Jump to content

wasim raza

اراکین
  • کل پوسٹس

    549
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    32

سب کچھ wasim raza نے پوسٹ کیا

  1. سوال: کیا دعا کے بعد چہرہ ہاتھوں سے مسح کرنا سنت ہے یا بدعت؟ جواب: یہ اُن اہم مسائل میں سے ایک ہے جن پر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اہلِ علم میں شمار کیے جانے والے لوگ شدید انکار کرتے ہیں بلکہ بعض تو اس عمل (دعا کے بعد چہرہ ہاتھوں سے مسح کرنے) کا مذاق بھی اُڑاتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل سنت ہے، کیونکہ متعدد اسناد کے مجموعی اعتبار سے یہ ثابت ہے، اور سلفِ صالحین کے عمل میں بھی رہا ہے۔ کم از کم اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ اس مسئلے میں آدابِ اختلاف کو ملحوظ رکھا جائے۔ ذیل میں دعا کے بعد چہرہ مسح کرنے کے جواز پر دلائل اور علماء کے اقوال پیش ہیں: 1. حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب دعا میں اپنے ہاتھ بلند فرماتے تو انہیں اپنے چہرے پر مسح کیے بغیر واپس نہ کرتے۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 3386) 2. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ سے دعا کرو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے ساتھ، پشت سے نہیں، اور جب دعا ختم کرلو تو ان سے اپنا چہرہ مسح کرو۔" (ابو داؤد، حدیث نمبر: 1485) محدث علامہ ابن حجر نے فرمایا: "دونوں احادیث کا مجموعہ اس بات کا مقتضی ہے کہ حدیث حسن ہے۔" اور علامہ بسّام نے فرمایا: "یہ حدیث مجموعی طرق سے قوی ہے، اور اسے اسحاق، نووی، ابن حجر، منّاوی، صنعانی، اور شوکانی نے صحیح قرار دیا ہے۔" (توضیح الأحکام 7/612) 3. عبدالرزاق نے "باب: دعا کے بعد چہرہ مسح کرنا" میں روایت کیا (3256): ابن جریج، یحییٰ بن سعید سے: ابن عمر دعا کے وقت ہاتھ اٹھاتے، اور ذکر کیا کہ گذشتہ لوگ دعا کرتے پھر اپنے ہاتھ چہرے پر پھیرتے تاکہ دعا اور برکت لوٹائیں۔ 4. عبدالرزاق کہتے ہیں: میں نے معمر کو دیکھا کہ وہ سینے کے سامنے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے، پھر اپنے ہاتھ چہرے پر پھیرتے۔ اور "باب رفع الیدین فی الدعاء" (3234) میں روایت کیا کہ: معمر نے زہری سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ دعا میں سینے کے سامنے ہاتھ اٹھاتے، پھر ان سے چہرہ مسح کرتے، اور معمر نے بھی یہی عمل کیا، اور میں نے بھی کیا۔ (مصنف عبدالرزاق) 5. امام بخاری نے "الأدب المفرد" (ص 609) میں وہب سے روایت کیا: میں نے ابن عمر اور ابن زبیر کو دیکھا کہ وہ دعا کرتے اور ہتھیلیوں کو چہرے پر پھیرتے۔ 6. معتمر بن سلیمان نے کہا: میں نے ابا کعب کو دیکھا کہ وہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے، جب فارغ ہوتے تو چہرہ مسح کرتے۔ میں نے پوچھا: تم نے یہ کس کو کرتے دیکھا؟ کہا: میں نے حسن بصری کو ایسا کرتے دیکھا۔ (فض الوعاء للسيوطي، ص 59) صنعانی نے فرمایا: "یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ دعا کے بعد چہرہ ہاتھوں سے مسح کرنا مشروع (جائز و مسنون) ہے۔" (سبل السلام 4/614) 7. عبداللہ بن احمد بن حنبل نے کہا: میں نے اپنے والد سے پوچھا: کیا دعا کے بعد ہاتھوں سے چہرہ مسح کرے؟ فرمایا: امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ (مسائل الإمام أحمد لابنه عبدالله، ص 332) 8. ابن قدامہ نے کہا: قنوت کے بعد چہرہ ہاتھ سے مسح کرے یا نہیں؟ دو روایتیں ہیں، دوسری روایت کے مطابق مستحب ہے، کیونکہ دعا میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں، پس ان سے چہرہ مسح کرے، جیسے نماز سے باہر کرتا ہے۔ (المغنی 2/115) 9. مرداوی نے کہا: مسح کی روایت ہی مذہب ہے، امام احمد نے بھی ایسا کیا، اور مجد، و صاحب "مجمع البحرين" نے فرمایا: یہی دونوں روایتوں میں اقویٰ ہے، اور "الکافی" میں کہا: یہی اولیٰ ہے۔ (الإنصاف 2/173) 10. ابن مفلح نے فرمایا: "اور وہ اپنے چہرے کو ہاتھوں سے مسح کرے، امام احمد نے ایسا کیا۔" (الفروع 2/364) 11. شیخ مرعی حنبلی نے کہا: "قنوت کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرے، پھر چہرہ مسح کرے، اور نماز سے باہر بھی یہی کرے۔" 12. ابن ضویان نے فرمایا: "حضرت عمر کی عام حدیث اور ابن عباس کی روایت کی بنا پر چہرہ مسح کرنا مستحب ہے۔" (منار السبيل 1/109) 13. امام نووی نے کہا: "قنوت کے بعد دعا کے اختتام پر چہرہ مسح کرنے میں دو قول ہیں، ان میں مشہور یہ ہے کہ مستحب ہے، امام جوینی، ابن الصباغ، اور غزالی نے اسی پر جزم کیا۔" (المجموع 3/499) 14. نفراوی نے کہا: "دعا کے بعد چہرہ ہاتھوں سے مسح کرنا مستحب ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے۔" (الفواكه الدواني 2/235) 15. فتاویٰ ہندیہ میں ہے: "ہمارے بہت سے مشائخ نے دعا کے بعد چہرہ مسح کو معتبر سمجھا ہے، اور یہی صحیح ہے، اسی پر حدیث بھی وارد ہوئی ہے۔" (الفتاوى الهندية 5/318) 16. شیخ حماد الانصاری نے فرمایا: "دعا کے بعد چہرہ ہاتھوں سے مسح کرنے کے بارے میں تین حدیثیں ہیں جو درجۂ حسن تک پہنچتی ہیں۔" (المجموع في ترجمة العلامة الأنصاري 2/487) 🔹 خلاصہ: دعا کے بعد چہرہ ہاتھوں سے مسح کرنا سنت و مستحب عمل ہے، جسے متعدد احادیث اور سلف و ائمہ کی تصریحات سے تقویت حاصل ہے۔ اسے بدعت کہنا یا اس پر انکار کرنا علم و ادب کے خلاف ہے۔
  2. وعلیکم السلام مشرکینِ مکہ کا شرک یہ تھا کہ وہ لوگ اللہ کے سوا غیر اللہ کی بھی عبادت کرتے تھے ۔۔ وہابیوں کے گھر کا حوالہ ملاحظہ کریں ۔۔
  3. امام ابن رجب حنبلی سنی عالم تھے ۔۔ انہوں نے ابنِ تیمیہ کے اقوال سے رُجوع بھی کیا تھا ۔۔۔ امام اِبنِ حجر عسقلانی فرماتے ہیں ابن رجب پر اعتراض کیا گیا کہ وہ *ابن تیمیہ کے اقوال کے مطابق فتوے دیتے تھے، پھر انہوں نے اس سے رجوع ظاہر کیا، تو ابن تیمیہ کے پیروکار ان سے بیزار ہو گئے* امام ابن رجب (م795ھ) فرماتے ہیں محمد ﷺ ہی نوعِ انسانی (ساری انسانیت) کی تخلیق کا اصل مقصود ہیں، وہی اس کا لبِ لباب (جوہر) اور خلاصہ ہیں، اور اس پوری انسانیت کے تسبیح کی لڑی کے مرکز و محور (یعنی موتی کی طرح درمیان) ہیں۔
  4. عبد اللہ بن ابی بکر کہا: میں نے عثمان بن مظعون کی قبر کی بلند دیکھا۔"( مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱۸۶۸) اب سوال یہ ہے کہ عثمان بن مظعون قبر کتنی اونچی تھی؟صحیح بُخاری میں ہے عثمان بن مظعون کی قبر کے بارے میں لکھا ہے "خارجہ بن زید کہتے ہیں میں عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جوان تھا اور چھلانگ لگانے میں سب سے زیادہ وہ سمجھا جاتا جو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر سے چھلانگ لگا کر اس پار کود جاتا" خارجہ بن زید کی حدیث اور شارحین بُخاری اس حدیث کی شرح میں اِمام ابنِ حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں اور اس میں قبر کو بلند کرنے اور زمین کی سطح سے اونچا کرنے کی اجازت ہے۔ امام ابن ملقن ، التوضیح شرح جامع الصحیح فرماتے ہیں "خارجہ کے اثر (قول) میں اس بات کی دلیل ہے کہ قبروں کو زمین سے بلند کرنا اور انہیں اونچا بنانا جائز ہے، تاکہ انہیں پہچانا جا سکے، بشرطیکہ اس کا مقصد فخر و مباہات نہ ہو، امام الدمامينى "مصابيح الجامع شرح صحيح البخاري" میں فرماتے ہیں اور عثمان بن مظعون کی قبر کی بلندی کا ذکر اس لیے کیا گیا تاکہ یہ واضح ہو کہ قبر کا اونچا ہونا نقصان دہ نہیں ہے شیخ الاسلام امام یحییٰ زکریا الانصاری "منحة الباري بشرح صحيح البخاري" میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں "حتّى يجاوزه" یعنی "اس سے آگے بڑھ جائے"، یعنی قبر کی بلندی کی وجہ سے۔اور اس بارے میں، جیسا کہ ہمارے شیخ(ابن حجر عسقلانی)نے فرمایا: "قبر کو اونچا کرنے اور زمین سے بلند کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔" امام قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں اس حدیث میں قبر کو بلند کرنے اور زمین کی سطح سے اونچا بنانےکا جواز کا موجود ہے
  5. قبروں کو برابر کرنے سے مراد کیا زمین برابر کرنا ہے؟ کُچھ جہلاء اِس حدیث کا غلط مطلب لیتے ہیں کہ قبروں کو زمین برابر کِیا جائے ، حالانکہ یہاں برابر سے مُراد درست کرنا ہے نہ کہ زمین برابر کرنا حضرت ابن عباس کے غلام فرماتے ہیں مجھ سے حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا: جب تو کسی قوم کو دیکھے جس نے مردے کو دفن کرکے قبر ایسی بنائی ہو جو مسلمانوں کی قبروں کی طرح نہ ہو تو تم اس کو مسلمانوں کی قبروں کے برابر کر دو (مصنف ابن ابی شیبہ۱۱۹۱۹) *بدعتی کون؟* وہابیوں نے جنت البقیع کی تمام قبروں کو زمین برابر (چپٹا) کر دیا ، جِس میں عثمان بن مظعون کی قبر بھی شامل ہےجو صحابہ کرام کے دور میں کافی اونچی ہوا کرتی تھی ۔۔ اِمام بیہقی کہتے ہیں قبروں کو چپٹا بنانا اہل بدعت کا نعرہ ہے ایک شخص نے حضرت امام شعبی سے عرض کیا ایک شخص نے اپنی میت کو دفن کیا اور اس کی قبر زمین کے برابر بنائی کیا درست ہے؟ آپ نے فرمایا میں نے شہدائے احد کی قبریں دیکھی ہیں وہ زمین سے بلند او پر اٹھی ہوئی ہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱۹۲۲) یہ حدیث بھی خارجیوں( وہابیوں) کے باطل تاویلات کا رد کر رہی ہے جو قبروں کو زمین برابر کرنے کا کہتے ہیں ، اگر قبروں کو زمین برابر کیا جائیگا تو جتنی مٹی قبر سے نکلے گی وہ مٹی کہاں ڈالی جائے گی؟ اِمام بیہقی فرماتے ہیں البتہ ہمارے بعض اہل علم نے اس زمانے میں قبروں کو اُبھرا ہوا (مسنم) رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے، *کیونکہ یہ اجماعی طور پر جائز ہے۔* مزید یہ کہ *تسطیح (زمین برابر کرنا) اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے* ، لہٰذا اس پر بے جا اعتراضات اور اہل سنت پر بدعت کا الزام لگنے سے بچنے کے لیے، تسنیم (یعنی قبر کو قدرے اُبھرا ہوا رکھنا) کو اختیار کرنا مناسب ہے۔ اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔"(السنن الکبری6761)
  6. مولا علی پر خارجیوں کا فتویٰ ۔۔۔ *ایک خارجی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور یہ آیت پیش کی : سب خوبیاں اللہ کو جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیریاں اور روشنی پیدا کی اس پر کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ پھر اُس ( خارجی نے) کہا: کیا ایسا نہیں ہے؟ حضرت علی نے فرمایا: کیوں نہیں ۔ جب خارجی جانے لگا تو حضرت علی نے اسے واپس بلایا اور کہا یہ آیت اہل کتاب کے متعلق نازل ہوئی ہے۔* یعنی خارجی نے پہلے حضرت علی کو مشرک ثابت کرنے کے لئے یہ آیت پیش کی ، پھر آپ نے یہ واضح کر دیا کہ یہ آیت اہل کتاب کے متعلق ہے
  7. بریلویت کی خانہ تلاشی کے خارجی مصنف نے کِسی "دروس حرم" نامی کتاب کا حوالہ دیا ہے ، یہ دروس حرم کتاب کِسی محمد مکی حجازی نامی خارجی نے لِکھی ہے اور وہاں اِس واقعہ کو بغیر کسی سند کے بغیر کسی حوالے کے اعلیٰ حضرت کی طرف منسوب کیا ہے ۔۔۔
  8. دل تین باتوں پر خیانت نہیں کرتے ۔ (1) اللہ کے لئے خالص عمل کرنا۔ (۲) اور حکمرانوں کی خیر خواہی کرنا ۔ (۳) اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا کیونکہ ان کی دعا ان کے علاوہ سب کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے (مسندِ دارمی) نوٹ: اِس حدیث کے حاشیہ میں وہابی مترجم کہتا ہے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے رجائیت والے کلام سے پتہ چلا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہیں تھے۔ ورنہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم قطعیت کے ساتھ کہتے کہ آئندہ تم کو مل نہ سکوں گا جب کہ اِسی حدیث کے تحت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى تَوْدِيعِهِمْ وَإِعْلَامِهِمْ بِقُرُبٍ وَفَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یعنی یہاں سرکار صلّی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرما رہے ہیں کہ میں تمہیں چھوڑ کر جانے والا ہوں اور انہیں اپنے قرب وفات کی خبر دے رہے ہیں بہر حال یہ اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔ حدیث شریف تو ایک ہے، مگر وہابی بےخبری نکال رہا ہے اور اِمام نووی علم کی خوشبو سونگھ رہے ہے
  9. جس نے جماعت سے ایک بالشت بھی علیحدگی اختیار کی تو اس نے اسلام کا قلاده اپنی گردن سے اتار پھینکا۔ جو جنت (میں داخل ہونے) کا ارادہ رکھتا ہو اُسے چاہیے کہ وہ جماعت میں شامل ہو۔
  10. صحابہ کرام کا راستہ ، سوادِ اعظم ، الجماعت ، تینوں کا مفہوم ایک ہی ہے سوادِ اعظم کے سِوا باقی فرقے جہنمی ہیں الامام أبو بكر محمد بن الحسين الأخري (م 360 ھجری) کی کتاب الشریعہ جماعت رحمت ہے اور (جماعت) سے علحیدگی عذاب
  11. سوادِ اعظم جنتی جماعت جو جنت کا انعام چاہتا ہے وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جائے
  12. " امت بنی اسرائیل پر ایک فرقہ زیادہ ہو گی "سواد اعظم کےسوا سب جہنمی ہوں گے
  13. صحابی رسول ابو امامہ فرماتے ہیں بیشک بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بے یا بہتر فرمایا اور یہ امت ان پر ایک فرقہ زیادہ ہو گی "سواد اعظم" کے سوا سب جہنمی ہوں گے۔ میں نے عرض کی : اے ابو امامہ! کیا آپ ان کو دیکھتے ہیں کہ "کیا عمل کریں گے؟" فرمایا: ان کے اعمال کی ذمہ داری ان پر ہے اور تمہارے او پر تمہارے اعمال کا حساب ہے اگر تم اطاعت گزار ہو تو ہدایت یافتہ ہو
  14. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک سے دو بہتر ہیں۔ دو سے تین اور تین سے چار بہتر ہیں۔ پس تم جماعت کو لازم پکڑ لو کیونکہ یہ نہیں ہے اللہ تعالی میری امت کو سوائے ہدایت کے جمع کرے۔ یعنی ہدایت پر ہی متفق کرےگا۔ 2. آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر لازم ہے کہ جماعت عامہ و مسجد کو لازم پکڑ لو مفہوم حدیث) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اللہ اُمت کو گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا ، اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے ، سوادِ اعظم کو لازم پکڑو جو اِس سے الگ ہوا جہنم میں داخل ہوا
  15. سوادِ اعظم اور جماعت کی فضیلت میں جتنی احادیث ہیں اُن سب کو یہاں پوسٹ کرنے کی کوشش کی جائے گی انشاء اللہ فتنوں کے وقت مسلمانوں کو سوادِ اعظم (بڑی جماعت)کے ساتھ رہنے کی تلقین کی گئی ہے ، فتنوں سے محفوظ رہنے کا اِس سے اچّھا کوئ اور طریقہ نہیں الامام أبو بكر محمد بن الحسين الأخري ( م 360 ھجری) فرماتے ہیں اِن تینوں سے مراد ( صحابہ کرام کا راستہ ، جماعت ، اور سوادِ اعظم) ایک ہی ہے، انشاء اللہ
  16. بہت سے جید علماء کرام اِس کتاب السنہ کو اِمام احمد بن حنبل کے بیٹے کی کتاب کہتے ہیں۔۔۔ واللہ اعلم
  17. وعلیکم السلام Tibyan Ul Quran Jild1.pdf
  18. باقی بُخاری اور نسائی کی کُچھ حدیثوں میں پیشاپ کا ذکر نہیں ملتا وہاں صرفِ دودھ کا ذکر ہے
  19. علماء كرام نے اِس حدیث کے مختلف جوابات لکھے ہیں ، بعض کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے اور بعض کے نزدیک یہ ایک مخصوص وقت کے لئے مخصوص لوگوں کے لئے تھا ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن زید نے ایوب سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے پیشاب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد مزید کہتے ہیں: یہ صحیح نہیں ہے اور پیشاب کا ذکر صرف انس بن مالکر ضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، جس میں اہل بصرہ منفرد ہیں۔ (حدیث 5274)
×
×
  • Create New...