-
کل پوسٹس
855 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
-
جیتے ہوئے دن
28
سب کچھ محمد حسن عطاری نے پوسٹ کیا
-
الطرس المعدل فی حدالماء المستعمل استعمال شده پانی کی تعریف میں منصف صحیفہ امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ جلد 2 رسالہ 1 النمیقة الاتقی فی فرق الملاقی والملقی ملنے والے اور ڈالے گئے پانی کے فرق میں ایک پاکیزه تحریر ✍امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ جلد 2 رسالہ 2 الهنیئ النمیر فی الماء المستدیر خوشگوارصاف آب مستدیرکی تحقیق ✍امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ جلد 2 رسالہ 3 رحب الساحة فی میاه لا یستوی وجهها وجوفها فی المساحة ان پانیوں کا بیان جن کی مساحت اوپر سے کم اور نیچے سے دہ دردہ ہے یا اس کے برعکس ✍امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ جلد 2 رسالہ4 هبة الحجیر فی عمق ماء کثیر ابر باراں کا عطیه زیاده پانی کی گہرائی میں ✍امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ جلد 2 رسالہ 5 النور والنورق لاسفارالماءالمطلق آب مطلق کا حکم روشن کرنے کے لئے نور اور رونق ✍امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ جلد 2 رسالہ 6 رساله ضمینیه عطاءالنبی لافاضة احکام ماءالصبی بچے کے حاصل کرده پانی کے احکام کے متعلق نبئ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عطیہ ✍امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ جلد 2 رسالہ 7 2.1 istimaal shoda Pani k Bare Me.pdf 2.2 Pani K Mutaliq.pdf 2.3 khushgawar saaf pani ki tehqiq.pdf 2.4 Dehdarda or Hooz ka bayan.pdf 2.5 Pani ki Gehrai ka Bayan.pdf 2.6 pani ki tehqiq.pdf 2.7 bachy k Pani ka bayan.pdf
-
برکات السماء فی حکم اسراف الماء بے جا پانی خرچ کرنے کے حکم کے بارے میں آسمانی برکات ✍امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ارتقاع العجب عن وجوه قرأة الجنب بحالت جنابت قرآن شریف پڑهنے کی مختلف صورتوں کی نقاب کشائی امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ جلد 1 رسالہ 10 جلد 1 رسالہ 11 1.10 beJa Pani istimaal krny k bary Me.pdf 1.11 Bahalat e Janabat Quran Parhny k Bare Me.pdf
-
الاحکام والعلل فی اشکال الاحتلام والبلل احتلام اور تری کی اشکال کے حکم اور اسباب جلد 1 رسالہ 8 1.8 Ahtilaam or Tari k Bary Me.pdf بارق النور فی مقادیر ماءالطهور نور کی تابش، آب وضو و غسل کی مقدار میں امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ جلد 1 رسالہ 9 1.9 Aab e Wuzo Or Gusal K Bary Me.pdf
-
الطراز المعلم فیما هو حدث من احوال الدم نشان زده نقش اس بیان میں کہ خون کس حال میں ناقض وضو ہے جلد 1 رسالہ 5 1.5 Khoon kis Haal Me Naqis Wozu K Bary Me.pdf نبه القوم ان الوضوء من ای نوم قوم کو تنبیہ کہ کس نیند سے وضو فرض ہوتا ہے جلد 1 رسالہ 6 1.6 Neend Sy Wuzo Farz Hojata Hai.pdf خلاصة تبیان الوضوء وضو وغسل کےمسائل کا مختصر بیان امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ جلد 1 رسالہ 7 1.7 Wozu or Gusal.pdf
-
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور ملک الموت علیہ اسلام کی من گھرٹ روایت
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا شخصیات اسلام
-
5_6203734265096568939.pdf
-
اس کتاب میں جتنے بھی حوالے دیئے گئے ہیں وہ سب قرآن وحدیث اور دیوبندی تبلیغی جماعت کے علماء ہی کی معتبر کتابوں کے حوالے ہی سے درج کئے گئے ہیں۔ پھر اس کے باوجود بھی انہی کی کتابوں سے ان کاکفر ثابت کیاگیا ہے اوراس کے علاوہ ان کے وہابی اورگستاخان رسول ﷺ ہونے کا ثبوت بھی پیش کیاگیا ہے۔ Izhaar e Haq radde deobandiyat.pdf
-
دیوبندی وہابی اپنے منہ آپ کافر .pdf
-
مابین مناظر اہلسنت علامہ مولانا مفتی عبد المجید سعیدی و غیر مقلد وہابی مولوی عبدالرحمن شاہین ملتان مناظرہ سہ طلاق.pdf
-
فرقه وهابيه=اقسام واحكام وہابی اور دیوبندی جماعت کے چار طبقات اور ان کے احکام کا بیان طارق انور مصباحی فرقه وهابيه=اقسام واحكام.pdf
-
- رد بدمذہب
- رد دیوبندیت
-
(and 1 more)
Tagged with:
-
دیوبندیت کی شیعہ نوازی.pdf
-
یہ دیکھیں دیوبندی کتنے بڑے منافق .pdf
-
-
حدیث نجد کی اہمیت۔ عہد نبوی میں نجدی باشندے۔ قرآن حکیم اور نجدی باشندے۔ وہابی تحریک کا مرکز۔ وہابیہ کی خونی داستان۔ حدیث نجد کے بارے میں وہابیہ کے مغالطے اور انکے جواب۔ شرح حدیث نجد .pdf
-
حسام الحرمین کے سو سال https://www.alahazratnetwork.org/download/حسام-الحرمین-کے-سو-سال/ حسام الحرمین کے مقروض https://drive.google.com/file/d/1dN-sCE8QGkQsbSrY-8cRWS_wc8zw35qK/view حسام الحرمین کی حقانیت و صداقت و ثقاہت https://www.islamieducation.com/hussam-ul-huramain-ki-haqaniyat/ حسام الحرمین اور مخالفین https://www.islamimehfil.com/topic/27933-حسام-الحرمین-اور-مخالفین/ تصدیقات جدیدہ https://archive.org/details/tasdeeqatejadeedabyallamatariqanwarmisbahihifzullahtaala حسام الحرمین اور مشائخ نقشبندیہ https://archive.org/details/hassamulharmeenaurmashaikhnaqshbndia_201910
-
علمائے دیوبند سے 16 سوالات اور ان کی زبانی ان کا جواب
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا فتنہ وہابی دیوبندی
سوال: سوروں اور کتوں سے بدتر کون جواب : اشرف علی تھانوی، کتب ملفوظات خکیم الامت جلد۴ صعفہ نمبر ۷۶ سوال: گندی نالی میں پھینک دیا جاوں کس کو 58 اشرف تھانوں کتب یادگازتین سوال: کون سے مولوی کی بیوی بننے پر ثواب ہیں جواب : اشرف تھانوں کے کتب اشرف السوانح جلد۳ صفعہ نمبر ۳۵ سوال کون سے مولوی کا ماموں بھڑاو تھا جواب : اشرف تھانوں کا کتاب ملفوظات حکیم الامیت جلد۹ صفعہ نمبر ۲۱۲ سوال کون سے مولوی کا پرداداقبرسے مٹھائی کرنکل ایا جواب اشرف تھانوں کا کتاب ملفوظات حکیم الامیت سوال کون سے مولوی سوروں سے بدتر تھا جواب : اشرف تھانوی کتاب اشرف السوانح جلد ۴ صفحہ نمبر ۵۸ سوال کون سے مسلک میں دو مولوی کا ایک دوسرے سے نکاح ہو ہیں نام کیا ہیں دونوں مولوی کا جواب: گنگوہی اور نانوتوی کا نکاح ہوا ہے کتاب ارشادلت گنگوہی سوال کون سے مسلک میں صحابہ کو کافر کہنے والا کافر نہیں ہوتا ہیں جواب: دیوبندی مسلک میں کتاب فتاوی رشیدہ سوال کون سے مسلک میں چھوٹی لڑکی سے صحبت کرنے پر غسل واجب نہیں ہوتاہیں جواب دیوبندی مسلک میں کتاب بہشتی زیور سوال کون سے مولوی کہ پاس رنڈی اور رنڈا اتی ہیں جواب اشرف تھانوی کتاب ملفوظات حکیم الامیت جلد ۱ صفحہ نمبر ۱۶۱ سوال : ہو کہاں سے آرہے ہو جواب جھک مار کے ارہاہوں گوہ کھا کے ارہاہوں کس مسلک میں ہیں اس تارہا مولوی جواب دیوبندی مسلک میں کتاب حکایات اولیاء صفحہ نمبر ۱۲۴ سوال : کون سے مسلک کی مولوی بدعاتی تھا جواب دیوبندی کی بدعات کیا ہو تھا قوالی عرس وغیرہ میں بھی شریک ہوتےتھے کتاب حکایات اولیاء صفحہ نمبر ۱۲۴ سوال: اپنے اساتذہ سے حسد کرنے والا مولوی کون جواب نانوتوی اور گنگوہی کتاب ازسوانح قاسمی جلد ۱ صفحہ ۲۳۴ یا ۲۲۴پر دیکھ سوال: کون مولوی ہے جو اپنے طالب علمی میں اساتذہ کی موت کا انتظار کررہا تھا جواب گنگوہی اور نانوتوی سوال: کون مولوی ہے جو مردوں کو زندہ کیا زندوں کو مرنے نہ دیا استغفر اللہ جواب رشیداحمد کتاب کانام مرثیہ صفحہ نمبر ۲۳ سوال : ہوں کون سے مسلک کا تھا جو کعبہ میں بھی پوچھتاتھا گنگوہ کارستہ جواب دیوبندی مسلک کاتھا کتاب کا نام مرثیہ صفحہ نمبر 10 یانے ۱۰صفحہ نمبر -
-
اعلی حضرت کی طرف منسوب حدائقِ بخشش حصہ سوم پر اعتراض کا جواب
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
کہتے ہیں کہ حسد و بغض انسان کو اندھا بنا دیتا ہے اور پھر میں جھوٹ و سچ سمجھنے کی طاقت بھی نہیں رہتی ٹھیک اسی طرح وہابیوں کے ساتھ ہمیشہ ہوتا رہا ہے انہوں نے بغض کی وجہ سے بغیر تحقیق کئیے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمتہ اللہ علیہ پر بیہودہ الزامات عائد کیئے اور آج تک ان کا یہ سلسلہ جاری ہے، مندرجہ ذیل اعتراض بھی اسی کی ایک کڑی ہے جواب نمبر 1 : اعلیٰ حضرت امامِ عشق و محبت امامِ احمد رضا خان بریلوی رحمة الله علیہ پہ دیابنہ اور وہابیہ وغیرہ جاہل نما عالم،اعتراض کرتے ہیں کہ امام احمد رضا نے " اماّں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے حدائق بخشش حصہ سوم میں کچھ اشعار لکھیں ہیں جو گستاخی پہ مبنی ہیں ۔ آیئے پہلے وہ اشعار پڑھتے ہیں پھر اس جاہلانہ اعتراض کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں ۔ حدائق بخشش حصہ سوم صفحہ نمبر 37 پہ رقمطراز ہیں تنگ و چست انکا لباس اور وہ جوبن کا ابھار مسکی جاتی ہے قبا سے کمر تک لیکن یہ پھٹا پڑتا ہے جوبن میرے دل کی صورت کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ و بر محترم قارئین : اس پہ ایک لطیفہ یاد آیا ، ایک شخص پہ شاعری کا بھوت سوار تھا تو اس نے یہ لاجواب شعر کہا ۔ چہ خوش گفت سعدی در زلیخا کہ عشق نمود اول ولے افتاد شکلہا اسے یہ فکر نھیں تھی کہ دونوں مصرعوں کا وزن بھی صحیح ہوا ہے یا نھیں، اور اسے یہ تو خبر ہی نھیں تھی کہ زلیخا مولانا جامی کی تصنیف ہے اور دوسرا مصرعہ حافظ شیرازی کا ہے ۔ اس نے یہ دونوں چیزیں شیخ سعدی کے کھاتے میں ڈال دیں اور اس پر خوش کہ شاندار شعر بن گیا ۔ بس یہی حاصل معترضین کا ہے انھیں یہ علم ہی نھیں کہ حدائق بخشش حصہ سوم امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف و ترتیب نھیں اور نھیں ان کی زندگی میں شائع ہوا ۔ یہ حصہ (حدائق بخشش سوم) مولانا محبوب علیخان نے ترتیب دیا اور امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے دو سال بعد شائع ہوا ۔ مولانا محبوب علیخاں نے ابتدائیہ کی صفحہ نمبر 10 پر ۲۹ ذی الحجہ ۱۳۴۲ھ کی تاریخ درج کی ہے، جب کہ اعلی حضرت امام احمد رضا کی تاریخ وصال ۱۴۴۰ھ ماہ صفر میں ہو چکا تھا، مولانا محبوب علی خاں سے تیسرے حصہ کی ترتیب و اشاعت میں واضح طور پر چند فروگزاشتیں ہوئیں ۔ انہوں نے اس حصہ کا نام حدائق بخشش حصہ سوم رکھا، صرف یہی نھیں بلکہ ٹائیٹل پر ۱۳۲۵ھ کا سن بھی درج کر دیا حالانکہ حدائق بخشش صرف پہلے اصل دو حصوں کا تاریخی نام تھا جو ۱۳۲۵ھ میں شائع ہوئے اور تیسرا حصہ ۱۳۴۲ھ میں شائع ہوا یعنی تقریباً ۱۶ یا ۱۷ سال بعد شائع ہوا ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) انہوں نے مسودہ نابھ سسٹیم پریس نابھہ کے سپرد کر دیا، پریس والوں نے خود ہی کتابت کروائی اور خود ہی چھاپ دیا، مولانا نے اس کے پروف بھی نھیں پڑھے کاتب نے دانستہ یا نادانستہ چند اشعار جو بلکل تھے,ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں کہے گئے اشعار کے ساتھ ملا کر لکھ دیئے ، ان غلطیوں کا خمیازہ انھیں یوں بھگتنا پڑا کہ علامہ مشتاق احمد نظامی رحمۃ اللہ علیہ نے ممبئ کے ایک ہفتہ روزہ میں ایک مراسلہ شائع کروا دیا اور مولانا محبوب علی کو اس غلطی کی طرف متوجہ کیا ، مولانا محبوب علی نے اپنی اس غلطی سے توبہ کی جو رسالہ سنی لکھنؤ اور روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا اور باربار زبانی توبہ کی ۔ اعلان توبہ : حدائق بخشش حصہ سوم صفحہ نمبر ۳۷،۳۸ میں بےترتیبی سے اشعار شائع ہو گئے تھے اس غلطی سے بارہا یہ فقیر توبہ کر چکا ہے ، اللہ و رسول کریم میری توبہ قبول فرمائے آمین ثم آمین، اور سنی مسلمان خدا و رسول کے لئے معاف فرما دیں ۔ (فیصلہ شرعیہ قرآنیہ صفحہ ۳۱،۳۲) اس تفصیل سے حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امام احمد رضا پہ گستاخی کا الزام درست نھیں ہے بلکہ یہ سراسر بہتان ہے ۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ اور اکابر دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی کہتے ہیں : مولانا احمد رضا عاشق رسول ہیں وہ ہمیں کافر کہتے ہیں اور وہ ہمیں کافت نہ کہتے تو خود کافر ہو جاتے ۔(ملفوظات حکیم الامت) مولانا ابوالکلام آزاد کہتے ہیں : امام احمد رضا ایک عاشق رسول ہیں میں سوچ بھی نھیں سکتا کے ان سے توہین نبوت ہو ۔ (تحقیقات صفحہ نمبر ۱۲۵) خلاصہ یہ ہے کہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے وہ کتاب ہی نھیں لکھی بلکہ الگ الگ اشعار لکھے ہوئے تھے، مولانا محبوب علی نے ان اشعار کو جمع کیا اور پریس میں دے دیا، اور جو اشعار مشرکین عورتوں کی مذمت کے بارے میں لکھے تھے، اسے اماں عائشہ کی شان میں لکھے گئے اشعار کے ساتھ ملا دیا اور یہ غلطی پریس والوں کی تھی نہ کہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے ۔ نہ تو امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے وہ کتاب لکھی نہ چھپائی اور نہ ہی دیکھی پھر الزام کیسا.؟ اللہ ہدایت دے ایسے جاہل نما متعصب علماء کہلانے والوں کو جو بہتان لگ اتے ہیں اور فضول اعتراض کرتے ہیں آمین ۔ نوٹ: تفصیل کے لئے فیصلہ مقدسہ کا مطالعہ فرمائیں ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) انتہائی متعصب غیر مقلاد وہابی عالم احسان الٰہی ظہیر لکھتا ہے : بریلوی نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ایسے کلمات کہے کہ انہیں سنی کبھی زبان پر نہیں لا سکتا۔‘‘ (ظہیر: البریلویۃ ص ۲۱) اللھم سبحٰنک ھٰذا بھتان عظیم ۔ جواب نمبر 2 : حدائق بخشش حصہ سوم : امام احمد رضا بریلوی کا نعتیہ دیوان دو حصے پر مشتمل ہے ۔ یہ ۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء میں مرتب اور شائع ہوا۔ ماہِ صفر ۱۳۴۰ھ/۹۱۲۱ء کو آپ کا وصال ہوا۔ وصال کے دو سال بعد ذوالحجہ ۱۳۴۲ھ/۱۹۲۳ء میں مولانا محمد محبوب علی قادری لکھنوی نے آپ کا کلام متفرق مقامات سے حاصل کر کے حدائق بخشش حصہ سوم کے نام سے شائع کر دیا۔ انہوں نے مسو وہ نابھہ سٹیم پریس ، نابھہ (پٹیالہ، مشرقی پنجاب۔ بھارت)کے سپرد کر دیا، پریس والوں نے کتابت کروائی اور کتاب چھاپ دی۔ کاتب بد مذہب تھا، اس نے دانستہ یا نادانستہ چند ایسے اشعار ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مدح کے قصیدے میں شامل کر دئیے جو ام زرع وغیرہ مشرکہ عورتوں کے بارے میں تھے ، ان عورتوں کا ذکر حدیث کی کتابوں مسلم شریف ، ترمذی شریف اور نسائی شریف وغیر میں موجود ہے ۔ مولانا محمد محبوب علی خاں سے چند ایک تسامح ہوئے : (1) چھپائی سے پہلے انہوں نے اپنی مصروفیات اور پریس والوں پر اعتماد کر کے چھپنے سے پہلے کتابت کو چیک نہ کیا۔ (2) کتاب کا نام ’’حدائق بخشش حصہ سوم رکھ دیا، حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ ‘‘ باقیاتِ رضا یا اسی قسم کا کوئی دوسرا نام رکھتے ۔ (3) ٹائیٹل پیج پر کتاب کے نام کے ساتھ ۱۳۲۵ھ بھی لکھ دیا، حالانکہ یہ سن پہلے دو حصوں کی ترتیب کا تھا جو مصنف کے سامنے ہی چھپ چکے تھے ۔ تیسرا حصہ تو ۱۳۴۲ھ میں مرتب ہو کر شائع ہوا۔ (محمد محبوب علی خاں ، مولانا۔: حدائق بخشش (نابھہ سٹیم پریس ، نابھہ) ص ۱۰) ۔ اسی لیے ٹائیٹل پیج پر امام احمد رضا بریلوی کے نام کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ورحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھا ہوا ہے ۔ اگر ان کی زندگی اور ۱۳۲۵ھ میں یہ کتاب چھپتی ، تو ایسے دعائیہ کلمات ہر گز نہ درج ہوتے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) (4) یہ مجموعہ مرتب کر کے امام احمد رضا بریلوی کے صاحبزادے مولانا مصطفے ٰ رضا خاں یا بھتیجے مولانا حسنین رضا خاں کو دکھائے اور منظوری حاصل کیے بغیر چھاپ دیا۔ (5) کتاب چھپنے کے بعد جیسے ہی صورتِ حال سامنے آئی تھی، اس غلطی کی تصحیح کا اعلان کر دیتے تو صورتِ حال اتنی سنگین نہ ہوتی، لیکن یہ سوچ کر خاموش رہے کہ اہلِ علم خود ہی سمجھ جائیں گے کہ یہ اشعار غلط جگہ چھپ گئے ہیں اور آئندہ ایڈیشن میں تصحیح کر دی جائیگی۔ محمد ثِ اعظم ہند سید محمد محدث کچھو چھوی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں فرماتے ہیں : مجھے محبوب الملت (مولانا محمد محبوب علی خاں ) کے خلوص سے انکار نہیں اور نہ ہی یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہ انہوں نے امام احمد رضا کی کسی قدیم رنجش کی بناء پر ایسا کیا ، لیکن میں اس حقیقت کے اظہار سے بھی اپنے کو روک نہیں پا رہا ہوں کہ محبوب الملت نے کسی سے مشورہ کیے بغیر حدائق بخشش میں تیسر ی جلد کا اضافہ کر کے اپنی زندگی کا سب سے بڑ ا تسامح کیا ہے ۔ ایک ایساتسامح جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ایک ایسی فاش غلطی جس کی تنہا ذمہ داری محبوب الملت پر عائد ہوتے ہوئے بھی امام احمد رضا کو مخالفین کے اتہام کی زد سے بچا نہ سکی۔ سوچ کر بتائے کہ اس میں امام احمد رضا کی کیا غلطی ؟ غیر شعوری ہی کیوں نہ ہو، آنے والا مؤ رخ اس طرح کی خوش عقیدگی کو ظلم ہی سے معنون کرے گا‘‘۔ (شرکتِ حنفیہ ، لا ہور: انوارِ رضا ص ۲۱) ایک عرصہ بعد دیوبندی مکتبِ فکر کی طرف سے پورے شدومد سے یہ پروپگنڈا کیا گیا کہ مولانا محمد محبوب علی خاں نے حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بارگاہ میں گستاخی کی ہے ، لہٰذا انہیں بمبئی کی سنی جامع مسجد سے نکال دیا جائے ۔ مولانا محمد محبوب علی خاں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور وہ کچھ کیا جو ایک سچے مسلمان کا کام ہے ۔ انہوں نے مختلف جرائد اور اخبارات میں اپنا توبہ نامہ شائع کرایا۔ علامہ مشتاق احمد نظامی (مصنف خون کے آنسو) نے ایک ہفت روزہ کے ذریعے انہیں غلطی کی طرف متوجہ کیا تھا اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں : آج ۹ ذیقعد ہ ۱۳۷۴ ھ کو بمبئی کے ہفتہ وار اخبار میں آپ کی تحریر ’’حدائق بخشش‘‘ حصہ سوم کے متعلق دیکھی ، ’’جواباً پہلے فقیر حقیر اپنی غلطی اور تساہل کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور اس خطا اور غلطی کی معافی چاہتا ہے اور استغفار کرتا ہے ، خدا تعالیٰ معافی بخشے ، آمین ! ‘‘(ماہنامہ سنی دنیا شمارہ ذوالحجہ ۱۳۷۴ھ ص۱۷۔ (محمد مظہر اللہ دہلوی ، مفتی: فتاویٰ مظہری (مدینہ پبلشنگ کمپنی ، کراچی)ج۲، ص ۳۹۳) ۔ اس کے باوجود مخالفین نے اطمینان کا سانس نہ لیا، بلکہ پروپیگنڈا کیا کہ یہ توبہ قابل قبول نہیں ہے ۔ اس پرعلمائے اہل سنت سے فتوے حاصل کے گئے کہ ان کی توبہ یقیناً مقبول ہے ، کیونکہ انہوں نے یہ اشعار نہ تو ام المومنین کے بارے میں کہے اور نہ لکھے ہیں ، ان کی غلطی صرف اتنی تھی کہ کتابت کی دیکھ بھال نہ کر سکے ۔ اس کی انہوں نے علی الاعلان اور بار بار توبہ کی ہے اور درِ توبہ کھلا ہوا ہے ۔ پھر کسی کے یہ کہنے کا کیا جواز ہے کہ توبہ قبول نہیں ۔ یہ فتاویٰ فیصلہ مقدسہ کے نام سے ۱۳۷۵ھ میں چھپ گئے اور تمام شورِ اور شر ختم ہو گیا، اس میں ایک سو انیس علماء کے فتوے اور تصدیقی دستخط ہیں ۔ الحمد للہ! کہ فیصلہ مقدسہ ، مرکزی مجلس رضا لاہور نے دوبار چھاپ دیا ہے ۔ تفصیلات اس میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مقامِ غور ہے کہ جو کتاب امام احمد رضا بریلوی کے وصال کے بعد مرتب ہو کر چھپی ہو، اس میں پائی جانے والی غلطی کی ذمہ دار ی ان پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے ؟ ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۵ء میں بھی جب یہ ہنگامہ کھڑ ا کیا گیا تو تمام تر ذمہ داری مولانا محمد محبوب علی خاں مرتب کتاب پر ڈال دی گئی تھی۔ کسی نے بھی یہ نہ کہا کہ امام احمد رضا بریلوی نے حضرت امام المومنین کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ لیکن آج حقائق سے منہ موڑ کر گستاخی کا الزام انہیں دیا جا رہا ہے ۔ آج تک امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم مسلک علماء پر یہی الزام عائد کیا جاتا تھا کہ یہ لوگ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی محبت و تعظیم میں غلو سے کام لیتے ہیں ۔ پھر یکا یک یہ کایا پلٹ کیسے ہو گئی کہ انہیں گستاخی کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے ؟ دراصل امام احمد رضا بریلوی نے بارگاہِ خداوندی اور حضرات انبیاء واولیاء کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا سخت علمی و قلمی محاسبہ کیا تھا ، جس کا نہ تو جواب دیا جا سکا اور نہ ہی توبہ کی توفیق ہوئی، الٹا انہیں بے بنیاد الزام دیا جانے لگا کہ یہ گستاخی کے مرتکب ہیں ۔ مولوی محمد اسماعیل دہلوی اپنے پیر و مرشد سید احمد (رائے بریلی) کے بار ے میں کہتا ہے کہ کمالات طریقِ نبوت اجمالاً تو ان کی فطرت میں موجود تھے ۔ پھر ایک وقت آیا کہ یہ کمالات راہِ نبوت تفصیلاً کمال کو پہنچ گئے اور کمالاتِ طریقِ ولایت بطریقِ احسن جلوہ گر ہو گئے ۔ ان کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : جناب علی مرتضیٰ نے حضرت کو اپنے دستِ مبارک سے غسل دیا اور ان کے بدن کو خوب دھویا، جیسے باپ اپنے بچوں کو مل مل کر غسل دیتے ہیں اور حضرت فاطمہ زہرانے بیش قیمت لباس اپنے ہاتھ سے انہیں پہنایا۔ پھر اسی واقعہ کے سبب کمالاتِ طریقِ نبوت انتہائی جلوہ گر ہو گئے ۔(صراط مستقیم ) یہ اگرچہ خواب کا واقعہ بتا یا جا رہا ہے ۔ لیکن ہمیں یہ پوچھنے کا حق ہے کہ ایسے واقعات کا کتابوں میں درج کرنا اور پھر فارسی اور اُردو میں انہیں بار بار شائع کرنا حضرت خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں سو ادبی نہیں ہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ علمائے اہل سنت کے توجہ دلانے کے باوجود علماء اہل حدیث نے اس کا تدارک نہ کیا اور نہ ہی توبہ کی۔ حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے ۔ -
ساجد خائن دیوبندی کے تفسیر نعیمی پر اعتراضات کا جواب
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا Tafseer e Naeemi
ساجد خائن نے اپنی بدنام زمانہ کتاب مسلک اعلی حضرت میں انتہائی خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعتراضات کیے ہیں۔ ہم بصورت پوسٹ آپ کے سامنے مع جواب پیش کر رہے ہیں۔ فرعون، موسیٰ ،ابوجہل اور نبی ﷺ آپس میں بھائے تے۔ (تفسیر نعیمی) الجواب: معزز قارئین کرام! یہاں بھی دیوبندیوں نے دجل و مکاری سے کام لیا کیونکہ یہاں اولاد آدم علیہ السلام ہونے کے اعتبار سے بات کی جارہی ہے چنانچہ تفسیر نعیمی میں عبارت اس طرح ہے: حضرت آدم علیہ السلام ایک ہیں مگر ان کی اولاد مومن بھی ہے، کافر بھی، مشرک بھی، منافق بھی، پھر مومنوں میں اولیاء بھی ہیں، انبیاء بھی، حضور محمد مصطفی بھی۔ گویا ایک درخت میں ایسے مختلف پھل لگادینا کہ اسی میں فرعون ہے، اسی میں موسیٰ علیہ السلام ، اسی میں ابوجہل ہے، اسی میں حضور محمد مصطفی ﷺ۔ یہ کمال قدرت ہے اور اس کی رحمت کی بھی دلیل ہے کہ سارے انسان اس رشتے سے بھائی بھائی ہیں۔ (تفسیر نعیمی ج 7 ص 670) یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے اعتبار سے سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ خود علماء دیوبند نے لکھا ہے: اخوۃ نفس بشریت میں اور اولاد آدم ہونے میں ہے۔ (براہین قاطعہ ص 7) اسی طرح دیوبندی اکابر مزید کہتا ہے کہ پس اگر کسی نے بوجہ آدم ہونے کے آپﷺ کو بھائی کہا تو کیا خلاف نص کے کہہ دیا وہ تو خود نص کے موافق ہی کہتا ہے۔ (ایضا ص 7) یعنی نبی پاک ﷺ بھی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور باقی بھی تو اگراس اعتبار سے کوئی نبی پاک ﷺ کو کسی کا بھائی کہہ دے تو نص کے خلاف نہیں۔ اسی طرح علماء دیوبند کے امام سرفراز صفدر کہتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے متعدد حضرات انبیائے کرام علیھم السلام کو اپنی امت اور قوم کا بھائی فرمایا ہے حالانکہ ان امتوں کے بیشتر افراد اوراکثریت کفروشرک پر مصر رہی اور یہ اخوت قومی اور لسانی درجہ کی تھی۔ (عبارات اکابر ص 68) تو معلوم ہوا کہ دیوبندیوں کے نزدیک بھی کافر و مشرک بھی قومی و لسانی اعتبار سے انبیاء علیھم السلام کے بھائی ہوسکتے ہیں بالکل اسی طرح تفسیر نعیمی میں اولاد آدم ہونے کے اعتبار سے انہیں بھائی کہا گیا۔ لہذا بزبان دیوبندی یہ نص کے خلاف نہیں۔ اب آئیے علماء دیوبند کے امام کی عبارت دیکھیے البتہ نفس بشریت میں مماثل آپ ﷺ کے جملہ بنی آدم ہیں (براہین قاطعہ ص7) یعنی نفس بشریت میں نبی پاک ﷺ جملہ بنی آدم کی طرح ہیں۔ تو اب دیوبندی بتائیں کہ نبی پاک ﷺ کی بشریت کو جملہ بنی آدم کی مثل بتانا گستاخی ہے کہ نہیں؟ آخری بات یہ ہے کہ دیوبندی حضرات یہاں اپنے دہلوی کی عبارت کا عین ایمان ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن یاد رہے کہ دہلوی کی عبارت میں اصل اختلاف بھائی کہنے پر نہیں بلکہ بڑے بھائی کی سی تعظیم کرنے پر ہے۔ چنانچہ دہلوی نے لکھا انسان آپس میں سب بھائی ہیں جو بڑا بزرگ ہو وہ بڑا بھائی ہے سو اس کی بڑے بھائی کی سی تعظیم کیجیے اور مالک سب کا اللہ ہے بزرگی اس کو چاہیے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء انبیاء امام و امام زادہ، پیر و شہید، یعنی جتنے اللہ کے مقرب بندے ہیں وہ سب انسان ہی ہیں اور بندے عاجز اور ہمارے بھائی، مگر ان کو اللہ نے بڑائی دی وہ بڑے بھائی ہوئے ہم کو ان کی فرمانبرداری کا حکم ہے ہم ان کے چھوٹے ہیں۔ (تقویۃ الایمان ص 42) اسماعیل دہلوی کی اس عبارت میں محض بڑا بھائی کہنے پر اعتراض نہیں بلکہ ان کی تعظیم بڑے بھائی جیسی کرنے پر ہے۔ ابلیس آدم علیہ السلام کے استاد تھے۔ معاذاللہ۔ 📕 (معلم تقریر ص 95) الجواب: یہ بھی دیوبندیوں کا صریح جھوٹ اور زبردست بہتان و افتراء ہے۔ کیونکہ ہم نے معلم تقریر کو صفحہ نمبر 92 سے صفحہ نمبر 101تک پڑھا مگر کہیں بھی دیوبندی مولوی کی مفروضہ عبارت شیطان نبی کا استاد ہے، نہ پایا۔ بلکہ حکیم الامت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے الرحمن علم القرآن کی توضیح کرتے ہوئے فرمایا رحمن نے انہیں سکھایا تو معلوم ہوا کہ وہ نہ جبریل کے شاگرد تھے اور نہ کسی اور مخلوق کے بلکہ وہ خاص شاگرد رشید حق تعالیٰ کے ہیں اور حضرت جبریل تو فقط پیغام لانے والے ہیں۔ (معلم تقریر ص 95) قارئین کرام! آپ نے دیوبندی مولوی کا دجل و فریب ملاحظہ فرمایا لیکن اب ایک سچ ملاحظہ کیجیے کہ علماء دیوبند نے خود کو نبی پاک ﷺ کا استاد بتایا۔ ایک صالح فخر عالم علیہ السلام کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے تو آپ کو اردو میں کلام کرتے دیکھ کر پوچھا آپ کو یہ کلام کہاں سے آگیا آپ تو عربی ہیں فرمایا کہ جب سے علماء مدرسہ دیوبند سے ہمارا معاملہ ہوا ہم کو یہ زبان آگئی۔ سبحان اللہ اس س مرتبہ اس مدرسہ کا معلوم ہوا📕(براہین قاطعہ) تو دیکھے دیوبندی حضرات نبی پاک ﷺ کو اپنا شاگرد بتا رہے ہیں یاد رہے کہ خوا ب کا معاملہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دیوبندیوں نے اس سے اپنے مدرسہ کی فضیلت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس سے حضور ﷺ بے توجہی فرما لیتے ہیں وہ بدبخت ہوجاتا ہے پھر گناہ کرتا ہے یہی حال آدم علیہ السلام کے ساتھ ہوا (حضور نے بے توجہی اختیار کرلی تھی) معاذاللہ 📕 (شان حبیب الرحمن ص 146) الجواب ہمارا پالا ایسے دجالوں سے پڑا ہے جنہوں نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ دجل و فریب سے ہی کام لینا ہے، معزز قارئین کرام! آئیے ملاحظہ کیجیے کہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے شان حبیب الرحمن میں کیا لکھا ہے: جب کبھی حضور ﷺ کسی سے بےتوجہی فرمالیتے ہیں تو وہ بدبخت بنتا ہے اور گناہ کرتا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام سے خطا کا ہونا اس سبب سے ہوا کہ توجہ محبوب علیہ السلام کچھ ہٹ گئی تھی۔ 📕(شان حبیب الرحمن ص 146) تو اب دیکھیے کہ پہلا جملہ الگ ہے اور دوسرے جملے میں بدبختی کی ہرگز بات نہیں بلکہ وہاں تو صرف توجہ ہٹ جانے کی بات ہے اور پھر یہاں یہ بھی نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے گناہ کیا بلکہ یہاں تو صرف خطا کا لفظ ہے۔ علماء گناہ اور خطا کے فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں تو مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے نہ تو حضرت آدم علیہ السلام کو بدبخت کہا نہ ہی گناہ کی نسبت ان کی طرف کی۔ اب آئیے دیکھیے علماء دیوبند کے امام محمد بن عبدالوہاب نجدی نے لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا نے شیطان کی بات مانی ہے اور شرک فی الاطاعۃ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ (ملخصا کتاب التوحید ص 145) اور اسی کتاب میں لکھا ہے کہ شرک کرنے والا جہنم میں جائے گا۔ (ایضا ص 9) *تو اصول وہابیہ کے مطابق معاذاللہ ثم معاذاللہ حضرت آدم علیہ السلام مشرک و جہنمی ہیں۔ استغفراللہ)* اسی طرح علماء دیوبند کے اشرف علی تھانوی نے اپنے قرآن کے ترجمے میں لکھا ہے کہ اور ان (یوسف علیہ السلام) کو بھی اس عورت کا کچھ کچھ خیال ہوچلا تھا۔ (ترجمہ اشرف علی تھانوی، سورہ یوسف آیت 24) یعنی تھانوی کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام بھی معاذاللہ اس عورت کے ساتھ گناہ کبیرہ کی جانب مائل ہوگئے تھے۔ (استغفراللہ) منقول از رد اعتراضات مخبث -
اللہ تبارک وتعالیٰ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے _*" انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء "*_ پارہ 22 سورہ فاطر آیت نمبر 29 ترجمہ اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں کنزالایمان حضرت ابن عباس رضی آللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ مخلوق میں اللہ تعالیٰ کا خوف اس کو زیادہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے جبروت اور اس کی عزت وشان سے باخبر ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم اللہ عزوجل کی کہ میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس کا خوف رکھنے والا ہوں تفسیر خزائن العرفان صفحہ نمبر 634 حضور فقیہہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علامہ امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ دلت ھذہ الآیۃ علی ان العالم یکون صاحب الخشیتہ یعنی اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ خشیت اور خوف الٰہی "عالموں" کا خاصہ ہے تفسیر کبیر جلد ھفتم صفحہ 460 اور حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حاصلہ ان العالم یورث الخشیتہ وھی تنتج التقویٰ وھو موجب الاکرمیتہ والافصلیتہ وفیہ اشارہ الی ان من لم یکن علمہ کذالک فھو کالجاہل بل ھوالجاھل یعنی آیت مبارکہ کاخلاصہ یہ ہےکہ _*علم دین خشیت الٰہی پیدا کرتا ہے جس سے تقوی حاصل ہوتا ہے اور وہی عالم کی اکرمیت وافضلیت کا سبب ہے اور آیت میں اس بات کا اشارہ ہے کہ*_ _*جس شخص کا علم ایسا نہ ہو وہ جاہل کے مثل ہے*_ *_بلکہ _ ! ! !* _*وہ جاہل ہے*_ مرقات شرح مشکوٰۃ جل اول صفحہ 231 اور حضرت امام شعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا _*" انما العالم من خشی اللہ عزوجل "*_ _*یعنی عالم صرف وہی ہے جسے خدائے تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت حاصل کی ہو*_ تفسیر خازن ومعالم التنزیل جلد پنجم صفحہ 302 اور امام ربیع بن انس علیہ الرحمتہ والرضوان نے فرمایا من لم یخش اللہ فلیس بعالم یعنی جسے اللہ کاخوف اور اس کی خشیت حاصل نہ ہو وہ عالم نہیں تفسیر خازن جلد پنجم صفحہ 302 *_❣لہذا ! ! !* بر تقدیر صدق مستفتی _*وہ شخص جو " نام کا عالم " ہے اور سارے کام شریعت مطہرہ کے خلاف کرتاہے اس کو کسی منصب پر فائز کرنا اور متدین عالم دین کے جیسی اس کی*_ _*تعظیم و توقیر کرنا جائز نہیں بلکہ مفسرین عظام کی تصریحات کی روشنی میں اس کو عالم بھی کہنا غلطی ہے اور وہ شخص عالم بھی کہلوانے کا مستحق وحقدار نہیں اگر چہ اس کے پاس کسی ادارے کی دوچار یا دس پندر فٹ کی عالم کی سند بھی ہو*_ *_⚡کیونکہ _ ! ! !* _*عالم کی اکرمیت وافضلیت خشیت الٰہی وخوف خداوندی کے سبب ہے*_ _*اور یہ پکی بات ہے جسے خوف الٰہی وخشیت خداوندی حاصل ہوگی وہ قطعاً شریعت مطہرہ کے خلاف نہیں کرے گا*_
-
تنویر القندیل فی اوصاف المندیل رومال کے اوصاف بیان کرنے میں قندیل کا روشن کرنا جلد 1 رسالہ 3 امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ 1.3 Romal K Aosaaf Me.pdf لمع الاحکام ان لا وضوء من الزکام روشن احکام کہ زکام سے وضو نہیں جلد 1 رسالہ 4 امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ 1.4 Zukaam Sy Wuzu.pdf
-
اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقاً علی قول الامام روشن ترآگاہی کہ فتوی قول امام پرہے جلد 1 رسالہ 1 امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ 1.1 Ajalal Elam.pdf الجود الحلو فی ارکان الوضوء باران شیریں ارکان وضو کے بیان میں جلد 1 رسالہ 2 امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ 1.2 Arkaan e Wuzo k Bayan Me.pdf
-
کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مولا علی رضی اللہ عنہ کو ممبر پر گالیاں نکلواتےتھے ؟
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا فتنہ شیعہ
کیا_حضرت_امیر_معاویہ_حضرت_علی_المرتضیٰ_کرم_اللہ_وجہہ_الکریم_کو_ممبر.pdf -
-
دیوبندیوں کا رشید گنگوہی پر کفر کا فتوی
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا فتنہ وہابی دیوبندی
66.deobndio ka rashed gangohi pr fatwa kufur.pdf