Jump to content

محمد حسن عطاری

اراکین
  • کل پوسٹس

    855
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    25

سب کچھ محمد حسن عطاری نے پوسٹ کیا

  1. Read Online وہابیت کے بطلان کا انکشاف.pdf
  2. اس ضمن میں مزید حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن سے معلوم ہو گا کہ کس طرح اکابرین دیوبند بتدریج منصبِ نبوت کی طرف گامزن رہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ؓ سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،اس (منہ مبارک) سے کوئی چیز نہیں نکلتی سوائے حق کے۔‘‘ [سنن ابو دائود(۳۶۴۶)،سنن دارمی(۱؍۱۲۵)] اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شان ہے کہ آپ کی ہر بات حق ہے اور اس کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی ہر بات حق ہو ۔ مگر اس کے مقابلے میں دیکھئے دیوبندیوں کا امام ربانی رشید احمد گنگوہی کیا بکواس کر رہا ہے سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر۔ [تذکرۃ الرشید: ج۲ص۱۷] دیکھا آپ نے کس طرح نبی ﷺ کی طرح رشید احمد گنگوہی صاحب اپنی زبان سے جو نکلے اسے حق بتا رہے ہیں ۔پھر دوسرا دعویٰ یہ کہ اس زمانہ میں ہدایت و نجات صرف اسی پر موقوف ہے کہ گنگوہی کی اتباع کی جائے،سبحان اللہ۔حالانکہ یہ بات باعث ہدایت و نجات نہیںبلکہ کفر و گمراہی ہے۔ چنانچہ دیوبندی حضرات کے الامام الکبیر قاسم نانوتوی نے کہا ’’کوئی شخص اس زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر اوروں کا اتباع کرے تو بیشک اس کا یہ اصرار اور یہ انکار از قسم بغاوت خداوندی ہوگا،جس کا حاصل کفر و الحاد ہے۔‘‘ [سوانح قاسمی ،حصہ دوم :ص۴۳۷] اس حقیقت سے معلوم ہوا کہ گنگوہی اپنی اتباع کی طرف دعوت دے کر لوگوں کو بغاوتِ خداوندی اور کفر و الحاد کی طرف بلاتا رہا۔ اسی طرح قاسم نانوتوی نے یہ بھی کہا ’’آج کل نجات کا سامان بجز اتباع نبی آخر الزمان محمد رسول اللہﷺ اور کچھ نہیں۔‘‘ [سوانح قاسمی ،حصہ دوم :ص۴۳۷] جب آپ نے یہ جان لیا ہے کہ نجات کا سامان صرف نبی ﷺ کی اتباع کے ساتھ خاص ہے تو رشید احمد گنگوہی کا ہدایت و نجات کو اپنی اتباع پر موقوف کرنا،اس بات کو بڑا واضح کر دیتا ہے کہ وہ خود کو کس مقام پر باور کروانا چاہتے تھا۔عقلمند کے لیئے اشارہ کافی ہے۔۔۔!!! مناظر احسن گیلانی دیوبند اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے حوالے سے قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی کے متعلق لکھتا ہے مولانا محمد قاسم صاحب میا ں شان ولایت کا رنگ غالب تھااور مولٰناگنگوہی میں شان نبوت کا۔ [سوانح قاسمی ،حصہ اول:ص۴۷۷] لیجئے یہاں پر تو بات ہی صاف کر دی گئی کہ رشید احمد گنگوہی میں شان نبوت کا رنگ صرف موجود ہی نہیں بلکہ غالب بھی تھا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ۔اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان کے نزدیک نبوت کا رنگ صرف رشید احمد گنگوہی میں ہی غالب تھا اور قاسم نانوتوی کی اس مقام تک رسائی نہ تھی بلکہ ان کے نزدیک نبوت کا فیضان تو قاسم نانوتوی کے قلب پر بھی ہوتا تھا۔ چنانچہ اس کے لیئے نیچے پیش کی جانے والی دیوبندی روایت ملاحظہ کریں اور خود دیکھئے کہ دیوبندی علماء و اکابرین کی پرواز غلو اور خود پسندی میں کہاں کہاں جا پہنچی ہے۔ ۳)اشرف علی تھانوی روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قاسم نانوتوی نے اپنے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ سے عرض کہا حضرت حالات و ثمرات تو بڑے لوگوں کو ہوتے ہیں۔مجھ سے جتنا کام حضرت نے فرمایا ہے وہ بھی نہیں ہوتا۔جہاں تسبیح لے کر بیٹھا بس ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے سو سو من کے پتھرکسی نے رکھ دیئے ہوں۔زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔میں ہی بد قسمت ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی نے زبان کو جکڑ دیا ہو۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے اس بات کو سن کر اپنے ہونہار مرید نانوتوی سے کہا مبارک ہویہ نبوت کا آپ کے قلب پر فیضان ہوتا ہے اور یہ وہ ثقل(وزن) ہے جو حضور سرور عالم ﷺ کووحی کے وقت محسوس ہوتا تھا۔معاذ اللہ ثم معاذ اللہ [قصص الاکابر:ص ۱۱۴۔۱۱۵، سوانح قاسمی،حصہ اول:ص ۳۰۱] لیجئے جناب دیوبندیوں کے الامام الکبیر قاسم نانوتوی پر ان کے بقول نبوت کا فیضان بھی ہوتا تھا اور وہ بوجھ بھی ویسا ہی محسوس کرتے تھے جیسا نبی ﷺ بوقتِ وحی محسوس کرتے تھے(معاذ اللہ)۔ خصوصیاتِ نبوت میں سے باقی کیا رہ گیا ہے جس سے اکابرین ِدیوبند سرفراز قرارنہ دیے گئے ہوں اشرف علی تھانوی کو اس کے ایک مرید و عقید ت مندنے خط لکھا جس میں اپنی حالت کے بارے میں کہتا ہے خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں لیکن محمد رسول اللہ کی جگہ حضور(تھانوی ) کا نام لیتا ہوں اتنے میں دل کے اندر خیال پیدا ہوا کہ مجھسے غلطی ہوئی کلمہ شریف کے پڑھنے میں اسکو صحیح پڑھنا چاہئے اس خیال سے دوبارہ کلمہ شریف پڑھتا ہوں دل پر تو یہ ہے کہ صحیح پڑھا جاوے لیکن زبان سے بیساختہ بجائے رسول اللہ ﷺ کے نام کے اشرف علی نکل جاتا ہے حالانکہ مجھے اس بات کا علم ہے کہ اس طرح درست نہیں لیکن بے اختیاری زبان نکل جاتا ہے .....جاری ہے
  3. پھر یہ کہ دیوبندیوں کی ذاتِ پر علم کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہوتو دریافت طلب یہ امر ہے کہ علم سے مراد تھوڑا علم ہے یا پورا علم اگر تھوڑا علم مراد ہے تو اس میں دیوبندیوں ہی کی کیا خاصیت ۔ایسا علم تو زید وعمر و بلکہ ہر بچہ ہر پاگل بلکہ تمام حیوانات اور بہائم کو بھی حاصل ہے توہین ہوئی یا نہیں؟ جبکہ ایسا ہی آپ کا مولوی اشرف علی تھانوی ہمارے رسول کے لئے کہتا ہے اصل عبارت یہ ہے، پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہوتو دریافت طلب یہ امر ہے کہ غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب ۔اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کیا تخصیص ہے ۔ایسا علم غیب تو زید وعمر و بلکہ ہر صبی (بچ ) مجنون (پاگل) بلکہ جمیع (سارے) حیوانات و بہائم (چار پیر والے جانوروں) کے لئے بھی حاصل ہے ۔" (حفظ الایمان، ص 16) اب بتاؤ یہ رسول الله کی توہین ہے یا نہیں؟ اگر کوئی کہے گوشت کھانے میں آپ کی کیا تخصیص ایسا گوشت تو کتے، بلی، گیدڑ، لومڑی، چمار، بلکہ سبھی جانور کھاتے ہیں تو یہ غلط بات ہوگی یا نہیں انصاف سے کہنا سچ بات ہے کہ کتا بھی گوشت ہے اور تم بھی کھاتے ہو تو کیا اگر کوئی انسان آپ کے گوشت کھانے کو کتے کے گوشت کھانے کی طرح کہے تو برا نہیں لگے گا؟ *نبی کی شان میں ہلکی سی گستاخی بھی کفر ہے* اور یہی کافر، شرک و بدعت کے جھوٹے فتوے ہم پر لگا کر اپنے منہ خود مشرک و بدعتی بنتے ہیں *ان مما اخاف علیکم رجل قرا القرآن حتی اذا رویت بھجة علیه وکان رداؤہ الاسلام اعتراہ الی ما شاء الله انسلخ منه و نندہ وراء ظھرہ وسعی علی جارہ بالسیف المرصی او نرامی فقال بل راقی، ھذا اسناد جید (تفسیر ابن کثیر، 6/265)* وہ امور جن کے بارے میں تم پر خوف زدہ ہوں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شخص قرآن پڑھے گا حتی کہ جب اس کی رونق اس پر نمایاں ہوگی اور اس پر اسلام کی چادر لپیٹی ہوگی تو اللہ تعالی اسے جدھر چاہے گا لے جائے گا اور وہ اس کو پس پشت پھینک دے گا اور اپنے پڑوسی پر سوار کے ساتھ حملہ کرے گا *اور اپنے پڑوسی کو مشرک کہے گا، عرض کی ان میں سے مشرک کون ہوگا جو دوسرے کو مشرک کہنے والا ہے یا جسے مشرک کہا گیا؟ آپ نے فرمایا دوسروں کو مشرک کہنے والا خود مشرک ہونے کا حقدار ہے* اس حدیث سے مطلب واضح ہوگیا ہے نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم پر کس چیز کا خوف تھا، امت میں شرک کا؟ یا مشرک مشرک نعرہ لگانے والوں کا؟
  4. اشرف علی تھانوی میں تو اپنے کو کتوں اور سوروں سے بھی بدتر سمجھتا ہوں اگر کسی کو یقین نہ ہو تو میں اس پر حلف اٹھا سکتا ہوں (اشرف السوانح،جلد سوم چہارم، ص57) 2) یعقوب نانوتوی: یہ شیخ زادہ کی قوم بڑی خبیث ہے پھر بےساختہ فرمایا کہ میں بھی خبیث ہوں (ملفوظات حکیم الامت، جلد 6، ص 300) 3)مسیح الدیوبند: فرمایا میں تو خنزیر سے بھی حقیر ہوں (فیضان معرفت، جلد 1، ص 77) 4) حسین احمد ٹانڈوی: میں اتنا بڑا پیٹ کا کتّا ہوں کہ دینی خدمات دنیا کے بدلہ میں کرتا ہوں (آداب الختلاف، ص 174) 5) خلیل احمف انبیٹھوی: میں اپنے آپ کو آپ (گنگوہی) کی روٹیوں پر پلنے والے کتے سے بھی بدتر سمجھتا ہوں (اکابر کا مقام تواضع، ص168) 6) فضل علی قریشی: میں تو اس در (خانقاہ موسی زئی) کا کتا ہوں مجھے جوتوں کے قریب بیٹھنا چاہیے (اکابر کا مقام تواضع، ص 189) 7) عبدالعفور مدنی: حضرت یہ لوگ مجھے پہچانتے ہیں اس لئے گدھا کہتے ہیں (اکابر کا مقام تواضع، ص355) 😎 قاسم نانوتوی: امیدوں لاکھوں ہیں میری مگر بڑی ہے یہ کہ ہو سگان مدینہ میں میرا نام شمار جیوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں مروں تو کھائیں مدینے کے مجھ کو مرغ ومار (قصائد قاسمی، 5) بانی فرقہ دیوبند کہتے ہیں یوں تو لاکھوں خواہشیں ہیں لیکن سب سے بڑی یہ خواہش ہے کہ میں گنتی مدینے کے کتوں میں ہو، کتوں کے ساتھ جیوں اور پھروں اور مر جاؤں تو مدینے کے مرغ اور چیونٹیاں مجھ کو کھا جائیں تبصرہ : بانی دیوبند کی یہ خواہش تو پوری نہیں ہوئی البتہ انہوں نے عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈال کر خود کو جھنمی مرغ و مار کے حوالے کر دیا.
  5. ہاں یا ناں میں جواب دو بالفرض کتے کو بعض علوم عطا کر دیے جائیں تو یہ کہنا کہ بعض علوم میں دیوگندیوں کی تخصیص، ایسا علم تو کھجلی والے کتے کو بھی ہے، گستاخی ہے یا نہیں اگر ہے اور بالکل ہے تو پھر حفظ الایمان لکھنے والے اس پلید شخص کو مسلمان کس منہ سے کہتے ہو اور پیروی کس لیے؟ جس نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں یہ لکھا ہے؟ اسکین نیچے موجود ہے.
  6. جناب سید ایوب علی رضوی فرماتے ہیں کہ حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی عمر شریف تقریباً 5۔6 سال ہوگی اس وقت صرف ایک بڑا کُرتا پہنے ہوئے باہر تشریف لائے کہ سامنے سے چند طوائف زنان بازاری گزریں ، آپ نے فوراً کرتے کا اگلادامن دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر چہرہ مبارک کو چھپا لیا یہ کیفیت دیکھ کر ایک طوائف بولی واہ صاحب منہ تو چھپالیا اور ستر کھول دیا آپ نے برجستہ اُس کو جواب دیا جب نظر بہکتی ہے تب دل بہکتا ہے ، جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے یہ جواب سن کر وہ سکتہ کے عالم میں ہوگئی۔ (حیات اعلی حضرت ، جلد اوّل ، مطبوعہ کراچی، صفحہ 23) امام احمد رضا علیہ الرحمہ کا یہ جواب خرق عادت ہے، ورنہ اتنی چھوٹی عمر میں ایسا دانائی والا جواب دینا محال ہے، امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی کیفیت پر سب سے پہلے اعتراض فاحشہ عورتوں نے کیا اور امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے خرق عادت کے طور پر دانائی والا جواب دیا، اب جو بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے اس جواب پر اعتراض کرتا ہے وہ فاحشہ عورتوں کی نمائندگی کرتا ہے اور جو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ پر اس اعتراض کا جواب دیتا ہے وہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی نمائندگی کرتا ہے ، یہ اپنی اپنی قسمت ہے یہاں ایک اور مزے والی بات بتاؤں آپکو کہ وہ رنڈیاں اور طوائفیں ہونے کی وجہ سے سمجھ گئیں کہ اس بچے نے کرتا کس وجہ سے اٹھایا اور انھوں نے بر ملا اظہار بھی کیا کہ تمھاری اس حیا سے تمھارا ستر ظاہر ہو گیا مطلب انھیں بھی معلوم تھا کہ بچہ شرم و حیا والا ہے اور جب اس بچے کا مزاق اڑانے کی کوشش کی تو جوب سن کر سمجھ گئیں کہ بچہ نہ صرف شرم و حیا والا ہے بلکہ عقلمندی کی بھی انتہا پر ہے آج یہ دیو کے بندے اور وہابی نجدی خبیث ان طوائفوں سے ہزار درجے گری ہوئی سوچ رکھ کر اپنے آپ کو ان طوائفوں کی جگہ رکھ کر سوچتے ہیں *کہ یہ بچہ انھیں غلط نظر سے دیکھ رہا ہے * جو بات وہ رنڈیاں اور طوائفیں نہیں سوچ سکی وہ یہ ولی الشیطان سوچتے ہیں دوستو ان خارش زدہ کلاب النار کا قصور نہیں انکے گھر میں ماں بہن بہو اور بیٹی سے نفس کی مالش تک کروا سکتی ہیں جب اہلسنت نے انکا رد کیا تو انھیں لگا کہ ہمارے دھرم کے مطابق نفس کی مالش آپ کسی سے بھی کروا سکتے ہو تو انھوں نے دلیل کے طور پر اعلیٰ حضرت کے ستر والی عبارت دلیل بنا دی حالانکہ یہ بھول گئے کہ یہاں 5-6 سالہ وہ کمسن بچہ ہے جس سے بے اختیار انکی ماؤں یعنی رنڈیوں سے جنکے کوٹھے آباد کرنے کے لیے انکے بابے تعویز گنڈے کیا کرتے تھے ان سے پردہ کرلیا یاد رہے یہ اس وقت کی بات ہےجب انکے ابو اور چاچو 12 سال کی عمر میں پیشاب سے کھیلتے اور مسجدسے جوتیاں چراتے تھے جب انکے بابے 12 سال کی عمر میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے کے سر پر پیشاب کر رہے تھے اس وقت ان ملعون خارش زدہ خارجیوں کو لگتا ہے کہ 5 سالہ بچہ شہوت پرست تھا امت مسلمہ کے مخالف نجدیوں کو اعتراض ہی کرنا ہے تو کوئی ڈھنگ کا کریں یہ بھی کوئی اعتراض ہے اعتراض ایسے ہوتا ہے یہ نجدی کہتے ہیں کہ ماں سے زنا عقلا جائز ہے جب اہلسنت اعتراض کرتی ہے تو کہتے ہیں کہ جب پورا ماں کے اندر تھا تو کوئی بات نہیں اب تھوڑا سا اندر جاتا ہوں تو اعتراض کیسا؟؟؟؟؟ استغفراللہ یہ تو حالت ہے انکی اعتراض کرنا ہے تو ایسے کرو ایک نجدی کہتا ہے کہ میں اپنی ماں بہن بیٹی بہو سے ہر جگہ کی مالش کرواسکتا ہوں یہاں تک کہ نفس پر بھی مالش کرواسکتا ہوں ( اور بہت مزا بھی آتا ہے ) نجدی دھرم کے منوں ایسے ہوتا ہے اعتراض یہ کیا اعتراض ہوا ایک کمسن بچے نے آپکے ماؤں سے نفرت کا اظہار کردیا تو تم ابھی تک اپنی ماؤں کے دکھ میں ابھی تک ماتم کرتے چلے آرہے ہو 😉😉😉😉😉😉😉😉😉😉😉😉 افسوس ہے ان ملعونوں پر جب انھیں ہمارے عقائد پر اعتراض نہیں ملتا تو یہ کردار کشی کرکے اپنے دھرم کے جاھلوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور انکے جاھل نجدی واہ واہ کر کے باآسانی جاھل بن بھی جاتے ہیں اللہ پاک ایسے گمراہ اور جاھل فتنہ پرستوں سے ہماری نسلوں کو محفوظ رکھے
  7. دیوبندی مفتی جمیل احمد نذیری ملا علی قاری کے حوالے سے لکھتا ہے *جمہور نے انبیاء کرام سے گناہ کبیرہ کا صدور سہواً اور صغیرہ کا عمداً جائز قرار دیا ہے* 📗(رضاخانی ترجمہ و تفسیر پر ایک نظر، ص62) دیوبندیوں کے انور شاہ کاشمیری جمہور علماء کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے *قبل النبوہ و صغار و کبائر کا صدور ہوسکتا ہے بعد النبوۃ کبائر کا سہواً اور صغائر کا عمداً ہوسکتا ہے* 📗(انوار الباری، ج، 11،ص،111) الیاس گھمن انوار الباری کے بارے میں لکھتا ہے *انوار الباری بخاری کی بہترین شرح ہے* 📗(المہند اور اعتراضات کا علمی جائزہ، ص30) دیوبندی رشید محمود کا خلیفہ سہول عثمان لکھتا ہے: *انبیاء علیہم السلام سے قبل وحی آنے کے اہل سنت وآلجماعت کے نزدیک کبھی نادر گناہ کبیرہ کا صادر ہونا جائز ہے....... شرح العقائد ص، 102 میں ہے *واما قبلہ (الوحی) فلا دلیل علی امتاع صدور الکبیرۃ* 📗(فتاویٰ سہولیہ ،ص586) ایک مقام پر اکثر جمہورکا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے *حالانکہ انبیاء سے کذب کے علاوہ دیگر کبائر کا سہوا بعد نبوت صادر ہونا اکثر نے جائز کہاہے اور باستثاء ان صغائر کے جو خست اور دنائت پر دال ہوں دیگر صغائر کا عمداً نبی سے صادر ہونا جمہور نے جائز قرار دیا ہے اور سہوا تو بالاتفاق جائز ہے. اور نمبر 1 میں گزر چکا ہے کہ کبائر کا بھی ان سے صدور جائز ہے* 📗(فتاویٰ سہولیہ ،ص586) ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ دیوبندیوں کے نزدیک انبیاء سے گناہوں کا صدور ہوسکتا ہے [......... مخالف.......... ] سپاہ صحابہ کا مشہور مولوی رب نواز "گستاخ کون" کی ہیڈنگ دے کر لکھتا ہے *بریلوی حکیم الامت صاحب آگے پیش قدمی کرتے ہوئے انبیاء سے کبیرہ گناہ کے صدور کو کس طرح تسلیم کرتے ہیں...... ہاں نسیانا خطاً صادر ہوسکتے ہیں.... جاءالحق... اور کفر سے محفوظ ہوناتو ہر ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو صرف کفر سے معصوم مان کر باقی گناہوں کے صدور کا عقیدہ سرتا سر باطل اور غیر اسلامی ہے* 📗(راہ سنت شمارہ نمبر 3،ص13) دیوبندی پروفیسر ابوالحقائق "گستاخ کا چہرہ" کی ہیڈنگ دے کر لکھتا ہے *گستاخی 13 انبیاء کرام سے چھوٹے بڑے گناہوں کے صدور کا اقرار، مفتی احمد یار...... ہاں خطاً یا بھول کر ایسا صغیرہ گناہ سرزد ہوسکتا ہے* *قارئین کرام اہلسنت و جماعت دیوبندی کا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام صغیرہ گناہ سے بھی معصوم ہوتے ہیں (یہ جھوٹ ہے ورنہ انور شاہ نے لکھا ہے کہ گناہ صغیرہ عمداً ہوسکتے ہیں. از ناقل).... ان کے دل کی کیفیت دیکھئے اور عقیدے کی غلاظت ملاحظہ کیجئے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو کس طرح اپنے غلط عقیدہ کا نشانہ بنارہے ہے* 📗(دو ماہی رسالہ نور سنت شمارہ نمبر 4، ص37-38) دیوبندی بکواسی مولوی ساجد خان لکھتا ہے *ہمارا تو عقیدہ یہ ہے کہ نہ ان سے صغائر و نہ کبائر کا صدور ممکن ہے.... (یہ بھی جھوٹ ہے کیونکہ انور شاہ تو گناہ صغیرہ کے صدور کا قائل ہے، یہ جاہل اپنے محبوب دوستوں کی طرح تقیہ گردان پڑھ کر تقیہ کررہا ہے :از ناقل) دیکھا ان کے ہاں تو معاذ اللہ انبیاء سے نسیاً سے اور خطاً گناہ کبیرہ بھی صادر ہوسکتے ہیں، رضا خانیوں اب وہ وقت نہیں کہ تم اپنے مکروہ چہرے پر جعلی نقاب اوڑھ کر عوام سے چھپے رہ سکو یہ نقاب نوچ لیا گیا ہے. دوسروں کے اکابر کی پگڑیاں اچھالنے والے مت بھولیں کہ ان کے اکابر کی پگڑیاں بھی بیچ بازار اچھالی جاسکتی ہیں، بہت برداشت کرلی اولیاء اللہ پر تمہاری یہ بکواس اب نہیں سنی جائے گی* 📗( نورسنت کا ترجمہ کنزالایمان نمبر، ص244) نوٹ: ساجد خان دیوبندی نے اپنے اکابر کی قبروں میں مزید اندھرا کردیا اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمۃ جیسے ولی کامل کی توہین کا نتیجہ یہ ہے کہ خود تمہارے منہ سے نقاب اتر گیا، اتنا کہتا ہوں کہ تمہارے اپنے ہی اکابر کا چہرہ بے نقاب ہوا ہے تم نے اپنے ہی اکابر کے چہرے سے نقاب نوچا ہے اور تم نے اپنے ہی اکابر کی پگڑیاں اچھالی ہیں نہ کہ کسی اور کے اکابر کی {......... نتیجہ..........} انور شاہ کاشمیری اور جمیل احمد اور رشید محمود کا خلیفہ درج ذیل صفات سے متصف ہیں *گستاخ، ان کا عقیدہ سراسر باطل، غیر اسلامی، ان کا چہرہ گستاخ، انہوں نے انبیاء کی گستاخی کی، ان کا غلیظ عقیدہ، دیوبندیت سے خارج
  8. ڈ آلِ دیوبند کا امام ربانی قطب ربانی اور غوث اعظم رشید احمد گنگوہی لکھتا ہے حدیث میں آپ نے خود ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے بھائی کہو۔ 📘(فتاوی رشیدیہ کامل ص 241) حالانکہ یہ بات کسی حدیث میں نہیں ہے۔ دیوبندیوں کے رئیس المفسرین حسین علی واں بچھروی نےلکھا ہے: جیسا کہ زینب کو طلاق قبل الدخول دی گئی اور رسول اللہ صلعم نے اس سے بلا عدت نکاح کر لیا۔ 📘(بلغتہ الحیران ص 267) حالانکہ یہ سراسر بہتان ہے۔ آل دیوبند کے مناظر اعظم ماسٹر امین اوکاڑوی نے دھوکہ و فریب اور کذب و افتراء کی ایک نہایت بری مثال قائم کرتے ہوئے رسول اکرم کی یوں توہین کی ہے: آپ نماز پڑھاتے رہے کتیا سامنے کھیلتی رہی اور ساتھ گدھی بھی تھی، دونوں کی شرمگاہوں پر نظر بھی پڑتی رہی۔ 📘 (غیر مقلدین کی غیر مستند نماز ص 38) پروفیسر کریم بخش دیوبندی (جس کی بھر پور تائید سرفراز خاں گکھڑوی نے کررکھی ہے) نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت کا یوں انکار کیا ہے: مسند احمد جلد 5 ص 408 میں اس صحابی (حضرت حذیفہ) کی بے شمار روایتیں موجود ہیں مگر اس جھوٹی روایت (ان استشارنی امتی۔۔۔۔) کانام و نشان ندارد۔ 📘 (چہل مسئلہ ص 10) حالانکہ مسند احمد جلد 5 ص 25 پر موجود یہ حدیث شریف اہل محبت کے سکون اور اہل نفرت کی بیماری میں اضافہ کررہی ہے، گویا ایک طرف اپنے گستاخانہ دھرم کی تبلیغ کے لیے حدیثیں گھڑنا اور دوسری طرف اسی مذموم مقصد کے لیے روایات کا انکار کردینا دیوبندیوں کی فطرت ثانیہ ہے۔ 5: آلِ دیوبند کے مرکز دائرۃ التحقیق حسین احمد مدنی نےلکھا ہے: جناب شاہ حمزہ صاحب مارہروی مرحوم خزینۃ الاولیاء مطبوعہ کانپور ص 15 میں ارقام فرماتے ہیں۔ 📘(الشہاب ثاقب ص 278) مزید لکھا ہے: 6: مولوی رضا علی خان صاحب ہدایۃ الاسلام مطبوعہ صبح صادق سیتاپور ص 30 میں فرماتے ہیں۔ (ایضاً ص 278) یہ دونوں کتابیں من گھڑت ہیں اور ان کی ہمت کو داد دیجیے کہ کتابیں بھی گھڑیں مطبع اور صفحات تک بنانے میں گھڑنت سازی سے کام لیا ہے۔ 7: دیوبندی دھرم کے شیخ الاسلام تقی عثمانی نے منظور نعمانی کے خط میں اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ سیف النقی پر اعتماد کرتے ہوئے حوالے غلط دیتے ہیں اور بڑی شدت کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ ملاحظہ ہو نقوش رفتگان مکتبہ معارف القرآن کراچی ص 399 8: دیوبندی فرقہ کے ایک مناظر ابو بلال اسماعیل جھنگوی نے لکھا ہے: نبی کریم علیہ السلام تو ننگے سر آدمی کے سلام کا جواب تک نہیں دیتے۔ (مشکوۃ) 📘(تحفہ اہل حدیث ج 1 ص 13) مشکوۃ شریف کے کسی مقام پر ایسی حدیث ہرگز نہیں ہے یہ سراسر جھوٹ اور مشکوۃ شریف بلکہ خود رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پاک پر صریح بہتان ہے۔ 9: کریم بخش دیوبندی نے سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ پر اپنے اندرونی بغض و عداوت کی بنا پر کذب و افتراء کرتے ہوئے آپ کے ایک سوالیہ جملے کو خبریہ بنا کراصل عبارت کا مفہوم ہی بدل دیا تاکہ اپنی شیطانی سوچ کی آبیاری کرتے ہوئے شرک کا الزام لگایا جا سکے۔ ملاحظہ ہو: اور اگر کہےکہ اللہ پھر رسول خالق السموت والارض ہیں اللہ پھر رسول اپنی ذاتی قدرت سے رازق جہاں ہیں تو شرک نہ ہوگا۔ 📘(الامن والعلی ص 151 طبع نوری کتب خانہ لاہور ص 219) فائدہ: دیکھو کس قسم کی فضول توحید ہے۔۔۔الخ 📘(چہل مسئلہ حضرات بریلویہ ص 7) اب ظاہر ہے کہ جب کسی کی عداوت میں آدمی اندھا ہوجائے تو اس قسم کی فضول حرکتیں ہی کرے گا، کوئی فضول شخص کسی معقول بات کو سمجھنے کی لیاقت کہاں رکھتا ہے جب دماغ ہی ٹیڑھا ہو تو دوسروں کی صحیح بات بھی غلط اور فضول نظر آتی ہے۔ ہماری صداقت اور اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی کرامت دیکھیں کہ پوری آب و تاب کے ساتھ اس کتاب کو چھاپنے والا سرفراز گکھڑوی دیوبندی کڑمنگی آنجہانی باوجود ڈرامائی ذہنیت کے اس بے بنیاد اور فضول بات کا ساتھ نہ دے سکا۔ جب حضرت مولانا محمد عبدالکریم ابدالوی نے "ضرب مجاہد" میں اس پر گرفت کی تو اس کے جواب میں حاشیہ لگا کر گکھڑوی دیوبندی کو بھی ماننا پڑا کہ: واقعی یہ جملہ استفہامیہ ہے۔ 📘(چہل مسئلہ ص 😎 اسےکہتے ہیں: ع جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ان لوگوں کی مکاری دیکھیں کہ کتاب چھپانے سے پہلے اس غلطی کے واضح ہوجانے کے بعد آج بھی یہ لوگ اس جھوٹ اور بہتان کو باقاعدہ چھاپ رہے ہیں اور ان کےچیلے چانٹے اسے دھڑا دھڑ اپنی کتابوں میں شائع کرکے اپنے بزرگوں کو ایصالِ ثواب کررہےہیں۔ 10: سرفراز گکھڑوی کا پیرومرشد حسین علی واں بچھروی کذب و افتراء میں اپنے بڑے میاں ہونے کا ثبوت یوں دیتا ہے رشید احمد گنگوہی نے فتاوی رشیدیہ میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبدالحق نے لکھا ہے کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔ 📘(فیوضات حسینی ص 159) سرکارِ دوعالم علیہ الصلوۃ والسلام کی نورانیت و اولیت سے انکار کے جوش میں حسین علی دیوبندی نے اپنے گرو گنگوہی پر بھی جھوٹ بولنے سے عار محسوس نہیں کی۔ یہ قدرت کا تصرف ہے کہ اس نے اپنے محبوب علیہ السلام کی شان اجاگر کرنےکے لیے گنگوہی جیسے شخص سے بھی لکھوادیا کہ: شیخ عبدالحق رحمہ اللہ نے اول ماخلق اللہ نوری کو نقل کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے۔ 📘 (فتاوی رشیدیہ کامل ص 98) دیکھ رہےہیں آپ! حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتےہیں کہ اس کی کچھ اصل ہے اور یہ دیوبندی ان کے مقابلے میں خم ٹھونک کر انہیں کی عبارت کا حلیہ بگاڑتے ہوئے لکھتے ہیں: کوئی اصل نہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ! بتائیے یہ بغض رسالت نہیں تو اور کیا طالب دعا محمد ثاقب رضوی مہروی
  9. تعارف سیدی امیر اہل سنت مولانا الیاس قادری زیدہ مجدہ *نام و نسب:* امیر اہل سنت مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کی ولادت 26 رمضان المبارک 1369ھ بمطابق 12 جولائی 1950 بروز بدھ کراچی کے علاقے کھارادر میں ہوئی آپ کا اسم گرامی *"محمد"* اور عرفی نام *الیاس* ہے آپ کی کنیت ابو بلال اور تخلص عطار ہے آپ کا تعلق میمن برادری سے ہے *بیعت و خلافت:* آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں بیعت ہیں آپ کے پیر صاحب کا نام سیدی قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ ہے ۔ آپکی خلافت جانشین قطب مدینہ شیخ فضل الرحمن مدنی سے اور مفتی محمد عبدالسلام قادری فتحپوری اور مفتی محمد وقار الدین رضوی رحمھم اللہ سے ہے۔ *عطار کہلانے کی وجہ:* آپ نے ایک مدنی مذاکرہ میں فرمایا کہ مجھے عطر لگانے کا شوق تھا تو پھر میں نے عطر بیچنے کا بھی کاروبار شروع کردیا اس وجہ سے لوگ مجھے عطار کہنے لگے اسی وجہ سے میں نے اپنا تخلص عطار رکھا اور یہ تخلص اتنا مشہور ہوا کہ لوگ مجھے الیاس کم عطار زیادہ کہنے لگے اور اس میں ایک بزرگ سید فریدالدین عطار رحمہ اللہ کی نسبت بھی شامل ہے۔ *القابات:* آپ علماء و عوام میں امیر اہل سنت کے لقب سے زیادہ مشہور ہیں آپ کو پاک و ہند کے مفتیان کرام و علماء عظام نے مختلف مواقع پر مختلف القاب سے نوازا جن میں سے چند یہ ہیں عالمِ نبيل، فاضلِ جليل،عاشق رسول مقبول، یادگار اسلاف، نمونہ اسلاف، مبلغ اسلام، رہبر قوم، عاشق مدینہ، امیر اہل سنت، محسن دین و ملت ، ترجمان اہل سنت، حامی سنت ،ماحی بدعت، شیخ طریقت اور شیخ وقت وغیرہ ۔ *خاندانی تعارف:* آپ کے آباء و اجداد کتیانہ جونا گڑھ ہند سے تعلق رکھتے تھے پھر پاکستان ہجرت کر کے کراچی میں رہائش پذیر ہوئے آپ کے والد کا نام حاجی عبدالرحمن قادری اور والدہ کا نام امینہ خاتون علیہما الرحمہ ہے آپ کے دادا کا نام عبدالرحیم رحمہ اللہ، نانا کا نام حاجی محمد ہاشم اور نانی کا نام حلیمہ خاتون تھا آپ کے والد صاحب 14 ذی الحج 1370ھ میں حج کے دوران گرم لُو لگنے سے وصال فرما گئے آپ کے ایک بھائی تھے عبدالغنی جوکہ آپ سے بڑے تھے انکا حیدر آباد ٹرین حادثے میں انتقال ہوا تھا ۔ آپ کے بھائی کے انتقال کے کچھ عرصے بعد والدہ کا بھی انتقال ہوگیا اللہ تعالی کی آپ کے تمام آباء و اجداد پر رحمت ہو اور انکے صدقے ہماری مغفرت ہو اور آپ کی دو بہنیں ہیں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے *اخلاق و عادات:* آپ بچپن سے اعلی اوصاف کے مالک تھے، آپ کی سادہ طبیعت بچپن سے ہے اور ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آنے والے تھے ،اگر کوئی ڈانٹ بھی دیتا تو جوابی کاروائی کے بجائے خاموشی اختیار کرتے ہوئے صبر کا دامن تھامے رہتے شروع ہی سے شریعت پر سختی سے کاربند تھے آپ فرماتے ہیں کہ مجھے الحمد للہ بچپن سے تہجد کا شوق ہے آپ نے جوانی بھی بے مثال گزاری کہ سب آپ کی تقوی و پاکیزگی کی گواہی دیتے ہیں ۔ *دعوت اسلامی تحریک کا قیام:* آپ نے اس مدنی مقصد مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے تحت سنتوں بھری مدنی تحریک دعوت اسلامی کی بنیاد 1401ھ بمطابق 1981 چند رفقاء کے ساتھ رکھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک دنیا کے کم وبیش 200 ممالک میں پھیل چکی ہے اور اس تحریک نے ہر سمت سنتوں کے ڈنکے بجا دئیے ہیں اس تحریک نے سینکڑوں جامعات اور ہزاروں مدارس بنائے ، ہزاروں علماء و حفاظ بنائے اور لاکھوں لوگوں کو راہ راست پر لا کھڑا کیا 2008 میں خالص اسلامی چینل مدنی چینل شروع کیا جسے دیکھ کر کئی غیر مسلموں نے کلمہ پڑھا اور ہزاروں بھٹکے ہووں کو راہ دیکھائی ہر لحاظ سے دین متین کی خدمت میں مصروف ہے ۔ *تاریخی کارنامے:* سیدی امیر اہل سنت نبّاض وقت ہیں ، آپ نے ہر فتنے کا سدباب فرمایا آپ نے ہر محاذ پر باطل قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہمیشہ دفاع اہل سنت کی سعی فرمائی مدارس، جامعات، مدنی چینل، کتب لکھ کر، قریہ قریہ نیکی کی دعوت کیلئے مدنی قافلے، مریدوں کو علم دین کی رغبت دینے کیلئے ہر ہفتے رسالہ عطا کرنا، ہر ہفتے علم دین سے بھر پور مدنی مذاکرہ فرمانا، اورجب اہل بیت کی محبت کے آڑ میں صحابہ کے خلاف بولنے کی جسارت کی گئی تو آپ نے آگے بڑھ کر ہر صحابی نبی جنتی جنتی کا نعرہ لگاکر باطل قوتوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی اور فیضان مشکل کشا و فیضان امیر معاویہ مساجد بنا کر جواب دیا جب گستاخانہ خاکے بننے لگے تو حسن و جمال مصطفے مساجد بناکر جواب دیا مادہ پرستی کے دور میں لاکھوں افراد کو مغرب کی تہذیب اپنانے کے بجائے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر کاربند بنادیا اللہ تعالی میرے مرشد کو صحت و عافیت والی زندگی عطا فرمائے ۔۔۔آمین
  10. Click Here to Download
  11. https://tahreek-e-islaheaqaid.blogspot.com/2020/12/deo-band-ke-jhoote-akabir-all-post.html?m=1
  12. https://tahreek-e-islaheaqaid.blogspot.com/2020/12/deo-band-ke-jhoote-akabir-all-post.html?m=1
  13. https://tahreek-e-islaheaqaid.blogspot.com/2020/12/deo-band-ke-jhoote-akabir-all-post.html?m=1
  14. سارے دیوبندی احمق دیوبندی حکیم تھانوی کہتا ہے تمام دیوبندی احمق میرے ہی حصہ میں آگئے ہیں (ملفوظات حکیم الامت ج1 ص294)
  15. نانوتوی کہتا ہے مجھے کچھ بھی آتا جاتا نہیں ہے (یعنی جاہل متلق تھا) بقول نانوتوی دیوبندی اکابر جامن علی جلال آبادی کی اللہ عزوجل کی شان میں گستاخی (تذکرۃ الرشید جلد2 ص306)
  16. جاہل مقتی کو لگتا ہے احادیث مبارکہ کا علم نہیں اس جاہل اندھے مقلد کو جاننا چاہئے اسکے اس باطل تاویل سے کتنے صحابہ کو مشرک ٹھہرتے ہیں معاذ اللہ ایک مشہور واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں جس سے اہل علم حضرات کے علم میں یہ واقعہ ہوگا جس میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نماز پڑھارہے تھے اقا علیہ السلام تشریف لائے تو صحابہ کرام نے تالیاں بجانا شروع کردیا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نماز ہی کی حالت میں پیچھے آنا چاہے حضور علیہ السلام اشارے سے فرماتے ہیں نماز پوری فرمائیں تب بھی حضرت صدیق رضی اللہ پیچھے مقتدی بنے آقا علیہ السلام نے نماز پوری فرماتے ہیں البخاری شریف (خلفائے راشدین ص226/227)
×
×
  • Create New...