Jump to content

محمد حسن عطاری

اراکین
  • کل پوسٹس

    855
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    25

سب کچھ محمد حسن عطاری نے پوسٹ کیا

  1. فیس بک پہ اکثر فیس بکی دیوبندی جہلا کی بے شرمی و ڈھیت پن کو جب جب میں دیکھتا تھا تو حیران رہ جاتا تھا کہ یہ لوگ اتنے ڈھیٹ و بے شرم کیوں ہیں تو دورانِ مطالعہ دیوبندیوں کے حکیم الامت اشر فعلی تھانوی کے ملفوظات کی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 321 مطبوعہ ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ ملتان دیکھی تو بات سمجھ آگئی کہ ان کے بڑے جب بے شرم تھے تو چھوٹے اتنے بڑے بے شرم و ڈھیٹ کیوں نہ ہوں آپ بھی پڑھیئے اصل اسکن پیشِ خدمت ہے : دیوبندی مفتی فرماتے ہیں ہاں بھائی ایسے بےشرم تو ہم ہیں مفت کی روٹیاں کھا لیتے ہیں ۔ (ملفوظاتِ حکیمُ الامت جلد نمبر صفحہ نمبر 321) دیوبندیو اب مت کہنا یہ عاجزی ہے کیونکہ تم تو ہر جگہ ظاہری الفاظ کو لے کر جگڑتے ہو اب اسے بھی مان لو کہ دیوبندی پیٹ کے پجاری و بے شرم ہیں ۔
  2. آئینہ اُن کو دیکھایا تو بُرا مان گئے حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب علامہ اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ میں خود کو کُتوں اور سوروں سے بھی بد تر سمجھتا ہوں اگر کسی کو یقین نہ ہوتو اِس پر حلف اٹھا سکتا ہوں ۔ (اشرف السوانح جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 58 مطبوعہ ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ ملتان جدید ایڈیشن،چشتی) جنابِ من اگر یہاں تواضع اور عاجزی ہے تو پھر سگِ مدینہ و سگِ غوث یا کسی بزرگ کے کے در کا سگ بطور عاجزی کہنے پر اعتراض کیوں ؟ اور مکتبہ فکر کے فیس بکی ڈھکنوں سے سوال آپ کے حکیم الامت فرما رہے ہیں میں خود کو کُتوں اور سوروں سے بھی بد تر سمجھتا ہوں اگر کسی کو یقین نہ ہوتو اِس پر حلف اٹھا سکتا ہوں ۔ اب جو خود کو حلف اٹھا کر کُتوں اور سوروں سے بھی بد تر کہہ رہا ہو کیا اُسے سور اور کتا بلکہ اُن سے بد تر کہہ سکتے اور اُس کے ماننے والے لوگوں کو بھی سور اور کتے بلکہ اُن سے بد تر کہہ سکتے ہیں ؟
  3. دیوبندیوں کے فقیہُ العصر جناب مفتی رشید احمد صاحب کہتے ہیں یہ گدھے ہمیں بتا رہے ہیں کہ تم بھی ہماری طرح گدھے ہو ۔ کیونکہ گدھا اس وقت رینکتا ہے جب اسے دوسرا گدھا نظر آتا ہے ۔ (خطبات رشید جلد 1 صفحہ 310 مطبوعہ کتاب گھر ناظم آباد نمبر 4 کراچی) اب آپ سب دوستوں کو سمجھ میں آجائے گا کہ موضوع کیا ہوتا ہے ، پوسٹ کس موضوع پر ہوتی ہے اور دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگ کیا ہانک رہے ہوتے ہیں ۔ یہ بات فقیہُ العصر دیوبند نے بتا دی کہ دیوبندی گدھوں کی طرح ہیں کیونکہ گدھا اس وقت رینکتا ہے جب اسے دوسرا گدھا نظر آتا ہے ۔ بالکل سچ کہا فقیہُ العصر دیوبند نے کیونکہ دیوبندی حضرات فیس بک پہ بالکل اسی طرح کرتے ہیں جیسے ہی ایک دیوبندی نے ھینک ماری یعنی رینکا تو بالکل اسی طرح سب رینکا شروع کر دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ موضوع کیاہے اوراُن کی ھینکیں اور ریکنا کیا ہےبس انہوں نے تو ریکنا ہے کیونکہ گدھوں کی طرح جو ہوئے بقول فقیہُ العصر دیوبند۔
  4. ایک شخص نے کہا احمد رضا یوں کہتا ہے تو حکیم الامت دیوبند ناراض ہوگئے کہ وہ عالم تو ہیں تمہیں عالم کی توہین کا حق نہیں اور وہ عالم ہیں ہمیں اُن کی توہین برداشت نہیں کافر و فاسق تو دور کی بات ہے ۔ (خطبات حکیم الاسلام جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 208) صرف اتنا پیغام اے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو غلیظ گالیاں دینے والے فیس بکی ڈھکنو کچھ شرم و حیاء کرو ہماری نہیں تو اپنے مہتمم اور حکیم الامت کی ہی مان کر بیہودہ بکواسات بند کردو ۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ بے شرم اپنے روحانی والد کی ہی مان لے بکواس کرتا رہتا ہے اب تک ایک حوالہ یا اسکین بھی پیش نہ کر سکا کچھ شرم کر ایسے ہی بکواس نہ کر ثبوت لا یا منہ بند رکھ شیطان اب ثبوت لا اپنے اکابرین کی کتاب سے ورنہ بکواس نہ کریں
  5. ایک شخص نے کہا احمد رضا یوں کہتا ہے تو حکیم الامت دیوبند ناراض ہوگئے کہ وہ عالم تو ہیں تمہیں عالم کی توہین کا حق نہیں اور وہ عالم ہیں ہمیں اُن کی توہین برداشت نہیں کافر و فاسق تو دور کی بات ہے ۔ (خطبات حکیم الاسلام جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 208) صرف اتنا پیغام اے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو غلیظ گالیاں دینے والے فیس بکی ڈھکنو کچھ شرم و حیاء کرو ہماری نہیں تو اپنے مہتمم اور حکیم الامت کی ہی مان کر بیہودہ بکواسات بند کردو ۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
  6. دیوبندیوں کی طرف سے گنگوہی کی کتاب امداد السلوک کے ترجمے میں خیانت و تحریف اصل کتاب میں صفحہ نمبر 101 پر (بتواتر ثابت شد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سایہ نداشت) ہے تواتر سے ثابت ہے حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سایہ نہ تھا اور امداد السلوک مترجمہ کے صفحہ نمبر 158 پر ترجمہ میں کر دیا شہرت سے ثابت ہے دیوبندیوں نے خیانت و تحریف کرتے ہوئے تواتر کو شہرت میں بدل دیا یعنی تواتر کا معنیٰ شہرت کر دیا کیوں اس لیئے کہ یہ اُصول مسلّمہ ہے کہ تواتر کا منکر کافر ہے یہ بھی دیوبندیوں کے امام العصر محدث دیوبند علامہ انور شاہ کشمیری نے فرمایا ہوا ہے ۔ دیوبندیوں سے سادہ سا سوال او کاکے دیوبندیو تواتر کا معنیٰ کیا ہے ؟ آخر تواتر کو شہرت میں بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
  7. دیوبندیوں نے تقویۃُ الایمان میں تحریف کردی پہلے ایڈیشن میں صفحہ 81 پرحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بتہان باندھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: میں مر کر مٹی میں ملنے والا ہوں اور دوسرے ایڈیشن کے صفحہ 78 پر تبدیل کر کے آغوشِ لحد میں سوجاؤں گا کر دیا اگر پہلی عبارت غلط نہیں تھی تو تبدیل و تحریف کیوں کی گئی اور اگر پہلی عبارت غلط اور توہین پر مبنی تھی جسے تبدیل کرنے کی ضرورت پڑی تو تبدیل و تحریف کرنے والے دیوبندی جواب دیں اُس سابقہ عبارت سے اسماعیل دہلوی اور دیوبندیوں نے توبہ کر لی تھی ؟ جواب دلیل اور حوالہ کے ساتھ دیا جائے ابھی تو ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا ۔
  8. دیوبندی عالم حسین احمد ٹانڈی کہتا ہے تقویۃُ الایمان میں حذف و الحاق ہوا ہے اس لیئے اسماعیل دہلوی کی طرف نسبت درست نہیں اور امامُ العصر دیوبند علاّمہ محمد انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں یہ کتاب عقائد پر ہے اور اس میں ضعیف احادیث ہیں جن سے عقائد تو کیا احکام بھی ثابت نہیں ہوسکتے ۔ (ملفوظات محدث کشمیری صفحہ نمبر 178 ،179) شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد ٹانڈی کے حلقہ بگوش مولوی احمد رضا بجنوری نے لکھا ہے کہ : افسوس ہے اس کتاب تقویة الا ایما ن پر جس کی وجہ سے مسلمانان ہندو پاک جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریباًّ نوے فیصد حنفی المسلک ہیں دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں ایسے اختلافات کی مثال دنیائے اسلام کے کسی خطے میں بھی ایک امام اور ایک مسلک کے ماننے والوں میں موجود نہیں ہے . (انوارالباری باب 11 صفحہ نمبر 107)
  9. امامُ العصر دیوبند انور شاہ کشمیری محدث دارالعلوم دیوبند کہتا ہے : میں تقویۃُ الایمان سے راضی نہیں ہوں محض اِس کے الفاظ وجہ سے مسلمانوں میں جھگڑے اُٹھ کھڑے ہوئے ، پانچ علمائے دیوبند پر مشتمل کیمٹی بنائی گئی اور انہیں اختیار دیا گیا اور تصحیح کا اختیار دیا گیا مگر اتفاق نہ ہو سکا ۔ (ملفوظات محدث کشمیری صفحہ نمبر177 ،178،چشتی) تفویۃُ الایمان کی گستاخانہ عبارات کا شَد و مَد سے دفاع کرنے والے دیوبندیوں کےلیئے لمحہ فکریہ جب امامُ العصر و محدث دیوبند اس فتنہ پرور کتاب سے راضی نہیں تھے تو تم کیسے راضی ہوگئے اور اس کے دفاع میں بیلوں کی طرح جُت گئے سوچیئے جناب۔ابھی تو ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔
  10. دیوبندی مذہب کا مفتی اعظم مفتی تقی عثمانی دیوبندی اپنی کتاب اکابرین دیوبند کیا تھے میں لکھتا ہے کہ : امامُ العصر محدث دیوبند جناب علامہ محمد انور شاہ کشمیری نے فرمایا جو چیز دین میں تواتر سے ثابت ہو اس کا منکر کافر ہے ۔ (اکابرِ دیوبند کیا تھے ؟ صفحہ نمبر 91) محترم قارئین کرام : دیوبندی مذہب کے قطب العالم جناب رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں : سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر ۔ (تذکرۃ الرشید جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 17) یہی دیوبندی مذہب کے قطب العالم جناب رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں : یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جسمِ اقدس کا سایہ نہیں تھا ۔ (امداد السلوک صفحہ نمبر 101 قدیم ایڈیشن فارسی) آج کے دیوبندی اس کے منکر ہیں لہٰذا ایسے دیوبندی حضرات جو اِس کے منکر ہیں اپنے ہی امامُ العصر محدث دیوبند جناب علامہ محمد انور شاہ کشمیری صاحب کے فتوے کی روشنی میں کافر ہوگئے
  11. بطور ساری جماعت علمائے دیوبند کا اقرار لکھتے ہیں : ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت بحمد للہ فروعات میں مقلد ہیں مقتدائے خلق حضرت امام ہمام امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اور اصول واعتقادیات میں پیرو ہیں امام ابوالحسن اشعری اور امام ابومنصور ماتریدی رضی اللہ عنہما کے اور طریق ہائے صوفیہ میں ہم کو انتساب حاصل ہے سلسلہ عالیہ حضرات نقشبندیہ اور طریقہ زکیہ مشائخ چشت اور سلسلہ بہیہ حضرات قادریہ اور طریقہ مرضیہ مشائخ سہروردیہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ۔ (المہند صفحہ نمبر 25 ، 26 مطبوعہ نفیس منزل کریم پارک لاہور،چشتی) نوٹ : انہیں صفحات پہ علمائے دیوبند کی طرف سے اپنے علماء اور غیر صحابی کےلیئے لفظ رضی اللہ عنہ کا استعمال بار بار کیا گیا ہے اگر یہی لفظ اہلسنّت و جماعت استعمال کریں تو دیابنہ کے فتنے پرور مفتیان طعن و تشنیع کے نشتر چلاتے ہیں مگر اپنے لیئے سب جائز اسے کہتے ہیں منافقت ۔ تعارف کتاب المہند علی المفند دیوبندیوں کے متفقہ عقائد پر مشتمل کتاب ہے جس کی تصدیق دیوبندیوں کے قدیم وجدید اکابرین نے کی ہے کتاب کے آخر میں یہ تصدیقات ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ اس کتاب کے تعارف میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے جو دیوبندی اس کتاب میں بیان کئے گئے کسی عقید ہ کو نہیں مانتا تو وہ دیوبندی کہلانے کا حقدار نہیں ۔ امام اہلسنّت أبو منصور الماتريدی رحمۃ اللہ علیہ اور عقیدہ علمِ غیب امام اہلسنّت أبو منصور الماتريدی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى : ۳۳۳هجری) فرماتے ہیں : إذ علم الغيب آية من آيات رسالته ۔ ترجمہ : علم غیب کا جاننا رسولوں کی رسالت کی دلیل ہے ۔ (تفسير الماتريدی تأويلات أهل السنة جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 541) محترم قارئین : علمائے دیوبند نے فخریہ طورپرخود کوعقائد میں الماتريدي تسلیم کیا ہے . (المہند صفحہ نمبر 25 ، 26 مطبوعہ نفیس منزل کریم پارک لاہور) علمائے دیوبند اور مکتبہ فکر دیوبند کے فتنہ پرور فسادیوں کو نمک حلالی کاثبوت دیتے ہوئے امام اہلسنّت أبو منصور الماتريديی رحمۃ اللہ علیہ کاعقیدہ علم غیب قبول کرنا چاہئے ۔
  12. بانی دارالعلوم دیوبند قاسم نانوتوی لکھتا ہے : فرض کیجیئے آپ کے زمانے میں کسی زمین پر کوئی نبی ہو تو وہ صفتِ نبوت میں آپ کا محتاج ہوگا ۔۔۔ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو تو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے ۔ (تحزیر النّاس صفحہ نمبر 16 قدیم ایڈیشن) بانی دارالعلوم دیوبند قاسم نانوتوی لکھتا ہے : یعنی اگر بالفرض آپ کے زمانے میں کوئی نبی ہو تو بھی خاتمیت محمدیہ میں کوئی فرق نہیں آئے گا (حاشیہ نمبر 1) ۔ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو تو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے ۔ (تحزیر النّاس صفحہ نمبر 13 ، 14 مطبوعہ کتخانہ رحیمیہ دیوبند) اسی عبارت پر جب علمائے حرمینِ مقدسہ نے سوال کیا تو علمائے دیوبند پھنس گئے اور کیا جواب دیا آیئے پڑھتے ہیں : سولہواں سوال : کیا کسی نبی کا وجود جائز سمجھتے ہو ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد حالانکہ آپ خاتم النبین ہیں اور معناً درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے ۔ آپ کا یہ ارشاد کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور اس پر اجماع امت منعقد ہوچکا ہے اور جو شخص باوجود ان نصوص کے کسی نبی کا وقوع جائز سمجھے اس کے متعلق تمہاری رائے کیا ہے اور کیا تم میں سے یا تمہارے اکابر میں سے کسی نے ایسا کہا ہے ؟ علمائے دیوبند نے دیا جواب اور نانوتوی صاحب ہوئے کافر پڑھیئے جواب جواب : ہمارا اور ہمارے مشائخ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے سردار وآقا اور ہمارے پیارے شفیع ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبین ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایاہے ۔ ’’محمد اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں‘‘ اور یہی ثابت ہے بکثرت حدیثوں سے جو معناً حد متواتر تک پہنچ گئیں اورنیز اجماع امت سے ، سو حاشا کہ ہم میں سے کوئی اس کے خلاف کہے ۔ کیونکہ جو اس کا منکر ہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے اس لیے کہ منکر ہے نص صریح قطعی کا ۔ (المہند صفحہ نمبر 46 ، 47 مطبوعہ نفیس منزل کریم پارک لاہور) (دونوں کتابوں کے اصل اکینز ساتھ دیئے جا رہے ہیں پڑھیئے اور فیصلہ خود کیجیئے کون سچا کون جھوٹا)۔
  13. قطب العالم دیوبند علامہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں مجھے کیا معلوم کوا کھانے میں اللہ نے اتنا اجر رکھا ہے ۔ (تذکرۃ الرشید جلد دوم صفحہ 64 ) قطب العالم دیوبند نے کوا کھانا حلال ہے کا فتویٰ دیا جب مخالفت میں فتوے آئے تو کہا مجھ کو کیا معلوم اللہ نے کوا کھانے میں اتنا اجر رکھا ہے ۔ (تذکرۃ الرشید حصّہ اوّل صفحہ 64 قدیم) میلاد و شب برات کے کے حلوہ کا مذاق اڑانے والو حلوہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی پسند ہے جب اس کا مذاق اڑاؤ گے تو یہ کوے ہی کھانے نصیب ہونگے اہم بات قطب العالم دیوبند نے اللہ پر بہتان باندھا کہ کوا کھانے میں اللہ نے اجر رکھا ہے دیوبندیوں کو چیلنج قرآن و حدیث میں کہا اللہ نے کوا کھانے پر اجر بیان فرمایا ہے ؟ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :یہ کوّے کہ ہمارے دیار میں پائے جاتے ہیں اور اُلّو یہ سب حرام ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 20 صفحہ نمبر 320 جدید) ۔
  14. انبیاء کرام علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا فرماتے ہیں اس حدیث کے متعلق غیر مقلد اھلحدیث وھابی حضرات کے بھت بڑے محقق جناب ارشاد الحق اثری لکھے ہیں یہ حدیژ حسن صحیح ھے اور اس کی اسناد جید ہیں پڑھیئے : (مسند ابی یعلیٰ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 379 تحقیق ارشاد الحق اثری غیر مقلد اھلحدیث) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
  15. دیوبندیوں کا پیشوا رشید احمدا گنگوہی اپنے فتاویٰ رشیدیہ میں لکھتا ہے : رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن صفت خاصہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ دیگر اولیا ء وانبیاء اور علمائے ربانین بھی موجب رحمتِ عالم ہوتے ہیں اگر چہ جناب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب میں اعلے ٰ ہیں ۔ لہٰذا اگر دوسرے پر اس لفظ کو بتاویل بول دیوے، تو جائز ہے۔ فقط بندہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر 244 دارالاشاعت کراچی،چشتی) ، (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر 245 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور) علمائے دیوبند کے نزدیک چونکہ مولوی رشید احمد صاحب عالم ربّانی ہیں اور ان کا حکم ہے کہ عالم ربانی کو رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن کہنا درست ہے ۔ لہٰذا علمائے دیوبند کے نزدیک مولوی رشید احمد رحمۃ للعالمین ہوئے ۔ اسی لئے مولوی رشید احمد صاحب نے اپنی رحمت کے بہت سے جلوے دکھائے ، جن میں سے ایک خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے ۔ وہ یہ کہ آپ نے "کوّا" کھانے پر ثواب مقرّر کردیا ہے ۔ یہ بے پیسہ اور بغیر دام ،مفت کا سیاہ مرغ مولوی رشید احمد صاحب نے حلال فرما کر اس کے کھانے والے کے لئے ثواب بھی مقررکردیا ہے ۔ اس سے زیادہ دیوبندیوں کے لئے اور کیا رحمت ہوگی کہ پیسہ لگے نہ کوڑی ، مفت ہی میں سالن کا سالن اور ثواب کاثواب ۔ اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ : رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن‘‘خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصفِ جمیل ہے اس میں دوسرے کو شریک کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان کو گھٹانا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ۔ ﴿سورۃُ الانبیاء آیت نمبر 107﴾ ترجمہ : اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نبیوں ، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ، مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ، حیوانات ، نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبدا للّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیامیں رحمت ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا ۔ (تفسیر خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳/۲۹۷،چشتی) امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عالَم ماسوائے اللّٰہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تو لاجَرم (یعنی لازمی طور پر) حضور پُر نور، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں، اُولیٰ وآخرت میں ،دین ودنیا میں، روح وجسم میں، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی ۔ (فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰/۱۴۱) اور فرماتے ہیں ’’حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ رحمۃٌ لِّلْعالَمین بنا کر بھیجے گئے اور مومنین پربالخصوص کمال مہربان ہیں ، رؤف رحیم ہیں ، ان کامشقت میں پڑنا ان پرگراں ہے ، ان کی بھلائیوں پرحریص ہیں ،جیسے کہ قرآن عظیم ناطق : ’’لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ‘‘ ۔ (سورہ توبہ:۱۲۸) (ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں) تمام عاصیوں کی شفاعت کے لئے تو وہ مقررفرمائے گئے : ’’وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ‘‘ ۔ (سورہ محمد:۱۹) (ترجمہ : اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۴/۶۷۴-۶۷۵) آیت’’وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ‘‘ اور عظمت ِمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ آیتِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عظمت و شان پر بہت بڑی دلیل ہے، یہاں اس سے ثابت ہونے والی دو عظمتیں ملاحظہ ہوں : (1) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مخلوق میں سب سے افضل ہیں ۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام عالَمین کے لئے رحمت ہیں تو واجب ہو اکہ وہ (اللّٰہ تعالیٰ کے سوا) تمام سے افضل ہوں ۔ (تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ۲/۵۲۱،چشتی) تفسیر روح البیان میں اَکابِر بزرگانِ دین کے حوالے سے مذکور ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام جہانوں کے لئے خواہ وہ عالَمِ ارواح ہوں یا عالَمِ اجسام ، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول سب کے لئے مُطْلَق ، تام ، کامل ، عام ، شامل اور جامع رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو تمام عالَموں کے لئے رحمت ہو تو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو ۔ (تفسیر روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵/۵۲۸) (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دونوں جہاں کی سعادتیں حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں کیونکہ جو شخص دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت و پیروی کرے گا اسے دونوں جہاں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت سے حصہ ملے گا اور وہ دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کرے گا اور جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان نہ لایا تو وہ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت کے صدقے عذاب سے بچ جائے گا لیکن آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت سے کوئی حصہ نہ پا سکے گا ۔ امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : لوگ کفر ، جاہلیت اور گمراہی میں مبتلا تھے ، اہلِ کتاب بھی اپنے دین کے معاملے میں حیرت زدہ تھے کیونکہ طویل عرصے سے ان میں کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف نہ لائے تھے اور ان کی کتابوں میں بھی (تحریف اور تبدیلیوں کی وجہ سے) اختلاف رو نما ہو چکا تھا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مبعوث فرمایا جب حق کے طلبگار کو کامیابی اور ثواب حاصل کرنے کی طرف کوئی راہ نظر نہ آ رہی تھی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں کوحق کی طرف بلایا اور ان کے سامنے درست راستہ بیان کیا اور ان کے لئے حلال و حرام کے اَحکام مقرر فرمائے ،پھر اس رحمت سے(حقیقی) فائدہ اسی نے اٹھایا جو حق طلب کرنے کا ارادہ رکھتا تھا (اور وہ ا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لا کر دنیا و آخرت میں کامیابی سے سرفراز ہوا اور جو ایمان نہ لایا) وہ دنیا میں آپ کے صدقے بہت ساری مصیبتوں سے بچ گیا۔(تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۸/۱۹۳،چشتی) تم ہو جواد و کریم تم ہو رؤف و رحیم بھیک ہو داتا عطا تم پہ کروڑوں درود حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت میں فرق : ویسے تو اللّٰہ تعالیٰ کے تمام رسول اور اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رحمت ہیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عین رحمت اور سراپا رحمت ہیں ، اسی مناسبت سے یہاں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت میں فرق ملاحظہ ہو،چنانچہ تفسیر روح البیان میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’وَ رَحْمَۃً مِّنَّا‘‘ ۔ (سورہ مریم :۲۱) ترجمہ : اور اپنی طرف سے ایک رحمت (بنادیں) ۔ اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حق میں ارشاد فرمایا : ’’وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ‘‘ ۔ ترجمہ : اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔ ان دونوں کی رحمت میں بڑا عظیم فرق ہے اور وہ یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رحمت ہونے کو حرف ’’مِنْ‘‘ کی قید کے ساتھ ذکر فرمایا اور یہ حرف کسی چیز کا بعض حصہ بیان کرنے کے لئے آتا ہے اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان لوگوں کے لئے رحمت ہیں جو آپ پر ایمان لائے اور اس کتاب و شریعت کی پیروی کی جو آپ لے کر آئے اور ان کی رحمت کا یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مبعوث ہونے تک چلا ، پھر آپ کا دین منسوخ ہونے کی وجہ سے اپنی امت پر آپ کا رحمت ہونا منقطع ہو گیا جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں مُطْلَق طور پر تمام جہانوں کے لئے رحمت ہونا بیان فرمایا ۔ اسی وجہ سے عالَمین پر آپ کی رحمت کبھی منقطع نہ ہو گی ، دنیا میں کبھی آپ کا دین منسوخ نہ ہو گا اور آخرت میں ساری مخلوق یہاں تک کہ (حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شفاعت کے محتاج ہوں گے ۔ ( تفسیر روح البیان ، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵/۵۲۸ )
  16. درسِ قرآن موضوع : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ ۔ تر جمہ : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔ اس آیت کی غلط تفسیر اِس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ ، یعنی اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنا شرک ہے،جس طرح اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کر نا شرک ہے۔اسی لئے ہم دوسرے بابا اور ولیوں کی بات تو دور ، اللہ کے رسول سے بھی مدد نہیں مانگ سکتے۔کیونکہ اِس آیت میں ہمیں یہیں سیکھا یا گیا ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور صرف اسی سے مدد مانگیں ۔ اس آیت کی صحیح تفسیر شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلق غیر اللہ سے مدد مانگنا ناجائز و حرام نہیں ہے اگر ما نگنے والا اُس غیر کو مظہر عون ِالٰہی کا جان کر مانگے تو یہ جائز و ثابت ہے۔(تفسیر عزیزی جلد 1 صفحہ 29 مترجم دیوبندی عالم) علامہ ابن کثیر ، حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا کہ وہ خالص اللہ کے لئے عبادت کریں (نہ کسی کو دکھانے کے لئے اور نہیں کسی اور مقصد کے لئے) اور اپنے معاملات میں اس سے مدد مانگیں ۔ رہی بات کہ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ” کو ” اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ” سے پہلے کیوں بیان کیا گیا ؟ یعنی عبادت کا بیان مدد کے بیان سے پہلے کیوں ہوا ؟ تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ عبادت تو صرف اسی کے لئے ہوتی ہے اور اِس میں کسی بھی دوسری چیزوں کے وسیلے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ لیکن اللہ کی مدد ، تو اللہ نے اس کے لئے بہت سارے ذریعے بھی بنائے ہیں جن ذریعوں سے بندہ اللہ کی مدد پاتا ہے ۔ یعنی عبادت صرف ڈائرکٹ ہوتی ہے اور مدد ڈائرکٹ بھی اور اِن ڈائراکٹ بھی ۔ اِس لئے عبادت کو پہلے اور مدد کو بعد میں بیان کیا گیا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد اوّل مترجم صفحہ نمبر 63 ، 64 مطبوعہ ضیاء القرآن) حکیم الامتِ دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : زندہ اور وفات یافتہ بزرگوں سے فیض حاصل ہوتا ہے اور مستعان حقیقی اللہ کو سمجھتے ہوئے مخلوق سے مدد مانگنے میں کوئی حرج نہیں اور نفع کا اعتقاد جائز ہے۔ ( اشرف التفاسیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 48 مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان،چشتی) حکیم الامت دیوبند اشرف تھانوی بھی شجرہ چشتیہ صابریہ امدادیہ میں کہتے ہیں کہ کھولدے دل میں درِ علم حقیقت میرے اب ہادئ عالم علی مشکل کشا کے واسطے یہی تھانوی صاحب لاہور میں حضور داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد کہتے ہیں؛بہت بڑے شخص ہیں۔ عجیب رعب ہے، وفات کے بعد بھی سلطنت کررہے ہیں ۔ (سفرنامہ لاہور و لکھنؤ، ص 50) یہی ہم اہلسنت کہتے ہیں مکتبہ فکر دیوبند کے احباب سے گذارش ہے آؤ اپنے حکیم الامت کی ہی بات مان لو اور فتوے لگا کر امت مسلمہ تفرقہ و اتنشار پھیلانا اور آپس میں لڑانا چھوڑ دو ۔ شیخ الاسلام دیوبند جناب علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب لکھتے ہیں:اللہ کے مقبول بندوں کو واسطہ سمجھ کر اگر مدد مانگیں تو جائز ہے ۔ ( تفسیر عثمانی پہلا ایڈیشن صفحہ نمبر 72 دوسرا ایڈیشن صفحہ نمبر 49 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی مکتبہ دیوبند،چشتی) یہی عقیدہ ہم اہلسنت و جماعت کا ھے کہ حقیقی مستعان اللہ رب العزت کی ذات ھے اللہ کے مقبول بندے واسطہ و وسیلہ ھیں ان سے مدد مانگنا در حقیقت اللہ سے مدد مانگنا ھے جیسا کہ علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب نے لکھا آپ احباب خود پڑھیئے اور فیصلہ کیجیئے ۔ مکتبہ فکر دیوبند کے لوگوں سے سوال یہی عقیدہ ہم اہلسنت و جماعت رکھیں تو مشرک و گمراہ کے فتوے لگاتے ھیں آپ لوگوں سوال یہ ھے کہ شیخ الاسلام دیوبند علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب یہی عقیدہ لکھ کر مشرک و گمراہ ھوئے کہ نہیں ؟ اگر مشرک و گمراہ ھوئے تو کس کس دیوبندی عالم نے ان پر فتویٰ لگایا ھے ؟ اگر فتویٰ نہیں لگایا تو خدا را امت مسلمہ پر رحم کیجیئے اور شرک شرک کے فتوے کے کھیل کھیل کر امت میں انتشار و فساد مت پھیلایئے ۔ مولوی اسماعیل دہلوی جو کہ دیوبندیوں اور غیرمقلدین میں یکساں معتبر ہے اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھتا ہے : حضرت علی المرتضیٰ کے لئے شیخین پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپکے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقامِ ولایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور ان ہی جیسے باقی خدمات آپ کے زمانے سے لیکر دنیا کے ختم ہونے تک آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے۔ اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں۔(صراط مستقیم، ص 98)۔ یہی اسماعیل دہلوی اپنے پیر سید احمد بریلوی کے بارے میں لکھتا ہے : جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی روحِ مقدس آپکے حال پر متوجہ حال ہوئیں ۔ (صراط مستقیم، ص 242،چشتی) حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : آج اگر کسی شخص کو کسی خاص روح سے مناسبت پیدا ہوجائے اور وہ اکثر اوقات اس سے فیضان حاصل کرے تو در حقیقت وہ فیضان حاصل کرتا ہے اس بزرگ کے ذریعے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یا حضرت غوث اعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے ۔ بس یہی مناسبت تمام ارواح میں ہے ۔ (حیات الموات، صفحہ نمبر 55) یہی حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛اس فقیر نے شیخ ابو طاہرکردی سے خرقہ ولایت پہنا اور انہوں نے جواہرِ خمسہ کے اعمال کی اجازت دی۔ اسی جواہرِ خمسہ میں ہے کہ یہ دعا پانچ سوبار پڑھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کہ وہ عجائبات کے مظہر ہیں، تو انہیں مصیبتوں میں اپنا مددگار پائے گا۔ ہر پریشانی اور غم ، یا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کی نبوت ، اور یا علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے صدقے میں فوراً دور ہوجاتا ہے ۔ یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (الانتباہ فی سلاسل اولیا، ص 157) کیوں جی منکر نجدیو ابن وھاب نجدی گمراہ کے پیروکارو مسلمانوں کو مشرک کہنے والو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مشرک ھوئے کہ نہیں ؟ کیا شاہ ولی توحید کو نہیں جانتے تھے اور شرک کی تعلیم دیتے تھے ؟ بستان المحدثین میں شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ ابو العباس احمد زردنی رحمۃ اللہ علیہ کے یہ اشعار نقل کرتے ہیں۔ انا لمریدی جامع لشتاتہ اذا مامطی جور الزمان بنکبتہ وان کنت فی ضیق وکرب وحشتہ فناد بیاز زوق ات بسرعتہ میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں جبکہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں اگر تو تنگی یا مصیبت یا وحشت میں ہو تو پکار کہ اے زروق ! میں فوراً آؤں گا نوٹ : اوپر جو آیت کر یمہ کی غلط تفسیر بیان کی گئی ہے ۔ اُس کے غلط ہو نے کی بہت ساری وجہیں ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہی ہے کہ اس آیت کی ایسی تفسیر ،نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ،نہ صحابہ نے اور نہ کسی بھی مفسر نے۔یعنی کہ یہ تفسیر صرف اپنی خاص سمجھ اور عقل کی روشنی میں کی گئی،نہ کہ احادیث یا اقوال صحابہ کی روشنی میں۔اور حضور نے فر مایا کہ:جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔اور بالفرض اگر اس نے صحیح بھی کہا تب بھی غلط ہے ۔ (ترمذی تفسیر القرآن) دوسری وجہ یہ ہے کہ اس تفسیر میں جو یہ کہا گیا کہ”غیر اللہ سے مدد مانگنا شر ک ہے ایسے جیسے غیر اللہ کی عبادت کر نا شرک ہے”بالکل ہی درست نہیں کیو نکہ یہ قرآن اور احادیث رسول کے خلاف ہے۔قرآن شر یف میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ۔اے ایمان والو !صبر اور نماز سے مدد چاہو ،بیشک اللّٰہ صابروں کے ساتھ ہے ۔ (سورہ بقرہ،آیت:۱۵۳) ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمیں ہمارے رب نے جس “صبر اور نماز” سے مدد چاہنے کا حکم دیا وہ اللہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز ہے۔جس میں اللہ نے بندوں کی مدد کر نے کی طاقت رکھی ہے ۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ : فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ۚ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ۔بے شک اللہ اُن کا مدد گار ہے اور جبرئیل اور نیک مومن اور اس کے بعد فر شتے مدد پر ہیں ۔ (سورہ تحریم،آیت:۴) اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ : اللہ مدد کر نے والا ہے اور جبر ئیل اورنیک مومن یعنی اللہ کے اولیا اور فر شتے۔یہ سب مدد کر نے والے ہیں۔جبکہ جبر ئیل اور اللہ کے نیک بندے اور فر شتے ۔یہ سب غیر اللہ ہیں،اور اللہ ہی نے ان سب حضرات کو مدد کر نے کی طاقت عطا فر مائی ہے۔اب سوال ہوتا ہے اگر اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنا شرک ہے جیسا کہ غلط تفسیر بیان کر نے والے کہتے ہیں ۔ تو پھر خود اللہ تعالیٰ ہی نے ایمان والوں کو کیوں اپنے علاوہ”صبر اور نماز”سے مدد مانگنے کا حکم دیا؟ اور یہ کیوں بیان فر مایا کہ”جبرئیل اور نیک مومن اور فر شتے بھی مدد کر نے والے ہیں” تو کیا اب غلط تفسیر بیان کر نے والے لوگ اِن آیتوں کا انکار کر یں گے یا پھر یہ کہہ کر اللہ کے نازل کئے ہوئے اسلام کو چھوڑ دیں گے کہ اِس میں شر ک کی تعلیم ہے۔اور ہمیں شرک بالکل پسند نہیں اس لئے ہم اپنے بنائے ہوئےاسلام کو مانیں گے،اللہ کے اُتارے ہوئے اسلام کو نہیں ۔ نعوذ باللہ من ذالک ۔ حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزاراتو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وضو وغیرہ کے لیے پانی لے کر حاضر ہوا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے سے ارشاد فرمایا : مانگ۔ تو میں نے عرض کی کہ : میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یہ مانگتا ہوں کہ میں جنت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ رہوں ۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا کہ : اور کچھ ؟ میں نے عرض کی : میری مراد توبس یہی ہے ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلّم نےفرمایا کہ : تب توکثرت سجود سے میری اعانت یعنی مدد کر ۔ (الصحیح المسلم رقم الحدیث :۴۸۹،سنن ابی داود،رقم الحدیث:۱۳۲۰،چشتی) اِس حدیث میں آیا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے سے مانگنے کے لئے کہا اور جب مانگنے والے نے ایک بہت ہی پیاری چیز مانگی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انکار نہیں فر مایا بلکہ فر مایا کہ اِس کے علاوہ اور بھی کچھ چاہئے ؟ جب انہوں نے کہا کہ نہیں، تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اُن سے فر مایا کہ تب تم زیادہ سے زیادہ سجدہ کر کے میری مدد کرو ۔ اگر اللہ کے علاوہ سے مانگنا شر ک ہوتا تو ۔ پہلی بات حضور جو دنیا سے شرک مٹانے کے لئے تشریف لائے کبھی اپنے سے مانگنے کے لئے نہیں کہتے۔دوسری بات خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اُن سے اپنی مدد کے لئے نہیں کہتے ۔ مگر جو ہوا وہ حدیث میں پوری امانت داری کے ساتھ محدثین نے بیان کر دیا ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ “غیر اللہ سے مدد مانگنا شر ک نہیں ہے” اور جو لوگ اِسے شر ک قرار دیتے ہیں وہ بالکل غلط نظر یہ ہے کیو نکہ اُس کو صحیح ماننے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ نعوذ باللہ خود ہمارے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شرک کیا جبکہ اِسے کوئی بھی مسلمان مان ہی نہیں سکتا ہے ، بلکہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک غلط فہمی کا اِزالہ غلط تفسیر بیان کر نے والے لوگ کہتے ہیں کہ : اس حدیث میں جو حضور نے خود سے مانگنے کے لئے کہا یا حضور نے جو خود اپنی مدد کے لئے کہا یہ سب زندوں سے مدد مانگنے کا واقعہ تھا۔اور ہم لوگ بھی زندوں سے مدد مانگنے کو شرک نہیں کہتے بلکہ مُردوں سے مدد مانگنے کو شر ک کہتے ہیں ۔ یاد رکھیں شر یعت بنانے کا حق اللہ عز و جل اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہے ۔ اِن غلط تفسیر بیان کر نے والے لوگوں کو نہیں کہ یہ جس کو شرک کہہ دے وہ شرک اور یہ جس کو ایمان کہہ دے وہ ایمان ہو جائے گا ۔ اور اللہ عز و جل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شر یعت میں جو چیز شرک ہوتی ہے وہ ہمیشہ اور ہر وقت شر ک ہوتی ہے۔ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی چیز دن میں شرک ہو اور رات میں ایمان بن جائے۔جیسے اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا شرک ہے ۔ تو اب اگر کوئی اللہ کے علاوہ کسی زندہ شخص کی عبادت کرے تو بھی شرک ہوگا اور اُس کے مر نے کے بعد اُس کی عبادت کرے تب بھی شرک ہوگا ، رات میں کرے گا تب بھی شرک ہوگا اور دن میں کرے تب بھی شرک ہوگا ۔ یہ قاعدہ کہ زندوں سے مدد مانگنا شرک نہیں اور وفات کے بعد مانگنا شرک ہے ۔ ایسا کس آیت یا کس حدیث میں ہے ؟ لوگوں کو اُن سے پو چھنا چاہئے ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ “غیر اللہ سے مدد مانگنا شر ک نہیں ہے بلکہ جائز ہے” جیسا کہ اوپر کےبیان سے ظاہر ہے ۔ مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر صرف “غیر اللہ” سے مدد مانگتے رہیں۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں اپنے رب سے مدد مانگیں کیو نکہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ اُس کا بندہ اُس سے مانگے ۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھے کہ “دعا” صرف اللہ سے ہوتی ہے ۔ جبکہ مدد کی فر یاد اللہ کے علاوہ سے بھی ہوتی ہے ۔ تو ایسا نہیں کہ ہم صرف غیر اللہ کے سامنے فر یاد کرتے رہیں اور اللہ کی بارگاہ میں فر یاد کر نا چھوڑ دیں ۔ اور ہاں کسی بھی غیر اللہ سے مدد مانگنے کے وقت یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں ہونی چاہئے کہ یہ صرف ایک ذریعہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مدد کی طاقت رکھی ہے اور حقیقت میں ہر چیز کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ہر غیر اللہ سے ہم مدد نہیں مانگ سکتے بلکہ صرف انہیں سے مدد مانگ سکتے ہیں جن کے بارے میں قرآن واحادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کے اندر مدد کر نے کی طاقت رکھی ہے ۔ جیسے انبیاعلیہم السّلام ، اولیاء اللہ ، شہدا علیہم الرّحمہ اور فر شتے علیہم السّلام وغیرہ ۔
  17. حضور ﷺ کو تو کہنا بے ادبی ہے تو کیا اعلی حضرت نے حضور کو تو کہا؟ اپنے اصول و فتاوی والے شرپسند دیوبندی بناسپتی وہابی کمپنی لمیٹڈ کے ایک اعتراض کا مسکت جواب گھمن دیوبندی لکھتا ہے: نبی پاک ﷺ کو تو کہنا گستاخی ہے۔ 1: فاضل بریلوی کے والد صاحب نقی علی خان صاحب لکھتےہیں: اگر ہندی اپنے باپ یا بادشاہ خواہ کسی واجب التعظیم کو تو کہے گا تو شرعا بھی گستاخ و بے ادب اور تعزیر وتنبیہ کا مستوجب ٹھہرے گا۔ 📗اصول الرشاد ص 228۔ 2: مولوی حنیف رضوی لکھتے ہیں: ہمارے دیار میں کسی معظم و بزرگ بلکہ ساتھی اور ہمسر کو بھی تو کہنا خلاف ادب اور گستاخی قرار پائے گا۔ 📗 مقدمہ اصول الرشاد ص 35۔ 3: حضور اقدس ﷺ کو صرف نام لے کر یا تو تا کر کے ۔۔۔ ہی پکارنا ہے تو تجھ میں اور ابوجہل و ابو لہب اور دیگر کفار و خبثاء میں کیا فرق رہے گا؟ 📗العطایا الاحمدیہ ج 5 ص 158۔ 4: اردو ز بان میں تو کہہ کر اپنے بڑے کو مخاطب کرنا گستاخی ہے۔ 📗 کنزالایمان خصوصی ایڈیشن، مکتبہ ضیاء القرآن ص 1100، انوار کنزالایمان ص 528۔ 5: اردو میں کسی بھی معزز و محترم ہستی کو لفظ تو سے مخاطب کرنا گستاخی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ 📗انوار کنزالایمان ص 28۔ اب دیکھیے فاضل بریلوی نے سورۃ القارعۃ آیت نمبر 3 اور آیت نمبر دس، 2: سورہ المنافقون آیت نمبر 4، سورہ الزمر کی آیت نمبر 21، 4: سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 41 یہی مثالیں بہت ہیں ورنہ اور بھی کئی ہیں ان میں فاضل بریلوی نے لفظ *تو* کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اب بریلوی حضرات سے پوچھ لیجیے کیا اپنے اصولوں پر کاربند ہوگے تو یقینا ان کو سانپ سونگھ جائے گا اور کاٹو تو خون نہیں والی مثال نظر آئے گی۔ 📗 (حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ ص ا75) الجواب: گھمن نے مسئلہ سمجھا نہیں اور گھمو گھما کر کفر ثابت کردیا۔ اگر غور سے جزئیات کو پڑھتے تو پتہ چل جاتا ہے کہ علمائے کرام نے تو اس صورت میں منع کیا ہے کہ جب امتی اپنے نبی علیہ السلام کو *تو* کہے یہ نہیں کہا کہ رب تعالیٰ کا نبی علیہ السلام کو *تو* کہنا بے ادبی ہے۔ پھر گھمن نے جو چند آیات پیش کی ہیں ان میں ہر جگہ خطاب حضور ﷺ سے نہیں ہے۔ قرآن پاک میں جہاں بھی خطاب کی ضمیر آئی ہے اس میں یہ ضروری نہیں کہ خطاب حضور ﷺ سے ہو کیونکہ بعض اوقات ضمیر واحد کی ہوتی ہے لیکن خطاب لوگوں سے ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ رب عزوجل کی شان نبی کریم ﷺ سے ارفع و اعلی ہے، رب عزوجل کا نبی کریم ﷺ کو *تو* کہہ کر مخاطب کرنا اس کے معبود ہونے کی شایان شان ہے۔ مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ کے تحت فرماتے ہیں: انبیاء علیھم السلام کو ظالم کہنا اہانت و کفر ہے جو کہے وہ کافر ہوجائے گا اللہ تعالیٰ مالک و مولیٰ ہے جو چاہے فرمائے اس میں ان کی عزت ہے دوسرے کی کیا مجال کہ خلاف ادب کلمہ زبان پر لائے اور خطاب حضرت حق کو اپنی جرات کے لیے سند بنائے۔ ہمیں تعظیم وتوقیر اور ادب و طاعت کا حکم فرمایا ہم پر یہی لازم ہے۔ 📗 (خزائن العرفان، سورۃ البقرہ آیت نمبر 35) اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے کنزالایمان ترجمہ میں درجات کے حساب سے ترجمے کیے ہیں۔ یعنی اللہ عزوجل کا مقام و مرتبہ سب سے بڑا ہے اس لیے جب اللہ عزوجل نے حضور ﷺ سے خطاب کیا ہے تو وہاں ترجمہ کبھی *تو* کیا اور کبھی *اے محبوب* کیا۔ لیکن جہاں انبیاء علیھم السلام سے ان کے امتیوں نے کلام کیا ہے، فرشتوں نے کلام کیا ہے تو وہاں تو کی بجائے ادبا آپ لکھا ہے۔ چند آیات کی نشاندہی کی جاتی ہے ترجمہ کنزالایمان ملاحظہ ہو:۔ 1: سورۃ ال عمران آیت 52، ترجمہ: پھر جب عیسی نے ان سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف حواریوں نے کہا ہم دین خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ 2: سورۃ المائدہ آیت 54: ترجمہ: بولے اے موسی ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں ہیں تو آپ جائیے اور آپ کا رب تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ 3: سورہ الاعراف آیت 115: ترجمہ: بولے اے موسی یا تو آپ ڈالیں یا ہم ڈالنے والے ہوں۔ اسی طرح جہاں اللہ عزوجل نے عمومی خطاب کیا وہاں کاف ضمیر کا ترجمہ تمہاری، تیری کیا ہے اور جہاں خاص نبی علیہ السلام سے خطاب ہے وہاں اے محبوب ترجمہ کیا ہے۔ چند آیات اس پر ملاحظہ ہوں: ۔ 1: ولقد انزلنا الیک اٰیٰت بینٰت وما یکفر بھا الا الفٰسقون۔ ترجمہ: اور بے شک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں اتاریں اور انکے منکر نہ ہوں گے مگر فاسق لوگ۔ 2: انا انزلنا الیک الکتٰب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ ولا تکن للخائنین خصیما۔ ترجمہ: اے محبوب بے شک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری کہ تم لوگوں میں فیصلہ کرو جس طرح تمہیں اللہ دکھائے اور دغا والوں کی طرف سے نہ جھگڑو۔ 3: یایھاالناس قد جاءکم برھان من ربکم ونزلنا الیکن نورامبینا۔ ترجمہ: اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اتارا۔ قربان جاؤں اعلی حضرت امام احم
×
×
  • Create New...