Jump to content

Mustafvi

Under Observation
  • کل پوسٹس

    196
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

سب کچھ Mustafvi نے پوسٹ کیا

  1. @ sage madina اپ نے جو حدیث پیش کی تھی اس حوالے سے ملاحظہ فرمایئں۔ امام ابن السني رحمه الله (المتوفى364)نے کہا: أَخْبَرَنَا كَهْمَسُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْجَوْهَرِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ،عَنْ أَبِي جَمِيلٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَصْبَحَ يَقُولُ : «أَصْبَحْتُ يَا رَبِّ أُشْهِدُكَ، وَأُشْهِدُ مَلَائِكَتَكَ، وَأَنْبِيَاءَكَ وَرُسُلَكَ، وَجَمِيعَ خَلْقِكَ عَلَى شَهَادَتِي عَلَى نَفْسِي أَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، وَأُؤْمِنُ بِكَ، وَأَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ» يَقُولُهُنَّ ثَلَاثًا [عمل اليوم والليلة لابن السني ص: 50 رقم 52]۔ یہ روایت ضعیف ہے اس میں کئی علتیں علتین: پہلی علت: ابن السنی رحمہ اللہ کے شیخ كَهْمَسُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْجَوْهَرِيُّ کی توثیق نامعلوم ہے۔ دوسری علت: ابْنُ لَهِيعَةَ مدلس ہیں اورروایت عن سے ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں پانچویں طبقہ میں رکھتے ہوئے کہا: عبد الله بن لهيعة الحضرمي قاضي مصر اختلط في آخر عمره وكثر عنه المناكير في روايته وقال بن حبان كان صالح ولكنه كان يدلس عن الضعفاء[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 54]۔ امام طبرانی کی الاوسط رقم 9356 میں تحدیث کی صراحت ہے لیکن یہ تحدیث ثابت ہی نہیں کیونکہ اس میں امام طبرانی کے استاذ هارون بن كامل ہیں، اور یہ مجہول ہیں ۔ تیسری علت: ابْنُ لَهِيعَةَ سے اگرعبادلہ روایت نہ کریں توان کی روایت ضعیف ہوتی ہے اوریہاں ان سے عبادلہ میں سے کوئی راوی نہیں ہے۔ چوتھی علت: ابْنُ لَهِيعَةَ کا استاذ ابو جَمِيلٍ الْأَنْصَارِيِّ، مجہول ہے۔ نوٹ: اس روایت کے تمام طرق وشواہد بھی ضعیف ہی ہیں ۔
  2. جن فقہا نے کفر کا فتوی دیا ہے ان میں سے کسی نے بھی ذاتی یا عطائی کی شرط عائد نہیں کی۔ اگر واقعی فقیا علم غیب ذاتی کی بنیاد پر تکفیر کرتے تو وہ لازما اس طرف اشارہ کرتے کیونکہ وہ ہر مسئلہ میں اس کی جملہ شرائط و قیود حدود کو ملحوظ رکھ کر اور ان کو بیان کر کے فتوی صادر فرماتے ہیں اور اس مقام پر انھوں نے ایسی کوئی شرط بیان نہیں کی اور نہ ہی اس کی طرف ہلکا اشارہ ہی کیا ہے۔ بہرحال اب اپ ان فتاوی کی جو بھی توجیحات کرتے رہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ کفر کے فتاوی موجود ہیں اصل مقصد ان فتاوی پر بحث نہیں تھا بتانا صرف یہ مقصود تھا کہ فقہا، بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وقت اور ہر جگہ حاضر و ناظر تسلیم نہیں کرتے۔ فتاوی مسعودی کی عبارت بھی بالکل صاف اور واضح ہے اپ پوری عبارت پڑھ لیں وہ صاف کہہ رہے ہیں کہ درود اور وظائف میں یا رسول اللہ کہنا جائز ہے مگر بنیت حاضر و ناظر کے کہنا موجب شرک ہے اور یہ جملہ بھی ملاحظہ کریں کہ یہ صفت حضوری کی بندے میں نہیں ہے۔ اور فتاوی عالمگیری اور انوار شریعت کے حوالوں کو اپ نے چھیڑا ہی نہیں ؟ ان سب حوالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ بوقت مجامعت ہر ہر میاں بیوی کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ غلط ہے۔ باقی اپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس کے حوالے سے میں دو چار دنوں میں عرض کر دوں گا انشا،اللہ
  3. سگ مدینہ یور پوسٹ نمبر78 اپ نے اپنی پوسٹ 72 میں علم غیب ذاتی کا ذکر کیا تھا اور اپ کا یہ دعوی بھی ہے کہ قالو اور قیل ضعیف اور مرجوع ہے تو اس حوالے سے میں نے کہا تھا کہ تو اگر فقہا کی یہ عبارتیں علم ذاتی سے متعلق ہیں تو معلوم ہوا کہ گویا اپ کے نزدیک ذاتی علم غیب کے قائل کو بھی کافر کہنا ضعیف اور مرجوع ہے۔ اور اپ اس بات کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں کہ قالو یا قیل سے صرف قاضی خان صاحب نے فتوی دیا ہے باقی فقہا نے یہ الفاظ استعمال ہی نہیں کئے اپ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ سب فقہا نے قالو یا قیل کے الفاظ یوز کئے تو یہ درست نہیں۔ باقی میں عالمگیری اور فتاوی مسعودی کے سکین دوسری پوسٹ میں پیسٹ کر دیئے ہیں
  4. @ sage madina fatawa almigeer, fatawa masoodi aur anwaray shariat kay scan http://img27.imagesh...07/92285185.jpg http://img109.images...31/87181775.jpg[ http://img69.imagesh...38/59393486.jpg
  5. ur post # 75 اگر قاضی صاحب نے قالو یا قیل لفظ استعمال کیا ہے تو دیگر فقہا نے تو یہ الفاظ استعمال نہیں کئے اہم نکتہ اپ نے کہا ہے قالو اور قیل ضعیف اور مرجوع ہوتا ہے اپ نے یہ بھی کہا تھا کہ صرف اسکیتکفیرکر رہے ہیں جس کا یہ دعویٰ ہو کہ علم غیب ذاتی موجود ہے تو اگر فقہا کی یہ عبارتیں علم ذاتی سے متعلق ہیں تو معلوم ہوا کہ گویا اپ کے نزدیک ذاتی علم غیب کے قائل کو بھی کافر کہنا ضعیف اور مرجوع ہے۔ ان تکنیکی بحثوں سے ہٹ کر ویسے اگر اپ غور فرمائیں تو یہ فتاوے اپنے مفہوم میں بالکل صاف اور واضح ہیں کہ فقہا نے اس شخص کی تکفیر کی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مجلس نکاح میں حاضر و ناظر سمجھ کر گواہ بناتا ہے فقہا کہتے ہیں کہ وہ شخص اس لئے کافر ہے کہ اس شخص نے یہ عقیدہ قائم کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں کیونکہ جس کو علم نہ ہو وہ گواہ بھی نہیں بن سکتا اور ملا جیون کہتے ہیں شہادت کے لئے علم شرط ہے اور قائل یہی کہہ رہا ہے کہ تزوجتک بشہادہ اللہ و رسولہ اور یہاں اس مسئلے میں ذاتی یا عطائی کی تو کوئی بحث ہی نہیں اور نہ بعض علم غیب کی بات ہے بلکہ فقہا مطلق اس مجلس نکاح کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عدم علم کو بیان کر رہے ہیں۔ اس کو ایک اور زاویہ سے دیکھیں کہ جن فقہا نے تکفیر کی ہے اور جن فقہا نے عدم تکفیر کی ہے اس بنا پر کے شاید قائل کا عقیدہ یہ ہو کہ عرض اعمال کے تحت یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی گئی ہو اور اپ کو اس کا علم ہو گیا ہو تو دونوں صورتوں میں یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے یہ سب فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ اور ہر وقت حاضر و ناظر نہیں ہیں کیونکہ جنہوں تکفیر کی وہ اسی بنیاد پر کی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر نہیں سمجھتے اور جنہوں نے عدم تکفیر کی تو اسی بنیاد پر کی شاید قائل کا عقیدہ ہو یہ بات اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کردی جائے گی۔ ویسے اگر فتاوی عالمگیری کی عبارت کو پورا پڑھ لیا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ وہ بھی نبی صلی علیہ وسلم کو حاضر و ناظر تسلیم نہیں کرتے۔ عبارت درج ذیل ہے ایک شخص نے کسی عورت سے بغیر گواہوں کے نکاح کیا اور اس نے یہ کہا کہ میں خدا تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناتا ہوں یا اس نے یہ کہا کہ خدا تعالی اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناتا ہوں تو ایسا شخص کافر ہو جائے گا اور اگر اس نے یہ کہا کہ میں دست راست اور دست چپ کہ فرشتہ کو گواہ باتا ہوں تو وہ کافر نہ ہوگا۔ اور فتاوی مسعودی از مولانا مفتی محمد مسعود شاہ صاحب مرتب پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب میں ایک سوال کے جواب میں ہے واضح ہو کہ یا رسول اللہ کہنا وقت سونے اور نشست اور ہرکار وغیرہ کے ممنوع ہے اور بنیت حاضر و ناظر کہنا موجب شرک کا ہے
  6. اس حدیث کی سند پر بھی سیر حاصل گفتگو ہو چکی ہے اور یہ بات واضح ہو گئی ہے ہے کہ سند کے اعتبار سے بھی یہ حدیث اس معیار کی نہیں کہ اس پر کوئی عقیدہ استوار کیا جا سکے۔زیادہ استدلال یا محمداہ پر تھا اور یہ الفاظ ثابت نہیں اب صحابی نے یا محمد کہا تو کس نیت سے کوئی نہیں جانتا اپ کی مرضی ہے اپ امام رازی رح کی تشریح کو ضرور تسلیم کریں مگر کبھی کھلے ذہن سے اس حدیث قدسی اور ان کی تشریح کا موازنہ ضرور کریئے گا باقی سعیدی صاحب کی بہت سی باتیں قابل غور ہیں ان بھی ضرور توجہ فرمایئے گا ان کی ایک بات یہاں کوٹ کرتا ہوں لیکن ایسی صورت حال میں جس کا اللہ نے نقشہ کھینچا ہے اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارنا اور اس سے حاجت طلب کرنا مستحسن بھی نہیں کیونکہ یہ بہرحال ایک ظنی بات ہے کہ اللہ تعالی ہماری پکار پر ان فوت شدہ بزرگوں کو مطلع کر دے اور ہماری مدد کرنے کی ان کو اجازت دے دے اور طاقت عطا فرمائے۔ لیکن جو چیز قطعی اور یقینی ہے اور جس میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ سے اور ہر حال میں سننے والا ہے اور ہر قسم کی بلا اور مصیبت کو دور کرنے والا ہے اسے سننے کے لئے کسی کے اذن کی ضرورت نہیں ہے اور مدد کرنے کے لئے کسی کی قوت افرینی کی حاجت نہیں ہے تو ظن اور گمان کو چھوڑ کر قطعی اور یقینی بات کو اپنایئں۔ میرا خیال ہے کہ دونوں اطراف سے اپنا اپنا موقف بیان ہو چکا ہے لہزا اس پر مزید گفتگو کی حاجت نہیں ہاں کوئی نئی دلیل سامنے ائی تو اس پر بات ہو سکتی ہے۔
  7. جناب توحیدی بھائی بار بار ایک بات دہرانا عجیب لگتا ہے مگر پھر بھی اختصارا عرض کئے دیتا ہوں کہ ملا علی قاری رح نے یا محداہ کے الفاظ سے استدلال کیا ہے مگر اس حدیث کے دیگر تمام طرق میں صرف یا محمد ہے اور الادب المفرد کے بعض نسخوں میں بھی یا محمد ہی ہے جیسا کہ اپ کے پیسٹ کردہ الادب المفرد کے امیج میں بھی یا محمد ہی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ یا محمد کے الفاظ ہی محفوظ اور ثابت ہیں ۔ اور حضرت ابن عمر نے بھی ایک ہی الفاظ بولیں ہوں گے یا تو یا محمد اور یا یا محمداہ ۔ تو جب یا محمداہ کے الفاظ ہی صحیح ثابت نہیں تو ان سے استدلال کیسا۔ اپ نے لکھا کہ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام استغاثہ کرتے اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگا کرتے تھے۔ اس روایت میں تو صرف ایک صحابی کا ذکر ہے یہ سارے صحابہ اس میں کیسے ا گئے؟ اور اپ نے شرک والی بات کی تو نہ مجھے شرمانے کی ضرورت ہے نہ کچھ چپھانے کی کیونکہ موضوع یہ ہے ہی نہیں کہ یہ شرک ہے یا نہیں۔ بہرحال پوسٹ کے اخر میں اس حوالے سے اپ کو میرے موقف کا اندازہ ہو جائے گا۔ اپ نے حدیث قدسی کے حوالے سے میرے کسی نکتے کا جواب نہیں دیا۔ نہ اپ نے یہ ثابت کیا کہ اللہ نے ان کو اذن دے دیا ہے۔ دھلوی صاحب سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ امام فخر الدین رازی رح کی تشریح ان ذاتی رائے ہے اور حدیث قدسی سے کوئی میل نہیں کھاتی۔ اخر میں ، میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کی تفسیر تبیان القران ج 5 سورہ یونس کی ایات 22،23 کا ایک اقتباس ہیش کرتا ہوں۔ یہ درست ہے کہ اگر انبیا، علیہم السلام اور اولیا، کرام کو اللہ تعالی کی امداد کا مظہر مانا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ وہ اللہ تعالی کی دی ہوئی طاقت اور اس کے اذن سے حاجت روائی کرتے ہیں اور اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی کسی کے کام نہیں ا سکتا لہزا یہ شرک اور کفر نہیں ہے۔ لیکن ایسی صورت حال میں جس کا اللہ نے نقشہ کھینچا ہے اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارنا اور اس سے حاجت طلب کرنا مستحسن بھی نہیں کیونکہ یہ بہرحال ایک ظنی بات ہے کہ اللہ تعالی ہماری پکار پر ان فوت شدہ بزرگوں کو مطلع کر دے اور ہماری مدد کرنے کی ان کو اجازت دے دے اور طاقت عطا فرمائے۔ لیکن جو چیز قطعی اور یقینی ہے اور جس میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ سے اور ہر حال میں سننے والا ہے اور ہر قسم کی بلا اور مصیبت کو دور کرنے والا ہے اسے سننے کے لئے کسی کے اذن کی ضرورت نہیں ہے اور مدد کرنے کے لئے کسی کی قوت افرینی کی حاجت نہیں ہے تو پھر کیوں نہ صرف اسی کو پکارا جائے اور اسی سے مدد طلب کی جائے جبکہ پورے قران میں اللہ تعاکی نے اسی کی دعوت دی ہے کہ اسی کو پکارو اسی سے دعا کرو اور اسی سے مدد طلب کرو اور جگہ جگہ بیان فرمایا ہے کہ انبیا، بھی شدائد مشکلات اور اپنی حاجات میں اسی کی طرف کرتے تھے اسی کو پکارتے تھے اور اسی سے دعا کرتے تھے تو کیوں نہ ہم بھی اپنی مشکلات اور حاجات میں اس کارساز حقیقی کی طرف رجوع کریں اور انبیا، اور صالحین کی اتباع کریں۔ سعیدی صاحب کی عبارت ختم ہوئی اور اسی اقتباس سے پہلے کے اقتباس میں لکھتے ہیں اب حال یہ ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی قید اور بغیر کسی استثنا، کے وفات شدہ بزرگوں سے استمداد کو شرک کہتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو مصائب اور شدائد میں اور اپنی حاجات میں اللہ کو چھوڑ کر وفات شدہ بزرگوں کو پکارتے ہیں اور ان کے نام کی ہی دہائی دیتے ہیں اور ان کے نزدیک افضل اور اولی یہی ہے کہ وفات شدہ بزرگوں سے مدد طلب کی جائے اور اللہ کو پکارنے اور اس سے مدد طلب کرنے کو وہ وہابیت اور نجدیت قرار دیتے ہیں حالانکہ بعض احادیث اور اثار اور بعض صوفیا کرام اور بعض علما، کرام کی نقول سے اگر کچھ ثابت بھی ہوتا ہے تو وہ یہ کہ وفات شدہ بزرگوں کو پکارنا اور ان سے مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ کو چھوڑ کر صرف ان کو پکارنا اور ان سے مدد طلب کرنا افضل اور اولی ہے اور یہ بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اللہ کا مدد فرمانا قطعی اور یقینی ہے اور اس کو پکارنا اس کی عبادت اور کار ثواب ہے اور وفات شدہ بزرگوں کا مدد کرنا قطعی اور یقینی نہیں۔
  8. سادہ اور صاف سی بات کو بھی تکنیکی اصتلاحات میں الجھا دیا جاتا ہے۔ اگر قاضی خان صاحب نے قیل یا روی وغیرہ تمریض کے صیغہ سے بات کی ہوتی تو پھر بھی کوئی بات بن جاتی ۔ قال یا قالو درحقیقت بیان حال واقعی کے لئے اتا ہے۔ اگر قاضی صاحب اس بات سے متفق نہیں تھے تو کھل کر اہنا موقف بیان کرنے میں انہیں کیا رکاوٹ تھی۔ دوسرا یہ کہ قاضی صاحب کے علاوہ دیگر فقہا نے تو قالو کا لفظ استعمال نہیں کیا وہ تو بہرحال اسی کے قائل ہیں۔ فقہا کرام نے نے ان عبارات میں ایسے شخص کی تکفیر کی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا مدعی اور علم غیب کلی کا معتقد ہو اور اس قائل کے قول سے کہ رسول را گواہ کردم سے بہ ظاہر یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ شخص ہر مجلس نکاح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر سمجھتا ہے کیونکہ فقہا کی عبارات میں یعلم الغیب کے الفاظ موجود ہیں یعنی قائل یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کلی علم غیب رکھتے ہیں۔ کیونکہ مطلق الغیب سے کلی علم غیب ہی مراد ہوتی ہے۔ اگر کوئی قائل یہ کہے یا اس کا عقیدہ یہ ہو کہ میری مراد یہ ہے ہر جگہ اور ہر مجلس میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر نہیں ہیں لیکن میرے اس جزوی واقعہ میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم روحانی طور پر حاضر تھے یا اپ کو اس کا علم عطا ہوا ہے تو اس صورت میں اس کی تکفیر میں تامل ہو سکتا ہے اور بعض نے کیا بھی ہے لیکن جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مجلس نکاح میں حاضر و ناظر ہیں تو اس کی تکفیر میں فقہا کرام کا کوئی اختلاف نہیں۔ اور اس جزوی طور پر حاضر ہونے اور کلی طور پر حاضر ہونے میں زمین اسمان کا فرق ہے۔ اور عرض اعمال بھی اجمالی ثابت ہے نہ کہ کلی اور عمومی۔ اور میاں بیوی کے جفت ہوتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کے قائل کسی ایک دو کیسز میں اس کے قائل نہیں بلکہ ہر میاں بیوی کے جفت ہوتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر کے قائل ہیں۔
  9. چشتی قادری صاحب بحوالہ اپ کی پوسٹ نمبر 83 Quote جناب نے ایک غلط بنیاد رکھی جو آپ کی بناء الفاسد علی الفاسد کا سبب بنی ھے۔ طبقات المدلسین میں امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کو دوسرے طبقے میں شمار کیا ھے۔ اور اس کے بعد تیسرا طبقہ شروع کیا ھے:۔ (66) م 4 يونس بن أبي إسحاق عمرو بن عبد الله السبيعي حافظ مشهور كوفي يقال انه روى عن الشعبي حديثا وهو حديثه عن الحارث عن علي رضي الله تعالى عنه حديث أبو بكر وعمر سيدا كهول أهل الجنة فأسقط الحارث (0)المرتبةالثالثة وعدتهم خمسون نفسا۔ ابواسحاق کے بعد مرتبہ ثالثہ کی ابتدا ھو رھی ھے اور اس میں پچاس افراد ھیں۔ جناب اس دوسرے طبقے کے مدلسین کے شروع میں لکھا ھے کہ :۔ الثانية (0) من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوري أو كان لا يدلس الا عن ثقة كإبن عيينة (0) یعنی جس کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا اور الصحیح میں اس کی روایت اس کی پیشوائی اور قلت تدلیس کے باعث لائے جیسے ثوری یا وہ ابن عیینہ کی طرح ثقہ سے ھی تدلیس کرتا ھے۔ ۔لیجئےجناب وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا جوابا عرض ہے کہ اپ نے باپ اوربیٹے کو خلط ملط کردیا ہے ، ہم جس روایت پر بحث کررہے ہیں اس کی سند میں مدلس راوی ’’ابواسحاق السبیعی ‘‘ ہیں ، ان کا نام ’’عمرو بن عبد الله السبيعي ‘‘ ہے ، اوریہ مدلس ہیں اورحافظ ابن حجر نے فی الحقیقت انہیں تیسرے طبقہ ہی میں ذکر کیا ہے ، جیسا کہ میں نے لکھا تھا، میرے الفاظ ایک بار پھر ملاحظ ہوں: پہلی علت: أبو إسحاق السبيعي کا عنعنہ: ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ مدلس ہیں ،حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے کہا: عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 42]۔ یہاں پر میں نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں ، ان الفاظ کو لے کر کوئی بھی شخص ابن حجر کی کتاب طبقات المدلسین کا مراجعہ کرے تو اسے یہ الفاظ تیسرے طبقہ ہی میں ملیں گے ، یعنی ابن حجر نے اس راوی کو تیسرے طبقہ میں ہی ذکر کیا ہے جس کو بھی شک ہو وہ مراجعہ کرکے دیکھ لے۔ رہا اپکا پیش کردہ حوالہ تو عرض ہے کہ اپ نے دوسرے طبقہ سے’’عمرو بن عبد الله ،ابواسحاق السبعی ‘‘ کے بجائے ان کے بیٹے ’’یونس بن عمرو بن عبد الله ،ابواسحاق السبعی ‘‘ کا حوالہ پیش کردیا ، ملاحظ ہوں اپ کے الفاظ: طبقات المدلسین میں امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کو دوسرے طبقے میں شمار کیا ھے۔ اور اس کے بعد تیسرا طبقہ شروع کیا ھے:۔ (66) م 4 يونس بن أبي إسحاق عمرو بن عبد الله السبيعي حافظ مشهور كوفي يقال انه روى عن الشعبي حديثا وهو حديثه عن الحارث عن علي رضي الله تعالى عنه حديث أبو بكر وعمر سيدا كهول أهل الجنة فأسقط الحارث (0) المرتبة الثالثة وعدتهم خمسون نفسا۔ ابواسحاق کے بعد مرتبہ ثالثہ کی ابتدا ھو رھی ھے۔ عرض ہے کہ اس حوالے میں عمرو بن عبد الله السبيعي ابواسحاق کو نہیں ، بلکہ ان کے بیٹے يونس بن عمرو بن عبد الله السبيعي ابواسحاق کو دوسرے طبقہ کا مدلس بتایا گیا ہے ۔ لیکن اپ نے بیٹے کو باپ سمجھ لیا۔ اب قارئیں خود فیصلہ کریں کہ بناء الفاسد علی الفاسدکا مصداق کون ہے ؟ اورکس کی وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا؟؟
  10. جناب توحیدی بھائی میں اس کا جواب اپنی پوسٹ نمبر 100 میں دے چکا ہوں۔ اپ نے یہ قدسی اذن عطا کئے جانے کے حوالے سے ہیش کی تھی مگر اس میں کسی اذن کا ذکر نہیں ہے۔ اور میں نے شرک والی تو کوئی بات ہی نہیں کی۔ میری پچھلی پوسٹ دوبارہ ملاحظہ کریں۔
  11. میں نے اس پورے تھریڈ میں کسی ایک مقام پر بھی کفر و شرک کی تو کوئی بحث ہی نہیں چھیڑی اور نہ ہی کسی کو کافر ثابت کرنے کے درپے ہوا ہوں۔ باقی عبارتوں کے سیاق و سباق اور پس منظر سے ہٹ کر مفہوم اخذ کرنے کے تو اپ لوگ ویسے ہی ماہر ہیں۔ باقی میرا کوئی تعلق دیوبندیت یا وہابیت سے نہیں ہے۔
  12. فقہا احناف نے ایسے شخص پر کفر کا فتوی لگایا ہے جو اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کرے اور وجہ کفر یہ بیان کی ہے کہ اس شخص نے یہ اعتقاد کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں۔ امام الفقیا حسن بن منصور المعروف بہ قاضی خان متوفی 592 ہجری اپنے فتاوی قاضی خان میں لکھتے ہیں۔ ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور بوقت نکاح عورت کو یوں کہا کہ ہم اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناتے ہیں تو حضرات فقہا کرام کہتے ہیں کہ اس شخص کا یہ کہنا کفر ہے کیونکہ اس نے یہ اعتقاد کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں حالانکہ اپ زندگی میں غیب نہیں جانتے تھے تو وفات کے بعد کیسے غیب جانتے ہیں؟ علامہ عبدالرشید الولوالجی متوفی540 لکھتے ہیں ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا مگر گواہ موجود نہ تھے،اس شخص نے عورت کو خطاب کرتے ہوئے کہا میں تیرے ساتھ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کرتا ہوں تو وہ شخص کافر ہو جائے گا اسلئے کہ اس نے اعتقاد کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہے کیونکہ جس کو علم نہ ہو وہ گواہ کیسے بن سکتا ہے؟اور جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اپکو علم غیب تھا تویہ کفر ہے۔ ابو حنیفہ ثانی زین العابدین بن نجیم متوفی 970 بحر الرائق ج5 ص16 میں لکھتے ہیں۔ اگر کسی شخص نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کیا تو سرے سے نکاح ہی منعقد نہ ہو گا اور وہ شخص کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے یہ اعتقاد کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں۔ یہی فتوی فتاوی عالمگیری میں اور فتاوی تاتارخانیہ میں بھی ہے۔ اور قاضی ثنا،اللہ صاحب نے بھی اپنی کتاب مالابدمنہ میں یہی بات لکھی ہے۔ اب جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بوقت مجامعت بھی ہر میاں بیوی کے پاس حاضر ناظر سمجھتے ہیں ان فتاوی کو دیکھ لیں۔
  13. @ Toheedi bahi ur post # 94 & 97 اپ نے جو حدیث قدسی پیش کی ہے اس کے کس مقام سے ثابت ہو رہا ہے کہ اللہ نے ان کو اذن عطا کر دیا ہے؟ کیا جب اللہ کسی کا کان اور انکھ بن جاتا ہے اور وہ اس کے ذریعے سنتا اور دیکھتا ہے تو کیا اس بندے کی سماعت اور بصارت اللہ کی سماعت اور بصارت کے برابر ہو جاتی ہے؟ یقینا اپ کا جواب نفی میں ہو گا۔ تو اب ہمیں کیا پتہ کہ اللہ کس حد تک اس بندے کی سماعت اور بصارت بنتا ہے اور اس بندے کی سماعت اور بصارت کی کیا حدود ہیں؟ بلاشبہ انبیا، اس مقام قرب سے سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں مگر قران و حدیث سے صاف واضح ہوتا ہے کہ انبیا،کو کئی باتوں کا علم اللہ کے بتانے سے ہوتا تھا تو اس کا مطلب ہے جو نتیجہ اپ اس حدیث سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ درست نہیں۔ اس حدیث میں مقام قرب کی انتہا بیان کی گئی ہے اور اس سے جو چیز اس بندے کو حاصل ہوتی ہے وہ صرف یہی ہے کہ وہ بندہ جب اللہ سے کچھ مانگتا ہے تو اللہ اسے وہ عطا کر دیتا ہے اور اگر وہ اللہ کی پناہ مانگ کر کسی بری شے سے بچنا چاہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے۔ اس حدیث سے قطعا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ بندہ حاجت روائی کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے اور اسے اذن مل جاتا ہے کہ لوگ اس پکاریں اور وہ ان کی مشکلیں اسان کرتا رہے۔ باقی اپ کا سوال کہ اگر کوئی کافر پوچھے کہ اللہ اپنے گھر کو نہ بچا سکا تو تمہاری کیا مدد کرے گا تو اپ کیا جواب دیں گے؟ تو اس بات کا وہی جواب ہے جو اپ اپنی پوسٹ 88 میں دے چکے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے وہ اپنی حکمتوں کے تحت جو چاہے کرے۔ باقی یہ کہ اپ بھی اولیا، کو اللہ پر قیاس نہ کریں۔ اللہ کے بارے میں تو کنفرم ہے کہ وہ قوت اور اقتدار کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہے وہ جو چایے کر سکتا ہے مگر اولیا، کے حوالے سے ہمارے پاس ایسی کوئی کنفرمیشن نہیں ہے۔
  14. چشتی قادری صاحب بحوالہ اپ کی پوسٹ نمبر 83 جوابا عرض ہے کہ اپ نے باپ اوربیٹے کو خلط ملط کردیا ہے ، ہم جس روایت پر بحث کررہے ہیں اس کی سند میں مدلس راوی ’’ابواسحاق السبیعی ‘‘ ہیں ، ان کا نام ’’عمرو بن عبد الله السبيعي ‘‘ ہے ، اوریہ مدلس ہیں اورحافظ ابن حجر نے فی الحقیقت انہیں تیسرے طبقہ ہی میں ذکر کیا ہے ، جیسا کہ میں نے لکھا تھا، میرے الفاظ ایک بار پھر ملاحظ ہوں: پہلی علت: أبو إسحاق السبيعي کا عنعنہ: ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ مدلس ہیں ،حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے کہا: عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 42]۔ یہاں پر میں نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں ، ان الفاظ کو لے کر کوئی بھی شخص ابن حجر کی کتاب طبقات المدلسین کا مراجعہ کرے تو اسے یہ الفاظ تیسرے طبقہ ہی میں ملیں گے ، یعنی ابن حجر نے اس راوی کو تیسرے طبقہ میں ہی ذکر کیا ہے جس کو بھی شک ہو وہ مراجعہ کرکے دیکھ لے۔ رہا اپکا پیش کردہ حوالہ تو عرض ہے کہ اپ نے دوسرے طبقہ سے’’عمرو بن عبد الله ،ابواسحاق السبعی ‘‘ کے بجائے ان کے بیٹے ’’یونس بن عمرو بن عبد الله ،ابواسحاق السبعی ‘‘ کا حوالہ پیش کردیا ، ملاحظ ہوں اپ کے الفاظ: طبقات المدلسین میں امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کو دوسرے طبقے میں شمار کیا ھے۔ اور اس کے بعد تیسرا طبقہ شروع کیا ھے:۔ (66) م 4 يونس بن أبي إسحاق عمرو بن عبد الله السبيعي حافظ مشهور كوفي يقال انه روى عن الشعبي حديثا وهو حديثه عن الحارث عن علي رضي الله تعالى عنه حديث أبو بكر وعمر سيدا كهول أهل الجنة فأسقط الحارث (0) المرتبة الثالثة وعدتهم خمسون نفسا۔ ابواسحاق کے بعد مرتبہ ثالثہ کی ابتدا ھو رھی ھے۔ عرض ہے کہ اس حوالے میں عمرو بن عبد الله السبيعي ابواسحاق کو نہیں ، بلکہ ان کے بیٹے يونس بن عمرو بن عبد الله السبيعي ابواسحاق کو دوسرے طبقہ کا مدلس بتایا گیا ہے ۔ لیکن اپ نے بیٹے کو باپ سمجھ لیا۔ اب قارئیں خود فیصلہ کریں کہ بناء الفاسد علی الفاسدکا مصداق کون ہے ؟ اورکس کی وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا؟؟
  15. وَعِبَادُ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَىٰ ٱلأَرْضِ هَوْناً وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الجَاهِلُونَ قَالُواْ سَلاَماً so assalmo alikum
  16. @chisti qadri جو روایت زیر بحث ہے اسی کے تحت ہم شاہ صاحب کی تشریح دیکھیں گےنہ کہ دوسرے مقامات میں۔ ہر مقام پر ولی کے معنی موقع محل کے مطابق ہوں گے۔ اور اپ کی دوسری بات کے متعلق پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ وہ ایک خاص سیاق و سباق میں ہے اور ہمارے سے موضوع باہر۔
  17. @toheedi bhai ur post 89 کسی کے پاس کیا ثبوت ہے کہ کس کس اللہ کے ولی کو طاقت اور قدرت عطا کر دی گئی ہے ؟ اور مدد کرنے کا اذن بھی دے دیا گیا ہے؟ ہو سکتا ہے ہم کسی ولی کو پکار رہے ہو اور ان کو ہماری اس خاص مدد کا اذن ہی نہ ہو۔ اس لئے قیاسات اور گمانوں کی بجائے وہ راستہ اختیار کریں جو کنفرم بھی ہے اور جس کا حکم بھی دیا گیا ہے یعنی اللہ سے مدد مانگنا اس کو پکارنا اور یہی سنت اور حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔
  18. صرف کسی کتاب میں کوئی واقعہ درج ہو جانے سے وہ واقعہ مستند نہیں ہو جاتا اور خاص طور پر تاریخ کی کتابوں میں۔ اور ملا علی قاری کی بات کا جواب تین دن پہلے دے چکا ہوں پوسٹ نمبر 67 کے اخر میں۔
  19. @ chisti qadri ur post 84 اس روایت کے تحت تو مجھے مددگار کے معنی نظر نہیں ائے۔جو بات شاہ صاحب نے لکھی ہے وہ پیش کر دیتا ہوں۔ شاہ صاحب کی عبارت لہزا معلوم ہوا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر یہی معنی ہیں جو اپ کے کلام سے بے تکلف سمجھ میں اتے ہیں کہ جیسے پیغمبر کی محبت تم پر فرض ہے ایسے ہی علی رضی اللہ عنہ سے دشمنی رکھنا بھی حرام ہے یہی اہل سنت کا مذہب ہے۔ اس سے پہلے اپ نے جو بات لکھی تھی وہ ملاحظہ فرمائیں اپ خود دیکھ لیں اپ کی بات میں اور شاہ صاحب کی بات میں زمین اسمان کا فرق ہے۔ اور یہ بات بھی جو شاہ صاحب کر رہے ہیں ایک خاص سیاق وسباق میں کر رہے ہیں اور مخاطب اس کے شیعہ ہیں۔
  20. کسی کے پاس کیا ثبوت ہے کہ کس کس اللہ کے ولی کو طاقت اور قدرت عطا کر دی گئی ہے ؟ اور مدد کرنے کا اذن بھی دے دیا گیا ہے؟ ہو سکتا ہے ہم کسی ولی کو پکار رہے ہو اور ان کو ہماری اس خاص مدد کا اذن ہی نہ ہو۔ اور حدیث کا مفہوم ہے جو اپنی جان اور مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے۔ اور اپنی جان اور مال کی حفاظت کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
  21. میں اپ کی تائید کرتا ہوں ان لوگوں نے انتہائی غلط اور غیر شرعی کام کیا ہے اگر شرعا ان پر لعنت بھیجنے کی کوئی ممانعت نہیں تو میں ان پر لعنت بھیجتا ہوں۔
  22. برائے مہربانی اس کی سند بیان فرما دیں۔
  23. توحیدی بھائی۔ میں نے شاہ صاحب کو صرف کوٹ کیا ہے وہ بھی چشتی صاحب کے کہنے پہ کسی کا نام بتایئں جس نے یہ معنی مراد لئے ہوں۔ کسی کو کوٹ کرنے کا مطلب اسے حجت ماننا نہیں ہوتا۔ ویسے شاہ صاحب ہمارے لئے نہایت قابل احترام ہیں لیکن حجت صرف قران اور حدیث ہے۔ کچھ اطلاعات ائی ہیں کہ سیدی احمد زروق کی قبر کو بلاسٹ کر دیا گیا ہے اور نعش مبارک کئی پھینک دی گئی ہے استغفراللہ۔ تو جو اپنی مدد نہیں کر سکے وہ کسی کی کیا مدد کریں گے۔
  24. جناب چشتی قادری صاحب۔ دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے جب وہ سب حضور کے مولی ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مولی ہوئے تو وہ بھی ہمارے مولی ہوئے۔ پھر میں نے مختلف ایات پیش کی تھیں جن سےمومن اور فرشتے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یا عباد میں احادیث کے مطابق درختوں کے پتے گننے والے فرشتے یا اللہ نے جو زمین پر روکنے والے مقرر کر رکھے ہیں شامل ہیں۔ اپ دلوں کے حال کب سے جاننے لگے؟ میں کسی کو مشرک نہیں مانتا۔ شاہ صاحب نے تحفہ میں اس روایت کے تحت تو یہ معنی نہیں کئےبلکہ واضح طور پر محبت کے معنی کئے ہیں۔ یاعلی کہنے والی بات میری نظر سے نہیں گزری۔
×
×
  • Create New...