Jump to content

Mustafvi

Under Observation
  • کل پوسٹس

    196
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

سب کچھ Mustafvi نے پوسٹ کیا

  1. ابراہیم نخعی نے تو اس بات کی خود وضاحت کر دی تھی لیکن ابو اسحاق کی اپنے بارے میں ایسی کوئی وضاحت نہیں۔ امام شعبہ کی ذمداری صرف اس صورت میں ہے جس میں وہ اپنے شیخ سے عن سے روایت کرے یہاں شیخ کا علم ہی نہیں اور یہ بات تو کنفرم ہے ابو اسحاق نے ابن عمر سے نہیں سنا۔ اور باقی شیوخ سے تو سماعت کا ہی تو ثبوت درکار ہے۔ یہ وسوسہ نہیں حقیقت ہے کہ تین شیوخ سوائے اپنے ایک شاگرد کے کسی اور یہ روایت بیان ہی نہ کریں یا ان کا کوئی اور ایک بھی شاگرد اس روایت کو بیان نہ کرے۔ کسی کو یاد کرنے کے کئی طریقے ہیں کوئی صرف نام لے کر یاد کر لے یا ساتھ میں یا بھی ملا لے اور یا ملا کر یاد کرنے میں تو میرا اپ کا اختلاف ہی نہیں۔ اس ایت کی تفاسیر تو موجود ہیں مگر کسی نے اپ والی تشریح بیان نہیں کی ۔ باقی جو اپ نے شواہد والی بات کی ہے تو وہ تاریخ کی کتابوں میں ہیں ان کی برائے مہربانی سند بیان فرما دیں اگر ان کے سکین لگا سکیں تو عنایت ہو گی۔
  2. سچ اکھاں تے بھابنھڑ مچدا یے۔ الحمداللہ ثم الحمداللہ کہ حضرت زھیر بن قیس رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک صحیح سلامت نکل ایا اور معلوم ہو گیا کہ اللہ کے پیارے مر کر مٹی میں نہیں ملتے بلکہ ان کے جسم صدیوں بعد بھی تروتازہ رہتے ہیں۔ لیکن ان صحابی اور بزرگ کے مزارات کی تباہی سے ایک اور بات بھی سامنے ائی ہے کہ بزرگوں کو کوئی مافوق القدرت طاقتیں حاصل نہیں ہوتیں۔ اور جو لوگ ان کو مدد کے لئے پکارا کرتے تھے ان کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ وہ ان کی کیا مدد کرتے وہ تو خود اپنی مدد نہ کر سکے۔ اور یہی حقیقت اللہ کریم نے قران میں کئی جگہ بیان فرمائی ہے۔
  3. @ chisti qadri نکتہ 1۔ ہم یہاں ابراہیم نخعی کی بات نہیں کر رہے۔ اس لئے ان کی بات ان تک ہی رہنے دیں۔ بےشک امام شعبہ کی بات سچ ہے مگر ان کی بات اس حوالے سے سچ ہے کہ اگر وہ ابو اسحاق سے کوئی ایسی روایت کریں جس میں وہ اپنے کسی شیخ سے عن سے بھی روایت کریں تو اس پر تدلیس کا اعتراض نہیں ہو گا بلکہ وہ روایت محمول علی السماع ہو گی۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے اس روایت میں ابو اسحاق کے شیخ کا ہی نہیں پتہ ۔ اور باقی روایتوں میں وہ اپنے شیوخ سے عن سے روایت کرتے ہیں مگر اس میں امام شعبہ نہیں ہیں۔ اور اس روایت میں ابو اسحاق کا کوئی متابع بھی نہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ابو اسحاق اپنے کم از کم تین شیوخ سے یہ روایت کرتے ہیں مگر سوائے ابو اسحاق کے ان شیوخ کا کوئی ایک بھی شاگرد ان سے یہ روایت بیان نہیں کرتا۔ پتہ نہیں ان شیوخ نےاس روایت کو صرف ابو اسحاق سے ہی کیوں بیان کیا۔ نکتہ 2 مصر سے الادب المفرد کا ایک نسخہ شائع ہوا تھا جس میں صرف محمد کا ذکر ہے۔ نکتہ 3 میں نے دو کتابوں کے حوالے دئے تھے جن میں دیگر لوگوں سے بھی یہ عمل منقول ہے۔ مجھے نہیں علم کہ کس کس ہسپتال میں اس نفسیاتی علاج پر ہو رہا ہے۔ اپ بتا دیں کہ ابن عمر ر ض کے علاوہ کتنے صحابہ نے یا تابعین نے یہ عمل کیا ہے؟ مجھے یا اپ کو کیا پتہ کے ابن عمر نے کس نیت سے یا محمد پکارا؟ دوسری بات یہ ہے کہ نداء کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ’’منادیٰ‘‘ ضرور سامنے ہو یا وہ نداء کو سنے بلکہ بعض دفعہ اپنے جذبات کے اظہار اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بھی ’’منادیٰ‘‘ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے خطاب کر لیا جاتا ہے۔ میرے علم میں نہیں کے کسی صحابی نے یا کسی بھی جلیل القدر مفسر نے ان ایات کی وہ تشریح بیان کی ہو جو اپ بیان فرما رہیے ہیں۔
  4. @ chisti qadri ur post # 56 معترض کا کہنا ہے کہ امام شعبہ نے بھی ابواسحاق سے اسی روایت کو نقل کیا اور امام شعبہ جب ابواسحاق سے نقل کریں تو ان کا عنعنہ مضر نہیں ہے۔ عرض ہے کہ یہ بات اصول حدیث کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ امام شعبہ جس طریق میں ابواسحاق سے روایت کریں اس طریق میں ابواسحاق کاعنعنہ مضر نہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امام شعبہ والا طریق بالکل ویساہی ہے جیسا الادب المفرد میں امام بخاری کا طریق ہے؟؟ قطعا نہیں ۔ [coloملاحظہ و: کبھی اپنے شیخ کا نام مبہم رکھا ، چنانچہ : امام إبراهيم بن إسحاق الحربي رحمه الله (المتوفى285)نے کہا: حَدَّثنَا عَفَّانُ حَدَّثنَا شُعْبَةٌ عَنْ أَبى إٍسْحِاقَعَمَّنْ سمِعَ ابن عُمَرَ قَالَ خَدِرَتْ رِجْلُهُ فَقَيِلَ : اذْكُرَ أَحَبَّ النَّاسٍ . قَالَ : يَا مُحَمَّدُ [غريب الحديث للحربي 2/ 673 ، اسنادہ صحیح الی شعبہ]۔[/color] غورکریں اس طریق میں امام شعبہ ابواسحاق سے ضرور روایت کررہے ہیں لیکن یہاں ابواسحاق کے استاذ کا نام ہی مذکور نہیں ، اس لئے یہاں یہ قطعا معلوم نہیں کہ اس موقع پر ابواسحاق کے کون سے استاذ تھے۔ مثلا الادب المفر د والے طریق میں ابواسحاق کے استاذ ’’عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ‘‘ ہیں ، اور ان سے ابواسحاق نے سنا ہے یا نہیں ، یہ معلوم ہونے کی ضرورت ہے ، اور شعبہ والے طریق سے یہ قطعا معلوم نہیں ہوتا کہ ابواسحاق نے عبدالرحمن سے سنا ہے کیونکہ اس طریق میں پتہ نہیں ابواسحاق نے اپنے کس استاذ سے روایت کو بیان کیا ہے ، بالخصوص جب کہ یہ بھی ثابت ہے ابو اسحاق نے اسی روایت بیان کرتے ہوئے متعدد شیوخ کا نام لیا ہے۔ شعبہ والے طریق سے صرف یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اس طریق میں ابواسحاق نے اپنے جس استاذسے روایت نقل کی ہے اس سے سن رکھا ہے ۔ مثلا اگرکسی طریق میں ابواسحاق کے استاذ ’’زید‘‘ ہیں تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ابواسحاق نے اپنے استاذ ’’زید‘‘ سے یہ روایت سن رکھی ہے لیکن اس سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوگا کہ ابواسحاق اسی روایت کو بکر ، عمر ، وغیرہ سے بھی بیان کریں تو ان سے بھی موصوف نے یہ رویات سنی ہو ،کیونکہ ان دیگر اساتذہ سے نقل کی گئی روایات کو ابواسحاق سے شعبہ نے روایت نہیں کیا ۔ یعنی امام شعبہ نے ’’زید‘‘ والے جس طریق سے روایت کیا ہے محض اسی طریق میں ابو اسحاق کا عنعنہ مضر نہیں ہوگا پھر اس بنیا پر ابو اسحاق کا یہ استاذ ’’زید‘‘ جس جس طریق میں آئے گا گرچہ اس میں شعبہ نہ ہوں وہاں بھی ابواسحاق کا ’’زید‘‘ سے عنعنہ مضر نہ ہوگا۔ لیکن اگرکسی طریق میں ابواسحاق کا استاذ ’’زید‘‘ کے بجاے دوسرا آگیا تو وہاں ابواسحاق کاعنعنہ قابل قبول نہ ہوگا ، کیونکہ اس طریق والی روایت کو ابو اسحاق سے شعبہ نے نقل نہیں کیا ۔ اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ زیربحث روایت کے جس طریق میں ابواسحاق سے روایت کرنے والے شعبہ ہیں اس طریق میں ابواسحاق کے استاذ کے نام کی صراحت ہی نہیں ، لہٰذا گرچہ اس طریق میں ابواسحاق کا ععنعنہ مضر نہیں لیکن یہ طریق مردود ہے کیونکہ اس میں مبھم راوی ہے ۔ اورچونکہ یہاں ابو اسحاق کا استاذ مبہم ہے اس لئے اس بات کا بھی ثبوت نہیں ملا کہ دیگرطریق میں ابواسحاق نے اپنے کسی استاذ سے یہ روایت سنی ہو ۔ لہٰذا امام شعبہ کی روایت بہر صوررت بے سود ہے۔
  5. بھائی میرے میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اس روایت پر پہلے ہی سے کافی گفتگو ہو چکی ہے۔ اپ پورا تھریڈ پڑھیں اس میں اپ کو مختلف مقامات پر اس پر بحث مل جائے گی۔ زلفی بوائے کے ساتھ اس پر بات چل رہی ہے۔ اور اپ کی دوسری بات کے حوالے سے عرض ہے کہ ضروری نہیں ہر بات ہر وقت اپ کے علم میں ہو۔ کبھی کوئی ایسا نکتہ سامنے اجاتا ہے جس پر اپ کی معلومات نہیں ہوتیں۔ بہرحال اس مسئلے پر جو ابھی تک انفرمیشن ملی ہے وہ میں اگلی پوسٹ میں لکھ رہا ہوں۔
  6. @ zulfi.boy ur posts # 64,65 یہ جو اپ نے میری تحریر کوٹ کی ہے اور پھر جواب دیا ہے اس کا اپس میں کیا ربط ہے؟ میری یہ تحریر اپ کی اس بات کے جواب میں تھی۔ اور دوسری بات یہ کہ ان روایتوں میں کہیں بھی فوت شدہ کو مدد کے لئے پکارنے کا ذکر نہیں ہے۔ جن کا ذکر ہے وہ میں اپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں احادیث کے حوالے سے۔ اگر ان روایتوں میں فوت شدہ کا کوئی ذکر ہے تو بتائیں ۔ اگر اپ کو ہنسی ا رہی ہے تو خوب ہنسیں شاید اس طرح اپ کے دل ودماغ پر چھایا غبار ہٹ جائے ۔ ملا علی قاری رح نے یا محمداہ سے استدلال کیا ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ یا محمداہ کے الفاظ ہی ابھی ثبوت طلب ہیں۔ حضرت ابن عمر نے دونوں میں سے ایک ہی لفظ بولا ہو گا یا ۔ یا محمد اور یا۔ یا محمداہ اور اس روایت کے اکثر طرق میں یا محمد ہی ایا ہے۔
  7. @ Toheedi bhai ur post # 59 چشتی صاحب کی پہلی بات کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ فی الوقت میری اس حوالے سے تحقیق نہیں ہے۔ اور تیسری بات کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ وہ بھی میرے خیال میں ارریلیونٹ ہے۔
  8. @ sage madina ur post # 58 جی یہ میرے ہم مسلک نہیں ہیں۔ اپ کی پیش کردہ پہلی روایت باب توسل سے ہے جو کہ زیر بحث نہیں۔ اور دوسری روایت پر پہلے ہی کافی سیر حاصل گفتگو ہو چکی ہے۔
  9. مذکورہ واقعے میں جسمانی تکلیف کا ایک نفسیاتی علاج بتایا گیا ہے جسے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اختیار فرما لیا ۔ انہوں نے ’’محمد‘‘ یا ’’یا محمد‘‘ (بہ اختلاف روایات) اس عقیدے کے تحت نہیں پکارا کہ آپ ﷺ ان کی فریاد سن لیں گے اور پھر مدد فرما دیں گے ۔ بلکہ کسی نے پیروں کے سن ہو جانے کا یہ علاج بتلایا کہ اپنے سب سے زیادہ محبوب شخصیت کا نام لو ، تو یہ تکلیف دور ہو جائے گی ۔ اس کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ محبوب کے ذکر سے انسان کے دل میں حرارت اورنشاط کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، جس سے منجمد خون رواں ہو کر رگوں میں دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور یوں سن والی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اور واقعات بھی ایسے ملتے ہیں جن میں لوگوں نے اپنے کسی محبوب یا محبوبہ کا نام لیا تو ان کے پیروں کا سن پنا ختم ہو گیا (8) اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیر سن ہونے کی صورت میں اپنے کسی محبوب کا نام لینا اور اسے محبت سے یاد کرنا ، یہ اس مرض کا نفسیاتی علاج ہے ، اس کا کوئی تعلق فوت شدگان سے استغاثہ واستمداد سے نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ نداء کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ’’منادیٰ‘‘ ضرور سامنے ہو یا وہ نداء کو سنے بلکہ بعض دفعہ اپنے جذبات کے اظہار اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بھی ’’منادیٰ‘‘ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے خطاب کر لیا جاتا ہے یہاں بھی یہی صورت ہے ۔ (8) ملاحظہ ہو الفتوحات الربانیہ علی الاذکار النواویہ ج۴ص۲۰۰ محمد بن علان الصدیقی ۔فضل اﷲ الصمد فی توضیح الادب المفرد ، فضل اﷲ الجیلانی ج۲ ص۴۴۱ المکتبۃ الاسلامیہ ، حمص
  10. @ zulfi.boy ur post # 50 بھائی میرے ایک سادہ سی بات اپ کی سمجھ میں نہیں ا رہی۔ روایت میں صاف صاف لکھا ہے کہ ان فرشتوں کی ڈیوٹی درختوں کے پتوں کو گننے کی ہے اگر حضرت جبرائیل کی بھی یہی ڈیوٹی ہے تو ٹھیک ہے ان کو پکار لیں لیکن مسئلہ ہے یہ کہ کسی فرشتے کا نام نہیں بتایا گیا صرف یا عباد کہنے کا حکم ہے۔ اور باقی بحث ہی فضول ہے کیونکہ اس روایت میں فوت شدگان کا کوئی ذکر نہیں۔ اور اپ کی پوسٹ نمبر 51 کے تقریبا سارے جوابات میری پوسٹ نمبر 48 ا چکے ہیں۔ اس کی سند بخاری میں یوں ہے حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، قال حدثني أبو إسحاق، قال حدثني عبد الله بن يزيد، قال حدثني البراء ـ وهو غير كذوب ـ اور اس میں ابو اسحاق کی سماعت کی تصریح ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام ابن حجر نے ابو اسحاق کو طبقہ ثالثہ کا مدلس بتایا ہے اور اس طبقہ کے راوی کی جب تک سماعت کی تصریح نہ ہو روایت ناقابل قبول ہوتی ہے۔ اور بخاری کی تمام روایات محلول علی اسماع ہیں۔یعنی جتنے مدلس ہیں بخاری میں ان کی سماعت کی تصریح ہے
  11. روایت بالمعنی لینے کی ضرورت کیا ہے؟ حضرت ابن عمر نے دونوں میں سے ایک ہی لفظ بولا ہو گا یا ۔ یا محمد اور یا۔ یا محمداہ اور اس روایت کے اکثر طرق میں یا محمد ہی ایا ہے۔ اور چونکہ استدلال کا زیادہ دارو مدار یا محمداہ پر ہے تو ان الفاظ کا قوی ثبوب میسر نہیں ۔ اس روایت کے سوائے ایک کے تمام طرق میں اذکر ہی ایا ہے۔ جس میں ادع ایا ہے اس میں عبدالرحمن بن سعد راوی ہے اور یہی راوی اذکر کے الفاظ بھی بیان کرتا ہے۔ اور چونکہ سب روایات میں اس راوی سمیت اذکر ایا ہے تو معلوم ہو گیا کہ اصل لفظ اذکر ہی ہے۔ اور جس نے ادع کا لفظ ذکر کیا وہی اذکر کے بھی الفاظ نقل کرتا ہے لہذا یا تو راوی نے غلطی سے بھول کر لفظ ادع بیان کر دیا ہے یا پھر اصل لفظ کو چھوڑ کر اپنے فہم کے مطابق لفظ ادع بیان کر دیا ہے۔ اور جب اصل لفظ معلوم ہے جو کہ اذکر ہے تو ادع کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ بھی بہت اہم نکتہ ہے لفظ اذکر ہو یا ادع دونوں کا دارو مدار أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ پر ہے اور اس کا عام فہم مفہوم یہی ہے کہ اس کو یاد کرو جس سے محبت ہے یا یہ کہ اس کو محبت سے پکارو۔ اس میں مدد کا کوئی ذکر نہیں۔ اپ کی اس بات میں وزن ہے مگر یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ ابو اسحاق کہ تینوں استاد ایک ہی وقت میں اس مجلس میں موجود تھے۔ میں نے یہ بخاری میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے مگر تلاش نہیں کر سکا ہو سکتا ہے نمبر میں کوئی فرق اگیا ہو نمر دوبارہ چیک کر کے بتائیں۔ یقینا یہ سند بخاری ہو گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام ابن حجر نے ابو اسحاق کو طبقہ ثالثہ کا مدلس بتایا ہے اور اس طبقہ کے راوی کی جب تک سماعت کی تصریح نہ ہو روایت ناقابل قبول ہوتی ہے۔ اور بخاری کی تمام روایات محلول علی اسماع ہیں۔یعنی جتنے مدلس ہیں بخاری میں ان کی سماعت کی تصریح ہے۔
  12. جناب چشتی قادری صاحب۔ میں نے ایک مجموعی مفہوم بیان کیا تھا۔ سورہ تحریم میں اللہ،جبرائیل،مومنین اور فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مولی قرار دیئے گئے ہیں۔ مائدہ 55میں اللہ،رسول اورمومنین مددگار ہیں مومنوں کے۔ توبہ 71 میں مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ اور حم السجدہ 31 فرشتے مددگار ہیں۔ بھائی قران کی رو سے فرشتے جبرائیل سارے مومن ولی اور مددگار ہیں تو کیا اب ہر فرشتے یا ہر مومن کو پکارنا ثابت ہو جائے گا؟ میں نے کسی کو کسی پر قیاس نہیں کیا اپ نے مطلق دوست کی بات کی تو اس حوالے سے میں نے یہ بات کہی۔ ویسے قران کی رو سے تو مومن ایک دوسرے کے مددگار ہیں تو اپ کے استدلال کے مطابق تو میں یہ پوچھ ہی سکتا ہوں کہ میرے چند دوست انتقال کر چکے ہیں تو کیا میں اپنے مسائل میں ان کو مدد کے لئے پکار لیا کروں؟ میں اتنی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا اور نہ ہی اس بحث میں پڑنا چاہتا ہوں کہ کوئی مشرک ہے یا نہیں۔ میں نے عرض کر دیا تھا کہ یہ روایت ایک خاص پس منظر بیان ہوئی ہے لہزا اس پس منظر کو اس روایت کے معنی متعین کرتے وقت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شاہ عبدالعزیز رح نے تحفہ اثناعشریہ میں اس روایت پر بحث کی ہے وہاں دیکھ لیں وہ بھی محبت کے معنی لیتے ہیں۔
  13. جناب مغل صاحب اپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اس فانٹ کی طرف راہنائی کی۔ لیکن پہست کرتے وقت فانٹ بدل جاتا ہے؟ وہابی دیوبندی مجھے بریلوی سمجھتے ہیں اور آپ مجھے وہابی دیوبندی
  14. جناب توحیدی بھائی۔ معذرت کے جواب قدرے دیر سے دے رہا ہوں۔ جیسا کہ اپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس روایت کہ مختلف طرق میں یا محمداہ کی جگہ صرف یا محمد بھی ایا ہے۔ یا محمد انے کی صورت میں تو اپ کا استدلال ویسے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اب جب کہ مختلف روایتوں میں یا محمد اور یا محمداہ دونوں کا استعمال ہوا ہے لہزا اپ قطعیت سے نہیں کہہ سکتے کہ کون سا لفظ اصل میں استعمال ہوا ۔ جب اس کے بارے میں قطعیت ہی نہیں تو استدلال میں قوت ہی نہ رہی۔ ویسے روایت کی رو سے تو لفظ یا محمد ہی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ابن عمر سے یہ کہا گیا کہ اپ اس کو یاد کریں جس سے اپ سب سے زیادہ محبت ہے۔ تو یہاں یاد کرنے کا کہا گیا تھا مدد مانگنے کا نہیں۔ اگر باالفرض لفظ یا محمداہ ہی استعمال ہوا ہے تو بھی اس صورت میں اس روایت اس میں صاف لکھا کہ جس سے اپ کو محبت ہے اس کو یاد کریں۔ یاد کرنے اور مدد کے لئے پکارنے میں بہت فرق ہے۔ یا محمداہ کا گرامیٹیکلی اگر کوئی معنی مدد ہو بھی تو اس روایت میں وہ معنی استمعال نہیں ہوا کیونکہ ابن عمر کو جب کہا گیا کہ اسے یاد کرین جس سے اپ سب زیادہ محبت کرتے ہیں تو انھوں نے یہ الفاظ یوز کئے۔ ان سے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ مدد مانگیں بلکہ یاد کرنے کا کہا گیا تھا اور انھوں نے اس طریقے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کیا۔ باقی اس روایت کی سند کے حوالے سے بھی کچھ اشکالات ہیں ملاحظہ فرمایئں۔ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ[الأدب المفرد : 335]۔ یہ روایت ضعیف ہے اس میں درج ذیل علتیں بیان کی جاسکتی ہیں: پہلی علت: أبو إسحاق السبيعي کا عنعنہ: ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ مدلس ہیں ،حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے کہا: عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 42]۔ دوسری علت: أبو إسحاق السبيعي کا اپنے شیخ کے تذکرہ میں اضطراب: ابواسحاق السبیعی نے روایت مذکورہ اپنے کس شیخ سے سنی ہے اس کے بیان میں موصوف اضطراب کے شکار ہیں ، موصوف نے: کبھی اپنے شیخ کا نام مبہم رکھا ، چنانچہ : امام إبراهيم بن إسحاق الحربي رحمه الله (المتوفى285)نے کہا: حَدَّثنَا عَفَّانُ حَدَّثنَا شُعْبَةٌ عَنْ أَبى إٍسْحِاقَ عَمَّنْ سمِعَ ابن عُمَرَ قَالَ خَدِرَتْ رِجْلُهُ فَقَيِلَ : اذْكُرَ أَحَبَّ النَّاسٍ . قَالَ : يَا مُحَمَّدُ [غريب الحديث للحربي 2/ 673 ، اسنادہ صحیح الی شعبہ]۔ اورکبھی اپنے شیخ کا نام عبدالرحمن بن سعد بتایا، چنانچہ: امام علي بن الجعد (المتوفى: 230) رحمہ اللہ نے کہا: أنا زهير، عن أبي إسحاق، عن عبد الرحمن بن سعد قال: كنت عند عبد الله بن عمر فخدرت رجله فقلت له: يا أبا عبد الرحمن، ما لرجلك؟ قال: " اجتمع عصبها من هاهنا، قلت: ادع أحب الناس إليك، قال: يا محمد، فانبسطت "[مسند ابن الجعد ص: 369 واسنادہ صحیح الی ابی اسحاق ، ومن طریقہ اخرجہ ابن السنی فی عمل اليوم والليلة :ص: 142 وابن عساکر فی تاريخ مدينة دمشق 31/ 177 والمزی فی تهذيب الكمال : 17/ 143، واخرجہ ایضا ابن سعد فی الطبقات الكبرى : 4/ 154رقم 5116، وابراہیم بن اسحاق الحربی فی غريب الحديث : 2/ 674 من طریق زہیربہ ، وتابع زہیر سفیان الثوری عندالبخاری فی الادب المفرد964 وابن سعد فی الطبقات 4/115 والدارقطنی فی العلل 3140لکنہ عنعن وھو مدلس ]۔ اورکبھی اپنے شیخ کا نام الهيثم بن حنش بتایا، چنانچہ: امام ابن السُّنِّي رحمه الله (المتوفى364)نے کہا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْذَعِيُّ، ثنا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: " اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَقَامَ فَكَأَنَّمَا نَشِطَ مِنْ عِقَالٍ "[عمل اليوم والليلة لابن السني ص: 141 واسنادہ ضعیف الی ابی اسحاق]۔ اورکبھی اپنے شیخ کا نام أبو بكر بن عياش بتایا، چنانچہ: امام ابن السُّنِّي رحمه الله (المتوفى364)نے کہا: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ، وَعَمْرُو بْنُ الْجُنَيْدِ بْنِ عِيسَى، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خِدَاشٍ، ثناأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ، عَنْ أَبِي شُعْبَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: «يَا مُحَمَّدَاهُ فَقَامَ فَمَشَى»[عمل اليوم والليلة لابن السني ص: 141واسنادہ ضعیف واسنادہ ضعیف الی ابی اسحاق]۔ تیسری علت: أبو إسحاق السبيعي کا اختلاط: لیکن اس علت کا پیش کرنا درست نہیں کیونکہ: اول تو ابواسحاق کا اختلاط اس درجہ کا نہیں تھا کہ ان سے اوہام کا صدورہو ۔ دوم سفیان الثوری کا سماع ابواسحاق سے ان کے اختلاط سے قبل ہے ، بعض طرق میں سفیان الثوری نے بھی ابواسحاق سے یہ روایت نقل کی ہے ، لیکن پھر اس پراعتراض یہ ہے کہ سفیان ثوری مدلس ہیں اورروایت عن سے ہے۔ چوتھی علت: عبد الرحمن بن سعد کی جہالت: عبدالرحمن بن سعد کو امام ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہاہے ، بعض لوگوں نے جو نسائی سے ان سے متعلق توثیق کاقول نقل کیا ہے تو امام نسائی سے یہ قول ثابت نہیں ، یاد رہے کہ امام مزی نے بھی عبدالرحمن بن سعد کے ترجمہ میں نسائی کی یہ توثیق ذکر نہیں کی ہے۔ تنیہ بلیغ: رویات مذکورہ کا ایک شاہد بھی ، چنانچہ: امام ابن السُّنِّي رحمه الله (المتوفى364)نے کہا: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عِيسَى أَبُو أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوْحٍ، ثنا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا غِيَاثُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خَيْثَمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ رَجُلٍ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَذَهَبَ خَدَرَهُ "[عمل اليوم والليلة لابن السني ص: 141]۔ یہ شاہد موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں غیاث بن ابراہیم ہے جو کذاب اور وضاع ہے چنانچہ: امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا: كذاب ليس بثقة[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/ 57]۔ امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا: غياث بن إبراهيم كان فيما سمعت غير واحد يقول كان يضع الحديث[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 23]۔ امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا: كان يضع الحديث على الثقات ويأتى بالمعضلات عن الاثبات[المجروحين - ابن حبان 2/ 201]۔ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا: تركوه واتهم بالوضع[المغني في الضعفاء للذهبي: ص: 114]۔ امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے اس کی تمام مرویات کے بارے میں کہا: غياث هذا بين الأمر في الضعف وأحاديثه كلها شبه الموضوع[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 7/ 113]۔
  15. @ ya Muhammadha ur post # 37 محترم میں اس کا بھی قائل ہوں کہ دعا میں بزرگوں کا وسیلہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ اور عندالقبر کسی ولی سے دعا کی درخواست کا بھی منکر نہیں گو اس کا فاعل نہیں۔ یہاں بات وسیلے پر نہیں بعد از وفات بزرگوں کو مدد کے لئے پکارنے پر ہو رہی ہے۔ برائے مہربانی موضوع کا خیال رکھیں۔ @ chisti qadri ur post # 38 میرے چند دوست انتقال کر چکے ہیں تو کیا میں اپنے مسائل میں ان کو مدد کے لئے پکار لیا کروں؟ محبت اور دوست کا معنی۔ درست فرمایا اپ نے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں شان نزول اور سیاق و سباق کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ شان نزول سے معنی کے مفہوم کو متعین کرنے اور اس کی حدود و قیود کے حوالے سے راہنائی ملتی ہے۔ شیعہ بھی اس روایت کے شان نزول اور سیاق و سباق کو نظر انداز کرتے ہوئے مطلق الفاظ روایت سے حضرت علی رض کی امامت ثابت کرتے پھرتے ہیں۔ بھائی قران کی رو سے فرشتے جبرائیل سارے مومن ولی اور مددگار ہیں تو کیا اب ہر فرشتے یا ہر مومن کو پکارنا ثابت ہو جائے گا؟ @ zulfi boy ur post # 39 فرشتوں کے بارے میں بتا دیا گیا ہے کہ کراما کاتبین کے علاوہ کچھ فرشتے ہیں جن کی ڈیوٹی پتے گننے پر ہے۔ پھر ان میں سے کسی کا نام نہیں بتایا گیا کہ فلان نام کے فرشتے کو ندا دو۔ لہذا حضرت جبرائیل اس میں نہیں اتے۔ میرا خیال ہے فرشتے فوت شدہ میں نہیں اتے۔ جب لفظ فی ھذاالوادی ائے گا تو کیا مخصوص مقام مراد نہیں ہو گا؟ جس وقت جہاں دیکھیں گے اس وقت تو وہ وہیں ہوں گے نا تو اس سے بات کلیئر ہو گئی جب حضرت موسی ہر وقت اور ہر جگہ موجود نہیں تو ان کو پکار بھی نہیں سکتے۔ سارے وفات شدہ بندے نہیں یہ صرف حضرت موسی کے بارے میں ایا ہے۔ اور ان کو بھی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا حالانکہ صحابہ بھی ساتھ تھے ان میں سے کسی نے نہیں دیکھا۔۔ اور ایک بات اور کہ ہم تو زیادہ تر شہروں میں رہتے ہیں وادیوں میں نہیں لہزا ہمتو ان کو نہیں پکار سکتے۔ کیسے؟ ur post # 40 توحیدی بھائی کی پوسٹ نمبر 28 دیکھ لیں بعض روایات میں صرف یا محمد بھی ایا ہے۔ باقی اس کا جواب انشا،اللہ کل توحیدی بھائی کو جواب دوں گا اس میں ملاحظہ کر لیجئے گا۔
  16. @ chisti qadri پہلی گزارش تو یہ ہے اپ سے درخواست ہے کہ میری راہنمائی فرمائیں کہ اپ نے اس طرح کے فانٹ میں پوسٹ کیسی کی ہے؟ اس بحث میں پڑے بغیر کے یہ روایت متواتر ہے یا نہیں عرض ہے کہ بریکٹ والے الفاظ روایت کا حصہ نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے چند شارحین نے یہی معنی لکھے ہوں کیونکہ مولی کے کئی معنی ہیں دوست مددگار محبت کرنے والا مالک سردار محسن وغیرہ اس کے علاوہ قران میں حضرت جبرائیل ملائکہ مومنین وغیرہ پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوا ہے۔ اور اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت علی رضی اور دیگر صحابہ کو یمن بھیجا گیا تھا وہان چند صحابہ کو اپ سے کچھ شکایات پیدا ہویئں اور اپ کے لئے ان کے دلوں میں بضض پیدا ہوا تو اس بس منظر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہو رہا کہ اب یا علی مدد کے نعرے لگانا شروع کر دئے جایئں۔
  17. @ ya Muhammadha جواب عنایت کرنے کا شکریہ۔ گزارش ہے کہ دعا میں بحق طفیل صدقے وغیرہ کے استمعال کا میں نہ صرف قائل ہوں بلکہ فاعل بھی ہوں۔ دوسری روایت جو اپ نے پیش کی اس سلسلے میں بھی عرض ہے کہ میں اس کا بھی قائل ہوں۔ روضہ انور پر جا کر طلب شفاعت یا دعا کی درخواست کرنے کو درست جانتا ہوں۔ لیکن مودبانہ عرض ہے کہ ان دونوں کا زیر بحث مسئلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
  18. یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے کہ حامد سعید کاظمی صاحب رہا ہو گئے ہیں۔امید ہے مقدمے کا فیصلہ بھی ان کے حق میں ہی ہو گا۔ لیکن ائندہ الیکشن بھی پی پی پی کے ٹکٹ پر لڑنے کے اعلان سے لگتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد بھی ابھی انھوں نے کچھ نہیں سیکھا۔ کاظمی صاحب جیسی پرسنالٹی کا پی پی پی کے ساتھ چلنا ہی بہت معیوب ہے۔
  19. میں نے قطعا یہ الفاظ استمعال نہیں کئے کہ مجھے تو خاص یا علی اور یا غوث کے خاص لفظ دکھاو۔ میں نے ٹائتل میں یہ لکھا تھا۔ یا علی مدد،یا غوث الاعظم مدد وغیرہ کہنے کے دلائل قران و حدیث سے بیان فرما دیں اور یہ بھی بطور مثال کے نام لئے تھے جس کی وضاحت میں نے پوسٹ نمبر 12 میں کر دی تھی۔ ملاحظہ فرمائیں۔ یا غوث الاعظم مدد کا بطور مثال ذکر کیا ہے اصل مقصد تو یہی معلوم کرنا ہے کہ قران و حدیث میں فوت شدہ بزرگوں کو مدد کے لئے پکارنے کے کیا دلائل ہیں۔ اور اس قبل پوسٹ 5 اور 7 میں بھی اپنے سوال کی وضاحت اور تشریح کر دی تھی۔ اور وہ یہ تھی۔ مطلقا کسی سے مدد مانگنے کا تو کوئی انکار ہی نہین کرتا اصل سوال تو فوت شدہ اولیا کو مدد کے لئے پکارنے کے بارے میں ہے۔ اس کا کوئی ثبوت قران و حدیث سے پیش کریں۔ میں نے صرف یہ پوچھا ہے کہ جس طرح قران و حدیث سے زندوں کا ایک دوسرے سے مدد مانگنے اور مدد کرنے کا ثبوت ملتا ہے اسی طرح قران و حدیث سے فوت شدہ لوگوں سے مدد مانگنے کے دلائل مہیا فرما دیں۔ یہ اپ کا ذاتی نظریہ ہے یا اپ کے پورے مسلک کا؟ یعنی جو چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت ہو جائے گی وہ اولیا کے لئے خود بخود ثابت ہو جائے گی؟ اور یا محمداہ والی روایت کے بارے میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ اس میں صاف لکھا کہ جس سے اپ کو محبت ہے اس کو یاد کریں۔ یاد کرنے اور مدد کے لئے پکارنے میں بہت فرق ہے۔ یا محمداہ کا گرامیٹیکلی اگر کوئی معنی مدد ہو بھی تو اس روایت میں وہ معنی استمعال نہیں ہوا کیونکہ ابن عمر کو جب کہا گیا کہ اسے یاد کرین جس سے اپ سب زیادہ محبت کرتے ہیں تو انھوں نے یہ الفاظ یوز کئے۔ ان سے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ مدد مانگیں بلکہ یاد کرنے کا کہا گیا تھا اور انھوں نے اس طریقے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کیا۔ اور دوسری بات کہ ابھی اس کی سند پر تو میں نے کوئی تحقیق ہی نہیں کہ ایا اس کی سند صحیح بھی ہے یا نہیں اس حوالے سے دو چار روز میں تحقیق کر لوں گا۔ انشا،اللہ Back to top Quote MultiQuote Report
  20. اپ نے امام شعرانی رح کی جو عبارت پیش کی ہے وہ یقینا ان کی شطیحات میں سے ہے پتہ نہیں کس رنگ اور ذوق میں یہ بات انھوں نے ارشاد فرمائی۔ وسیے بھی عقائد ان جیسی عبارتوں سے تو ثابت نہیں ہوتے۔
  21. @ zulfi boy اپ نے یہ سوال پوچھا تھا اس کے جواب میں نے اپ کو بتایا کہ عباد میں کون کون ہو سکتا ہے اور پھر روایت سے بتایا کہ ان میں فرشتے بھی ہیں۔ بےشک حضرت جبرائیل عباد میں اتے ہیں لیکن ان کو اس لئے نہیں پکار سکتے کہ روایت میں کسی متعین اور مخصوص فرشتے کو پکارنے کا ذکر نہیں ہے۔ اور جن روایات میں فرشتوں کا ذکر نہیں ہے ان بھی بتا دیا گیا ہےکہ زمین میں کچھ روکنے والے ہیں ۔ اینی وے ان روایات سے کسی طور فوت شدہ بزرگوں سے مدد مانگنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ میں یا رسول اللہ کہہ لیتا ہوں محبت میں ان احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسی علیہ السلام کو دیکھا ۔ اس سے حضرت موسی کا ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ یہ حیات الانبیا کا مسئلہ ہے اور میں حیات الانبیا کا قائل ہوں لیکن اس کا زیر بحث مسئلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ عقیدے مفروضوں اور قیاسات سے ثابت نہیں ہوتے۔ پہلے اپ اپنے دلائل مکمل کر لیں پھر انشا،اللہ میں بھی دلائل پیش کر دوں گا۔
  22. ماشا،اللہ کیا انداز گفتگو ہے میری پوری عبارت جو اپ نے بھی شروع میں کوٹ کی وہ یہ ہے۔ اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ قران و حدیث میں فوت شدہ بزرگوں کو مدد کے لئے پکارنے کی ایک بھی دلیل موجود نہیں تو کیا واقعی اپ یہ سمجھتے ہیں کہ قران و حدیث میں کتے کے حرام ہونے کی ایک بھی دلیل موجود نہیں؟
  23. @ mughal میں نے قران و حدیث کے دلائل کی بات کی تھی اپ نے دلائل کچھ اور دینا شروع کر دئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپ کی یہ پیش کردہ روایت کا زیر بحث مسئلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ قبر انور پر جا کر کوئی درخواست کرنا ایک جدا مسئلہ ہے۔ پھر امام ذہبی نے اس کی کوئی سند پیش نہیں کی۔ان میں اور راوی میں صدیوں کا بعد ہے۔ @ toheedi bhai اپ نے بھی جو واقعہ ہیش کیا ہے وہ بے سند ہے۔ کم از کم یہاں اس کی کوئی سند پیش نہیں کی گئی۔ پھر محترم شاعری شاعری ہوتی ہے تخیلاتی باتیں ہوتیں ہیں ۔ پھر اپ شاعر کے ان الفاظ پر غور کریں کہ کاش اپ ہماری یہ فریاد سن لیں۔ اس کا مطلب ہے شاعر کو بھی اس بات کا یقین نہیں کہ میری فریاد سنی جائے گی۔ قران و ھدیث سے کوئی دلائل پیش کریں یہ شعروں سے عقائید ثابت نہ کریں۔
  24. اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست ابو طلحہ سے کہتے کہ رات تم نے مقاربت کی ہے تو پھر بھی کوئی اپ کی بات میں وزن ہوتا۔ یہاں تو دریافت فرمایا اور اس کی وجہ میں نے بہان کر دی تھی۔ میں نے یہی حدیث ایک کٹر صاحب علم بریلوی دوست کے ساتھ ڈسکس کی تھی اس کا بھی یہی کہنا تھا کہ اس حدیث سے جو استدلال اچھروی صاحب نے کیا ہے وہ غلط ہے۔ اس روایت سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ جہاں کہیں جب کوئی میاں بیوی قربت کرتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں حاضر و ناظر ہوتے ہیں۔
  25. Dear burhan25. اپ نے جو سوالات پوچھے ہیں ان سے بات موضوع سے بالکل ہٹ کر دوسری طرف چلی جائے گی۔ ان سوالوں کے بغیر بھی میرے سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اپ کا دل رکھنے کے لئے کچھ عرض کئے دیتا ہوں۔ نام کے ساتھ تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون سا طبقہ ہے۔ بہرحال انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر جو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے راستے پر چل رہا ہے وہ اہل سنت و الاجماعت ہے۔ برائے مہربانی اس خاص فرقے کی نشاندہی ضرور فرمایئے گا۔ جو بھی استعانت و استمداد قران و حدیث سے ثابت ہے میں اس کا قائل ہوں۔ اگر اپ اپنے سوال کو کسی مثال سے واضح کرتے تو میرے جواب اسان ہوتا مجھے نہیں اپ کے ذہن میں کس قسم کی مدد ہے۔ میں پکارنے کا قائل نہیں ہوں۔ اپ کے سوال نمبر4 کا بھی میں جواب دینے سے قاصر ہوں۔ اپ سے گزارش ہے ان سوالات میں پڑنے کی بجائے اگر قران و حدیث میں فوت شدہ بزرگوں کو مدد کے لئے پکارنے کی کوئی دلیل ہے تو پیش فرما دیں۔
×
×
  • Create New...