Jump to content

Bade Wisal Gairullah Se Madad Mangna


RAZVI TALWAR

تجویز کردہ جواب


2. ابو صالح السمان ... جن کا اصل نام ذکوان ہے ... کا مالک الدار سے سماع اور ادراک ثابت نہیں، کیونکہ مالک الدار کی تاریخ وفات کا علم نہیں، اور اس پر مستزاد کہ ابو صالح کا مالک سے عنعنہ ہے۔ سماع کی صراحت بھی نہیں

 

 

 

Is bat ka radd khud Imam Ibne Saad se aur Imam Ibne Hibban se unhony Abu Saleh ko Malik Bin Dar k shagirdon main likha hai

 

مَالِكٌ الدَّارُ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , وَقَدِ انْتَمَوْا إِلَى جُبْلَانَ مِنْ حِمْيَرَ , وَرَوَى مَالِكٌ الدَّارُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَعُمَرَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ. رَوَى عَنْهُ أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ , وَكَانَ مَعْرُوفًا

 

الطبقات الکبریٰ لابن سعد

5/12

مَالك بن عِيَاض

الدَّار يروي عَن عمر بْن الْخطاب روى عَنهُ أَبُو صَالح 

السمان وَكَانَ مولى لعمر بن الْخطاب أَصله من جبلان

الثقات لابن حبان

 

5/384 

 

 

Imam Asqalani likhty hain

 

 

 

مالك بن عياض

: مولى عمر، هو الّذي يقال له مالك الدّار.

له إدراك، وسمع من أبي بكر الصّديق، وروى عن الشّيخين، ومعاذ، وأبي عبيدة.

روى عنه أبو صالح السمان، وابناه: عون، وعبد اللَّه ابنا مالك

 الاصابۃ

6/216

Edited by Raza Asqalani
Link to comment
Share on other sites

اس روایت کے متن میں نکارت ہے۔

6. اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک بڑی علت یہ بھی ہے کہ نبی کریم کی قبر مبارک خلافتِ عمر میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں تھی، حتیٰ کہ بعد میں یزید بن الولید نے اسے مسجد نبوی میں شامل کر دیا تھا، تو خلافتِ عمر میں ایک غیر محرم شخص سیدۃ عائشہ کے حجرہ میں کیسے داخل ہو سکتا تھا؟؟؟

 

 

Is bat ka radd khud Hazrat Ayesha Rz.A se 

ye hadis hai jis ki khud Nasir Bani ny Tasahih ki Mishkat ki taleeq main

 

 

 

وعن عائشة قالت : كنت أدخل بيتي الذي فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم وإني واضع ثوبي وأقول : إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر رضي الله عنه معهم فوالله ما دخلته إلا وأنا مشدودة علي ثيابي حياء من عمر . رواه أحمد

ترجمہ:
حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین ؓ فرماتی ہیں کہ جب میں اس حجرہ مبارک میں جایا کرتی تھی جس میں رسول کریم ﷺ (اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ) مدفون تھے تو میں (اپنے بدن سے) کپڑا (یعنی چادر) اتار کر رکھ دیتی تھی اور (دل میں ) کہا کرتی تھی کہ یہاں میرے خاوند (آنحضرت ﷺ ) اور میرے باپ (حضرت ابوبکر صدیق ) مدفون ہیں اور یہ دونوں میرے لئے اجنبی نہیں ہیں تو پھر حجاب کیسا؟ مگر جب (اس حجرہ میں ) ان کے ساتھ حضرت عمر فاروق کو دفن کر دیا گیا تو اللہ کی قسم میں اس حجرہ میں جب بھی داخل ہوتی تھی، حضرت عمر سے حیاء کی وجہ سے (کہ وہ اجنبی تھے) اپنے بدن پر کپڑے لپیٹے رکھتی۔
(احمد

Edited by Raza Asqalani
Link to comment
Share on other sites

Bhatti beta aisy jahilana sawal pochna usool-e-hadis se doori aur na waqif hony ka natija hai taqreeban sary aima ny Abi Salaeh ko Malik bin Dar k shagirdon main likha hai..

ab koi ye keh dy k bina ustad se mulaqat k us ka shagird ho jaye to ye jahalat hai aur aisi jahalat bhati sahab tm se sabit ho rahi hai

 

Lo dekho Imam Ibne Saad ny Abi Saleh ko Malik Bin Dar k shagirdon main likha hai

 

 

 

مَالِكٌ الدَّارُ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , وَقَدِ انْتَمَوْا إِلَى جُبْلَانَ مِنْ حِمْيَرَ , وَرَوَى مَالِكٌ الدَّارُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَعُمَرَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ. رَوَى عَنْهُ أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ , وَكَانَ مَعْرُوفًا

الطبقات الکبریٰ لابن سعد

5/12

ہم لوگ سوال پھی پوچھے تو جاہل۔ لیکن آپ لوگوں کی 300 عورتیں جالی پیر سے حاملہ ہو جائیں تو بھی آپ لوگ سمجھ دار۔واہ اہل توحید کی عزت کی حفاظت اللہ نے عقیدہ توحید قبول کرنے میں رکھ دی ہے
Link to comment
Share on other sites

ہم لوگ سوال پھی پوچھے تو جاہل۔ لیکن آپ لوگوں کی 300 عورتیں جالی پیر سے حاملہ ہو جائیں تو بھی آپ لوگ سمجھ دار۔واہ اہل توحید کی عزت کی حفاظت اللہ نے عقیدہ توحید قبول کرنے میں رکھ دی ہے

Ghady Tameez se bat kr ager tameez se bat krna ni ati to dafa ho jao hmhry pass bi kehny ko baht kuch hai likin hm thmhry tarah jahil ni hain

میرے بھائی یہاں لگے ہوئے ہو جو مناظرہ کا کہا ہے وہ کیوں قبول نہیں کرتے

 

Bhatti jahil tmhra najdi shiekh abi tak ghair hazir hai wo aya q ni hmry form per

Edited by Raza Asqalani
Link to comment
Share on other sites

(bis)

جناب بھٹی آن لائن صاحب

جہلاءکے غیر شرعی کاموں کو اہل سنت کےذمے لگانا انصاف نہیں

کیا وھابی شراب نہیں پیتے؟ کیا وھابی زنا نہیں کرتے؟ حرام نہیں کھاتے،

جھوٹ نہیں بولتے؟کیا وھابی فلمیں ڈرامے نہیں دیکھتے؟رشوت نہیں لیتے؟

پچھلے دنوں ہمارے قصبہ میں گوجرانوالہ سے چند  اونچی شلواروں ،لمبی داڑھیاں اور ننگے سر والےوھابی آئے اور ایک کالونی بنانے کا اشتہار شائع کیا

جس بجلی ،گیس ،سیورج کا بھی لکھا، خالی پلاٹ بیچ کر سادہ لوح عوام کے پیسے کھا کر

ایسے غائب ہوئے کہ آج تک لوگ تلاش میں ہیں۔

ایک دوست نے آپ سے سوال کیا کہ

وھابی مولوی صدیق حسن خاں بھوپالی نے مرے ہوئے تمہارے امام شوکانی سے مدد  مانگی

کیا تمہارے مذھب میں فوت شدہ سے مدد مانگنا شرک نہیں ؟

اَب یہ نہ کہہ دینا کہ صدیق حسن کا یہ فعل غلط ہے اور ہم نہیں مانتے

بلکہ بتائیے وہ مشرک ہو ایا نہیں؟

 

 

 

 

01.jpg

02.jpg

03.jpg

04.jpg

Link to comment
Share on other sites

Ghady Tameez se bat kr ager tameez se bat krna ni ati to dafa ho jao hmhry pass bi kehny ko baht kuch hai likin hm thmhry tarah jahil ni hain

 

Bhatti jahil tmhra najdi shiekh abi tak ghair hazir hai wo aya q ni hmry form per

جب تم لوگوں کو جاہل کہا تب بڑا غصہ آگیا جو خود دوسروں کو برا بھلاکہتے ہو تب نہیں یاد ہوتا کہ آپ لوگوں میں کیا کمزوریاں ہیں۔
Link to comment
Share on other sites

رضا صاحب 9/2/11 آپ ہوا ہے۔ ہر بات آپ کی ہی مانی جائے یہ کہا کا اصول ہے۔ تم نے صرف بھاگنے کے بھانے دھونڈیں ہیں۔ کہا تو آپکو بھی ہے محدث فورم پہ کرے بات بھاگے کیوں وہاں سے۔

Link to comment
Share on other sites

جب تم لوگوں کو جاہل کہا تب بڑا غصہ آگیا جو خود دوسروں کو برا بھلاکہتے ہو تب نہیں یاد ہوتا کہ آپ لوگوں میں کیا کمزوریاں ہیں۔

Tum wahabi khabees se akhalq k laiq ni tm ko sirf joty marny chahye

Link to comment
Share on other sites

رضا صاحب 9/2/11 آپ ہوا ہے۔ ہر بات آپ کی ہی مانی جائے یہ کہا کا اصول ہے۔ تم نے صرف بھاگنے کے بھانے دھونڈیں ہیں۔ کہا تو آپکو بھی ہے محدث فورم پہ کرے بات بھاگے کیوں وہاں سے۔

Jahil wahabi hmhry comments dekh aur apni munafiqat dekh hm ny kab kah link dia howa hai likin abi tak tmhra wahabi shiekh zahir hi ni howa..

post-18262-0-46229500-1484818556_thumb.jpg

post-18262-0-42548100-1484818576_thumb.jpgpost-18262-0-22567300-1484818595_thumb.jpgpost-18262-0-74702500-1484818610_thumb.jpg

Edited by Raza Asqalani
Link to comment
Share on other sites

چونکہ وہابی ہوتے ہی عقل سے پیدل ہیں اس لیے اول فول بکتے رہتے ہیں۔

ابوبکر جزائری کا رد اس لنک میں پڑھین۔

عقائد و نظریات صفحہ 117

 

اس کے علاوہ وہابیہ نے اس حدیث پر جتنے بھی اعتراضات کیے ہیں ان سب کا جواب انگلش میں اس لنک پر پڑھیں۔جو کتاب دی گئی ہے اس کا رد بھی موجود ہے 

 

http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=54aa167a-ac77-4cc8-b8c5-1000a15585d9

 

 

https://archive.org/stream/TheBlazingStar/The%20Blazing%20Star#page/n1/mode/1up

 

Link to comment
Share on other sites

پہلا مراسلہ

 

:)

 

 

حديث بلال بن الحارث

 

يستدل الصوفية "هدانا الله وإياهم" على جواز الاستغاثة بغير الله ، وطلب المدد ....، بحديث بلال بن الحارث رضي الله عنه في الاستسقاء ... ، ويقول داعية التصوف "علي الجفري" في إحدى دروسه : ((يشتد القحط فيأتي كما ذكر الإمام ابن حجر العسقلاني ، في فتح الباري ، في المجلد الثاني ، في كتاب الاستسقاء ، ورواه البيهقي والحاكم وابن خزيمة بسند صحيح ، أن بلال بن الحارث المزني ، وهو من أصحاب المصطفى ، جاء إلى قبر رسول الله ، في سنة مقحطة في عهد عمر ، ووقف على القبر الشريف ، وقال: يا رسول الله لقد هلك .......)) لتشاهدوا ما أنقله لكم تفضلوا بالضغط هنا

 

أولاً ـ لكي تعلموا مدى أمانة النقل عند الداعية علي الجفري ، وكيف أنه يستخف بعقول من يخاطب ، أفيدكم بأنه قد كذب على الحاكم ، وعلى ابن خزيمة ، لأن أحداً منهما لم يرو هذا الحديث في أي من كتبهما ، ولم ينقله أحد عنهما.!!!

ثانياً ـ إن الذي في فتح الباري ، مخالف لما نقله الجفري ، ففي فتح الباري (2ـ495) قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: وروى ابن أبي شيبة ، بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار ، وكان خازنَ عمر ، قال: أصاب الناسَ قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: يا رسول الله استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: ائت عمر .. الحديث ، وقد روى سيف ، في الفتوح ، أن الذي رأى المنام المذكور ، هو بلال بن الحارث المزني ، أحد الصحابة. اهـ. بحروفه

قلت: قال ابن أبي شيبة ، في المصنف ، رقم (31993) حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار ـ وكان خازنَ عمر على الطعام ـ قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: يا رسول الله استسق لأمتك ، فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: إيت عمر فأقرئه السلام ، وأخبره أنكم مسقون، وقل له: عليك الكيس ، عليك الكيس ، فأتى عمرَ فأخبره ، فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلوا إلا ما عجزت عنه .

ومن طريق أبي معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار ، رواه البيهقي في دلائل النبوة (7ـ47) .

وفيما تقدم عدة نقاط:

أولاً ـ عدم تصريح الأعمش بالسماع من أبي صالح ، وهو مدلس ، وعليه يحكم على الإسناد بالانقطاع ، كما هو مقرر في علم مصطلح الحديث.

ثانياً ـ إن قولَ الحافظ: (بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار) ليس نصاً في تصحيح جميع السند ، بل إلى أبي صالح فقط ، ولولا ذلك لقال بإسناد صحيح ، والعلماء إنما يفعلون هذا لأسباب منها: أنهم قد لا يحضرهم ترجمة بعض الرواة ، فلا يستجيزون لأنفسهم حذف السند كله ، لما فيه من إيهام صحته ، خاصة إذا علمنا أن الحافظ ابن حجر ـ وهو سيد من كتب في تراجم الرجال ـ لم يعرف مالك الدار ، ولم يأت له بترجمة ، في أي من كتبه ، وكما أن البخاري في كتابه التاريخ (7ـ304) وابن أبي حاتم في كتابه الجرح والتعديل (8ـ213) لم ينقلا توثيقاً في ترجمته مالك ، عن أي أحد من علماء الجرح والتعديل ، مع كثرة اطلاعهما ، وقال الحافظ المنذري ـ وهو من المتأخرين ـ في كتابه الترغيب والترهيب (2ـ29): ومالك الدار لا أعرفه.

ثالثاً ـ إن هذه الرواية وعلى فرض صحة السند فيها إلى مالك الدار ، وعلى فرض أن مالك الدار ، ثقة ثبت ، فإنه يرويها عن رجل أتى القبر ... ، وبإبهام هذا الرجل يحكم على السند أيضاً بالانقطاع ، كما هو مقرر في علم مصطلح الحديث.

وأما بالنسبة للتصريح بكون بلال بن الحارث ، هو الذي جاء إلى القبر ، فهذا مما لا يصح بحال ، حيث لم يأت التصريح بكونه بلال بن الحارث ، إلا من طريق سيف بن عمر ، وهو أخباري متهم بوضع الحديث ، فضلاً عن بقية السند ، والذي فيه ما فيه ، ولكن ما قيل في سيف وحده يكفي لرد السند أصلاً ، وإليكم ما قاله علماء الجرح والتعديل ، في سيف.

قال الحافظ الذهبي ، في ميزان الاعتدال (3ـ353) في ترجمة سيف بن عمر: إن يحيى بن معين ، قال فيه: فِلسٌ خيرٌ منه ، وقال أبو داود: ليس بشيء ، وقال أبو حاتم: متروك ، وقال ابن حبان: اتهم بالزندقة ، وقال ابن عدي: عامة حديثه منكر ، وقال مكحول البيروتي: كان سيف يضع الحديث ، وقد اتهم بالزندقة .

وقال ابن الجوزي في كتابه ، الضعفاء والمتروكين (2ـ35) رقم: 1594: سيف بن عمر الضبي ، قال يحيى بن معين: ضعيف الحديث ، فِلسٌ خير منه ، وقال أبو حاتم الرازي: متروك الحديث ، وقال النسائي والدارقطني: ضعيف ، وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الأثبات ، وقال إنه يضع الحديث. اهـ

ومن أراد مراجعة سند سيف بن عمر ، فليراجع تاريخ الطبري (2ـ508) والبداية والنهاية (7ـ104).

وقد أورد بعضهم شبهاً على تحقيق ضعف إسناد حديث مالك الدار فقال: قال الحافظ الذهبي في ميزان الاعتدال في نقد الرجال (3 ـ316): متى قال ـ أي الأعمش ـ "عن" تطرق إليه احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم كإبراهيم، وأبي وائل، وأبي صالح السمان ، فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال. انتهى

وإسناد حديث مالك الدار يرويه الأعمش عن أبي صالح ، فأخذ من هذا النص عدم اعتبار العنعنة في هذا الإسناد من الأعمش.

وفي رد هذه الشبهة أقول:

يعتبر تحرير مسألة تدليس الأعمش ، من أهم المسائل التي يجب على طلبة العلم البحث والتحقيق في حالها ، وذلك نظراً لشهرة هذا الإمام وكثرة مروياته.

كيف تعامل العلماء مع تدليس الأعمش.

أثبت العلماء تدليس الأعمش ، واختلفوا في تقييم تدليسه والتعامل معه.

فمنهم من رد أسانيده التي لم يصرح فيها بالسماع.

ومنهم من غض الطرف عن عنعنته ولم يعتبرها.

ومنهم من قبل عدم تصريحه بالسماع من رواة ، ورفضه في آخرين.

ومنهم من اضطرب فيه فمرة قبلها ومرة ردها.

وصف تدليس الأعمش:

1ـ الأعمش يكثر من التدليس.

ثبت تدليس الأعمش عن أكثر من عشرين شيخاً ، وعن أحدهم أكثر من مائة حديث. كما في "تهذيب الكمال" و "تحفة التحصيل" (1ـ134).

وقال ابن المبارك رحمه الله عن تدليس الأعمش: «إنما أفسد حديث أهل الكوفة أبو إسحاق والأعمش لكم».

وقال المغيرة: «أهلك أهل الكوفة أبو إسحاق وأعيمشكم هذا».

وقال سليمان الشاذكوني: «من أراد التديّن بالحديث، فلا يأخذ عن الأعمش ولا عن قتادة، إلا ما قالا: سمعناه».

كما في "معرفة علوم الحديث" (1ـ107)

وعبارة: أفسد حديث أهل الكوفة ، من أسوء العبارات التي يتهم بها مدلس ، حيث من المعلوم أن تسعة أعشار التدليس في زمن الأعمش كان بالكوفة.

2ـ الأعمش يدلس تدليس التسوية أيضاً.

قاله النووي في "الإرشاد" (34) ، والخطيب في "الكفاية" (364)، ونقل في (365) عن عثمان بن سعيد الدارمي أن الأعمش ربما فعل هذا.

3ـ الأعمش يدلس رجالاً ضعفاء ومتروكين.

قال العلائي في "جامع التحصيل" (1ـ101): «قال أبو معاوية: كنت أحدث الأعمش عن الحسن بن عمارة عن الحكم عن مجاهد. فيجيء أصحاب الحديث بالعشي، فيقولون: حدثنا الأعمش عن مجاهد بتلك الأحاديث. فأقول: أنا حدثته عن الحسن بن عمارة عن الحكم عن مجاهد. والأعمش قد سمع من مجاهد. ثم يراه يدلس عن ثلاثة عنه، وأحدهم متروك، وهو الحسن بن عمارة».

وقال ابن عبد البر في التمهيد (1ـ30) «وكل من عرف أنه لا يأخذ إلا عن ثقة فتدليسه ومرسله مقبول ، فمراسيل سعيد بن المسيب ومحمد بن سيرين وإبراهيم النخعي عندهم صحاح ، وقالوا مراسيل عطاء والحسن لا يحتج بها لأنهما كانا يأخذان عن كل أحد ، وكذلك مراسيل أبي قلابة وأبي العالية ، وقالوا لا يقبل تدليس الأعمش، لأنه إذا وقف، أحال على ملأ ، يعنون ثقة. إذا سألته عمن هذا؟ قال عن موسى بن طريف ، وعباية بن ربعي ، والحسن بن ذكوان».

وموسى بن طريف: كذاب.

وعباية بن ربعي: متروك متهم في دينه.

والحسن بن ذكوان: ضعيف.

كيف قيم العلماء تدليس الأعمش

اضطرب تقيم الحافظ ابن حجر رحمه الله ، لتدليس الأعمش بعض الشيء ، ففي كتابه "طبقات المدلسين" عد تدليس الأعمش في الطبقة الثانية مع الثوري وابن عيينة.

وفي كتابه "النكت" عد تدليسه في الطبقة الثالثة ، التي تلي طبقة الثوري وابن عيينة.

وقال العلائي في "جامع التحصيل" صفحة (113): «ثانيهما: من احتمل الأئمة تدليسه وخرجوا له في الصحيح وإن لم يصرح بالسماع وذلك إما لإمامته أو لقلة تدليسه في جنب ما روى أو لأنه لا يدلس إلا عن ثقة كالزهري وسليمان الأعمش وإبراهيم النخعي».

قلت: وفي هذا حيف كبير للزهري وأمثاله.

تقسيم الذهبي لتدليس الأعمش

قسم الحافظ الذهبي رحمه الله في كتابه "ميزان الاعتدال" (3ـ316) تدليس الأعمش فقال في ترجمته: «وهو يدلس وربما دلس عن ضعيف ولا يدري به ، فمتى قال: أخبرنا فلان فلا كلام ، ومتى قال: عن تطرق إليه احتمال التدليس ، إلا في شيوخ له أكثر عنهم كإبراهيم ، وأبي وائل ، وأبي صالح السمان ، فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال».

واعتماد الذهبي رحمه الله ، على تقسيم تدليس الأعمش هذا مبني على استقراءه لحديثه ، والحق أن هناك ما ينقض هذا التقيسم ، وفق قاعدة: المثبت مقدم على النافي.

فقد قال الحاكم في كتابه "معرفة علوم الحديث" (1ـ35): «عن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن مع الغلام عقيقة فأهريقوا عنه دماً وأميطوا عنه أذى. قال الحاكم: هذا حديث رواته كوفيون وبصريون ممن لا يدلسون وليس ذلك من مذهبهم ورواياتهم سليمة وإن لم يذكروا السماع ، وأما ضد هذا من الحديث فمثاله ما حدثناه أبو عبد الله محمد بن يعقوب الحافظ ثنا محمد بن عبد الوهاب الفراء أنا يعلى بن عبيد حدثنا الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة قال: ذكرنا ليلة القدر ....

قال الحاكم رحمه الله: لم يسمع هذا الحديث الأعمش من أبي صالح وقد رواه أكثر أصحابه عنه هكذا منقطعاً فأخبرني عبد الله بن محمد بن موسى ثنا محمد بن أيوب حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ثنا خلاد الجعفي حدثني أبو مسلم عبيد الله بن سعيد قائد الأعمش عن الأعمش عن سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة قال: ذكرنا ليلة القدر ....»

وقال ابن معين: «قال سفيان الثوري لم يسمع الأعمش هذا الحديث من أبي صالح الإمام ضامن.

كما في "تاريخ ابن معين" رواية الدوري. (3ـ497)

وقال الإمام أحمد: «كان الأعمش يدلس هذا الحديث لم يسمعه من أبي وائل. قال مهنا ـ تلميذ الإمام أحمد ـ فقلت له: عمن هو؟ قال: كان الأعمش يرويه عن الحسن بن عمرو الفقيمي عن أبي وائل فطرح الحسن بن عمرو وجعله عن أبي وائل».اهـ

كما في كتاب "تحفة التحصيل" (1ـ134).

وقال سفيان الثوري: «لم يسمع الأعمش حديث إبراهيم الوضوء من القهقهة منه ، وروى الأعمش هذا الحديث عن أبي صالح». اهـ

كما في كتاب "تحفة التحصيل" (1ـ134).

وكان الحافظ ابن حجر رحمه الله ، يتخوف من رواية الأعمش عن أبي صالح وأبي وائل بالعنعنة , وإن كانت في الصحيح ، فقد قال في الفتح (12ـ82): «فيه: سمعت أبا هريرة وكذا في رواية عبد الواحد بن زياد عن الأعمش عن أبي صالح سمعت أبا هريرة وسيأتي بعد سبعة أبواب في باب توبة السارق وقال ابن حزم: وقد سلم من تدليس الأعمش. قلت: ولم ينفرد به الأعمش، أخرجه أبو عوانة في صحيحه من رواية أبي بكر بن عياش عن أبي حصين عن أبي صالح».

وقال الحافظ ابن حجر في الفتح (11ـ559): «قوله عن أبي وائل هو شقيق بن سلمة وقد تقدم في الشرب من رواية أبي حمزة وهو السكري وفي الأشخاص من رواية أبي معاوية كلاهما عن الأعمش عن شقيق وقد تقدم قريبا من رواية شعبة عن سليمان وهو الأعمش ويستفاد منه أنه مما لم يدلس فيه الأعمش فلا يضر مجيئه عنه بالعنعنة».

وروى ابن عبد البر بإسناده أن الأعمش كان يدلس حديث إبراهيم التيمي: «.... حدثنا يحيى بن سعيد القطان عن سفيان الثوري قال: حدثنا سليمان الأعمش عن إبراهيم التيمي عن أبيه عن أبي ذر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من بنى لله مسجدا ولو كمفحص قطاة بنى الله له بيتا في الجنة.

قال علي بن المديني: قال يحيى بن سعيد: قال سفيان وشعبة: لم يسمع الأعمش هذا الحديث من إبراهيم التيمي.

قال ابن عبد البر: هذه شهادة عدلين إمامين على الأعمش بالتدليس وأنه كان يحدث عن من لقيه بما لم يسمع منه». اهـ التمهيد (1ـ30)

وقال ابن مهدي: «حديث الأعمش من بنى لله مسجداً ولو كمفحص قطاة ليس من صحيح حديث الأعمش». اهـ

العلل لابن أبي حاتم (1ـ97)

ومعنى أنه ليس من صحيح حديث الأعمش أنه دلسه ، كما مر عن سفيان وشعبة والقطان.

ومن التقسيم المعتبر لتدليس الأعمش

ما جاء عن شعبه رحمه الله ، حيث قال: «كفيتكم تدليس ثلاثة: الأعمش وأبي إسحاق وقتادة.

قال الحافظ: فهذه قاعدة جيدة في أحاديث هؤلاء الثلاثة أنها إذا جاءت من طريق شعبة دلت على السماع ولو كانت معنعنة». اهـ

طبقات المدلسين (1ـ58).

هذا ما وقفت عليه من النقول المهمة في بيان حال تدليس الأعمش "رحمه الله" ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم ، والحمد لله رب العالمين.

 

كتبه أبو أحمد محمد أمجد البيطار ، غفر الله له ولوالديه.

Edited by Adeel Khan
Link to comment
Share on other sites

دوسرا مراسلہ

 

:)

 

يقول الجفري: يشتد القحط فيأتي كما ذكر الإمام ابن حجر العسقلاني ، في فتح الباري ، في المجلد الثاني ، في كتاب الاستسقاء ، ورواه البيهقي والحاكم وابن خزيمة بسند صحيح ، أن بلال بن الحارث المزني ، وهو من أصحاب المصطفى ، جاء إلى قبر رسول الله ، في سنة مقحطة في عهد عمر ، ووقف على القبر الشريف ، وقال يا رسول الله لقد هلك .......

 

أولاً ـ لكي تعلموا مدى أمانة النقل عند الداعية علي الجفري ، وكيف أنه يستخف بعقول من يخاطب ، أفيدكم بأنه قد كذب على الحاكم ، وعلى ابن خزيمة ، لأن أحداً منهما لم يرو هذا الحديث في أي من كتبهما ، ولم ينقله أحد عنهما .!!!!!!

 

ثانياً ـ إن الذي في فتح الباري ، مخالف لما نقله الجفري ، ففي فتح الباري /2ـ495/ قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: وروى ابن أبي شيبة ، بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار ، وكان خازنَ عمر ، قال: أصاب الناسَ قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: يا رسول الله استسق لامتك فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: ائت عمر .. الحديث ، وقد روى سيف ، في الفتوح ، أن الذي رأى المنام المذكور ، هو بلال بن الحارث المزني ، أحد الصحابة. اهـ. بحروفه

 

قلت: قال ابن أبي شيبة ، في المصنف ، رقم /31993/ حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار ـ وكان خازنَ عمر على الطعام ـ قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: يا رسول الله استسق لأمتك ، فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: إيت عمر فأقرئه السلام ، وأخبره أنكم مسقون، وقل له: عليك الكيس ، عليك الكيس ، فأتى عمرَ فأخبره ، فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلوا إلا ما عجزت عنه .

 

ومن طريق أبي معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار ، رواه البيهقي في دلائل النبوة /7ـ47/ .

 

وفي هذا نقاط:

 

أولاً ـ عدم تصريح الأعمش بالسماع من أبي صالح ، وهو مدلس ، وعليه يحكم على الإسناد بالانقطاع ، كما هو مقرر في علم مصطلح الحديث.

 

ثانياً ـ إن قولَ الحافظ (بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار) ليس نصاً في تصحيح جميع السند ، بل إلى أبي صالح فقط ، ولولا ذلك لقال بإسناد صحيح ، والعلماء إنما يفعلون هذا لأسباب منها: أنهم قد لا يحضرهم ترجمة بعض الرواة ، فلا يستجيزون لأنفسهم حذف السند كله ، لما فيه من إيهام صحته ، خاصة إذا علمنا أن الحافظ ابن حجر ـ وهو سيد من كتب في تراجم الرجال ـ لم يعرف مالك الدار ، ولم يأت له بترجمة ، في أي من كتبه ، وكما أن البخاري في كتابه التاريخ /7ـ304/ وابن أبي حاتم في كتابه الجرح والتعديل /8ـ213/ لم ينقلا توثيقاً في ترجمته مالك ، عن أي أحد من علماء الجرح والتعديل ، مع كثرة اطلاعهما ، وقال الحافظ المنذري ـ وهو من المتأخرين ـ في كتابه الترغيب والترهيب /2ـ29/: ومالك الدار لا أعرفه.

 

ثالثاً ـ إن هذه الرواية وعلى فرض صحة السند فيها إلى مالك الدار ، وعلى فرض أن مالك الدار ، ثقة ثبت ، فإنه يرويها عن رجل أتى القبر ... ، وبإبهام هذا الرجل يحكم على السند أيضاً بالانقطاع ، كما هو مقرر في علم مصطلح الحديث.

 

وأما بالنسبة للتصريح بكون بلال بن الحارث ، هو الذي جاء إلى القبر ، فهذا مما لا يصح بمرة ، حيث لم يأت التصريح بكونه بلال بن الحارث ، إلا من طريق سيف بن عمر ، وهو أخباري غير ثقة ، فضلاً عن بقية السند ، والذي فيه ما فيه ، ولكن ما قيل في سيف وحده يكفي لرد السند أصلاً ، وإليكم ما قاله علماء الجرح والتعديل ، في سيف .

 

قال الحافظ الذهبي ، في ميزان الاعتدال /3ـ353/ في ترجمة سيف بن عمر: إن يحيى بن معين ، قال فيه: فِلسٌ خيرٌ منه ، وقال أبو داود: ليس بشيء ، وقال أبو حاتم: متروك ، وقال ابن حبان: اتهم بالزندقة ، وقال ابن عدي: عامة حديثه منكر ، وقال مكحول البيروتي: كان سيف يضع الحديث ، وقد اتهم بالزندقة .

 

وقال ابن الجوزي في كتابه ، الضعفاء والمتروكين /2ـ35/ رقم: 1594: سيف بن عمر الضبي ، قال يحيى بن معين: ضعيف الحديث ، فِلسٌ خير منه ، وقال أبو حاتم الرازي: متروك الحديث ، وقال النسائي والدارقطني: ضعيف ، وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الأثبات ، وقال إنه يضع الحديث. اهـ

 

ومن أراد مراجعة سند سيف بن عمر ، فليراجع ، تاريخ الطبري /2ـ508/ والبداية والنهاية /7ـ104/.

Link to comment
Share on other sites

تیسرا مراسلہ

 

:)

 

قال ابن أبي شيبة في مصنفه (12/31) :

حدثنا أبومعاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار قال : وكان خازن عمر على الطعام قال : أصاب الناس قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام فقيل له : ائت عمر فأقرئه السلام ، وأخبره أنكم مسقيون وقل له : عليك الكَيس ! عليك الكَيس ! فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال : يا رب لا آلو إلا ما عجزت عنه .

وقد أخرجها البيهقي في دلائل النبوة (7/47) .

وقد اغتر بعض الناس بكلام الحافظ ابن حجر في الفتح (2/575) الذي نصه : وقد روى سيف في الفتوح أن الذي رأى المنام المذكور هو بلال بن الحارث المزني أحد الصحابة .

وقد رد العلماء على الحافظ ابن حجر هذا القول .

قال العلامة الألباني - رحمه الله - في التوسل (ص132) : لا حجة فيها ، لأن مدارها على رجل لم يسمَّ فهو مجهول أيضا ، وتسميته بلالا في رواية سيف لا يساوي شيئا ، لأن سيفا هذا هو ابن عمر التميمي ، متفق على ضعفه عند المحدثين بل قال ابن حبان فيه : يروي الموضوعات عن الأثبات وقالوا : إنه كان يضع الحديث ، فمن كان هذا شأنه لا تُقبل روايته ولا كرامة لاسيما عند المخالفة .ا.هـ.

وقد علق العلامة ابن باز - رحمه الله - على الفتح (2/575) على كلام الحافظ عند تصحيحه للأثر فقال :

هذا الأثر على فرض صحته كما قال الشارح ليس بحجة على جواز الاستسقاء بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته لأن السائل مجهول ولأن عمل الصحابة رضي الله عنهم على خلافه وهم أعلم الناس بالشرع ولم يأت أحد منهم إلى قبره يسأله السقيا ولا غيرها بل عدل عمر عنه لما وقع الجدب إلى الاستسقاء بالعباس ولم يُنكر ذلك عليه أحد من الصحابة فعُلم أن ذلك هو الحق وأن ما فعله هذا الرجل منكر ووسيلة إلى الشرك بل قد جعله بعض أهل العلم من أنواع الشرك .

وأما تسمية السائل في رواية سيف المذكور بلال بن الحارث ففي صحة ذلك نظر ، ولم يذكر الشارح سند سيف ، وعلى تقدير صحته عنه لا حجة فيه ، لأن عمل كبار الصحابة يخالفه وهم أعلم بالرسول وشريعته من غيرهم والله أعلم .ا.هـ.

وفي كلام هذين العالمين كفاية لنسف القصة وردها ، نسأل الله أن يجنبنا وسائل الشرك وطرقه ، آمين ،،،،،،،،،،،،،،،،

عبدالله زقيل .

 

تعليق الأخ الذهبي :

الأخ الفاضل : محب أهل البيت ، لقد كفى أخي عبدالله في الإجابة على استفسارك .. و أحب أن أضيف شيء بسيطاً حول الموضوع ..

بالنسبة لاحتجاج القبوريين بتوثيق ابن حجر رحمه الله لمالك الدار بقوله : ( له إدارك ) أي معدود من الصحابة ..

قلت : إن إيراد الحافظ لمالك الدار في كتابه الإصابة إنما هو في القسم الثالث من كتابه الإصابة ، و هو القسم الخاص في ذكر المخضرمين الذين أدركوا الجاهلية والإسلام ، ولم يرد في خبر قط أنهم اجتمعوا بالنبي صلى الله عليه وسلم ولا رأوه ، سواء أسلموا في حياته أم لا ، و هؤلاء ليسوا صحابة باتفاق من له أدنى علم بالحديث كما قال الحافظ نفسه في مقدمة الإصابة (1/4 ) .

و قد ساق الحافظ ابن كثير هذه الرواية من رواية البيهقي في دلائل النبوة وهي معلولة بعلل منها :-

1- عنعنة الأعمش و هو مدلس ، و المدلس لا يقبل من حديثه إلا ما قال فيه : حدثنا أو أخبرنا ونحوها ، دون قول : قال .. أو عن .. إذ احتمال أنه أخذه عن ضعيف يوهي الحديث بذكره كما هو معلوم في مصطلح الحديث ، مع أن الأعمش في الطبقة الثانية من المدلسين عند الحافظ وغيره ..

و قد صحح ابن كثير الإسناد على طريقته في توثيق مجاهيل كبار التابعين ، كما هو معروف عنه في تفسيره وغيره .. وإذا كان مجهولاً فلا علم لنا بتاريخ وفاته .

2 - أن أبا صالح وهو ذكوان - الراوي عن مالك لايعلم سماعه منه ولا إدراكه لمالك ، إذ لم نتبين وفاة مالك ، سيما وأنه رواه بالعنعنة فهو مظنة انقطاع لا تدليس . نقلاً عن كتاب : هذه مفاهيمنا للشيخ صالح آل شيخ .

3 - أنها مخالفة لما ثبت في الشرع من استحباب إقامة صلاة الاستسقاء لاستنزال الغيث من السماء ، كما ورد في أحاديث كثيرة ، و مخالفة لقوله تعالى { فقلت استغفروا ربكم إنه كان غفاراً يرسل السماء عليكم مدراراً }

Link to comment
Share on other sites

تیسرا مراسلہ

 

:)

 

قال ابن أبي شيبة في مصنفه (12/31) :

حدثنا أبومعاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار قال : وكان خازن عمر على الطعام قال : أصاب الناس قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام فقيل له : ائت عمر فأقرئه السلام ، وأخبره أنكم مسقيون وقل له : عليك الكَيس ! عليك الكَيس ! فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال : يا رب لا آلو إلا ما عجزت عنه .

وقد أخرجها البيهقي في دلائل النبوة (7/47) .

وقد اغتر بعض الناس بكلام الحافظ ابن حجر في الفتح (2/575) الذي نصه : وقد روى سيف في الفتوح أن الذي رأى المنام المذكور هو بلال بن الحارث المزني أحد الصحابة .

وقد رد العلماء على الحافظ ابن حجر هذا القول .

قال العلامة الألباني - رحمه الله - في التوسل (ص132) : لا حجة فيها ، لأن مدارها على رجل لم يسمَّ فهو مجهول أيضا ، وتسميته بلالا في رواية سيف لا يساوي شيئا ، لأن سيفا هذا هو ابن عمر التميمي ، متفق على ضعفه عند المحدثين بل قال ابن حبان فيه : يروي الموضوعات عن الأثبات وقالوا : إنه كان يضع الحديث ، فمن كان هذا شأنه لا تُقبل روايته ولا كرامة لاسيما عند المخالفة .ا.هـ.

وقد علق العلامة ابن باز - رحمه الله - على الفتح (2/575) على كلام الحافظ عند تصحيحه للأثر فقال :

هذا الأثر على فرض صحته كما قال الشارح ليس بحجة على جواز الاستسقاء بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته لأن السائل مجهول ولأن عمل الصحابة رضي الله عنهم على خلافه وهم أعلم الناس بالشرع ولم يأت أحد منهم إلى قبره يسأله السقيا ولا غيرها بل عدل عمر عنه لما وقع الجدب إلى الاستسقاء بالعباس ولم يُنكر ذلك عليه أحد من الصحابة فعُلم أن ذلك هو الحق وأن ما فعله هذا الرجل منكر ووسيلة إلى الشرك بل قد جعله بعض أهل العلم من أنواع الشرك .

وأما تسمية السائل في رواية سيف المذكور بلال بن الحارث ففي صحة ذلك نظر ، ولم يذكر الشارح سند سيف ، وعلى تقدير صحته عنه لا حجة فيه ، لأن عمل كبار الصحابة يخالفه وهم أعلم بالرسول وشريعته من غيرهم والله أعلم .ا.هـ.

وفي كلام هذين العالمين كفاية لنسف القصة وردها ، نسأل الله أن يجنبنا وسائل الشرك وطرقه ، آمين ،،،،،،،،،،،،،،،،

عبدالله زقيل .

 

تعليق الأخ الذهبي :

الأخ الفاضل : محب أهل البيت ، لقد كفى أخي عبدالله في الإجابة على استفسارك .. و أحب أن أضيف شيء بسيطاً حول الموضوع ..

بالنسبة لاحتجاج القبوريين بتوثيق ابن حجر رحمه الله لمالك الدار بقوله : ( له إدارك ) أي معدود من الصحابة ..

قلت : إن إيراد الحافظ لمالك الدار في كتابه الإصابة إنما هو في القسم الثالث من كتابه الإصابة ، و هو القسم الخاص في ذكر المخضرمين الذين أدركوا الجاهلية والإسلام ، ولم يرد في خبر قط أنهم اجتمعوا بالنبي صلى الله عليه وسلم ولا رأوه ، سواء أسلموا في حياته أم لا ، و هؤلاء ليسوا صحابة باتفاق من له أدنى علم بالحديث كما قال الحافظ نفسه في مقدمة الإصابة (1/4 ) .

و قد ساق الحافظ ابن كثير هذه الرواية من رواية البيهقي في دلائل النبوة وهي معلولة بعلل منها :-

1- عنعنة الأعمش و هو مدلس ، و المدلس لا يقبل من حديثه إلا ما قال فيه : حدثنا أو أخبرنا ونحوها ، دون قول : قال .. أو عن .. إذ احتمال أنه أخذه عن ضعيف يوهي الحديث بذكره كما هو معلوم في مصطلح الحديث ، مع أن الأعمش في الطبقة الثانية من المدلسين عند الحافظ وغيره ..

و قد صحح ابن كثير الإسناد على طريقته في توثيق مجاهيل كبار التابعين ، كما هو معروف عنه في تفسيره وغيره .. وإذا كان مجهولاً فلا علم لنا بتاريخ وفاته .

2 - أن أبا صالح وهو ذكوان - الراوي عن مالك لايعلم سماعه منه ولا إدراكه لمالك ، إذ لم نتبين وفاة مالك ، سيما وأنه رواه بالعنعنة فهو مظنة انقطاع لا تدليس . نقلاً عن كتاب : هذه مفاهيمنا للشيخ صالح آل شيخ .

3 - أنها مخالفة لما ثبت في الشرع من استحباب إقامة صلاة الاستسقاء لاستنزال الغيث من السماء ، كما ورد في أحاديث كثيرة ، و مخالفة لقوله تعالى { فقلت استغفروا ربكم إنه كان غفاراً يرسل السماء عليكم مدراراً }

Link to comment
Share on other sites

آٹھواں مراسلہ

 

:)

 

الحمد لله

هذا الأثر رواه ابن أبي شيبة في "مصنفه" (6/ 356) والبخاري في "التاريخ الكبير" (7/304) - مختصرا - والبيهقي في "الدلائل" (7/47) ، وابن عساكر في "تاريخه" (44/345) من طريق أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ:

أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا ، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : " ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مسْقِيُّونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْكَ الْكَيْسُ ، عَلَيْكَ الْكَيْسُ "، فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ .

وهذا إسناد ضعيف لا يحتج به ، ومالك الدار مجهول كما سيأتي .

أما قول الحافظ رحمه الله في " الفتح " (2/ 495) :

" رواه ابن أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ عَنْ مَالِكٍ الدَّارِ "

فمقصوده أنه صحيح الإسناد إلى أبي صالح فقط ، ولم يحكم على جميع الإسناد بأنه صحيح ، ولذلك لم يقل : رواه ابن أبي شيبة بإسناد صحيح ، كما هي العادة في تصحيح الأخبار .

وأيضاً : قول الذهبي رحمه الله في " السير" (2/412) : " وقال الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار ... فإنه لم يحكم بصحته ولا بضعفه وإنما ذكر الإسناد فقط .

وقد أجاب الشيخ الألباني رحمه الله عن هذا الأثر ، فننقل كلامه بطوله لفائدته : قال رحمه الله ، بعد أن حكى قول الحافظ ابن حجر المتقدم :

" والجواب من وجوه:

الأول : عدم التسليم بصحة هذه القصة ؛ لأن مالك الدار غير معروف العدالة والضبط ، وهذان شرطان أساسيان في كل سند صحيح ، كما تقرر في علم المصطلح ، وقد أورده ابن أبي حاتم في " الجرح والتعديل " ، ولم يذكر راوياً عنه غير أبي صالح هذا ، ففيه إشعار بأنه مجهول ، ويؤيده أن ابن أبي حاتم نفسه - مع سعة حفظه واطلاعه - لم يَحْكِ فيه توثيقاً فبقي على الجهالة ، ولا ينافي هذا قول الحافظ : " بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان ... " لأننا نقول : إنه ليس نصاً في تصحيح جميع السند ، بل إلى أبي صالح فقط ، ولولا ذلك لما ابتدأ هو الإسنادَ من عند أبي صالح ، ولقال رأساً : "عن مالك الدار ... وإسناده صحيح"، ولكنه تعمد ذلك ، ليلفت النظر إلى أن ههنا شيئاً ينبغي النظر فيه ، والعلماء إنما يفعلون ذلك لأسباب منها: أنهم قد لا يحضرهم ترجمة بعض الرواة ، فلا يستجيزون لأنفسهم حذف السند كله ، لما فيه من إيهام صحته لاسيما عند الاستدلال به ، بل يوردون منه ما فيه موضع للنظر فيه ، وهذا هو الذي صنعه الحافظ رحمه الله هنا ، وكأنه يشير إلى تفرد أبي صالح السمان عن مالك الدار كما سبق نقله عن ابن أبي حاتم ، وهو يحيل بذلك إلى وجوب التثبت من حال مالك هذا أو يشير إلى جهالته. والله أعلم.

وهذا علم دقيق لا يعرفه إلا من مارس هذه الصناعة، ويؤيد ما ذهبت إليه أن الحافظ المنذري أورد في "الترغيب" (2/41-42) قصة أخرى من رواية مالك الدار عن عمر ، ثم قال: "رواه الطبراني في "الكبير"، ورواته إلى مالك الدار ثقات مشهورون، ومالك الدار لا أعرفه ". وكذا قال الهيثمي في "مجمع الزوائد (3/125) .

الوجه الثاني: أنها مخالفة لما ثبت في الشرع من استحباب إقامة صلاة الاستسقاء لاستنزال الغيث من السماء ، كما ورد ذلك في أحاديث كثيرة ، وأخذ به جماهير الأئمة ، بل هي مخالفة لما أفادته الآية من الدعاء والاستغفار، وهي قوله تعالى في سورة نوح : (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّاراً * يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَاراً ... ) وهذا ما فعله عمر بن الخطاب حين استسقى وتوسل بدعاء العباس .

وهكذا كانت عادة السلف الصالح كلما أصابهم القحط أن يصلوا ويدعوا، ولم ينقل عن أحد منهم مطلقاً أنه التجأ إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، وطلب منه الدعاء للسقيا، ولو كان ذلك مشروعاً لفعلوه ولو مرة واحدة، فإذا لم يفعلوه دل ذلك على عدم مشروعية ما جاء في القصة.

الوجه الثالث : هب أن القصة صحيحة ، فلا حجة فيها، لأن مدارها على رجل لم يسم (وهو قوله في الرواية : فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) فهو مجهول أيضاً، وتسميته بلالاً في رواية سيف لا يساوي شيئاً، لأن سيفاً هذا - وهو ابن عمر التميمي - متفق على ضعفه عند المحدثين ، بل قال ابن حبان فيه : "يروي الموضوعات عن الأثبات ، وقالوا : إنه كان يضع الحديث ". فمن كان هذا شأنه لا تقبل روايته ولا كرامة ، لا سيما عند المخالفة .

الوجه الرابع : أن هذا الأثر ليس فيه التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم ، بل فيه طلب الدعاء منه بأن يستسقي الله تعالى أمته ، وهذه مسألة أخرى ، ولم يقل بجوازها أحد من علماء السلف الصالح رضي الله عنهم ، أعني الطلب منه صلى الله عليه وسلم بعد وفاته ، قال شيخ الإسلام ابن تيمية في "القاعدة الجليلة" (ص19-20) :

" لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم بل ولا أحد من الأنبياء قبله شرعوا للناس أن يدعوا الملائكة والأنبياء والصالحين، ويستشفعوا بهم، لا بعد مماتهم، ولا في مغيبهم، فلا يقول أحد: يا ملائكة الله اشفعوا لي عند الله، سلو الله لنا أن ينصرنا أو يرزقنا أو يهدينا، وكذلك لا يقول لمن مات من الأنبياء والصالحين: يا نبي الله يا ولي الله ادع الله لي، سل الله لي، سل الله أن يغفر لي ... ولا يقول: أشكو إليك ذنوبي أو نقص رزقي أو تسلط العدو علي، أو أشكو إليك فلاناً الذي ظلمني، ولا يقول: أنا نزيلك، أنا ضيفك، أنا جارك، أو أنت تجير من يستجيرك. ولا يكتب أحد ورقة ويعلقها عند القبور، ولا يكتب أحد محضراً أنه استجار بفلان، ويذهب بالمحضر إلى من يعمل بذلك المحضر، ونحو ذلك مما يفعله أهل البدع من أهل الكتاب والمسلمين، كما يفعله النصارى في كنائسهم، وكما يفعله المبتدعون من المسلمين عند قبور الأنبياء والصالحين أو في مغيبهم، فهذا مما علم بالاضطرار من دين الإسلام، وبالنقل المتواتر وبإجماع المسلمين أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يشرع هذا لأمته، وكذلك الأنبياء قبله لم يشرعوا شيئاً من ذلك، ولا فعل هذا أحد من أصحابه صلى الله عليه وسلم والتابعين لهم بإحسان، ولا استحب ذلك أحد من الأئمة المسلمين، لا الأئمة الأربعة ولا غيرهم، ولا ذكر أحد من الأئمة لا في مناسك الحج ولا غيرها أنه يستحب لأحد أن يسأل النبي صلى الله عليه وسلم عند قبره أن يشفع له أو يدعو لأمته، أو يشكو إليه ما نزل بأمته من مصائب الدنيا والدين، وكان أصحابه يبتلون بأنواع البلاء بعد موته، فتارة بالجدب، وتارة بنقص الرزق، وتارة بالخوف وقوة العدو، وتارة بالذنوب والمعاصي، ولم يكن أحد منهم يأتي إلى قبر الرسول ولا قبر الخليل ولا قبر أحد من الأنبياء فيقول: نشكو إليك جدب الزمان أو قوة العدو، أو كثرة الذنوب ولا يقول: سل الله لنا أو لأمتك أن يرزقهم أو ينصرهم أو يغفر لهم، بل هذا وما يشبهه من البدع المحدثة التي لم يستحبها أحد من أئمة المسلمين، فليست واجبة ولا مستحبة باتفاق أئمة المسلمين " انتهى كلام الشيخ الألباني من " التوسل- أنواعه وأحكامه" (ص 118-122) .

فتبين بهذا البحث القيم للشيخ الألباني رحمه الله :

- أن هذا الأثر لا يثبت ، فلا يجوز أن يُحتَج به .

- وأنه خلاف ما عليه عمل السلف الصالح ، من الصحابة والتابعين ومن تبعهم من أئمة المسلمين .

- وأن من صحّحّ هذا الإسناد فإنما يصححه إلى مالك الدار فقط ، وقد علم أنه مجهول .

- وعلى فرض أن أحدا من أهل العلم صححه ، فكل يؤخذ منه ويرد عليه ، فهو مردود بقول من حكم على مالك الدار بأنه مجهول ، كالمنذري والهيثمي وغيرهما ، والعلماء يتفاوتون في العلم ، فربما علم أحدهم ما لم يعلمه الآخر ، ومثل هذا لا يقدح في علمهم وفضلهم ، لكنه تصديق قوله تعالى : (وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ) يوسف/ 76

Link to comment
Share on other sites

بھٹی صاحب اب انتظار کریں دیکھتے کتنا رد کا دم ہے ان میں

 

 

اور لطیفہ پر لطیفہ خود آکر محدث فورم پر بات نہیں کر رہا اور ہمیں کہتا ہے کہ دم نہیں اور لنکس کب سے دئے ہیں بس اسی کا رونا رو رہا ہے۔

 

:)

 

ایسی نا اہلی اور نام کے آگے العسقلانی؟

 

:P

Edited by Adeel Khan
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...