Jump to content

Mustafvi

Under Observation
  • کل پوسٹس

    196
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

سب کچھ Mustafvi نے پوسٹ کیا

  1. میرے نزدیک تو طبرانی کی روایت اب بھی ضعیف ہی ہے غلطیاں تو بڑے بڑوں سے ہو جاتی ہیں میں کس شمار میں ہوں ؟ غلطی کا علم ہو جائے تو اصرار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اقرار کر لینا چاہئے جو میں نے کر لیا اب کوئی اس کا تمسخر اڑائے تو وہ اس کا اپنا ظرف ہے محترم حیران ہونے کے علاوہ کبھی تفکر بھی فرما لیا کریں ذرا طبرانی کی روایت سے وہ مقام تو دکھائیں جہاں لکھا ہو کہ حضرت میمونہؓ نے تین دن قبل بھی راجز کے اشعار سنے تھے یا راجز نے اس وقت کوئی اشعار پڑھے بھی تھے روایت میں تو صرف حضرت میمونہؓ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سننا مذکور ہے الصلواۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
  2. اعتزار میں نے پوسٹ نمبر 53 اور ایک دو اور مقامات پر یحی بن سلیمان نضلہ پر جرح کے حوالے سے امام بخاری اور ابو حاتم کی جرح پیش کی تھی کہ یہ منکر الحدیث اور لیس باالقوی ہے لیکن یہ میری غلطی تھی یہ جرح یحی بن سلیمان نضلہ پر نہیں بلکہ اس کے ہم نام راوی یحی بن سلیمان المدنی پر ہے میں اپنی غلطی کو تسلیم کرتا ہوں اور معذرت چاہتا ہوں لہذا پوسٹ نمبر 53 و دیگر مقامات پر اس جرح کو اگنور کیا جائے اس کے ساتھ ہی میں پوسٹ نمبر 53 کے سنجیدہ اور ٹو دا پواٗنٹ جواب کا منتظر ہوں
  3. اس دوسری روایت میں بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ راجز نے تین دن کی مسافت سے پکارا تھا صرف اتنا ہے جب اس نے ندا دی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غسل فرما رہے تھے۔
  4. محترم جناب خلیل رانا صاحب فرشتے والی بات کا موضوع زیر بحث سے کیا تعلق بنتا ہے ؟؟ آپ نے فرشتے کے حوالے سے جو تفصیلات پوچھی ہیں مجھے ان کے بارے معلوم نہیں ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ فرشتہ درود شریف سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بمعہ نام پہنچاتا ہے ساری مخلوق کی ساری آوازیں سننے کا علم نہیں بہرحال وہ روایت پیش کریں گے تو معلوم ہو گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آواز پہنج جاتی ہے کب کیسے وغیرہ کی تفصیلات معلوم نہیں ہیں معاذ اللہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل سے کیوں چڑ ہو گی ؟؟؟؟؟ مسئلہ زیر بحث تو دور سے مدد مانگنے کا ہے نہ کہ فضائل کا آپ اصل موضوع کو چھوڑ کر بحث کو دوسری طرف لے جا رہے ہیں ۔
  5. احمد لاہوری بھائی چکر میں نہ پڑنے سے مراد یہ ہے کہ میں اس بحث کے چکر میں نہیں پڑتا کہ یہ شرک ہے یا نہیں یا جائز ہے یا نہیں میرے نزدیک قرآن و حدیث کی کسی صحیح مستند اور واضح دلیل سے دور سے مدد مانگنے کا کوئی ثبوت نہیں برادر محمد افان آپ نے ماشا،اللہ کافی محنت کی ہے لیکن سعی لا حاصل اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیلؑ سے مدد طلب کرنا نہیں سکھا رہے بلکہ اللہ سے دعا کر رہے ہیں کہ اے اللہ اس کی روح القدس سے مدد فرما
  6. تمام احباب کی خدمت میں اسلام علیکم میں نے اس تھریڈ میں فتح الباری کی معجم الکبیر الطبرانی سے پیش کردہ ایک روایت جس سے صحابہ کرام کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور سے مدد مانگنے کا ثبوت پیش کیا جا رہا تھا پر سندا کچھ عرض کیا تھا اصولی طور پر بات صرف روایت کے حوالے تک ہی رہنی چاہئے تھی لیکن بعض اہل علم دوستوں نے بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا اب میں یہاں فائنلی اپنا موقف اس روایت کے حوالے سے پیش کر کے اجازت چاہوں گا کیونکہ بحث برائے بحث کا کچھ حاصل نہیں طبرانی کی اس روایت میں ایک راوی ہے یحی سلیمان بن نضلہ اس راوی کی تعدیل بھی موجود ہے اور اس پر جرح بھی موجود ہے اس کی تعدیل کچھ یوں ہے ذکرہ ابن حبان فی الثقات قال ابن عدی ۔۔۔ أحاديث عامتها مستقيمة. اس پر جرح یہ ہے قال امام ابن ہیثمی ۔۔۔۔۔ ھو ضعیف قال ابن حبان ۔۔۔۔۔ یخطی ویھم قال ابو حاتم ۔۔۔۔ ليس هو بالقوى امام بخاری ۔۔۔۔ منکر الحدیث وقال ابن عقدة: سَمِعتُ ابن خراش يقول: لا يسوى شيئا اب جو راوی ضعیف ہو ۔۔ غلطیاں کرتا ہو اور اسے وہم ہو جاتا ہو ۔۔۔۔ جو قوی بھی نہ ہو ۔۔۔ جو منکر حدیث ہو اور کسی کھاتے میں نہ ہو تو ایسے راوی کی بیان کردہ روایت سے صحابہ کرام کا عقیدہ بیان کرنا بالکل بھی مناسب نہیں اس کے بعد ایک اور راوی ہے محمد بن نضلہ ان کے بارے میں صرف یہ معلوم ہے کہ یہ مذکورہ بالا راوی کے چچا ہیں اس کے علاوہ ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ کیسا آدمی تھا اب اس مجہول الحال راوی کی روایت کا کیا اعتبار ؟؟ اس کے بعد اس روایت کے متن پر آ جائیں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے آپ کو کسی انسان سے باتیں کرتے ہوئے یہ یہ کہتے سنا ہے کیا آپ کے پاس کوئی موجود تھا ؟ فھل کان معک احد ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ راجز ہے ۔۔۔۔ الخ اب اس سوال اور جواب کو سامنے رکھتے ہوئے خود ہی انصاف فرمائیں کہ کیا اس سوال و جواب سے حضرت میمونہ ؓ کے گمان میں بھی یہ بات آئی ہو گی کہ راجز یہاں موجود نہیں تھا بلکہ تین دن کی مسافت پر تھا ؟ اس سوال جواب کے بعد روایت میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکل کر حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور سامان جہاد کی تیاری وغیرہ کا کہا اس کے بعد حضرت میمونہؓ فرماتی ہیں کہ فااقمنا ثلاثا ہم تین دن ٹھہرے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی تو راجز نے اشعار پڑھے
  7. محترم خلیل رانا صاحب آپ نے درود شریف کے حوالے سے جو بات کہی ہے وہ موضوع بحث سے تعلق نہیں رکھتی اس حوالے سے میری اہل حدیث سے جو گفتگو ہوئی تھی وہ میں اسی فورم پر پیش کر چکا ہوں وہاں نظر دوڑا لیں http://www.islamimehfil.com/topic/19770-%D8%B5%D9%84%D9%88%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D8%B6%D9%88%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%DB%81%D9%84-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%DA%AF%D9%81%D8%AA%DA%AF%D9%88/
  8. برادر کشمیر خان صاحب میں نے اپنی پوسٹ نمبر 16 میں آپ کے لئے ایک دعا کی تھی لیکن ابھی شاید اس دعا کی قبولیت میں کچھ وقت لگے گا
  9. میرے بھائی میں اپنا موقف پیش کئے دیتا ہوں میں جائز ناجائز کے چکر میں نہیں پڑھتا لیکن میرے علم کی حد تک مقربین خدا سے حیات میں یا بعد از وفات دور سے مدد مانگنے کی قرآن و حدیث سے کوئی مستند اور صحیح دلیل موجود نہیں ہے ایک اور بات کنفرم کرتے جائیں تاکہ آئندہ کبھی بوقت ضرورت کام آ سکے آپ کے نزدیک جرح مبہم قابل قبول نہیں ہے ؟ جرح و تعدیل میں سے آپ تعدیل کو مقدم کرتے ہیں ؟
  10. محترم عقیل صاحب برائے مہربانی میری پوری پوسٹ کو کوٹ کرنے کی بجائے صرف متعلقہ لائن کو کوٹ کر کے جواب دے دیا کریں جیسا کہ آپ پوری پوسٹ کوٹ کرنے کے بعد کرتے ہیں ۔ تو پھر امام بخاری کا بوجھ آپ میرے پر کیوں ڈال رہے ہیں اگر انہوں نے کسی پر جرح کر کے پھر خود ہی اس سے ہی روایت کی ہے تو اس کا جواب دہ میں کیسے ہوا؟ بات تو حدیث کے حوالے سے چل رہی تھی ورنہ قرآن پر تو سب ہی دارو مدار رکھتے ہیں صرف آپ نہیں اور میری معلومات کے مطابق عقائد میں اقوال امام کی تقلید نہیں ہوتی ۔ میں نے شرک کی بات ہی نہیں کی میں کیسے کسی کی نیت پر مطلع ہو سکتا ہوں جب تک وہ خود اپنی نیت کا اظہار نہ کرے آپ کا کہنا کہ فی الواقع مدد مانگنا ہی مقصود تھا تو یہی بات تو ثبوت طلب ہے جس کا آپ ثبوت نہیں دے رہے آپ میری باتوں کو مکس کر جاتے ہیں ہر بات اپنے مقام اور سیاق و سباق کے ساتھ ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اشعار پڑھنا اور مدد طلب کرنا تو محل نزاع ہی نہیں اصل ثبوت تو اس بات کا دینا ہے کہ راجز نےدوران سفر اشعار پڑھے اور بطور مدد مانگنے کے پڑھے اور میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں جسے آپ میرا پلٹا کھانا کہتے ہیں کہ اگر یہ سارا واقع ایسا ہی جیسا آپ بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو بھی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہو گا میں تو سوال کر رہا ہوں کہ کیا یہ ان کے اضطراب کا اظہار تھا ؟ تو میں کیوں ثابت کرتا رہوں ؟ اظہار اضطراب میں کب دوسرے کو سنانا لازم ہوتا ہے ؟ نقصان یہ ہے کہ آپ حسن موصول کے الفاظ کواس روایت سے منسلک کر رہے تھے جس سے آپ سارا استدلال فرما رہے ہیں لیکن یہ الفاظ اس روایت سے متعلق نہیں
  11. محترم خلیل رانا صاحب میرا مکمل کامنٹ یہ تھا کہ میں نے اس روایت کو موضوع تو کہا ہی نہیں صرف ضعیف کہا ہے اور بقول آپ کے ضعیف حدیث فضائل اعمال میں جائز ہوتی ہے ۔۔۔۔ اس سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ بات آپ بھی تسلیم کریں گے کہ ضعیف حدیث عقائد کے اندر قبول نہیں ہوتی اور یہاں اس ضعیف روایت سے اثبات عقیدہ کیا جا رہا ہے رہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سماعت کا تو یہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اس سے نبی مکرم کا معجزہ ثابت ہو سکتا ہے اگر اس ضعیف حدیث کو فضائل اعمال کے علاوہ صرف فضائل میں بھی حجت مان لیا جائے
  12. محترم جناب خلیل رانا صاحب بحوالہ پوسٹ نمبر 33 میں نے اس روایت کو موضوع تو کہا ہی نہیں صرف ضعیف کہا ہے اور بقول آپ کے ضعیف حدیث فضائل اعمال میں جائز ہوتی ہے ۔۔۔۔ اس سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ بات آپ بھی تسلیم کریں گے کہ ضعیف حدیث عقائد کے اندر قبول نہیں ہوتی اور یہاں اس ضعیف روایت سے اثبات عقیدہ کیا جا رہا ہے محترم جناب سعیدی صاحب ابن عدی نے کہا ہے کہ یہ راوی مالک سے اور اہل مدینہ سے روایت کرتا ہے اس کی عام احادیث مستقیم ہوتی ہیں ابن عدی نے یہ نہیں کہا اس کی اہل مدینہ سے روایات مستقیم ہوتی ہیں اور اس راوی کے انکل کا بھی کوئی حال معلوم نہیں یعنی یہ مجہول الحال ہے محترم جناب عقیل صاحب زیادہ تکنیکی باتیں آپ کے اصرار پر برداشت کیں بے شک پہلا قول زیادہ مشہور ہے کیونکہ کتب میں یہی لکھا ہے اس لئے میں نے کتب کا قول لکھ دیا ہے لیکن عملی طور پر اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔۔۔ بریلوی ،دیوبندی ، اہل حدیث یہ سب مخالف کی پیشکردہ جرح کو توڑنے کے لئے اس قول کا استعمال کرتے ہیں لیکن خود مخالف پر جرح کرتے ہوئے اکثر جروحات مبہم سے ہی کام لیتے ہیں ۔ سندوں اور روایات کے علاوہ آپ کا دارومدار اور کس چیز پر ہے ؟؟؟؟ دوسرے جملہ کا جواب اوپر ہو گیا ہے ۔ جب آپ نے ابھی کلام ہی نہیں کیا تو میں کیا عرض کروں باقی جو آپ نے امجیز لگائے ہیں اس کا میرے سے کیا تعلق ؟ اس کا جواب کوئی بخاری پرست ہی دے سکتا ہے اور غالبا ان سب کا جواب کسی نے دیا بھی ہوا ہے ۔ مجھے تو ابھی تک یہی مجرد روایت ہی نظر آ رہی ہے جب کوئی اور پیش کریں گے تو اس پر بات ہو گی امام زرقانی کی ان توضیحات کو دیکھ لیں کہ یہی کنفرم نہیں ہو رہا کہ راجز نے اصل میں کیا کیا تھا ؟ جو کچھ اس کے ذہن نے سوچا اللہ نے وحی کے ذریعے بتا دیا یا اس نے اپنے دوستوں سے گفتگو کی یا یہ سارا کچھ دوران سفر کیا تو اللہ تعالٰی عزوجل نے انکی آمد کے تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنوا دیا اب یہاں سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دور دراز سے پکارنے اور ان سے مدد مانگنے کا عقیدہ رکھتے تھے ؟؟؟؟ اب راجز نے فرض کیا کوئی اشعار راستے میں پڑھے بھی تھے تو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ وہ کس نیت و ارادے سے پڑھ رہا تھا کیا واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا اور مدد مانگنا مقصود تھا یا یہ صرف اس کے اضطراب کے اظہار کا طریقہ تھا ۔ امام ابن حجر نے جس روایت کو حسن موصول کہا ہے وہ روایت ہی اور ہے اور اس میں راجز کے مدینہ شریف ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اشعار پڑھنے کا ذکر ہے تقویتہ االایمان کا میں جواب دہ نہیں ہوں بات تو امام ابن حجر کے سکوت کی ہے چاہے اسی روایت پر فتح الباری میں سکوت کریں یا کسی اور کتاب میں اور جن پر ان کا سکوت ہے ان میں ضعیف اور ضعیف جدا بلکہ موضوع روایات بھی ہیں۔ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں معتبر ہے عقائد کے باب میں نہیں باقی آپ نے جو امیجز لگائے ہیں اور غیر اللہ سے مدد مانگنے کے جا،الحق سے سکین لگائے ہیں ان میں اکثر کا تعلق وسیلہ سے ہے یا ظاہری طور پر اسمتداد سے ہے جو ہمارا موضوع ہی نہیں
  13. محترم جناب عقیل احمد آپ کے تفصیلی کامنٹ کا شکریہ بات صرف اتنی سی تھی کہ میں نے اس روایت کو ضعیف کہا تو آپ اس روایت کی صحت ثابت کر دیتے لیکن بجائے اس روایت کی صحت ثابت کرنے کے آپ کو اپنے سوالات پر اصرار ہے ۔ لیکن شاید آپ بات کو گھما پھرا کر اصل بات سے دور رہنا چاہتے ہیں تو میں حتی الوسع آپ کے سوالات کے مختصر جوابات دئے دیتا ہوں تاکہ آپ کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے ۔ جرح اور تعدیل کے حوالے سے چار اقوال ہیں پہلا جرح مبہم مقبول نہیں بلکہ جرح مفسر معتبر ہے دوسرا جرح بغیر سبب کے قبول کی جائے گی جبکہ تعدیل بغیر ذکر سبب کے معتبر نہیں تیسرا جرح و تعدیل دونوں بغیر ذکر سبب کے قبول ہیں چوتھا جرح و تعدیل دونوں ہی بغیر ذکر سبب کے قبول نہیں کئے جائیں گے ۔ ان اقوال میں سے پہلا قول زیادہ مشہور ہے یہ چیز بھی مد نظر رہے کہ جروحات کا غالب حصہ مفسر نہیں ہے جاری ہے جب کسی راوی پر جرح بھی ہو اور تعدیل بھی تو اس حوالے سے جمہور علما، و محدثین کے نزدیک جرح مقدم ہو گی جب ایسا ہو جائے گا تو ردعمل بھی سامنے آ جائے گا میرا یہ قول بطور فرض کے ہے کہ فرض کیا ایسا ہی ہے تو اس کی توجیہ یہ ہو گی آپ کی دلیل زیادہ فعل صحابی پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور فعل صحابی کے تعین میں ہی ابہام ہے امام زرقانی کی توضیحات دیکھ لیں اول تو ایسا ہو گا نہیں کہ علت دور ہو جائے لیکن باالفرض ایسا ہو بھی جائے تو روایت متن کے اندر بھی ایسی کوئی واضح بات نہیں ہے محض قیاسات ہیں اس لئے کہ تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے جس روایت سے آپ قیاسات کر رہے ہیں وہ سندا بھی ضعیف ہے رضا صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا میں نے اس پر تبصرہ کر دیا حضرت ساریہ نے حضرت عمر کو نہیں پکارا اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بطور کشف یہ منظر دکھا دیا تو حضرت عمر کی کرامت ہی ہوئی اگر ایسا کرنا حضرت عمر کا معمول تھا تو کوئی دلیل پیش فرمائیں ۔۔۔۔ اور اگر یہ حضرت عمر کا معمول تھا تو پھر حضرت عمر نے قاصدوں اور ڈاک کا نظام جو نظام بنایا تھا اس کم از کم خود استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی بس نگاہ اتھاتے اور کسی بھی محاذ جنگ کو ملاحظہ فرما کر ہدایات جاری کر دیا کرتے اور جہاں تک بات ہے امام ابن حجر کے فتح الباری میں سکوت کی تو انہوں نے جن احادیث و روایات پر فتح الباری میں سکوت کیا ہے، ان میں ضعیف اور ضعیف جدا بلکہ موضوع روایات بھی ہیں۔ برادر خلیل رانا صاحب میری بحث شرک یا عدم شرک کے حوالے سے نہیں ہے میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس روایت سے رضا صاحب استدلال کر رہے ہیں وہ سندا بھی ضعیف ہے اور متن بھی غیر واضح ہے ان کے استدلال کے حوالے سے
  14. اور آپ سے اس ایک روایت کی صحت ثابت نہیں ہورہی حضرت عمر کی اس کرامت کو کلیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟ ایک جزئی واقعہ کو کل پر منطبق کرنا عجیب بات ہے
  15. میرے بھائی بات کو آپ خود بحث برائے بحث کی طرف لے جا رہے ہیں ۔ اور ایسے سوال پوچھ رہے ہیں جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں بنتا ۔ اپنے بارے میں جتنا بتانا ضروری تھا وہ بتا دیا ۔ اب بات تو دلائل کی ہے جس میں ذاتیات کی ضرورت نہیں ہے میں نے تکنیکی باتوں کا انکار نہیں کیا صرف زیادہ تکنیکی باتوں سے گریز کا مشورہ دیا تھا میں نے حدیث کے راویوں پر کچھ جرح پیش کی تھی لیکن آپ سوائے اس بات کہ اگر حدیث کا ضعیف نہ ہونا ثابت کر دیا جائے تو ۔۔ پر ہی ہیں حالانکہ میں نے درخواست کی تھی کہ اس حدیث کی صحت ثابت کر دیں
  16. اس میں جواب دینے والی کیا بات ہے ؟ یہ خان صاحب کی میرے بارے ان کی اپنی رائے ہے خان صاحب کے اعتراضات اگر قائم ہیں تو وہ خود استفسار کر سکتے ہیں ۔ کچھ نہیں کا تعلق ان ہی معلومات سے ہے جو مجھ سے پوچھی گئی تھیں اور کچھ نہیں استغراق عرفی کے سینس میں ہے اور کافی حد تک کا یہی مفہوم ہے کہ حتی الوسع میرے بھائی زیادہ تکنیکی باتوں میں نہ جائیں کیوں کہ اس معاملے میں بھی علما، جرح و تعدیل کی آرا مختلف ہیں میرے بھائی اس طرح کے جوابات بطور فرض کے ہوتے ہیں اوپر ایک بھائی نے امام زرقانی کی چند توضیحات بیان کی تھیں اب ان توضیحات کو دیکھ لیں کہ یہی کنفرم نہیں ہو رہا کہ راجز نے اصل میں کیا کیا تھا ؟ جو کچھ اس کے ذہن نے سوچا اللہ نے وحی کے ذریعے بتا دیا یا اس نے اپنے دوستوں سے گفتگو کی یا یہ سارا کچھ دوران سفر کیا تو اللہ تعالٰی عزوجل نے انکی آمد کے تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنوا دیا اب یہاں سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دور دراز سے پکارنے اور ان سے مدد مانگنے کا عقیدہ رکھتے تھے ؟؟؟؟ اب راجز نے فرض کیا کوئی اشعار راستے میں پڑھے بھی تھے تو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ وہ کس نیت و ارادے سے پڑھ رہا تھا کیا واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا اور مدد مانگنا مقصود تھا یا یہ صرف اس کے اضطراب کے اظہار کا طریقہ تھا ۔ تو میرے بھائی ایسی ضعیف روایات سے محض قیاس کی بنیاد پر عقیدے بنانا چھوڑ دیں اب تک آپ یہی فرما رہے ہیں کہ اگر یہ روایت غیر ضعیف ثابت ہو جائے تو تو بھائی اگر مگر کو چھوڑیں اور اس روایت کا غیر ضعیف ہونا ثابت فرما دیں
  17. AqeelAhmedWaqas برادر میں نے اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا میں نے جس لنک کا ایڈریس دیا تھا اس میں کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں آپ نے پوچھا کہ اگر اس حدیث کو غیر ضعیف ثابت کر دیا جائے تو ؟ تو جناب اگر یہ حدیث صحیح ثابت بھی ہو جائے تو اسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی لیکن اس روایت سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو Kilk-e-Raza نے پوسٹ نمبر 5 میں نکالنے کی کوشش کی ہے
  18. میرے بھائی جرح مفسر تو آپ کو خال خال ہی نظر آئے گی ۔ زیادہ تر انہیں جروحات مبہم سے کام لیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ میں نے دو اور راویوں کا بھی میں ذکر کیا تھا ان پر بھی کچھ ارشاد فرمائیں ابن حبان کی مکمل جرح لسان المیزان میں یوں ہے وذَكَره ابن حِبَّان في الثقات فقال: يخطىء ويهم. میزان الاعتدال میں ہے قال أبو حاتم: يكتب حديثه، ليس هو بالقوى. وقال البخاري: منكر الحديث. لسان المیزان میں ہے وقال ابن عقدة: سَمِعتُ ابن خراش يقول: لا يسوى شيئا
  19. محترم جناب Qadri Sultani جہاں تک امام زرقانی کی یہ بات ہے کہ تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی لیکن اس روایت سے جس کی صحت قابل بحث ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو Kilk-e-Razaنے پوسٹ نمبر 5 میں نکالنے کی کوشش کی ہے
  20. دعا ہے کہ اللہ کریم آپ کو شائستہ انداز میں گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے میرے بھائی میرے مجہول ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے میں کوئی حدیث تو روایت کر نہیں رہا کہ میرے بارے میں ساری معلومات معلوم ہونا ضروری ہو ۔ بات تو دلیل کی ہے اور آپ کو جذباتی پن چھوڑ کر دلیل کا جواب دلیل سے دینا چاہئے ۔ آپ کے سوالات میں سے اکثر سوالات کے جواب بہت عرصہ پہلے اسی فورم میں کسی جگہ دے چکا ہوں یہ لنک چیک کر لیں http://www.islamimehfil.com/topic/19737-mustafvi-sahib-say-suwal/?hl=mustafvi ویسے میرے خیال میں آپ کے سوالات بے مقصد ہیں دلیل سے بات کرنا سیکھیں
  21. برادر کشمیر خان مجھے نہیں معلوم کہ آپ میرے ایک استفسار پر اس قدر جذباتی پن کا مظاہرہ کیوں فرما رہے ہیں حالانکہ تحمل مزاجی اور شائستہ انداز میں بھی بات ہو سکتی ہے فتح الباری کی صحیح روایت سے جو بات ثابت ہو رہی ہے وہ فقط یہی ہے کہ سالم الخزاعی نے وہ اشعار نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے جہاں تک تعلق ہے طبرانی کی روایت کا وہاں بھی یہ بات قیاسا ہی کہی جا سکتی ہے کہ سالم الخزاعی نے وہ اشعار 3 دن کی مسافت سے پڑھے سند کے اعتبار سے بھی یہ روایت کوئی مضبوط روایت نہیں ہے 1. امام ہیثمیؒ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ ''رواہ الطبراني في الصغير والكبير وفيه يحي سليمان بن نضلة وھو ضعيف'' (مجمع الزوائد :۶؍۱۶۴) ''اسے امام طبرانی نے المعجم الکبیر اور المعجم الصغیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یحییٰ بن سلیمان نامی راوی ضعیف ہے۔'' 2. امام ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس راوی پر کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال : ۳؍۲۹۲ اور لسان المیزان :۶؍۲۶۱ 3. اس کی سند میں محمد بن عبداللہ نامی راوی کے بارے میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ لایعرف(میزان الاعتدال :۳؍۸۳) یعنی یہ راوی مجہول ہے اور مجہول راوی کی روایت ضعیف کہلاتی ہے۔ 4. اس کی سند میں محمد بن نضلہ نامی راوی کے حالات کتب ِرجال سے نہیں ملتے لہٰذا یہ بھی کوئی مجہول راوی ہے۔
  22. جی محترم میں نے زحمت کر کے آگے بھی پڑھا ہے لیکن وہاں بھی ایسا کچھ نہیں ہے ۔ یہ شرک بیچ میں کہاں سے آ گیا ؟ میں نے شرک یا عدم شرک کی کوئی بات ہی نہیں چھیڑی رضا صاحب نے اپنے موقف میں ایک دلیل پیش کی تھی میں نے اس حوالے سے کچھ وضاحت کا عرض کیا تھا ۔ اسی طرح آپ کے باقی سوالات بھی بالکل غیر متعلقہ ہیں
  23. محترم فتح الباری کے سکین سے تو کہیں سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سالم الخزاعی نے یہ اشعار کہیں دور سے پڑھے تھے بلکہ فتح الباری میں تو لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اشعار پڑھے گئے جہاں سے اشعار شروع ہوتے ہیں اس سے پہلے کی لائن دیکھ لیں
  24. Kilk-e-Razaمحترم آپ نے فتح الباری الجز السابع صفحہ 593 کا جو سکین لگایا ہے اگر اس کے متعلقہ حصے کا اردو ترجمہ لگا دیں تو بہت عنایت ہو گی
×
×
  • Create New...