Jump to content

Syed_Muhammad_Ali

اراکین
  • کل پوسٹس

    209
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    27

سب کچھ Syed_Muhammad_Ali نے پوسٹ کیا

  1. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ سوئم چالیسواں وغیرہ کے بارے میں اس لنک کو پڑھ لیں اس میں سے اگر کوئی اسکین پیج کی ضرورت ہو تو طلب فرمائیں۔ باقی فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر فاتحہ پڑھنے کا حوالہ مجھے نہیں مل سکا۔ علامہ عبد الحامد قادری صاحب نے اپنی کتاب عقائد اھل سنت میں اسے لکھا ہے۔ سینیئر ممبران سے گذارش ہے کہ اس کا حوالہ بتا دیں۔ ____________________________________________________________
  2. الحمد للہ اہل سنت کا عقیدۂ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم قوی دلائل سے ثابت ہے۔ یہ روایت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل کے تعلق سے معتبر ہے جیسا کہ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور امام الرازی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کرامت بتایا ہے۔
  3. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ دعاؤں میں یاد رکھیئے گا۔
  4. ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اس روایت کو منکر کہا ہے۔ اس روایت کی سند میں ایک راوی ابو طاہر المقدسی کذاب ہے جس کی وجہ سے یہ روایت قابلِ اعتبار نہیں۔ دیکھیے الجرح و التعدیل۔ _____________________________________________
  5. Sybarite bhai bohat bohat Mubarak ho...
  6. وہابیوں کا نام انگریزوں نے نہیں دیا۔ ہاں انگریزوں کی مدد سے وہابیوں کا نام اہلِ حدیث پڑا۔ ثبوت ملاحظہ فرمائیں۔
  7. شانِ رضا بھائی ماشأاللہ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالی ہمیں بھی عربی زبان سیکھنے کی سعادت نصیب کرے۔ فورم پر ممبرز کی اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہے۔ کوئی عربی جاننے والا اسلامی بھائی ہمت کرکے اس مکالمے کا مختصر اردو ترجمہ کرکے اردو سیکشن میں پوسٹ کردے۔ شانِ رضا بھائی پہلے ہی ایک ویب سائٹ چلا رہے ہیں اور ان کی مصروفیت کا سب کو اندازہ ہے۔ اللہ ان کے علم میں اضافہ کرے اور اسلامی محفل کو ہمیشہ ان سے فیض ملتا رہے۔ آمین
  8. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ Ye link dekh len.... Achhi resolution wali images hain. http://websites.dawateislami.net/html/ghous-e-azam/portfolio_category/mazar-images/
  9. خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا کوئی معتبر حوالہ مجھے نہیں مل سکا۔ کتاب غنیۃ الطالبین میں اس نماز کا ذکر موجود ہے۔ یاد رہے کہ کتاب غنیۃ الطالبین حضور غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کی تصنیف نہیں بلکہ آپ کی طرف منسوب ہے۔ جہاں تک سو رکعت والی نماز جس میں سورۃ الاخلاص پڑھنے کا ذکر ہے، کی حدیث کی صحت کا تعلق ہے، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اپنی کتاب الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ میں نقل کیا ہے اور اسے موضوع قرار دیا ہے۔ لسان المیزان میں ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ واللہ اعلم ____________________________________________________________ ____________________________________________________________
  10. جزاک اللہ خیرا۔ الفتح المبین کے مصنف کا نام اور مسلک بتا دیں، آیا دیوبندی ہے یا سنی؟
  11. الحدیث: إذا تحيرتم فى الأمور فاستعينوا من اهل القبور ترجمہ: جب کسی معاملے میں حیران ہوجاؤ تو اھلِ قبور سے استعانت طلب کرو۔ اس حدیث کو علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسند ابی حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ میں اسے لکھا ہے۔ تفسیر روح البیان میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث قابلِ اعتبار ہے؟ وہابی ابنِ باز نے اسے جھوٹ کہا ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔ ___________________________________________________________________ ___________________________________________________________________
  12. حوالہ نمبر 1 _______________________________________________________________ حوالہ نمبر 2 _______________________________________________________________ حوالہ نمبر 3 _______________________________________________________________ حوالہ نمبر 4
  13. المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية میں امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسےنقل کیا ہے۔ جلد 15 صفحہ 178,179 _________________________________________________________________ _________________________________________________________________
  14. المستدرك علي الصحيحين الحاكم جلد 4 صفحہ 98 _________________________________________________
  15. عورتوں کا قبروں پر جانا اختلافی مسئلہ ہے، اکثر اہلِ علم ناجائز یا مکروہِ تحریمی کہتے ہیں، اور کچھ علمأ اس کی اجازت دیتے ہیں۔ عورتوں کے قبروں پر جانے کی ممانعت اس حدیث سے ملتی ہے۔ ترمذی و ابو داؤد میں ہے۔ لعن الله زوارات القبور ترجمہ: قبور کی زیارت کرنے والیوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ اسی حدیث کے تحت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ وقد رأى بعض أهل العلم أن هذا كان قبل أن يرخص النبي صلى الله عليه وسلم في زيارة القبور، فلما رخص دخل في رخصته الرجال والنساء، وقال بعضهم: إنما كره زيارة القبور للنساء لقلة صبرهن وكثرة جزعهن ترجمہ: بعض اہل علم کے خیال میں یہ (لعنت) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عورتوں کو زیارت قبور کی اجازت سے پہلے تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی تو آپ کی رخصت میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں اور بعض علماء نے کہا کہ عورتوں کی زیارت قبور اس لئے مکروہ ہے کہ ان میں صبر کم اور بے صبری زیادہ ہوتی ہے۔ سنن الکبرٰی اور مستدرک علی الصحیحین الحاکم میں ہے۔ عن عبد الله بن أبي مليكة، أن عائشة رضي الله عنها أقبلت ذات يوم من المقابر فقلت لها: يا أم المؤمنين من أين أقبلت؟ قالت: من قبر أخي عبد الرحمن بن أبي بكر فقلت لها: أليس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن زيارة القبور؟ قالت نعم كان نهى ثم أمر بزيارتها ترجمہ: حضرت عبد اﷲ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک دن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا قبرستان سے واپس تشریف لا رہی تھیں میں نے اُن سے عرض کیا : اُم المؤمنین! آپ کہاں سے تشریف لا رہی ہیں؟ فرمایا : اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کی قبر سے، میں نے عرض کیا : کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارتِ قبور سے منع نہیں فرمایا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا : ہاں! پہلے منع فرمایا تھا لیکن بعد میں رخصت دے دی تھی۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔ قال القرطبي : هذا اللّعن إنّما هو للمکثرات من الزيارة لما تقتضيه الصفة من المبالغة، ولعلّ السبب ما يفضي إليه ذلک من تضييع حق الزوج، والتبرج، وما ينشأ منهن من الصّياح ونحو ذلک. فقد يقال : إذا أمن جميع ذلک فلا مانع من الإذن، لأن تذکر الموت يحتاج إليه الرّجال والنّساء ترجمہ: قرطبی نے کہا یہ لعنت کثرت سے زیارت کرنے والیوں کے لئے ہے جیسا کہ صفت مبالغہ کا تقاضا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ (بار بار) قبروں پر جانے سے شوہر کے حق کا ضیاع، زینت کا اظہار اور بوقتِ زیارت چیخ و پکار اور اس طرح کے دیگر ناپسندیدہ اُمور کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ پس اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جب ان تمام ناپسندیدہ اُمور سے اجتناب ہو جائے تو پھر رخصت میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مرد اور عورتیں دونوں موت کی یاد کی محتاج ہیں۔ حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے۔ وفي السراج وأما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب كما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة وعليه يحمل الحديث الصحيح لعن الله زائرات القبور وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين من غير ما يخالف الشرع فلا بأس به إذا كن عجائز وكره ذلك للشابات كحضورهن في المساجد للجماعات اهـ وحاصله أن محل الرخص لهن إذا كانت الزيارة على وجه ليس فيه فتنة والأصح أن الرخصة ثابتة للرجال والنساء لأن السيدة فاطمة رضي الله تعالى عنها كانت تزور قبر حمزة كل جمعة وكانت عائشة رضي الله تعالى عنها تزور قبر أخيها عبد الرحمن بمكة كذا ذكره البدر العيني في شرح البخاري ترجمہ: سراج میں ہے، عورتیں جب زیارتِ قبور کا ارادہ کریں تو اس سے ان کا مقصد اگر آہ و بکا کرنا ہو جیسا کہ عورتوں کی عادت ہوتی ہے تو اس صورت میں ان کے لئے زیارت کے لئے جانا جائز نہیں اور ایسی صورت پر اس صحیح حدیث مبارکہ کہ اﷲ تعالیٰ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرماتا ہے، کا اطلاق ہوگا اور اگر زیارت سے اُن کا مقصد عبرت و نصیحت حاصل کرنا اور قبورِ صالحین سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی طلب اور حصولِ برکت ہو جس سے شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو تو اس صورت میں زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ خواتین بوڑھی ہوں، نوجوان عورتوں کا زیارت کے لئے جانا مکروہ ہے جیسا کہ ان کا مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز کے لئے آنا مکروہ ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کی رخصت تب ہے جب اس طریقے سے زیارت قبور کو جائیں کہ جس میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور صحیح بات یہ ہے کہ زیارتِ قبور کی رخصت مرد و زن دونوں کے لئے ثابت ہے کیونکہ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اپنے بھائی حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کی مکہ میں زیارت کرتی تھیں۔ یہی بات علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ نے شرح صحیح بخاری (عمدۃ القاری) میں لکھی ہے۔ __________________________________________________________________________ ___________________________________________________________________________ ___________________________________________________________________________
  16. السلام علیکم۔۔۔۔ ماشأاللہ۔ سورۃ الیوسف آیت 106 کی تفسیر درکار ہے۔ کون کون سی تفاسیر میں اس آیت کو مشرکین کے متعلق کہا گیا ہے۔ تفاسیر کے ریفرنس درکار ہیں۔ امید ہے جواب سے نوازیں گے۔
  17. کشف کے معنی کھولنے اور پردہ اٹھانے کے ہیں۔ روحانیت میں کشف ایک ایسی صلاحیت ہے، جس کی بدولت اس صلاحیت کا حامل کائنات میں کسی بھی جگہ طیر و سیر کرسکتا ہے۔ کشف کے ذریعے، کشف کرنے والے فرشتوں، پیغمبروں اور ولیوں سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ کشف کرنے والے کو کھلی یا بند آنکھوں سے کشف کرنے پر قادر ہوتا ہے، تاہم یہ کشف کرنے والے کے مراتب و مقامات پر منحصر ہے۔ کشف کی سو سے زائد اقسام ہیں۔ کشف کرنے والے کا مادی جسم دنیا میں اپنی جگہ پر متمکن ہوتا ہے جبکہ تخیل کی پرواز، اُس کو کسی بھی جگہ لے جاسکتی، اس عمل کے دوران کشف کرنے والے کو اپنا مادی جسم بھی نظر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مادی جسم کو چھوڑ کر روحانی جسم کے ذریعے سفر کررہا ہے۔ کشف کی مشہور اقسام میں کشف القبور، کشف الصدور اور کشف الحضور زیادہ مشہور ہیں۔ کشف کی صلاحیت کے حامل صاحبِ کشف کہلاتے ہیں۔ بحوالہ وکیپیڈیا
  18. _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________
×
×
  • Create New...