Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation since 19/03/2023 in all areas

  1. السلام علیکم اسلامی نیٹ ورک پچھلے تقریباً 18/19 سالوں سے دین حق مسلک حق اھلسنت و جماعت حنفی بریلوی کی خدمت کے لئے کوشاں ہے۔ اس تمام عرصے میں ہمارے اخراجات ٹیم ممبرز اور دیگر سنی حضرات کے تعاون سے کئے جاتےرہے ہیں. اسلامی محفل اور دیگر اسلامی ویب سائیٹس کی ہوسٹنگ ری نیوول بہت ہی قریب ہے۔ 31 دسمبر 2023 کو ہوسٹنگ کی مقررہ مدت ختم ہو جائے گی۔ ابھی تقریباً 68 دن باقی ہیں ہوسٹنگ کی مدت ختم ہونے میں اور اس کے بعد دو ماہ گریس پیریڈ ہوگا جو کہ کچھ اضافی ٹائم ہوسٹنگ کپمنی کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ اس عرصہ کے دوران ہمیں ہوسٹنگ ری نیو کرنے کیلئے مطلوبہ فنڈز کو برابر کرنا ہے۔ ویب سائیٹس کا ڈیٹا اتنا زیادہ ہے کہ اسے بیک اپ اور ٹرانسفر کرنے میں بھی شدید دشواری کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں تمام ممبرز سے گزارش ہے کہ تعاون فرمائیں۔ ہوسٹنگ کے کل اخراجات 417$ جو کہ پانچ سال (31 دسمبر 2028) تک کیلئے ہیں۔ ویب ہوسٹنگ کے ساتھ اسلامی محفل ڈاٹ کام ڈومین کی ری نیوول 5 مہینےبعد مئی 2024 میں ہے۔۔ 460$ ہمارا ہدف ہے۔ اگر پانچ سال کی ہوسٹنگ کا پیکج نہ لیا جائے اور ماہانہ یا سالانہ ہوسٹنگ پیکج کیا جائے تو ماہانہ اخراجات زیادہ ہو نگے۔ موجودہ ماہانہ فی 6.95$ ہے پانچ سال کی ایک ساتھ ادا کرنے کے حساب سے۔ جبکہ اگر اسے ماہانہ پیکج میں کنورٹ کر دیا جائے تو یہ ماہانہ فی 13.99$ ہوگی۔ اگر ایک سال کی ایک ساتھ ادا کی جائے تو ماہانہ چارجز 12.99$ ہونگے۔ اسی طرح تین سال کی ایک ساتھ ادا کرنے پر ماہانہ چارجز 10.99$ ہیں۔ آپ حضرات کے تعاون سے ہمیں ہدف مل جائے تو ہوسٹنگ اور ڈومین دونوں پانچ سال کیلئے ری نیو ہو جائیں۔ برائے کرم جتنا ہو سکتا ہے تعاون فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا تعاون کیلئے 03159783292 پر وٹس ایپ یا ایس ایم ایس میسج کریں یا اسلامی محفل پر پرسنل میسج کریں یا اس ٹاپک میں ریپلائی کریں۔ جزاک اللہ۔ The Islamic Network has been striving for the service of the Ahlus Sunnah wal Jama'ah, Hanafi Barelvi, for approximately 18/19 years. During this entire period, our expenses have been managed with the cooperation of team members and other Sunni individuals. The hosting renewal for the Islamic forum and other Islamic websites is very near. The hosting will expire on 31st December 2023. There are about 68 days left until the hosting period ends, followed by a two-month grace period, which is some additional time provided by the hosting company. During this period, we need to match the required funds for renewing the hosting. The data of the websites is so extensive that backing up and transferring it could also present severe difficulties. In this regard, we request all members to cooperate. The total hosting expenses are $417, which covers a period of five years (until 31st December 2028). The renewal of the IslamiMehfil.com domain with web hosting is due in May 2024, five months later. Our target is $460. If we do not opt for the five-year hosting package and choose monthly or yearly hosting, the monthly expenses will be higher. The current monthly fee is $6.95 if paid altogether for five years. If it is converted to a monthly package, it will be $13.99 per month. If paid annually, the monthly charges will be $12.99. Similarly, for three years paid together, the monthly charges are $10.99. With your cooperation, if we achieve our target, both hosting and domain can be renewed for five years. Please cooperate as much as you can. May Allah reward you with goodness. For cooperation, WhatsApp or SMS message on 03159783292, or send a personal message on the IslamiMehfil or reply in this topic. May Allah reward you. Hosting Expiry Date (31 Dec 2023) IslamiMehfil.com Domain Expires on 25 May 2024 Web Hosting Charges: $417 every five years ($6.95 per month) 2024 to 2028 1 Year renewal fee for IslamiMehfil.com: $8.03 Required: $460 for both hosting and domain renewal
    2 points
  2. Muhammad Ali, Khalil Rana, Touheedi Bhai, Saeedi Sahab Ka Mawad Jor Kar Is Kitab Ko Bnaya Gaya Heh, Allah Khadim ki is choti si mehnat ko qabool farmaye. Insha'Allah English Tarjuma Iska Shuru Krounga. https://archive.org/details/sayf-al-manan-rad-ulama-e-char-google-docs_202402/mode/1up
    2 points
  3. توسل النبیِﷺ بعد از وصال حضرت عثمان بن حنیفؓ کی روایت پر غیر مقلدین کا رد بلیغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام طبرانی اپنی معجم الصغیر میں ایک روایت نقل کرتے ہیں جسکی سند و متن یوں ہے ، 508 - حَدَّثَنَا طَاهِرُ بْنُ عِيسَى بْنِ قَيْرَسَ المُقْرِي الْمِصْرِيُّ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ " أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حَاجَةٍ لَهُ , فَكَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ , إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي , وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ , وَرُحْ إِلَيَّ حَتَّى أَرُوحَ مَعَكَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ عُثْمَانُ , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ , فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّى أَخَذَ بِيَدِهِ , فَأَدْخَلَهُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , وَقَالَ: حَاجَتُكَ؟ فَذَكَرَ حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا لَهُ , ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا ذَكَرْتَ حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَتْ هَذِهِ السَّاعَةُ , وَقَالَ: مَا كَانَتْ لَكَ مِنْ حَاجَةٍ , فَأْتِنَا , ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ , فَقَالَ: لَهُ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا , مَا كَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي , وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتَّى كَلَّمْتَهُ فِي , فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: وَاللَّهِ , مَا كَلَّمْتُهُ وَلَكِنْ شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَأَتَاهُ ضَرِيرٌ , فَشَكَا عَلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ , فَقَالَ: لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «أَفَتَصْبِرُ؟» , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ , وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ , فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «ائْتِ الْمِيضَأَةَ , فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ ادْعُ بِهَذِهِ الدَّعَوَاتِ» قَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ , مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضَرَرٌ قَطُّ " لَمْ يَرْوِهِ عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ إِلَّا شَبِيبُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو سَعِيدٍ الْمَكِّيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ وَهُوَ الَّذِي يُحَدِّثُ عَنِ أَحْمَدَ بْنِ شَبِيبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ الْأُبُلِّيِّ , وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ وَاسْمُهُ عُمَيْرُ بْنُ يَزِيدَ , وَهُوَ ثِقَةٌ تَفَرَّدَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسِ عْنِ شُعْبَةَ، **وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ** وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَوْنُ بْنُ عُمَارَةَ , عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ , عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهِمَ فِيهِ عَوْنُ بْنُ عُمَارَةَ وَالصَّوَابُ: حَدِيثُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ ایک شخص سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی ضرورت میں آیا کرتا تھا اور عثمان رضی اللہ عنہ (مشغولیت کی وجہ سے ) اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے اور اس کی ضرورت میں غور نہ فرماتے۔ وہ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے شکایت کی۔ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ، وضو کرو، پھر مسجد جا کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر کہو : اللھم ! إني أسئلك، وأتوجه إليك بنبينا محمد صلي الله عليه وسلم نبي الرحمة، يامحمد ! إني أتوجه إلي ربي، فيقضي حاجتي . (یا اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور اپنے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری طرف متوجہ کرتا ہوں۔ یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں آپ کو اپنے رب کی طرف (دعا کے لیے) متوجہ کرتا ہوں کہ وہ میری ضرورت کو پورا کر دے۔ ) پھر اپنی ضرورت کو اللہ کے سامنے رکھ دو، پھر میرے پاس آ جاؤ تاکہ میں تمہارے ساتھ چلوں۔ اس شخص کی ضرورت پوری ہوئی۔ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہی دعا ایک نابینا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تو اس کی بینائی لوٹ آئی امام طبرانی یہ روایت نقل کر کے اسکے مختلف طرق بھی نقل کرتے ہیں جن میں یہ روایت مختصر ہے اور امام طبرانی طرق نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں والحدیث صحیح ۔ (التاريخ الكبير للبخاري : 210/6، العلل لابن أبي حاتم الرازي : 190/2، المعجم الكبير للطبراني : 31، 30/9، ح : 8311، المعجم الصغير للطبراني : 184، 183/1، الدعاء للطبراني : 1287/2، 1288، ح : 1050، معرفة الصحابة لأبي نعيم لأصبھاني : 1959/4، 1960، ح : 4928) ********سب سے پہلے اس روایت پر غیر مقلدین کے اعتراض نقل کرکے اسکا رد بلیغ پیش کرتے ہیں************ اعتراض: اس کی سند ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ عبداللہ بن وہب مصری یہ روایت اپنے استاذ شبیب بن سعید حبطي (ثقہ ) سے کر رہے ہیں اور خود شبیب بن سعید اپنے استاذ روح بن القاسم سے روایت کر رہے ہیں۔ امام الجرح والتعدیل ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولشبيب بن سعيد، نسخة الزھري عنده، عن يونس عن الزھري، وھي أحاديث مستقيمة، وحدث عنه ابن وھب بأحاديث مناكير . ”شبیب کے پاس امام زہری رحمہ اللہ کی روایات پر مشتمل ایک نسخہ ہے جو وہ یونس کے واسطے سے زہری سے بیان کرتے ہیں اور وہ مستقیم احادیث ہیں۔ تاہم ابن وہب نے اس سے منکر احادیث بیان کی ہیں۔“ (الكامل لابن عدي : 31/4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، لا من رواية ابن وھب . ’’اس کی جو روایات اس کے بیٹے سے مروی ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں، البتہ ابن وہب سے اس کی جو روایات مروی ہیں، ان میں خرابی ہے۔“ (تقريب التھذيب : 2739) نیز فرماتے ہیں : وروي عنه ابن وھب أحاديث مناكير، فكأنه لما قدم مصر، حدث من حفظه، فغلط . ’’اس سے ابن وہب نے منکر احادیث بیان کی ہیں، گویا کہ جب یہ مصر آیا تو اس نے اپنے حافظے سے روایات بیان کیں اور غلطیاں کیں۔“ (ھدي الساري، ص : 409) یہ روایت بھی شبیب بن سعید سے عبداللہ بن وہب مصری بیان کر رہے ہیں۔ یہ جرح مفسر ہے، لہٰذا یہ روایت ’’ضعیف“ اور ’’منکر“ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ شبیب بن سعید جب مصر میں گیا تو وہاں اس نے اپنے حافظہ سے احادیث بیان کیں، جن میں سے وہ غلطی اور وہم کا شکار ہو گیا۔ شبیب بن سعید ابوسعید البصری کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔ جواب : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ) لکھتے ہیں : أخرج البخاري من رواية ابنه (أحمد) عن يونس (بن يزيد الأيلي) أحاديث، لم يخرج من روايته عن غير يونس، ولا من رواية ابن وھب عنه شيئا … ”امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے بیٹے سے وہ روایات لی ہیں جو وہ اپنے والد سے یونس بن یزید ایلی کے واسطے سے بیان کرتا ہے۔ امام صاحب نے شبیب کی وہ روایات بیان نہیں کیں جو وہ یونس کے علاوہ کسی اور سے بیان کرتا ہے، نہ ہی ابن وہب سے ان کی کوئی روایت بخاری میں ہے۔“ (ھدي الساري، ص : 409) حاصل کلام یہ ہے کہ شبیب بن سعید سے ان کے شاگرد عبداللہ بن وہب مصری بیان کریں تو روایت ’’منکر“ اور ’’ضعیف“ ہوتی ہے۔ زیر بحث روایت بھی عبداللہ بن وہب المصری بیان کر رہے ہیں، اس لیے یہ ”منکر“ اور ’’ضعیف“ ہے، لہٰذا امام طبرانی رحمہ اللہ کا اس کو ”صحیح“ کہنا صحیح نہ ہوا۔ ****غیر مقلدین کے اعتراض کا رد **** غیر مقلدین ھدی الساری سے امام ابن حجر کی عبارت نقل کرتے ہیں جو انہوں نےامام ابن عدی کے حوالے سے نقل کے اسکے جواب میں لکھتے ہیں سب سے پہلے ہم وہ عبارت مکمل پیش کرتے ہیں ۔۔۔ شبیب بن سعید ابوالحبطی ابو سعید البصری وثقہ ابن المدینی و ابو زرعہ ، و ابو حاتم و نسائی و الدارقطنی و الذھلی، وقال ابن عدی: عندہ لنسختہ عن یونس عن الزھری مستقیمتہ ، وروی عنہ ابن وہب احادیث مناکیر فکانہ للا قدم مصر حدث من حفظہ فغلط و اذا حدث عنہ ابنہ احمد فکانہ شبیب آخر لانہ یجود عنہ، قلت: اخرج البخاری من روایہ ابنہ عن یونس احادیث ، ولم یخرج من روایہ عن غیر یونس ولا من روایہ ابن وہب عنہ شئیا۔۔۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے پہلے امام نسائی ، امام علی بن مدینی ، امام دارقطنی ، امام ابو زرعہ، امام ابو حاتم اور امام الذھلی سے شبیب بن سعید کی صریح توثیق بیان کی ہے کہ شبیب بن سعید کو مندرجہ اماموں نے ثقہ قرار دیا ہے ۔ پھر اسکے ساتھ امام ابن حجرعسقلانیؒ امام ابن عدی کا قول نقل کر کے اسکا بخاری کی صیحت پر اسکے اثر کو ختم کرتے ہیں ۔ چناچہ وہ لکھتتے ہیں کہ امام ابن عدی نے کہا کہ (شبیب بن سعید) کے پاس نسخہ تھا جو وہ یونس کے حوالے سے زھری سے روایت کرتے تھے وہ مستقیم یعنی محفوظ تھا اور ابن وہب نے اس سے احادیث مناکیر بیان کی ہیں کیونکہ جب وہ مصر گئے تو اپنے حافظے سے غلط بیان کر دیا اور ان سے انکا بیٹااحمد بھی روایت کرتا ہے۔ میں(ابن حجر) کہتا ہوں کہ بخاری نے کوئی بھی روایت شبیب کی اپنی صحیح میں درج نہیں کی جو بغیر یونس سے روایت کرے یا جس میں اس سے ابن وہب بیان کرتاہو۔ اس پوری عبارت کو شروع سے نقل کرنے سے یہ معلوم ہو گیا کہ امام ابن حجر نے جمہور محدثین سے پہلے اسکی صریح توثیق بیان کی پھر ایک امام ابن عدی کا قول نقل کیا جو کہ خاص امام زھری کے نسخے کے حوالے سے ہے کہ شبیب جب زھری کا نسخہ یونس کے حوالے سے بیان کرتا تھا تو ابن وہب نے اس سے مناکیر بیان کیں ۔ اس یہ بات ثابت ہو گئی کہ شبیب صحیح بخاری کا راوی ہونے کے ساتھ ثقہ ہے اور زھری کے نسخے والی روایات بیان کرنے سے اسکے حافظے سے غلطی و وھم ہوا جس کی وجہ سے ابن وہب نے ان سے مناکیر بیان کر دیں۔ تو محدثین نے شبیب کی روایات میں سے مناکیر کی نشاندہی کرنے کے لیے یہ شرط لگائی جب شبیب بن سعید سے ابن وہب زھری کے نسخے والی روایت بیان کرےگا تو وہ ضعیف ہوگی۔ تقریب التہذیب میں امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، لا من رواية ابن وھب . ’’اس کی جو روایات اس کے بیٹے سے مروی ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں، البتہ ابن وہب سے اس کی جو روایات مروی ہیں، ان میں خرابی ہے۔“ (تقريب التھذيب : 2739) امام ابن حجر عسقلانی نے شبیب بن سعید کے بارے اپنا موقف واضع بیان کر دیا کہ شبیب بن سعید کی حدیث مٰیں کوئی حرج نہیں جب اس سے اسکا بیٹا روایت کرے لیکن جب ابن وہب بیان کرے گا تو اس میں خرابی ہوگی ۔ ۔ امام ابن حجر عسقلانی کے اس واضع ترجمے سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ شبیب بن سعید جب کوئی ایسی روایت بیان کرے جس میں اسکا بیٹا اس سے روایت کر رہا ہو اور اس سند میں ابن وہب موجود نہ ہو تو وہ روایت بقول ابن حجر عسقلانیؒ اور دیگر محدثین کرام کے اصول کے مطابق صحیح قرار پائے گی ۔ تو اس طرح امام ابو جعفر دستوریہ مشیخہ سفیان الفسوی میں اس روایت اپنی سند سے یوں بیان کرتے ہیں 113- حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بن جعفر، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَديني، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ , عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ: أَنَّ رَجُلاً كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عثمان بن عفان في حاجة , فَكَانَ عُثْمَانُ لاَ يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلاَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي تقضي حَاجَتِي , تَذْكُرُ حَاجَتَكَ , ثم رح حَتَّى أَرُوحَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ ذلك , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ بن عفان، فجاء البواب، فأخذ بيده فأدخله على عثمان , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , فقَالَ له: حَاجَتُكَ؟ [7/أ] فَذَكَرَ له حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا، ثم قَالَ ما فهمت حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَ السَّاعَة، وقال انظر مَا كَان لَكَ مِنْ حَاجَةٍ ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ فَلَقِي عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ، فقال له: جزاك الله خيرًا، ما كان ينظر في حاجتي، ولا يلتفت إلي حتى كلمته، فقال عثمان بن حنيف: ما كلمته ولكني سَمِعْتُ رَسُول الله صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَه ضَرِيرٌ فَشَكَى إِلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَتَصْبِر؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثم قل اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ، نَبِيَّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي، فَيجْلِي لي بَصَرِي، اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ وَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي، فقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضرر قَطُّ. (مشیخہ الفسوی) اس سند کے سارے رجال ثقہ ہیں اور اس سند میں شبیب بن سعید سے انکا بیٹا روایت بیان کر رہا ہے اور اس میں ابن وہب بھی نہیں ہے تو یہ روایت جمہور محدثین کے اصول کے مطابق صحیح قرار پائے گی اعتراض: شبیب بن سعید کے بارے میں تو ابن حجر نے کہا کہ بخاری نے اپنی صحیح مٰیں شبیب بن سعید کی بغیر یونس سے کوئی روایت نہیں لی اسکا مطلب شبیب بن سعید کی روایت کے صحیح ہونے کے لیے یہ لازم ہوگا کہ یونس سے جب شبیب روایت کرے اور ابن وہب ان سے بیان نہ کرے تو تب روایت صحیح ہوگی الجواب: یہ اعتراض غیر مقلدین کی جہالت یا دھوکےبازی ہے کیونکہ اوپر ثابت کر چکے کہ امام ابن عدی نے یہ اعتراض صرف زھرے کے نسخے کے تحت کیا کہ شبیب کے پاس جو نسخہ تھا وہ تو محفوظ تھا لیکن ابن وہب نے اس سے مناکیر روایت کی ہیں ۔ تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ امام ابن عدی نے زھری کے نسخے کے حوالے سے ابن وہب کا شبیب بن سعید سے روایت کرنے پر یہ جرح کی ہے ۔ یہ جرح زہری کے نسخے والی روایت کے ساتھ ہے نہ کہ شبیب بن سعید کے مطلق روایت پر یہ جرح ہے بس جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے فیصلہ دیا کہ شبیب بن سعید کی روایت جو اسکا بیٹا اس سے روایت کرے گا اس مٰں کوئی حرج نہیں ۔ (اس میں یونس سے روایت کرنے کی کوئی شرط نہیں ہے) البتہ ابن وہب جب بیان کرتا ہے شبیب بن سعید سے تو تب روایت ضعیف قرار پائے گی خرابی کی وجہ سے ۔ لیکن غیر مقلدین کیونکہ ضدی ہوتے ہیں جب تک انکو ثبوت سے چپ نہ کرایا جائے بات سمجھ آنے کے باوجود بھی یہ ضد جاری رکھتے ہیں تو امام الحاکم نے مستدرک الصحیحین میں شبیب بن سعدکی اس روایت کے مختصر متن جو کہ اسکا بیٹااس سے روایت کررہا ہے اس میں ابن وہب نہیں ہے اس روایت کے مطلق لکھا ھذا حدیث صحیح علی شرط بخاری (المستدرک الحاکم برقم1930) اور تعلخیص میں امام ذھبیؒ نے بھی شبیب بن سعید سے اسکے بیٹے سے مروی روایت جو بغیر یونس اور بغیر ابن وہب کے ہے اسکو بخاری کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ امام بیھقی نے دلائل نبوہ میں حضرت عثمان بن حنف سے بعد از وصال والی روایت روایت کو نقل کر کے اسکے بعد اسکی تین اسناد لکھی ہیں جو یہ ہیں ۱۔أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ الزَّاهِدُ، رَحِمَهُ اللهُ، أَنْبَأَنَا الْإِمَامُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الشَّاشِيُّ الْقَفَّالُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو عَرُوبَةَ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدِينِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ بلخ۔۔۔ ۲۔وَقَدْ رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ أَيْضًا بِطُولِهِ . أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَاذَانَ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتَوَيْهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، فَذَكَرَهُ بِطُولِهِ . وَهَذِهِ زِيَادَةٌ أَلْحَقْتُهَا بِهِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعِينَ اور تیسری سند یوں بیان کی ، وَرَوَاهُ أَيْضًا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ عَمِّهِ وَهُوَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ امام بیھقی کی دلائل نبوہ میں اسکی تین اسناد بیان کی ہیں ہم نمبر ۲ پر جو سند بیان کی ہےامام بیھقی نے اسکے رجال کی تحقیق پیش کرتے ہیں پہلا راوی ابْنُ شَاذَانَ الحَسَنُ بنُ أَحْمَدَ بنِ إِبْرَاهِيْمَ البَغْدَادِيُّ امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں الإِمَامُ، الفَاضِلُ، الصَّدُوْقُ، مُسْنِدُ العِرَاق، أَبُو عَلِيٍّ الحَسَنُ بنُ أَبِي (سیر اعلام النبلاء جلد 17، ص 445) دوسرا راوی ابْنُ دَرَسْتَوَيْه عَبْدُ اللهِ بنُ جَعْفَرٍ الفَارِسِيُّ امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، شَيْخُ النَّحْوِ، أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بنُ جَعْفَرِ بنَ دَرَسْتَوَيْه بنِ المَرْزُبَانِ الفَارِسِيُّ، النَّحْوِيُّ، تِلْمِيْذُ المُبَرِّدِ. سَمِعَ: يَعْقُوْبَ الفَسَوِيَّ فَأَكْثَرَ، لَهُ عَنْهُ (تَاريخُهُ) وَ (مَشيخَتُه) . وَسَمِعَ بِبَغْدَادَ مِنْ: عَبَّاسِ بنِ مُحَمَّدٍ الدُّوْرِيِّ، وَيَحْيَى بنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَبِي مُحَمَّدٍ بنِ قُتَيْبَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ مُحَمَّدٍ كُرْبَزَان، وَمُحَمَّد بنِ الحُسَيْنِ الحُنَيْنِيّ. قدم مِنْ مدينَة فَسَا (1) فِي صباهُ إِلَى بَغْدَادَ، وَاسْتوطنهَا، وَبَرَعَ فِي العَرَبِيَّة، وَصَنَّفَ التَّصَانِيْفَ، وَرُزِق الإِسْنَاد العَالِي. وَكَانَ ثِقَةً. (سیر اعلام النبلاء جلد 15، ص 581) تیسرا راوی امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں الفَسَوِيُّ يَعْقُوْبُ بنُ سُفْيَانَ بنِ جُوَانَ الإِمَامُ، الحَافِظُ، الحُجَّةُ، الرَّحَّالُ، مُحُدِّثُ إِقْلِيْم فَارِسَ، أَبُو يُوْسُفَ يَعْقُوْبُ بنُ سُفْيَانَ بنِ جُوَانَ الفَارِسِيُّ، مِنْ أَهْلِ مَدِيْنَةِ فَسَا، وَيُقَالُ لَهُ: يَعْقُوْبُ بنُ أَبِي مُعَاوِيَةَ. مَوْلِدُهُ: فِي حُدُوْدِ عَامِ تِسْعِيْنَ وَمائَةٍ، فِي دَوْلَةِ الرَّشِيْدِ. وَلَهُ (تَارِيْخٌ) كَبِيْرٌ (2) جَمُّ الفوَائِدِ، وَ (مَشْيَخَتُهُ) فِي مُجَلَّدٍ، رَوَيْنَاهَا. (سیر اعلام النبلاء جلد 13، ص 180) چوتھاراوی امام یعقوب بن سفیان نے اس سے روایت لی ہے تو انکی توثیق بھی شامل ہو گئی کیوں کہ وہ صرف اپنے نزدیک ثقہ راویوں سے روایت لیتے ہیں امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں 234 - أَحْمَدُ بنُ شَبِيْبِ بنِ سَعِيْدٍ الحَبَطِيُّ * (خَ، س) الإِمَامُ، أَبُو عَبْدِ اللهِ البَصْرِيُّ، المُجَاوِرُ بِمَكَّةَ. حَدَّثَ عَنْ: أَبِيْهِ، وَيَزِيْدَ بنِ زُرَيْعٍ، وَمَرْوَانَ بنِ مُعَاوِيَةَ. وَعَنْهُ: البُخَارِيُّ، وَابْنُ المَدِيْنِيِّ، وَالفَلاَّسُ، وَأَبُو حَاتِمٍ، وَإِبْرَاهِيْمُ الحَرْبِيُّ، وَأَبُو زُرْعَةَ، وَالفَسَوِيُّ، وَخَلْقٌ. قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: ثِقَةٌ، صَدُوْقٌ (1) . وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ: مَاتَ سَنَةَ تِسْعٍ وَعِشْرِيْنَ وَمائَتَيْنِ (2) (سیر اعلام النبلاء جلد 10 ، س، 653) اس روایت کی ایک سند امام بیھقی نے دلائل النبوہ میں صحیح رجال سے پیش کی ہے اور دوسری صحیح سند مشیخہ الفسوی میں سے پیش کر دی گئی ہے جو اپر بیان کر دی گئی ہے ۔ اور ان دو اسناد کی وجہ سے امام طبرانی کی المعجم الکبیر میں موجود ابن وہب سے مروی روایت بھی صحیح قرار پائے گی کیونکہ بغیر ابن وہب سے یہ روایت شبیب کے بیٹے نے بیان کی ہے توامام بطرانی کا اس روایت کو صحیح کہنا بالکل صحیح قرار پائے گا خلاصہ تحقیق یہ ہے کہ شبیب بن سعید بخاری کا راوی ہے اور ثقہ ہے اور اسک روایت صرف وہ ضعیف ہوگی جس میں ابن وہب ان سے بیان کررہا ہو۔ اور شبیب بن سعید کا بیٹا موجود نہ ہو۔ جبکہ ہماری دی گئی روایت میں شبیب بن سعید سے انکا بیٹا احمد بن شبیب روایت اپنے والد شبیب بن سعید سے بیان کر رہا ہے اور اس میں ابن وہب نہیں پش اعتراض باطل ہوئے اور یہ روایت محدثین کے مطابق صحیح ہے جیسا کہ درج زیل محدثین نے اس روایت کی توثیق کی ہے ۱۔امام طبرانی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ۲۔امام الصالح الشامی الشافعی نے سبل الحدی میں اس روایت کو بروایت متصل ثقات کہہ کر توثیق کی ہے ۳۔امام ابو بکر الہیثمی نے اس روایت کق مجمع الزوائد میں نقل کر کے امام بطرانی کی توثیق کو بر قرار رکھا ہے نقل کر کے ۴۔امام مندیری نے بھی اس روایت کو ترتیب التہذیب مٰیں امام طبرانی کی توثیق نقل کر کے موافقت کی ہے **** تمام حوالاجات کے اسکین نیچے موجود ہیں *** ّ(((( دعا گو، رانا اسد فرحان الطحاوی خادم الحدیث ✍️جمعہ ۲۷ جولائی)))
    2 points
  4. بسم اللہ الرحمن الرحیم ہم خوشی سے آپ کو مطلع کرتے ہیں کہ اسلامی محفل فورم کے اپ گریڈ کا عمل کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے۔ اس عمل میں پرانی فائلوں کا محفوظ بیک اپ لے کر، سسٹم کی صفائی کی ہے۔ اس کے علاوہ، فورم پر ایک نئے لوگو logo کا اضافہ کیا گیا ہے جو انگلش اور اردو دونوں زبانوں میں موجود ہے۔ پرانے پوائنٹس سسٹم کی جگہ ایک نیا اور جدید سسٹم متعارف کرایا ہے جو کہ پوسٹنگ اور دیگر فورم کی سرگرمیوں کے مطابق صارفین کو رینک اور بیجز سے نوازے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، فورم کی کارکردگی اور صارفین کے تجربے کو بہتر بنانے کے لئے متعدد دیگر بہتریاں بھی کی گئی ہیں۔ اگر آپ کو فورم استعمال کرتے وقت کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا ہو، یا اگر فورم پر تصاویر، پوسٹ اٹیچمنٹس وغیرہ نظر نہ آئیں تو براہ کرم اس ٹاپک میں اپنی رائے کا اظہار کریں تاکہ ہم آپ کی مدد کر سکیں۔ We are pleased to inform you that the upgrade process of the IslamiMehfil has been successfully completed. During this process, we took a secure backup of old files and cleaned up the system. Additionally, a new logo that is available in both English and Urdu languages has been added to the forum. We have introduced a new and modern system that replaces the old points system, which will reward users with ranks and badges based on their posting and other forum activities. Moreover, several other improvements have been made to enhance the forum's performance and user experience. If you encounter any difficulties while using the forum, or if images, post attachments, etc., do not appear on the forum, please express your feedback on this topic so we can assist you.
    1 point
  5. لفظ عشق کا استعمال pdf Lafze Ishq Ka Istemal (Urdu).pdf
    1 point
  6. مولانا انتظار حسین کشمیری حضرت ہندہ رضی اللہ عنھا نے فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا اور شرف صحابیت سے مشرف ہوئیں اور اسلام سابقہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے لہذا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جو انہوں نے قبل اسلام کیا اس پر اعتراض درست نہیں- Sayyidatuna Hind b. ‘Utbah رَضِیَ الـلّٰـهُ عَنْهَا Maulana Bilal Sa’eed ‘Attari Madani https://www.dawateislami.net/magazine/en/remembrance-of-pious-ladies/sayyidatuna-hind-bint-utbah Once, a maid hurried to the Beloved Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم with a gift of two baby goats. Arriving at the tent, she greeted and sought permission to enter. ‘My lady has sent a gift for you,’ she said, ‘and has apologised. Our goats have given birth to only a few baby goats (otherwise we would have gifted more to you).’ The Honourable Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم accepted the gift and supplicated: ‘May Allah Almighty bless your goats and increase them.’ The maid returned to her lady, telling her the supplication of the Holy Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم. Hearing these gracious words, the woman was moved with joy. The maid later testified that following this incident, there was an unprecedented increase in their livestock. The lady would explain it as a result of the blessings of the Honourable Prophet’s supplications. The lady also said, ‘I saw myself in a dream, standing in the sun. There was shade near me but I was unable to reach it. Then, the Beloved Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم came close to me and because of him, I was able to reach the shade,’ (Tareekh Ibn-e-Asakir, vol. 70, p. 184). She accepted Islam on the day of the Conquest of Makkah. Do you know who this lady was? She was a companion of the Beloved Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم and her name was Sayyidatuna Hind b. ‘Utbah Al-Hashimiyyah. Her husband was Sayyiduna Abu Sufyan and her son was Sayyiduna Ameer Mu’awiyah رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُما. Love for Islam She had such immense love for Islam that she broke the idol that was in her house, declaring, ‘We were in delusion because of you,’ (Tabaqat Ibn-e-Sa’d, vol. 8, p. 188). Praiseworthy Qualities She رَضِیَ الـلّٰـهُ عَنْهَا was an expert in Arabic stylistics and rhetoric and extremely intelligent, (Usd-ul-Ghaabah, vol. 7, p. 316). Devotion to the Beloved Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم Sayyidatuna Hind b. ‘Utbah رَضِیَ الـلّٰـهُ عَنْهَا said, ‘Messenger of Allah! On the entire earth, there was no-one more hated by me than your family. But today, there is no family more beloved to me than your family,’ (Bukhari, vol. 2, p. 567, Hadith 3825). As a brave and astute warrior, she served Islam by participating in the Expeditions of Yarmuk and Al-Qadisiyah, (Mirat-ul-Manajih, vol. 6, p. 174). At a critical moment in the Expedition of Yarmuk, she encouraged the believers, ‘Fight in the way of Allah Almighty and sacrifice your lives,’ (Futooh Al-Sham, vol. 1, p. 196). Similarly, when the women were pledging allegiance to the Honourable Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم, she too joined in, (Tabaqat Ibn-e-Sa’d, vol. 8, p. 189). Passing Away During the reign of Sayyiduna ‘Umar رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ, she passed away on the same day as Sayyiduna Abu Bakr Al-Siddiq’s father, Sayyiduna Abu Quhafah Uthman. Her legacy includes the many hadith she transmitted, (Mirqat-ul-Mafatih, vol. 8, p. 243, under the Hadith 4466). https://www.arabicdawateislami.net/blog/533 هي هند بنت عُتْبَةَ، أمّ سيدنا معاوية بن أبي سفيان رضي الله تعالى عنهما، وزوجة سيدنا أبي سفيان بن حرب رضي الله تعالى عنهما، كانت السيدة هندٌ امرأةً قويةً، فذَّةً في الجاهلية والإسلام، وكان لها أثر قويّ في عداوتها الإسلامَ والمسلمين في الجاهلية، ثم بعد ذلك فتحَ الله على قلبها فأسلمَتْ وحَسُنَ إسلامها، أعلنت السيدة هندٌ إسلامَها عامَ الفتح، وأتتْ النبيّ ﷺ مع وفد النساء للمبايعة وهي تغطّي وجهَها؛ لكيلا يعرفَها رسولُ الله ﷺ؛ وذلك بسبب مواقفِها السابقة المعاديةِ للإسلام والمسلمين، فخافت من المحاسبة، ولم تكن تعلم أن الإسلام يجُبُّ ما قبله، فلا يُحاسب المرء على أفعاله قبل الإسلام. إتيانها الرسول ﷺ للمبايعة: عندما أتتْ السيدة هند عند الرسول ﷺ للمبايعة، كانت تتكلّم بلسان النساء وتنوبُ عنهنّ لما لها من قوة وجرأة، فعرفها النبي ﷺ وقال لها: أنت "هند بنت عتبة"؟ فقالت: أنا هند بنت عتبة، فاعفُ عمّا سبق عفا الله عنك، فرحّب بها النبي ﷺ، مع أنها كانت من أشدِّ الأعداء لرسول الله ﷺ، وكانتِ الداعمَ الأكبرَ والسبب الأولَ لمقتلِ سيدنا حمزةَ بن عبد المطلب رضي الله تعالى عنه، ومع ذلك عفا عنها رسولُ الرحمة الذي قال الله تعالى فيه: وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا رَحۡمَةٗ لِّلۡعَٰلَمِينَ ١٠٧ فالرسول الكريم ﷺ قَبِل إسلامَها ولم يُوجِّهْ لها حتى كلمة عتابٍ ولوم، هكذا كان قلبه الشريف ﷺ، لا يعرف الحقد، سليم الصدر، يعفو ويرحم، فالنبي الكريم ﷺ لم يحاسب هندًا رضي الله تعالى عنها ولا غيرَها من المسلمين على ذنوبٍ اقترفوها قبل الإسلام * السيدةُ هندٌ رضي الله تعالى عنها ووقعة اليرموك: أسلمت السيدة هند رضي الله عنها وحَسُن إسلامها قبل وقعة اليرموك، فشهدتِ الوقعةَ مسلمةً مع زوجِها، وكانت لها مواقفُ مشرِّفةٌ فيها، فكانت من المحرّضين على قتال الروم * السيدة هند رضي الله عنها الأمّ الْمُربّيةُ والْمُؤثّرة: كانتِ السيدة هندٌ رضي الله عنها إلى جانبِ شخصيتها القويةِ أُمًّا، والأمّ هي المربّية وهي المؤثّرة على تكوين شخصية أولادها ذكورًا كانوا أو إناثًا، وقد أثّرت شخصيةُ السيدة هندٍ رضي الله تعالى عنه في تربية ابنِها سيدنا معاوية رضي الله تعالى عنه تأثيرًا واضحًا، فقد ورد أنّ سيدنا معاوية رضي الله تعالى عنه كان رجلاً سياسيًّا ذكيًّا داهيةً، وسبب ذلك ما تلقّاه من حسن التربية والتنشئة، وقد ورد أنّ سيدنا أبا سفيان -رضي الله تعالى عنه- كان يذهبُ إلى دار الندوةِ الذي تجتمع فيه ساداتُ قريش قبلَ الإسلام لبحثِ الأمورِ المهمة، وكان يصطحب معه ابنَه سيدنا معاوية رضي الله تعالى عنه، وفي إحدى المرّات شارك سيدنا معاوية رضي الله تعالى عنه -وهو ابنُ سبعِ سنين- في الحوار وأبدى تعليقًا ذكيًّا فأبهر ساداتِ قريش، وذات يومٍ نظر سيدنا أبو سفيان رضي الله تعالى عنه إلى ابنِهِ معاوية رضي الله تعالى عنه وهو غلامٌ فقال: إنّ ابني هذا لعظيمُ الرأسِ، وإنّه لخَلِيقٌ أن يسودَ قومَه، فقالت سيدتُنا هندٌ رضي الله تعالى عنها: قومَهُ فقط، ثكلته إن لم يَسُدِ العربَ قاطبةً فهكذا كانت السيدة هندٌ رضي الله تعالى عنه تربّي ولدها على القيادة والرِّياسة مُنذ الصغر، وهذا شأن الأمهات اللواتي يكتبْنَ التاريخَ في أبنائهن، فقد كانت الشجاعةُ والقوة تجري مجرى الدم في سيدتِنا هندٍ رضي الله عنها، فربَّت أولادَها على ذلك، ولذلك كرّم الإسلام الأمهاتِ وجعل لهنّ مرتبةً عظيمةً ومقامًا رفيعًا، فالأمهات هنّ صانعاتُ الرجال، فكم من أمٍّ فقدت زوجَها وربّتْ أولادَها بمفردها، وكم من أمٍّ عظيمةٍ خلّد التاريخ ذكرَها، كأمِّ الإمامِ البخاريِّ، وأمِّ الإمامِ مالكٍ، وأمِّ الإمامِ الشافعيِّ، وأمِّ الإمامِ أحمدَ بنَ حنبلٍ رحمه الله تعالى، فهؤلاء الأئمةُ جميعًا توفّيت آباؤهم في صغرهم، وتولّتْ أمهاتُهم أمرَ تربيتِهم، فأنشأْنَ أولادَهنّ نشأةً صالحةً خلّد التاريخُ ذكرَها، ونحنُ نروي قصص هؤلاء النساء كي تتأسّى بهنّ نساءُ المسلمين اليومَ، فالمرأة شأنُها عظيمٌ، وهي من تتولّى أمرَ تربيةِ أولادِها، وهي التي تكون مع أولادِها غالبَ الوقت، ولهذا تأثير الأمّ أقوى من الأب دائمًا، فالأمّ لها رتبةٌ عاليةٌ في الإسلام، وفي عهدِ النبوة كانَ للصحابيّاتِ دورٌ كبير في العلم والتربية وحتى في الجهادِ في سبيل الله. * صبرها عند وفاة أولادها: اشتُهرتِ السيدة هندٌ رضي الله عنها بذكائِها وحكمتها وفصاحتها، فكانت أديبةً بليغةً، ورد عنها الشعرُ والنثرُ، وورد عنها أنّها كانت صابرةً محتسبةً، ومن مواقفِ صبرِها ما وقعَ لها في خلافة سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه من موتِ ابنِها "يزيد" بالطاعون، فعندما ذهب سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه لتعزيتها وجدَها صابرةً محتسبةً تقول: "إنّا لله وإنّا إليه راجعون" فضائلها ومناقبها رضي الله عنها: من فضلها ومناقبها رضي الله عنها أنها نزل فيها قوله تعالى: يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتُ يُبَايِعۡنَكَ عَلَىٰٓ أَن لَّا يُشۡرِكۡنَ بِٱللَّهِ شَيۡـٔٗا وَلَا يَسۡرِقۡنَ وَلَا يَزۡنِينَ وَلَا يَقۡتُلۡنَ أَوۡلَٰدَهُنَّ وَلَا يَأۡتِينَ بِبُهۡتَٰنٖ يَفۡتَرِينَهُۥ بَيۡنَ أَيۡدِيهِنَّ وَأَرۡجُلِهِنَّ وَلَا يَعۡصِينَكَ فِي مَعۡرُوفٖ فَبَايِعۡهُنَّ وَٱسۡتَغۡفِرۡ لَهُنَّ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ ١٢ نزلت هذه الآيةُ فيها وفي أخواتِها من النساءِ اللواتي بايعنَ النبيّ ﷺ بعدَ الفتح. ومما وردَ في فضلِها وكرمِها وتكريمِ النبيِّ ﷺ لها أنَّها أهدَتْ للنبيِّ ﷺ جَدْيَيْنِ واعتذرتْ من قلّةِ ولادةِ غنمها، فدعا لها رسولُ اللهِ ﷺ بالبركة في غنمها، فكثُرَ غنمُها ببركة دعاء النبي ﷺ، فكانت تعطي وتهبُ منها وتقول: هذا من بركة رسولِ الله ﷺ، فالحمدُ لله الذي هدانا للإسلام مواقفها في خلافة سيدنا عمر رضي الله تعالى عنه: ورد أن سيدنا عمر رضي الله تعالى عنه نهى سيدَنا أبا سفيانَ زوجَ السيدةِ هندٍ رضي الله تعالى عنهما عن رشِّ باب منزله حتى لا ينزلقَ الحجّاجُ الذين يمرّون أمامه، فلم يمتنعْ سيدنا أبو سفيان رضي الله تعالى عنه عن رشِّ الماء، فمرّ سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه ذاتَ يومٍ أمامَ منزله فانزلقَ بسببِ رشِّ أبي سفيان رضي الله تعالى عنه للماء، فقال سيدنا عمر رضي الله تعالى عنه لسيدنا أبي سفيان رضي الله تعالى عنه: ألم أنهَكَ أن تفعلَ هذا؟ فوضع سيدُنا أبو سفيان رضي الله تعالى عنه يدَهُ على فمِه؛ وهذا بمعنى الاعتذار منه، فقال سيدنا عمر رضي الله تعالى عنه: الحمد لله الذي جعلني آمُرُ أبا سفيان فيعملُ ما آمُرُه به، فسمعتْهُ السيدةُ هندٌ رضي الله تعالى عنه فقالت: أحمده يا عمر! فإنك إن تحمَدْهُ فقد أُوتِيتَ عظيمًا انتقالها من الدنيا الفانية إلى الآخرة الباقية: تُوفّيت رضي الله تعالى عنه في خلافة سيدنا عمر رضي الله تعالى عنه، في السنة الرابعة عشرة للهجرة النبوية الشريفة، في نفسِ اليومِ الذي مات فيه أبو قحافة والدُ سيدِنا أبي بكرٍ الصديقِ رضي الله عنهما #مركز_الدعوة_الاسلامية #مركز_الدعوة_الإسلامية #الدعوة_الإسلامية #مجلة_نفحات_المدينة #نفحات_المدينة
    1 point
  7. حنفیت کے باغی دیوبندی وہابی جلد 1.pdf
    1 point
  8. Ghunya mein Ahle Hadith bil muqabil Ahle Ra'ee heh ... yehni joh aqli goray dora kar Quran ko samajtay hen un kay khilaaf Ahle Hadith yehni Ahle Sunnat. Aik zamana thah jab philosophy mantiq waghayra kay zor say logoon ko Quran ko samajna shoroon keeya aur inneeh ko Sunnat/Hadith par tarjeeh denay lagay. yahan par ghayr muqallid Wahhabi ahle hadith murad nahin balkay woh murad hen jo Sunnat par chaltay thay. aur woh sab hi muqallid aur imamoon ko follow kartay thay. Ghayr muqallidiyat toh 150/200 saal purani heh. Wahhabiyun nay Ahle Hadith ka title apna leeya jistera mein aik Jammat e Sahaba bana loon Sahabi ka lakab na-haq apna upoor laga loon aur phir jitni hi Sahaba ki shaan mein Hadith hen apnay upar aur meray peechay chalnay waloon par fit karna shoroon ho jahoon. Toh aisa karnay say mein aur peray gumra perokar Sahabiat kay darjay par faiz hen? Nahin nah! Is'see tera Wahhabiyun ka Ahle Hadith ka title apna lenay say woh Ahle Hadith nahin.
    1 point
  9. حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرا م کر دیا اور جس کے متعلق اللہ نے سکوت فرمایا وہ معاف ہے (یعنی مباح ہے)
    1 point
  10. Salam alaykum, "2) Hadees e Paak mein bhi aaya hai ke Dua Ibaadat hai" Part 1 - Sab say pehlay, Hadith e Dua Ibadat heh is par thori wazahat. Allah kay Nabi sallallahu alayhi wa aalihi was'sallam ka farman heh, Dua Ibadat heh: “An-Nu`man bin Bashir narrated that: The Prophet said: “The supplication, is worship.” Then he recited: And Your Lord said: “Call upon me, I will respond to you. Verily, those who scorn My worship, they will surely enter Hell humiliated." [Ref: Tirmadhi, B45, H3372, here.] Pehlay is Hadith nay zahir par thora bayan. Is Hadith ka yeh mana nahin kay har pukar/dua Ibadat heh. Agar Wahhabi kehta heh kay is Hadith ki bunyad par har dua ibadat heh toh phir is ayaat ka kia banay ga: “(Remember) when you (fled and) climbed (the mountain) without looking aside at anyone while the Messenger was calling you from behind. So Allah repaid you with distress upon distress ...” [Ref: 3:153] Yehni Allah kay Nabi (sallallahu alayhi wa aalihi was'sallam) tum ko pukar/dua rahay thay. Yahan lafz joh istimal huwa heh dua ka hi makhaz heh. Agay wali ayaat mein heh kay Allah sahaba ko RasoolAllah (sallallahu alayhi wa aalihi was'sallam) ko pukarnay/dua ka tareeka bata raha heh: “Do not make (your) calling of the Messenger among yourselves as the call of one of you to another. Already Allah knows those of you who slip away, concealed by others. So let those beware who dissent from the Prophet's order, lest fitnah strike them or a painful punishment.” [Ref: 24:63] RasoolAllah (sallallahu alayhi wa aalihi was'sallam) ko pukaro toh aisa waisay na pukaro. Abh agar har jaga dua lafz ahay toh ibadat mana leeya jahay toh phir kia nateeja nikalta heh? Yahi kay RasoolAllah Sahabah ko ibadat mein pukara kartay thay aur Sahabah RasoolAllah ki ibadat mein pukara kartay thay. Asal mein har woh Dua/pukar jis mein zuban say iqrar aur dil say tasdeeq karda Ilah/Khuda ko pukara jahay aur niyat ibadat ho to ibadat heh. Warna har aisi pukar ibadat nahin, i) jis mein khuda ko pukara nah jahay, ii) aur niyat ibadat nah ho. In do upar wali ayaat par in do asooloon ka itlaq kar lenh. Kia Sahabah RasoolAllah ko khuda/ilah man kar aur niyat ibadat say pukara kartay thay? Nahin! Kia RasoolAllah (sallallahu alayhi wa aalihi was'sallam) Sahabah ko khuda aur ibadat ki niyat say pukar rahay thay? Nahin! Lehaza har pukar/dua Ibadat nahin sirf wohi heh jis mein aqeedah ilahiyyah ka iqrar/tasdeeq aur niyat ibadat ho. Yahi asool har Ibadat par fit atay hen. Namaz peren magr Allah ta'ala ko apna Ilah/khuda nah maneh balkay apni gali kay Gama jaisa aisa waisa samjen aur niyat ibadat bi nah ho sirf bandoon ko raazi karnay wasteh namaz kay tamam amaal keren to kia Allah ki ibadat hogi? Nahin! Keun kay HAR IBADAT wasteh aqeedah ilahiyyah aur niyat ibadat shart heh. Joh Allah ko Ilah maan kar aur niyat ibadat say Allah ko pukarta heh woh dua ibadat heh. Agar Hindu, Christian, Sikh apnay khudahoon ko ilah/khuda maan kar aur niyat ibadat say pukarta heh toh ibadat karta heh apnay khuda ki. Misaal tor par aik mulhid/atheist joh khuda kay wujud ka qail hi nahin agar woh Allah ko pukaray to Allah ki ibadat kar raha heh? Chalen aik aur misaal lenh, aik banda Allah ko toh manta heh magr namaz parta toh heh magr woh Allah ki ibadat ki naiyat nahin karta aur nah ibadat karna chahta heh balkay majboori mein bandoon saath kara heh, saray namaz kay amaal puray karta heh magr khiyaal mein jaan booj kar tv aur filmoon kay scenes kay mazay leh raha heh to kia ibadat/namaz pari us nay? Nahin nah! Keun kay niyat ibadat nahin thee. Aik aur misaal lenh, Sajdah namaz mein Ibadat heh. Kia har sajdah ghair khuda ko ibadat heh? Allah ko ham Sajda kertay hen toh ibadat heh magr farishtay Adam ko sajda keren toh ibadat nahin. Kuen? Allah ko sajda Ilah/khuda maan kar aur ibadat ki niyat say is leyeh ibadat heh. Magr Adam alayhis salam ko Sajda keeya gaya magr baghayr ibadat ki niyat say aur baghayr khuda/ilah manay is leyeh ibadat nahin. Hasil kalam, HAR IBADAT MEIN AQEEDA ILAHIYYAH AUR NIYAT IBADAT LAZAM HEH. Agar donoon mein aik bi nah ho, ibadat nahin hoti. Yahan say wazia huwa kay wasila/istighathah ki pukaar ibadat nahin keun kay pukarnay wala pukaray janay walay ko nah khuda manta heh aur nah niyat ibadat karta heh. Part 2 - Hadith Ka Sahih Mafoom: Aik Hadith mein aya heh: “Abdur-Rahman bin Ya'mar narrated that: Some people among the residents of Najd came to the Messenger of Allah while he was at Arafat. They were questioning him, so he ordered a caller to proclaim: "The Hajj is Arafah. Whoever came to Jam during the night, before the time of Fajr, then he has attended the Hajj. ” [Ref: Tirmadhi, B4, H889, here] Dua Ibadat heh ki misl ilfaaz hen Hajj Arafat heh. Yehni Hajj Arafat ka qayam heh. Abh kaya sirf Hajj Arafat taq hi heh, safa marwa ka tawaf aur kaba ka tawaf hajj ka hissa nahin? Bilkul heh magr yahan par kehna muraad heh kay Hajj ka dill, Hajj ki asal, Hajj ki jarr, Hajj ka damagh, Hajj ka khaas markaz jis kay baghayr Hajj nahin woh Arafat ka qa Hadith: “An-Nu`man bin Bashir narrated that: The Prophet said: “The supplication, is worship.” Then he recited: And Your Lord said: “Call upon me, I will respond to you. Verily, those who scorn My worship, they will surely enter Hell humiliated." [Ref: Tirmadhi, B45, H3372, here.] Is ka mana woh nahin joh aam tor par samja jata heh. Balkay is ka mana heh, kay Ibadat/namaz/waghayra kay amaal mein joh kalamaat paray jatay hen woh ibadat hen. Yehni ibadat ka dill/damagh/asal kalamat e tayyibaat hen jin ko Allah ki hamd aur Allah ko pukara jata heh. Dua Ibadat heh, is Hadith ki aur yahi mafoom ki wazahat aik aur Hadith mein heh: “Anas bin Malik narrated that the Prophet said: ‘The supplication is the essence of worship.’” [Ref: Tirmadhi, B45, H3371, here.] To maloom huwa kay is Hadith ka mana hi wo nahin jo Wahhabi/Deobandi hazraat aam tor par letay hen. Dua ibadat heh, ka asal mana heh, Ibadat ka dil/asal dua heh aur woh bi har woh Dua jis mein manay huway ilah/khuda ko pukara jahay aur niyat ibadat ho tab ja kar ibadat hoti heh warna nahin. Mein misalen pesh kar aya peechay. Part 3 - Surah Naml Ayat 61 ki Tafsir: بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور فرماتا ہے اور تمہیں زمین میں(پہلے لوگوں کا) وارث و جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو Surah Naml ki ayat 62/63 ko dekhyeh: ھلا کس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور (کس نے) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنائی (یہ سب کچھ خدا نے بنایا) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود/خدا بھی ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ ان میں اکثر دانش نہیں رکھتے ھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود/خدا بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو In donoon ayaatoon say wazia hota heh kay yeh Ayaat Mushrikeen e Makkah kay wasteh nazil huween theen keun kay woh Allah kay saath auron ko khuda mantay thay aur Allah ta'ala nay un kay khilaaf daleel qaim ki kay jab zameen asmanoon waghayra ka bananay wala Allah heh to us kay ilawa kohi aur khuda kesay ho sakta heh. Abh Wahhabi nay aik wo ayaat joh Mushrikoon/kafiroon wasteh nazil huwi us ko Musalmanoon par chispan keeya aur is say yeh bazhir karna chaha kay ham Musalmanoon aur Mushrikeen kay darmiyaan kohi farq nahin. Is par aap ko yeh maloom hona chayeh kay Abdullah Ibn Umar radiallah ta'ala anhu ka farmaan heh kay khawarij sab say badtreen logh hen Allah ki makhlooq mein, keun, woh kafiroon wali ayaat musalmanoon par chispan kartay hen: "And the statement of Allah: 'Allah will not mislead a people after He has guided them, until He makes clear to them what to avoid.' (9:115) And Ibn Umar used to consider them (the Khawarij and the Mulhidun) the worst of Allah's creatures and said: "These people took some verses that had been revealed concerning the disbelievers and interpreted them as describing the believers.” [Ref: Bukhari, Book 88, Book Apostates, Chapter 6:Killing al-Khawarij and Mulhideen, here, scribd here.] Yad rahay kay Khariji tamam kay tamam KAFIR MURTAD hen aur Wahhabi bi asal aur asoolan KHARIJI hen lehaza in mein joh Wahhabiyat kay aqaid o nazriat aur asal o asool ko janta manta ho sab KAFIR hen. Bas ham sirf us ka lehaz keren gay jo la-ilmi u jahalat mein ya Wahhabi gar mein peda huway aur baap dada kay dekhaway par bila tehqeeq tanqeeq Wahhabi tareeka namaz waghayra par amal kartay hen aur taqleedan Wahhabi hen aur nah woh kissi ko ilzam shirk detay hen bas apni keeyeh ja rahay hen. aisay ko hargiz kafir na tehraya jahay aur na mana jahay sirf gumra tasleem keeya jahay. Part 4 - Wahhabi Asool Aur Bey-Daleel Mangarat Heh: "Unka kehna yeh hai ki 1) Gayiibana Madad ke liye kisi ko pukarna use Ma'abood banana hai" Jis Wahhabi nay yeh likha heh, us say kaha jahay, kay aaik Quran ki ayaat, aik Hadith pesh karo jis mein likha ho Ghaybana madad kay leyeh kissi ko pukarna us-say ma'bood/ilah/khuda banana hai. Wahhabiat kay saray aisay asool mangarat hen. door say pukara toh ilah bana deeya, qareeb walay ko pukara toh ilah/mabood nahin banaya, murda ko pukara toh ussay mabood bana deeya, zinda ko pukara toh ussay mabood nahin banaya. Waghayra waghayra ... Qareeb walay ko pukara to maboob keun nahin banta? Allah Qareeb nahin sharag say. Agar door walay ko pukarnay say Mabood lazam ata heh toh phir Qareeb walay ko pukarnay say mabood keun nahin hota. Wesay Shirk ko Allah kay saath barabari heh, Qareeb honay mein, barabari sabat ho toh Shirk nahin. Quran mein toh Allah kay Qareeb honay ka zikr heh Door honay ka nahin. Yeh kia heh kay door/ghaybana say Maboodiat sabat kartay ho Qareebiat say bi to Maboodiat sabat karo. Nahin karo gay. is leyeh keun kay bey-iman ho. Waghayra waghayra ... aik idhar aya thah aisay hi mangarat asooloon kay saath, here. Agar baag kar nah jata toh ham kalmah parwa kar behijtay, pakka sacha musalman bana kar, magr jab lajawab huwa toh bhaag nikla. Is article mein Islami nazria bataya thah kay kaisay Islam mein Ilah mutayyin aur Ilahiyyat ka tayyun keeya jata heh: Is article mein khadam nay tafseelan us kay tamam principles ka radd bi kieeya thah: Lambi maghz mari ko tarq kartay hen, yahan par sirf is par ikhtisaar heh kay WAHHABI ka bayan karda aur us kay ilawa joh bi wahhabiyun kay mabood mutayyin karnay kay asool sab kay sab, kullu, mangarat bila daleel hen. Wahhabiat ko challenge heh kay apnay kissi aik asool ko Quran/Hadith say sabat keren. Ya phir ham joh ihtirazat o baraheen in kay asooloon kay khilaaf lazam kartay hen utha kar dekha denh. Part 5 - Ghaybana Madad Kay Leyeh Pukarna, Dalail: "Unka kehna yeh hai ki 1) Gayiibana Madad ke liye kisi ko pukarna use Ma'abood banana hai" Wahhabi nay lafz Ghaybana ka istimal keeya heh is say muraad do ho sakti hen, aik kissi ghayb cheez ko pukarna yehni fawt ko rooh type ghaybana ko, dosra banda hayat ko magr joh itna door ho kay pukarnay walay ki aur pukaray janay wali ki ankh dekh nah sakti ho aur qaan sun nah saktay hoon yeh bi is ghaybana ka mana ho sakta heh. Part 5A - Yeh Wala Ghaybana Murad Thah: Chalyeh donoon Ghaybana par daleel pesh kar detay hen: “When she reached the Marwa (for the last time) she heard a voice and she asked herself to be quiet and listened attentively. She heard the voice again and said, 'O, (whoever you may be)! You have made me hear your voice; have you got something to help me?" And behold! She saw an angel at the place of Zamzam, digging the earth with his heel (or his wing), till water flowed from that place.” [Ref: Bukhari, B55, H583, here] Nabi Ismail alayhis salam ki walida aur Ibrahim alayhis salam ki zauja nay Ghaybana farishtay ko madad kay leyeh pukara. Abh kia hoga tera Wahhabia? Mushrik theen farishtay ho Mabood bana leeya thah? Ghaybana madad kay leyeh pukara. Aaah Wahhabi laga hukm Shirk/Kufr. Is kay ilawa aur bi hen: “Musa Ibn Ishaq related to us from Manjab Ibn Al-Harith, Hatim Ibn Isma’il related to us from Usamah Ibn Zayd from Aban Ibn Salih from Mujahid from Ibn Abbas that the Messenger of Allah said: ‘Indeed Allah possesses Angels besides the Hafazah (the Angels of Protection) who write (of even) the leaf which falls from a tree so when one of you suffers a limp in a deserted land he should call “Assist (me) O slaves of Allah.”’ [Ref: Musnad al-Bazzar, Volume 11, Musnad Ibn Abbas, H4922, Page181, here, scribd here.] “Narrated Hussain bin Ishaq Tustari, narrated Yahya As-Soofi, narrated Abdur Rahman bin Sahl, narrates from his father, Abdullah bin Isa, from Zaid bin Ali, from Utbah bin Ghazwan, from Prophet (sallallahu alayhi wa aalihi was'sallam). He said: ‘When one of you loses something or desires assistance while in a land where no person of assistance (is available) he should say: “O slaves of Allah! Assist me; help me” For indeed Allah has many slaves who we do not see.” And this [Hadith] has been acted upon.” [Ref: Tabarani, Mu'jam ul-Kabeer, 17/177 - online Hadith 5469] “Abdullah bin Ahmed bin Hanbal (rah) said that he heard his father (Imam Ahmed) who said: I performed Hajj 5 times, thrice on foot and twice on ride or he said thrice on ride and twice on foot, once when I was on foot I lost my way hence I started to exclaim this: O Allah’s servants show me the way I kept on repeating this until I came back on track.” [Ref: Shu’ayb ul Iman, Vol6, P128, H7697] Ghaybana madad ki pukar ki taleem Allah kay Nabi say aur Imam Ahmad Ibn Hanbal ka amal heh is par. Ghaybana madad ki pukaar ki taleem deh kar kia RasoolAllah nay Ma'bood bananay ki taleem deeh, aur Imam Ahmad Ibn Hanbal nay pukar kar MAKHLOOQ KO maboood banaya? Part 5B - Nahin Ji Mera To Dosra Wala, Door Wala Ghaybana Murad Thah: Chalen Wahhabi keh sakta heh, nahin nahin, mera matlab door wala, ma fawq alasbab wali Ghaybana pukar thee chalen is kay khilaaf bi daleel lenh: “Maymuna bint Harith, the blessed wife of Prophet (Peace be upon her) narrates: The Prophet (peace be upon him) was doing Wudhu for Tahajjud Salaah at the home of Hazrat Maimuna (radi Allahu anha). He suddenly called out three times, “Labbaik, Labbaik, Labbaik!” (Here I am) and “Nusirtu, Nusirtu, Nusirtu!” (I helped you). Hadhrat Maimuna (radhi Allaho anha) further asked him why he had called out those words”. He replied: “Raajiz (a sahabi from far) was calling me because Quraish wanted to kill him“ [Ref: Imam Tabarani in Mu’jam as-Sagheer, Volume 2, H968] Raajiz radiallah tala anhu nay door wali Ghaybana madad kay leyeh pukara, aur RasoolAllah ko Mabood banaya, baqawl Wahhabi kay, asool Wahhabiat kay mutabiq Raajiz kay Ma'bood/ilah yehni Nabiullah nay madad kar di. Abh agar Wahhabiat ka asool darust heh to phir RasoolAllah Ma'bood yehni Ilah hen aur agar ghalat heh toh phir ham Kafir ki taraf qaan keun keren. Ham Musalman hen hammen Tawheed bi pata heh aur Kafiroon ko nay Tawheed ka pata heh aur nah Shirk ka aur nah yeh pata kay Ilahiyyat ka tayyun kesay, aur Ilah mutayyin kesay hota heh. Mein arsa daraaz pehlay Wahhabi thah aur us waqt mujjay Tawheed ka josh ziyada ilm kam, aur Shirk ki behosi ziyada thi aur ilm kam. Magr alhamdulillah Allah kay karam mein nay Wahhabiat ko laat mari aur Islam qubul keeya. Agar Wahhabiat sacha mazhab hoti aur in kay mazhab kay dalail in kay dawoon aur asooloon kay mutabiq Quran/Hadith mein hotay mein kabi bi Wahhabiat nah chorta. Mein nay jab Wahhabiat ko chora toh ult pult kar kay chora, sab tehqeeq kar kay. Misaal kay tor par joh is nay asool bayan keeyeh hen, un ka ayaat say talluq, aur joh is nay fehm Hadith leeya heh us ka fehm farman rasoolAllah say kia talluq. Haqiqat ko tortay mortay hen aur logoon ki la ilmi ki bunyad par gumra kar detay hen. Mera yeh likha huwa matan un ko jawab mein post kar denh. Joh jawab denh mujjay ba-khabr kar denh inshallah jawab likh doon ga.
    1 point
  11. Salam alaykum. Ji mein inshallah kal tak jawab likh doon ga.
    1 point
  12. ڈاکٹر آفاق فاروقی صاحب کی اس حدیث پر تحقیق نصرة الابرار بتحقيق روايت مالك الدار.pdf
    1 point
  13. جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ روایت کی تحقیق 25: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ فُورَكٍ، قال: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ النَّشَابيّ ُ، قال: ثنا مَنْصُورُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْبَكْرِيُّ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ الأَبَّارِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ. ترجمہ: سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ (الفوائد لأبي الشيخ الأصبهاني 58 ص.الرقم:25.) (مسند الشهاب القضاعي 1/102.الرقم: 119.) (طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها 3/567.) ✍️:أَبُو النَّضْرِ الْبَصْرِيُّ الْأَبَّارُ: مجھول الحال۔ ✍️: وسند ضعیف والحدیث صحیح۔ اسکا صحیح درجہ کا شاھد موجود ہے۔👇 3104: أَخْبَرَنَا ‌عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌حَجَّاجٌ، عَنِ ‌ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ‌مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ‌طَلْحَةَ ، عَنْ ‌مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ : «أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ. فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَالْزَمْهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا». ترجمہ: حضرت معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ: جاہمہ نبی علیہ السلام کے پاس آۓ اور کہنے لگے کہ میں نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس بارے میں آپؐ سے مشورہ کرنے آیا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تیری والدہ ہے۔ جواب دیا کہ جی ہاں آپؑ نے فرمایا جا اس کے ساتھ (خدمت کر) رہو جنت اس کے قدموں کے نیچے(تلے) ہے۔ (سنن النسائي 6/11)۔ ✍️: یہی حدیث مستدرک میں دو جگہ موجود ہے۔👇 (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية 7248 .2502.) (شعب الإيمان: 7448.) (البر والصلة لابن الجوزي 67س.الرقم: 46.) (السنن الكبرى - البيهقي - 18/ 90.الرقم: 17890.) واسناد صحیح لہذا وہ روایت ماں کے قدموں تلے جنت ہے ثابت ہوئی کیونکہ اس کا متن دوسری صحیح روایت سے ثابت ہوگیا ہے۔ حکم الخلاصہ:ھذا حدیث صحیح۔ ✍️: ماں باپ جنت کا دروازہ ہیں. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنّ لِيَ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبٍ۔ ترجمہ: حضرت ابو الدرداء ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے،ابوالدرداء ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی» (میری ماں) کہا اور کبھی «إن أبی» (میرا باپ) کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ (سنن الترمذي :- 1900.) صحیح۔ (سنن ابن ماجه :- 3663.) صحیح ابن ماجہ میں امام سفیانؒ کے قول کو نقل نہیں کیا گیا کہ وہ کیا کیا کہتے تھے۔ واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔ ازقلم و طلب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ 19.03.2023. چھبیس(26) شعبان المعظم 1444ھ
    1 point
  14. امام الوہابیہ اسماعیل دہلوی کا عقید جیسا ہرقوم کا چودھری اورگاؤں کا زمیندار سو ان معنوں میں ہر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے (تقویت الایمان ص54) ایک جگہ اور لکھتا ہے کہ ہر مخلوق خواہ چھوٹاہو (نبی صلی اللہ علیہ وسلم)یابڑا اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے (تقویت الایمان) ایک جگہ اور لکھتا ہے کہ اولیاء وانبیاء امام وامام زادہ پیر وشہید یعنی جتنے اللہ کے مقرب بندے ہیں وہ سب انسان ہی ہیں اور بندے عاجز اور ہمارے بھائی مگر انکو اللہ نے بڑائی دی وہ بڑے بھائی ہوئے. (تقویت الایمان) ایک جگہ اور لکھتا ہے کہ انسان آپس میں سب بھائی ہیں جو بڑا بزرگ ہو وہ بڑا بھائی سو اسکی بڑے بھائی کی سی تعظیم کیجئے (تقویت الایمان) اور لکھتا ہے کہ اولیاء انبیاء کی تعظیم انسانوں جیسی کرنی چاہیئے جو بشر کی سی تعریف ہو سو ہی کرو سو ان میں بھی اختصار کریں (یعنی کمی ) (تقویت الایمان) ☄☄☄☄☄☄☄☄☄☄ براہین قاطعہ کے مصنف خلیل احمد انبیٹھوی کا عقیدہ اگر کسی نے بوجہ بنی آدم ہونے کے آپ کو بھائی کہا تو کیا خلاف نص کہ دیا وہ تو خود نص کے موافق کہتاھےاس پر طعن کرنا قرآن وحدیث پر طعن اور اسکے خلاف کہنا نص کی مخالفت ہے (براہین قاطعہ ص 3) تبصرہ نوری؛؛؛قارئین کرام آپ نے اسماعیل دہلوی اور خلیل احمد انبیٹھوی کے عقائد پڑھے انکے نزدیک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم بس بڑے بھائی جیسی کرو سو اس میں بھی کمی کرو اب آپ ملاحظہ کریں کہ ایسا گندہ عقیدہ رکھنے والا کیا ہے ؟ اور اس عقیدے کے بارے میں علماےئے دیوبند کا متفقہ فتوی بھی ملاحظہ کریں فـتـــــوی جو اسکا قائل ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم پر بس اتنی ہی فضیلت ہے جتنی بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر پر ہوتی ہے تو اسکے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے (المہند ص23) انور شاہ کشمیری کا فتوی تمام علماء کا اس بات اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی توہین و بےادبی و تنقیص کرنے کافر ہے جو اسکے کفر وعذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہےکفر کےحکم کا دار ومدار ظاہر پر ہے قصد ونیت وقرائن حال پر نہیں علماء نے فرمایا انبیاء علیہم السلام کی شان میں جرات ودلیری کفر ہے اگرچہ توہین مقصود نہ بھی ہو (اکفارالملحدین ص64-91) تو پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرکے دہلوی اور انبیٹھوی کافر ہوگئے....
    1 point
  15. جناب والا جب ثقہ راویوں سے مروی ھے کہ دو بندے حضرت عمارؓ کے قتل کے بزعم خویش مدعی ہیں۔ (شرح خصائص علی از ظہور فیضی: رقم حدیث:159)۔ تو ثابت کریں کہ کس کے قاتلانہ حملے سے حضرت عمار کی فی الواقع موت واقع ھوئی؟ ابھی لاش کے ٹھنڈے ھو جانے والی دلیل آپ کی غلط ھو چکی ۔ آپ کے ساتھی ظہور فیضی اپنی اسی کتاب کے صفحہ888 پر ابوالغادیہ کی بجائے ابن جوی کے دعویٰ کے ثابت ھونے کی روایت پیش کر کے اُسے برقرار رکھتے ہیں ۔
    1 point
  16. امام طبرانی ؒ اپنی کتاب المعجم الکبیر میں با سند ایک روایت نقل کرتے ہیں جسکی سند و متن یوں ہے 1052 - حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التُّسْتَرِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ نَضْلَةَ الْمَدِينِيُّ، ثنا عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ نَضْلَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاتَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، ثُمَّ قَامَ يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ فَسَمِعَتْهُ يَقُولُ فِي مُتَوَضَّئِهِ: «لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ» ، ثَلَاثًا، «وَنُصِرْتُ وَنُصِرْتُ» ، ثَلَاثًا، قَالَتْ: فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ بِأَبِي أَنْتَ سَمِعْتُكَ تَقُولُ فِي مُتَوَضَّئِكَ «لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ» ، ثَلَاثًا، «وَنُصِرْتُ نُصِرْتُ» ، ثَلَاثًا، كَأَنَّكَ تُكَلِّمُ إِنْسَانًا فَهَلْ [ص:434] كَانَ مَعَكَ أَحَدٌ؟ قَالَ: «هَذَا رَاجِزُ بَنِي كَعْبٍ يَسْتَصْرِخُنُي، وَيَزْعُمُ أَنَّ قُرَيْشًا أَعَانَتْ عَلَيْهِمْ بَنِي بَكْرٍ» ، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ عَائِشَةَ أَنْ تُجَهِّزَهُ وَلَا تُعْلِمُ أَحَدًا، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُوهَا فَقَالَ: يَا بُنَيَّةُ مَا هَذَا الْجِهَازُ؟ قَالَتْ: وَاللهِ مَا أَدْرِي، قَالَ: مَا هَذَا بِزَمَانِ غَزْوِ بَنِي الْأَصْفَرِ فَأَيْنَ يُرِيدُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: لَا عِلْمَ لِي، قَالَتْ: فَأَقَمْنَا ثَلَاثًا، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ بِالنَّاسِ فَسَمِعْتُ الرَّاجِزَ يَنْشُدُهُ: [البحر الرجز] يَا رَبِّ إِنِّي نَاشِدٌ مُحَمَّدًا ... حِلْفَ أَبِينَا وَأَبِيهِ الْأَتْلُدَا إِنَّا وَلَدْنَاكَ فَكُنْتَ وَلَدًا ... ثَمَّةَ أَسْلَمْنَا فَلَمْ تَنْزَعْ يَدًا إِنَّ قُرَيْشًا أَخْلَفُوكَ الْمَوْعِدَ ... وَنَقَضُوا مِيثَاقَكَ الْمُؤَكَّدَا وَزَعَمَتْ أَنْ لَسْتَ تَدْعُو أَحَدًا ... فَانْصُرْ هَدَاكَ اللهُ نَصْرًا أَلْبَدَا وَادْعُ عَبَادَ اللهِ يَأْتُوا مَدَدًا ... فِيهِمْ رَسُولُ اللهِ قَدْ تَجَرَّدَا أَبْيَضُ مِثْلُ الْبَدْرِ يُنَحِّي صُعُدًا ... لَوْ سِيمَ خَسَفَا وَجْهِهِ تَرَبَّدَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نُصِرْتُ، ثَلَاثًا، أَوْ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، ثَلَاثًا،» ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا كَانَ بِالرَّوْحَاءِ نَظَرَ إِلَى سَحَابٍ مُنْتَصِبٍ فَقَالَ: «إِنَّ هَذَا السَّحَابَ لَيَنْتَصِبُ بِنَصْرِ بَنِي كَعْبٍ» ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي نَصْرِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ عَمْرٍو أَخُو بَنِي كَعْبِ بْنِ عَمْرٍو فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ وَنُصِرَ بَنِي عَدِيٍّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَرِبَ خَدُّكَ وَهَلْ عَدِيٌّ إِلَّا كَعْبٌ وَكَعْبٌ إِلَّا عَدِيٌّ، فَاسْتُشْهِدَ ذَلِكَ الرَّجُلُ فِي ذَاكَ السَّفَرِ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ عَمِّ عَلَيْهِمْ خَبَرَنَا حَتَّى نَأْخُذَهُمْ بَغْتَةً» ، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى نَزَلَ مَرْوَ وَكَانَ أَبُو سُفْيَانَ وَحَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ وَبُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ قَدْ خَرَجُوا تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَأَشْرَفُوا عَلَى مَرْوِ فَنَظَرَ أَبُو سُفْيَانَ إِلَى النِّيرَانِ فَقَالَ: يَا بُدَيْلُ لَقَدْ أَمْسَكَتْ بَنُو كَعْبٍ أَهْلَهُ فَقَالَ: حَاشَتْهَا إِلَيْكَ الْحَرْبُ، ثُمَّ هَبَطُوا فَأَخَذَتْهُمْ مُزَيْنَةُ وَكَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحِرَاسَةُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَسَأَلُوهُمْ أَنْ يَذْهَبُوا بِهِمْ إِلَى الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَذَهَبُوا بِهِمْ فَسَأَلَهُ أَبُو سُفْيَانَ أَنْ يَسْتَأْمِنَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ بِهِمُ الْعَبَّاسُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ خَرَجَ بِهِمْ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: إِنَّا نُرِيدُ أَنْ نَذْهَبَ فَقَالَ: أَسْفِرُوا فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ، فَابْتَدَرَ الْمُسْلِمُونَ وُضُوءَهُ يَنْضَحُونَهُ فِي وُجُوهِهِمْ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَا أَبَا الْفَضْلِ لَقَدْ أَصْبَحَ مُلْكُ ابْنِ أَخِيكَ عَظِيمًا، فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ بِمُلْكٍ وَلَكِنَّهَا النُّبُوَّةُ وَفِي ذَلِكَ يَرْغَبُونَ حضرت اُمّ المؤمنین میمونہؓ فرماتی ہیں انہوں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کرتے ہوئے تین مرتبہ لبیک لبیک لبیک کہی اور تین مرتبہ نصرت نصرت نصرت (تمہاری امداد کی گئی) فرمایا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! میں نے آپؐ کو تین مرتبہ لبیک اور تین مرتبہ نصرت فرماتے ہوئے سنا جیسے آپ کسی انسان سے گفتگو فرما رہے ہوں۔ کیا وضو خانے میں کوئی آپ کے ساتھ تھا؟ آپؐ نے فرمایا: یہ بنو کعب کا رِجز خواں مجھے مدد کے لئے پکار رہا تھا اور اس کا کہنا ہے کہ قریش نے ان کے خلاف بنوبکر کی امداد کی ہے۔ تین دن کے بعد آپ ؐ نے صحابہ کو صبح کی نمازپڑھائی تو میں نے سنا کہ رِجز خواں اشعار پیش کررہاتھا حالانکہ وہ (عمر بن سالم راجز) اس وقت مکہ میں تھا اور قریش کی عہد شکنی پر اس نے حضور علیہ السلام سے فریاد کی۔بنو خزاعہ جو کہ حضور علیہ السلام کے صلح حدیبیہ کے بعد حلیف بنے اور بنو قریش کے حلیف بنے اور معاہدہ ہوا کہ دس سال تک جنگ نہ کریں گے قریش نے بد عہدی کی اور بنو بکر کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ کا قتل عام کیا اس وقت جناب راجز نے مکے میں ہی حضور علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارا بعد ازاں حضور نے قریش پر چڑھائی کی اور مکہ فتح ہو گیا اور طرح ظاہری و باطنی امداد کا ظہور ہوا اس یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ نبی پاک سے تین دن کی دوری پر بھی مدد کے امداد مانگنے کے لیے نبی پاک کو پکارتے اور نبی پاک بھی اللہ کی عطا و طاقت سے انکی پکار سنتے بھی اور امداد بھی کرتے ۔۔ جس کو آج کل غیر مقلدین نے شرک سمجھ لیا ہے ۔ صحابہ کرام نے اسکو شرک نہ سمجھا اور نہ ہی نبی پاک نے انکو یہ عمل کرنے سے روکا بلکہ انکی امداد فرمائی !!! اس روایت کو امام طبرانی کے علاوہ ایک اور محدث نے بھی نقل کیا ہے ۔ جن کا نام ہے امام محمد بن عبد الرحمن بن العباس بن عبد الرحمن بن زكريا البغدادي المخَلِّص (المتوفى: 393هـ) وہ اس روایت کو اپنی سند سے نقل کرتے ہیں جسکی سند و متن کچھ ایسے ہے 19 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ , قثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ نَضْلَةَ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , عَنْ مَيْمُوَنَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ , زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , بَاتَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ لِلصَّلاةِ فَسَمِعَتْهُ , يَقُولُ: " لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ ثَلاثًا , أَوْ نُصِرْتَ نُصِرْتَ ثَلاثًا.بلخ۔۔۔۔۔۔ (الكتاب: العاشر من الفوائد من حديث المخلص برقم الحدیث 19) اس سند کے سارے راوی ثقہ ہیں اور اس سند میں کوئی ضعف نہیں ہے ۔ لیکن غیر مقلدین کے عقائد کے خلاف جو بھی روایت انکو نظر آئے تو یہ اسکو ضعیف یا موضوع بنانے سے بعض نہیں آتے ایسا ہی کچھ وہ اپنی ویب سائٹ پر اس روایت پر کیے ہوئے ہیں ۔ خیر میں انکی ایک ایک جرح یا علت جسکو وہ بیان کر کے اپنے مسلک کے سادہ لوگوں کو پاگل بناتے ہیں تحقیق کے نام پر ۔۔ اور وہ لوگ انکی کاپی پیسٹ تحقیق کو اٹھا کر اہلسنت پر ہنستے ہیں ۔۔۔ غیر مقلدین کے اعتراضات کا رد بلیغ ۱۔امام ہیثمیؒ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ ''رواہ الطبراني في الصغير والكبير وفيه يحي سليمان بن نضلة وھو ضعيف'' (مجمع الزوائد :۶؍۱۶۴) ''اسے امام طبرانی نے المعجم الکبیر اور المعجم الصغیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یحییٰ بن سلیمان نامی راوی ضعیف ہے۔'' امام ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس راوی پر کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال : ۳؍۲۹۲ اور لسان المیزان :۶؍۲۶۱ ۲۔اس کی سند میں محمد بن عبداللہ نامی راوی کے بارے میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ لایعرف(میزان الاعتدال :۳؍۸۳) یعنی یہ راوی مجہول ہے اور مجہول راوی کی روایت ضعیف کہلاتی ہے۔ ۳۔اس کی سند میں محمد بن نضلہ نامی راوی کے حالات کتب ِرجال سے نہیں ملتے لہٰذا یہ بھی کوئی مجہول راوی ہے۔ غیر مقلدین کی طرف سے پیش کیے گئے پہلے اعتراض کا جواب۔۔۔۔۔ امام ہیثمی نے یہاں سلیمان بن نضلة کو ضعیف کہہ دیا لیکن انکی حسب عادت کے خلاف انہوں نے یہاں کسی امام کا حوالہ نہ لکھا بلکہ بغیر کسی امام کی جرح لکھی انکو ضعیف کہہ دیا ۔ جبکہ کتب رجال میں جب آپ سلیمان بن نضلة کے بارے میں پڑھتے ہیں تو امام ابن صاعد انکے بارے میں فرماتے ہیں کہ انکا رتبہ بہت بلند و اعلیٰ تھا ۔ امام ابن حبان انکو الثقات میں درج کرتے ہیں اور لکھتے ہیں وھم بھی کر جاتا تھا ۔ (یہ کوئی جرح مفسر نہیں اور نہ ہی اس سے راوی ضعیف ہوتا ہے یہ بالکل ہلکی پھلکی بات ہے جس سے راوی حسن الحدیث درجے کا تو ضرور رہتا ہے ۔) اس راوی پر آ جا کر جرح ملتی ہے تو فقط ایک بندے سے جسکا نام ابن خراش ہے وہ کہتا ہے کہ یہ (سلیمان بن نضلة ) کسی ٹکے کا نہیں ہے پہلی بات یہ جرح کس بنیاد پر کی گئی اسکی وجہ معلوم نہیں اور یہ جرح کے کس درجے کی جرح ہے یہ بھی نہین لکھا غیر مقلدین نے۔ دوسری بات یہ جرح کرنے والا ابن خراش خود شیعہ رافضی اور کذاب ہے امام ذھبی سیر اعلام النبلاء میں اسکے ترجمہ یوں بیان کرتے ہیں ابن خراش الحافظ ، الناقد ، البارع أبو محمد ، عبد الرحمن بن يوسف بن سعيد بن خراش ، المروزي ثم البغدادي وقال ابن عدي : قد ذكر بشيء من التشيع ، وأرجو أنه لا يتعمد الكذب وقال أبو زرعة محمد بن يوسف الحافظ : خرج ابن خراش مثالب الشيخين ، وكان رافضيا امام ذھبی اس پر امام ابن عدی اور ابو زرعہ کی طرف سے رافضی شیعہ اور کذب کی جرح لکھنے کے بعد اپنا فیصلہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں قلت : هذا معثر مخذول ، كان علمه وبالا ، وسعيه ضلالا ، نعوذ بالله من الشقاء (امام ذھبی کہتے ہیں )میں کہتا ہوں یہ بے یار و مددگار گروہ ہے انکا علم ایک وبال مصیبت ہے اور انکی کوشش گمراہی ہے ہم اللہ سے انکی بد بختی سے پناہ مانگتے ہیں ایسے شخص جو خود رافضی کذب بیانی کرنے والا ہو اسکی طرف سے کی گئی جرح سے ایک حسن الحدیث درجے کے راوی کو ضعیف مان لینا غیر مقلدین کا ہی مذہب ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا عتراض غیر مقلدین سے یہ ہے کہ اسکی سند میں محمد بن عبداللہ نامی راوی مجہول ہے ۔ الجواب: اس راوی کی متابعت دوسرے راوی امام یحییٰ بن محمد بن صاعد نے کر رکھی ہے اور یہ راوی سلیمان بن نضلہ سے سماع کرنے والے ہیں او رحفاظ الحدیث میں سے ہیں ۔ امام خطیب بغدادی انکے ترجمے میں فرماتے ہیں 7489- يَحْيَى بْن مُحَمَّد بْن صاعد بْن كاتب أَبُو مُحَمَّد مولى أبي جَعْفَر المنصور كَانَ أحد حفاظ الحديث، وممن عُني بِهِ، ورحل فِي طلبه، وسمع: الْحَسَن بْن عيسى بْن ماسرجس، وَمُحَمَّد بْن سُلَيْمَان لوينًا، ويحيى بْن سُلَيْمَان بْن نضلة الخزاعي، (ج 16 ص 341) تو یہ اعتراض بھی باطل ہوا ۔۔۔۔ تیسرا اعتراض: کہ اسکی سند میں محمد بن نضلہ کے حالات کتب رجال میں نہیں ملے لہذا یہ مجہول ہے الجواب: اس روایت کا ایک اور حوالہ امام محمد بن عبد الرحمن بن العباس بن عبد الرحمن بن زكريا البغدادي المخَلِّص (المتوفى: 393هـ) کی کتاب کا دیا ہے جس میں یہ راوی موجود ہی نہیں تو غیر مقلدین کا اس راوی کی توثیق کا مطالبہ کرنا ہی بیکار ہوا تیسری اہم بات غیر مقلدین سلیمان بن نضلة کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے فقط امام الہیثمی کا قول نقل کرتے ہیں ۔ اگر اس سند میں انکے علاوہ کوئی مجہول راوی ہوتا تو امام ہیثمی اسکا زکر پہلے کرتے پھر اس راوی کا ضعف بتاتے لیکن امام ہیثمی نے صرف ان کی ضعف کی طرف اشارہ کیا اور کسی راوی پر جرح نہیں کی یعنی انکے نزدیک طبرانی کی سند میں صرف ایک ضعف انکے نزدیک تھا کہ سلیمان بن نضلہ ضعیف ہے اور جبکہ اس پر جرح ہی مبھم ہے اور جرح کرنے والا خود رافضی ہے اور دوسرے راوی پر مجہو ل کا الزام لگایا جبکہ وہ صحابہ میں سے ہے اور اسکی دوسری سند میں یہ راوی ہی نہیں تو یہ اعتراض بھی باطل ہوا اور یہ سند کم از کم حسن الحدیث درجے کی سند ہے ۔۔۔ وہابیہ کی ایک ویب سائٹ اسلامی ویب پر بھی اس سند کو حسن قرار دیا گیا ہے جس کا عکس تمام ثبوت کے اسکین کے ساتھ نیچے موجود ہے (((((((( دعا گو۔ رانا اسد فرحان الطحاوی الحنفی ✍️ 28 اگست 2018)))))
    1 point
  17. اثر ابن عباس پر ساجد خان دیوبندی کی تحریر کا مدلل جواب یہ حصہ اول ہے ۔۔دوسرا حصہ عنقریب شمارہ میں شائع ہو گا تب ابپلوڈ کیا جائے گا ۔۔۔
    1 point
  18. Deo/Wahabiyo ki taraf say malfoozat sharif ki aik ibarat par (see attached file) , munarja zail aitaraz kia gaya hai kay: Aaitaraz : I am surprised What does it means and can Allah not do that (Naoozu Billah)? http://library.faizaneattar.net/Books/index.php?id=101 go to page 73
    1 point
  19. ہم پر من دون اللہ کی آیتیں چسپاں کرنے والے،کاش!! خود کبھی باذن اللہ والی آیتیں بھی پڑھ لیاکرتے تو یہ امت پراحسان ہوتا۔
    1 point
  20. ضیاع بشیرصاحب 1 آپ وہابی لوگ بھی، مشرکین کی طرح، اللہ کودوسرے الٰہ بنا سکنے پرقادرمانتے ہیں یانہیں؟ 2 مشرکین مکہ سخت مشکلات میں اورجب تمام اسباب کے رشتے ٹوٹتے نظر آتے تو بے اختیار اُسی کی طرف رجوع کرتے تھے۔کلمہ گومشرک،ص56۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ مافوق الاسباب پکارکرشرک کرتے تھے۔آپ کس آیت سے استدلال کرتے ہیں؟مبشرربانی نے توسورۃ الانعام کی چار آیات لکھی ہیں۔ 3 آپ کہتے ہیں مشرکین مکہ غائبانہ مدد کے لئے پکارتے تھے۔جب کہ بخاری شریف میں کہ وہ عبادت کے لئے پتھرساتھ رکھتے تھے اورخوبصورت پتھردیکھتے توپہلے پتھرمعبودکوپھینک دیتے اور نیاپتھرلے کراسے معبودبنالیتے تھے۔ 4 آپ مشرکین کے متعلق کچھ کہتے ہیں مگرآپ کے شاہ اسماعیل نے لکھا ہے کہ مشرکین اصنام کوواجب الوجود نہیں کہتے ہیں اور اُس کی صفات میں شریک نہیں کرتے ہیں لیکن جب منصب عبادت پر بٹھاتے ہیں توگویا کہ تمام چیز میں برابر جانتے ہیں۔ منصب امامت بحوالہ فتاویٰ رشیدیہ:209۔ 5 اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے متعلق سورۃ الزمر:43میں فرمایا:۔ أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعاءَ کیاانہوں نے من دون اللہ شفیع بنا لئے؟ اس پرتفسیرزمخشری،تفسیرنسفی،تفسیرنیشاپوری،تفسیرابوالسعود میں لکھاکہ :مِنْ دُونِ اللَّهِ من دون إذنه شُفَعاءَ۔ یعنی کیاانہوں نے من دون اللہ یعنی اللہ کے اذن کے بغیر شفیع بنا لئے؟ مگرآپ کہتے ہیں کہ مشرکین باذن اللہ شفیع وغیرہ مانتے تھے۔کیا آپ مشرکین کے متعلق من دون اللہ کی آیات کو برحق نہیں مانتے؟ 6 لَيْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلا شَفِيعٌ من دون اللہ شفیع ماننا مشرکوں کاکام تھا جس کی تردید ہوئی۔ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِ ذْ نِهِ باذن اللہ شفیع ماننا مومنوں کاکام ہے جس کی تعلیم ملی۔ آپ کونسی وحی سے کہتے ہیں کہ مشرک بھی یہ سب کچھ باذن اللہ مانتے تھے؟ کیا مملوک ماننے کامطلب ماذون مانناہے؟ کبھی سبھی مملوک ماذون ہوتے ہیں؟ مشرکین(الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک)کے الفاظ سے بتوں کےمملوک ہونے کا اقرار توکرتے تھے مگراس سے ماذون ہونے کاقول اسی صورت میں آپ سمجھ سکتے ہیں جب مملوک اورماذون مترادف ہوں۔جب سبھی مملوک ماذون نہیں ہوتے تومملوک کے دعوے سے ماذون سمجھناجھوٹ یا بے وقوفی یادھوکہ دہی کی کوشش نہیں تواور کیاہے؟ آپ کسی بات کا جواب نہیں دیتے ،اگرکوئی جواب دیتے ہیں توجھوٹ کاسہارا لیتے ہیں یہی طریقہ آپ کے دوسرے وہابیوں کاہے؟یہ کہاں کی بحث ہے ؟ :
    1 point
  21. بسم اللہ الرحمن الرحیم الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ
    1 point
  22. ﺷﯿﺦ ﻣﺤﻘﻖ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺭﺡ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺘﻼﻓﺎﺕ ﮐﯽ ﮐﺜﺮﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻣﺼﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺠﺎﺯ ﮐﮯ ﺷﺎﺋﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﻭﯾﻞ ﮐﮯ ﻭﮨﻢ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﺍﺋﻢ ﻭﺑﺎﻗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻤﺎﻝ ِ ﺍﻣﺖ ﭘﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﻭﻧﺎﻇﺮ ﮨﯿﮟ۔ ‏( ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ، ﺷﯿﺦ ﻣﺤﻘﻖ، ﻣﮑﺘﻮﺑﺎﺕ ﺑﺮﺣﺎﺷﯿﮧ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﺍﻻﺧﯿﺎﺭ ‏( ﻃﺒﻊ ﺳﮑﮭﺮ ‏) ﺹ 551 ) ﺭﻭﺡ ﺍﻋﻈﻢ ﮐﯽ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﻮﮦ ﮔﺮﯼ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺣﺎﺿﺮ ﻭ ﻧﺎﻇﺮ ؛ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻟﻔﻆ ﺣﺎﺿﺮ ﻭﻧﺎﻇﺮ ﺑﻮﻻ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺑﺸﺮﯾﺖ ﻣﻄﮩﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺟﺴﻢ ﺧﺎﺹ ﮨﺮﺟﮕﮧ ﮨﺮﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺮﮐﺎﺭﺩﻭﻋﺎﻟﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﺭﻓﯿﻊ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﻮ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ؛ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﺣﺎﻧﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺭﺍﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﯼ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺟﻤﺎﻝ ﺍﻗﺪﺱ ﮐﺎ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺭﺣﻤﺖ ﻭﻋﻨﺎﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﺴﺮﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮔﻮﯾﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﻮﻧﺎ، ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻈﺮﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﮯ ﻧﺎﻇﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻇﻨﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺯ ﻗﺒﯿﻞ ﻓﻀﺎﺋﻞ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﻗﻄﻌﯿﮧ ﮐﺎ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ، ﺑﻠﮑﮧ ﺩﻻﺋﻞ ﻇﻨﯿﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﻘﯿﺪ ﻣﻘﺼﺪ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﮯ؛ ﯾﺎ ﺍﯾﮭﺎ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺍﻧﺎ ﺍﺭﺳﻠﻨﺎﮎ ﺷﺎﮬﺪﺍ ‏( ﺍﻻﺣﺰﺍﺏ 33، 51 ) ﺗﺮﺟﻤﮧ: ﺍﮮ ﻏﯿﺐ ﮐﯽ ﺧﺒﺮﯾﮟ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﺒﯽ ! ﺑﯿﺸﮏ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺣﺎﺿﺮﻭﻧﺎﻇﺮ۔ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺑﻮﺍﻟﺴﻌﻮﺩ ‏( ﻡ 159ﮪ ‏) ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﮐﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ: ﺍﮮ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﺷﺎﮨﺪ ‏(ﺣﺎﺿﺮ ﻭﻧﺎﻇﺮ‏) ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﭖ ﻣﺒﻌﻮﺙ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﻭ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺻﺎﺩﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﻭﺗﮑﺬﯾﺐ ﺍﻭﺭ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﻭﺿﻼﻟﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺟﻮ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﻮﮔﯽ۔ ( ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﻌﻤﺎﺩﯼ، ﺍﺑﻮﺍﻟﺴﻌﻮﺩ ﺍﻣﺎﻡ، ﺗﻔﺴﯿﺮ، ﺍﺑﻮﺍﻟﺴﻌﻮﺩ ‏( ﺍﺣﯿﺎﺀ ﺍﻟﺘﺮﺍﺙ ﺍﻟﻌﺮﺑﯽ، ﺑﯿﺮﻭﺕ، ﺝ 7 ، ﺹ 24 ) ﻋﻼﻣﮧ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺟﻤﻞ ﻧﮯ ﺍﻟﻔﺘﻮﺣﺎﺕ ﺍﻻﻟٰﮩﯿﮧ ‏(ﺝ 3 ﺹ 244‏) ﺍﻭﺭ ﻋﻼﻣﮧ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍٓﻟﻮﺳﯽ ﻧﮯ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺭﻭﺡ ﺍﻟﻤﻌﺎﻧﯽ ‏(ﺝ 22 ﺹ 54 ‏) ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺤﯽ ﺍﻟﺴﻨﮧ ﻋﻼﺀ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺧﺎﺯﻥ ‏( ﻡ 147ﮪ ‏) ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﯾﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ ﺷﺎﮬﺪﺍ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺨﻠﻖ ﮐﻠﮭﻢ ﯾﻮﻡ ﺍﻟﻘﯿﺎﻣۃ ۔ ﺗﺮﺟﻤﮧ: ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﭘﺮ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ ( ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﺒﻐﺪﺍﺩﯼ ﺍﻟﺸﮩﯿﺮ ﺑﺎﻟﺨﺎﺯﻥ؛ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻟﺒﺎﺏ ﺍﻟﺘﺎﻭﯾﻞ ﻓﯽ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﺍﻟﺘﻨﺰﯾﻞ ‏( ﻣﺼﻄﻔﮯٰ ﺍﻟﺒﺎﺑﯽ ﻣﺼﺮ‏) ﺟﻠﺪ 5 ، ﺹ 662 ) ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕِ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﺮﻣﻮﻣﻦ ﻭﮐﺎﻓﺮ ﮐﻮ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﻣﺖ ﺩﻋﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﺮﻣﻮﻣﻦ ﻭﮐﺎﻓﺮﺩﺍﺧﻞ ﮨﮯ، ﺍﻟﺒﺘﮧ! ﺍُﻣﺖِ ﺍﺟﺎﺑﺖ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﻭﮦ ﺧﻮﺵ ﻗﺴﻤﺖ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﭘﺮ ﻣﺸﺮﻑ ﺑﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺍٓﯾﺖ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮐﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﯽٰ ﻣﻦ ﺑُﻌُﺚُ ﺍِﻟَﯿﮭِﻢ ‏( ﺟﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮔﯿﺎ ‏) ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺨﻠﻖ ﮐﻠﮭﻢ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻣﻔﺴﺮﯾﻦ ﻧﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﺻﺮﻑ ﺍﮨﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﺑﮭﯽ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﻓﺮﻣﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﻋﻼﻣﮧ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍٓﻟﻮﺳﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﺑﻌﺾ ﺍﮐﺎﺑﺮ ﺻﻮﻓﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﭘﺮ ﺍٓﮔﺎﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺷﺎﮨﺪ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺭﻭﻣﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺩﺭ ﻧﻈﺮ ﺑﻮﺩﺵ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﺍﻟﻌﺒﺎﺩ۔ ﺯﺍﮞ ﺳﺒﺐ ﻧﺎﻣﺶ ﺧﺪﺍ ﺷﺎﮨﺪ ﻧﮩﺎﺩ ‏(ﻣﺤﻤﺪ ﺍٓﻟﻮﺳﯽ؛ ﻋﻼﻣﮧ ﺳﯿﺪ؛ ﺭﻭﺡ ﺍﻟﻤﻌﺎﻧﯽ ﺟﻠﺪ 22 ، ﺹ 54 ) ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺷﺎﮨﺪ ﺭﮐﮭﺎ۔ ﺍﻣﺎﻡ ﻓﺨﺮﺍﻟﺪﯾﻦ ﺭﺍﺯﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ﮐﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺷﺎﮬﺪﺍ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺍﺣﺘﻤﺎﻝ ﮨﯿﮟ ‏(ﭘﮩﻼ ﺍﺣﺘﻤﺎﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ‏) ﺍٓﭖ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﭘﺮ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮞﺠﯿﺴﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﻭﯾﮑﻮﻥ ﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺷﮭﯿﺪﺍ۔ ‏(ﺭﺳﻮﻝ ﺗﻢ ﭘﺮ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮕﮩﺒﺎﻥ‏) ﺍﺱ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻣﺼﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺷﺎﮨﺪ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ، ﯾﻌﻨﯽ ﺍٓﭖ ﮔﻮﺍﮦ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﮐﻮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍٓﭖ ﺣﺎﻣﻞ ﺑﻨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‏(ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﻟﺮﺍﺯﯼ، ﺍﻣﺎﻡ ، ﺗﻔﺴﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ‏(ﻣﻄﺒﻌۃ ﺑﮩﯿﮧ ﻣﺼﺮ‏) ﺝ 52 ، ﺹ 612 ) ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ ﺣﻘﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ: ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﻭﺗﻮﻗﯿﺮ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻇﺎﮨﺮ ﻭﺑﺎﻃﻦ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﻣﻮﺟﻮﺩﺍﺕ ﮐﺎ ﺧﻼﺻﮧ ﺍﻭﺭ ﻧﭽﻮﮌ ﮨﯿﮟ۔ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﯽ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺍﺯﻟﯽ ﮨﯿﮟ، ﺑﺎﻗﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺗﺎﺑﻊ ﮨﮯ ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺷﺎﮨﺪ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﯿﺠﺎ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﻭﺣﺪﺍﻧﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺭﺑﻮﺑﯿﺖ ﮐﮯ ﺷﺎﮨﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﺪﻡ ﺳﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺭﻭﺍﺡ، ﻧﻔﻮﺱ، ﺍﺣﺮﺍﻡ ﻭ ﺍﺭﮐﺎﻥ،ﺍﺟﺴﺎﻡ ﻭﺍﺟﺴﺎﺩ، ﻣﻌﺪﻧﯿﺎﺕ، ﻧﺒﺎﺗﺎﺕ،ﺣﯿﻮﺍﻧﺎﺕ، ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ،ﺟﻨﺎﺕ، ﺷﯿﺎﻃﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﺷﺎﮨﺪ ﮨﯿﮟ، ﺗﺎﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺍﻓﻌﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﻋﺠﺎﺋﺐ ﺻﻨﻌﺖ ﺍﻭﺭ ﻏﺮﺍﺋﺐ ﻗﺪﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﺍﺩﺭﺍﮎ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﺳﮯ ﺧﺎﺭﺝ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ، ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺍﺱ ﻣﯿﮞﺎٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻣﺼﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻋﻠﻤﺖ ﻣﺎ ﮐﺎﻥ ﻭﻣﺎﺳﯿﮑﻮﻥ ‏( ﮨﻢ ﻧﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺟﻮ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮨﻮﮔﺎ‏) ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﺎ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮧ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﺋﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ، ﺍٓﭖ ﷺ ﻧﮯ ﺍٓﺩﻡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ؛ ﮨﻢ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﺒﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍٓﺩﻡ ؑ ﻣﭩﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺗﮭﮯ، ﯾﻌﻨﯽ ﮨﻢ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﺒﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﺌﮯ ﻧﺒﻮﺕ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍٓﺩﻡ ؑ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺡ ﺍﺑﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ، ﺍﻋﺰﺍﺯ ﻭﺍﮐﺮﺍﻡ ﮐﺎ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻼﻑ ﺭﻭﺯﯼ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺟﻨﺖ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ ﺟﺎﻧﺎ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺍﺑﻠﯿﺲ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍٓﺩﻡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺳﺠﺪﮦ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﮐﭽﮫ ﮔﺰﺭﺍ ، ﺍﺳﮯ ﺭﺍﺋﻨﺪﮦ ﺩﺭﮔﺎﮦ ﺍﻭﺭﻣﻠﻌﻮﻥ ﻗﺮﺍﺭﺩﯾﺎﮔﯿﺎ، ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺍﯾﮏ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﻮﯾﻞ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺍﻭﺭ ﻭﺳﯿﻊ ﻋﻠﻢ ﺭﺍﺋﯿﮕﺎﮞ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻭﺭﺳﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻣﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﮯ ﻋﻠﻮﻡ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺋﮯ۔ ( ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ ﺣﻘﯽ ، ﺍﻣﺎﻡ: ﺭﻭﺡ ﺍﻟﺒﯿﺎﻥ ‏(ﺩﺍﺭ ﺍﺣﯿﺎﺀ ﺍﻟﺘﺮﺍﺙ ﺍﻟﻌﺮﺑﯽ، ﺑﯿﺮﻭﺕ ‏) ﺟﻠﺪ 9 ، ﺹ 81 ‏) ‏(2‏) ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﮯ : ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ 2 ، 341 ۔ ﻭ ﻳﮑﻮﻥ ﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﻋﻠﻴﮑﻢ ﺷﻬﻴﺪﺍ ۔ﺗﺮﺟﻤﮧ: ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﻮﺍﮦ ‏( ﺍﻭﺭ ﺣﺎﺿﺮﻭﻧﺎﻇﺮ ﮨﯿﮟ ) ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ ﺣﻘﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ﮐﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﻮﺭ ﻧﺒﻮﺕ ﮐﮯﺫﺭﯾﻌﮯ ﮨﺮﺩﯾﻨﺪﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﯾﻦ ﮐﺎ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺣﺠﺎﺏ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﮐﻤﺎﻝ ﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﺲ ﺍٓﭖ ﺍﻣﺘﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮦ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ، ﻧﯿﮑﯿﻮﮞ ، ﺑﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﺹ ﻭﻧﻔﺎﻕ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ( ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ ﺣﻘﯽ ،ﺍﻣﺎﻡ، ﺭﻭﺡ ﺍﻟﺒﯿﺎﻥ ‏(ﺩﺍﺭ ﺍﺣﯿﺎﺀ ﺍﻟﺘﺮﺍﺙ ﺍﻟﻌﺮﺑﯽ ،ﺑﯿﺮﻭﺕ‏) ﺟﻠﺪ 9 ،ﺹ 842 ، ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰ،ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ، ﻋﻼﻣﮧ ﺷﺎﮦ، ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻋﺰﯾﺰﯼ ﻓﺎﺭﺳﯽ ‏( ﻃﺒﻊ ﺩﮨﻠﻮﯼ‏) ﺟﻞ 1 ، ﺹ 815 ) ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺤﺎﺝ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻣﺖ ﮐﻮ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺣﻮﺍﻝ، ﻧﯿﺘﻮﮞ، ﻋﺰﺍﺋﻢ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﺍﻭﺭ ﻭﺻﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍٓﭖ ﭘﺮ ﻋﯿﺎﮞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺍﺧﻔﺎﺀ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ( ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺤﺎﺝ ﺍﻣﺎﻡ، ﺍﻟﻤﺪﺧﻞ ‏(ﺩﺍﺭﺍﻟﮑﺘﺎﺏ ﺍﻟﻌﺮﺑﯽ ، ﺑﯿﺮﻭﺕ ‏) ﺝ 1 ،ﺹ 252 ،ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﻘﺴﻄﻼﻧﯽ،ﺍﻣﺎﻡ ، ﻣﻮﺍﮨﺐ ﺍﻟﻠﺪﻧﯿﮧ ﻣﻊ ﺍﻟﺰﺭﻗﺎﻧﯽ ‏(ﻃﺒﻊ ﻣﺼﺮ 2921ﮪ ‏) ﺟﻠﺪ 8 ، ﺹ 843 ) (3) ﻭ ﺟﻨﺎ ﺑﮏ ﻋﻠﻰ ﻫﻮٔﻻﺀ ﺷﻬﻴﺪﺍ ۔ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﺐ ﭘﺮ ﮔﻮﺍﮦ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ‏( ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ، 4، 14 ) ﺍﻥ ﺍٓﯾﺎﺕ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺷﺎﮨﺪ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﮩﺎﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺼﺪﺭ ﺷﮩﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮨﮯ۔ ﺍٓﺋﯿﮯ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻟﻐﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﺋﻤﮧ ﺩﯾﻦ ﻧﮯﺍ ﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺍﻏﺐ ﺍﺻﻔﮩﺎﻧﯽ ‏( ﻡ205ﮪ ‏) ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﺍﻟﺸﮭﻮﺩ ﻭﺍﻟﺸﮭﺎﺩۃ ﺍﻟﺤﻀﻮﺭ ﻣﻊ ﺍﻟﻤﺸﺎﮬﺪۃ ﺍِﻣﺎََ ﺑﺎﻟﺒﺼﺮ ﺍﻭ ﺑﺎﻟﺒﺼﯿﺮۃ ﻭﺍﻟﺸﮭﺎﺩۃ ﻗﻮﻝُ ﺻﺎﺩﺭِ ﻋﻦ ﻋﻠﻢ ﺣﺼﻞ ﺑﻤﺸﺎﮬﺪۃ ﺑﺼﯿﺮۃ ﺍﻭ ﺑﺼﺮِ ﻭﺍﻣﺎ ﺍﻟﺸﮭﯿﺪ ﻓﻘﺪ ﯾﻘﺎﻝ ﻟﻠﺸﺎﮬﺪ ﻭﺍﻟﻤﺸﺎﮬﺪُ ﻟﻠﺸﺌﯿﯽ ﻭﮐﺬﺍ ﻗﻮﻟﮧ ﻓﮑﯿﻒ ﺍﺫﺍ ﺟﺌﻨﺎ ﻣﻦ ﮐﻞ ﺍﻣۃ ﺑﺸﮭﯿﺪ ﻭﺟﺌﻨﺎﺑﮏ ﻋﻠﯽٰ ﮬٰﺌﻮﻻٓﺀ ﺷﮭﯿﺪﺍ۔ ﺗﺮﺟﻤﮧ: ﺷﮩﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺎﺩۃ ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺑﺼﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍٓﻧﮑﮫ ﯾﺎ ﺑﺼﯿﺮﺕ ﮐﮯ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺻﺎﺩﺭ ﮨﻮ، ﺭﮨﺎ ﺷﮩﯿﺪ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﻮﺍﮦ ﺍﻭﺭ ﺷﮯ ﮐﺎ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ ‏( ﺟﺲ ﮐﺎ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ‏) ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﮔﺎ ؟ ﺟﺐ ﮨﻢ ﮨﺮ ﺍﻣﺖ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﻮﺍﮦ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﺐ ﭘﺮ ﮔﻮﺍﮦ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ( ﺣﺴﯿﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﻤﻘﻠﺐ ﺑﺎﻟﺮﺍﻏﺐ ﺍﺻﻔﮩﺎﻧﯽ ، ﺍﻟﻤﻔﺮﺩﺍﺕ ‏( ﻧﻮﺭﻣﺤﻤﺪ، ﮐﺮﺍﭼﯽ ‏)ﺹ 962۔ 07 ) ﺍﻣﺎﻡ ﻓﺨﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺭﺍﺯﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ( ﺷﮩﺎﺩﺕ‏) ، ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ، ﺍﻭﺭ ﺷﮩﻮﺩ ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮ ﺷﮭﺪﺕ ﮐﺬﺍ ‏(ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻼﮞ ﭼﯿﺰ ﺩﯾﮑﮭﯽ‏) ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍٓﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﮐﮯ ﭘﮩﭽﺎﻧﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﺪﯾﺪ ﻣﻨﺎﺳﺒﺖ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﺩﻝ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ‏(ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﻟﺮﺍﺯﯼ، ﺍﻣﺎﻡ ، ﺗﻔﺴﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ‏(ﺍﻟﻤﻄﺒﻌۃ ﺍﻟﻤﺼﺮﯾﮧ‏) ﺟﻠﺪ 4 ، ﺹ 311، 411 ) ﺍﻣﺎﻡ ﻗﺮﻃﺒﯽ ‏( ﻡ 176ﮪ ‏) ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﺷﺮﻃﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮﻭ ﮦ ﻣﮑﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔ ‏(1‏) ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﻧﺎ ۔‏(2 ‏) ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ‏(3‏) ﮔﻮﺍﮨﯽ ﮐﺎ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﺎ۔ ‏(ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﺣﻤﺪ ﺍﻟﻘﺮﻃﺒﯽ، ﺍﻣﺎﻡ، ﺍﻟﺘﺬﮐﺮﮦ ‏(ﺍﻟﻤﮑﺘﺒۃ ﺍﻟﺘﻮﻓﯿﻘﯿۃ ‏) ﺹ 381 ) ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﻗﺸﯿﺮﯼ ‏(ﻡ 564ﮪ‏) ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ: ﻭﻣﻌﻨﯽ ﺍﻟﺸﺎﮬﺪ ﺍﻟﺤﺎﺿﺮ ﻓﮑﻞ ﻣﺎﮬﻮ ﺣﺎﺿﺮ ﻗﻠﺒﮏ ﻓﮭﻮ ﺷﺎﮬﺪﻟﮏ ۔ ‏( ﻋﺒﺪﺍﻟﮑﺮﯾﻢ ﺑﻦ ﮨﻮﺍﺯﻥ، ﺍﺑﻮﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﺍﻻﻣﺎﻡ، ﺍﻟﺮﺳﺎﻟﮧ ﺍﻟﻘﺸﯿﺮﯾﮧ ‏(ﻣﺼﻄﻔﯽٰ ﺍﻟﺒﺎﺑﯽ ، ﻣﺼﺮ‏) ﺹ 74 ) ﻗﺮﺍٓﻥ ﭘﺎﮎ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺷﺎﮨﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮨﺪﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﻗﺸﯿﺮﯼ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺻﻔﮩﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﺣﻀﻮﺭ ﻣﻊ ﺍﻟﻤﺸﺎﮨﺪﮦ ﮨﮯ۔ ﺧﻮﺍﮦ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﺳﺮ ﮐﯽ ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺼﯿﺮﺕ ﺳﮯ، ﮐﮩﻨﮯ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺍٓﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺍٓﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﯿﺪ ﯾﻮﻡ ﺍﻟﻨﺸﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﻭﻧﺎﻇﺮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺀ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﺗﻮ ﺑﮯ ﺷﮏ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮯ ﺷﺮﮎ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻄﻌﺎََ ﺟﻮﺍﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺳﯿﺪ ﻋﺎﻟﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺲ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﻭ ﻧﺎﻇﺮ ﮨﯿﮟ؟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺴﺘﻨﺪ ﺗﻔﺎﺳﯿﺮ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﭼﮑﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺍﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﺎﺯﻥ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﭘﺮ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ، ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺳﻌﻮﺩ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ؛ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺍﺯﯼ ﻧﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ : ﺍﺭﺳﻠﺖ ﺍﻟﯽ ﺍﻟﺨﻠﻖ۔ ﮨﻢ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ( ﻣﺴﻠﻢ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺠﺎﺝ ﺍﻟﻘﺸﯿﺮﯼ، ﺍﻣﺎﻡ، ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺷﺮﯾﻒ ‏(ﻃﺒﻊ ﮐﺮﺍﭼﯽ ‏) ﺟﻠﺪ 1 ، ﺹ 991
    1 point
  23. ok Mughal bhai! agar maine apni naadaani main aisa kiya hai to puraani ghaltiyon ke liye sorry,,,,,,,,,,,,,,,,,, ,,, aur aainda ke liye ahtiyaat ki koshish,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
    1 point
  24. Usman.Hussaini جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیگر ممبرز بھی اپنی اپنی معلومات شیر کیجیے ۔۔۔۔۔ تقویتہ الایمان کا مکمل رد عوام الناس کو پتہ چل سکے ۔۔۔۔
    1 point
×
×
  • Create New...