Jump to content

Syed_Muhammad_Ali

اراکین
  • کل پوسٹس

    209
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    27

سب کچھ Syed_Muhammad_Ali نے پوسٹ کیا

  1. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ توحیدی بھائی آپ کا شکریہ ادا کرنے کا لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ اللہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین
  2. Forum k members se guzarish hai k uper diye gaye aiterazat ka jawab Posture ki soorat mein hi forum mein kahin mojud hai. Plz us posture ko yahan share krden.
  3. Usman Bhai ne jo 2 arabic books ka link dia hai is mein Abdul Wahab Najdi k fitna k bare mein bohat achha aur detail mein likha hai. Shaykh Ahmad Bin Zaini Dahlan Makki رحمۃ اللہ علیہ ki wafat 1304 Hijri mein hui.
  4. Zulfi bhai kitab Auzah al Braheen bohat nayaab hai aur mere pas mojud bi nai hai. Lekin Abdul wahab najdi ki gustakhion k bare mein aapko Sheikh Ahmed bin Zaini Dehlan Makki ki tareekh ki kitab mein achha matter mil skta hai. احمد بن زینی دحلان مكی شافعی اپنی کتاب خلاصۃ الكلام فی بیان امراء البلد الحرام میں محمد بن عبدالوہاب نجدی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ترجمہ: شیخ نجدی مختلف طریقوں سے پیغمبر اكرم كی تنقیض كیا كرتا تھا اور اسكا یہ خیال تھا كہ توحید كو محفوظ ركھنے كا یہی ایك طریقہ ہے۔ اس كی چند گستاخیاں درج ذیل ہیں: شیخ نجدی پیغمبر اكرم كو "طارش" كہا كرتا تھا جو نجد كی لغت میں چٹھی رساں یا ایلچی كو كہتے ہیں۔ واقعہ حدیبیہ كے بارے میں كہا كرتا تھا كہ اس میں بہت جھوٹ بولے گئے ہیں۔ چنانچہ جب اس كے تابعین اس طرح كی باتیں كرتے تھے تو وہ خوش ہوتا تھا۔ اس كے سامنے اس كے تابعین میں سے ایك شخص نے كہا، میرا عصا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر ہے۔ كیوں كہ یہ سانپ وغیرہ مارنے میں كام آ سكتا ہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چكے ہیں اور اب ان میں كوئی نفع باقی نہیں رہا۔ وہ محض ایك ایلچی تھے جو رخصت ہو گئے۔ محمد بن عبد الوہاب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے كو سخت ناپسند كرتا تھا۔ اور درود سننے سے اس كو تكلیف ہوتی تھی۔ جمعہ كی رات كو درود پڑھنے اور میناروں پر بلند آواز سے درود پڑھنے سے منع كرتا تھا اور جو ایسا كرتا تھا اسے سخت تكلیف اور اذیت دیتا تھا۔ كہا كرتا تھا كسی فاحشہ عورت كے كوٹھے میں ستار بجانے سے اس قدر گناہ نہیں ہے جس قدر گناہ مسجد كے میناروں میں حضور اكرم پر درود پڑھنا ہے۔ اوراپنے ماننے والوں سے كہتا تھا اس سے توحید كی حفاظت ہوتی ہے۔ اس نے كتاب دلائل الخیرات اور دوسری درود شریف پڑھنے والی كتابوں كو جلوا دیا۔ اس نے فقہ، تفسیر اورحدیث كی كتابوں بھی جلوا دی تھیں۔ اپنے اصحاب كو قرآن كی اپنی رائےسے تفسیر كرنے كی اجازت دے ركھی تھی۔ جو آیتیں منافقین و مشركین كے لئے نازل ہوئیں ہیں ان كو مسلمانوں پر منطبق كرتا تھا۔ اور یہی طریقہ خوارج كا بھی تھا۔ محمد بن عبد الوہاب اپنے عمال كو كہتا كہ تم خود اجتہاد كرو اور اپنے تدبر سے احكام جاری كرو اوران كتابوں كی طرف نہ دیكھو اس لئے كہ ان میں حق و باطل سبھی كچھ ہے۔ حالاں كہ اس كے تمام عمال جاہل تھے۔ جن علماء، صالحین اور مسلم عوام نے اس كے نوزائیدہ دین كو تسلیم نہیں كیا اس نے انہیں قتل كرا دیا۔ (مسلمانوں كی لوٹ مار سے) جو مال حاصل ہوتا تھا اس كی زكوۃ اپنے ہوائے نفس سے تقسیم كیا كرتا تھا۔ شیخ نجدی كے كارندے اپنے آپ كو كسی مذہب كا پابند نہیں مانتے تھے البتہ لوگوں كو دھوكہ دینے كے لئے حنبلی مذہب كی طرف نسبت دیتے ہیں۔ شیخ نجدی نماز كے بعد دعا مانگنے سے منع كرتا تھا اور كہا كرتا تھا كیا تم اللہ تعالیٰ سے اس عبادت كی مذدوری مانگ رہے ہو۔ Aur aapke point number five ka jawab kitab "Tohfa e Wahabia" mein hai. Ye kitab aik Wahabi "Suleman bin Sahman Najdi" ne likhi hai. ___________________________________________________________________
  5. خاکسار بھائی اس میں اتنا پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں۔ ایک ضعیف حدیث کو زبردستی صحیح تو نہیں بنا سکتے۔ ہاں فضائلِ اعمال، ترغیب و تہریب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا مستحب ہے۔ باقی یہ رہا آپ کا شعب الایمان کا اسکین پیج ___________________________________________________________________
  6. السلام علیکم و رحمۃ اللہ کچھ عرصہ پہلے فورم پہ ان اعتراضات کا جواب پوسٹر کی صورت میں ہی دیکھا تھا۔ شاید مغل بھائی نے بنایا تھا۔ اب کوشش کے باوجود نہیں مل رہا۔ کسی کو لنک پتا ہو تو بتا دے۔ جزاک اللہ
  7. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ Mustafaye بھائی آپ اس سوال کا جواب یہاں بھی شیئر کر دیں تاکہ ہمیں بھی کمیشن سے متعلق شرعی حکم کا معلوم ہو جائے۔ جزاکم اللہ خیرا
  8. فتاوٰی رضویہ جلد ۱۹ کتاب المضاربۃ مسئلہ ۲۰ _________________________________________ _________________________________________
  9. امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ردِ روح کی ایک مراد یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم استغراقِ ملکوتی اور اللہ تعالٰی کے مشاھدہ میں محو ہوتے ہیں کہ اللہ تعالٰی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اس طرف دلاتا ہے کہ آپکا امتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیج رہا ہے۔ سبحان اللہ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجنے والے کا سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔ سمع خارق للعادۃ کا معنی ہے معجزاتی سماعت۔ اور یہ حدیث امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے باب زیارۃ القبور میں نقل کی ہے۔ البانی نے صرف اس پر تحقیق کی ہے۔ اور اس حدیث کا ترجمہ پڑھ کر ہی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد کے متعلق ہے۔ باقی یہ رہا آپ کا اسکین پیج۔۔۔۔
  10. جناب امام نووی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کو تو یہ حدیث ضعیف نظر نہیں آئی اور یہ اس حدیث کو صحیح قرار دیں، حتٰی کہ وہابڑوں کا امام ناصر الدین الالبانی بھی اسے حسن کا درجہ دے۔ شاید یہ لوگ علمِ حدیث سے جاہل تھے اور آج کے intelligent وہابڑوں کو اچانک یہ خیال آیا کہ یہ حدیث تو ضعیف ہے۔ اللہ سمجھ دے --------------------------------------------------- ---------------------------------------------------
  11. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ محمد علی بھائی ماشأاللہ کیا خوب جواب دیا ہے۔ ایک ایک چیز پوری تفصیل سے کھول کر سامنے رکھ دی ہے۔ اللہ آپ کو اس کا ثواب عطا کرے آمین۔ انشأاللہ عنقریب میری بھی ایک دیوبندی سے بحث ہوگی اور آپکی یہ پوسٹ میرے لیے بہت مفید ثابت ہوگی انشأاللہ۔ آیات کی تفاسیر کے سلسلے میں آپ کی کچھ مدد چاہیے ہوگی۔ امید ہے آپ اپنی قیمتی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر مجھے مستفید ہونے کا موقع دیں گے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔
  12. امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب التاريخ الأوسط میں اس حدیث کی مکمل سند موجود ہے۔ -----------------------------------------------------
  13. خاکسار بھائی عرض یہ ہے کہ مرزائیوں نے اس ضمن میں جتنی بھی تشریحات نقل کی ہیں وہ ساری سیاق و سباق سے کاٹ کر نقل کی گئی ہیں۔ جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں تاویل مختلف الحدیث کی پوری عبارت سے مرزائیوں کا جھوٹ واضح ہوا۔ تمام تشریحات پر تبصرہ کرنا فی الحال ممکن نہیں ہے۔ خاکسار بھائی آپ کے لیے تيسرے نمبر والا حوالہ یعنی تکملہ مجمع البحار کی پوری عبارت بھی لکھ دیتے ہیں تاکہ اندازہ ہو جائے کہ مرزائی اپنے مقصد کے موافق عبارات میں کس طرح خیانت کرتے ہیں۔ تکملہ مجمع البحار کی پوری عبارت ملاحظہ ہو۔ في حديث عیسٰی انہ یقتل الخنزیر و یکسر الصلیب ویزید فی الحلال اي یزید فی حلال نفسه بان یتزوج ویولد له وکان لم یتزوج قبل رفعه الی السماء فزاد بعد الہبوط فی الحلال فح یومن کل احد من اھل الکتاب یتیقن بانہ بشر۔ وعن عائشہ قولو انہ خاتم الانبیاء ولا تقولوا لا نبی بعدہ وہذا ناظراً الی نزول عیسیٰ وہذا ایضاً لا ینافی حدیث لا نبی بعدی لانہ اراد لا نبی ینسخ شرعہ۔ ترجمہ: عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور حلال چیزوں میں زیادتی کریں گے یعنی نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی، آسمان کی طرف چلے جانے سے پہلے انہوں نے شادی نہیں کی تھی، ان کے آسمان سے اترنے کے بعد حلال میں اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں ہر ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا، یقیناَ یہ بشر ہیں (یعنی خدا نہیں ہیں جب کہ عیسائیوں نے یہ عقیدہ گھڑ رکھا ہے)۔ اور صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والے نہیں، یہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان اس بات کے مدنظر مروی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور یہ نزولِ عیسی علیہ السلام حدیث شریف "لا نبی بعدی" کے مخالف نہیں ہے اس لیے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کے دین کا ناسخ ہو۔ باقی علمأ نے بھی اسی بات کو یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس حدیث کی تاویلیں کی ہیں۔ اللہ تعالٰی سب کو حق و سچ سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین
  14. Pehle to aap Hadees e Najad ki tehqeeq kr len. Ye thread parh len bohat detail mein behas ki gayi hai. http://www.islamimehfil.com/topic/3393-fitna-e-najad-wali-hadees-ka-misdaq-kon/
  15. منکرینِ ختمِ نبوت مرزائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ختمِ نبوت کے ارشادات کے مقابلے میں اگر کوئی چیز پیش کرتے ہیں تو وہ یہ روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، قولوا انہ خاتم الانبیاء و لا تقولوا لا نبی بعدہ۔ ترجمہ: ’’ یہ تو کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور نہ کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ ان لوگوں کا اپنے زعم میں یہ بڑا مایہ ناز استدلال ہے اور اس پر بہت کچھ حاشیہ آرائی کی جاتی ہے۔ اس حدیث کو امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر الدر المنثور میں اور ابنِ شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مصنف میں نقل کیا ہے۔ یہ قول غیر مستند ہے اور اس کی سند کا کچھ پتا نہیں ملتا۔ کتاب تأويل مختلف الحديث میں ابن قتيبة نے امّ المومنین رضی اللہ عنہا کے اس قول کی توجیح مندرجہ ذیل الفاظ میں کی ہے۔ پوری عبارت ملاحظہ ہو۔ وأما قول عائشة رضي الله عنها: "قولوا لرسول الله صلى الله عليه وسلم خاتم الأنبياء، ولا تقولوا لا نبي بعده"، فإنها تذهب إلى نزول عيسى عليه السلام، وليس هذا من قولها، ناقضا لقول النبي صلى الله عليه وسلم: "لا نبي بعدي" لأنه أراد: لا نبي بعدي، ينسخ ما جئت به، كما كانت الأنبياء صلى الله عليهم وسلم تبعث بالنسخ، وأرادت هي: "لا تقولوا إن المسيح لا ينزل بعده" ترجمہ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہو اور یوں نہ کہو کہ آپ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں تو آپ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے ہے اور یہ قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ’’لا نبی بعدی‘‘ کے خلاف نہیں ہے کیونکہ یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی نبی نہیں آئے گا جو میری شریعت کو منسوخ کردے جیسا کہ انبیاء علیہ السلام سابق شرع کو منسوخ کرنے کے لیے مبعوث کیے جاتے تھے، جب کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ تم یہ نہ کہو حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی بعد میں نہ آئیں گے۔ جیسا کہ مکمل عبارت سے صاف ظاہر ہوگیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا لا نبي بعدہ کہنے سے منع فرمانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے یقیناَ ہوگا اور "حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں" کے الفاظ کے عموم کے اعتبار سے عوام کو شبہ اور وہم کو دور کرنے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعض اوقات ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ ختمِ نبوت کی متعدد احادیث کو خود عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح کسی تاویل و تشریح کے بغیر ذکر کرتی ہیں تو اس کا صاف مقصد یہ ہے حضرت امّ المومنین رضی اللہ عنہا اس مسئلہ پر مہر تصدیق ثبت کررہی ہیں کہ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ مرزائی اس قول کی تشریحات نقل کرتے وقت اس کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے مقصد کے موافق الفاظ ذکر کر دیتے ہیں جس سے بھولے بھالے مسلمان ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ یہ دراصل مرزائی امّت کے استدلال کے نرالے اصول ہیں۔ ایک طرف تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف جو مجہول الاسناد قول منسوب ہے، معتبر و مستند مانا جارہا ہے اور اس کو بڑے آب وتاب کے ساتھ ہمیشہ پیش کیا جاتا ہے اور باوجود تلاش کے اس قول کی صحیح تخریج صحیح اسناد کے ساتھ مرزائیوں کو تاحال نہیں مل سکی۔ دوسری طرف صحیح احادیث مرفوعہ کا ذخیرہ جس میں ختم نبوت روزِ روشن کی طرح واضح ہے وہ ناقابل قبول ہے۔ اللہ عقل دے۔
  16. -------------------------------------------------------------- -------------------------------------------------------------- -------------------------------------------------------------- -------------------------------------------------------------- -------------------------------------------------------------- -------------------------------------------------------------- -------------------------------------------------------------- -------------------------------------------------------------- شیخ عبد الحق محدث دہلوی اخبار الاخیار میں لکھتے ہیں۔ :ترجمہ --------------------------------------------------------- --------------------------------------------------------- مخالفین کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مھاجر مکی فیصلہ ھفت مسئلہ میں لکھتے ہیں۔ --------------------------------------------------------- مفتی محمد شفیع مجالسِ حکیم الامت میں اشرف علی تھانوی کا بیان نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔
  17. اس ٹاپک میں انشأاللہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جائز و مستحب ہونے کا ثبوت محدثین، آئمہ اور مخالفین کی کتابوں کے اسکین سے دیا جائے گا۔ اگر کسی بھائی کے پاس اس سے متعلق مزید اسکین پیج ہوں تو ضرور پوسٹ کریں۔ انشأاللہ میلاد کے منکرین کے لیے لمحۂ فکریہ ہوگا۔
  18. اس اعتراض کے دو جوابات ہیں۔ اول الزامی، دوم تحقیقی۔ الزامی جواب محترم توحیدی بھائی دے چکے ہیں۔ تحقیقی جواب نیچے دیا جاتا ہے۔ آپ نے جس قول کا حوالہ دیا ہے وہ کتاب الاعتصام کا ہے۔ عربی عبارت ملاحظہ ہو۔ قال ابن الماجشون: سمعت مالكا يقول: من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة، زعم أن محمدا صلى الله عليه وسلم خان الرسالة، لأن الله يقول: (اليوم أكملت لكم دينكم) فما لم يكن يومئذ دينا، فلا يكون اليوم دينا یہاں اس قول کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول کچھ الفاظ کے فرق سے ابن حزم نے اپنی کتاب الاحکام في اصول الاحکام میں بمع سند نقل کیا ہے۔ عربی عبارت ملاحظہ ہو۔ حدثنا أحمد بن عمر بن أنس ثنا الحسين بن يعقوب ثنا سعيد بن فحلون ثنا يونس بن يحيى المفامي ثنا عبد الملك بن حبيب أخبرني بن الماجشون أنه قال قال مالك بن أنس من أحدث في هذه الأمة اليوم شيئا لم يكن عليه سلفها فقد زعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خان الرسالة لأن الله تعالى يقول: (اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم لأسلام دينا) فما لم يكن يومئذ دينا لا يكون اليوم دينا اب اس قول کی سند کو دیکھتے ہیں۔ اس قول میں عبد الملك بن حبیب القرطبی ضعیف ہیں۔ ابن حزم کے نزدیک وہ قابلِ اعتماد نہیں۔ حافظ ابو بکر نے انھیں ضعیف کہا ہے اور بعض نے ان پر جهوٹا ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ دیکھیئے لسان المیزان مختصر یہ کہ یہ قول ضعیف ہے اور اس سے استدلال درست نہیں۔ -----------------------------------------------------
  19. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ منّت مانگنا جائز ہے اور اسے پورا کرنا ضروری ہے۔ احادیث مبارکہ میں منّت پوری کرنے کی خاص تاکید کی گئی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے یہ لنک ملاحظہ فرمائیں۔ http://kinzulemaan.blogspot.com/2011/11/bahar-e-shariat-9-blog-p-4.html باقی جو آپ نے ڈھول بجانے کا ذکر کیا ہے تو اس کی شرعاَ اجازت نہیں۔ منّت مانتے وقت اگر یہ مقرر کیا تھا کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو سرِعام ڈھول بجاؤں گا یا کوئی اور غیر شرعی کام کروں گا تو انھیں ھرگز پورا نہ کرے۔ ہاں پھر منّت کا کفارہ دینا ہوگا جو کہ قَسم کے کفارے کے برابر ہے۔
  20. Tamam Members se guzarish hai k References aur Scans se related topics k lye "References & Scan Requests" wala section bnaya gya hai usay use kren. Ovais bhai aapka topic move kia ja rha hai. next time khayal rkhen ge.
×
×
  • Create New...