم اللہ کے ہوتے ہوئے کو ئی اور اللہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ ویسے بھی جب تک قرآن موجو دہے شرک جلی کے امت میں پنپنے کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔ پہلی امتو ں میں جو بد عملی تھی اس کا اس امت میں آجا نا معاذاللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتو ں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں آنا یہ ہر گزنہیں ہے ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پا ک ہے۔ان امتو ں میں ایسا بگاڑجو آیا تو اصلاح کیلئے نبوت کا دروازہ کھلا تھا ۔ مگر یہ امت آخری امت ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ چنا نچہ پہلی امتو ں جیسی شر ک کی بیما ری اس امت کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔اگر تھوک کے لحا ظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا بلکہ کچھ لوگو ں کے بقو ل ـــ’’آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شر ک مسلما نو ںمیں پایا گیا ہے‘‘تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھو ٹے مشرکین کے خلاف جہاد کیلئے نہ بھیجاجاتا بلکہ بڑے مشرکین کے زما نے میں معبوث کیا جا تا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو نہا یت گھمبیر شرک کے زمانے میں مبعوث کیا گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی جڑیں ہمیشہ کیلئے کا ٹ دیں اور اپنی امت کی ریا کاری ،دنیا کی رغبت اور شہوت خفیہ کو شدید فتنہ قرار دیا امت کو شرکیہ امور سے ڈرانا ضرور چاہیے تا کہ کہیں جزوی طور پر بھی امکا نی صورت واقع میں نہ پائی جاسکے مگر توسل ،تبرک کا عقیدہ رکھنے والوں پر اور مزارات اولیاء پر حا ضری دینے والوں پر شرک کا فتوی بہت بڑا ظلم بھی ہے اور ملت میں انتشار کا باعث بھی ہے۔ ۔۔ والسلام
-
دُور نزدیک کے سننے والے وہ کان(سماعت مصطفی ﷺ پر اعتراضات)۔
Aabid inayat replied to Muslampak's topic in مناظرہ اور ردِ بدمذہب
اسلام علیکم بھائی آپکی اس تجویز کی میں بھی حمایت کروں گا کیونکہ انٹرنیٹ پر یونی کوڈ میں زیادہ تر فورمز دیگر مسالک کے لوگوں کہ ہیں کہ جہاں سے وہ اپنے مسالک کی بہترین طریقے اور سبک رفتاری سے ترویج و اشاعت کررہے ہیں جبکہ ہمارے اہل سنت کا سوائے ایک کے اور کوئی یونی کوڈ فورم نہیں ہے میں کتنی مرتبہ اسلامی محفل کی مقتدر ہستیوں سے اپیل کرچکا ہوں کہ اسے یونی کوڈ بنا دیں مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اوپر سے عجیب قسم کہ عذر ہیں کہ ہمارے زیادہ تر ممبر فارن سے ہیں جو کہ انپیج نہیں جانتے یعنی کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ بھلا یہ کوئی بات ہے کہ کہ چند لوگ ان پیچج نہیں جانتے تو ہم اہل سنت کی ترویج کے لیے بہترین لائحہ عمل نہ اختیار کریں پلیز اگر اسلامی محفل یونی کوڈ نہیں بنائی جاسکتی تو پھر برائے مہربانی مصطفوی بھائی کی تجویز کو سامنے رکھتے ہوئے دیگر مسالک کے فورمز کو یہاں کہ مقتدر لوگ جوائن کریں تاکہ اہل سنت کی مؤثر اور معتبر نمائندگی ہوسکے جیسے محدث فورم ، سراط الھدی فورم اور اردو مجلس وغیرہ ۔۔والسلام -
شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام اسلام کےدامن میں کوئی تنگی یا محدودیت نہیں ہےبلکہ یہ ایک آسان واضح اور قابل عمل دین شریعت مطہرہ میں کوئی شئےاس وقت ناجائز قرار پاتی ہےجب اس کو قرآن و سنت یا اجماع ازروئےشرع ناجائز قرار دیں ۔ جس کو قرآن و سنت نےصراحت کےساتھ جائز نہیں کہا اسےاز روئےشرع ناجائز بھی نہیں کہا جاسکتا وہ اس لیےکہ شریعت کا اصول حلال چیزوں کو گنوانےاور انکی گنتی پر نہیں بلکہ قرآن پاک کا یہ اصول ہےکہ اس نےجہاں بھی حلال و حرام کی تقریر بیان کی ہےتو حرام اشیاءکی فہرست گنوا دی ہے اور اس کےعلاوہ ہر شئےکو اصلا مباح قرار دیا ہے اسی اصول پر شریعت کا مشہور قاعدہ ہےکہ الاشیا فی الا صل اباحہ اور ہماری اس بات کی تائید متعدد قرآنی آیات سےہوتی ہے اب آپ سورہ مائدہ کی ان ابتدائی آیات پر ہی غور کرلیں کہ جن میں بڑےواضح الفاظ سےہماری بات کی تائید ہورہی ہے ۔۔۔ یاایھالذین امنو اوفوا بالعقود احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم ۔۔۔۔ اے ایمان والو پورےکرو اپنےعہدوں کو حلال کیےگئےتمہارےلیےچوپائےسوائ ےانکےکہ جن کا حکم پڑھ کرسنایا جائےگا ۔۔۔الانعام١ اب اس آیت پر غور کریں کہ مطلق سب جوپایوں کو حلا ل قرار دیا گیا یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ فلاں بھی حلال ہے فلاں بھی حلال اور فلاں بھی حلال ہے اور جب باری آئی حرام جانوروں کی تو الا جو کہ حرف استثناء ہے۔ اسے ادا فرما کر یہ یہ کہا گیا کہ حرام وہ ہیں جوکہ ما یتلٰی علیکم کےتحت آئیں گےیعنی جن کا حکم آگے پڑھ کر سنایا جائے گا یعنی جو آگےجاکر تلاوت کیے جائیں گےاور پھر آپ ان سےاگلی آیات دیکھیں تو ان میں حرام جانوروں کی فہرست ہے۔۔۔ میں آپ کو شریعت مطہرہ کہ اس اصول کی ایک آسان مثال اس طرح دوں گاکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ حلال اشیا ءبے شمار ہیں اس لیےدین انکی فہرست نہیں گنواتا جب کہ حرام اشیا چونکہ حلال کےمقابلےمیں کم ہیں اس لیےدین انکے نام لے لیکر گنواتا ہےجیسےکہ ایک کلاس میں پچاس بچے ہوں اور ان میں سےتین بچے فیل ہوجائیں تو استاد اُن فیل ہونے والےتینوں بچوں کےنام لیکر بتا دےگا کہ باقی سب بچے پاس ہیں اب اگر وہ ایسا نہ کرےبلکہ ایک ایک پاس ہونے والےبچےکا زکر کرئےتو اس کا ایسا کرنا آداب و حکمت کےبھی خلاف ہوگا اور فصاحت و بلاغت کےبھی منافی ہوگا۔۔۔ اسی لیےہم عرض کررہےتھےکہ کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسے دلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ نبی کریم ور صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔ اور اگر اسی کو قاعدہ مان لیا جائے تو پھر ہر وہ عمل کہ جس کا قرآن میں ذکر نہیں اسے بدرجہ اولیٰ بدعت کہا جانا چاہیےکیونکہ اگر حضور یا صحابہ کےترک سے کوئی فعل بدعت قرار پا سکتا ہے تو پھر قرآن پاک جو کہ کلام الٰہی ہےاس کے ترک سے aPس فعل کو بطریق اولٰی بدعت قرار دیا جانا چاہیے۔ اسی لیے اصل ضابطہ یہ ہے کہ قرآن نےجو چیزیں حرام کی ہیں وہ بیان کردیں ہیں اور جن کے بارے میں خاموشی اختیا ر کی ہے وہ جائز ہیں قرآن اپنا یہ قاعدہ یوں بیان کرتا ہےکہ۔۔ قد فصل لکم ما حرم علیکم الانعام 119 یعنی :اس نےتم پر جو چیزیں حرام قرار دیں ان سب کو تفصیلا بیان کردیا ۔ اور اسی طرح ایک اور مقام پر یوں فرمایا کہ۔۔ واحلال لکم ما ورا ذالکم النساء 24۔ یعنی اور اسکےسوا تمہارے لیے سب حلال ہے ۔ یہاں ذالکم میں کم کی ضمیر کا مرجع وہ اشیاء ہیں کہ جنکا بیان اس کی آیت کے ماقبل میں ہے یعنی یہاں کم کی ضمیر بیان شدہ چیزوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔۔ ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔ تصور بدعت کی مزید وضاحت از روئے حدیث ۔ پہلی حدیث۔۔۔۔ جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرےاسےاپنےعمل اور ان کےعملوں کا بھی ثواب ہے جو اس پر عمل کریں بغیر اس کے ان کا اجر کم ہو اور جو شخص اسلام میں برا طریقہ ایجاد کرےاس پر اپنی بد عملی کا گناہ ہےاور انکی بد عملیوں کا بھی کہ جو اس پر کاربند ہوئے بغیر اسکےان کےگناہوں میں سےکچھ کم ہو۔ مسلم شریف۔ اس حدیث پر غور کرنےسےصاف معلوم ہوتا ہےکہ اس کا حکم قیامت تک کہ مسلمین کے لیے ہے ۔ اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ اصول اور قاعدہ بیان فرمادیا ہےکہ جو کوئی بھی کسی نیک عمل کو دین میں رائج کرئےگا اسے خود اس کا ثواب ملے گا اور دوسرے لوگ جو کہ اس کے اس عمل میں اس کےساتھ شریک ہوں گے ان کا ثواب بھی بغیر انکے ثواب میں سےکچھ کمی کےاسے ہی ملےگا جو کہ اس نیک عمل کا ایجاد کرنے والا ہوگا اور اسےان سب کا ثواب اس لیے ملےگا کہ اس نےاس نیک عمل کو ایجاد کیا تھا لہذا بحیثیت موجد اسےتمام عمل کرنے والوں کا ثواب بھی ملے گا۔ اور بالکل اسی طرح سےجو کوئی بری رسم یا طریقہ اسلام میں نکالےگا اسے اس کا گناہ اور دیگر جو اس پر عمل کریں انکو بھی اس کا گناہ اور ان سب کےگنا ہ کا مجموعہ اس بدعت کےایجاد کرنے والےکو ہوگا کیونکہ اس نے اس برےطریقہ کو ایجاد کیا ۔۔۔ یہ حدیث بدعت کےحسنہ اور سئیہہونے پر کتنی واشگاف دلیل ہے اب اس کا انکار کوئی خود سر ہی کرسکتا ہے۔ دوسری حدیث۔۔۔ من ابتدع بدعۃضلالۃ ۔۔۔۔۔۔۔مشکوٰۃ باب الاعتصام۔ یعنی جو شخص گمراہی کی بدعت نکالےجس سے اللہ اور رسول راضی نہ ہوں اس پر ان سب کے برابر گنا ہ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے اور یہ ان کےگناہوں سےکچھ کم نہ کرےگا۔ مشکواۃ باب الاعتصام۔ اس مسئلہ میں اسماعیل دہلوی رقمطراز ہیں ۔ ۔۔ جو بدعت مردود ہے وہ بدعت مقید ضلالت سےہے ۔ رسالہ چہاردہ مسائل بحوالہ اسماعیل دہلوی۔ اب اگر اس حدیث کےشروع کےالفاظ پر اگر غور کیا جائےتو آپ لوگ بنظر انصاف دیکھیےکہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ بدعت کی تقسیم پر دال ہیں اور آقا کریم نےیہاں واضح طور پر بدعت ضلالت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ بدعت کا تصور آثار صحابہ کی روشنی میں جیسا ک گذشتہ بحث میں ہم نے یہ ثابت کیا کہ بدعت اپنے لغوی مفہوم کےاعتبار سےہر نئےکام کو اور نئی چیز کو کہا جائےگا اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارےاس تصور کی کوئی نظیر عہد صحابہ سےبھی ملتی ہےیا نہیں اس کےلیےہم انتہائی اختصار کےساتھ صرف سید نا صدیق اکبر اور سیدنا عمر فاروق کےعمل مبارک کو بطور استدلال پیش کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےوصال مبارک بعد جب سیدنا صدیق اکبر نےمنصب خلافت سنبھالا تو اس وقت جھوٹی نبوت کےدعویدار مسیلمہ کذاب کےساتھ جنگ میں سات سو حفاظ کرام صحابہ شہید ہوگئےجب حضرت عمر فاروق نے یہ دیکھا تو آپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں قرآن کا وجود خطر ےمیں نہ پڑھ جائےچناچہ آپ صدیق اکبر کی خدمت میں حاضر ہوئےاور عرض کی اے خلیفہ رسول حفاظ صحابہ جنگوں میں شہید ہوتے جارہے ہیں کہیں کل کو حفاظت قرآن امت کے لیےمسئلہ نہ بن جائے اس لیےمیری ایک تجویز ہےکہ قرآن کو ابھی سےایک کتابی صورت میں جمع کردیا جائےاس طرح حفاظت کا بہتر انتظام ہوسکےگا ۔جس پر صدیق اکبر نےفرمایا کہ۔۔۔ کیف ما افعل شیا ءمالم یفعلہ رسول اللہ؟ یعنی میں وہ کام کیسےکروں جو رسول اللہ نےنہیں کیا۔ (نوٹ :حصرت صدیق اکبر کہ اس اعتذار کو بنیاد بنا کر آج کل کہ مخالفین اہل سنت (یعنی اہل بدعت )، اس اعتذار کو اہل سنت پر اپنے مؤقف کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں کیا ، کیا معاذاللہ تمہیں ان سے زیادہ دین کی سمجھ ہے کیا دین ابھی مکمل نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ) جس پر عمر فاروق نےجو جواب دیا وہ ہماری بیان کردہ تقسیم کی نا صرف واضح تائید ہے بلکہ بڑا ایمان افروز ہے آپ رضی اللہ عنہ نےفرمایا اے خلیفۃ الرسول یہ درست ہے کہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنہیں کیا مگر۔۔۔۔ ھو اللہ خیر یعنی یہ کام بڑا خیر والا ہے۔۔۔ بخاری ساری بحث کو لکھنا مقصود نہیں مقصود صرف وہ تصور سمجھانا تھا جو کہ ہم نے پیش کیا کہ ہر نیا کام جس کو رسول اللہ نے نہ کیا ہوتا تھا صحابہ بھی اس کو بدعت ہی تصور کرتے تھےمگر اگر وہ کام فی نفسہ اچھا ہوتا تو پر اس کا م کو روا رکھتے تھے۔۔ اسی طرح باجماعت تراویح والہ معاملہ ہے جسےحضرت عمر نےرائج کیا جب بعض صحابہ کو اچھنبا ہوا تو آپ نے فرمایا نعمۃ البدعۃ ھذہ ا س روایت میں حضرت عمر کے ان الفاظ نے واشگاف طور پر بدعت کی تقسیم کا قاعدہ بیان کردیا اب اگر کوئی محض اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سےاسے نہ مانےتو منوا دینا ہمارےبس میں نہیں۔۔۔ اب آخر میں لگے ہاتھوں اس اعتراض کا بھی قلع قمع کرتا چلوں جو کہ الیوم اکملت لکم دینکم کی آیت کی صحیح تفھیم نہ ہونے کی بنا پر بعض احباب کرتے ہیں ۔ ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اس آیت کی رو سئے دین تکمیل پا چکا تو پھر بعد میں نت نئی اختراعات کی کیا ضرورت اور اگر ضرورت ہی ٹھری تو پھر اللہ پاک کے اس ارشاد الیوم اکملت لکم دینکم کا کیا مصداق کیا آُ اس سے دین کی تکمیل مراد نہیں لیتے وغیرہ وغیرہ ؟؟؟ تو جوابا عرض ہے کہ بلاشبہ ہم بھی اس آیت سے دین کی تکمیل ہی مراد لیتے ہیں مگر اس مفھوم میں نہیں کہ جس مفھوم میں اکثر احباب لیتے ہیں بلکہ ہمارے نزدیک اس آیت سے مراد دین کا اصولی اور تفصیلیطور پر مکمل ہوجانا ہے ۔ لہذا اس آیت کی تفسیر میں صاحب نور العرفانلکھتے ہیں یاد رہے کہ ذات کی تکمیل کا نام اکمال اور صفات کی تکمیل کا نام اتمام ہے ۔ اسی لیے اللہ پاک نے اس آیت میں اکملت کے ساتھ دیناور اتممت کے ساتھ نعمتی کا ذکر فرمایا ہے ۔ ۔ ۔ مقصود یہ کہ اس آیت کے نزول کے بعد قیامت تک کے لیے اسلام کا کوئی بھی حکم منسوخنہیں ہوسکتا ہے اور اس کے بنیادی جو اصول ہیں ان میں کوئی کمی یا بیشی نہیں ہوسکتی ہاں البتہ اجتھادی اور فروعی مسائل قیامت تک نکلتے رہیں گے اور ان کا حل بھی اسی اسلام کے اکمال شدہ اصولوں کی روشنی میں قیامت تک کے لیے نکلتا رہے گا لہذا ثابت یہ ہوا کہ اس آیت سے یہ مراد ہے کہ دین اسلام بطور اصولا اور تفصیلا مکمل ہوچکا رہ گئے وہ مسائل کہ جن کا اس میں تفصیلا ذکر نہیں تو ان کو اس کے قائم کردہ اصولوں پر پیش کرو اور انکی روشنی میں انکا حل نکال کر امت کو قیامت تک کے آنے والے مسائل کا حل دیتے رہو ۔ صاحب تفھیم القرآناسی آیت کی روشنی میں رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہوچکی ہے یعنی اب تمہارا دین اب ایک مستقل نظام بن چکا ہےاور خود اپنی حاکمانہ طاقت کے ساتھ نافذ اور قائم ہے کافر جو اب تک اس کے قیام میں مانع اور مزاحم رہے ہیں اب اس طرف سے مایوس ہوچکے ہیں کہ اسے مٹاسکیں اور تمہیں پھر پچھلی جاہلیت کی طرف واپس لاسکیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اسکے بعد پھر لکھتے ہیں کہ دین کو مکمل کردینے سے مراد اس کو ایک مستقل نظام فکر وعمل اور ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن بنا دینا ہے جس میںزندگیکےجملہ مسائل کا جواب اصولا یا تفصیلا بیان موجود ہو اور ہدایت اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اس سے کسی بھی صورت میں باہر جانے کی ضرورت نہ پیش آئے ۔ امید کرتا ہوں میں اپنی بات کی وضاحت میں کامیاب ہوگیا ہوں گا۔ وما علینا الاالبلاغ۔۔ والسلام آپ سب کا خیر اندیش عابد عنائت۔
-
مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیےکہ ضروری نہیں ہےکہ ہر بدعت قرآن و حدیث سےمتصادم ہی ہو بلکہ بےشمار بدعات ایسی ہیں جو کہ نہ تو کتاب و سنت کےمنافی ہیں اور نہ ہی شریعت کی روح کےخلاف اسی لیے انھیں بدعت مباحہ کہا جاتا ہےجو بدعت شریعت کےخلاف ہو اسےبدعت سئیہ کہتےہیں اگر اس بنیادی امتیاز کو نظر انداز کرکےہر نئی چیز کو بغیر اس کی ماہیت ، افادیت ،مقصدیت اور مشروعیت کےتجزیئےکےبدعت قرار دےدیا جائےتو عہد خلافت راشدہ سےلیکر آج تک کےلاکھوں شرعی اجتہادی اور اجتماعی فیصلے ، احکام مذہبی رسوم اورمعاملات معاذاللہ ضلالت و گمراہی قرار پائیں گےاور ہمیشہ کے لیےدینی معاملات میں اجتہاد ، استحسان، مصالح و استصلاح کا دروازہ بند ہوجائےگاجس سےلا محالہ بدلتےہوئےحالات میں اسلام کا قابل عمل رہنا بھی نا ممکن ہوجائےگا۔ پس اگر کوئی عمل نہ کتاب میں مذکور ہو نہ اس امت کےرسول نےایسا کرنےکا حکم دیا ہو بعد ازاں امت کے صلحاءکسی نئےعمل یعنی بدعت مباحہ کو وضع کرکےرضائےالٰہی ک حصول کےلیےاپنا لیں تو انما الاعمال بالنیات کےتحت وہ عمل بھی عنداللہ مقبول اور باعث اجرو ثواب ہوگا اور اس کو بدعت حسنہ یا مستحسن عمل کہیں گےہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔ ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید 27 ترجمہ۔پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔ اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسےہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکا نہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصول ِرضائےالہٰی کےلیےاس عمل کو اختیارکرلیں تو انھیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہے دیکھیے آیت کے الفاظ میں ابتدعوھا بدعت سےمشتق ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیے ماکتبنٰھا کےالفاظ کیسے واشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نے امت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہے لیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازا اور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میں رہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی ؟کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کے رسول نے کسی ایسےعمل سے روکا بھی نہ ہو اسے اگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہے بلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔ جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں۔ اگر آپ الابتغاءرضواناللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کے لیے ہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔ فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔ تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔۔ فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھم کےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔ مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائے (اور ایسے ہی کام کو بعض علماء لغتا بدعت کہہ دیتے ہیں) اور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔
-
تصور بدعت از روئے قرآن و سنت و تصریحات ائمہ اسلام ایک آسان، واضح اور قابل عمل نظام حیات ہے۔ یہ چونکہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے لہذا اسکے دامن میں کسی قسم کی کوئی تنگی ، جبر یا محدودیت نہیں ہے۔ یہ قیامت تک پیش آنے والے علمی و عملی،مذہبی و روحانی اور معاشی و معاشرتی تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہےاگر کسی مسئلے کا حل براہ راست قرآن و سنت میں نا ہو تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ بدعت گمراہی اور حرام و ناجائز ہے کیونکہ کہ کسی مسئلہ کا ترک زکر اسکی حرمت کی دلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ حلت و اباحت کی دلیل ہے۔ کسی بھی نئے کام کی حلت و حرمت جاننے کا صائب طریقہ یہ ہے کہ اسے قرآن و سنت پر پیش کیا جائے اگر اس کا شریعت کے ساتھ تعارض یعنی ٹکراؤ ہوجائے تو بلا شبہ بدعت سئیہ اور حرام و ناجائز کہلائے گا لیکن اگر اسکا قرآن و سنت کے کسی بھی حکم سے کسی قسم کا کوئی تعارض یا تصادم لازم نہ آئے تو محض عدم زکر یا ترک زکر کی وجہ سے اسے بدعت سئیہ اور ناجائز اور حرام قرار دینا قرار دینا ہرگز مناسب نہیں بلکہ یہ بذات خود دین میں ایک احداث اور بدعت سئیہ کی ایک شکل ہے اور یہ گمراہی ہے جو کہ تصور اسلام اور حکمت دین کے عین منافی اور اسلام کے اصول حلال و حرام سے انحراف برتنے اور حد سے تجاوز کرنے کے مترادف ہےایک بار جب اسی قسم کا سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ حلال وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حلال ٹھرایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حرام ٹھرایا رہیں وہ اشیا ء کہ جن کے بارے میں کوئی حکم نہیں ملتا تو وہ تمہارے لیے معاف ہیں۔ جامع ترمزی جلد 1 ص 206 مذکورہ بالا حدیث میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا زکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہذا محض ترک زکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی مذمت بیان کی ہے جو اپنی طرف سے چیزوں پر حلت و حرمت کے فتوےصادر کرتے رہتے ہیں لہذا ارشاد باری تعالی ہے۔۔ اور وہ جھوٹ مت کہا جو تمہاری زبانیں بیان کرتیں ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام اس طرح کے تم اللہ پر بہتان باندھو بے شک وہ لوگ جو اللہ پر بہتان باندھتے ہیں کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ النحل 116۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دین دینے والا لااکراہ فی الدین اوریریداللہ بکم الیسر فرما کر دین میں آسانی اور وسعت فرمائے اور دین لینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وما سکت عنہ فھو مما عنہفرما کر ہمارے دائرہ عمل کو کشادگی دے مگر دین پر عمل کرنے والے اپنی کوتاہ فہمی اور کج فہمی کے باعث چھوٹے چھوٹے نزاعی معاملات پر بدعت و شرک کے فتوے صادر کرتے رہیں۔ ہماری آج کی اس گفتگو میں ہم اسلام کے تصور بدعت اور اسکی شرعی حیثیت کا خود قرآن و سنت اور ائمہ کرام کے اقوال سے جائز پیش کریں گے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر تصور بدعت لوگوں کو سمجھ میں آجائے تو بہت سے باہمی نزاعات کا حل خود بخود واضح ہوجاتا ہے لہذا میں نے اس موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا لیکن مجھے اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کا انتہائی حد تک احساس ہے لہذا میں ائمہ دین کی کتب سے ہی اس تصور کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا تو آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کے لفظ بدعت عربی لغت میں کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بدعت کا لغوی مفہوم بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو بدع سے مشتق ہے اس کا معنی ہے .اختر عہ وصنعہ لا علی مثال ۔ المنجد یعنی نئی چیز ایجاد کرنا ، نیا بنانا ، یا جس چیز کا پہلے وجود نہ ہو اسے معرض وجود میں لانا۔ جس طرح یہ کائنات نیست اور عدم تھی اور اس کو اللہ پاک نے غیر مثال سابق عدم سے وجود بخشا تو لغوی اعتبار سے یہ کائنات بھی بدعت کہلائی اور اللہ پاک بدیع جو کہ اللہ پاک کا صفاتی نام بھی ہے ۔اللہ پاک خود اپنی شان بدیع کی وضاحت یوں بیان کرتا ہے کہ۔ بدیع السموات والارض۔ الانعام 101 یعنی وہ اللہ ہی زمین و آسمان کا موجد ہے ۔ اس آیت سے واضح ہو ا کہ وہ ہستی جو کسی ایسی چیز کو وجود عطا کرے جو کہ پہلے سے موجود نہ ہو بدیع کہلاتی ہے بدعت کے اس لغوی مفہوم کی وضاحت قرآن پاک کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ۔۔ قل ماکنت بدعا من الرسل۔ الاحقاف 46 یعنی آپ فرمادیجیے کہ میں کوئی نیا یا انوکھا رسول تو نہیں ۔ مندرجہ بالا قرآنی شہادتوں کی بنا پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ کائنات کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ اللہ پاک کے ارشاد کے مطابق بدعت کہلاتا ہے جیسا کہ فتح المبین شرح اربعین نووی میں علامہ ابن حجر مکی بدعت کے لغوی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدعت لغت میں اس نئے کام کو کہتے ہیں جس کی مثال پہلے موجود نا ہو جس طرح قرآن میں شان خداوندی کے بارے میں کہا گیا کہ آسمان اور زمین کا بغیر کسی مثال کے پہلی بار پید اکرنے والا اللہ ہے۔ بیان المولود والقیام 20۔ بدعت کا اصطلاحی مفہوم اصطلاح شرع میں بدعت کا مفہوم واضح کرنے کے لیے ائمہ فقہ و حدیث نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ۔ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی اصل بالواسطہ یا بلاواسطہ نہ قرآن میں ہو نہ حدیث میں ہو اور اسے ضروریات دین سمجھ کر شامل دین کرلیا جائے یاد رہے کہ ضروریات دین سے مراد وہ امور ہیں کہ جس میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کرنے سے بندہ کافر ہوجاتا ہے۔ ایسی بدعت کو بدعت سئیہ کہتے ہیں اور بدعت ضلالہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کل بدعة ضلالة سے بھی یہی مراد ہے ۔ کیا ہر نیا کام ناجائز ہے ؟ ایسے نئے کام کہ جن کی اصل قرآن و سنت میں نہ ہو وہ اپنی اصل کے اعتبار سے تو بدعت ہی کہلائیں گےمگر یہاں سوال یہ پیداہوتا کہ آیا از روئے شریعت ہر نئے کام کو محض اس لیے ناجائز و حرام قرار دیا جائے کہ وہ نیا ہے ؟ اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائے تو پھر دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں سے کم و بیش ستر فیصد حصہ ناجائز و حرام ٹھرتا ہےکیونکہ اجتہاد کی ساری صورتیں اور قیاس ، استحسان،استنباط اور استدلال وغیرہ کی جملہ شکلیں سب ناجائز و حرام کہلائیں گی کیونکہ بعینہ ان سب کا وجود زمانہ نبوت تو درکنار زمانہ صحابہ میں بھی نہیں تھا اسی طرح دینی علوم و فنون مثلا اصول، تفسیر ، حدیث ،فقہ و اصول فقہ اور انکی تدوین و تدریس اور پھر ان سب کوسمجھنے کے لیے صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی علوم جو تفہیم دین کے لیے ضروری اور عصر ی تقاضوں کے عین مطابق ابدی حیثیت رکھتے ہیں ان کا سیکھنا حرام قرار پائے گا کیونکہ اپنی ہیت کے اعتبار سے ان سب علوم و فنون کی اصل نہ تو زمانہ نبوی میں ملتی ہے اور نہ ہی زمانہ صحابہ میں انھیں تو بعد میں ضروریات کے پیش نظر علماء مجتہدین اسلام نے وضع کرلیا تھا ۔اور اگر آپ کو اسی ضابطے پر اصرار ہوتو پھر درس نظامی کی موجودہ شکل بھی حرام ٹھرتی ہے جو کہ بحرحال دین کو سمجھنے کی ایک اہم شکل ہے اوراسے اختیار بھی دین ہی سمجھ کر کیا جاتا ہے کیونکہ موجودہ شکل میں درس نظامی کی تدریس ، تدوین اور تفہیم نہ تو زمانہ نبوی میں ہوئی اور نہ ہی صحابہ نے اپنے زمانے میں کبھی اس طرح سے دین کو سیکھا اور سکھایا لہذا جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری تو پھر لازما درس نظامی اور دیگر تمام امور جو ہم نے اوپربیان کیئے وہ سب ضلالت و گمراہی کہلائیں گے اسی طرح قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ اسی طرح مساجد مین لاوڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزیئن و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کے جملہ انتظامات سب اسی زمرے میں آئیں گے۔ غلط فہمی کے نتائج بدعت کا مندرجہ بالا تصور یعنی اس کے مفہوم سے ہر نئی چیز کو گمراہی پر محمول کرنا نہ صرف ایک شدید غلط فہمی بلکہ مغالطہ ہے اور علمی اور فکری اعتبار سے باعث ندامت ہے ا ور خود دین اسلام کی کشادہ راہوں کو مسدود کردینے کے مترادف ہے بلکہ اپنی اصل میں یہ نقطہ نظر قابل صد افسوس ہے کیونکہ اگر اسی تصور کو حق سمجھ لیا جائے تویہ عصر حاضر اور اسکے بعد ہونے والی تمام تر علمی سائنسی ترقی سے آنکھیں بند کر کے ملت اسلامیہ کو دوسری تمام اقوام کے مقابلے میں عاجز محض کردینے کی گھناونی سازش قرارپائے گی اور اس طریق پر عمل کرتے ہوئے بھلا ہم کیسے دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے اور اسلامی تہذیب وثقافت اور تمدن اور مذہبی اقدار اور نظام حیات میں بالا تری کی تمام کوششوں کو بار آور کرسکیں گے اس لیے ضروری ہے کہ اس مغالطے کو زہنوں سے دور کیا جائے اور بدعت کا حقیقی اور صحیح اسلامی تصور امت مسلمہ کی نئی نسل پر واضح کیا جائے ۔ بدعت کا حقیقی تصوراحادیث کی روشنی میں حضرت عائشہ فرماتیں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ۔ البخاری والمسلم یعنی جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو اس میں﴿یعنی دین میں سے ﴾ نہ ہو تو وہ رد ہے ۔ اس حدیث میں لفظ احدث اور ما لیس منہ قابل غور ہیں عرف عام میں احدث کا معنی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے اور لفظما لیس منہ احدث کے مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے کہ احدث سے مراد ایسی نئی چیز ہوگی جو اس دین میں سے نہ ہو حدیث کے اس مفہوم سے زہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر احدث سے مراد دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا ہے تو پھر جب ایک چیز نئی ہی پیدا ہورہی ہے تو پھر یہ کہنے کی ضرورت کیوں پہش آئی کہ ما لیس منہ کیونکہ اگر وہ اس میں سے ہی تھی﴿یعنی پہلے سے ہی دین میں شامل تھی یا دین کاحصہ تھی ﴾تو اسے نیا کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور جس کو نئی چیز کہہ دیا تو لفظ احدث زکر کرنے کے بعد ما لیس منہ کے اضافے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بھی چیز ما لیس منہ میں﴿یعنی دین ہی میں سے ﴾ ہے تو وہ نئی یعنی محدثہ نہ رہی ۔ کیونکہ دین تو وہ ہے جو کمپلیٹ ہوچکا جیسا کے اکثر احباب اس موقع پر الیوم اکملت لکم دینکم کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں اور اگر کوئی چیز فی الحقیقت نئی ہے تو پھر ما لیس منہ کی قید لگانے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ نئی چیز تو کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کا وجود پہلے سے نہ ہو اور جو پہلے سے دین میں ہو تو پھر لفظ احدث چہ معنی دارد؟ مغالطے کا ازالہ اور فھو رد کا صحیح مفھوم صحیح مسلم کی روایت ہے من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد مسلم شریف۔ یعنی جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی امر موجود نہیں تو وہ مردود ہے ۔ اس حدیث میں لیس علیہ امرنا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہےکہ کو ئی بھی کام خواہ نیک یا احسن ہی کیوں نہ ہو مثلا میلاد النبی ،ایصال ثواب،وغیرہ اگر ان پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ و تو تو یہ بدعت او مردود ہیں ۔ یہ مفہوم سرا سر باطل ہے کیونکہ اگر یہ معنی لے لیا جائے کہ جس کام کہ کرنے کا حکم قرآن اور سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر مباحات کا کیا تصور اسلام میں باقی رہ گیا ؟ کیونکہ مباح تو کہتے ہی ا سے ہیں کہ جس کہ کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو ام المومنین کی پہلی روایت یعنی من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد میں فھو ردکا اطلاق نہ صرف مالیس منہ پر ہوتا ہے اور نہ فقط احدث پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت میں ہوگا جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوں گی یعنی احدث اور مالیس منہ یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور اسکی کوئی سابق مثال بھی شریعت میں نہ ملتی ہو یا پھر اس کی دین میں کسی جہت سے بھی کوئی دلیل نہ بنتی ہو اور کسی جہت سے دین کا اس سے کوئی تعلق نظر نہ آتا ہو پس ثابت ہوا کہ کسی بھی محدثہ کے بدعت ضلالة ہونے کا ضابطہ دو شرائط کے ساتھ خاص ہے ایک یہ کہ دین میں اس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ محدثہ نہ صرف دین کے مخالف ہو اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرنے والی ہو
-
پروفیسر صاحب کا تو رد ہوگیا مگر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جو ان سب کی ناک کہ نیچے بیٹھا ہوا ہے دن رات خلافت کہ نام پر لوگوں کو گمراہ کررہا ہے خلافت کہ نام پر خاندان بنو امیہ اور حضرت امیر معاویہ کو گالیاں دیتا پھرتا ہے اور انٹرنیٹ اس کی خباثتوں سے بھرا پڑا ہے اسے کوئی کیون نہیں روکتا اور جواب دیتا وہ تو بڑی بڑی عربی کتابوں کہ حوالے دیتا ہے ۔۔۔؟؟؟؟
-
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
-
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
آپ کے تھریڈ کی آپ کی کیا خبر لینی وہ تو ہمیں پہلے سے موصول ہوہی رہی ہے ۔۔۔للو ز -
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
&--#60;p&--#62; اول تو میری جس پوسٹ کو آپ نے کوٹ کیا ہے اس میں چند اور سوالات بھی تھے جو کہ اصلا نفس مسئلہ پر تھے مگر آپ نے ان سب کو نطر انداز کرکے فقط تقلید کو موضوع بحث بنایا ہے تو چلیے آئیے اسی طرف چلتے ہیں ۔۔نے امام ابو حنیفہ کی مثال دی اور فرمایا کہ ان کے بہت سے مسائل قرآن و حدیث کے مخالف ہیں ۔۔۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ اس فورم پر عربی سے اپنی ناآشنائی کا برملا اظہار کرچکی ہیں اور آپ نے فرمایا ہے کہ آپ ابھی تحقیق کے مراحل میں مبتدی طالب علم ہیں تو پھر آپ نے یہ کیسے تحقیق فرما لی کے امام ابو حنیفہ کی فقہ کے اکثر مسائل جو امام ابو حنیفہ علیہ رحمہ کے اجتہاد پر مبنی ہیں وہ قرآن و سنت کے مخالف ہیں ؟؟؟؟ لازما جس تقلید کی آپ ہمیشہ مخالف رہیں ہیں اس سے بھی بدترین قسم کی تقلید کا آپ نے خود مظاہرہ کرتے ہوئے یہ جملے صادر فرمائے ہیں کیونکہ لازما آپ نے یہ جملے اپنے کسی غیر مقلد مولوی کی تحریر یا تقریر پر اعتماد کرتے ہوئے بلکہ اندھا اعتماد کرتے ہوئے یہاں نقل کیئے اور یہی تقلید ہے بلکہ یہ اصلا وہ تقلید ہے کہ جسکی قرآن نے مخالفت کی ہے کیونکہ ہم جو تقلید کرتے ہیں وہ فقہ کے غیر منصوص مسائل میں مجتھد کے اجتھاد پر مبنی کسی رائے کی پیروی ہوتی ہے جبکہ آپ اپنے مولوی کی تقلید میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایک معین امام کہ جنکا درجہ متفق علیہ ہے کے کردار پر تہمت لگا رہی ہیں کہ ان کے بہت سے مسائل قرآن و سنت کے خلاف تھے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا انکے تمام مسائل جو کہ بقول آپ کے قرآن و سنت کہ خلاف تھے وہ بحیثیت مجتھد کہ تھے یا غیر مجتھد کے تھے اگر مجتھد کے تھے تو پھر بھی حدیث کی رو سے انھے ثواب ہے اور اگر غیر مجتھد کے تھے تو پھر انکا یہ منصب نہ تھا کہ وہ اجتھاد کرتے پھر لازما انکی نیت پر حکم لگے کا کہ وہ جان بوجھ کر امت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہے معاذاللہ۔۔۔۔۔۔۔ مگر سب سے اہم جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ تو وہیں کا وہیں ہے کہ آپ نے یہ کیسے جانا کہ انکے اکثر مسائل قرآن و حدیث کے خلاف تھے ؟؟؟ کیا آپکی ذاتی تحقیق ہے ؟؟؟ جو کہ ہونہیں سکتی کیونکہ آپ کو بنیادی عربی بھی نہیں آتی اور اگر پھر بھی یہ آپکی تحقیق ہی ہو تو کیا آپ بتلانا پسند کریں گی وہ کونسے غیر منصوص مسائل ہیں کہ جن میں امام ابو حنیفہ کا اجتھاد تفردات کا شکار ہے نیز ان مسائل میں امام صاحب کی رائے کن کن نصوص کی تعبیر میں دیگر ائمہ سے مختلف ہے اور امام صاحب کا جو طرز استدلال ہے وہ کس طرح سے اور کن کن وجوہات کی بنا پر ان مخصوص مسائل میں قوت استدلال نہیں رکھتا ؟؟؟ نیز وہ کونسے کونسے دیگر نصوص ہیں کہ جنکی بنیاد پر آپ امام صاحب کے اجتھاد کو آپ غیر محل میں قرار دے رہی ہیں کیا آپ کی رسائی ان تمام مسائل میں ان تمام نصوص تک ہے جو کہ امام صاحب کے پیش نظر رہے ؟؟؟ نیزان نصوص تک بھی آپ کی رسائی یقینا ہوگی کہ جن کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے آپ امام صاحب کے اکثر مسائل کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دے رہی ہیں نیز کیا آپ یہ بھی بتلانا پسند فرمائیں گی اکثر نصوص میں جو باہم اختلاف یا بظاہر تعارض واقع ہوتا ہے انکی صحیح تعبیر میں امام صاحب سے کہاں کہاں خطا واقع ہوئی وہ کونسے کونسے متعارض نصوص تھے جو بقول آپ کے امام صاحب کے پیش نظر نہ رہے کہ جسکی وجہ سے انکا اجتھاد باطل ٹھرا نیز امام صاحب نے اپنے اجتھادات میں نصوص کے تعارض کو دور کرنے کے لیے کیا مشھور اصول وضع فرمایا نیز کہاں کہاں ان سے خود اپنے ہی اصول کی خلاف ورزی ہوئی یا پھر ان کی نظر ان شواہدات یا متابعات تک نہ پہنچ سکی کہ جہاں تک آپ کی نظر پہنچی اور آپ نے امام صاحب کے اجتھاد کو غلط قرار دیا وغیرہ وغیرہ امید ہے اس مرتبہ بغیر موضوع سے ہٹے بغیر کسی مولوی کی اندھی تقلید کرتے ہوئے یعنی اس پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے ان سب سوالات کا جواب ضرور ارشاد فرمائیں گی ۔ ۔ اور جہاں تک بات ہے ہماری امام صاحب ہی کی تقلید کی اور دیگر ائمہ کی تقلید نہ کرنے کی تو اول یہ جان لیں کہ تقلید فقہی مسائل میں کی جاتی ہے عقائد میں نہیں اور یہاں جو مسئلہ زیر بحث ہے اس کا تعلق عقائد سے نہ کے فقہ کے مسائل سے ؟؟؟؟پھر یاد رہے کہ تقلید فقہ میں ان غیر منصوص مسائل میں کسی مجتھد کے اجتھاد پر عمل کرنے کا نام ہے کہ جو کہ اختلاف مجتھدیں کی بنا پر مختلف فیہ ہوچکے ہوں ایسے میں ایک عامی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بجائے اپنے نفس کی پیروی کرنے کہ کسی مخصوص امام کے درجہ اجتھاد پر ایک بار اپنے اعتماد کا اظہار کرلے اور ہر بار ہر مسئلہ میں اسی کی رائے پر عمل کرئے وہ اس لیے کہ وہ خود ملکہ اجتھاد رکھتا نہیں لہذا ایسے میں جب مختلف مسائل میں کبھی کسی امام اور کبھی کسی امام کے اجتھاد کو فالو کرے گا تو اسکی یہ اتباع ائمہ اجتھاد کی پیروی نہیں کہلائے گی بلکہ اسکی اپنے نفس کی پیروی کہلائے گی وجہ اسکی یہ ہے کہ اس میں خود تو یہ اہلیت ہی نہیں کہ وہ غیر منصوص مسائل پر صحیح اور سنت کے قریب ترین ہونے کا حکم اپنی مرضی سے لگا سکے لہذا یہی وجہ بنی کے اسے کسی اور کے اجتھاد کا محتاج ہونا پڑا اور ایسے میں جب وہ کبھی کسی اور کبھی کسی متجھد کے اجتھاد پر عمل کرئے گا تو اس کا یہ عمل اپنے اندر تو باطل وجہیں لیے ہوئے ہوگا پہلی یا تو وہ محض اپنے نفس کی پیروی میں اس حکم پر عمل کرئے گا جو کہ اس کے نفس پر اسے آسان معلوم ہو یعنی اسکی خواہش نفس کے قریب ترین ہو ایسے میں اسکی پیروی بجائے امام کے اجتھاد کے اپنے نفس کی پیروی کہلائے گی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یا پھر وہ عامی آپ ہی کی طرح کسی آدھے ادھورے نام نہاد مجتھد کی رائے پر عمل کرتے ہوئے کسی غیر مقلد کی اس رائے کو اپنائے گا کہ جوکہ خود اس غیر مقلد مولوی کی رائے میں درست ہوگی لہذا ہر دو صورت میں اس نے بجائے خود قرآن و سنت پر عمل کے اپنے ہر غیر کی رائے کی اندھی تقلید کی چاہے وہ غیر کوئی غیر مقلد مولوی ہو یا پھر اس کا اپنا نفس ہی ۔۔۔جہاں تک آپ کے اس قیاس باطلہ کا تعلق ہے جو کہ آپ نے ہمارے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش میں فرمایا ہے کہ جب ابن قیم اور ابن کثیر مردوں کے سننے کے قائل ہیں تو آپ لوگ اس پر حکم شرک کیوں نہیں لگاتے ؟؟؟؟ تو آپ نے اس سوال کے جواب میں جو قیاس مع الفارق کی مثال دی ہے وہ جہاں ایک طرف آپکے دین کے معاملات میں ادنٰی تعمق سے عاری ہونے کا عندیہ دے رہی ہے وہیں مبنی بر جہالت بھی ہے وجہ اسکی یہ ہے کہ ہم اوپرعرض کرچکے تقلید فقہی مسائل پر ان مسائل میں ہوتی ہے جو کہ غیر منصوص ہوں یا پھر جہاں نصوص تو ہوں مگر انکا آپس میں بظاہر باہمی تعارض واقع ہورہا ہو ایسے میں ہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے ایک مسلمہ مجتھد کے جس کا دین میں درجہ اجتھاد ظاہر و نافذ ہوچکا ہو کی رائے پر عمل کرنے کے قائل ہیں ۔۔ اور اسے ہی تقلید کہتے ہیں لہذا ہمارے نزدیک ایک معین امام کی تقلید کرتے ہوئے دیگر ائمہ کا احترام اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم اجتھاد اور اس اجتھاد کے نتیجہ میں ہونے والی خطا دونوں کا حکم سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت نے مجتھد کی خطا پر بھی ثواب فرمایا ہے لہذا ہم تقلید تو قول ابو حنیفہ علیہ رحمہ کی کرتے ہیں مگر دیگر ائمہ ثلاثہ کی اس مخصوص مسئلہ میں امام ابو حنیفہ سے منفرد رائے پر کوئی حکم ا س لیے نہًیں لگاتے کہ انکی سب کی اپنی اپنی رائے بھی مبنی بر اجتھاد ہوتی ہے اگر وہ اللہ کے نزدیک درست نہ بھی ہو تو اللہ کے نزدیک اس پر ثواب ہی ہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں ان پر حکم لگانے والے جب کہ خود خدا نے ہی نہیں لگایا ؟؟؟ اور اگر کبھی اللہ کے نزدیک ہمارے امام صاحب کی کوئی اجھتادی رائے مبنی بر خطا ہو تو ہمارا اسکو بھی فالو کرنا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اپنے نفس کی پیروی کرنے والے نہیں ہمیں اپنی صلاحیت تو پہلے سے معلوم ہے کہ ہمیں تو دین کی بنیادی اور مرکزی زبان عربی تک نہیں آتی سو ایسے میں ہر مرتبہ کسی نئے امام کی پیروی کرکے ہم اپنے نفس کو مطمئن نہیں کرتے بلکہ اپنے اسی امام کی پیروی کرتے ہیں کہ جسکا قول اگر اللہ کے نزدیک مبنی بر خطا بھی ہوا تو کیا ہوا وہ قول مبنی پر ثواب ہی ہوگا کیونکہ اسکی وہ اجتھادی خطا معاف ہوچکی ہے لہذا ہم نے ایک ایسے قول کی پیروی کی جو کہ معاف شدہ تھا ۔۔جہاں تک بات ہے ابن قیم اور ابن کثیر پر آپ کے حکم نہ لگانے کی تو میری محترمہ بہن ابن کثیر اور ابن قیم کوئی فقہ کہ معین اما م نہیں کہ جنکی اجتھادی رائے پر آپ کو حکم لگانا ہے بلکہ یہ مسئلہ اعتقادی ہے اور اسکا قائل آپ لوگوں کے نزدیک مشرک ہے سو بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ایسا مسئلہ جو کہ مبنی بر شرک ہو اس مسئلہ میں اگر ہم عمل کریں تو مشرک اور آپ کا کوئی پیارا کرئےتو فقط خطا کا حکم یہ تو طغیان ہے اور بوالعجبی ہے ؟؟؟؟ -
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
اسلام علیکم توحیدی بھائی ۔۔ شرم انکو مگر نہیں آتی ۔۔۔ اور وہابیہ اور شرک کا تو بیر ہے۔۔۔ جب جواب نہیں بن پڑتا تو پھر الزام تراشی اور کوسنوں پر اتر آتے ہیں الزام تراشی یہ کے آپ نے آدھے ادھورے پیج لگائے ہیں اور کوسنے یہ کے اتنی لیاقت تو ہوتی نہیں کہ اُن پیجز کی عربی عبارات پڑھ سکیں اور پھر سمجھ سکیں لہذا یہ آسان ہے کہ فریق مخالف پر قبر پرستی اور غیراللہ کی الوہیت کہ اعتقاد کا کوسنا کس کر جان چھڑالو۔۔۔۔ ادھر دوسری طرف حالت انکی دیدنی ہوچکی ہے کیونکہ ہمارے احباب قرآن و سنت کہ واضح نصوص پیش کررہے ہیں اور یہ حضرت ان واضح نصوص کے مقابلہ میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے قیاس فاسدہ سے کام لے رہے ہیں حالانکہ ان کا تعلق اس طبقہ سے ہے جو کہ ہمیشہ قیاس صحیحہ کی بھی مذمت کرتا ہے اگرچہ وہ قیاس قرآن و سنت کے لاتعداد شواہدات و متابعات پر ہی مبنی کیوں نہ ہو؟؟؟ اب دیکھیئے ناں توحیدی بھائی قرآن کی تفسیر خود امہات التفاسیر کے حوالہ جات سے پیش کررہے ہیں اور پھر اوپر سے انھوں نے براہ راست احادیث بھی پیش فرمائی ہیں کہ مردے سنتے ہیں جبکہ خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولین بدر سے کلام فرمایا اور پھر عام مردوں کے لیے امت کو سلام کہنے کا مکلف ٹھرایا۔۔۔۔ لہذا یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ شارع کا کلام کبھی بھی عبث نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ مبنی بر حکمت ہوتا ہے مگر جناب حذیفہ صاحب ہیں کہ ان نصوص کے مقابلے اپنے قیاس فاسدہ کو بروئے کار لاکر ان کا رد کررہے ہیں کہ اجی اگر مردے سنتے ہیں تو پھر دفن کیوں کرتے ہو؟؟؟ یہ کیوں کرتے ہو وہ کیوں کرتے ہو وٍغیرہ وگیرہ ؟؟؟؟ کوئی ان کو "مت " دے اور بتلائے کہ مردوں کے سننے کا حکم بھی شریعت سے ثابت اور اور انکے کفن و دفن کے احکام بھی شریعت سے ثابت دونوں میں آخر تفاوت کیا ہے ؟؟؟؟ ہم شریعت کے تمام احکامات پر عمل کرنے والے ہیں یہود کی طرح آدھا دین لینے والے نہیں کہ مرضی کا ہپ اور نہ مرضی کا تھو ۔۔۔ اور اگر قیاس ہی کرنا ہے تو پھراپنے قیاس کے تمام باطل گھوڑے دوڑا کر میرے ایک سوال کا جواب تو دو ؟؟؟ اور وہ سوال یہ ہے کہ تم جو کہتے ہو کہ مردے نہیں سنتے تو بھلا بتلاؤ کہ آیا زندہ اور مردہ میں جو سننے کی صلاحیت یا قوت ہے کیا وہ تمہاری دین یا رہین منت ہے یا تمہاری محتاج ہے کہ زندہ تو سنتا ہو اور مردہ چونکہ مر کر منوںمٹی تلے دفن ہوگیا لہذااب تم میں وہ طاقت نہیں رہی کہ تم اسے سنوا سکو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چاہے کوئی زندہ ہو یا مردہ اسے سنواتا اللہ عزو جل ہی ہے اور اسے سننے کے صلاحیت و قوت اللہ ہی کی عطا کردہ ہے جو کہ بے نیاز ہے اس کے لیے برابر ہے کہ چاہے تو زندہ زی روح کو سنوا دے اور چاہے تو بے جان پتھروں یعنی جمادات اور نباتات کو بھی سنوا د ے حالانکہ حضرت انسان تو پھر صاحب روح ہے اگرچہ مردہ ہو یا زندہ ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی ان وہابیہ کی بھونڈی عقل کی کہ یوں تو یہ توحید کے بڑے داعی و ٹھیکے دار بنتے ہیں مگر جب شان الوہیت کی باری آتی ہے تو اسے مخلوق پر قیاس کرتے ہیں اور اللہ کی صفات کو مخصوص و مقید ٹھراتے ہیں کہ فلاح حالت میں تو فلاں سن سکتا ہے حالانکہ در اصل وہ فلاں اس وقت بھی خود اپنے آپ نہیں سن رہا ہوتا بلکہ اللہ ہی کی دی ہوئی قوت و صلاحیت ہی سے سن رہا ہوتا اوروہی فلاں جب مر جاتا ہے تو یہ جھٹ سے شور مچا دیتے ہیں کہ اب نہیں سن سکتا بھلا بندہ پوچھے کہ جب تک وہ زندہ تھا تو تب اس کا خدا کوئی اور تھا جو اسے سنوا رہا تھا اور اب جو فوت ہوگیا ہے تو ا سکا خدا کوئی اور ہوگیا ہے کہ جس کہ پاس مردوں کو سنوانے کی طاقت بھی نہیں یا پھر تمہارا خدا کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ انسانوں کو سنوانے کے لیے پہلے ان کے اندر مجرد نفس حیات یعنی قوت حیات کا محتاج ہے چناچہ تبھی کہتے ہو کہ جب تک تو زندہ تھا اس وقت تک سنتا تھا اب مر گیا حیات نہ رہی لہذا اب اللہ اسے معاذ اللہ سنوا بھی نہیں سکتا؟؟؟؟ عجب توحید ہے تمہاری جو کہ زندہ اور مردہ کے گرد گھومتی ہے یعنی تمہارے نزدیک اصل علت یعنی ِ"علت العلل "خدا کا سنوا دینا نہیں بلکہ خود مردے میں محض نفس حیات کا پایا جانا ہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ یعنی تمہارا عقیدہ اللہ پر نہیں بلکہ نفس حیات پر ہے اور تم نے اللہ کو نہیں بلکہ مجرد حیات کو اپنا رب و الٰہ مان رکھا ہے تبھی توحقیقی مؤثراللہ کوبالذات نہیں بلکہ نفس حیات کو مؤثر بالذاتمان رہے ہو۔۔۔ اس بڑا شرک بھلا کیا ہوگا فاعتبروا یااولی الابصار۔۔۔۔ -
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
توحیدی بھائی وہ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ شرم ہی تو ہے آئے آئے نہ آئے نہ آئے اور وہابیہ کو تو ہرگز نہیں آنی بالخصوص امت کے جمہور یعنی جب اکثریت پر شرک کا فتوٰی لگانا ہو تو یہ لوگ بے دھڑک مگر وہ عقید ہ اور عمل جب انکے کسی بڑے سے ثابت ہو تو محض غلطی اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ؟؟؟؟ بھلا وہ عقیدہ کہ جسے قرآن یا سنت شرک ٹھرائیں اور قرآن اس پر فتوٰی دے کہ شرک ناقابل معافی جرم ہے اسی عقیدہ کا ثبوت ابن قیم اور اب کثیر کے حق میں حضرت حذیفہ صاحب کہ اجتھاد کے مطابق محض غلطی ہے لاحول ولا قوة الا باللہ۔۔۔۔ اوہ خدا کے بندے بھلا وہ عمل یاعقیدہ جو آپکی نگاہوں میں شرک ہے اگر اسے بجا لانا بھی محض غلطی ہی ہے تو قرآن کی اس وعید کا کیا کرو گے کہ شرک ظلم عظیم ہے اور مشرک کی مغفرت نہ ہوگی ؟؟؟؟ یہ عجب طرفہ ہے ان وہابیہ کا کہ جب ان کے ممدوحین پر بات آتی ہے تو سادہ لوح عوام کو یہ کہہ دھوکا دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک کوئی بھی شخصیت حجت نہیں کیونکہ ہم کسی کی تقلید نہیں کرتے اور دوسری طرف جب انہی ممدوحین کی بعض عبارات اپنے حق میں دیکھتے ہیں تو انہی شخصیات کی سیرت پر بڑی کتابیں اور مضامین لکھتے ہیں کہ جن کے ٹائٹل پر انھے شیخ الاسلام اور حجت الاسلام اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں بندہ ان سے پوچھے ایسے ہوتے ہیں تمہارے شیوخ الاسلام کہ جن سے شرک کا صدور بھی ثابت ہوتا ہے ؟؟؟ اور وہ محض تمہارے نزدیک غلطی کہلاتا ؟؟؟؟ فاعتبروا یا اولی الابصار -
حد ہوتی ہے یاررر جہالت کی بھی فاضل بریلوی علیہ رحمہ کے تعصب نے آپکو اس قدر اندھا کررکھا ہے کہآپ کو یہ بھی نظر نہیں آتا کہ ملفوظات باقاعدہ فاضل بریلوی علیہ رحمہ کی اپنی تصنیف نہیں بلکہ انکے ملفوظات کا مجموعہ ہے جو کہ انکے ایک شاگرد نے انکے زبانی کلام کی روشنی میں مرتب فرمایا ہےآپکو اگر علم سے زرا سا بھی مس ہو تو یقینا یہ علم ہوگا کہ ملفوظات وغیرہ کتب تصنیف کی کس کیٹگری میں آتی ہیں آیا وہ انکی تصنیف کہلواتی ہیں جن کہ مواعظ کو جمع کیا گیا ہو یا پھر حقیقت میں جو جامع ہو اسکی تصنیف کہلاتی ہیں ؟؟؟ ٓ اور پھر جب یہ طے ہوا کہ ملفوظات فاضل بریلوی علیہ رحمہ کے مختلف مواقع پر ہونی والی اپنے شاگردوں کے ساتھ گفتگو کا تحریری نمونہ ہیں تو پھر ایسے میں کئی احتمالات ہوسکتے ہیں جیسے کہ فاضل بریلوی علیہ رحمہ نے ایک آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے دوسری آیت کوزبانی تلاوت فرمایا ہو سو ایسے میں متشابہ یا بھول چوک یا سھو کا امکان بہت زیادہ ہے یا پھر فاضل بریلوی علیہ رحمہ نے خود توآیت درست تلاوت فرمائی ہو مگر شاگرد نے اپنے حافظہ پر اعتماد کرنے کی وجہ سے اس میں غلطی کردی ہو یا پھر پرنٹنگ کی مسٹیک ہو کہ جسکا یہاں احتمال انتہائی خفیف ہے مگر ممکن ضرور ہے یا پھر خود فاضل بریلوی چونکہ تفسیر کررہے تھے اور مقام استدلال میں اس آیت کو نقل کیا سو یہی وجہ ہو کہ تفسیری قول کہلانے کی وجہ سے وہ آیت ایجاز و حذف کے قانون کے تحت نقل کی ہو ۔۔۔ جب اتنے سارے احتمالات موجود ہیں خصوصا اس حالت میں کے ملفوظات فاضل بریلوی کی اپنی تحریر بھی نہیں تو پھر ایسے میں آپکا محض تعصب کی بنیاد پر فاضل بریلوی علیہ رحمہ کو ایک ناکردہ گناہ کا جرم دار ٹھرانا کیا معنی رکھتا ہے سوائے اسکے کہ یا توآپ جاہل ہیں علم نہیں رکھتے کہ اس قسم کے ابواب میں اصول و قواعد کیا ہیں یا پھر محض بغض و کینہ ہی ہے ٓآپکا۔۔
-
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
آپ کی دیگر یاوہ گوئی کا تو کوئی جواب نہیں دوں گا رہا اس فورم پر جاکر آپ کے کسی مخصوص تھریڈ کو پڑھنا تو آپ ایک مہربانی کیجیئے کہ اس تھریڈ کو یہاں ہی منتقل کردیجیئے دیکھ لیتے ہیں کہ آپ نے اپنے ذاتی اجتھاد کے نام پر کیا گل کھلائیں ہیں اگر ایسا بخوشی کرسکتی ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اس تھریڈ کا لنک ہی مجھے پی ایم کردیجیئے میں با دل نخواستہ وہیں جاکر پڑھ کر خبر لیتا ہوں ۔۔۔والسلام -
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
تو یہ ہے کہ آپ کا درجہ اجتھاد کہ آپکو ابھی بنیادی عربی بھی نہیں آتی اور آپ ابھی طلب علم میں ایام طفولیت سے گرز رہیں یعنی اس قدر بھی لیاقت نہیں کہ ٹو دی پوائنٹ عربی عبارات کا ترجمہ بھی خود سمجھ سکیں مگر شوق اجتھاد چرایا ہے لہذا ہر دوسرے فورم پر جاکر لوگوں پر شرک شرک فتوے لگائے جارہے ہیں جب حالت آپ کی یہ ہے کہ آپکو بنیادی عربی بھی نہیں آتی جبکہ قرآن وسنت کہ تمام علوم کی بنیادی اور مرکزی زبان ہی عربی ہے اور آپ ابھی عربی سیکھنے کے مراحل میں ہیں تو پھر آپ کو کس چیز نے برانگیختہ کیا کہ آپ دوسری جگہ جاکر اختلافی موضوعات پر تھریڈ بنائیں اورپھر جواب نہ بن پڑنے پر اپنی طالب علمی کا رونا رونے بیٹھ جائیں بی بی ابھی وقت ہے علوم کا مطالعہ کیجیئے بنیادی عربی اور دیگر اسلامک کلاسیکل علوم کو سیکھیئے پھر ریسرچ کیجیئے جو کہ کمپیرٹو اسٹڈی پر مشتمل ہو پھر کہیں جاکے میدان مناظرہ میں اتریئے تاکہ آپکو منہ کی نہ کھانی پڑھے ۔۔والسلام اور فاعتبروا یااولی الالبا -
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
آہہہہہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا آگئیں ناں آپ بھی بہت جلد کمزور عورتوں کی طرح محض کوسنوں پر فیا للعجب کہ میں محترمہ کو قرآن وسنت سے براہ راست اخذ و استنباط کے مراحل سے گذر جانے کی استعداد کی دعوت دے رہا ہوں اور محترمہ مجھے تقلید کے نفوذ و انجماد کے طعنے دے رہی ہیں ۔۔۔ اجی ہم تو کہتے ہیں کہ آپ تقلید مت کیجیئے اور شوق سے نہ کیجیئے بلکہ درجہ اجتھاد پر فائز ہوا کیجیئے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ دوسروں کو ایک معین فقہ کی تقلید کے طعنے دینے والے خود اس قدر رزیل طریقہ سے تقلید پر قائم ہیں کہ مسلک اہل حدیث یا سلف کے نام پر ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی تقلید پر سختی سے کارپبند ہیں روایتی مقلدین تو پھر بھی نامور فقہاء کہ جن کا شہرہ فقہ و اجتھاد میں بہت بلند ہیں ان کے مقلد ہیں مگر غیر مقلدین اس برے طریق سے تقلید میں پھنسے ہیں کہ تقلید کے انکار کے نام پر ہر دوجے نام نہاد سلفی مولوی کی اندھی تقلید کرکے درحقیقت اپنے نفس کی بے جا تقلید میں گرے پڑے ہیں مگر سمجھ کہ پھر بھی نہیں دیتے مثال آپ کے سامنے ہے محترمہ کہ جن کا بار بار دعوٰی ہے کہ نفس مسئلہ پر انکی یہ پوسٹ محض کاپی پیسٹ نہیں بلکہ انکا ذاتی اجتھاد بھی اسی پوسٹ کو موئید ہے تو اگر میں سوال کروں کہ قرآن کی جن آیات کو آپ نے اپنے مولویوں کی اندھی تقلید میں یہاں چھاپا ہے کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ قرآن کی ان ان آیات سے آپ کے مولویوں کے استدلال کی کونسی کونسی صورتیں ہیں یعنی اگر آسان کروں تو فقط اتنا ہی بتلادیجیئے کہ محض قرآن سے استدلال کی اجمالی صورتیں کتنی ہیں اور تفصیلی کتنی ہیں اور ان میں کونسی کونسی مسئلہ ذیر بحث میں بطور استدلال استعمال ہوئی ہیں اور انکا محل استدلال کہاں کہاں اور کیا ہے اور کس حد تک درست ہے وغیرہ ؟؟؟؟ هاتوا برهانكم إن كنتم صادقين ۔ ۔ ۔ -
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
میری باقی باتوں کا جواب تو آپ شیر مادر کی طرح ہضم کرگئیں خیر آپکی مثال خوب ہے اور مجھے کوئی غصہ نہیں بس زرا سی غلط ہے کیونکہ پیغام بھی میری اپنی ہی گلی ہے آپ تو شاید وہاں پر فصلی بٹیرہ ہی ثابت ہوں جبکہ میں جب سے پیغام قائم ہوا ہے تب سے وہاں پر ہوں لہذا کبھی کبھی بعض پرانے دوستوں کی وجہ سے انہیں سلام دعا کرنے انہی کے کہنے پر وہان چلا جاتا ہوں وہ بھی اس وقت جب وہ کہتے ہیں کہ تم مغرور ہوگئے ہو ہمیں ٹائم نہیں دیتے اور اس کے ساتھ ساتھ آپکی اطلاع کے لیے یہ بھی عرض کردوں کہ میں ہی اس فورم کے اسلام سیکشن کا بانی اور سپر موڈریٹر تھا اور میں نے ہی اپنی مرضی سے اس عہدہ سے کچھ اپنی ذاتی وجوہات کی وجہ سے استعیفٰی دے دیا تھا حالانکہ ابھی چند روز قبل ہی وہاں کہ ایک اور ایڈمن کا پی ایم مجھے آیا اور مجھے دوبارہ سے اسلام سیکشن کی سپر موڈشپ آفر کی اور ان حالات کا رونا رویا جو کہ اسلام سیکشن میں ہوچکے ہیں جو کہ میرے دور میں نہیں تھے یعنی فرقہ ورانہ سرگرمیاں تو میں نے معزرت کردی اگر یقین نہ آئے کہ وہ پیغام اب بھی میری گلی ہے تو اب بھی آپ کی بہت سی فضول قسم کی فرقہ ورانہ مواد پر مبنی پوستنگ وہان سے ڈیلیٹ کرواسکتا ہون۔۔۔ -
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
لو جی اجتھاد تو سارا یہاں کا یہان ہی دھرا رہ گیا اعتراض یہ اٹھا کہ ہماری غیر مقلد بہن صاحبہ کو توحیدی بھائی کی عربی نہیں پسند اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟؟؟؟ ویسے آپ نے بتلایا نہیں کہ میں توحیدی بھائی کو کیا سمجھاوں ؟؟؟ یہی کہ آپکی پوسٹ میں اٹھائے گئے نکات کا جواب عربی میں نہ دے یا سرے سے جواب ہی نہ دیں ؟؟؟؟ ٓپ نے تو خود ہی کہا تھا کہ آپ قرآن و سنت کی مانتی ہیں چاہے کہنے والا کوئی کیوں نہ ہو تو اب کیا ہوا؟؟؟ توحیدی بھائی تو نہ صرف قرآن و سنت کی بات کرہے ہیں بلکہ خود قرآن و سنت ہی کی زبان یعنی عربی میں بات کررہے ہیں ؟؟؟ اور براہراست قرآن و سنت سے کررہے ہیں آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ آپکی کاپی پیست جیسی کٹ حجتیوں کا جواب براہ راست قرآن و سنت سے آرہا کہ جسکا آپ ڈھندورا پیٹ رہی تھیں ؟؟؟؟ ا -
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
تواور آپکی پوسٹ سے کیا اجتھاد ٹپک رہا معزرت کے ساتھ ؟؟؟؟ اگر آپ قرآن و سنت کی ہی مانتی ہیں تو پھر استدلال بھی براہ راست قرآن و سنت ہی سے ہونا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ ساتھ جی ہاں اگر آپ کسی سے سوال کریں اور سوال کا جواب پانے کہ بعد اسے اپنے طرف سے بطور استدلال پیش کریں تو آپ کا اس سوال کے جواب کو اپنی طرف سے مقام استدلال میں پیش کرنا آپکی اپنے مجیب کی تقلید ہی کہلائے گا جبتک کہ آپ خود محل استدلال اور قوت استدلال پر براہ راست قادر نہیں ہوجاتیں اور معاف کیجیئے گا یہ غیر مقلدین کا بڑا پرانا اور گھسا پٹا جملہ ہے کہ جی سوال کرنے والا مقلد نہیں ہوتا ؟؟؟؟ اور میں کہتا ہوں کہ بلاشبہ نہیں ہوتا جبتک کہ وہ محض سائل ہی رہے مگر جب وہ سائل سے بڑھ کر خود مجتھد مطلق بننے کی کوشش کرئے اور اکتفاء محض مجیب کی ہی دلائل پر کرئے تو اسے مقلد ہی کہا جائے گا نہ کہ اس سے مفر؟؟؟؟ لہذا اگر آپ مجھ سے کوئی سوال کریں اور میں آپ کو قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا جواب دوں اور آپ اسے من و عن مان لیں بغیر میں میری طرزاستدلال اور قوت استدلال کے دلائل کا احاطہ کیے تو کسی نہ کسی حد تک آپ اس مخصوص پس منظر میں مقلد ہی کہلائیں گی ۔۔۔۔ پ مثلا پیغام فورم پر بھی آپ اسی قسم کے شگوفے ایک عرصہ سے پھوڑ رہی ہیں جو کہ محض کاپی پیسٹ ہی کی ایک شکل ہیں نہ کہ ٓپکی ذاتی قوت استدلالی کا کوئی نمونہ -
Kia Murday Suntay Hain...................
Aabid inayat replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
محترمہ جیسا کہ آپکی آئی ڈی سے ظاہر ہے کہ آپ محترمہ ہی ہیں جبکہ مذہب کے خانے میں آپ نے خود کو غیر مقلد ظاہر کیا ہے مگر کس قدر افسوس ہے کہ آپ نے آتے ساتھ ہی کس قدر اندھی تقلید کا مظاہرہ کیا ہے یعنی ایک موضوع کو منتخب فرما کر اس پر ایک مخصوص مکتبہ فکر کے نظریات کی پرچارک ایک کتاب کے چند اوراق کو چسپاں کردیا ہے ایں چہ بو العجبی است ؟؟؟ یہ ہے آپکی غیر مقلدانہ شان کا اظہار مجتہدانہ فیا للعجب ؟؟؟ دیگر چند فورمز پر بھی آپکی ایسی ہی کارگزاریاں ہماری نظر سے گزری ہیں اگر آپ کو علم سے زرا سا بھی مس ہے تو یہ کیا طریقہ کار ہوا کہ ایک مخصوص مسئلہ پر ایک مخصوص مکتبہ فکر کے نظریات پر مبنی ایک کتاب کو سکین کردیا جائے ؟؟؟؟ کیا آپ میں اتنی بھی اہلیت نہیں کہ جس مسئلہ پر آپ گفتگو کرنا چاہیں اس کے مندرجات چاہے کسی مخصوص نظریہ کی حامل کتاب سے ہی نوٹ فرماکر ان کو اپنے الفاظ میں باقاعدہ استدلال کے ساتھ ترتیب دے سکیں ؟؟؟؟ تاکہ گفتگو کا ایک مربوط سلسلہ قائم ہو اور ہم سمیت دیگر قارئین کرام کا جو کہ علم کے متلاشی ہیں بھلا ہو ؟؟؟؟؟ یہ کیا ہو کہ ادھر ادھر مختلف فورمز پر گھومیے اور اپنے مسلک کی حمایت بے جا میں محض کاپی پیسٹ پر ہی اکتفا کیجیئے ۔۔۔۔امید کرتا ہون کے میری بات سمجھ میں ٓگئی ہوگی ۔۔۔والسلام -
اسلام علیکم معزز قارئین کرام گذشتہ برس ایک فورم پرناصر نعمان نامی شخصیت نے اپنی افتاد طبع کے باعث مسئلہ استعانت للغیر کے موضوع پر مسلک اہل سنت کو ہدف تنقید بنایا جس پر ہم نے اسکے تمام سوالوں کے شافی و تسلی بخش جوابات دیئے اور جب ناصر نعمان صاحب ہمیشہ کی طرح اپنی لایعنیت پر اتر آئے اور اصل نزاعل مسئلہ سے ہٹ کر ادھر ادھر کی الاپنے لگے تو ہم نے اسے نفس موضوع پر واپس لانے کی خاطر چند سوالات کیئے جو آج تک اس پر ادھار ہیں ان سوالات کے جوابات تو وہ نہ دے سکا مگر اپنے مشھور فورم پر اپنی اور ہماری ہونے والی اس بحث کو منتقل کردیا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں پر اپنے بھائی بندوں سے جھوٹی داد وصول کرنے کے لیے ہمارے 30 سوال بالکل بھی نقل نہ کیئے بلکہ اولا جب ہم نے وہ 30 سوالات اسکی لایعنیت سے تنگ آکر داغے تو کچھ دنوں تو منظر سے غائب ہوگیا اور بہانہ بنایا علالت کا لیکن یہ عجب اتفاق تھا کہ جب ناصر نعمان صاحب ہمارے سوالات کے جوابات سے عجز کا اطہار بصورت علالت و ضعف کے کررہے تھے انہی دنوں وہ مشھور دیوبندی فورم بھی ہیک ہوچکا تھا کہ جہاں سے ناصر نعمان صاحب کو کمک بہم پہنچتی تھی خیر ہم نے انتظار کیا کہ شاید دیوبندی فورم کی بحالی کے بعد ناصر صاحب ہمارے سوالات کا جواب دیں گے اور ہم نے انھے اس کے لیے 3 دن تک کا وقت بھی دیا مگر حضرت آئے تو درج زیل الفاط میں اپنی کسمپرسی کا اطہار فرمایا ۔۔ : السلام علیکم ورحمتہ اللہ ! معزز قارئین کرام۔۔۔۔ ویسے تو ہماری دلی خواہش تھی کہ ہم فریق مخالف کی طرف سے پیش کی گئی ہر دلیل اور ہر اعتراض کا جواب دیتے ۔۔۔۔۔لیکن مضمون طویل سے طویل تر بھی ہوتا جارہا ہے (جس کو شاذ و نادر ہی کوئی قاری تسلی سے مطالعہ کررہا ہوگا) اور دوسری طرف کچھ نجی مصروفیات اور علالت کے باعث ہمارے لئے یہ سلسلہ جاری رکھنا دشوار ہوگیا ہے ۔۔۔۔ البتہ جب ہم نے اپنے اُن جوابات کی طرف نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ الحمد اللہ ہماری وضاحتوں میں فریق مخالف کے بنیادی نکات تقریبا شامل ہوچکے ہیں ۔۔۔جس کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی بھی غیر جانبدار دوست ان وضاحتوں* کا تسلی سے مطالعہ کرے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کو صحیح اور غلط سمجھنے میں* دشواری نہیں ہوگی ۔۔۔۔ اس کے باوجود بھی اگر کسی بھی غیر جانبدار ساتھی کو جو سنجیدگی سے مسئلہ سمجھنا چاہتا ہو اور اُس کو کسی وضاحت میں تشنگی محسوس ہو تو وہ اپنے الفاظ میں ضرور لکھے ان شاء اللہ تعالیٰ ہم آسان الفاظ میں وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے ۔ باقی اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو ہمیں ضرور نشادہی فرمائے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔ جزاک اللہ اور یہ کہنے کہ بعد حضرت غائب ہوگئے ہم نے ب بھی مزکورہ فورم کی پالیسی کی وجہ سے یہی مناسب سمجھا کہ اب اس موضوع کو زیر بحث نہ ہی لایا جائے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ایک بار پھر حضرت ناصر نعمان صاحب کو مروڑ اٹھا ہے تو ہم نے انکی ضیافت طبع کے لیے یہ مضمون اب اسلامی محفل کی زینت بنا دینا مناسب سمجھا کیونکہ جب انھوں نے ہماری اور اپنی گفتگو کو اپنے دیوبندی فورم پر یکطرفہ طور پر لگایا تھا تو اب یہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اس کا قرض چکائیں سو درج زیل میں آپ سب کی بصیرتوں کی نذرناصر نعمان سے ہمارے کیئے گئے فقط 30 سوالات۔ والسلام اصل بحث کا لنک منکرین استمداد غیراللہ سے چند سوالات سوال نمبر1 :- سب سے پہلے استمداد غیر اللہ پر اپنا عقیدہ واضح کیجیئے تفصیلی طور پر ۔ سوال نمبر2 :- حقیقی اور مجازی اور اسی طرح ذاتی اور عطائی امداد کی بدیہی تقسیم کی معنویت ( حقیقت آپکے نزدیک کیا ہے) واضح کیجیئے۔ سوال نمبر3 :- ماتحت الاسباب اور ما فوق الاسباب کی بدیہی تقسیم میں امداد کے حقیقی ،مستقل اور اصل ماخذ کی نشاندہی کیجیئے ۔ سوال نمبر4 :-ماتحت الاسباب امور میں اسباب ظاہری کے تحت جو مدد طلب کی جاتی ہے اس کی حقیقت واضح کرتے ہوئے اسکا تعین بطور سبب ظاہری یا علت تامہ کے واضح فرمایئے ۔ سوال نمبر5 :- مافوق الاسباب امور میں جو استعانت ظاہری بطور مجاز کہ کی جاتی ہے اس سے انکار پر قرآن و سنت سے واضح اور قطعی نصوص پیش کیجیئے ۔ سوال نمبر6 :- مافوق الاسباب امور میں جو استعانت بطور مجاز کے کی جاتی ہے اس سے انکار کی نوعیت واضح فرماتے ہوئے شرعی و عقلی استحالہ پیش فرمائیے ۔ سوال نمبر7 :-ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی لغویت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس باب میں استعانت کہ اصل مدار کا تعین پیش فرمائیے ۔ سوال نمبر8 :- ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب دونوں طرح کے امور میں استعانت حقیقی اور مجازی کہ تعین کو بطور علت تامہ اور سببیت کہ اللہ اور غیراللہ کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے فرق واضح فرمایئے ۔ سوال نمبر9 :- مافوق الاسباب امور میں غیراللہ سے استعانت مجازی کے عقیدہ کا رد کرتے ہوئے اسکا حکم واضح کیجیئے ۔ سوال نمبر10 :-مافوق الاسباب امور میں غیراللہ سے استعانت ظاہری کا عقیدہ آپ کے نزدیک جس حکم کا متحمل ہے اسی حکم کے مطابق ادلہ اربعہ میں سے دلیل بھی پیش فرمائیے ۔ سوال نمبر11:- حقیقی اور مجازی کے (بدیہی اور قرانی ) فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان دونوں میں مدار استعانت کہ اصل رکن کی توجیہ بطور استقلال و عدم استقلال کے واضح کیجیئے ۔ سوال نمبر12:- معجزہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کا فرق واضح فرمایئے ۔ سوال نمبر13 :- معجزہ کی تعریف میں نبی کے تحدی (چیلنج ) کی شرط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس تحدی کی حقیقت کا تعین بطور کسب یا خلق کے فرمایئے ۔ سوال نمبر14 :- معجزہ کی اصطلاحی تعریف میں حکم عجز کے مدار کو واضح کیجیئے ۔ سوال نمبر15 :- معجزہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآن پاک کے معجزہ ہونے کی وضاحت کیجیئے کہ قرآن کس اعتبار سے معجزہ ہے جبکہ وہ خلق شدہ نہیں ہے ۔ سوال نمبر16 :- معجزہ کی تعریف میں آپ نے امام غزالی سے جو فلاسفہ کا رد نقل کرتے ہوئے امور خفیہ کی حقیقت کو بطور (خفی)غیر مادی اسباب کے واضح کیا ہے ان امور کی قرآن پاک سے وابستگی کی حقیقت کو واضح کیجیئے یہ بتلاتے ہوئے کہ ان میں سے کس خفی مادی یا خفی غیر مادی امر کہ تحت قرآن معجزہ ہے ۔ سوال نمبر17 :-معجزہ اور کرامت میں خلق اور کسب کی حقیقت کو واضح کیجیئے ساتھ اس وضاحت کہ ان دونوں میں سے سبب کیا ہے علت تامہ کیا ہے ۔ سوال نمبر18 :-معجزہ اور کرامت میں جن ائمہ نے کسب کہ دخل کو مانا ہے ان سب کی عبارات کا جواب پیش فرمایئے سوال نمبر19 :-معجزہ اور کرامت میں کسب کہ دخل کو نہ ماننے والے ائمہ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے اقوالات کی وجوہ ترجیح کو بیان کیجیئے ۔ سوال نمبر20 :- معجزہ اور کرامت میں کسب کہ دخل کے اکثریتی مذہب پر اپنے عدم اعتماد کی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے ان سب(مجوزین دخل کسب ائمہ ) کا حکم واضح کیجیئے ساتھ قرآن و سنت کہ واضح دلائل سے ۔ ۔ ۔ سوال نمبر21 :- اگر آپ ذاتی اور عطائی کے بدیہی فرق کو نہیں مانتے تو پھر اپنے اس چھ فٹ کے وجود کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔ سوال نمبر22 :-اگر آپ حقیقی اور مجازی کے فرق کو نہیں مانتے تو پھر اپنے اس چھ فٹ کے وجود پر اپنے تصرف کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔ سوال نمبر23 :- اگر آپ کا وجود آپکا حقیقی ہے عطائی نہیں تو پھر ممکن سے واجب ہونے کے اس امر پر حکم شرعی واضح کیجیئے کہ آپ کیوں مشرک نہیں ساتھ اس اعتقاد کے ۔ ۔؟ سوال نمبر24 :- اگر آپ کے وجود پر آپکا تصرف مجازی نہیں بلکہ حقیقی ہے بطور علت تامہ کہ تو پھر اس امر پر حکم شرعی واضح کیجیئے۔ کہ آپ کیوں مشرک نہیں ساتھ اس اعتقاد کے ۔ ۔؟ سوال نمبر25 :- آپ نے فرمایا کہ آپکا ہمارے ساتھ اختلاف یہ ہے کہ آپکے نزدیک ہم معجزات یا کرامات کو انبیاء کا مجازا فعل سمجھتے ہیں (جی ہاں ایسا ہی ہے لیکن بطور کسب اور ہم نے اس پر قرآن و سنت کے ساتھ ائمہ کا مذہب بھی نقل کردیا) اگر آپکو اس سے اختلاف ہے تو اس کا حکم واضح کیجیئے کہ مجاز کو مجاز سمجھنے والے پر آپکے نزدیک کیا حکم ہوگا ۔ سوال نمبر26 :- آپ نے فرمایا کہ معجزات میں انبیاء کرام کی بطور کسب قدرت ماننے سے ان کا خدائی قدرت میں شریک ماننا لازم آئے گا سوال یہ ہے کہ کس طرح سے؟؟؟؟ جب کہ انبیاء کی معجزات میں بطور کسب قدرت بالکل اسی طرح سے ہے کہ جیسے امور عادیہ میں عام انسانوں کی بطور کسب (سبب ) کے تو پھر کیا وجہ ہے کہ امور عادیہ میں انسان فعل میں خدا کا شریک ہوکر بھی مشرک نہ بنے مگر امور غیر عادیہ میں وہ شرک ہو ان دونوں کی وضاحت تفصیل طلب ہے ساتھ سبب اور علت کہ فرق کہ ۔ ۔ سوال نمبر27 :- آپ نے فرمایا کہ میرے دوست ہمیں مجازی اور حقیقی کی تقسیم سے کوئی اختلاف نہیں ۔۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجازی کا مطلب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء کرام کو معجزات اور کرامات پر(مجازی) استقلال حاصل ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک مجاز کی حیثیت مستقل کی سی ہے ایں چہ بوالعجبی است مجاز مستقل کیسے ہوسکتا ہے وضاحت کیجیئے ۔ ۔ ۔ سوال نمبر28 :-سورہ نمل میں حضرت سلمان علیہ السلام کے ایک مافوق الاسباب امر میں غیر اللہ کی طرف رجوع کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔۔۔ سوال نمبر29 :- سورہ نمل میں جن (عفریت) کے قول انا اتیک پر اس کہ اس امر پر قدرت کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔ سوال نمبر30 :- سورہ نمل میں حضرت آصف بن برخیا رحمہ اللہ کے قول انا اتیک کی واضح توجیہ پیش کیجیئے کہ آیا انکا انا اتیک کہنا بطور اسناد مجازی کہ ہے یا حقیقت کہ اگر آپ کے نزدیک کرامت میں مجازا بھی کسب کا دخل نہیں ہوتا تو انا اتیک کے واضح قول کی توجیہ پیش کیجیئے۔ ۔ ۔ سوالات اور بھی بہت سے ہیں مگر فی الوقت ان تیس پر اکتفاء کرتا ہوں باقی ان کا جواب آنے پر اور جب تک انکا جواب نہیں آجاتا آپ سے مزید گفتگو اب اس باب میں نہیں کی جائے گی والسلام
- 2 replies
-
- 1
-
-
- ناصر نعمان دیوبندی سے لاجواب
- منکرین
- (and 3 more)