Jump to content

Mustafvi

Under Observation
  • کل پوسٹس

    196
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

سب کچھ Mustafvi نے پوسٹ کیا

  1. ارشد صاحب نہ صرف ایک ماہر ڈاکٹر تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک متقی ، پرہیزگار صاحب نسبت بزرگ اور ولی اللہ بھی تھے۔ سلیم انھی سے علاج کرواتا تھا ۔ ڈاکٹر ارشد صاحب کو شہید کر دیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد سلیم کا بھائی شدید علیل ہو گیا اور موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو گیا، اب اپ بتائیں کہ کیا سلیم کو اپنے بھائی کا علاج کسی اور ڈاکٹر سے کروانا چاہیئے یا ڈاکٹر ارشد شہید سے؟ یا سلیم کو موت کے فرشتے سے درخواست کرنی چاہیئے کہ اس کے بھائی کی موت کا وقت موخر کر دے؟ یا سلیم کو زندگی کے فرشتے سے درخواست کرنی چاہیئے کہ اس کے بھائی کی زندگی میں کچھ عرصہ کے لئے اضافہ کر دے؟ امید ہے اپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔ نوٹ؛ اٹیچ منٹ فائل کو اگنور کر دیں یہ میں ان پیج سے یہاں پیسٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو نہیں ہو سکی۔ urdu.inp
  2. جناب توحیدی بھائی اس سے پہلے کہ میں اپ کی پوسٹ نمبر 34 پر اپنی رائے کا اظہار کروں میں اپ کو اتنے خوصورت انداز میں اپنی پوسٹس کو پریزینٹ کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ایک گزارش بھی کروں گا کہ اگر اپ مجھے ان پیج سے جہاں پر پوسٹ کرنے کا طریقہ بتا دیں تو میں اپ کا انتہائی مشکور ہوں گا۔ اب اتے ہیں اپ کی پوسٹ کی طرف تو عرض یہ ہے کہ اپ نے میری پوسٹ نمبر 29 کا جواب ادھورا دیا ہے میں امید کرتا ہوں کہ اپ اس پوری پوسٹ کا جواب عنایت فرمائیں گے۔ اپ نے لکھا کہ اپ اس کام کا منسوخ ہونا ثابت کریں تو گزارش یہ کہ میں نے یہی تو سوال اٹھایا تھا کہ پہلے اپ اس کام کا حکم تو ثابت کریں منسوخی کی بات تو بعد کی ہے۔ میں نے اپنی پوسٹ نمبر 29 میں نے درج ذیل سوالات اپ سے کئے تھے مگر اپ نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ اپ نے نورالاانوار کا جو حوالہ دیا ہے اسے میں بھی تسلیم کرتا ہوں لیکن پہلے اپ یہ تو ثابت کریں کہ واقعی قبروں پر مسجد بنانا پچھلی شریعتوں میں جائز تھا؟ اور قران اس کو بحثیت سابقہ شریعتی حکم کے بیان کر رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قران کی رو سے جن لوگوں نے اصحاب کھف کی قبروں کے پاس مسجد بنانے کا فیصلہ کیا وہ لوگ تھے کون؟ وہ کس شریعت کو فالو کر رہے تھے؟ اور کیا واقعی ان کی شریعت میں یہ جائز بھی تھا کہ نہیں؟ میں نے طبری سے صرف حضرت ابن عباس کا قول اس لئے پیش کیا تھا کیونکہ دوسرا قول اس قول کے بالکل متضاد ہے اور ان دو متضاد اقوال میں سے یقینا حضرت ابن عباس کا قول ترجیع رکھتا ہے کیونکہ تفسیر قران میں حضرت ابن عباس کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہے۔ یہاں ایک نہایت اہم نکتہ قارئین کے لئے پیش خدمت ہے کہ جا،الق میں مفتی احمد یار صاحب نے سورہ کھف کی زیر بحث ایت سے اولیا، اللہ کی قبروں پر قبہ و عمارات بنانے کا استدلال کیا ہے۔ تو انصاف پسند قارئین سے التماس ہے وہ توحیدی بھائی کے پیش کردہ مفسرین کے حوالہ جات چیک کر لیں کہ اصحاب کھف پر عمارت بنانے کا فیصلہ مشرکوں اور کافروں کا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کام سے منع کر دیا ہے تو پھر اس ایت سے استدلال کرنا بے سود ہے۔ وروى الصحيحان عن عائشة: " أن أم حبيبة وأمّ سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها تصاوير لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنّ أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجداً وصوّروا فيه تلك الصور أولئك شرارُ الخلق عند الله تعالى يوم القيامة بنو علی قبرہ مسجدا سے صاف ظاہر ہے کہ وہ قبر کے پاس مسجد بنا لیتے تھے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے۔ اور اپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ علی صرف اوپر ہی کے لئے نہیں اتا بلکہ پاس کے اور قریب کے معنوں میں بھی اتا ہے جیسے سورہ توبہ ایت 84 میں ہے کہ ولا تقم علی قبرہ یعنی اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں۔ ظاہری بات ہے یہاں عین قبر پر کھڑے ہونے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ قبر کے پاس کھڑے ہونے کی بات ہو رہی ہے۔ اور سورہ کھف میں بھی علیھم مسجدا سے یہی مراد ہے کہ ان کے قریب مسجد بنانا ( جا،الحق میں بھی یہی لکھا ہے) اور ایک اہم نکتہ یہ بھی کہ امام محمد نے کتاب الاثار میں امام ابو حنیفہ کا قول بیان کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ قبر کو نہ تو پختہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے پاس مسجد بنائی جائے او یجعل عندہ مسجد جب اپ مقلد ہیں تو اپنے امام کے قول کے خلاف اپ کیسے کوئی استدلال کر سکتے ہیں؟ کچھ مفسرین کا یہ کہنا کہ یہود و نصاری قبروں کو بت بنا کر پوجتے تھے تو اس بات کی کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں کہ انہوں نے کسی قبر کو بت بنا کر پوجا ہو۔ اج بھی یہود و نصاری موجود ہیں کیا اپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس قبر کو بت بنا کر پوج رہے ہیں ؟ اور احادیث کے اندر بھی اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ باقی مفسرین کا اصحاب کھف پر مسجد بنانے والوں کے بارے میں اظہار خیال کرنا کہ وہ مسلمان تھے تو ان مفسرین کا اس حوالے سے سورس اف نالج کیا ہے؟ عام طور پر یہی گمان کیا جاتا ہے کہ اصحاب کھف کا واقعہ حضرت عیسی علیہ السلام کےاسمان پر اٹھائے جانے کے بعد کا ہے تو اگر واقعی یہ بات درست ہے تو صعود عیسی کے بعد سچے اور حقیقی پیروان عیسی تو کبھی بھی غلبہ کی پوزیشن میں نہیں رہے تو پھرغلبو علی امرھم سے یہ لوگ کیسے مراد لئے جا سکتے ہیں۔ اور یہ دلیل پیش کرنا کہ حطیم میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قبر ہے تو یہ ایک بے ثبوت بات ہے اور اگر یہ بات باالفرض درست بھی ہو تو چونکہ اس قبر کا وہان کوئی نام و نشان نہیں تو اس سے استدلال بھی غلط ہوا۔ حضرت حسن بن حسن کی بیوی کے حوالے سے اپ کے استدلال کا جواب بھی جو میں نے موسٹ 29 میں دیا تھا اسے دوبارہ یہاں پیسٹ کر دیتا ہوں تاکہ اپ کو جواب کی اسانی رہے۔ باقی رہا حضرت حسن بن حسن کی بخاری شریف والی روایت کا مسئلہ تو اس کو میں نے صرف بخاری شریف کے حوالے سے بے سند کہا تھا کیونکہ امام بخاری نے اس کی سند کو بیان نہیں کیا ورنہ تغلیق التعلیق علی بخاری کے بارے میں علم تھا۔ بہرحال اس میں جو سند بیان کی گئی ہے اس میں ایک محمد بن حمید ہے جس کے بارے میں امام بخاری کہتے ہیں کہ فی حدیثہ نظر ، امام نسائی کہتے ہیں ثقہ نہیں ، امام جوزانی اسے غیر ثقہ اور بد مذہب کہتے ہیں، امام صالح جزرہ کہتے ہیں اس سے بڑھ کر کسی کو جھوٹ پر دلیر نہیں پایا، امام ابو نعیم کا کہنا ہے کہ محدث ابو حاتم کے گھر ابن خراش اور فقہا، کی ایک جماعت موجود تھی اور سب کی متفقہ رائے تھی کہ ابن حمید سخت ضعیف ہے، امام ابو حاتم اور امام حمزہ کنانی دونوں اسے کذاب کہتے ہیں، امام ابن حبان کے مطابق ثقات سے مقلوب روایات بیان کرنے میں منفرد ہے۔ اب ایسے راوی کی روایت کا کیا اعتبارہے؟ اور اس روایت کے باطل ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ باالفرض روایت صحیح بھی ہو تو بھی کیا حاصل کیونکہ اصول یہی ہے کہ قول صحابی بھی اگر حدیث رسول کے خلاف ہو تو ناقابل قبول ہے۔ حضرت حسن کی بیوی نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر یہ کام کیا تھا پھر جب حالت سنبھلی تو خیمہ اکھاڑ کر واپس چلی گئیں اور سنا کہ ایک کہنے والا کہہ رہا ہے کہ کیا تو نے اس چیز کو پا لیا ہے جس کو گم کیا تھا دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ مایوس ہو کر لوٹ ائے۔ یعنی حضرت حسن کی بیوی کے اس عمل کا ایک قسم کا مذاق اڑایا گیا۔ باقی رہا صحابہ کرام کی موجودگی کا مسئلہ تو میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا حضرت حسن کی وفات 97ھ میں ہوئی تھی اور مدینہ کے اخری صحابی 78ھ میں فوت ہو گئے تھے اور سب سے اخری صحابی 110ھ میں فوت ہوئے تو اپ خود اندازہ کر سکتے ہیں 97ھ کے بعد بلاد اسلامیہ کے مختلف حصوں میں کتنے صحابہ زندہ ہوں گے؟ اور اگر کوئی صحابی مدینہ ایا بھی ہو گا تو ہو سکتا ہے اس نے منع بھی کیا ہو لیکن اگر اس کا روایات میں ذکر نہیں ایا تو عدم ذکر عدم نفی کو مستلزم تو نہیں ہوتا۔ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 11ھ میں ہوئی اور حضرت حسن بن حسن کی وفات 97ھ میں ہوئی تو 97ھ میں جو صحابہ زندہ تھے ان کی عمر 86 سال تو کنفرم ہوئی اور اگر ان زندہ صحابہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےوقت کم سےکم عمر14 سال بھی فرض کی جائے تو 97ھ میں ان زندہ صحابہ کی عمر 100 سال ہو گی ۔ اس سے اپ خود اندازہ لگا لیں کہ 97ھ میں اتنی عمر کے چند گنے چنے صحابہ ہی ہوں گے اور اس ضعیف العمری میں ان کا دوسرے شہروں سے مدینہ شریف کا سفر کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔
  3. توحیدی بھائی کیا میں بھی امید رکھوں کہ اپ میری پوسٹ نمبر 29 پر اپنی رائے سے مطلع فرمائیں گے؟
  4. توحیدی بھائی ، بحوالہ پوسٹ نمبر 26 اپ نے لکھا اس تھریڈ میں ایک محقق صاحب نے لکھا کہ اصحاب کھف کے مزارات کے قریب مسجد بنانا سابقہ شریعت کا فعل ہے ہماری شریعت میں نہیں حالانکہ میں نے یہ بات اس انداز سے نہیں لکھی تھی بلکہ میں نے لکھا تھا اصحاب کھف پر جن لوگوں نے مسجد بنانے کا فیصلہ کیا تو کیا وہ فیصلہ ان کا ذاتی تھا یا ان کی شریعت میں قبر پر مسجد بنانا جائز تھا؟ اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی مستند ثبوت نہیں۔ قران میں بھی صرف ان دو گروہوں کی ارا کا ذکر ہے۔ قران نہ ان کی ان ارا کی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی تردید۔ حضرت ابن عباس کا ایک قول امام طبری نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا کہ مسجد بنانے کا فیصلہ کن کا تھا۔ حدثنـي مـحمد بن سعد، قال: ثنـي أبـي، قال: ثنـي عمي، قال: ثنـي أبـي، عن أبـيه، عن ابن عبـاس، قوله: { قالَ الَّذِينَ غَلَبُوا علـى أمْرِهِمْ لَنَتَّـخِذَنَّ عَلَـيْهِمْ مَسْجِداً } قال: يعنـي عدوّهم. دوسری بات یہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں کی ممانعت ا چکی ہے تو پھر پچھلی شریعت میں اگرچہ یہ سب جائز بھی ہو تو ہمارے لئے جائز نہیں۔ اپ نے نورالاانوار کا جو حوالہ دیا ہے اسے میں بھی تسلیم کرتا ہوں لیکن پہلے اپ یہ تو ثابت کریں کہ واقعی قبروں پر مسجد بنانا پچھلی شریعتوں میں جائز تھا؟ اور قران اس کو بحثیت سابقہ شریعتی حکم کے بیان کر رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قران کی رو سے جن لوگوں نے اصحاب کھف کی قبروں کے پاس مسجد بنانے کا فیصلہ کیا وہ لوگ تھے کون؟ وہ کس شریعت کو فالو کر رہے تھے؟ اور کیا واقعی ان کی شریعت میں یہ جائز بھی تھا کہ نہیں؟ حضرت ابن عباس کے مطابق تو یہ اصحاب کھف کے دشمنوں کا فیصلہ تھا۔ تو کیا ان دشمنوں کا فیصلہ ہمارے لئے قابل تقلید ہے؟ اپ نے لکھا کہ تفسیر قرطبی میں بیان کردہ احادیث کا قبوں سے کیا تعلق؟ امام قرطبی کی تفسیر پیش کرنے کا ایک مقصد تو اس بارے میں ان کی رائے پیش کرنا تھا کہ فاتخاذ المساجد على القبور والصلاة فيها والبناء عليها، إلى غير ذلك مما تضمّنته السنة من النهي عنه ممنوع لا يجوز؛ اور دوسرا ان احادیث میں قبروں پر عمارت بنانے اور مساجد بنانے کی ممانعت موجود ہے۔ مثلا وروى الصحيحان عن عائشة: " أن أم حبيبة وأمّ سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها تصاوير لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنّ أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجداً وصوّروا فيه تلك الصور أولئك شرارُ الخلق عند الله تعالى يوم القيامة اور وروى مسلم عن جابر قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصّص القبر وأن يقعد عليه وأن يبنى عليه بنو علی قبرہ مسجدا سے صاف ظاہر ہے کہ وہ قبر کے پاس مسجد بنا لیتے تھے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے۔ اور اپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ علی صرف اوپر ہی کے لئے نہیں اتا بلکہ پاس کے اور قریب کے معنوں میں بھی اتا ہے جیسے سورہ توبہ ایت 84 میں ہے کہ ولا تقم علی قبرہ یعنی اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں۔ ظاہری بات ہے یہاں عین قبر پر کھڑے ہونے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ قبر کے پاس کھڑے ہونے کی بات ہو رہی ہے۔ اور سورہ کھف میں بھی علیھم مسجدا سے یہی مراد ہے کہ ان کے قریب مسجد بنانا ( جا،الحق میں بھی یہی لکھا ہے) اور ان یبنی علیہ سے قبور پر عمارت بنانے کی ممانعت ہے۔ اس لئے قبر کو قبلہ بنا لینا، قبر کو سجدہ کرنا یا قبر کے پاس مسجد بنا لینا یا قبر پر عمارت بنا لینا سب ممنوع ہے۔ اور ایک اہم نکتہ یہ بھی کہ امام محمد نے کتاب الاثار میں امام ابو حنیفہ کا قول بیان کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ قبر کو نہ تو پختہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے پاس مسجد بنائی جائے او یجعل عندہ مسجد جب اپ مقلد ہیں تو اپنے امام کے قول کے خلاف اپ کیسے کوئی استدلال کر سکتے ہیں؟ باقی رہا حضرت حسن بن حسن کی بخاری شریف والی روایت کا مسئلہ تو اس کو میں نے صرف بخاری شریف کے حوالے سے بے سند کہا تھا کیونکہ امام بخاری نے اس کی سند کو بیان نہیں کیا ورنہ تغلیق التعلیق علی بخاری کے بارے میں علم تھا۔ بہرحال اس میں جو سند بیان کی گئی ہے اس میں ایک محمد بن حمید ہے جس کے بارے میں امام بخاری کہتے ہیں کہ فی حدیثہ نظر ، امام نسائی کہتے ہیں ثقہ نہیں ، امام جوزانی اسے غیر ثقہ اور بد مذہب کہتے ہیں، امام صالح جزرہ کہتے ہیں اس سے بڑھ کر کسی کو جھوٹ پر دلیر نہیں پایا، امام ابو نعیم کا کہنا ہے کہ محدث ابو حاتم کے گھر ابن خراش اور فقہا، کی ایک جماعت موجود تھی اور سب کی متفقہ رائے تھی کہ ابن حمید سخت ضعیف ہے، امام ابو حاتم اور امام حمزہ کنانی دونوں اسے کذاب کہتے ہیں، امام ابن حبان کے مطابق ثقات سے مقلوب روایات بیان کرنے میں منفرد ہے۔ اب ایسے راوی کی روایت کا کیا اعتبارہے؟ اور اس روایت کے باطل ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ باالفرض روایت صحیح بھی ہو تو بھی کیا حاصل کیونکہ اصول یہی ہے کہ قول صحابی بھی اگر حدیث رسول کے خلاف ہو تو ناقابل قبول ہے۔ حضرت حسن کی بیوی نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر یہ کام کیا تھا پھر جب حالت سنبھلی تو خیمہ اکھاڑ کر واپس چلی گئیں اور سنا کہ ایک کہنے والا کہہ رہا ہے کہ کیا تو نے اس چیز کو پا لیا ہے جس کو گم کیا تھا دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ مایوس ہو کر لوٹ ائے۔ یعنی حضرت حسن کی بیوی کے اس عمل کا ایک قسم کا مذاق اڑایا گیا۔ باقی رہا صحابہ کرام کی موجودگی کا مسئلہ تو میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا حضرت حسن کی وفات 97ھ میں ہوئی تھی اور مدینہ کے اخری صحابی 78ھ میں فوت ہو گئے تھے اور سب سے اخری صحابی 110ھ میں فوت ہوئے تو اپ خود اندازہ کر سکتے ہیں 97ھ کے بعد بلاد اسلامیہ کے مختلف حصوں میں کتنے صحابہ زندہ ہوں گے؟ اور اگر کوئی صحابی مدینہ ایا بھی ہو گا تو ہو سکتا ہے اس نے منع بھی کیا ہو لیکن اگر اس کا روایات میں ذکر نہیں ایا تو عدم ذکر عدم نفی کو مستلزم تو نہیں ہوتا۔ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 11ھ میں ہوئی اور حضرت حسن بن حسن کی وفات 97ھ میں ہوئی تو 97ھ میں جو صحابہ زندہ تھے ان کی عمر 86 سال تو کنفرم ہوئی اور اگر ان زندہ صحابہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےوقت کم سےکم عمر14 سال بھی فرض کی جائے تو 97ھ میں ان زندہ صحابہ کی عمر 100 سال ہو گی ۔ اس سے اپ خود اندازہ لگا لیں کہ 97ھ میں اتنی عمر کے چند گنے چنے صحابہ ہی ہوں گے اور اس ضعیف العمری میں ان کا دوسرے شہروں سے مدینہ شریف کا سفر کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔
  5. @ smart Ali حضرت حسن بن حسن بن علی کی روایت بخاری شریف میں صرف اسی باب میں ہے جس کا سکین اپ نے پوسٹ 17 میں لگایا ہے۔ یہ روایت بخاری شریف کے باب الجرید علی قبر میں نہیں ہے ۔ جا،الحق میں ریفرنس غلط ہے۔ یعنی بخاری شریف میں باب الجرید علی قبر تو موجود ہے مگر یہ حدیث اس باب میں نہیں۔
  6. اصحاب کھف پر جن لوگوں نے مسجد بنانے کا فیصلہ کیا تو کیا وہ فیصلہ ان کا ذاتی تھا یا ان کی شریعت میں قبر پر مسجد بنانا جائز تھا؟ اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی مستند ثبوت نہیں۔ قران میں بھی صرف ان دو گروہوں کی ارا کا ذکر ہے۔ قران نہ ان کی ان ارا کی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی تردید۔ حضرت ابن عباس کا ایک قول امام طبری نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا کہ مسجد بنانے کا فیصلہ کن کا تھا۔ حدثنـي مـحمد بن سعد، قال: ثنـي أبـي، قال: ثنـي عمي، قال: ثنـي أبـي، عن أبـيه، عن ابن عبـاس، قوله: { قالَ الَّذِينَ غَلَبُوا علـى أمْرِهِمْ لَنَتَّـخِذَنَّ عَلَـيْهِمْ مَسْجِداً } قال: يعنـي عدوّهم. دوسری بات یہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں کی ممانعت ا چکی ہے تو پھر پچھلی شریعت میں اگرچہ یہ سب جائز بھی ہو تو ہمارے لئے جائز نہیں۔ امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی بات کے حوالے سے درج ذیل احادیث نقل کی ہیں۔ وتنشأ هنا مسائل ممنوعة وجائزة؛ فاتخاذ المساجد على القبور والصلاة فيها والبناء عليها، إلى غير ذلك مما تضمّنته السنة من النهي عنه ممنوع لا يجوز؛ لما روى أبو داود والترمذيّ عن ابن عباس قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم زوّارات القبور والمتخذين عليها المساجد والسُّرُج " قال الترمذيّ: وفي الباب عن أبي هريرة وعائشة حديث ابن عباس حديث حسن. وروى الصحيحان عن عائشة: " أن أم حبيبة وأمّ سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها تصاوير لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنّ أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجداً وصوّروا فيه تلك الصور أولئك شرارُ الخلق عند الله تعالى يوم القيامة " لفظ مسلم. قال علماؤنا: وهذا يحرم على المسلمين أن يتّخذوا قبور الأنبياء والعلماء مساجد. وروى الأئمة عن أبي مرثد الغنويّ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تصلّوا إلى القبور ولا تجلسوا عليها " لفظ مسلم. أي لا تتخذوها قبلة فتصلّوا عليها أو إليها كما فعل اليهود والنصارى، فيؤدي إلى عبادة من فيها كما كان السبب في عبادة الأصنام. فحذّر النبيّ صلى الله عليه وسلم عن مثل ذلك، وسَدَّ الذرائع المؤدّية إلى ذلك فقال: " اشتدّ غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم وصالحيهم مساجد ". وروى الصحيحان عن عائشة وعبد الله بن عباس قالا: " لما نزل برسول الله صلى الله عليه وسلم طَفِق يطرح خَميصة له على وجهه فإذا اغتمّ بها كشفها عن وجهه فقال وهو كذلك: لعنة الله على اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد " يحذّر ما صنعوا. وروى مسلم عن جابر قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصّص القبر وأن يقعد عليه وأن يبنى عليه " وخرّجه أبو داود والترمذي أيضاً عن جابر قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تجصّص القبور وأن يكتب عليها وأن يبنى عليها وأن توطأ " قال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح. اور بخاری شریف کی حدیث کے حوالے سے عرض یہ ہے کہ یہ بے سند حدیث ہے اور ایک بے سند روایت سے استدلال کرنا کیونکر صحیح ہے؟ ہھر یہ کہنا کہ یہ سب صحابہ کرام کے زمانے میں سب کی موجودگی میں ہوا اور کسی نے انکار نہ کیا بہت عجیب بات ہے کیونکہ حضرت حسن بن حسن بن علی کی وفات 97ھ میں مدینہ شریف میں ہوئی اور مدینہ شریف میں سب سے اخر میں وفات پانے والے صحابی حضرت جابر تھے جو 78ھ میں فوت ہوئے لہذا حضرت حسن بن حسن کی وفات کے وقت مدینہ میں کوئی صحابی نہ تھا۔
  7. مغل صاحب اپ کا بہت شکریہ کہ اپ نے لنک مہیا کیا لیکن برائے مہربانی لنک دینے کی بجائے اگر اپ برائے راست میرے پوانٹس کا جواب عنایت فرمائیں تو میربانی ہو گی۔ چشتی قادری صاحب اپ کا بھی بہت شکریہ کہ اپ نے ایک مفید لنک مہیا کیا ۔ اس لنک میں میرے ٹاپک کے حوالے سے کافی بحث موجود ہے مگر ایک تو یہ بہت طویل ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں میرے ٹاپک سے ہٹ کر بھی بہت سا مواد ہے۔
  8. اس سے پہلے کہ ہم جا،الحق میں پیش کردہ مزارات اولیا، پر گنبد بنانے کے دلائل کا مختصر جائزہ لیں بہتر ہے کہ اس حوالے سے احادیث اور اور فقہ حنفی کا موقف جان لیں۔ ۱۔ قال نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یجصص القبر و ان یبنی علیہ و ان یقعد علیہ۔ (مسلم، مسند احمد:۸/۷۸۔ ترمذی:۱۲۵۔ ابوداؤد، محلی ابن حزم:۵/۱۳۳۔ السنن الکبریٰ:۴/۴) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ ۲۔ نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یبنی علی القبور او یقعد علیھا او یصلّٰی علیھا۔ (ابن ماجہ کتاب الجنائز، مجمع الزاوئد:۳/۶۱) ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر عمارت بنانے اور ان پر بیٹھنےاور نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ ۳۔ حضرت ام سلمی نے کہا: نھی رسول اللہ ان یبنی علی القبر و ان یجصص۔ (مسند احمد بترتیب الفتح الربانی:۸/۷۸) ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر عمارت بنانے اور قبر کو پختہ بنانےسے منع فرمایا ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے میرے استاد نے یہ حدیث بیان کی: یرفعہ الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ نھیٰ عن تربیع القبور و تجصیصھا۔ (کتاب الاٰثار:۵۲) ترجمہ: انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اس حدیث کی سند پہنچائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے قبروں کو مربع بنانے اور قبروں کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔ اور اگے کہتے ہیں کہ اسی کو ہم لیتے ہیں اور امام ابو حنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور یہ بات احناف کی تمام فتاویٰ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے، مثلاً علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ بحر الرائق میں تحریر فرماتے ہیں: ولا یجصص لحدیث جابررضی نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یُجصص القبر و ان یُبنیٰ علیہ و ان یُکتب علیہ۔ (البحر الرائق:۲/۲۰۹) ترجمہ: قبر کو پختہ نہ بنایا جائے، کیونکہ حضرت جابرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ آپﷺ نے قبر کو پختہ بنانے اور اس پر عمارت بنانے اور قبر پر لکھنے سے منع فرمایا ہے۔ علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں فرماتے ہیں: اما البناء علیہ فلم ار من اختار جوازہ و عن ابی حنیفۃ رحمہُ اللہ یکرہ ان یبنی علیہ بناء من بیت او قبّۃ او نحو ذالک لما روی عن جابرؓ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تجصیص القبور و ان یکتب علیھا و ان یبنی علیھا۔ (ردّ المحتار:۱/۶۰۱) ترجمہ: میں نے کسی کو نہیں دیکھا جس نے قبر پر عمارت بنانے کو پسند کیا ہو اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ قبر پر عمارت بنانا مکرہ ہے، خواہ مکان ہو یا گنبد یا اسی جیسی کوئی عمارت، کیونکہ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے اور قبروں پر لکھنے اور قبروں پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: لا یربع و لایجصص و یکرہ ان یبنیٰ علی القبور او یقعد او ینام علیہ و یکرہ ان یبنی علی القبور مسجداً او غیرہ۔ (فتاویٰ عالمگیری:۱/۱۶۶) ترجمہ: قبر کو مربع نہ بنایا جائے اور نہ پختہ بنایا جائے اور قبر پر عمارت تعمیر کرنا اور قبر پر بیٹھنا اور قبر پر سونا مکروہ ہے، قبر پر مسجد بنانا یا اس جیسی کوئی عمارت بنانا مکروہ ہے۔ علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ شامی میں فرماتے ہیں: امام البناء علیہ فلم ار من اختار جوازہ۔ (شامی:۱۰۱) ترجمہ: مجھے معلوم نہیں کہ کسی نے عمارت بنانے کو جائز سمجھا ہو۔ قاضی ثنا،اللہ بانی پتی اپنی کتاب مالا بدمنہ میں لکھتے ہیں اور جو کچھ کہ اولیا،کرام کی قبروں پر کیا جاتا ہے کہ اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں اور چراغ روشن کرتے ہیں اور اس قسم کی جو چیز بھی کرتے ہیں حرام ہے یا مکروہ۔ اس کے علاوہ درج ذیل فقہا احناف نے قبر کو پختہ نی کرنے کا فتوی دیا ہے۔ علامہ ابن الھمام علامہ عبداللہ بن احمد النفسی علامہ ابن نجیم المعروف ابو حنیفہ ثانی علامہ قاضی خان فتاوی عالمگیری علامہ علاوالدین الحصکفی علامہ عینی اس کے علاوہ بھی بہت سارے فقہا کا یہی فتوی ہے۔ اب جا، الحق میں پیش کردہ مزارات اولیا، پر عمارت تعمیر کرنے کے دلائل کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔ جا،الحق کے دلائل دیکھنے کے لئے درج ذیل لنک چیک کر لیں پوسٹ نمبر4 http://www.islamimeh...5271#entry85271 پہلی دلیل کا جائزہ اس میں مفتی صاحب نے مشکواۃ اور بخاری شریف سے جو دلیل پیش کی ہے اس میں دور دور تک قبروں پر مزار تعمیر کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ مشکواۃ کی حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نشانی کی غرض سے قبر کے سرہانے کی طرف ایک بھاری پتھر رکھ دیا مگر مفتی صاحب اس سے قبر کو پختہ اور اونچا بنانے کا استدلال کر رہے ہیں۔ اور مفتی صاحب کا یہ استدلال ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی پیش کردہ دلیل کا مزارات تعمیر کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر مفتی صاحب فرما رہے ہیں کہ قبر کے سرہانے پتھر نصب فرمایا۔ نصب کا معنی ہوتا ہے گاڑنا جبکہ مشکواۃ کی حدیث میں لفظ نصب نہیں بلکہ وضع ایا ہے فوضعھا عند راسہ یعنی اس پتھر کو قبر کے سرہانے رکھا۔ اور ابن عدی میں یہی روایت حضرت انس سے ائی ہے کہ پتھر قبر کے ایک طرف رکھ دیا فجعلھا الی جنب قبرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پتھر کو صرف نشانی کی غرض سے قبر کے سرہانے رکھا گیا تھا نہ کہ قبر کو پختہ کرنے کے لئے۔ اور جہاں تک بخاری شریف کی حدیث کا تعلق ہے تو اس کے کسی بھی لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خود قبر عثمان کا تعویز اس پتھر سے تھا۔ اور دوسری بات یہ ہے بخاری شریف کی یہ روایت بے سند ہے۔ تیسرا یہ کہ اس روایت سے ثابت ہوا کہ بزرگوں کی قبروں کو پھلانگنا جائز ہے تو کیا اپ بزرگوں کی قبور کو پھلانگنے کے لئے تیار ہیں۔ ویسے ایک بات ہے کہ ان قبور کی اج کل اتنی لمبائی اور اونچائی ہوتی ہے کہ ان کو پھلانگنا تقریبا نا ممکن ہے۔ جاری ہے
  9. محترم جناب علی صاحب۔ اسلامی محفل میں خوش امدید۔ کوشش کریں کہ اپنے کمپیوٹر میں اردو انسٹال کر کے اپنی پوسٹس اردو میں لکھا کریں اس طرح بات سمجھنا اور سمجھانا اسان ہو جاتا ہے۔ اپکی پوسٹ کے حوالے سے عرض ہے کہ میرا نہیں خیال کہ عید میلا النبی صلی علیہ وسلم کو کوئی بھی دین کا حصہ سمجھ کر مناتا ہے۔ یہ فی الدین سمجھ کر نہیں بلکہ للدین سمجھ کر منائی جاتی ہے۔
  10. جناب سعیدی صاحب! بحوالہ اپ کی پوسٹ نمبر 36۔ جواب،جواب الجواب پوائنٹ 1 اپ نے اعرفھم کا ترجمہ میں انہیں پہچانتا ہوں کیا ہے حالانکہ اس حدیث کے سیاق و سباق کے مطابق اس کا صحیح ترجمہ ہے میں انہیں پہچان لوں گا۔ غلام رسول سعیدی صاحب نے بھی اپنی شرح صحیح مسلم میں اعرفہم کا ترجمہ فعل مضارع میں ہی کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی میں نے ایک دو ترجمہ دیکھے ہیں ان میں بھی یہی ترجمہ ہے کہ میں انہیں پہچان لوں گا۔ اور محمد علی صاحب نے بھی اپنی پوسٹ میں جو انگلش ترجمہ پیش کیا ہے وہاں بھی یہی ہے کہ I will recognize them. لہزا اپ کا اعرفھم سے استدلال غلط ہے۔ جواب،جواب الجواب پوائنٹ 3،2 مقام حیرت ہے کہ اپ کے نزدیک ظالموں،جابروں،لٹیروں،زانیوں، شرابیوں اور فساد فی الارض وغیرہ کرنے والوں کے منہ سیاہ نہیں ہوں گے۔ بہرحال سورہ یونس کی ایات 26،27 پیش خدمت ہیں۔ جن لوگوں نے نیکو کاری کی ان کے لیے بھلائی ہے اور (مزید برآں) اور بھی اور ان کے مونہوں پر نہ تو سیاہی چھائے گی اور نہ رسوائی۔ یہی جنتی ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہوں نے برے کام کئے تو برائی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا۔ اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی۔ اور کوئی ان کو خدا سے بچانے والا نہ ہوگا۔ ان کے مونہوں (کی سیاہی کا یہ عالم ہوگا کہ ان) پر گویا اندھیری رات کے ٹکڑے اُڑھا دیئے گئے ہیں۔ یہی دوزخی ہیں کہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اس کے علاوہ مشکواۃ باب روئتہ اللہ تعالی میں بحوالہ مسلم شریف ایک حدیث ہے جس میں اللہ تعالی اور اہل جنت کا ایک مکالمہ ہے۔ اس میں جنتی کہیں گے الم تبیض وجوھنا۔۔۔۔ کیا تو نے ہمارے منہ سفید نہیں کر دیئے۔۔۔۔ باقی شفاعت حق ہے لیکن یہ مختلف مراحل میں ہو گی اوربہت سوں کی دوزخ میں ڈال دیئے جانے کے بعد ہوگی۔ جواب،جواب الجواب پوائنٹ 4 پہلی بات تو یہ ہے کہ سورہ بقرہ ایت 143 کی اصل تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ہے جو کہ بخاری شریف میں ہے جس کا مفہوم ہے کہ قیامت کے دن امت مسلمہ دیگر اقوام پر گواہی دے گی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر گواہی دیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جنازوں کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف سورہ توبہ ایت 105 پڑھنا ہی منقول نہیں ہے بلکہ سورہ توبہ کی ایت کی تلاوت کی بات تو ایک روایت میں ائی ہے باقی روایات میں تو سورہ بقرہ ایت 143 کی تلاوت ہی منقول ہے۔ تیسری بات یہ کہ طبری کی اس روایت میں صاف منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو، جس کا صاف مطلب یہ کہ جب تک کوئی بندہ مومن اس دنیا میں حیات رہتا ہے تو اس کے حلقہ احباب میں ، عزیز و اقارب میں اور ملنے جلنے والوں میں اگر کوئی وفات پاتا ہے تو اس وفات پانے والے کے بارے میں اس کی اچھی یا بری رائے کو بطور شہادت اللہ قبول کر لیتا ہے۔ لہزا اس مومن کی یہ چشم دید شہادت صرف ان لوگوں کے لئے ہو گی جن کو اس نے بچشم خود دیکھا ہوگا۔ مثال کے طور جیسے، سعیدی صاحب اپ کی شہادت صرف اپ سے متعلقہ افراد کے متعلق قابل قبول ہو گی۔ اس تناظر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایات اس موقع پر تلاوت کرنا بر محل ہے کیونکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور مخاطب صحابہ بھی موجود تھے۔ اپ نے سورہ توبہ ایت 105 کے حوالے سے کہا کہ ایات کا مورد خاص اور حکم عام ہوتا ہے۔ بیشک اپ کی بات درست ہے مگر یہ بھی پیش نظر رہے کہ بعض مقامات پر دلائل اور قرائن کے لحاظ سے تخصیص بھی ہو جاتی ہے۔ اس ایت میں ذرا غور فرمائیں کہ قل اعملوا میں اعملوا سے مخاطب کون ہے؟ بالکل واضح بات ہے کہ جو اعملوا میں مخاطب ہیں انہیں کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ ، رسول اور مومنین ان کے اعمال دیکھ لیں گے۔ اور جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کا تعلق ہے تو امام بخاری نے اس کو بلا سند بیان کیا ہے اور ویسے بھی حضرت عائشہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے علم غیب اور حاضرناظر کے بارے میں عقیدے کو تو اپ جانتے ہی ہوں گے جو بخاری و مسلم وغیرہ اور سورہ تحریم میں واضح بیان ہوا ہے۔ لہزا اس بے سند قول سے اپ کا استدلال غلط ہے۔ جواب،جواب الجواب پوائنٹ 5 اس پوائنٹ پر کچھ عرض کرنے سے پہلے اپ کی خدمت میں ایک گزارش ہے کہ یہ بار بارمجھے مختلف انداز میں دیوبندیت اور وہابیت کا طعنہ دینے سے برائے مہربانی گریز فرمائیں۔ حالانکہ میں اس حوالے سے وضاحت کر چکا ہوں لیکن اگر اپ کو میری بات کا اعتبار نہیں تو بھی گریز فرمائیں کیونکہ میں نے بھی اپ لوگوں پر کسی حوالے سے بھی کبھی بھی طعنہ زنی نہیں کی۔ شکریہ رہی بات کے اپ کے جواب الجواب کی تو میں اتنا ہی عرض کروں گا کہ قران میں اور خاص طور پر احادیث میں صحابہ کرام کے اجمالی طور پر بھی اور ناموں کے ساتھ بھی بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے صحابہ کا علم تھا۔ اور اپ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ بہت سے لوگ بعد از وصال نبی اتداد کا شکاربھی ہو گئے تھے۔ اور باقی رہا منافقین کے بارے میں کلی علم کے نہ ہونے کا تو اس بارے میں سورہ توبہ کی ایت 101 میں اللہ پاک نے خود اس کا بیان فرمایا ہے اور یہ سورہ ہے بھی اخری سورہ تو اگر اپ باس اسی طرح کی قطعی ثبوت اور قطعی دلالہ کوئی مخالف دلیل ہو توپیش فرما دیں۔ اس کے علاوہ اصحابی اصحابی اور انک لا تدری والی بات بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے۔ جواب، جواب الجواب پوائنٹ 6 اگر مجھے حضرت امام حسن اور حضرت عائشہ کے دل کا حال معلوم نہیں تو اپ کو خود کون سا ان کے دل کا حال معلوم ہے؟ اگر ان دونوں نے یہ نہیں فرمایا کہ ہمیں نہیں پتہ تو انہوں نے یہ بھی نہیں فرمایا کہ ہمیں تو پہلے ہی پتہ تھا۔ اور اس قیاس کو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جاری نہیں کر رہا بلکہ صرف اما شعرت کے استعمال کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انک لا تدری کی تصدیق نہیں فرمائی تو اس کی تردید بھی نہیں فرمائی۔ بلکہ اگر اپ غور فرمائیں تو انک لا تدری پر اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا اور ان لوگوں کو سحقا سحقا کہنا اس بات کا غماز ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم انک لا تدری کی تصدیق فرما رہے ہیں۔ حضرت ابو امامہ والی روایت کا حوالہ نہ دینا اس کو چھپانے کے لئے نہیں تھا بلکہ مجھے اپ کے بارے میں حسن ظن تھا کہ اپ حوالے سے باخبر ہوں گے اور جس کا ثبوت اپ نے سند پر تنقید کر کے دے دیا ہے۔ ویسے اگر یہ روایت اپ کے کام کی ہوتی تو اپ کسی نہ کسی طرح اس کو ضرور قابل قبول بنا لیتے۔ ویسے بھی میں نے یہ روایت بطور تائید کے پیش کی تھی۔ اس کے علاوہ علامہ عینی اور امام نووی کے حوالے سے پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ اما شعرت ایسے موقع پر بولا جا سکتا ہے جہاں چاہے مخاطب کو اس کا علم نہ ہو۔ اپ نے کہا جب زیادۃ ثقہ مقبول ہے تو جہاں اما شعرت نہیں ایا وہاں بھی ہمزہ استفہام انکاری کو محزوف ماننا پڑے گا۔ تو عرض ہے کہ بے شک زیادۃ ثقہ مقبول ہوتی ہے لیکن اس میں بھی کچھ شرائط کو تو مد نظر رکھنا ہی پڑتا ہے۔ مثلا اگر تو ثقہ راوی کا اضافہ اصل حدیث کے مخالف ہو تو روایت شاذ ہے اور غیر مقبول ہے اور اگر تو راوی کا اضافہ اصل حدیث کے مخالف نہ ہو تو زیادت ثقات ہے اور قابل قبول ہے۔ اگر تو ۱۔ اضافہ بیان کرنے والی راویت کے راویوں کی تعداد اصل روایت کے برابر ہے تو زیادت ثقات ہے اور قبول ہے ۲۔ یا اضافہ بیان کرنے والی روایت کے راویوں کی تعداد تقریبا اصل روایت کے برابر ہے تو بھی زیادت ثقات ہے اور قابل قبول ہے ۳۔ یا اضافہ بیان کرنے والی روایت کے راوی اصل روایت کے راویوں کی نسبت زیادہ ثقہ ہوں اور اگر ایسا نہ ہو تو شاذ ہے۔ اور یہاں تو نہ صرف یہ کہ راوی مخالفت کر رہا ہے بلکہ اما شعرت کے الفاظ کی روایت بھی صرف ایک ہے جو حضرت اسما، سے روایت ہے جبکہ انھیں حضرت اسما، سے یہی روایت بخاری میں ھل شعرت کے الفاظ سے ائی ہے۔ اب اپ ہی بتائیں کے دس بندوں کی روایت مانیں یا ایک کی اور اس ایک کی روایت کے مرکزی راوی سے بھی دوسری جگہ اور الفاظ ائے ہیں۔ اپ نے مسند احمد کی حدیث کے حوالے سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے احداث و ارتداد کا کیسے علم ہو گا؟ حالانکہ میں نے اپنے جواب میں وجہ علم بیان کر دی تھی کہ جب ان لوگوں کو ذات یسار کا حکم دیا جائے گا تو ان کا جرم بھی بیان ہو جائے گا کہ کس جرم میں انہیں ذات یسار کا حکم دیا گیا ہے اس اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو جائے گا۔ اپ نے اللہ پاک یا فرشتے کے جواب کے حوالے سے مسلم شریف کی حدیث پیش کی ہے تو عرض ہے کہ میں نے فرشتے کے جواب سے تو انکار نہیں کیا میرا سوال تو صرف اور صرف فرشتے کے جواب کے حوالے سے تھا۔ اور اس کی تطبیق یہ ہے حوض کوثر والا واقعہ ایک نہیں ہے اس لئے انک لا تدری والی بات اللہ پاک ہی فرمائیں گے کبھی بلا واسطہ اور کبھی بواسطہ فرشتہ۔ اور اس واقعہ کا ایک سے زائد ہونے کی نظیر ایک تو اپ کی پیش کردہ مسند احمد والی حدیث ہے اور دوسری بخاری شریف کی بین انا قائم والی حدیث جو توحیدی بھائی نے پوسٹ 38 میں بیان کی ہے۔ اپ نے مسلم شریف کی جو حدیث بیان کی اس کے حوالے امام نووی کا تشریح نوٹ یہاں پیسٹ کرنے کی کوشش کروں گا ۔
  11. جناب محمد علی صاحب ۔ اپ نے میرے بارے میں جس حسن ظن کا اظہار کیا ہے اس کے لئے شکریہ۔ جزاک اللہ اپ کی بات درست ہے کہ میری یہ ساری بحث کسی فرقہ واریت کی وجہ سے نہیں ہے اور اگر زیر بحث مسئلہ میں اپ لوگوں کی بات صحیح ہوئی تو مجھے قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی انشا،اللہ۔ سعیدی صاحب کی پوسٹ کے حوالے سے انشا،اللہ جلد اپنی گزارشات پیش کروں گا۔
  12. جناب محمد علی صاحب بحوالہ پوسٹ نمبر33،32 اس سے قبل کہ اپ کی پوسٹس کے حوالے سے کچھ عرض کروں ایک دو گزارشات اپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ میں نے پہلے بھی گزارش کی تھی اور اب پھر کر رہا ہوں کہ برائے مہربانی کوشش کریں کہ اردو میں لکھا کریں لیکن اگر رومن میں لکھنا مجبوری ہو تو پلیز فانٹ بڑا استعمال کیا کریں۔ دوسرا یہ کہ اپ ماشا،اللہ کافی باصلاحیت معلوم ہوتے ہیں اور اپنے نکتہ نظر کو اچھے انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اللہ اس میں مزید ترقی عطا فرمائے، بس اپ سے گزارش یہ ہے کہ اپنی تحریر میں طعن و تشنیع اور خاص طور پر طنزیہ انداز سے گریز کیا کریں کیونکہ علمی اور دینی بحثوں میں یہ انداز نہایت نامناسب ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر کسی کی کوئی بات درست ہے اور وہ اس درست بات پر اصرار بھی کرتا ہے تو وہ کیسے گمراہی اور زندیقیت ہے؟ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا اور اب پھر عرض کر رہا ہوں کہ حوض کوثر والی حدیث اور قائد فتنہ والی حدیث دو مختلف احادیث ہیں۔ جن لوگوں کا ذکر حوض کوثر والی احادیث میں ہے وہ اور لوگ ہیں اور جن کا ذکر قائد فتنہ والی حدیث میں ہے وہ اور لوگ ہیں۔ اصل میں اپ بدعت اور فتنہ کو اپس میں گڈ مڈ کر رہے ہیں۔ اگر اپ فتنہ کا معنی جان جائیں گے تو اپ کو خود بخود معلوم ہو جائے گا قائد فتنہ سے کیا مراد ہے۔ فتنہ کی تعریف فتنہ کا مادہ فَتْن ہے اس کے لغوی معنی ہیں سونے کو آگ میں تپاکر کھرا کھوٹا معلوم کرنا ( راغب اصفہانی) پھر فتنہ کے معنی آزمائش کے ہوگئے اورآزمائش میں چونکہ تکلیف دی جاتی ہے اس لیے ایذاء رسانی اور اس کی مختلف شکلوں اور آزمائش میں جو کھوٹا ثابت ہو اس کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے ان سب کے لیے قرآن وحدیث میں فتنہ اور اس کے مشتقات استعمال کیے گئے ہیں، پس فتنہ کے معنی آزمائش، آفت، دنگا فساد، ہنگامہ، دُکھ دینا اور تختہٴ مشق بنانا وغیرہ۔ حضرت حزیفہ جن کی قائد فتنہ والی روایت اپ نے پیش کی ہے وہی ایک اور حدیث روایت کرتے ہیں جس سے فتنہ کا معنی اور واضح ہو جاتا ہے اور قائد فتنہ کا صحیح مفہوم سامنے ا جاتا ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے حضرت حزیفہ کہتے ہیں مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پر وہ چیز بتائی جو قیامت تک ہونے والی تھی اور ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کے بارے میں میں نے خود اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت نہ کیا ہو مگر میں اپ سے یہ نہ پوچھ سکا کہ وہ کونسا فتنہ ہو گا جو اہل مدینہ کو مدینہ سے نکال دے گا۔ مسلم اور بخاری شریف میں حضرت ابن مسیب فرماتے ہیں پہلا فتنہ یعنی قتل عثمان واقع ہوا۔۔۔۔۔ اور پھر دوسرا فتنہ واقعہ حرہ واقع ہوا۔۔۔ ترمزی اور ابن ماجہ میں ہے کہ عنقریب ایسا فتنہ ہو گا جو سارے عرب کو گھیرے گا اور اس میں مقتولین اگ میں ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندگی اور موت کے فتنوں سے پناہ مانگا کرتے تھے،آخر تشھد میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے اللہم انی اعوذ بک من فتنۃ المحیا والممات ۔اور اسلاف کرام میں سے بعض یہ دعا کیا کرتے تھے ((اے اللہ ہم اس بات سے تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائیں یا ہمیں فتنے میں مبتلا کردیا جائے)) [بخاری] اس کے علاوہ فتنہ مسیح دجال بھی ہے۔ امید ہے اپ کو فتنہ اور قائد فتنہ کی سمجھ ا گئی ہو گی۔ اپ نے بخاری شریف کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اس کے دو نسخے ہیں ایک بینا انا نائم کا نسخہ ہے جس کا مطلب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہ نسخہ بھی اکثر محدثین نے پڑھا ہے مگر یہ نسخہ حاشیہ پر درج ہے اصل نسخہ جو متن کا ہے وہ یہ ہے بینا انا قائم اذا زمرہ۔۔۔ کہ جب میں کھڑا ہو گا۔۔۔۔ حافظ ابن حجر اور علامہ عینی نے اسی انا قائم والے نسخے کو ترجیح دی ہے۔ اور اگر انا نائم والا نسخہ بھی صحیح ہو تو تب بھی کوئی حرج نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں قیامت کا وہ نقشہ اجمالی طور پر پیش کیا گیا ہو اور اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو احداث کی تفصیل تو پھر بھی نہیں بتائی گئ۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ قیامت کے دن وہی لوگ ہی حوض کوثر پر پیش ہوں گے جو اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب دکھائے گئے تھے۔ اور اس حدیث میں ہے کہ کم سے کم دو گروہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کئے جائیں گے اس سے کم از کم سعیدی صاحب کی اس بات کی تردید ہو گئی جو انھوں نے اپنی پوسٹ نمر 26 کے پوائنٹ نمبر6 کے سیکنڈ لاسٹ پیرا میں کی تھی اور فرمایا تھا کہ ایک واقعہ کو کئی واقعہ بنانا تحقیقی بھینگا پن ہے۔ اور اپ نے درج ذیل نتائج اس حدیث کے کن الفاظ سے اخز کئے ہیں؟ RasoolAllah (sallalahu alayhi was'sallam) deen say joh joh ta qayamat deen say baghi hoga us ko pechantay hoon gay: Is hadith say sabat ho gaya RasoolAllah (sallalahu alayhi was'sallam) kee hayaat say leh ker ta qayamat joh joh biddati aur deen ka baghi ho jahay ga sab ko RasooolAllah (sallalahu alayhi was'sallam) pehchantay hoon gay.
  13. جناب سعیدی صاحب بحوالہ اپ کی پوسٹ نمبر 26 پوائنٹ 1 جناب انک لا تدری اور انک لا علم لک والی بات بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بیان فرمائی ہے۔ پوائنٹ 3،2 چہرے سیاہ ہونے اور بائیں ہاتھ میں کتاب دئے جانے کی بہت سی وجوہات ہوں گی صرف بدعتیوں اور مرتدین ہی کے چہرے سیاہ نہیں ہو گے اور نہ ہی صرف ان ہی لوگوں کے بائیں ہاتھوں میں کتاب ہو گی۔ بلکہ کافروں مشرکوں، گناہ کبیرہ کے مرتکب مسلمانوں وغیرہ کے بھی یہی حالت ہو گی۔ پوائنٹ 4 سورہ بقرہ کی ایت کے حوالے سے جو روایت اپ نے پیش کی اس کا زیر بحث مسئلے سے کیا تعلق؟ اور اس سے جو نتیجہ اپ نکال رہے ہیں کہ اس سے پتہ چلا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی چشم دید گواہی ہو گی پتہ نہیں اپ نے یہ نتیجہ کیسے نکال لیا؟ اور جہاں تک سورہ توبہ کی ایت 105 کا تعلق ہے تو اپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ایت میں خطاب کس کو ہے اور کس پس منظر میں ایت ائی ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے؟ اپ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اگر اس ایت کے پس منظر اور مفہوم سے اغماض برت رہیں تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ پوائنٹ 5 اس کی مجھے سمجھ نہیں ا سکی کہ زیر بحث مسئلے میں اس کا کیا تعلق ہے؟ پوائنٹ 6 اپ کی اس وضاحت سے تو بات بالکل واضح ہو گئی کہ اما شعرت وہاں بھی بولا جا سکتا ہے جہاں مخاطب کو اس کا علم اگرچہ نہ بھی ہو اسی کی مثال ایک اور حدیث سے واضح ہو جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو امامہ سے فرمایا اما شعرت ان اللہ قد زوجنی فی الجنتہ مریم بنت عمران۔۔۔۔۔۔ الخ اب ظاہر بات ہے کہ حضرت ابو امامہ کو یہ بات پہلے سے کب معلوم تھی؟ پھر میں نے یہ بات بھی عرض کر دی تھی کہ جس اما شعرت کی روایت ہے اسی سے بخاری شریف میں ھل شعرت کے بھی الفاظ ائے ہیں۔ اور ھل شعرت میں ما کا لفظ نہیں ایا۔ اور ھل شعرت کا مفہوم اما شعرت سے بالکل جدا ہے۔ پس یہ واضح ہو گیا کہ انک لا تدری میں ہمزہ استفہام محزوف نہیں ہے۔ ایک متواتر حدیث جس کو بہت سے صحابہ روایت کرتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ہمزہ استفہام کو بیان نہیں کرتا حالانکہ ہمزہ استفہام کو ذکر کرنے یا نہ کرنے سے زمین اسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اور اپ نے مسند احمد کی جو روایت پیش کی تو اس میں تو صاف موجود ہے کہ جب انکو ذات یسار کا حکم دیا جائے گا تو پھر یہ مکالمہ ہو گا اور ظاہر بات ہے ان کو جب ذات یسار کا حکم ہو گا تو ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بیان ہو جائے گی کہ ان کو احداث فی الدین اور مرتد ہونے کی وجہ سے ایسا حکم دیا گیا ہے لہزا اپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وجہ سے ان کو یہ جواب دیں گے۔ اپ نے کہا کہ ہر جگہ جواب فرشتے کے ہی طرف سے متصور ہو گا۔ تو جناب عرض ہے کہ اپ احادیث حوض کوثر کو ملاحظہ فرما لیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو یا ربی، یاربی کہہ کر اللہ کو پکاریں گے تو کیا اللہ اپنے محبوب کو جواب بھی نہیں دے گا ؟ اپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے رب کو پکاریں گے اور جواب صرف فرشتہ دے گا ؟ ذہول والی بات تو میری سمجھ میں نہیں ا سکی کہ یہاں اس کے ذکر کا کیا مقصد ہے ؟
  14. جناب محمد علی صاحب بحوالہ اپ کی پوسٹ نمبر 27 کوشش کیا کریں کہ پوسٹ اردو میں لکھا کریں کیونکہ رومن اردو میں پوسٹ کو پڑھنے میں ذرا مشکل ہوتی ہے۔ لیکن اگر رومن اردو میں ہی لکھنا ضروری ہو تو برائے مہربانی فانٹ بڑا یوز کیا کریں۔ اپ نے بالکل درست ارشاد فرمایا کہ فرمان رسول کو فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سمجھنا چاہیئے، امید ہے اپ خود بھی اس بات پر عمل کریں گے۔ اپ دراصل دو مختلف احادیث کو اکھٹا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپ زرا ان احادیث کو دوبارہ ملاحظہ فرمایئں Sahih Bukhari, Book 76, Hadith 584: Narrated Anas: The Prophet said, "Some of my companions will come to me at my Lake Fount, and after I recognize them, they will then be taken away from me, whereupon I will say, 'My companions!' Then it will be said, 'You do not know what they innovated (new things) in the religion after you." Sahih Bukhari, Book 76, Hadith 585: "Narrated Abu Hazim from Sahl bin Sa'd: The Prophet said, "I am your predecessor (forerunner) at the Lake-Fount, and whoever will pass by there, he will drink from it and whoever will drink from it, he will never be thirsty. There will come to me some people whom I will recognize, and they will recognize me, but a barrier will be placed between me and them." Abu Hazim added: An-Nu'man bin Abi 'Aiyash, on hearing me, said. "Did you hear this from Sahl?" I said, …" جن الفاظ کو میں نے سرخ رنگ سے ہائی لائٹ کیا ہے ان پر غور فرمایئں تو اپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات دینا میں موجود تھے اور اپ پر ایمان لائے تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پہچان لیں گے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیں گے اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو میرے اصحابی میرے اصحابی کہہ کر پکاریں گے۔ اور دوسری حدیث جو اپ نے پیش کی کہ Sunan Abu Dawood, Book 35, Hadith 4231: “Narrated Hudhayfah ibn al-Yaman: I swear by Allah, I do not know whether my companions have forgotten or have pretended to forgot. I swear by Allah that the Apostle of Allah (sallalahu alayhi was'salam) did not omit a leader of a wrong belief (fitnah)--up to the end of the world--whose followers reach the number of three hundred and upwards but he mentioned to us his name, his father's name and the name of his tribe.” تو یہ ان قائدین فتنہ کے بارے میں ہے جو اختتام دنیا تک ائیں گے اور ان کے پیروکاروں کی تعداد کم سے کم تین سو تک ہو گی۔ اوپر کی دو احادیث میں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ کوئی قائد فتنہ نہیں ہوں گے بلکہ وہ لوگ ہو گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مرتد ہو جائیں گے یا انھوں نے دین کے اندر بدعات شروع کی ہو گی۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان قائدین فتنہ کے بارے میں معلومات دیں ہیں ان کے پیروکاروں کے بارے میں نہیں۔ مجھے امید ہے اپ کھلے دل سے ان نکات پر غور فرمائیں گے۔
  15. اہل حدیث اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی محترم انس صاحب! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود سننے کی دلیل کے طور پر میں نے چند لنکس منسلک کئے تھے آپ نے غالبا ان کو ملاحظہ ہی نہیں کیا میں یہاں ان کا ڈائریکٹ امیج پیسٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں،نہ ہو سکا تو پلیز گائیڈ کر دیں۔ میرے بھائی! میں نے وہ لنکس دیکھے ہیں، مجھے ان میں نبی کریمﷺ کے بذاتِ خود درود سننے کی کوئی دلیل نہیں ملی۔ آپ ازراه كرم وہ الفاظ کوٹ کر دیں جن سے نبی کریمﷺ کا براہ راست سننا ثابت ہوتا ہو۔ اور ساتھ ساتھ اس حدیث کی صحّت وضعف بھی۔ کیونکہ قرآن کریم کے مطابق قبر میں موجود لوگ خود سننے کی صلاحت نہیں رکھتے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو معجزاتی طور پر سنانا چاہیں تو الگ بات ہے، جیسا قلیب بدر والا واقعہ ہے۔ ﴿ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ‌ ٢٢ ﴾ ۔۔۔ سورة فاطر ﴿ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ‌ونَ بِشِرْ‌كِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ‌ ١٤ ﴾ ۔۔۔ سورة فاطر اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی آپ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی ریاض الصالحین پر شرع ملاحظہ فرمائیں درود شریف کے باب کی ۔ اس میں حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کیا ہے صرف حیات کی کیفیت پر اختلاف کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہل حدیث علما کے اقرار موجود ہیں۔ بہرحال حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک الگ موضوع ہے اس پر کسی اور تھریڈ میں بات کریں گے۔انشا،اللہ۔آپ صرف سننے کی بات کرتے ہیں انبیا، تو قبور میں نماز بھی پڑھتے ہیں۔ بھائی! مرنے کے بعد قبر میں انبیائے کرام﷩ کی برزخی زندگی کا تو میں بھی قائل ہوں، اور قبر میں نماز پڑھنے کا بھی۔ لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے شہداء کے متعلق فرمایا: ﴿ بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ البتہ وہ اپنی قبروں میں دنیاوی زندگی کی طرح زندہ نہیں، دنیاوی اعتبار سے وہ فوت ہو چکے ہیں۔ ﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ٣٠ ﴾ ۔۔۔ سورة الزمر اپنی پوسٹ میں، میں نے یہی لکھا تھا، دوبارہ ملاحظہ کر لیں: نہ بھئی! یہ اتنی سیدھی سی بات نہیں ہے۔ بذاتِ خود سننے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ 11 ہجری میں فوت ہونے کے بعد، قبر مبارک میں دفن کیے جانے کے بعد بھی دنیاوی طور پر زندہ ہیں، نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرح ہر شے کو دیکھتے، سنتے اور اس کا علم رکھتے ہیں۔ جو ایک شرکیہ عقیدہ ہے۔ اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی چلیں بالفرض آپ کی بات درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سلام نہیں سنتے لیکن یہ بات تو آپ غالبا تسلیم کرتے ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک سلام پہنچا دیا جاتا ہے اور وہ جواب دیتے ہیں۔اب سلام اسے ہی پہنچایا جاتا ہے اور جواب وہی دے سکتا ہے جو زندہ ہو۔ مجھے آپ کے اس موقف سے اتفاق نہیں۔ کوئی اگر دنیاوی طور پر زندہ نہ بھی ہو تو اس کو بھی کوئی بات پہنچائی جا سکتی ہے جیسے قلیب بدر میں مشرکین کو سنانے والا معجزانہ واقعہ ہے۔ اسی طرح وہ بھی اللہ کے حکم سے بات کر سکتا ہے جو زندہ نہ ہو، بلکہ جس کی زبان ہی نہ ہو۔ مثلاً قرآن وحدیث میں جنت وجہنم، آسمان وزمین اور پہاڑوں و دیگر مخلوق کے بات چیت کرنے کا ذکر بھی ہے، (جو اللہ کی قدرت کی دلیل ہے) حالانکہ ان کی ہماری طرح زندگی نہیں ہے۔ آپ وہ الفاظ کوٹ کریں جن سے آپ نبی کریمﷺ کے براہ راست سننے کو ثابت کر رہے ہیں، اس پر مزید بات تب ہوجائے گی۔ اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی باقی رہا اللہ کی طرح دیکھنا سننا یا علم رکھنا تو کوئی بدبخت ہی ہو گا جو اس طرح کا عقیدہ رکھتا ہو۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگوں کے نزدیک اللہ کے دیکھنے، سننے اور علم میں اور رسول کریمﷺ کے دیکھنے سننے اور علم میں کیا فرق ہے؟؟؟ اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی میں نے تو کسی پیر فقیر کا کوئی ریفرینس نہیں دیا۔ باقی رہا علم غیب کا مسئلہ تو وہ بھی ایک الگ ٹاپک ہے یہاں اس پر بات کرنا مناسب نہیں۔ باعث نفع و نقصان کے حوالے سے میری مثال کا کوئی جواب نہیں آیا۔ کیا مخلوق کسی کے لئے نفع و نقصان کا باعث نہیں بن سکتی؟ میں نے بھی یہاں علم غیب کے متعلق بات نہیں کرنا چاہتا، میں نے صرف مثال پیش کی تھی کہ کس طرح آپ لوگ اللہ کے ہر واضح اور صریح حکم میں تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لئے میں نے سوال بھی یہی کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی زبانی فرمایا کہ وہ ہمارے نفع ونقصان کے ذرہ برابر بھی مالک نہیں تو آپ کو باعث نفع ونقصان کی اصطلاح گھڑنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کیا اللہ پاک کے مباک کلام پر آپ کو اعتماد نہیں، کہ آپ دوٹوک طور پر اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی بجائے، نہ ماننے کے نت نئے حیلے بہانے ایجاد کر رہے ہیں۔ مصطفوی کا جواب جناب انس صاحب میرے بھائی! میں نے وہ لنکس دیکھے ہیں، مجھے ان میں نبی کریمﷺ کے بذاتِ خود درود سننے کی کوئی دلیل نہیں ملی۔ آپ ازراه كرم وہ الفاظ کوٹ کر دیں جن سے نبی کریمﷺ کا براہ راست سننا ثابت ہوتا ہو۔ اور ساتھ ساتھ اس حدیث کی صحّت وضعف بھی۔ حیرت کی بات ہے آپ کو ان لنکس میں کوئی دلیل نظر نہیں آئی۔ اگر مجھے امیج پیسٹ کرنے کا طریقہ بتا دیا جاتا تو بڑی آسانی ہو جاتی بہرحال میں وہ دلیل ٹائپ کر دیتا ہوں۔ جلا،الافھام میں علامہ ابن قیم نے حدیث نقل کی ہے "طبرانی نے بسند مزکور کہا کہ حضرت ابو دردا، سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو اس لئے کہ وہ یوم مشہود ہے اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں،کوئی بندہ درود نہیں پڑھتا مگر اس کیآواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے وہ جہاں بھی ہو۔ہم نے پوچھا حضور آپ کی وفات کے بعد بھی؟فرمایا ہاں میری وفات کے بعد بھی بےشک اللہ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیا، کے جسموں کو کھائے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا ہے کہ درود پڑھنے والے کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے۔اب اس زیادہ کیا واضح دلیل ہو۔باقی اس حدیث پر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو وہ آپ پیش کریں۔ کیونکہ قرآن کریم کے مطابق قبر میں موجود لوگ خود سننے کی صلاحت نہیں رکھتے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو معجزاتی طور پر سنانا چاہیں بھئی ہم کب کہتے ہیں کہ وہ خود سن لیتے ہیں اللہ ہی ان کو سنواتا ہے وہی طاقت عطا کرتا ہے۔میں نے اپنی پہلی پوسٹ میں جو حدیث کوٹ کی تھی اس میں بھی یہی ہے کہ "جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو۔۔۔۔۔' بھائی! مرنے کے بعد قبر میں انبیائے کرام﷩ کی برزخی زندگی کا تو میں بھی قائل ہوں، اور قبر میں نماز پڑھنے کا بھی۔ لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے شہداء کے متعلق فرمایا: ﴿ بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ البتہ وہ اپنی قبروں میں دنیاوی زندگی کی طرح زندہ نہیں، دنیاوی اعتبار سے وہ فوت ہو چکے ہیں۔ ﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ٣٠ ﴾ ۔۔۔ سورة الزمر اپنی پوسٹ میں، میں نے یہی لکھا تھا، دوبارہ ملاحظہ کر لیں: ظاہری بات ہے بھائی فوت ہونے کے بعد سب عالم برزخ میں ہی جاتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی برزخی زندگی ہی حاصل ہے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ برزخی زندگی دنیاوی زندگی جیسی ہے بلکہ یوں کہہ لیں اس بھی بڑھ کر ہے۔ آپ قبر میں انبیا، کی نماز کے قائل اور یقینا رزق دیئے جانے کے قائل بھی ہوں گے تو صرف آپ کو ان کے سننے پر ہی کیوں اعتراض ہے؟ آپ نے شہدا، کی زندگی کی بات کی تو اللہ ان کے متعلق یہ بھی فرماتا ہے کہ ان کو مردہ مت کہو بلکہ یہ گمان بھی نہ کرو کہ وہ مردہ ہیں اس لئے جب وہ میت یا مردہ ہی نہیں تو ان پر وہ آیات چسپاں نہ کریں جو مردوں کے لئے ہیں۔ یہ تو بات ہوئی شہید کی زندگی کی تو نبی تو شہید سے افضل ہوتا ہے تو اس کی زندگی کا کیا کہنا۔ اسی لئے میں نے سوال بھی یہی کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی زبانی فرمایا کہ وہ ہمارے نفع ونقصان کے ذرہ برابر بھی مالک نہیں تو آپ کو باعث نفع ونقصان کی اصطلاح گھڑنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کیا اللہ پاک کے مباک کلام پر آپ کو اعتماد نہیں، کہ آپ دوٹوک طور پر اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی بجائے، نہ ماننے کے نت نئے حیلے بہانے ایجاد کر رہے ہیں۔ ہم کوئی تاویل نہیں کرتےہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں اللہ نہ چاہے تو وہ از خود کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن اس آیت یہ مفہوم لینا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قسم کا کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا اس کو ہم تسلیم نہیں کرتے۔ جاری ہےٓ
  16. اہل حدیث آپ کا دعویٰ یہ ہے: اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی اور اگر بالفرض کوئی اس عقیدے سے بھی پڑھتا ہے کہ اس کا سلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل آپ نے ابھی تک نہیں دی اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی دلیل تو ساتھ ہی دے دی تھی۔ بہرحال اصل موضوع پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔اعتراض صرف خود سننے یا نہ سننے کا ہے۔ نہ بھئی! یہ اتنی سیدھی سی بات نہیں ہے۔ بذاتِ خود سننے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ 11 ہجری میں فوت ہونے کے بعد، قبر مبارک میں دفن کیے جانے کے بعد بھی دنیاوی طور پر زندہ ہیں، نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرح ہر شے کو دیکھتے، سنتے اور اس کا علم رکھتے ہیں۔ جو ایک شرکیہ عقیدہ ہے۔ اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی اگر آپ سنتے نہیں جو جواب کس سلام کا دیتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرما رہے ہیں کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کے میں اس سلام کا جواب دیتا ہوں اور آپ اس میں ھڑیکیں نکال رہے ہیں۔ آپ کا دعویٰ نبی کریمﷺ کے خود سننے کا ہے، اس کی دلیل پیش کریں! اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود سماعت فرمانے کی ایک دلیل http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878747.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878763.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878798.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878812.jpg آپ کا دعویٰ نبی کریمﷺ کے خود سننے کا ہے، اس کی دلیل پیش کریں! اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی بلا تشبیہ و مثال عرض ہے کہ جیسے سانپ کسی کو کاٹے تو اس کا زہر نقصان پہنچاتا ہے لیکن سانپ یا زہر اللہ کے حکم سے نقصان پہنچاتے ہیں وہ بذات خود نقصان نہیں پہنچا سکتے اس ہم کہہ سکتے ہیں سانپ یا زہر مالک نقصان نہیں بلکہ باعث نقصان ہیں۔ آپ لوگوں کے نزدیک حجت وہی ہے جو آپ کے پیروں فقیروں نے کہہ دیا۔ اب اگر کتاب وسنت میں اس کے خلاف کوئی بات آئے تو اس کی تاویل کرنا آپ لوگوں کا فرض منصبی ہے۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں! قرآن کہتا ہے کہ نبی کریمﷺ غیب نہیں جانتے، آپ لوگوں نے ذاتی علم غیب اور عطائی علم غیب کی تاویل ایجاد کر لی۔ قرآن کہتا ہے کہ نبی کریمﷺ نفع نقصان کے مالک نہیں، آپ لوگوں نے باعث نفع ونقصان کی اصطلاح اختراع کرلی۔ بھائی! کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آپ لوگ قرآن وسنت کو سیدھا سیدھا تسلیم کیوں نہیں کر لیتے؟؟؟ فرمان باری ہے: ﴿ قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّ‌ا وَلَا رَ‌شَدًا ٢١ ﴾ ۔۔۔ سورة الجن اب اس کے بعد آپ کو باعث نفع ونقصان کی اصطلاح ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟؟! ایک اور اہل حدیث شز صاحبہ نے بھی جواب دیا تھا جو درج ذیل ہے مصطفوی صاحب اپ نے کہا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود اور سلام کا طریقہ یہ سکھایا کہ درود نماز والا پڑہنا چایئے اور سلام السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ۔اور اس کا مطلب اے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔ لصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کا بھی یہی مطلب ہے کہ اے اللہ کے رسول آپ پر درود و سلام ہو۔ اگر آپ اس صیغے سے سلام نہ بھی پڑھنا چاہیں تو پھر بھی آپ کو سلام السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ و رحمتہ اللہ کے صیغے سے ہی پڑھنا ہو گا۔ جب الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ اور السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کا مفہوم ایک ہی ہے تو ان دونوں کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ,تو جناب السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ میں بھی خطاب ہی ہے kia Deen mai ab hmari marzi chalegi k jis k dil mai jo aye wo is mai ijad kr le, or ibadaat ka naem ul badal nikal le, jis ksi ki bat ko bhi man kr ap logon ne deen mai is bida,at ko ijad kia hai dekh lijye Allah kia frma rha hai un k baray mai۔ (لوگو) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو (اور) تم کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو سورة الأعراف3 مصطفوی کا جواب محترم انس صاحب! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود سننے کی دلیل کے طور پر میں نے چند لنکس منسلک کئے تھے آپ نے غالبا ان کو ملاحظہ ہی نہیں کیا میں یہاں ان کا ڈائریکٹ امیج پیسٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں،نہ ہو سکا تو پلیز گائیڈ کر دیں۔ نہ بھئی! یہ اتنی سیدھی سی بات نہیں ہے۔ بذاتِ خود سننے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ 11 ہجری میں فوت ہونے کے بعد، قبر مبارک میں دفن کیے جانے کے بعد بھی دنیاوی طور پر زندہ ہیں، نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرح ہر شے کو دیکھتے، سنتے اور اس کا علم رکھتے ہیں۔ جو ایک شرکیہ عقیدہ ہے۔ آپ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی ریاض الصالحین پر شرع ملاحظہ فرمائیں درود شریف کے باب کی ۔ اس میں حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کیا ہے صرف حیات کی کیفیت پر اختلاف کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہل حدیث علما کے اقرار موجود ہیں۔ بہرحال حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک الگ موضوع ہے اس پر کسی اور تھریڈ میں بات کریں گے۔انشا،اللہ۔آپ صرف سننے کی بات کرتے ہیں انبیا، تو قبور میں نماز بھی پڑھتے ہیں۔ چلیں بالفرض آپ کی بات درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سلام نہیں سنتے لیکن یہ بات تو آپ غالبا تسلیم کرتے ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک سلام پہنچا دیا جاتا ہے اور وہ جواب دیتے ہیں۔اب سلام اسے ہی پہنچایا جاتا ہے اور جواب وہی دے سکتا ہے جو زندہ ہو۔ باقی رہا اللہ کی طرح دیکھنا سننا یا علم رکھنا تو کوئی بدبخت ہی ہو گا جو اس طرح کا عقیدہ رکھتا ہو۔ آپ لوگوں کے نزدیک حجت وہی ہے جو آپ کے پیروں فقیروں نے کہہ دیا۔ اب اگر کتاب وسنت میں اس کے خلاف کوئی بات آئے تو اس کی تاویل کرنا آپ لوگوں کا فرض منصبی ہے۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں! قرآن کہتا ہے کہ نبی کریمﷺ غیب نہیں جانتے، آپ لوگوں نے ذاتی علم غیب اور عطائی علم غیب کی تاویل ایجاد کر لی۔ قرآن کہتا ہے کہ نبی کریمﷺ نفع نقصان کے مالک نہیں، آپ لوگوں نے باعث نفع ونقصان کی اصطلاح اختراع کرلی۔ بھائی! کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آپ لوگ قرآن وسنت کو سیدھا سیدھا تسلیم کیوں نہیں کر لیتے؟؟؟ فرمان باری ہے: ﴿ قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّ‌ا وَلَا رَ‌شَدًا ٢١ ﴾ ۔۔۔ سورة الجن اب اس کے بعد آپ کو باعث نفع ونقصان کی اصطلاح ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟؟!! میں نے تو کسی پیر فقیر کا کوئی ریفرینس نہیں دیا۔ باقی رہا علم غیب کا مسئلہ تو وہ بھی ایک الگ ٹاپک ہے یہاں اس پر بات کرنا مناسب نہیں۔ باعث نفع و نقصان کے حوالے سے میری مثال کا کوئی جواب نہیں آیا۔ کیا مخلوق کسی کے لئے نفع و نقصان کا باعث نہیں بن سکتی؟ شز صاحبہ کی پوسٹ کا جواب kia Deen mai ab hmari marzi chalegi k jis k dil mai jo aye wo is mai ijad kr le, or ibadaat ka naem ul badal nikal le, jis ksi ki bat ko bhi man kr ap logon ne deen mai is bida,at ko ijad kia hai dekh lijye Allah kia frma rha hai un k baray mai۔ میرے تو کسی پوائنٹ کا آپ نے جواب نہیں دیا۔ بہرحال میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت کے مطابق ہی سلام پڑھتی ہوں گی یعنی السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ و رحمتہ اللہ و برکتہ اے نبی آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔ اور یاد رکھیے آیت درود میں سلام کی کثرت کا مفہوم ہے اور آپ چونکہ ہم سے زیادہ متبع سنت ہیں اس لئے آپ کثرت سے پڑھا کریں السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ و رحمتہ اللہ و برکتہ اے نبی آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔ٓ
  17. اہل حدیث اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی اور اگر بالفرض کوئی اس عقیدے سے بھی پڑھتا ہے کہ اس کا سلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل؟؟؟ اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یا متوجہ کر دیتا ہے جہاں تک کے میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ریاض الصالحین میں اس حدیث کا حوالہ ہے۔ اس میں سننے کا ذکر کہاں موجود ہے؟ نبی کریمﷺ کا خود سننا ثابت کریں! اگر ایک وقت میں لاکھوں لوگ نبی کریمﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو کیا نبی کریمﷺ بذاتِ خود سنتے ہیں؟؟؟ اس کی دلیل؟؟؟ میرے بھائی! یہ تو اللہ ربّ العٰلمین کی صفت ہے اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی مالک نفع و نقصان ہونا اور بات ہے اور باعث نفع و نقصان ہونا اور بات ہے اور یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مالک نفع و نقصان کا انکار ہے ۔ " جتنا اللہ کو منظور ہو" کے الفاظ بھی قابل غور ہیں اس پر بھی غور کیجئے گا۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ رشوت ناجائز ہے، البتہ تحفہ جائز ہے (اور ہم نے رشوت کا نام تحفہ رکھ لیا ہے۔) مالک نفع ونقصان اور باعث نفع ونقصان میں کیا فرق ہے؟؟؟ مصطفوی اور اگر بالفرض کوئی اس عقیدے سے بھی پڑھتا ہے کہ اس کا سلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل؟؟؟ دلیل تو ساتھ ہی دے دی تھی۔ بہرحال اصل موضوع پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔اعتراض صرف خود سننے یا نہ سننے کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یا متوجہ کر دیتا ہے جہاں تک کے میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ریاض الصالحین میں اس حدیث کا حوالہ ہے۔ اس میں سننے کا ذکر کہاں موجود ہے؟ نبی کریمﷺ کا خود سننا ثابت کریں! اگر آپ سنتے نہیں جو جواب کس سلام کا دیتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرما رہے ہیں کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کے میں اس سلام کا جواب دیتا ہوں اور آپ اس میں ھڑیکیں نکال رہے ہیں۔ اگر ایک وقت میں لاکھوں لوگ مختلف زبانوں میں نبی کریمﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو کیا نبی کریمﷺ بذاتِ خود سنتے ہیں؟؟؟ اس کی دلیل؟؟؟ میرے بھائی! یہ تو اللہ ربّ العٰلمین کی صفت ہے۔بھائی ہمیں جتنی بات بتائی گئی ہے ہمارا اس پر ایمان ہے اب آپ اتنے لوگوں کا سلام کیسے سنتے ہیں ہمیں اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہم اس تفصیل میں جا سکتے ہیں مالک نفع ونقصان اور باعث نفع ونقصان میں کیا فرق ہے بلا تشبیہ و مثال عرض ہے کہ جیسے سانپ کسی کو کاٹے تو اس کا زہر نقصان پہنچاتا ہے لیکن سانپ یا زہر اللہ کے حکم سے نقصان پہنچاتے ہیں وہ بذات خود نقصان نہیں پہنچا سکتے اس ہم کہہ سکتے ہیں سانپ یا زہر مالک نقصان نہیں بلکہ باعث نقصان ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود سماعت فرمانے کی ایک دلیل http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878747.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878763.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878798.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878812.jpg
  18. پوسٹ ریپیٹ ہو گئی تھی ڈیلیٹ کر دی ہے۔ سرخ رنگ کی تحریر اہل حدیث کی ہے
  19. ایک اہل حدیث فورم پر ایک اہل حدیث نے یہ ٹاپک شروع کیا تھا کہ اصلواہ واسلام علیک یا رسول اللہ پکارنا غلط ہے اس پر میری اہل حدیث حضرات سے جو گفتگو ہوئی وہ پیش خدمت ہے۔ اہل حدیث اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔ سورة الأحزاب 56 اس آیت میں ﻧﺒﯽ ﻛﺮﯾﻢ ﻛﮯ ﺍﺱ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻭ ﻣﻨﺰﻟﺖ ﰷ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣ﯆ ﺍﻋﻠﲐ ( ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ) ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﹲ ﻛﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﯾﮧ ﻛﮧ ﺍﹴ ﺗﺒﺎﺭﻙ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﹲ ﻛﯽ ﺛﻨﺎﻭ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻛﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﹲ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺘﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﹲ ﻛﯽ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﺩﺭﺟﺎﺕ ﻛﯽ ﺩﻋﺎ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻧﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﺳﻔﻠﯽ ( ﺍﮨﻞ ﺯﻣﯿﻦ ) ﻛﻮ ﺣﻜﻢ ﺩﯾﺎ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﹲ ﭘﺮ ﺻﻠﻮٰﺉ ﻭﺳﻼﻡ ﺑﮭﯿﺠﯿﮟ ﺗﺎﻛﮧ ﺁﭖ ﹲ ﻛﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻮﯼ ﺍﻭﺭﺳﻔﻠﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﺘﺤﺪ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ, ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻛﺮﺍﻡ ﺄ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﻛﯿﺎ, ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﹴ ! ﺳﻼﻡ ﰷ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻟﺘﺤﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ! ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﮨﻢ ﺩﺭﻭﺩ ﻛﺲ ﻃﺮﺡ ﭘﮍﮬﯿﮟ ؟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺁﭖ ﹲ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺩ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻤﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﻮ ﻧﻤﺎﺯﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﻭﺩ ﻛﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺻﯿﻐﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ, ﺟﻮ ﭘﮍﮬﮯ ﺟﺎﺳﻜﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻧﯿﺰ ﻣﺨﺘﺼﺮﺍﹰ ﺻﻠﯽ ﺍﹴ ﻋﻠﯽٰ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﹴ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺳﻜﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ! ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﻛﺮﯾﻢ ﹲ ﺳﮯ ﺧﻄﺎﺏ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺻﯿﻐﮧ ﻧﺒﯽ ﻛﺮﯾﻢ ﺳﮯ ﻋﺎﻡ ﺩﺭﻭﺩ ﻛﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ! ﭼﻮﻧﻜﮧ ﺁﭖ ﹲ ﺳﮯ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻛﻮﺋﯽ ﻗﺒﺎﺣﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺮﺁﮞ ﺍﺱ ﰷ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺱ ﻓﺎﺳﺪ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺁﭖ ﹲ ﺍﺳﮯ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻓﺎﺳﺪﮦ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﻛﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﺳﮯ ﻣﺬﻛﻮﺭﮦ ﺧﺎﻧﮧ ﺳﺎﺯ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻏﯿﺮ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺫﺍﻥ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺍﺳﮯ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﺪﻋﺖ ﮨﮯ, ﺟﻮ ﺛﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ, ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ ۔ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﻭﺩ ﻛﯽ ﺑﮍﯼ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﮯ۔ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﰷ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺳﻨﺖ ؟ ﺟﻤﮩﻮﺭ ﻋﻠﻤﺎ ﺍﺳﮯ ﺳﻨﺖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻋﻠﻤﺎ ﻭﺍﺟﺐ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻭﺟﻮﺏ ﮨﯽ ﻛﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺁﺧﺮﯼ ﺗﺸﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ, ﭘﮩﻠﮯ ﺗﺸﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻛﯽ ﻭﮨﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﻛﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺗﺸﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﻛﺴﯽ ﻧﻔﻊ ﰷ ﺍﻭﺭ ﻛﺴﯽ ﺿﺮﺭ ﰷ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺭﻛﮭﺘﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺟﺘﻨﺎ ﺍﹴ ﻛﻮ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮ ۔ ﮨﺮ ﺍﻣﺖ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﻚ ﻣﻌﯿﻦ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﻥ ﰷ ﻭﮦ ﻣﻌﯿﻦ ﻭﻗﺖ ﺁﭘﮩﻨﭽﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﻚ ﮔﮭﮍﯼ ﻧﮧ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭧ ﺳﻜﺘﮯﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺁﮔﮯ ﺳﺮﻙ ﺳﻜﺘﮯ ﮨﯿﮟ سوره یونس ٤٩ ﯾﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﮨﻢ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺟﺐ ﺍﻓﻀﻞ ﺍﻟﺨﻼﺋﻖ, ﺳﯿﺪ ﺍﻟﺮﺳﻞ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪﺭﺳﻮﻝ ﺍﹴ ﹲ ﺗﻚ ﻛﺴﯽ ﻛﻮ ﻧﻔﻊ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ, ﺗﻮ ﺁﭖ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻛﻮﻥ ﺳﯽ ﮨﺴﺘﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮﺳﻜﺘﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻛﺴﯽ ﻛﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﺑﺮﺁﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﲁ ﻛﺸﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﮨﻮ ؟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺧﻮﺩ ﺍﹴ ﻛﮯ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻣﺎﻧﮕﻨﺎ, ﺍﻥ ﺳﮯ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﻛﺮﻧﺎ, ﹾﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﹴ ﻣﺪﺩﹿ ﺍﻭﺭ ﹾأغثني يا رسول الله ﹿ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻐﺎﺛﮧ ﻭﺍﺳﺘﻌﺎﻧﺖ ﻛﺮﻧﺎ, ﻛﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻛﯿﻮﻧﻜﮧ ﯾﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﯽ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﻛﯽ ﺩﯾﮕﺮ ﻭﺍﺿﺢ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﻛﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﮯ ﺑﻠﻜﮧ ﯾﮧ ﺷﺮﻙ ﻛﯽ ﺫﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا ۔ مصطفوی آپ نے ایک وقت میں ایک سے زائد موضوعات شروع کر دیئے ہیں۔بہرحال باری باری بہ توفیق الہی جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ١: اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ آپ نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے۔ ﺳﻼﻡ ﰷ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻟﺘﺤﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ! ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﮨﻢ ﺩﺭﻭﺩ ﻛﺲ ﻃﺮﺡ ﭘﮍﮬﯿﮟ ؟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺁﭖ ﹲ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺩ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻤﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﻮ ﻧﻤﺎﺯﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود اور سلام کا طریقہ یہ سکھایا کہ درود نماز والا پڑہنا چایئے اور سلام السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ۔اور اس کا مطلب اے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔ لصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کا بھی یہی مطلب ہے کہ اے اللہ کے رسول آپ پر درود و سلام ہو۔ اگر آپ اس صیغے سے سلام نہ بھی پڑھنا چاہیں تو پھر بھی آپ کو سلام السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ و رحمتہ اللہ کے صیغے سے ہی پڑھنا ہو گا۔ جب الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ اور السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کا مفہوم ایک ہی ہے تو ان دونوں کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ٢: ﺗﺎﮨﻢ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ! ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﻛﺮﯾﻢ ﹲ ﺳﮯ ﺧﻄﺎﺏ ﮨﮯ تو جناب السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ میں بھی خطاب ہی ہے۔ ٣: ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺮﺁﮞ ﺍﺱ ﰷ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺱ ﻓﺎﺳﺪ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺁﭖ ﹲ ﺍﺳﮯ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ضروری نہیں کہ ہر کوئی اس عقیدے سے ہی پڑھتا ہو۔ ہو سکتا ہے کوئی اس عقیدے سے پڑھتا ہو کہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس کا سلام پہنچا دیتے ہیں۔ اور اس حوالے سے ایک حدیث بھی ہے جس کا مفہوم ہے اللہ نے کچھ فرشتے زمین پر مقرر کر رکھے ہیں جو میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔ اور اگر بالفرض کوئی اس عقیدے سے بھی پڑھتا ہے کہ اس کا سلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یا متوجہ کر دیتا ہے جہاں تک کے میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ریاض الصالحین میں اس حدیث کا حوالہ ہے۔ ٤: ﺁﭖ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﻛﺴﯽ ﻧﻔﻊ ﰷ ﺍﻭﺭ ﻛﺴﯽ ﺿﺮﺭ ﰷ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺭﻛﮭﺘﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺟﺘﻨﺎ ﺍﹴ ﻛﻮﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮ مالک نفع و نقصان ہونا اور بات ہے اور باعث نفع و نقصان ہونا اور بات ہے اور یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مالک نفع و نقصان کا انکار ہے ۔ " جتنا اللہ کو منظور ہو" کے الفاظ بھی قابل غور ہیں اس پر بھی غور کیجئے گا
  20. محترم برہان صاحب یور پوسٹ نمبر 14 اخصارا اپ کے سوالات کا جواب پیش خدمت ہے۔ میں کوئی مزہبی سکالر یا مفتی نہیں ہوں کہ ہر بات پر حکم شرعی بیان کر سکوں بلکہ ایک انتہائی ادنی سا طفل مکتب ہوں اور سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوں۔ میں نماز ہر مکتبہ فکر کی مسجد میں پڑھ لیتا ہوں جمعہ بریلوی امام کے پیچھے پڑھتا ہوں متنازعہ عبارات کے بارے میں شدید تحفظات رکھتا ہوں لیکن اس حوالے سے کسی پر کفر ثابت ہوتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ سب سے زیادہ گند اسمعیل دھلوی صاحب کا پھیلایا ہوا ہے مگر مولانا احمد رضا خان صاحب بھی ان کو کافر نہیں کہتے گو کسی کو کہنے سے نہیں روکتے۔ بریلویوں کے بارے میں بھی میں کوئی فتوی نہیں دے سکتا لیکن ان کے عقائد و اعمال سے بھی مطمئن نہیں ہوں جن مسائل میں وہ غلو کرتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں علم غیب ، حاضر ناظر، مختار کل ، نور و بشر
  21. جناب توحیدی بھائی اپ کی پوسٹ نمبر23 میں نے اپ کی اس پوسٹ پر اپنی رائے اپنی پوسٹ نمبر 11 اور 21 میں پیش کر دی تھی ۔ اپ نے ان پوسٹس کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔
  22. جی مجھے اپ سے کسی جواب کی توقع ہے بھی نہیں کیونکہ پہلے بھی اپ نےکسی ایک نکتہ کا بھی جواب نہیں دیا اپ صرف نصحیتیں کر سکتے ہیں جن پر اپ خود بھی عمل نہیں کرتے۔دوسروں کو نہ مانوں کی تسبیح کا طعنہ دیتے ہیں اور خود نہ مانوں کے وظیفے میں مصروف رہتے ہیں۔ اپ نے دو حدیثیں پیش کر کے ثابت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بدعتیوں کو پہچانتے ہیں۔ تو محترم زیر بحث مسئلہ یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پہچانتے ہیں یا نہیں یا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے ہیں یا نہیں ۔ مسئلہ زیر بحث یہ ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ایجاد کردہ بدعات کا علم ہے کہ نہیں تو جناب اسی حدیث میں اس کا جواب موجود ہے ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ Then it will be said, 'You do not know what they innovated (new things) in the religion after you."
  23. اصل میں دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کے حوالے سے اپ لوگ بہتر کام کر رہے ہیں اس لئے اپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان لوگوں کے حوالے سے جو تھریڈ اپ لوگوں نے بنائے ہیں اس میں نے کبھی ان کو ڈیفینڈ نہیں کیا۔ میری ان مسلکانہ فورمز پر امد ابھی تھوڑا عرصہ پہلے ہی ہوئی ہے بہرحال ایک اہل حدیث فورم پر صلوات وسلام کے حوالے سے ڈسکشن ہوئی تھی اگر اپ کہیں گے تو اسے اس فورم میں پیش کر دوں گا۔ اس کے علاوہ میں کوشش کروں گا کہ ان کے حوالے سے کوئی تھریڈ پیش کر سکوں۔ جناب عرض اے کہ جنہاں مطالعہ میں اہناں دیاں کتاباں دا کیتا اے اگر میں اہناں دیاں کتاباں تو مطمئن ہوندا تے اہناں دا مسلک ہی اختیار نہ کر لیندا؟
  24. جناب محمد علی صاحب مجھے اپ سے اس خلاف تہزیب اور عامیانہ طرز گفتگو کی امید نہیں تھی۔ میں نے اما شعرت کے حوالے سے امام بدرالدین عینی اور امام نووی کی رائے پیش کی تھی اور اپ اس کو چول بات قرار دے رہے ہیں اور فہم و فراست سے ان کو عاری قرار دے رہے ہیں۔ پھر میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ کہ اگر مسلم شریف میں اما شعرت کے الفاظ ائے ہیں تو اسی راوی کے بخاری شریف میں ھل شعرت کے الفاظ بھی ائے ہیں جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اما شعرت کے الفاظ کن معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ باقی تفصیل میں نے اپنی پوسٹ 11 میں بیان کر دی تھی یہ حدیث بہت سے صحابہ سے مروی ہے اور زیادہ تر صحابہ نے انک لا تدری کے الفاظ نقل کئے ہیں اور انک لا علم لک کے الفاظ بھی ائے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک بھی صحابی سے ہمزہ استفہام کے ساتھ یہ روایت نہیں اتی۔ اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان روایات سے یہی بات سامنے اتی ہے کہ انک لا تدری وغیرہ کے الفاظ سے جواب اللہ کریم خود دیں گے اور ایک ادھ روایت میں جو فرشتے کے کی طرف سے جواب کا ذکر ہے تو ممکن ہے کہ یہ جواب کبھی بلا واسطہ اور کبھی بواسطہ فرشتہ ہو۔ حوض کوثر کی یہ روایت مختلف اسانید اور متعدد طرق سے الفاظ کے تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ تقریبا تیس سے زائد صحابہ سے مروی ہے اور امام بیقہی اور قاضی عیاض کے نزدیک یہ حدیث متواتر ہے اس متواتر حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ بعد از وصال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام واقعات کا تفصیلی اور محیط علم نہیں ہے اور نہ ہی اپ ہر لمحہ و ہر ان ہر جگہ حاضر ناظر ہیں۔ اور توحیدی بھائی نے پوسٹ نمبر 18 میں جو حدیث پیش کی ہے میں اسے تسلیم کرتا ہوں۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ناظر نہیں بلکہ ان پر ان کی امت کے نیک اور بد اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ اور یہ اعمال بھی اجمالی طور پیش کئے جاتے ہیں اور بالفرض اگر یہ اعمال تفصیلی بھی ہوں تو صرف مسلمانوں کے اعمال پیش کئےجاتے ہیں ، کفار و مشرکین وغیرہ کے اعمال پیش نہیں کئے جاتے کیونکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہی گناہ پیش کئے جاتے ہیں جن کی مغفرت ہو سکتی ہے اور کفر و شرک اور ارتداد اور نفاق ایسے گناہ نہیں جو قابل مغفرت ہوں۔ اور بدعتیوں اور مرتدین وغیرہ کے اعمال بھی انک لا تدری کے تحت پیش نہیں کئے جاتے۔
  25. جناب ٹایگر صاحب یہاں اس لئے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ میں نے برہان صاحب کو دوسرے تھریڈ میں اس حوالے سے جواب دے دیا تھا کہ تھانوی صاحب کی ان اشعار کے حوالے سے توجیہ انتہائی نامعقول ہے۔
×
×
  • Create New...