Jump to content

Raza Asqalani

اراکین
  • کل پوسٹس

    362
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    54

سب کچھ Raza Asqalani نے پوسٹ کیا

  1. اس روایت کا مکمل جواب میری فیس بک ٹائم لائن پر موجود ہے یہ ہے اس کا لنک
  2. جوابات تو ہیں اس بارے میں لیکن آپ سے یہ کہا گیا کہ اپنے الفاظ کا چناؤ اچھا کریں۔ جو علماء اور صوفیاءکرام قوالی کے جواز کے قائل ہیں کچھ شرائط کے ساتھ ان کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟؟؟ آپ کے سب سوالات کا جوابات بعد میں دیے جائیں۔
  3. عَنْ مَعْمَرٍ , عَنِ الْكَلْبِيِّ , وَقَالَ قَتَادَةَ , {فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا} [الأعراف: 189] , قَالَ: " كَانَ آدَمُ لَا يُولَدُ لَهُ وَلَدٌ إِلَّا مَاتَ فَجَاءَهُ الشَّيْطَانُ , فَقَالَ: إِنَّ شَرْطَ أَنْ يَعِيشَ وَلَدُكَ هَذَا فَسَمِّيهِ عَبْدَ الْحَارِثِ , فَفَعَلَ قَالَ: فَأَشْرَكَا فِي الِاسْمِ وَلَمْ يُشْرِكَا فِي الْعِبَادَةِ " تفسیر عبدالرزاق رقم 968 اس روایت میں ہشام الکلبی متروک اور شدید ضعیف ہے حدثنا عبد الصمد حدثنا عمر بن إبراهيم حدثنا قتادة عن الحسن عن سمرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لما حملت حواء طاف بها إبليس وكان لا يعيش لها ولد فقال سميه عبد الحارث فإنه يعيش فسموه عبد الحارث فعاش وكان ذلك من وحي الشيطان وأمره مسنداحمد رقم 19610 حدثنا محمد بن المثنى حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث حدثنا عمر بن إبراهيم عن قتادة عن الحسن عن سمرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لما حملت حواء طاف بها إبليس وكان لا يعيش لها ولد فقال سميه عبد الحارث فسمته عبد الحارث فعاش وكان ذلك من وحي الشيطان وأمره قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث عمر بن إبراهيم عن قتادة ورواه بعضهم عن عبد الصمد ولم يرفعه عمر بن إبراهيم شيخ بصري جامع ترمذی رقم 3077 حدثنا أحمد بن عثمان بن يحيى الآدمي المقري ببغداد ، ثنا أبو قلابة ، ثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، ثنا عمر بن إبراهيم ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن سمرة بن جندب ، عن النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - قال : " كانت حواء لا يعيش لها ولد ، فنذرت لئن عاش لها ولد تسميه عبد الحارث ، فعاش لها ولد فسمته عبد الحارث ، وإنما كان ذلك عن وحي الشيطان " . هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه . مستدرک رقم4056 ان تمام روایات میں قتادہ اور حسن بصری مدلس ہیں عن سے روایت کر رہے ہیں سماع کی تصریح نہیں اس لئے ضعیف ہیں امام ترمذی کا حسن اور امام حاکم کا صحیح کہنا خطا ہےلہذا اس سے استدلال کرنا باطل ہے
  4. قوالی سننے میں اختلاف ہے کچھ علماء جواز کے قائل ہیں ان میں ان علماء کی کچھ شرائط ہیں جس کی بنا پر وہ جواز کے قائل ہیں۔ کچھ علماء اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ بھائی کچھ خیال کیا کریں ایسا کہنے میں احتیاط کیا کریں۔
  5. محمد حسین بٹالوی غیر مقلد لکھتا ہے “مولوی رشید احمد صاحب کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ خاکسار (مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب) کو جو سبیل الارشاد میں کئی جگہ “فرقہ غیر مقلدین“ کہا گیا ہے یہ مجھے ناگوار گزرا ہے ہم لوگ جو اس گروہ سے علم کی طرف منسوب ہیں۔ منصوصات میں قرآن و حدیث کے پیرو ہیں اور جہاں نص نہ ملے وہاں صحابہ تابعین و ائمہ مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں خصوصاً آئمہ مذھب حنفی کی جن کے اصول و فروغ کی کتب ہم لوگوں کے مطالعہ میں رہتی ہیں“۔ (اشاعۃ السنہ۔ج23،ص290) “خاکسار نے رسالہ نمبر6 جلدنمبر 20 کے صفحہ 201 اپنے بعض اخوان اور احباب اہلحدیث کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر ان کو اجتہاد مطلق کا دعوٰی نہیں اور جہاں نص قرآنی اور حدیث نہ ملے وہاں تقلید مجتہدین سے انکار نہیں تو وہ مذہب حنفی یا شافعی(جس مذہب کے فقہ و اصول پر بوقت نص نہ ملنے کے وہ چلتے ہوں) کی طرف اپنے آپ کو منسوب کریں“۔ (اشاعۃ السنہ،ج23،ص291) “جس مسئلہ میں مجھے صحیح حدیث نہیں ملتی اس مسئلہ میں میں اقوال مذہب امام سے کسی قول پر صرف اس حسن ظنی سے کہ اس مسئلہ کی دلیل ان کو پہنچی ہوگی تقلید کرلیتا ہوں ۔ ایسا ہی ہمارے شیخ و شیخ الکل (میاں صاحب) کا مدت العمری عمل رہا“۔ (اشاعۃ السنہ،ج22،ص310) بٹالوی صاحب مزید لکھتے ہیں۔یہ بلا قادیانی کے اتباع کی اکثر اسی فرقہ میں پھیلی ہے جو عامی و جاہل ہوکر مطلق تقلید کے تارک و غیر مقلد بن گئے ہیں یا ان لوگوں میں جو نیچری کہلاتے ہیں ۔ جو درحقیقت اس قسم کے غیر مقلدوں کی برانچ (شاخ) ہیں۔ (اشاعۃ السنۃ،ص271،ج15)
  6. حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ اپنی مشہورومعروف کتاب ’’فیوض الحرمین‘‘ میں رقمطراز ہیں:۔ عرّفنی رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان فی المذاھب الحنفی طریقۃٌ انیقۃٌ وھی اوفق الطرق بالسنۃ المعروفۃ التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری وا صحابہٖ فیوض الحرمین ص ۴۸ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو بتلایا کہ مذہب حنفی ہی میں وہ عمدہ طریقہ ہے ۔ جو دوسرے سب طریقوں سے زیادہ اس سنت نبویہ معروفہ کے مطابق ہے جو بخاریؒ اور دوسرے اصحاب صحاح کے دور میں مرتب و منقح ہو کر مدون ہو گئی ہے۔ غیر مقلدوں کے امام و مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں کہ خاص مذھب حنفی میں ہر مسئلہ مطابق مذھب اہلحدیث موجود ہے۔۔۔۔ اسی لئے شاہ ولی اللہ صاحب نے فرمایا کی تمام مذاہب میں حدیث سے سب سے زیادہ موافق مذھب حنفی ہے ۔ مآثر صدیقی ص6 امام احمد کے قول کی وضاحت امام ابن رجب حنبلی نے اپنی کتاب میں کر دی ہے۔ یہ ہے اس کتاب کا لنک بھائی
  7. حضرت آدم علیہ السلام کو براہِ راست مٹی کے جوہر سے تخلیق کیا گیا اور پھر پوری نسل انسانی چونکہ ان کی اولاد تھی اس لیے اپنی تخلیق کے حوالے سے ہر انسان کو گویا اسی مادہ تخلیق یعنی مٹی سے نسبت ٹھہری۔ لیکن میرے نزدیک اس کی زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ مرد کے جسم میں بننے والا نطفہ دراصل مٹی سے کشید کیا ہوا جوہر ہے۔ اس لیے کہ انسان کو خوراک تو مٹی ہی سے حاصل ہوتی ہے، چاہے وہ معدنیات اور نباتات کی شکل میں اسے براہِ راست زمین سے ملے یا نباتات پر پلنے والے جانوروں سے حاصل ہو۔ اس خوراک کی صورت میں گارے اور مٹی کے جوہر کشید ہو کر انسانی جسم میں جاتے ہیں اور اس سے وہ نطفہ بنتا ہے جس سے بالآخر بچے کی تخلیق ممکن ہوتی ہے۔
  8. حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، یہ کسی کے مرنے اور جینے پر بے نور نہیں ہوتے ،جب تم یہ دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو، اس کی بڑائی بیان کرو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔(صحیح بخاری :1044، صحیح مسلم :2089) حضرت ابو بکرؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺکے پاس موجود تھے کہ سورج کو گرہن لگنا شروع ہوگیا ،آپﷺ جلدی سے اُٹھے اور مسجد میں تشریف لے گئے اور ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں یہاں تک کہ سورج صاف ہوگیا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، یہ کسی کے مرنے اور جینے پر بے نور نہیں ہوتے ،جب تم یہ گرہن دیکھو تو نماز پڑھو اوردعا کرویہاں تک کہ گرہن ختم ہو جائے۔ (صحیح بخاری :1040)حضرت ابو مسعود انصاریؓ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سورج اور چاند میں گرہن کسی شخص کی موت سے نہیں لگتا یہ دونوں تواللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں اس لئے اسے دیکھتے ہی کھڑے ہوجاؤ اور نماز پڑھو۔ (صحیح بخاری:1041) حضرت مغیرہ بن شعبہؓ فرماتے ہیں، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال کے دن سورج کو گرہن ہوا ، بعض لوگ کہنے لگے : گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا ، البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔ (صحیح بخاری:1043) حضرت عبداللہ بن عمروؓروایت کرتے ہیں، جب رسول اللہ ﷺکے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو یہ اعلان کیا گیا،( اَلصَّلٰاۃُ جَامِعَۃ)ٌ’’لوگو ! نماز کھڑی ہونے والی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: 1045، صحیح مسلم : 2092) حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں، نبی اکرم ﷺکے زمانے میں سورج بے نور ہوگیا تو آپ ﷺمسجد میں آئے ،اور کھڑے ہوکر تکبیر کہی۔ لوگوں نے آپؐکے پیچھے صفیں بنا لیں۔ (صحیح بخاری:1046،صحیح مسلم:2091) حضرت ابو بکرؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سورج اور چاند دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ ان کو گرہن کرکے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ (صحیح بخاری: 1048)
  9. محمد بن إسحاق ، قال : حدثني عبد الله بن أبي بكر ، عن عمرة بنت عبد الرحمن ، عن عائشة ، قال" لقد أنزلت آية الرجم ، ورضعات الكبير عشراً ، فكانت في ورقة تحت سرير في بيتي ، فلما اشتكى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - تشاغلنا بأمره ودخلت دويبة لنا فأكلتهاأخرجه أحمد في " المسند " ( 18 / 188 - 189 / 26194 )وأخرجه ابن ماجه في " السنن " ( 1 / 625 / 1944 ) من طريق محمد بن إسحاق ، عن عبد الله بن أبي بكر ، عن عمرة ، عن عائشة وعن : عبد الرحمن بن القاسم ، عن أبيه ، عن عائشة ، به وهذا الإسناد منكر ؛ محمد بن إسحاق صدوق ، ولكن له بعض المناكير ، وقد خولف فرواه مالك في " الموطأ " ( ص 353 - تنوير ) عن : عبد الله بن أبي بكر بن حزم ، عن عمرة بنت عبد الرحمن ، عن عائشة ، قالت " كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرّمن ، ثم نسخن بهخمس معلومات ، فتوفي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - [ وهن ] فيما يقرأ من القرآن ومن طريقه : مسلم في " الصحيح " ( 2 / 513 / 1452 ) ، وأبوداود في " السنن " ( 2 / 230 / 2062 ) ، والنسائي في " المجتبى " ( 6 / 100 ) ، والترمذي في " الجامع " ( 3 / 447 ) ، والدارمي في " المسند " ( 2 / 209 / 2253 ) ، والطحاوي في " مشكل الآثار " ( 3 / 6 ) ، والبيهقي في " السنن الكبرى " ( 7 / 454 ) فهذا مما يدل على خطأ ابن إسحاق في هذا الحديث وأيضاً فإن لفظة : " كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرّمن ، ثم نسخن بهخمس معلومات ، فتوفي رسول الله - صلى الله عليه وسلم [ وهن ] فيما يقرأ من القرآن " شاذة ؛فقد خالف عبدَ الله بن أبي بكر : يحيى بن سعيد الأنصاري ، فرواه : عن عمرة ، أنها سمعت عائشة ، قالت" نزل في القرآن : عشر رضعات معلومات ، ثم نزل أيضاً : خمس معلومات " أخرجه مسلم في " الصحيح " ( 2 / 513 / 1452 ) ، والطحاوي في " مشكل الآثار " ( 3 / 7 ) ، والدارقطني في " السنن " ( 4 / 181 ) ، والبيهقي في " السنن الكبرى " ( 7 / 454 )وتابعه : القاسم بن محمد بن أبي بكر ، فرواه : عن عمرة ، أنها سمعت عائشة ، قالت " كان مما نزل من القرآن ، ثم سقط : لا يحرّم من الرضاع إلا عشر رضعات ، ثم نزل بعد : أو خمس رضعات " أخرجه ابن ماجه في " السنن " ( 1 / 625 / 1942 ) ، والطحاوي في " مشكل الآثار " ( 3 / 7 ) .وبيّن الطحاوي شذوذ هذه اللفظة في " مشكل الآثار " ( 3 / 7 - 8 )وقال مالك بعد روايته لها في " الموطأ " ( ص 353 - تنوير ) : " وليس على هذا العمل فقال الطحاوي في " مشكل الآثار " ( 3 / 8 ) : " ولو كان ما في هذا الحديث صحيحاً أن ذلك من كتاب الله ؛ لكان مما لا يخالفه ولا يقول بغيره .
  10. اس روایت کی سند میں شدید اضطراب ہے یہ ہیں دلائل سند کے اضطراب کے ابن ماجه(1944حدثنا أبو سلمة يحيى بن خلف ثنا عبد الأعلى عن محمد بن إسحاق عن عبد الله بن أبي بكر عن عمرة عن عائشة وعن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة قالت لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا ولقد كان في صحيفة تحت سريري فلما مات رسول الله وتشاغلنا بموته دخل داجن فأكلهاوأخرجه أحمد (6/269) وأبو يعلى في المسند(4587) والطبراني في الأوسط (8/12) وغيرهم من طريق محمد بن إسحاق قال حدثني عبدالله بن أبي بكر بن حزم عن عمرة بنت عبدالرحمن عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم بهوالعلة في هذا الحديث هو محمد بن إسحاق فقد اضطرب في هذا الحديث وخالف غيره من الثقات وهذا الحديث يرويه ابن إسحاق على ألوان فمرة يرويه عن عبد الله بن أبي بكر عن عمرة عن عائشة ومرة يرويه عن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة ومرة يرويه عن الزهري عن عروة عن عائشة كما عند أحمد (6/269) وليس فيه هذه اللفظة المنكرةوفي كل هذه الروايات تجد أن محمد بن إسحاق قد خالف الثقات في متن الحديثفالرواية الأولى رواها ابن إسحاق عن عبدالله بن أبي بكر عن عمرة عن عائشة قالت لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا ولقد كان في صحيفة تحت سريري فلما مات رسول الله وتشاغلنا بموته دخل داجن فأكلهاوقد روى هذا الحديث الإمام مالك رحمه الله عن عبدالله بن أبي بكر عن عمرة عن عائشة قالت نزل القرآن بعشر رضعات معلومات يحرمن ثم نسخن بخمس رضعات معلومات فتوفي رسول الله وهن مما نقرأ من القرآن كما في الموطأ (2/608) ومسلم (1452) وغيرهاوكذلك أخرجه مسلم (1452) عن يحيى بن سعيد عن عمرة بمثله وسئل الدارقطني في العلل (المخطوط (5 /150-151 )) عن حديث عائشة عن عمرة قال نزل القرآن بعشر رضعات معلومات يحرمن ثم صرن إلى خمس فقال:يرويه يحيى بن سعيد وعبدالرحمن بن القاسم واختلف عن عبدالرحمن فرواه حماد بن سلمة عن عبدالرحمن بن القاسم عن أبيه عن عمرة عن عائشة قاله أبو داود الطيالسي عن حماد بن سلمة وخالفه محمد بن إسحاق فرواه عن عبدالرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة لم يذكر عمرة وقول حماد بن سلمة أشبه بالصوابوأما يحيى بن سعيد فرواه عن عمرة عن عائشة قال ذلك ابن عيينه وأبو خالد الأحمر ويزيد بن عبدالعزيز وسليمان بن بلال وحدث محمد بن إسحاق لفظا آخر وهو عن عائشة لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا ، فلما مات النبي صلى الله عليه وسلم انشغلنا بموته فدخل داجن فأكلها) انتهى.وفي مسند الإمام أحمد بن حنبل ج:6 ص:269 ثنا يعقوب قال حدثنا أبي عن بن إسحاق قال حدثني الزهري عن عروة عن عائشة قالت أتت سهلة بنت سهيل رسول الله فقالت له يا رسول الله إن سالما كان منا حيث قد علمت إنا كنا نعده ولدا فكان يدخل علي كيف شاء لا نحتشم منه فلما أنزل الله فيه وفي أشباهه ما أنزل أنكرت وجه أبي حذيفة إذا رآه يدخل علي قال فأرضعيه عشر رضعات ثم ليدخل عليك كيف شاء فإنما هو ابنك فكانت عائشة تراه عاما للمسلمين وكان من سواها من أزواج النبي يرى إنها كانت خاصة لسالم مولى أبي حذيفة الذي ذكرت سهلة من شأنه رخصة له وقد انفرد محمد بن إسحاق في هذا الحديث بلفظ (فأرضعته عشر رضعات) وقد رواه عن الزهري ابن جريج ومعمر ومالك وابن أخي الزهري بلفظ (أرضعيه خمس رضعات) (حاشية المسند (43/342وقال الزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار الواقعة في ج:3 ص:95 وأما ما يحكى أن تلك الزيارة كانت في صحيفة في بيت عائشة فأكلتها الداجن فمن تأليفات الملاحدة والروافض قلت رواه الدارقطني في سننه في كتاب الرضاع من حديث محمد بن إسحاق عن عبد الله بن أبي بكر عن عمره عن عائشة وعن عبد الرحمن القاسم عن أبيه عن عائشة قالت لقد نزلت آية الرجم والرضاعة وكانتا في صحيفة تحت سريري فلما مات النبي تشاغلنا بموته فدخل داجن فأكلها انتهى وكذلك رواه أبو يعلى الموصلي في سنده ورواه البيهقي في المعرفة في الرضاع من طريق الدارقطني بسنده المتقدم ومتنه وكذلك رواه البزار في مسنده وسكت والطبراني في معجمه الوسط في ترجمة محمود الواسطي وروى إبراهيم الحربي في كتاب غريب الحديث ثنا هارون بن عبد الله ثنا عبد الصمد ثنا أبي قال سمعت حسينا عن ابن أبي بردة أن الرجم أنزلفي سورة الأحزاب وكان مكتوبا في خوصة في بيت عائشة فأكلتها شاتها انتهى .فهذه الرواية التي ذكرها عن الحربي في الغريب فيها عدة علل منها ضعف عبدالصمد بن حبيب وجهالة والده والإرسال فتبين لنا مما سبق أن هذه الرواية المنكرة قد تفرد بها محمد بن إسحاق وخالف فيها الثقات ، وهي رواية شاذة منكرة
  11. امام جوزقانی (المتوفى: 543 ھ) لکھتے ہیں قال: حدثنا محمد بن يزيد بن ماجه، قال: حدثنا أبو سلمة يحيى بن خلف، قال: حدثنا عبد الأعلى، عن محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي بكر، عن عمرة، عن عائشة، وعن محمد بن إسحاق، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة، قالت: «لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا، ولقد كانت صحيفة تحت سريري، فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وتشاغلنا بموته، فدخل داجن فأكلها» . هذا حديث باطل، تفرد به محمد بن إسحاق، وهو ضعيف الحديث، وفي إسناد هذا الحديث بعض الاضطراب(الاباطیل و المناکیر حدیث رقم 541)ترجمہ :۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رجم کی آیت اور بڑی عمر کے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی آیت اتری، اور یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پہ لکھی ہوئی تھیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اور ہم آپ کی وفات میں مشغول تھے ایک بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی۔علامہ جوزقانی فرماتے ہیںیہ حدیث باطل ہے ، اس کو بیان کرنے میں محمد بن اسحاق منفرد ہے، اور وہ ضعیف ہےاور اس حدیث کی اسناد میں اضطراب پایا جاتا ہے اور مسند احمد کی تخریج میں غیر مقلد شعیب الارناؤط لکھتاہے(ج 43 ص343 إسناده ضعيف لتفرد ابن إسحاق وهو محمد وفي متنه نكارة ابن حزم ظاہری لکھتا ہے (وقد غلط قومٌ غلطاً شديداً، وأتوا بأخبار ولَّدها الكاذبون والملحدون. منها: أنّ الداجن أكل صحيفةً فيها آية متلوة فذهب البتة ... وهذا كلّه ضلالٌ نعوذ بالله منه ومن اعتقاده! وأمّا الذي لا يحلّ اعتقاد سواه فهو قول الله تعالى {إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون}. فمَن شكّ في هذا كفر، ولقد أساء الثناء على أمهات المؤمنين ووصفهن بتضييع ما يتلى في بيوتهن، حتى تأكله الشاة فيتلف! مع أنّ هذا كذب ظاهر ومحال ممتنع ... فصحّ أنّ حديث الداجن إفك وكذب وفرية، ولعن الله من جوَّز هذا أو صدَّق به الإحكام (4/453 )
  12. چکنی مٹی کو کہتے ہیں۔ دورجدیدکی سائنسی اصطلاح میں صلب کو (Sacrum)اور ترائب کو (Symphysis Pubis)کہا جاتاہے۔ عصر حاضر کے علم تشریح الاعضا (Anatomy)نے اس امر کو ثابت کردیا ہے کہ مرد کا پانی جو (Semens)پر مشتمل ہو تاہے اس صلب اورترائب میں سے گزرکر رحمِ عورت کو سیراب کرتاہے۔ سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں۔صفحہ 256
  13. محمد بن عمر بن واقدی الاسلمی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"ضعفہ الجمہور"جمہور نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔(مجمع الزوائد ج3ص255) حافظ ابن الملقن نے فرمایا:" "وقد ضعفه الجمهور ونسبه الي الوضع:الرازي والنسائي" "اسے جمہور ضعیف کہا اور(ابو حاتم)الرازی رحمۃ اللہ علیہ اور نسائی نے وضاع (احادیث گھڑےوالا ) قراردیا۔(البدر المنیرج5ص324) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"متروک الحدیث"وہ حدیث میں متروک ہے۔(کتاب الضعفاء بتحقیقی :344) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا:"کذبہ احمد"احمد(بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ )نےاسے جھوٹا قراردیا ہے۔(الکامل لا بن عدی ج6ص2245دوسرا نسخہ ج7 ص481وسندہ صحیح) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "كان الواقدي يقلب الاحاديث يلقى حديث ابن اخى الزهري على معمر ونحو هذا" "واقدی احادیث کو الٹ پلٹ کر دیتا تھا وہ ابن اخی الزھری کی حدیث کو معمر کے ذمے ڈال دیتا تھا اور اسی طرح کی حرکتیں کرتا تھا۔ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "كما وصف وأشد لأنه عندي ممن يضع الحديث" "جس طرح انھوں (احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ )نے فرمایا: وہی بات بات بلکہ اس سے سخت ہے کیونکہ وہ میرے نزدیک حدیث گھڑتا تھا۔(کتاب الجرح التعدیل ج8ص21وسندہ صحیح) امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "كتب الواقدي كذب" "واقدی کی کتابیں جهوٹ (کا پلندا) ہیں"(کتاب الجرح التعدیل ج8ص21وسندہ صحیح) امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "والكذابون المعروفون بوضع الحديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة. بن أبي يحيى بالمدينة والواقدي ببغداد، ومقاتل بن سليمان بخراسان، ومحمد بن السعيد بالشام، يعرف بالمصلوب" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حدیثیں گھڑنے والے مشہور جھوٹے چار ہیں۔ (ابراہیم بن محمد)بن ابی یحییٰ مدینے میں واقدی (محمد بن عمر بن واقد الاسلمی) بغداد میں مقاتل بن سلیمان خراسان میں اور محمد بن سعید شام میں جسے مصلوب کہا جاتا ہے۔(آخر کتاب الضعفاء والمتروکین ص310دوسرا نسخہ ص265) اس شدید جرح اور جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں واقدی کے لیے بعض علماء کی توثیق قبول نہیں۔
  14. شرم گاہ کی طرف اشارہ ہے شرم گاہ کی طرف اشارہ ہے۔ اور ست سے مراد ٹھیکری یعنی بجنے والا مٹی۔
  15. و علیکم السلام۔۔ اس بات کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے سورة طارق میں کی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ (فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ۔خُلِقَ مِنْ مَّآئٍ دَافِقٍ ۔ یَّخْرُجُ مِنْ م بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِب) '' لہٰذا انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیداکیا گیا ہے؟وہ اُچھل کر نکلنے والے پانی سے پیداکیا گیا ہے جو پشت اور سینہ کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتاہے'' اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی تخلیق اور پیدائش کے ان مراحل کو سورة المٔومنون میں اس طرح بیان فرمایا ہے: (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ ۔ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَاالْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ) '' اور ہم نے انسان کو مٹی کے سَت سے پیداکیا۔پھر ہم نے اسے ایک محفوظ مقام (رحم مادر)میں نطفہ بنا کر رکھا۔پھر نطفہ کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا،پھر ہم نے اسے ایک اور ہی مخلوق بنا کر پیدا کر دیا۔ پس بڑا بابرکت ہے ،اللہ جو سب بنانے والوں سے بہتر بنانے والا ہے'' اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر ماںباپ کے مخلوط نطفے کا ذکر بھی فرماتاہے ۔ (اِنّاخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا م بَصِیْرًا) '' ہم نے انسان کو (مرد اور عورت کے ) ایک مخلوط نطفے سے پید اکیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ''
  16. غیرمقلد زبیرعلی زئی اور اس کے استاد بدیع الزمان سندھی کی صحیح بخاری کی ایک سند پر تحقیقی تبصرہ گستاخ المحدثین زبیرعلی زئی غیرمقلد اپنے استادبدیع الزمان سندھی کے ایک رسالہ "منجدالمستجیز لروایۃ السنۃ والکتاب العزیز" کے بارے میں لکھتاہے۔ یہ رسالہ شاہ صاحب کی اسناد کا مجموعہ ہے جو آپ اپنے شاگردوں اور مستجیزین کو مرحمت فرماتے تھے۔آپ نے اپنے دستخطوں اور مہر کے ساتھ 8/7/1406 ھ کو یہ اجازت نامہ مجھے بھی عطا فرمایا تھا۔اس میں ایک مقام پر آپ نے صحیح بخاری کی سند درج ذیل الفاظ میں رقم کی: "فاخبرنی الشیخ عبدالحق الھاشمی قال:اخبرنا احمد بن عبداللہ بن سالم البغدادی عن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوھاب عن جدہ شیخ الاسلام عن عبداللہ بن ابراھیم المدنی عن عبدالقادر التغلبی عن عبدالباقی عن احمد الوفائی عن موسی الحجازی عن احمد الشویکی عن العسکری عن الحافظ شمس الدین ابن القیم عن شیخ الاسلام الحافظ تقی الدین ابی العباس ابن تیمیۃ عن الفخرابن البخاری عن ابی ذرالھروی عن شیوخہ الثلاثۃ السرخسی والمستملی والکشمیھنی عن محمد بن یوسف الفربری عن امام الدنیا ابی عبداللہ محمدبن اسماعیل البخاری" (منجدالمستجیز ص 10-11) اس سند میں نہ شاہ ولی اللہ دہلوی ہیں اور نہ شاہ عبدالعزیز و محمداسحاق (تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات ج1 ص 488-489) زبیر زئی غیرمقلدوں کے لیے ثقہ محدث ہے کیونکہ وہ جو بھی نقل کرتا ہے غیرمقلدوں کے لیے قابل اعتماد ہوتا ہے اکثر غیرمقلد اس کی ہی باتوں کو صحیح سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہم اس زبیرعلی زئی کی تحریر پر ہی تحقیق کر کےاس کی اور اس کے استاد کی صحیح بخاری کی اس سند کو ضعیف و باطل ثابت کرتے ہیں۔ غیرمقلد زبیرعلی زئی کی پیش کردہ سند کی صحیح اسنادی تحقیق: غیرمقلد زبیر علی زئی کی پیش کردہ صحیح بخاری کی یہ سند معضل منقطع اور باطل ہے کیونکہ فخرابن بخاری کا ابوذرالہروی سے نہ ملاقات ثابت اور نہ ہی سماع بلکہ امام فخرابن بخاری کی پیدائش سے پہلے ہی امام ابوذرالہروی وفات پاچکے تھے۔ امام فخر ابن بخاری کی پیدائش کی تاریخ: امام ذہبی لکھتے ہیں: عَلِيّ بْن أَحْمَد بْن عَبْد الواحد بْن أَحْمَد، الشّيْخ الإِمَام، الصّالح، الورع، المعمّر، العالم، مُسْند العالم، فخر الدّين، أَبُو الْحَسَن ابن العلامة شمس الدّين أَبِي الْعَبَّاس المقدسيّ، الصّالحيّ، الحنبليّ، [المتوفى: 690 هـ] المعروف والده بالبُخاري. وُلِد فِي آخر سنة خمسٍ وتسعين وخمسمائة. 595ہجری سال کے آخر میں پیداہوئے۔ (تاریخ الاسلام،15/665) اور امام ذہبی نے ابن تیمیہ کو امام فخرابن بخاری کے شاگردوں میں لکھا۔اس کا ثبوت یہ ہے وقد روى عَنْهُ الدمياطيّ وقاضي القضاة ابن دقيق العيد، وقاضي القضاة ابن جماعة، وقاضي القضاة ابن صَصْرى، وقاضي القضاة تقيّ الدّين سُلَيْمَان، وقاضي القضاة سعد الدّين مَسْعُود، وأبو الحَجّاج المِزّيّ، وأبو مُحَمَّد البِرْزاليّ، وشيخنا أَبُو حفص ابن القواس، وأبو الوليد بن الحاج، وأبو بَكْر بْن القاسم التُّونسيّ المقرئ، وأبو الْحَسَن عَلِيّ بْن أيّوب المقدسيّ، وأبو الْحَسَن الختني، وأبو محمد ابن المحب، وأبو محمد الحلبي، وأبو الحسن ابن العطّار، وأبو عَبْد اللَّه العسقلاني رفيقنا، وأبو العباس البكري الشريشي، وأبو العباس ابن تيمية. (تاریخ الاسلام،15/665) بلکہ امام ذہبی نے ابن تیمیہ سے امام فخربن بخاری کی تعریف نقل کی جو یہ ہے۔ وقال شيخنا ابن تيمية: ينشرح صدري إذا أدخلت ابن البخاري بيني وبين النبي صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حديث. اور ہمارے شیخ ابن تیمیہ نے کہا: میرا سینہ کھل گیا جب میں نے (فخر) ابن بخاری کو اپنے اور نبی ﷺ کے درمیان (سند)حدیث میں داخل کیا۔ (تاریخ الاسلام،15/665) اس سے واضح ہو گیا کہ ابن تیمیہ امام فخرابن بخاری سے ہی روایت نقل کرتا ہے جن کی پیدائش 595 ہجری کو ہوئی۔ علامہ ابن رجب نے بھی امام فخر ابن بخاری کی پیدائش 795 کے آخر یا 796 ہجری کے شروع میں لکھتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے۔ علي بن أحمد بن عَبْد الْوَاحِد بْن أَحْمَد بْن عَبْد الرَّحْمَنِ السعدي، المقدسي الصالحي، الفقيه المحدث المعمر، سند الوقت، فخر الدين أَبُو الْحَسَن، ابْن الشيخ شمس الدين الْبُخَارِي، وَقَدْ سبق ذكر أَبِيهِ، وعمه الحافظ الضياء. ولد فِي آخر سنة خمس وسبعين وخمسمائة، أو أول سنة ست وسبعين. 575 ہجری کے آخر میں پیدا ہوئےیا 76سال کے شروع میں (ذیل طبقات الحنابلۃ4/241-242) مجھے لگتا ہے علامہ ابن رجب سے خطا ہو گئی جو انہوں نے تسعین کی جگہ سبعین لکھ دیا ۔ (واللہ اعلم) امام زرکلی نے بھی امام فخرابن بخاری کی پیدائش 595 ہجری ہی لکھی ہے یہ ہے اس کا ثبوت ابن البُخاري (595 - 690 هـ = 1199 - 1291 م) علي بن أحمد بن عبد الواحد السعدي المقدسي الصالحي الحنبلي، فخر الدين، أبو الحسن، المعروف بابن البخاري: عالمة بالحديث، نعته الذهبي بمسند الدنيا. أجاز له ابن الجوزي وكثيرون. قال ابن تيمية: ينشرح صدري إذا أدخلت ابن البخاري ببيني وبين النبي صلى الله عليه وسلم في حديث. وحدث نحوا من ستين سنة، ببلاد كثيرة بدمشق ومصر وبغداد وغيرها. (الاعلام للزرکلی 4/257) اس بات سے واضح ہو گیا کہ امام فخر ابن بخاری 595 ہجری میں ہی پیدا ہوئے۔ امام ابوذرالہروی کی وفات کی تاریخ خطیب بغدادی امام ابوذر الہروی کی وفات کے بارے میں لکھتے ہیں: ومات بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة. اور مکہ میں فوت ہوئے 5 ذی القعد سن 434 ہجری کو تاريخ بغداد(12/456، رقم 5791) امام ابن عساکر امام ابوذر الہروی کی وفات 434 ہجری ہی کو لکھتے ہیں توفي أبو ذر عبد بن أحمد بن محمد الهروي الحافظ رحمه الله بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة (تاریخ دمشق، ج37، ص393، رقم 4413) علامہ ابن منظور بھی امام ابو ذر الہروی کی وفات 434 ہجری کو ہی لکھتے ہیں: مات بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة. (مختصر تاریخ دمشق، ج 15، ص 299) علامہ برہان الیعمری (متوفی 799ھ) امام ابوذرالہروی کی وفات 435 ہجر ی لکھتے ہیں اس کا ثبوت یہ ہے۔ توفي رحمه الله تعالى في ذي القعدة سنة خمس وثلاثين وأربعمائة. الديباج المذهب في معرفة أعيان علماء المذهب (2/132) امام ذہبی بھی امام ابوذر الہروی کی وفات 434 ہجری ہی لکھتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے۔ مَاتَ بِمَكَّةَ فِي ذِي القَعْدَةِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وثَلاَثِيْنَ وَأَرْبَعِ مائَةٍ (سیر اعلام النبلاء 17/557) ان آئمہ حدیث کی تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ امام ابوذر الہروی کی وفات 434 یا 435 ہجری میں ہوئی ہے۔اور جب امام ابوذرالہروی کی وفات ہوئی اس وقت امام فخرابن بخاری پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کیونکہ ان کی پیدائش 595 یا 596 ہجری میں ہوئی ہے۔ امام ابوذر الہروی کی وفات اور امام فخرابن بخاری کی پیدائش میں تقریبا 160 یا 161 سال کا فاصلہ ہے ۔ پھر زبیر علی زئی اور اس کے استاد نے اپنی سند میں الفخرابن البخاری عن ابی ذرالھروی کیسے کہہ دیا؟؟؟ کم از کم دو تین اور راویوں کا فاصلہ ہے سند میں۔ لہذا ہماری بات کا خلاصہ تحقیق یہ ہے کی گستاخ المحدثین زبیرعلی زئی اور اس کے استاد کی بخاری شریف کی یہ سند معضل منقطع اور باطل ہے۔کیونکہ یہ سند متصل نہیں 160 یا161 سال کا فاصلہ ہے رواۃ میں۔ گستاخ المحدثین ز بیر علی زئی کو میرا یہ کہنا ہے کہ اس سند سے تو شاہ ولی اللہ ،شاہ عبدالعزیز سے اس لیے بچ رہا تھا کے وہ تقلید کرتے ہیں لیکن خود زبیر علی زئی اور اس کے استاد کی اس مردود سند میں بھی مقلد راوی موجودہیں ۔امام ابوذرالہروی خود امام مالک کے مقلد ہیں۔ امام ابن عساکر امام ابوذر الہروی کے بارے میں لکھتے ہیں: توفي أبو ذر عبد بن أحمد بن محمد الهروي الحافظ رحمه الله بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة وكان يذكر أن مولده سنة خمس أو ست وخمسين وثلاثمائة شك في ذلك كذا ذكر شيخنا الإمام الحافظ أبو بكر الخطيب رحمه الله وكذا رأيته بخط أبي عبد الله الحميدي رحمه الله وكان أحد الحفاظ الأثبات وكان علي مذهب مالك بن أنس رحمه الله عليه في الفروع ومذهب أبي الحسن في الأصول (تاریخ دمشق، ج37، ص393، رقم 4413) امام ذہبی لکھتے ہیں امام ابوذر الہروی کے بارے میں لکھتے ہیں: وَكَانَ عَلَى مَذْهَبِ مَالِكٍ وَمَذْهب الأَشْعَرِيِّ (سیر اعلام النبلاء 17/557) جب غیرمقلد تقلید کو حرام سمجھتے ہیں تو مقلد راویوں سے سند حدیث کیوں لیتے ہیں؟؟؟ ایک آخری بات جب کوئی سنی حنفی ا مام ابوحنیفہ کو امام الاعظم کہتا ہے تو غیرمقلد فورا اعتراض شروع کر دیتے ہیں لیکن خود اپنا غیرمقلد زبیرعلی زئی اور اس کا استاد بدیع الزمان امام بخاری کو امام الدنیا لکھ رہے ہیں اپنی سند حدیث میں تو پھر غیرمقلد خاموش کیوں ہیں؟؟؟ لگتا ہے ان کے ہاں اپنوں کے لیے خصوصی رعایت ہے باقیوں کے لیے بدعت کے فتوے تیار رکھتے ہیں۔ زبیر علی زئی اور اس کے استاد کی سند کو مردود ثابت کرنے کے لئے اور بھی حوالہ جات موجود ہیں لیکن محققین حدیث کے لیے اتنے حوالہ جات بھی کافی ہیں ۔ خادم حدیث شریف الفقیر رضاءالعسقلانی
  17. شارح صحیحین و مفسر قرآن علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ سے ایک عظیم تساہل و خطاء محدث العصر علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کی نشان دہی میں ایک عظیم تساہل اور خطاء ہو گی۔ علامہ سعید ملت علیہ الرحمہ اپنی تفسیر تبیان القرآن جلد دہم صفحہ 290-291(سورہ الحجرات ) میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مشہور قاتلین کی سرخی بنا کر تاریخ طبری سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310ھ لکھتے ہیں: عبدالرحمان نے بیان کیا کہ محمد بن ابی بکر دیوار پھاند کر حضرت عثمان کے مکان میں داخل ہوئے، ان کے ساتھ کنانہ بن بشر ، سودان بن حمران اور حضرت عمرو بن الحق (صحیح عمرو بن الحمق ہے، رضاالعسقلانی ) بھی تھے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قرآن شریف سے سورۃ البقرہ پڑھ رہے تھے ،محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کی داڑھی پکڑ کر کہا: اے بڈھے احمق ! تجھے اللہ نے رسواکردیا، حضرت عثمان نے کہا :میں بڈھا احمق نہیں ہوں ، امیرالمومنین ہوں، محمد بن ابی بکر نے کہا: تجھے معاویہ اور فلاں فلاں نہیں بچا سکے، حضرت عثمان نے کہا : تم میری داڑھی چھوڑ دو، اگر تمہارے باپ ہوتے تو وہ اس داڑھی کو نہ پکڑتے ، محمد بن ابی بکر نے کہا:اگر میرا باپ زندہ ہوتا تو وہ تمہارے افعال سے متنفر ہو جاتا ، محمد بن ابی بکر کے ہاتھ میں چوڑے پھل کا تیر تھا وہ انہوں نے حضرت عثمان کی پیشانی میں گھونپ دیا، کنانہ بن بشر کے ہاتھ میں ایسے کئی تیر تھے وہ اس نے آپ کے کان کی جڑ میں گھونپ دیئے، او رتیر آپ کے حلق کے آرپار ہوگئے، پھر اس نے اپنی تلوار سے آپ کو قتل کردیا۔ابوعون نے بیان کیا ہے کہ کنانہ بن بشر نے آپ کی پیشانی اور سر پر لوہے کا ڈنڈا مارا اور سودان بن حمران نے آپ کی پیشانی پر وار کرکے آپ کو قتل کردیا۔ عبدالرحمان بن الحارث نے بیان کیا کہ کنانہ بن بشر کے حملہ کے بعد ابھی آپ میں رمق حیات تھی ، پھر حضرت عمرو بن الحق (صحیح عمرو بن الحمق ہے، رضاالعسقلانی ) آپ کے سینہ پر چڑھ بیٹھے اور آپ کے سینہ پر نو وار کیے بالآخر آپ شہید ہوئے(تاریخ الامم والملوک المعروف تاریخ طبری، ج 3، ص 423-424، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بیروت) اس واقعہ کی سند کی تحقیق: علامہ سعیدی علیہ الرحمہ نے تاریخ طبری سے جو اوپر واقعہ نقل کیا ہے وہ یہ ہے: وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ حدثه عن عبد الرحمن ابن مُحَمَّدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ تَسَوَّرَ عَلَى عُثْمَانَ مِنْ دَارِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، وَمَعَهُ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرِ بْنِ عَتَّابٍ، وَسُودَانُ بْنُ حُمْرَانَ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ، فَوَجَدُوا عُثْمَانَ عِنْدَ امْرَأَتِهِ نَائِلَةَ وَهُوَ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ فِي سُورَةِ الْبَقَرَةِ، فَتَقَدَّمَهُمْ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، فَأَخَذَ بِلِحْيَةِ عُثْمَانَ، فَقَالَ: قَدْ أَخْزَاكَ اللَّهُ يَا نَعْثَلُ! فَقَالَ عُثْمَانُ: لَسْتُ بِنَعْثَلٍ، وَلَكِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مُحَمَّدٌ: مَا أَغْنَى عَنْكَ مُعَاوِيَةُ وَفُلانُ وَفُلانُ! فَقَالَ عثمان: يا بن أَخِي، دَعْ عَنْكَ لِحْيَتِي، فَمَا كَانَ أَبُوكَ لِيَقْبِضَ عَلَى مَا قَبَضْتَ عَلَيْهِ فَقَالَ مُحَمَّدٌ: لَوْ رَآكَ أَبِي تَعْمَلُ هَذِهِ الأَعْمَالَ أَنْكَرَهَا عَلَيْكَ، وَمَا أُرِيدُ بِكَ أَشَدَّ مِنْ قَبْضِي عَلَى لِحْيَتِكَ، قَالَ عُثْمَانُ: أَسْتَنْصِرُ اللَّهَ عَلَيْكَ وَأَسْتَعِينُ بِهِ ثُمَّ طَعَنَ جَبِينَهُ بِمِشْقَصٍ فِي يَدِهِ وَرَفَعَ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرٍ مَشَاقِصَ كَانَتْ فِي يَدِهِ، فَوَجَأَ بِهَا فِي أَصْلِ أُذُنِ عُثْمَانَ، فَمَضَتْ حَتَّى دَخَلَتْ فِي حَلْقِهِ، ثُمَّ عَلاهُ بِالسَّيْفِ حَتَّى قَتَلَهُ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ أَبَا عَوْنٍ يَقُولُ: ضَرَبَ كِنَانَةُ بْنُ بشر جبينه وَمُقَدَّمِ رَأْسِهِ بِعَمُودِ حَدِيدٍ، فَخَرَّ لِجَبِينِهِ، فَضَرَبَهُ سُودَانُ بْنُ حُمْرَانَ الْمُرَادِيُّ بَعْدَ مَا خَرَّ لِجَبِينِهِ فَقَتَلَهُ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرحمن ابن الْحَارِثِ، قَالَ: الَّذِي قَتَلَهُ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرِ بْنِ عَتَّابٍ التُّجِيبِيُّ وَكَانَتِ امْرَأَةُ مَنْظُورِ بْنِ سَيَّارٍ الْفَزَارِيِّ تَقُولُ: خَرَجْنَا إِلَى الْحَجِّ، وَمَا عَلِمْنَا لِعُثْمَانَ بِقَتْلٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ سَمِعْنَا رَجُلا يَتَغَنَّى تَحْتَ اللَّيْلِ: أَلا إِنَّ خير الناس بعد ثلاثة ... قتيل التجيبي الذي جَاءَ مِنْ مِصْرَ قَالَ: وَأَمَّا عَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ فَوَثَبَ عَلَى عُثْمَانَ، فَجَلَسَ عَلَى صَدْرِهِ وَبِهِ رَمَقٌ، فَطَعَنَهُ تِسْعَ طَعْنَاتٍ قَالَ عَمْرٌو: فاما ثلاث منهن فانى طعنتهن اياه الله، وَأَمَّا سِتٌّ فَإِنِّي طَعَنْتُهُنَّ إِيَّاهُ لِمَا كَانَ فِي صَدْرِي عَلَيْهِ. اور طبقات الکبریٰ میں علامہ ابن سعد نے بھی یہ روایت اپنے استاد واقدی سے ہی نقل کی ہے اس کا ثبوت یہ ہے۔ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدٍ: " أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ تَسَوَّرَ عَلَى عُثْمَانَ مِنْ دَارِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَمَعَهُ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرِ بْنِ عَتَّابٍ , وَسَوْدَانُ بْنُ حُمْرَانُ , وَعَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ فَوَجَدُوا عُثْمَانَ عِنْدَ امْرَأَتِهِ نَائِلَةَ وَهُوَ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَتَقَدَّمَهُمْ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ فَأَخَذَ بِلِحْيَةِ عُثْمَانَ، فَقَالَ: قَدْ أَخْزَاكَ اللَّهُ يَا نَعْثَلُ، فَقَالَ عُثْمَانُ: لَسْتُ بِنَعْثَلٍ، وَلَكِنْ عَبْدُ اللَّهِ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ مُحَمَّدٌ: مَا أَغْنَى عَنْكَ مُعَاوِيَةُ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَقَالَ عُثْمَانُ: يَا ابْنَ أَخِي، دَعْ عَنْكَ لِحْيَتِي، فَمَا كَانَ أَبُوكَ لِيَقْبِضَ عَلَى مَا قَبَضْتَ عَلَيْهِ , فَقَالَ مُحَمَّدٌ: مَا أُرِيدُ بِكَ أَشَدُّ مِنْ قَبْضِي عَلَى لِحْيَتِكَ، فَقَالَ عُثْمَانُ: أَسْتَنْصِرُ اللَّهَ عَلَيْكَ وَأَسْتَعِينُ بِهِ , ثُمَّ طَعَنَ جَبِينَهُ بِمِشْقَصٍ فِي يَدِهِ , وَرَفَعَ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرِ بْنِ عَتَّابٍ مَشَاقِصَ كَانَتْ فِي يَدِهِ فَوَجَأَ بِهَا فِي أَصْلِ أُذُنِ عُثْمَانَ، فَمَضَتْ حَتَّى دَخَلَتْ فِي حَلْقِهِ , ثُمَّ عَلَاهُ بِالسَّيْفِ حَتَّى قَتَلَهُ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: فَسَمِعْتُ ابْنَ أَبِي عَوْنٍ يَقُولُ: ضَرَبَ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرٍ جَبِينَهُ وَمُقَدَّمَ رَأْسِهِ بِعَمُودِ حَدِيدٍ فَخَرَّ لِجَنْبِهِ , وَضَرَبَهُ سَوْدَانُ بْنُ حُمْرَانَ الْمُرَادِيُّ بَعْدَمَا خَرَّ لِجَنْبِهِ فَقَتَلَهُ , وَأَمَّا عَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ فَوَثَبَ عَلَى عُثْمَانَ فَجَلَسَ عَلَى صَدْرِهِ وَبِهِ رَمَقٌ فَطَعَنَهُ تِسْعَ طَعَنَاتٍ وَقَالَ: أَمَّا ثَلَاثٌ مِنْهُنَّ فَإِنِّي طَعَنْتُهُنَّ لِلَّهِ، وَأَمَّا سِتٌّ فَإِنِّي طَعَنْتُ إِيَّاهُنَّ لِمَا كَانَ فِي صَدْرِي عَلَيْهِ " (الطبقات الکبریٰ لابن سعد 3/73-74) اس واقعہ کی سند موضوع اور باطل ہے۔ 1-علامہ طبری کی ملاقات محمد بن عمر واقدی سے ثابت نہیں کیونکہ واقدی کی وفات 202 ہجری میں ہوئی اس وقت تو علامہ طبری پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ یہاں علامہ طبری نے واقدی سے خود نہیں سنابلکہ اس کی کتاب سے نقل کیا ہے کیونکہ سند میں کے الفاظ موجود ہیں۔ 3-علامہ ابن سعد نے یہ واقعہ اپنے استاد محمدبن عمر واقد ی سے نقل کیا ہے۔ 2-محمد بن عمر واقدی خود جمہور کے نزدیک متروک اور کذاب ہے ۔ امام یحیی بن معین فرماتے ہیں: أَحْمَدُ بنُ زُهَيْرٍ: عَنِ ابْنِ مَعِيْنٍ، قَالَ: لَيْسَ الوَاقِدِيُّ بِشَيْءٍ (تاریخ یحیی بن معین /532) ومحمد بن عمر الواقدي قال يحيى بن معين كان الواقدي يضع الحديث وضعاً (مشیخہ النسائی ، 1/76، رقم 6) خطیب بغدادی فرماتے ہیں: فَقَالَ: هَذَا مِمَّا ظُلِمَ فِيْهِ الوَاقِدِيُّ (تاریخ بغداد، 3/9) امام بخاری لکھتے ہیں: وَذَكَرَهُ البُخَارِيُّ، فَقَالَ: سَكَتُوا عَنْهُ، تَرَكَهُ: أَحْمَدُ، وَابْنُ نُمَيْرٍ (تاریخ الکبیر ، 1/178) و قال البخارى : الواقدى مدينى سكن بغداد ، متروك الحديث ، تركه أحمد ، و ابن نمير ، و ابن المبارك ، و إسماعيل بن زكريا . و قال فى موضع آخر : كذبه أحمد (تہذیب الکمال/6175) امام مسلم فرماتے ہیں: متروك الحديث (تہذیب الکمال/6175) امام حاکم فرماتے ہیں: ذاهب الحديث (تہذیب الکمال/6175) امام ابن عدی فرماتے ہیں: أحاديثه غير محفوظة و البلاء منه تهذيب التهذيب 9 / 366 امام علی بن مدینی فرماتے ہیں: و قال ابن المدينى : عنده عشرون ألف حديث ـ يعنى ما لها أصل . و قال فى موضع آخر : ليس هو بموضع للرواية ، و إبراهيم بن أبى يحيى كذاب ، و هو عندى أحسن حالا من الواقدى . تهذيب التهذيب 9 / 366 امام ابوداؤد فرماتے ہیں: لا أكتب حديثه و لا أحدث عنه ; ما أشك أنه كان يفتعل الحديث ، ليس ننظر للواقدى فى كتاب إلا تبين أمره ، و روى فى فتح اليمن و خبر العنسى أحاديث عن الزهرى ليست من حديث الزهرى تهذيب التهذيب 9 / 366 امام بندار فرماتے ہیں: ما رأيت أكذب منه تهذيب التهذيب 9 / 366 امام ابوحاتم رازی فرماتے ہیں: و حكى ابن الجوزى عن أبى حاتم أنه قال : كان يضع . امام ساجی فرماتے ہیں: و قال الساجى : فى حديثه نظر و اختلاف . و سمعت العباس العنبرى يحدث عنه امام نووی فرماتے ہیں: و قال النووى فى " شرح المهذب " فى كتاب الغسل منه : الواقدى ضعيف باتفاقهم . امام ذہبی فرماتے ہیں: و قال الذهبى فى " الميزان " : استقر الإجماع على وهن الواقدى . و تعقبه بعض مشائخنا بما لا يلاقى كلامه . امام دارقطنی فرماتے ہیں: و قال الدارقطنى : الضعف يتبين على حديثه امام نسائی فرماتے ہیں: قَالَ النَّسَائِيُّ: المَعْرُوْفُونَ بِوَضعِ الحَدِيْثِ عَلَى رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَرْبَعَةٌ: ابْنُ أَبِي يَحْيَى بِالمَدِيْنَةِ، وَالوَاقِدِيُّ بِبَغْدَادَ، وَمُقَاتِلُ بنُ سُلَيْمَانَ بِخُرَاسَانَ، وَمُحَمَّدُ بنُ سَعِيْدٍ بِالشَّامِ. (سیر اعلام النبلاء،9/463) لَيْسَ بِثِقَةٍ. (سیر اعلام النبلاء،9/457) امام شافعی فرماتے ہیں: وَقَالَ يُوْنُسُ بنُ عَبْدِ الأَعْلَى: قَالَ لِي الشَّافِعِيُّ: كُتُبُ الوَاقِدِيِّ كَذِبٌ (تاریخ بغداد، 3/14) امام علی بن مدینی فرماتے ہیں: المُغِيْرَةُ بنُ مُحَمَّدٍ المُهَلَّبِيُّ: سَمِعْتُ ابْنَ المَدِيْنِيِّ يَقُوْلُ: الهَيْثَمُ بنُ عَدِيٍّ أَوْثَقُ عِنْدِي مِنَ الوَاقِدِيِّ (سیر اعلام النبلاء،9/462) اور جمہور کے نزدیک ھیثم بن عدی ضعیف اور متروک ہے امام ذہبی ہیثم بن عدی کے بارے میں لکھتے ہیں: قُلْتُ: أَجْمَعُوا عَلَى ضَعْفِ الهَيْثَمِ (سیر اعلام النبلاء،9/462) علامہ مرۃ فرماتے ہیں: وَقَالَ مَرَّةً: لاَ يُكْتَبُ حَدِيْثُهُ. (سیر اعلام النبلاء،9/462) امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں: النَّسَائِيُّ فِي (الكُنَى) : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ الخَفَّافُ، قَالَ: قَالَ إِسْحَاقُ: هُوَ عِنْدِي مِمَّنْ يَضَعُ الحَدِيْثَ يَعْنِي: الوَاقِدِيَّ (سیر اعلام النبلاء،9/462) علامہ ابو اسحاق الجوزجانی فرماتے ہیں: لَمْ يَكُنِ الوَاقِدِيُّ مَقْنَعاً، ذَكَرتُ لأَحْمَدَ مَوْتَهُ يَوْمَ مَاتَ بِبَغْدَادَ، فَقَالَ: جَعَلتُ كُتُبَهُ ظَهَائِرَ لِلْكُتِبِ مُنْذُ حِيْنَ (تاریخ بغداد، 3/15) امام ابوزرعہ فرماتے ہیں: تَرَكَ النَّاسُ حَدِيْثَ الوَاقِدِيِّ (تہذیب الکمال/1249) واقدی کے علاوہ عبدالرحمن بن ابی الزناد پر بھی کافی جرح ہے لیکن اس کو نقل کرنے سے پوسٹ بڑی ہو جائے گی۔ویسے عبدالرحمن بن ابی الزناد کی تمام جرحیں میری پوسٹ "حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین کی صحیح حدیث اور غیرمقلد زبیرعلی زئی کے اعتراضات کا ردبلیغ" میں موجود ہیں۔ خلاصہ تحقیق یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس واقعہ کی سند موضوع اور باطل ہے۔اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں حضرت عمروبن الحمق رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول ﷺ ہیں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا اور نہ ہی محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کو شہید کیا ہے۔علامہ سعیدی علیہ الرحمہ سے بہت بڑی خطاء ہو گی جو اس واقعہ کو بنا تحقیق کیے اپنی تفسیر میں نقل کردیا۔ اللہ عزوجل علامہ سعیدی علیہ الرحمہ کی تمام خطاؤں کو معاف فرمائے اور ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے(امین)
  18. ایک غیر مقلد کی جہالت چیک کریں دعا کے کے سلسلے میں کفایت اللہ وہابی محدث فورم پر ایک وہابی کے سوال کے جواب میں لکھتا ہے۔ دیکھیں کتنی جہالت سےوہابی کسی اور کے دعا کے تجربے کو کہہ رہا کہ یہ بات کسی روایت میں نہیں ہےاور یقین نہ آئے تو جب جب آپ کی کوئی چیز گم ہو جائے ان الفاظ کو پڑھ کر دیکھیں۔ پتہ چل جائے گا کہ یہ نسخہ کتنا مجرب ہے۔ پھر آگے لکھتا ہے: آدمی کو چاہئے کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ اذکار و ادعیہ کی پابندی کرے ا ور مجرب کے نام پر خود ساختہ ادعیہ و اذکار کی دوکان چلانے والوں سے ہوشیا ر رہے۔اگرکسی کو مسنون دعائیں یاد نہیں تو وہ اپنے الفاظ میں بھی جب چاہے اللہ سے دعاء کرسکتا ہے۔ اس وہابی کے میرے چند سوالات مندرجہ ذیل ہیں: 1۔ اگرایک بندہ قرآن وحدیث والے اذکار کو پڑھتا ہے لیکن پھر بھی اس کی دعا قبول نہ ہو تو کیا معاذاللہ قرآن و حدیث کو جھٹلا دیں ؟؟؟ 2۔اگر دو بندے ایک ہی ذکر والے کلمات کو پڑھتے ہیں ایک کی دعا قبول ہو جاتی ہے اور دوسرے کی نہیں ہوتی تو کیا اس میں دعا قبول ہونے والےشخص کے تجربے کو جھوٹا کہا جائے گا؟؟ 3۔ جب بندہ اپنی طرف بنائے ہوئےکلمات سےاللہ عزوجل سے دعا مانگ سکتا ہے توکیا کسی ولی یا کسی نیک بندے کے تجربے والی دعااللہ عزوجل سے کیوں نہیں مانگ سکتا ؟؟ مرتے دم تک کوئی وہابی ان سوالات کے جواب نہیں دے پائے گا۔(ان شاء اللہ)
  19. پھر تم وہابی تسلیم کیوں نہیں کرتے سرکارﷺ اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں جب کہ اس کے بارے میں خلیل رانا بھائی نے صحیح حدیث پیش کی ہے؟؟ ہمارا تو موقف ہے کہ سرکارﷺ اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں اس پر بات کر نا وہابی بات کو گھما پھرا کر کیوں پیش کر رہا ہے؟؟ امام ابن حجر العسقلانی علیہ الرحمہ کی اس عبارت کو کبھی پڑھا ہے یا نہیں؟؟ قال الله تعالى : {وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ} " سورة البقرة " قال الله تعالى : { بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ } , { فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ }." سورة آل عمران " يقول الحافظ ابن حجررحمه الله في هذه الآيتين : ‘‘وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فانه يقوه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القران و الأنبياء أفضل من الشهداء ’’ ( فتح الباري ج : 6 ص : 379 ). امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ‘‘حيات النبي - صلى الله عليه وسلم - في قبره وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا , كما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت (به) الأخبارالدالة على ذلك .’’ ( الحاوي للفتاوى , ج : 2 , ص : 147 , طبعة دار الكتب العلمية ) قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ (متوفی1225ھ) فرماتے ہیں: فذهب جماعة من العلماء إلى ان هذه الحيوة مختص بالشهداء والحق عندى عدم اختصاصها بهم بل حيوة الأنبياء أقوى منهم وأشد ظهورا اثارها في الخارج حتى لا يجوز النكاح بأزواج النبي صلى اللّه عليه وسلم بعد وفاته بخلاف الشهيد. (تفسیر مظہری ج:1ص:152) بعض علماء کے نزدیک اس آیت میں جس حیات کا ذکرہے وہ صرف شہداء کو ملتی ہے۔ لیکن صحیح قول کے مطابق انبیاء کرام علیہم السلام کو حیات شہداء سے بھی بڑھ کر ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ شہید کی بیوی سے نکاح جائز ہے مگرنبی علیہ السلام کی بیوی سے جائز نہیں۔
  20. علامہ غلام رسول رضوی صاحب تمام حوالہ جات کو مستندو دلائل قاہرہ قرار دینا خود محل نظر ہے۔ کیونکہ اس کتاب میں خود ضعیف الاسناد روایات ہیں ۔ کشمیر بھائی آپ کے پیش کردہ سکین پیج میں دی گی ایک حدیث کی سند کا اصل مصادر سے اس کا ضعیف ہونا ثابت کر دیتا ہوں۔ اس کتاب میں حلیۃ الاولیاء کی ایک حدیث پیش کی گئی ہے جس کی پوری سند یہ ہے۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثَنَا يُونُسُ بْنُ حَبِيبٍ، ثَنَا أَبُو دَاوُدَ، ثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خُلَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْعَصَرِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ إِلَّا وَبِجَنْبَتَيْهَا مَلَكَانِ يُنَادِيَانِ، يُسْمِعَانِ الْخَلَائِقَ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، هَلُمُّوا إِلَى رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ، مَا قَلَّ وَكَفَى خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ وَأَلْهَى " رَوَاهُ عِدَّةٌ عَنْ قَتَادَةَ، مِنْهُمْ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، وَشَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّحْوِيُّ، وَأَبُو عَوَانَةَ، وَسَلَامُ بْنُ مِسْكِينٍ وَغَيْرُهُ اس روایت میں قتادہ راوی موجود ہے جو کہ مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے اس لیے یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔ لہذا اس سے ثابت ہوا تمام حوالہ جات کو مستند و دلائل قاہرہ قرار دینا صحیح نہیں ہے بلکہ ان کا تساہل ہے۔ باقی ہم ان کے علم کی قدر کرتے ہیں۔ علامہ مختار اشرفی صاحب نے اپنی تقریظ میں کہیں بھی تصحیح کا لفظ نہیں لکھا بلکہ ادارہ والوں نے اپنی طرف سے لکھا ہے لہذا اس سے آپ کا استدلال کرنا محل نظر ہے۔ خود دیکھ لیں اپنے سکین پیج سے۔ آپ کو دونوں عالموں کی بات کا جواب دے دیا ہے۔ ان میں سے کسی ایک عالم نے جواہرخمسہ کا نام لے کر مستند نہیں کہا بلکہ سب حوالہ جات کو کہا جو کہ محل نظر ہے۔اور اس کا جواب میں اوپر دے چکا ہوں۔ باقی کشمیر بھائی " نعرہ رسالت پر امت پر اجماع" والی کتاب کا لنک بھی دیں تاکہ میں اس کا مطالعہ کر کے آپ کو بتا سکوں کہ اس میں کتنے حوالہ جات مستند ہیں اور کتنی ضعیف ہیں ؟؟؟ کیونکہ یہ کتاب مجھے پی ڈی ایف فائل نہیں مل رہی۔
  21. بھائی میرے اس فورم پر آپ کی طرف زیادہ ایڈمنز حضرات ہیں جو آپ کو پروٹیٹ کر رہے ہیں کیونکہ میرے ID کئی بار لاک کیا گیا ہے وہ بھی وقفے وقفے سے کبھی آئن لائن ہو بھی جاتا تو کسی بھی پوسٹ پر کمنٹس نہیں دے پاتا تھا پھر میں نے حسنین بھائی سے فیس بک پر رابطہ کیا کہ کیا مجھے بلاک کیا گیا ہے؟؟ تو اس بھائی نے کہا میں چیک کرتا ہوں ۔لیکن پھر بھی میں وقفے وقفے سے آن لائن ہونے کی کوشش کرتا رہا پھر آخر کار میں فورم پر سائن ان ہو ہی گیا لگتا ہے شاید حسنین بھائی نے اس مسئلہ کو حل کیا ہوگا۔ باقی بھائی میرے کسی عالم کی تقریظ اس کتاب کے مستند ہونے کی دلیل نہیں جب تک اس کتاب کے حوالہ جات کو اس کے اصل مصادر اور ماخوذ کی طرف سے تصدیق نہ ہو جائے۔ورنہ میں آپ کو کئی ایسی کتب کے حوالے جات پیش کر سکتا ہوں جو اصولاًضعیف ہیں لیکن پھر بھی علما ان سے استدلال کرتے ہیں۔علامہ شامی علیہ الرحمہ نے ان میں سے چند کتب کا ذکر بھی کیا ہے اپنی کتاب درس عقود رسم المفتی میں۔ باقی ہم سنی علماءکے ساتھ حسن ظن کے قائل ہیں۔ ویسے اگر آپ سب سنی بھائیوں کو میرے فورم پر آنا پسند نہیں تو مجھے بتا کر بے شک مجھےبلاک کردیں تاکہ مجھے اس بار میں اطلاع تو ہو !!!! باقی آپ کی پیش کردہ دلائل کے لیے میری طرف سے صرف علامہ شامی علیہ الرحمہ کی بیان کردہ تحقیق ہی کافی ہے علامہ شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: "و رایت فی اوائل شرح الاشباہ للعلامۃ محمد ہبۃ اللہ قال : و من الکتب الغریبۃ ملا مسکین شرح الکنز و القہستانی لعدم الاطلاع علی حال مولفیھما ، او لنقل الاقوال الضعیفۃ کصاحب القنیۃ ، او لا ختصار کالدرالمختار للحصکفی و النہر و العینی شرح الکنز۔ قال شیخنا صالح الجینینی : انہ لا یجوز الافتاء من ہذا الکتب الا اذا علم المنقول عنہ اولاطلاع علی ماخذ ھا ہکذا سمعۃ منہ۔" میں (علامہ شامی ) نے علامہ محمد ہبۃ اللہ کی شرح الاشباء کی ابتداء میں لکھا دیکھا آپ نے فرمایا: غیر مانوس کتب میں ملا مسکین شرح کنزالدقائق اور قہستانی ہیں کہ ان دونوں کتب کے مولف کا حال معلوم نہیں۔صاحب قنیۃ کی تمام ہی کتب کہ وہ اقوال ضعیفہ کو نقل کرتے ہیں ، یوں ہی علامہ حصکفی کی درمختار ، اس طرح نہر الفائق اور علامہ عینی کی رمز الحقائق جو شروحات کنز الدقائق میں سے ہیں ، اپنے اختصار کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں ہیں۔ ہمارے شیخ صالح جینینی نے فرمایا: ان کتب سے فتویٰ دینا اس وقت تک جائز نہیں جب تک ان کے منقول عنہ کا علم نہ ہو جائے اور ان کے اصل ماخذ تک رسائی نہ ہو جائے، میں نے یہ بات ان سے سنی۔ (درس عقود رسم المفتی، ص32-33) خود پڑھ لیں علامہ شامی علیہ الرحمہ نے درمختار کا ضعیف ہونا بھی ساتھ لکھا ہے اور درمختار کے حوالہ جات بہارشریعت اور فتاویٰ رضویہ میں بھرے پڑے ہیں تو کیا اس سے طرح کے استدلال سے کتاب مستند ہو جاتی ہے کیا؟؟؟ جب کے بہارشریعت پر اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی تقریظ بھی موجود ہے اور فتاویٰ رضویہ تو خود اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا ہے۔ لہذا بنا اصل مصادر اور ماخوذ کی طرف رجوع کرنا کسی عالم کا کسی کتاب پر تقریظ لکھنا اس کے مستند ہونے کی دلیل نہیں۔ اگر پھر بھی علامہ شامی علیہ الرحمہ کی تحقیق پر مطمئن نہ ہوں تو یہ بندہ فقیر اور بھی حوالہ جات پیش کر سکتا ہے جس میں یہ ہو گا کہ کتاب تو مستند نہیں ہو گی لیکن پھر بھی علماء اہل سنت نے اس سے دلیل لی ہو گی۔ کشمیر بھائی یہ آپ کے صرف الزامی جواب میں یہ کمنٹس لکھا ہے ورنہ الزامی جواب کی تحقیق کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ علامہ شامی علیہ الرحمہ کا جواب تحقیقی ہے الزامی نہیں لہذا اس کا جواب تحقیقی ہونا چاہیے نہ کہ الزامی۔
  22. کشمیر بھائی میں اس پر بحث نہیں کرنا چاہتا کیونکہ مجھےکافی سنی دوستوں کی کالز آچکی ہیں کہ بھائی آپ اس پر مزید زیادہ بحث نہ کریں کیونکہ اس سے بدمذہبوں کو فائدہ ہو رہا ہے اس لیے میں نے دوبارہ پھر اس پر بات نہیں کی۔ اس وجہ سے شاید فورم پر اسی پوسٹ کو لاک کردیا گیا باقی اگر واقعی آپ اس پر مزید بحث کرنے کرنا چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں اور اس فورم کے ایڈمنز کو میری گزارش ہے پھر وہ اس پوسٹ کو لاک نہ کریں۔ @M Afzal Razvi @Abdullah Yusuf @Sag-e-Attar @Rana Asad Farhan @Arslan fayyaz
  23. میں نے اس بات وضاحت کر دی ہے کہ اگر اس کی نیت انبیاءکرام علیہم السلام میں شمولیت اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی تفضیل پر نہیں تو پھر جائز ہے۔ اس نعرہ میں یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ اس مراد یہ ہو کہ سوالاکھ بار نعرہ حیدری تو اس میں کونسی شرعی قباحت ہے؟؟؟ یہ بات نعرہ لگانے کی نیت پر ہے اور نیت کا علم اللہ عزوجل ہی بہتر جانتا ہے۔ویسے یہ نعرہ لوگوں کے عقائد کے مطابق ہو گا، جیسا عقیدہ ہوگا ویسے ہی اس کی مراد ہو گی ۔ اگر نعرہ لگانے والا رافضی ہے تو اس میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفضیل انبیاء کرام علیہم السلام پر اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہما پر ہے کیونکہ یہ ان کا عقیدہ ہے۔ لیکن اگر یہ نعرہ کوئی صحیح عقائد والا سنی لگائے تو اس میں اس کی مراد یہ ہو گی کہ سوا لاکھ بار نعرہ حیدری کیونکہ کسی بھی صحیح عقائد والے سنی کا یہ عقیدہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ انبیاء کرام علیہم السلام میں شامل ہیں اور نہ ہی حضرت شیخین رضی اللہ عنہما پر تفضیل والا عقیدہ ہے۔ اس نعرہ کی وجوہات عقائد پر ہے جیسا عقیدہ ہوگا ویسے ہی مراد ہو گی۔باقی نیت کا صحیح علم اللہ بہتر جانتا ہے۔
  24. اگر قضاء نماریں ہیں تو پھر فرض اور واجب نماز پڑھنا لازمی ہے باقی نوافل اور سنتوں کو چھوڑنے کا اس پاس اختیار ہے چاہے تو پڑھ لے تو بہتر ہے اگر چھوڑ دیتا ہے تو اس پر کوئی حرج نہیں
  25. ویسے قرآن و حدیث سے تو ایسی کوئی دلیل ثابت نہیں ہے لیکن اگر کوئی یہ نعرہ لگا بھی دے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ۔ واللہ اعلم اب یہ نعرہ لگانے والے کی نیت پر ہے۔ اگر اس کی مراد یہ ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ انبیاءکرام علیہم السلام میں شمار ہیں (معاذاللہ) تو ایسا کرنا کفر ہے۔ اگر اس کی نیت یہ ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان سے افضل ہیں تو پھر ایسا کرنا گمراہی ہے۔ اور اگر اس کی نیت صرف نعرہ لگانے کی ہو اور اوپر والے دو اقوال میں سے نہ ہوپھر ایسا نعرہ لگانا جائز ہے اس میں کوئی شرعی حرج نہیں۔ واللہ اعلم
×
×
  • Create New...