Jump to content

Mustafvi

Under Observation
  • کل پوسٹس

    196
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

سب کچھ Mustafvi نے پوسٹ کیا

  1. جناب لفظ اس سے مراد تو دھلوی صاحب ہی ہیں۔ باقی تفصیلات تو کوئی مفتی صاحب ہی بتا سکتے ہیں اس لئے میں نے لفظ اگر استعمال کیا تھا۔
  2. اپ نے ان اکابر کی عبارات سے جو نتیجہ اخز کرنے کوشش کی ہے اگر تو واقعی ان کا مطلب بھی یہی ہے تو یہ بات بالکل ناقابل قبول ہے کیونکہ سورہ نحل ایت 77 میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے غیب اسمانوں اور زمین کا۔ اور اپ نے علامہ الوسی کی عبارت پیش کی تھی تو ان کا عقیدہ تو یہ جو انھوں نے اس ایت کی تفسیر میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں یہ علم خاص اللہ کے ساتھ ہے اور اس کے سوا کسی ایک کے لئے بھی نہیں ہے نہ استقلا اور نہ اشراکا۔ { وَللَّهِ } تعالى خاصة لا لأحد غيره استقلالاً ولا اشتراكا { غَيْبَ ٱلسَّمَـٰوَاتِ وَٱلأَرْضِ } أي جميع الأمور الغائبة عن علوم المخلوقين بحيث لا سبيل لهم إلى إدراكها حساً ولا إلى فهمها عقلاً، ومعنى الإضافة إليهما التعلق بهما إما باعتبار الوقوع فيهما حالاً أو مآلاً وإما باعتبار الغيبة عن أهلهما، ولا حاجة إلى تقدير هذا المضاف، والمراد بيان الاختصاص به تعالى من حيث المعلومية حسبما ينبىء عنه عنوان الغيبة لا من حيث المخلوقية والمملوكية وإن كان الأمر كذلك في نفس الأمر، وفيه ـ كما في " إرشاد العقل السليم " ـ إشعار بأن علمه تعالى حضوري فإن تحقق الغيوب في نفسها [علم] بالنسبة إليه سبحانه وتعالى ولذلك لم يقل تعالى: ولله علم غيب السمٰوات والأرض، وقيل: المراد بغيب السمٰوات والأرض ما في قوله سبحانه:
  3. عرفان خان یور پوسٹ نمبر 17 بھائی میں کب اور کس بات سے بھاگ رہا ہوں؟ اتفاق سے میں یہ تھریڈ چیک ہی نہیں کر سکا۔ اور اپ نے حضرت عمر رضی کی کرامت لکھی ہے تو جناب کرامت تو اللہ کا فعل ہوتی ہے۔ اگر حضرت عمر رضی کو مستقل یہ صلاحیت حاصل ہوتی کہ اپ اپنے پیغامات دوردراز علاقوں تک پہنچا سکتے اور وہاں سے وصول کر سکتے تو نظام مواصلات کا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ @ ya Mohammadaho ur post # 18 جناب ذرا وضاحت فر ما دیں کہ میری عبارت میں کونسی خالص کفر والی بات ہے؟ اور میری عبارت کا فرعون کے قول سے کیا مناسبت ہے؟ @ usman hussaini ur post # 14 اپ نے جو حدیث قدسی پیش کی ہے اس پر یا علی مدد کہنا والے تھریڈ میں کافی بحث ہو چکی ہے۔ @ Ghulamr ahmad ur post # 20 اگر دھلوی صاحب کے بیان کردہ جملے "مرنے کے بعد سب مٹّی میں مل جاتے ہیں" پر شرعا لعنت کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں تو میں اس پر لعنت بھیجتا ہوں۔
  4. @ saeedi bhai یعنی سلف صالحین اس مختار کل کی اصطلاح سے واقف نہیں تھے۔ برائے مہربانی اس حوالے سے بھی راہنمائی فرما دیں کہ خلیفتہ اللہ کی تعبیر مختار کل کے حوالے سے کرنے کا قدیم ترین ماخذ کیا ہے؟
  5. میرے اس تھریڈ کا مقصد صرف اس بات کی وضاحت کرنا تھا اور اس غلط فہمی کو دور کرنا تھا کہ مشرکین صرف بتون کی عبادت کرتے تھے مشرکین بتوں کے علاوہ انبیا، ملائکہ،صالحین اور جنات وغیرہ کی بھی عبادت کرتے تھے۔ یا تو برائے راست ان کی عبادت کرتے تھے جس طرح عیسائی عیسی علیہ السلام کی کرتے ہیں یا ان کے بت بنا کر بتوں کے ذریعے ان کی عبادت کرتے تھے یعنی بت بمنزلہ قبلہ توجہ کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ یاد رہے کہ دنیا میں جتنے بھی بت بنائے گئے ہیں وہ کسی نہ کسی شخصیت کے نام پر بنائے گئے ہیں اور اصل عبادت ان بتوں کی نہیں بلکہ اس کی ہوتی ہے جن کے نام پر بت بنائے گئے ہیں۔ اج بھی بھارت میں جتنے بت پرست ہیں وہ برائے راست بتوں کی نہیں بلکہ ان ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں جن کے نام پر وہ بت بنائے گئے ہیں۔
  6. توحیدی بھائی۔ برائے مہربانی اس حوالے سے راہنمائی فرما دیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مختار کل کی اصتلاح کا قدیم ترین ماخز کیا ہے؟
  7. اپ نے لکھا کہ بندہ جب اللہ تعالی کی صفت سمع و بصر کا مظہر ہو جائے تو وہ ہر چیز سنتا ہے اور ہر چیز سنتا ہے الاماشا،اللہ۔۔۔۔۔۔ تو عرض ہے کہ ہر ہر چیز کی اواز سننا اور دیکھنا صرف اللہ کریم کی ہی شان ہے اور زنین و اسمان کے ذرہ ذرہ کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ دوسری بات یہ کہ کہ پہلے اپ نے ہر چیز سننے دیکھنے کا اثبات کیا اور پھر الاماشا،اللہ سے نفی کا بیان کیا حالانکہ قران کی رو سے پہلے اپ کو نفی کرنی چاہیئے تھی اور پھر اثبات جیسا کہ فرمان الہی ہے ولا یحیطون بشئ من علمہ الا بما شا
  8. @ usman.hussani your post # 6 اگر تو اپ کا خیال یہ ہے کہ عیسائی عیسی علیہ السلام کی نہیں بلکہ ان کے بت کی پوجا کرتے ہیں تو اپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ قران نے صاف بتایا ہے کہ عیسائی عیسی علیہ اسلام کی عبادت کرتے ہیں جیسا کہ مختلف ایات سے ظاہر ہے مثلا اللہ عیسی علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مھجے اور میری ماں کو معبود بنا لو یا یہ ایت کہ انھوں نے علما اور درویشوں کے ساتھ عیسی کو بھی رب بنا لیا یا یہ ایت کہ انھوں نے کہا کہ عیسی ہی اللہ ہے۔ دوسرا یہ کہ اپ اج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ عیسائی عیسی علیہ کے بت کی نہیں بلکہ خود عیسی کی عبادت کرتے ہیں۔ صرف کیتھولک چرچ میں عیسی علیہ السلام کی مورتی ہوتی ہے وہ بھی عبادت کے لئے نہیں۔ اور پروٹیسٹنٹ تو اپنے چرچ میں کوئی بت رکھتے ہی نہیں۔ اور اسی طرح یہودی تو بت پرستی کرتے ہی نہیں۔
  9. میں نے امام رازی رح کی شرح کو جو غیر اسلامی کہا تھا وہ دوبارہ ملاحظہ فرما لیں تاکہ اپ دیکھ سکیں کہ وہ کس معنوں میں ہے۔
  10. ما شا،اللہ کیا زبردست جواب دیا ہے۔ بھائی میرے اس حدیث کا میرے موضوع سے کیا تعلق بنتا ہے؟ میں نے ایات قرانی ، حدیث اور مفسرین سے صرف یہ بتایا ہے کہ مشرکین کن کن کی عبادت کرتے تھے میں نے تو مشرکین کی بات کی ہے نہ کہ کسی مسلمان کی اور نہ ہی میں نے ان ایات کو کسی پر چسپاں کیا ہے۔ پتہ نہیں اپ کے دل میں کیا چور ہے کہ اپ ان ایات کو اپنے بارے میں سمجھنے لگ کئے؟
  11. مشرک صرف بتوں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ بتوں کے ساتھ ساتھ انبیا، فرشتوں جنات اور مظاہر قدرت کی بھی عبادت کرتے تھے۔ اس کے دلائل ملاحظہ فرمایئں۔ فرشتوں کی عبادت: اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے فرمائے گا کیا یہ لوگ تم کو پوجا کرتے تھے 17:56 کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے 57 یہ لوگ جن کو (خدا کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (خدا کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بیشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے در منثور میں حضرت ابن عباس نے اور کنز الایمان کے حاشیہ میں نعیم الدین مراد ابادی نے کہا ہے کہ اس سے مراد حضرت عیسی،حضرت عزیر اور ملائکہ ہیں۔ کہہ دو کہ جن کو تم خدا کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔ وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ان میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے علامہ قرطبی نے من دون اللہ سے مراد فرشتے انبیبا، اور بت بیان کئے ہیں۔ انبیا، کی عبادت اس سے پہلے سورہ 17 ایات 56،57 اور سورہ34 ایت 22 میں بیان ہو چکا ہے کہ مشرکین انبیا، کی بھی عبادت کرتے تھے اب اس حوالے سے کچھ مزید دلائل ملاحظہ کریں۔ اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب خدا فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہوگا (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بیشک تو علاّم الغیوب ہے اور یہود کہتے ہیں کہ عُزیر خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے یہ بھی انہیں کی ریس کرنے میں لگے ہیں۔ خدا ان کو ہلاک کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا خدا بنا لیا حالانکہ اُن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے مسلم شریف میں کہ قیامت کے دن یہود کو بلایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ کس چیز کی عبادت کرتے تھے تو وہ کہیں گے ہم حضرت عزیر کی عبادت کرتے تھے جو اللہ کا بیٹا ہے تو ان سے کہا جائے گا تم جھوٹ کہتے ہو اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نی اولاد اور پھر عیسائیوں سے بھی اسی طرح کا مکالمہ ہو گا۔ بخاری سریف میں حضرت ابن عباس رضی فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو کعبہ میں داخل ہونے سے انکار کر دیا جب کہ اس میں معبودان باطلہ موبجود ہوں ۔ اپ نے حکم فرمایا تو وہ نکالے گئے۔ پھر انہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل کی صورت(مورتی) نکالی کہ مورتیوں کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ صالحین کی عبادت 53:19[ بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا بخاری شریف میں ابن عباس سے مروی ہے کہ لات ایک ادمی تھا جو حاجیوں کے کئےلئے ستو بنایا کرتا تھا۔ اسی طرح ہبل نامی بت بھی حضرت ہابیل کے نام پر بنا رکھا تھا۔ اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعقوب اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا بخاری شریف میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک ادمیوں کے نام ہیں۔ کواکب کی عبادت میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم خدا کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آئے جنات کی عبادت اور ان لوگوں نے جنوں کو خدا کا شریک ٹھہرایا۔ حالانکہ ان کو اسی نے پیدا کیا اور بیسمجھے (جھوٹ بہتان) اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بنا کھڑی کیں وہ ان باتوں سے جو اس کی نسبت بیان کرتے ہیں پاک ہے اور (اس کی شان ان سے) بلند ہے مشرک صرف بتوں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ بتوں کے ساتھ ساتھ انبیا.doc
  12. پکی قبر کے جواز کے دلائل تو معلوم نہیں لیکن قبروں کو پکا نہ بنانے کے چند دلائل حاضر خدمت ہیں۔ 1 صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےقبر کو پختہ کرنے اس پر پیھٹنے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع کیا ہے۔ اور ابن ماجہ میں ابو سعید رضی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر عمارت بنانے ان پر بیھٹنے اور نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ اور مسند احمد میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر عمارت بنانے یا اسے پختہ کرنے سے منع کیا ہے۔ 2 امام ابراہیم نخعی قبر پر علامت رکھنا اور لحد میں پکی اینٹ لگانا اور قبر کو پختہ کرنا مکروہ سمجھتے تھے۔ 3 امام محمد کتاب الاثار میں روایت کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ رح نے کہا ہمارے ایک استاد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک رفع کرتے ہوئے بیان کیا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چوکور کرنے اور ان کو پختہ کرنے سے منع کیا ہے۔ امام محمد نے کہا کہ اسی کو ہم لیتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رح کا بھی یہی قول ہے۔ 4 اس کے علاوہ درج ذیل فقہا احناف نے قبر کو پختہ نی کرنے کا فتوی دیا ہے۔ علامہ ابن الھمام علامہ عبداللہ بن احمد النفسی علامہ ابن نجیم المعروف ابو حنیفہ ثانی علامہ قاضی خان فتاوی عالمگیری علامہ علاوالدین الحصکفی علامہ عینی اس کے علاوہ بھی بہت سارے فقہا کا یہی فتوی ہے۔
  13. سعیدی صاحب ۔ بحوالہ پوسٹ نمبر106 پوائنٹ نمبر1 قران نے جس انداز سے یہ واقعہ بیان کیا ہے اس کے سیاق و سباق میں اپ کی یہ تاویل باطل ہے۔ پھر اپ کی عدم توجہ والی بات بھی عجیب ہے حالانکہ اپ کا عقیدہ ہے کہ کسی مادہ میں نطفہ قرار نہیں پاتا مگراس مرد کی نظر میں ہوتا ہے اور وہ اسے جانتا ہے۔ اور قران تو ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ حضرت مریم کے پاس رزق کہاں سے اور کب ایا۔ سورہ عمران ائت 37 پ 2 میں نےتوصرف سہو یا تحریف کا امکان ظاہر کیا تھا۔ اگر اپ کو اس کی صحت پر اصرار ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بہرحال امام شعرانی کی یہ بات غلط اور ناقبل قبول ہے کیونکہ ما فی الارحام کا تفصیلی علم صرف اللہ پاک کو ہے۔ سورہ 35 ایت 11 میں ارشاد ہے کہ کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی مگر اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے، اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی ہر عورت کے حاملہ ہونے کا علم ہوجائے تو پھر اللہ کے اس ارشاد کی کیا خصوصیت رہ جاتی ہے۔ پ3 عالمگیری کی عبارت کا مفاد بھی یہی ہے جب وہ حاضر ہی نہیں تو ان کو علم بھی نہیں اور جب علم نہیں تو گواہ کیسے بن سکتے ہیں۔ علامہ عبدالرشید الولوالجی متوفی540 لکھتے ہیں ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا مگر گواہ موجود نہ تھے،اس شخص نے عورت کو خطاب کرتے ہوئے کہا میں تیرے ساتھ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کرتا ہوں تو وہ شخص کافر ہو جائے گا اسلئے کہ اس نے اعتقاد کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہے کیونکہ جس کو علم نہ ہو وہ گواہ کیسے بن سکتا ہے؟ باقی اپ نے جو عربی عبارات لکھی ہیں پوسٹ 95 میں ان میں نہایت واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ اس لئے کفر نہیں کہ بعض اشیا، اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی جاتی ہیں یعنی ان فقہا کا بھی یہی عقیدہ ہے ہر ان اور ہر لمحے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر شے کا مشاہدہ نہیں کر رہے ہوتے ۔ جبکہ اچھروی صاحب اس کے برعکس کہتے ہیں۔ اس کو ایک اور زاویہ سے دیکھیں کہ جن فقہا نے تکفیر کی ہے اور جن فقہا نے عدم تکفیر کی ہے اس بنا پر کے شاید قائل کا عقیدہ یہ ہو کہ عرض اعمال کے تحت یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی گئی ہو اور اپ کو اس کا علم ہو گیا ہو تو دونوں صورتوں میں یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے یہ سب فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ اور ہر وقت حاضر و ناظر نہیں ہیں کیونکہ جنہوں تکفیر کی وہ اسی بنیاد پر کی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر نہیں سمجھتے اور جنہوں نے عدم تکفیر کی تو اسی بنیاد پر کی شاید قائل کا عقیدہ ہو یہ بات اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کردی جائے گی۔ پ4 میں نے فتاوی مظہری نہیں بلکہ فتاوی مسعودی کا حوالہ دیا تھا۔ پ5 یہ بات قابل غور ہے کہ صاحب انوار شریعت حاضر و ناظر کو کفر بھی کہہ رہے ہیں اور پھر اس کا اثبات بھی کرتے ہیں۔ تو عرض ہے کہ جس بات کو انھوں نے کفر کہا ہے وہ اس عقیدے کے ساتھ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر ان اور ہر لمحہ حاضر ناظر یا صاحب مشاہدہ ماننا جو کہ اچھروی صاحب کو عقیدہ ہے۔ اور جس بات کا وہ اثبات کرتے ہیں وہ عرض اعمال ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی مقام کا مشاہدہ کر لینا۔ اور پوسٹ نمبر 107 اپ نے کہا کہ اپ نے وہ نتیجہ نکالا ہی نہیں جو میں بیان کیا تھا تو عرض ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ اپ حضرت ابو بکر رضی کو مرد کامل تسلیم نہیں کرتے۔
  14. @ ya mohammadah ur post # 126 اپکی اس پوسٹ کا زیر بحث مسئلے سے کیا تعلق بنتا ہے؟ زیر بحث مسئلہ ہے فوت شدہ بزرگوں کو مدد کے لئے پکارنا۔ @ Ahlesunnat ur post # 127 اپ برائے مہربانی اس واقعہ کی سند بیان کر دیں۔
  15. اپ کی پوسٹ 101 اپ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی تو کیا اس یہ سے ثابت ہو رہا ہے اپ کو روئے زمین کی ہر حاملہ کے بارے میں علم تھا کہ اس کے بیٹ میں کیا ہے؟ شاہ ولی اللہ نے محلی بر موطا میں اور امام ابو الفتح ناصر نے مغرب ج1 میں حضرت ابو بکر کی اسی روایت کے حوالے سے لکھا ہے کہ اراھا کا مطلب ظن اور گمان ہے یعنی حضرت ابو بکر کا مطلب تھا کہ میرا ظن اور گمان ہے کہ لڑکی ہو گی۔ امام سیوطی نے تاریخ الخلفا میں ابن سعد کے حوالے سے اسی روایت میں حضرت ابو بکر کے یہ الفاظ بھی ذکر کئے ہیں کہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ وہ لڑکی ہو گی۔ دوسرا واقعہ بھی اسی قبیل سے ہے اور فراست سے متعلق ہے۔ اپ نے حضرت زکریا علیہ السلام کے حوالے سے جو تاویل کرنے کی کوشش کی ہے وہ نہایت ہی افسوسناک ہے اور اس کے مصداق ہے کہ خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں کنز الایمان کے حاشیہ میں نعیم الدین مراد ابادی لکھتے ہیں حضرت زکریا نے کلام نہ کر سکنے سے جان لیا کہ بیوی حاملہ ہو گئی ہے۔
  16. اپ کی پوسٹ نمبر 95 اپ نے لکھا کہ جی وہ جسمانیت کے لحاظ سے حاضر ناظر کہنے کی نفی کر رہے ہیں تو اس پر میں یہی عرض کروں گا کہ جو چاہے اپ کا حسن کرشمہ ساز کرے باقی اپ نے جو عربی عبارات لکھی ہیں ان میں نہایت واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ اس لئے کفر نہیں کہ بعض اشیا، اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی جاتی ہیں یعنی ان فقہا کا بھی یہی عقیدہ ہے ہر ان اور ہر لمحے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر شے کا مشاہدہ نہیں کر رہے ہوتے ۔ جبکہ اچھروی صاحب اس کے برعکس کہتے ہیں۔ اس کو ایک اور زاویہ سے دیکھیں کہ جن فقہا نے تکفیر کی ہے اور جن فقہا نے عدم تکفیر کی ہے اس بنا پر کے شاید قائل کا عقیدہ یہ ہو کہ عرض اعمال کے تحت یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی گئی ہو اور اپ کو اس کا علم ہو گیا ہو تو دونوں صورتوں میں یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے یہ سب فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ اور ہر وقت حاضر و ناظر نہیں ہیں کیونکہ جنہوں تکفیر کی وہ اسی بنیاد پر کی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر نہیں سمجھتے اور جنہوں نے عدم تکفیر کی تو اسی بنیاد پر کی شاید قائل کا عقیدہ ہو یہ بات اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کردی جائے گی۔
  17. اپ کی تقریبا تمام باتوں کا جواب پہلے ہی دیا جا چکا ہے لہزا ان کو دہرانا نامناسب ہے۔ باقی حدیث قدسی سب کے سامنے ہے اور اس کے حوالے سے بھی میں نے اظہار خیال کر دیا تھا اس پر تو کوئی جواب نہیں ایا۔ اور نہ ہی بتایا گیا ہے کہ اس پر کیا اعتراض ہے؟ اپ نے لکھا کہ مصطفوی صاحب نے غلام رسول سعیدی صاحب کی عبارت کے ذریعے مان لیا کہ یہ شرک و کفر نہیں۔ تو جناب اس پورے تھریڈ میں کسی بھی مقام پر میں نے اس کو شرک کہا ہی نہیں تو اب اس کو شرک تسلیم نہ کرنے کا کیا سوال؟ اخری بات کہ جواز بھول جاو اور اولی پر عمل کرو یہی تو مسئلہ ہے کہ ابھی تک فوت شدہ بزرگوں کو مدد کے لئے پکارنے کا کوئی جواز قران و حدیث سے سامنے ہی نہیں ایا۔ اور باقی سعیدی صاحب نے جو مثال دی ہے کہ حوض سے وضو ناجائز جاننے والے کی موجودگی میں حوض سے وضو اولی ہوتا ہے تو اس سے یہ بات سامنے ائی کہ جب اپ ان لوگوں کے سامنے ہوں جو فوت شدہ بزرگوں کو مدد کےلئے پکارنے کے قائل نہیں تو ان کے سامنے اللہ کو چھوڑ کر فوت شدہ بزرگوں کو پکار لیا کیجیئے اور باقی تمام اوقات میں صرف اللہ کریم کو پکارا کریں۔
  18. @ only for toheedi bahi @ toheedi bhai ur post # 91 اپ سے گزارش ہے کہ اپ امام شعرانی رح کی عبارت کو دیکھ لیں اور پھر اس کے بعد فتاوی عالمگیری، فتاوی مسعودی اور انوار شریعت کے حوالہ جات بھی ملاحظہ فرما کر خود فیصلہ کر لیں ۔ fatawa almigeery, fatawa masoodi aur anwaray shariat kay scan http://img27.imagesh...07/92285185.jpg http://img109.images...31/87181775.jpg[ http://img69.imagesh...38/59393486.jpg امام شعرانی رح سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی کتاب میں کوئی تحریف ہو گئی ہو بہرحال ان کی یہ عبارت غلط اور ناقبل قبول ہے۔ قران پاک میں سورہ مریم 19 کی ابتدائی ایات میں حضرت ذکریا علیہ السلام کا ذکر ہے کہ جب ان کو بڑھاپے میں بیٹے کی خوشخبری دی گئی تو وہ اپنی بیوی کے استقرار حمل کے لئے اللہ تعالی سے نشانی اور علامت طلب کرتے ہیں تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ کب حمل قرار پاتا ہے۔ اب پیغمبر سے بڑھ کر مرد کامل کون ہو گا؟
  19. ٓاصل موضوع یہ تھا کہ وفات شدہ بزرگوں سے مدد مانگنے کے دلائل ۔ اس حوالے سے حضرت ابن عمر کی یہ روایت ہیش کی گئی تھی۔ بات میں نے بزرگوں کی تھی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے پیش کی جا رہی ہے۔ لیکن حضرت ابن عمر کی یہ روایت بھی مدد مانگنے کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے کیونکہ ان سے کہا گیا کہ جس سے سب سے زیادہ محبت ہے اس کو یاد کریں تو انھوں نے بطور محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ نداء کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ’’منادیٰ‘‘ ضرور سامنے ہو یا وہ نداء کو سنے بلکہ بعض دفعہ اپنے جذبات کے اظہار اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بھی ’’منادیٰ‘‘ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے خطاب کر لیا جاتا ہے یہاں بھی یہی صورت ہے ۔ پوائنٹ نمبر 3 مجھے نہیں علم اللہ کن معنوں میں انکھ کان اور پاوں بنتا ہے۔ یہ سب متشابہات میں سے ہیں ۔ لیکن اللہ جن معنوں سے بھی یہ سب بنتا ہو اس کا نتیجہ خود اسی حدیث میں بیان ہوا ہے۔ اس حدیث میں مقام قرب کی انتہا بیان کی گئی ہے اور اس سے جو چیز اس بندے کو حاصل ہوتی ہے وہ صرف یہی ہے کہ وہ بندہ جب اللہ سے کچھ مانگتا ہے تو اللہ اسے وہ عطا کر دیتا ہے اور اگر وہ اللہ کی پناہ مانگ کر کسی بری شے سے بچنا چاہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے۔ اس حدیث سے قطعا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ بندہ حاجت روائی کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے اور اسے اذن مل جاتا ہے کہ لوگ اس پکاریں اور وہ ان کی مشکلیں اسان کرتا رہے۔ اپ نے اصف برخیا کی بات تو عرض ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے زندگی میں ان سے مدد لی جو کہ زیر بحث ہی نہیں ان سے بعد از وفات مدد لینے کی کوئی دلیل قران و حدیث سے تو اپ کو پیش کرنی ہے۔ باقی شرک ہے یا کفر وغیرہ تو اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں اگر اپ کا اصرار ہی ہے تو میں غلام رسول سعیدی صاحب کی بات دہرا دیتا ہوں۔ یہ درست ہے کہ اگر انبیا، علیہم السلام اور اولیا، کرام کو اللہ تعالی کی امداد کا مظہر مانا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ وہ اللہ تعالی کی دی ہوئی طاقت اور اس کے اذن سے حاجت روائی کرتے ہیں اور اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی کسی کے کام نہیں ا سکتا لہزا یہ شرک اور کفر نہیں ہے۔ لیکن ایسی صورت حال میں جس کا اللہ نے نقشہ کھینچا ہے اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارنا اور اس سے حاجت طلب کرنا مستحسن بھی نہیں کیونکہ یہ بہرحال ایک ظنی بات ہے کہ اللہ تعالی ہماری پکار پر ان فوت شدہ بزرگوں کو مطلع کر دے اور ہماری مدد کرنے کی ان کو اجازت دے دے اور طاقت عطا فرمائے۔ لیکن جو چیز قطعی اور یقینی ہے اور جس میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ سے اور ہر حال میں سننے والا ہے اور ہر قسم کی بلا اور مصیبت کو دور کرنے والا ہے اسے سننے کے لئے کسی کے اذن کی ضرورت نہیں ہے اور مدد کرنے کے لئے کسی کی قوت افرینی کی حاجت نہیں ہے تو پھر کیوں نہ صرف اسی کو پکارا جائے
  20. جناب مجھے نہیں پتہ کہ اللہ کے جلال کا نور حدیث قدسی کے کن الفاظ کا ترجمہ یا مفہوم ہے؟ اگر تو امام رازی رح کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندہ کائنات میں بلند ہونے والی یا پیدا ہونے والی ہر ہر اواز کو سن لیتا ہے اور ہر ہر چیز کو دیکھ لیتا ہے تو یقینا ان کا یہ نظریہ غیر اسلامی ہے۔ اور اگر ان کا مطلب یہ ہےکہ کسی خاص جہت میں محدود طور پر بطور معجزہ یا کرامت یہ طاقت عطا کی جاتی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔
  21. سعیدی صاحب پوسٹ نمبر 92 اپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناظر ہونے کے متعلق جو تاویلات کی ہیں ان کا ان فتاوی سے دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اپ فتاوی عالمگیری ، فتاوی مسعودی اور انوار شریعت کی عبارات دوبارہ ملاحظہ کر لیں http://img27.imagesh...07/92285185.jpg http://img109.images...31/87181775.jpg[ http://img69.imagesh...38/59393486.jpg علامہ عبدالرشید الولوالجی متوفی540 لکھتے ہیں ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا مگر گواہ موجود نہ تھے،اس شخص نے عورت کو خطاب کرتے ہوئے کہا میں تیرے ساتھ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کرتا ہوں تو وہ شخص کافر ہو جائے گا اسلئے کہ اس نے اعتقاد کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہے کیونکہ جس کو علم نہ ہو وہ گواہ کیسے بن سکتا ہے؟ اور جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اپکو علم غیب تھا تویہ کفر ہے۔ اور فتاوی عالمگیری میں تو غیب کا لفظ بھی نہیں
  22. @ toheedi bhai ur post # 9 اپ سے گزارش ہے کہ اپ امام شعرانی رح کی عبارت کو دیکھ لیں اور پھر اس کے بعد فتاوی عالمگیری، فتاوی مسعودی اور انوار شریعت کے حوالہ جات بھی ملاحظہ فرما کر خود فیصلہ کر لیں ۔ fatawa almigeery, fatawa masoodi aur anwaray shariat kay scan http://img27.imagesh...07/92285185.jpg http://img109.images...31/87181775.jpg[ http://img69.imagesh...38/59393486.jpg امام شعرانی رح سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی کتاب میں کوئی تحریف ہو گئی ہو بہرحال ان کی یہ عبارت غلط اور ناقبل قبول ہے۔ قران پاک میں سورہ مریم 19 کی ابتدائی ایات میں حضرت ذکریا علیہ السلام کا ذکر ہے کہ جب ان کو بڑھاپے میں بیٹے کی خوشخبری دی گئی تو وہ اپنی بیوی کے استقرار حمل کے لئے اللہ تعالی سے نشانی اور علامت طلب کرتے ہیں تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ کب حمل قرار پاتا ہے۔ اب پیغمبر سے بڑھ کر مرد کامل کون ہو گا؟
  23. جناب توحیدی بھائی۔ مجھے یہ علم تو نہیں ہے کہ امام رازی رح کی یہ رائے اسلامی ہے یا نہیں مگر یہ صاف ظاہر ہے کہ اس حدیث قدسی کے حوالے سے ان کی تشریح حدیث سے میل نہیں کھاتی۔
  24. جناب توحیدی بھائی۔ اصل مسئلہ جو زیر بحث ہے وہ حاضر و ناظر کا ہے اور اس حوالے سے میں نے فقہا، احناف کے فتاوی ہیش کئے تھے خاص طور پر فتاوی عالمگیری ، فتاوی مسعودی اور انوار شریعت کے حوالے پیش کئے تھے جن سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ بوقت مجامعت ہر ہر میاں بیوی کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ غلط ہے۔ باقی رہی ابن عباس رضی کی بات تو اپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں کہ ابن عباس سے ہر طرح کے اقوال ملتے ہیں صحیح بھی اور ضعیف بھی۔ اپ نے ابن کثیر کے حوالے سے ان کا جو قول پیش کیا ہے برائے مہربانی اس کی سند پیش فرما دیں۔ پھر یہاں غیب سے مراد کلی علم غیب بھی نہیں۔ بعض علم غیب یا انبا،الغیب کا تو انکار ہی نہیں۔ دیکھیں اس میںیہ بھی ہے کہ حضرت خضر نے کہا جو میں جانتا ہوں وہ اپ نہیں جانتے اور جو اپ جانتے ہیں وہ میں نہیں جانتا۔ تو ہر ایک کے علم کی حدود ہیں۔
  25. جناب سعیدی صاحب۔ اپ کی پوسٹ نمبر 113 اگر اس حدیث کی صحت ثابت ہو بھی جائے تو اس سے لازم نہیں اتا کہ اس سے وہی عقیدہ بھی ثابت ہو جائے جو اپ ثابت کرنا چایا رہےہیں اور اس پر پہلے کی کافی گفتگو ہو چکی ہے۔ حدیث قدسی کے حوالے سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ کیا جب اللہ کسی کا کان اور انکھ بن جاتا ہے اور وہ اس کے ذریعے سنتا اور دیکھتا ہے تو کیا اس بندے کی سماعت اور بصارت اللہ کی سماعت اور بصارت کے برابر ہو جاتی ہے؟ یقینا اپ کا جواب نفی میں ہو گا۔ تو اب ہمیں کیا پتہ کہ اللہ کس حد تک اس بندے کی سماعت اور بصارت بنتا ہے اور اس بندے کی سماعت اور بصارت کی کیا حدود ہیں؟ بلاشبہ انبیا، اس مقام قرب سے سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں مگر قران و حدیث سے صاف واضح ہوتا ہے کہ انبیا،کو کئی باتوں کا علم اللہ کے بتانے سے ہوتا تھا تو اس کا مطلب ہے جو نتیجہ اپ اس حدیث سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ درست نہیں۔ اس حدیث میں مقام قرب کی انتہا بیان کی گئی ہے اور اس سے جو چیز اس بندے کو حاصل ہوتی ہے وہ صرف یہی ہے کہ وہ بندہ جب اللہ سے کچھ مانگتا ہے تو اللہ اسے وہ عطا کر دیتا ہے اور اگر وہ اللہ کی پناہ مانگ کر کسی بری شے سے بچنا چاہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے۔ اس حدیث سے قطعا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ بندہ حاجت روائی کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے اور اسے اذن مل جاتا ہے کہ لوگ اس پکاریں اور وہ ان کی مشکلیں اسان کرتا رہے۔ اپ نے اصف برخیا والی مثال دی ۔ تو کیا اب اصف برخیا کی وفات کے بعد بھی ان کو پکارا جا سکتا ہے مدد کے لئے؟ اپ نے یا محمد اور یا محمداہ بھی تطبیق کی بات کی ہے تو عرض ہے کہ تطبیق کی ضرورت کیا ہے؟ روایت کے دیگر تمام طرق سے ثابت ہے کہ اصل الفاظ یا محمد تھے۔
×
×
  • Create New...