Jump to content

Saeedi

رکنِ خاص
  • کل پوسٹس

    1,086
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    280

سب کچھ Saeedi نے پوسٹ کیا

  1. ہر جواب کے لئے عبارت النص لازمی نہیں ہوتی۔اشارۃ النص ،اقتضاء النص اور دلالۃ النص بھی استدلال کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔اور وہ اثبات مسئلہ کی دلیل بنتے ہیں۔ہربات کے لئے دوسروں سے عبارت النص مانگنے والے اپنی باری پر آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔
  2. ابوداؤد شریف کی حدیث ملاحظہ ہو:۔ 3206 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سَالِمٍ، ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْفَضْلِ السِّجِسْتَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، بِمَعْنَاهُ عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ الْمَدَنِيِّ، عَنِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، أُخْرِجَ بِجَنَازَتِهِ فَدُفِنَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا أَنْ يَأْتِيَهُ بِحَجَرٍ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ حَمْلَهُ، فَقَامَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ، قَالَ كَثِيرٌ: قَالَ الْمُطَّلِبُ: قَالَ الَّذِي يُخْبِرُنِي ذَلِكَ: عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ ذِرَاعَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ حَسَرَ عَنْهُمَا ثُمَّ حَمَلَهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَأْسِهِ، وَقَالَ: «أَتَعَلَّمُ بِهَا قَبْرَ أَخِي، وَأَدْفِنُ إِلَيْهِ مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِي پتھر رکھنے کی وجہ قبرکی پہچان ہونا تھی۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ قبر کی پہچان کے لئے پہچان کرانے والا پتھر رکھنا جائز ہے۔
  3. کذب کا تعلق چاہت یا قدرت سے نہیں بلکہ اِخبار سے ہوتا ہے۔ کیا حق تعالیٰ اپنی دی ہوئی خبرکے خلاف خبر دے سکتا ہے؟۔یہ ممکن ہے یا نہیں؟ اگر جواب ہاں میں دوگے تویہ امکان کذب ہوگا ۔ مفتی احمدیار خان رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔
  4. جناب والا یہ مسئلہ فقہ حنفی کاایک جزئیہ ہے۔ اس پر اعتراض اگرکوئی حنفی کرتا ہے تو اس جزئیہ سے بے خبری کی وجہ سے کرسکتا ہے چاہے وہ بہشتی زیور پر اس مسئلہ میں اعتراض کرے یا فتاویٰ رضویہ پراس مسئلہ میں اعتراض کرے،اعتراض درست نہیں ہے۔
  5. میں کوئی عالم فاضل نہیں ھوں۔ آپ کسی مدرسہ سے رابطہ کریں۔

  6. خودکشی اورنمازجنازہ نبی کریم ﷺ نے خودکشی والے کی نمازجنازہ نہ پڑھی تو اس پر امام نووی نے شرح مسلم میں لکھا:۔ قَوْلُهُ (أتى النبي صلى الله عليه وسلم بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ)۔۔۔۔ وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلِيلٌ لِمَنْ يَقُولُ لَا يُصَلَّى عَلَى قَاتِلِ نَفْسِهِ لِعِصْيَانِهِ وَهَذَا مَذْهَبُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَقَالَ الْحَسَنُ وَالنَّخَعِيُّ وَقَتَادَةُ وَمَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ يُصَلَّى عَلَيْهِ وَأَجَابُوا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ بِنَفْسِهِ زَجْرًا لِلنَّاسِ عَنْ مِثْلِ فِعْلِهِ وَصَلَّتْ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ یعنی صحابہ نے نمازجنازہ پڑھا اورنبی کریم ﷺ نے نہ پڑھا تاکہ دوسرے لوگ ایسے فعل سے بازرہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ میں دونوں پہلو ہیں۔
  7. تہذیب التہذیب میں ہے قال عبد الله بن أحمد عن أبيه ما أنكر حديث حسين بن واقد عن أبي المنيب وقال العقيلي أنكر أحمد ابن حنبل حديثه وقال الأثرم قال أحمد في أحاديثه زيادة ما أدري أي شيء هي ونفض يده وقال الساجي فيه نظر وهو صدوق يهم قال أحمد أحاديثه ما أدري إيش هي غایۃ المقصدفی زوائد المسند میں ہیثمی نے یہ روایت یوں بیان کی ہے:۔ 4045 - حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِى حُسَيْنٌ [بن واقد المروزىِّ] ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِى عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَأَجْلَسَنَا عَلَى الْفُرُشِ، ثُمَّ أُتِينَا بِالطَّعَامِ، فَأَكَلْنَا، ثُمَّ أُتِينَا بِالشَّرَابِ، فَشَرِبَ مُعَاوِيَةُ، ثُمَّ نَاوَلَ أَبِى، ثم قَالَ مُعَاوِيَةُ: كُنْتُ أَجْمَلَ شَبَابِ قُرَيْشٍ، وَأَجْوَدَهُ ثَغْرًا، وَمَا شَىْءٌ كُنْتُ أَجِدُ لَهُ لَذَّةً، كَمَا كُنْتُ أَجِدُهُ وَأَنَا شَابٌّ غَيْرُ اللَّبَنِ. وَإِنْسَانٍ حَسَنِ الْحَدِيثِ يُحَدِّثُنِى اس روایت میں مشروب کا خمر ہونا اور حرام کے لفظ کہیں مذکور نہیں۔اور روایت کا سیاق وسباق بھی ظاہرکرتا ہے کہ وہ مشروب دودھ تھا۔
  8. الحسن بن عمارہ امام ابوحنیفہ کو بعدوفات غسل دینے والا شخص ہے۔ امام ابویوسف اور امام محمد اس کی روایت سے حجت پکڑتے ہیں۔امام محمد کی کتابیں الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ ،الاصل المعروف بالمبسوط للشیبانی،السیر الصغیر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔امام ابویوسف کی کتاب الخراج اورکتاب الردعلیٰ سیر الاوزاعی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔سب کے سکین ممکن نہیں۔نیٹ پردستیاب ہیں۔ محمد بن اسحاق اس کی روایات کو سرفراز صفدرگکھڑوی اور امین صفدر اوکاڑوی معتبر مان چکے ہیں مثلاً:اذا صلیتم عل المیت فاخلصوا لہ الدعاء (ابوداؤد،ابن ماجہ)سے یہ لوگ اپنی کتابوں میں حجت پکڑچکے ہیں حالانکہ اس سے استدلال کا دارومدار محمد بن اسحق کو معتبر ماننے پر ہے۔ نمازجنازہ اورخودکشی نمازہ جنازہ توپڑھی جائے گی۔تاہم زجراً نمازجنازہ نہ ہونے کے قول میں نفی سے نفی کمال لیں گے۔تاکہ لوگ خودکشی سے نفرت کریں۔
  9. سنگ در جاناں پر کرتا ہوں جبیں سائی سجدہ نہ سمجھ نجدی سردیتاہوں نذرانہ محبوب کے دروازے پر پیشانی رگڑتاہوں،اور یوں سر کا نذرانہ (تحفہ)دینے کی کوشش میں ہوں،نجدی اسے سجدہ مت سمجھ بیٹھنا۔سجدے میں پیشانی رگڑی نہیں جاتی بلکہ زمین پررکھی جاتی ہے اورساتھ ہی زمین پر ناک بھی رکھی جاتی ہے اوردونوں پاؤں کے سرے،گھٹنے اورہاتھ بھی زمین پررکھے جاتے ہیں۔نمازمیں کوئی نمازی زمین پر صرف ماتھا رگڑے تو نجدی بھی اسے سجدہ نہیں مانتا مگر مزار پر کوئی ماتھا رگڑے تو جھٹ سجدہ کالیبل لگا دیتاہے۔ مستدرک حاکم اورمسنداحمد میں ہے کہ حضرت ابوایوب انصاری نے نبی پاکﷺ کی قبرانورپرچہرہ رکھا ہواتھا،(چہرہ کا کونسا حصہ رکھا تھا اور کونسا نہیں؟اس بات کی کوئی تصریح نہیں۔ماتھا،ناک،ہونٹ،رخسار ،سبھی کا احتمال ہے)۔مروان نے اعتراض کیا۔ بوسے اورسجدے میں فرق نہ کرنا اور عبادت اور تعظیم میں فرق نہ کرنا اورعشق اورشرک میں فرق نہ کرنا ہی پہلےمروان کا اور اب قرن الشیطان کا کام ہے۔
  10. ھر بات حوالہ سے کی جائے تو بہتر ہوگا۔ تیس نکات پر بات کے لئے الگ تھریڈ بناؤ تو اصل بات کھل سکے گی ورنہ ایک ایک سطری جواب سے کیا تسلی ہوسکتی ہے؟ آپ خود بھی تو صاحب مطالعہ ہوتوکیا آپ کا مطالعہ صرف مہدی کی بحث تک ہے؟
  11. اب آئیں سند پرجرح کی طرف۔ محمد بن اسحاق :۔ غیرمقلدین سے مناظرہ میں محمد بن اسحاق پرجرح الزامی غیرمقلدین کے ذوق کے مطابق کی جاتی ہے۔ان کے یہاں تعدیل پرجرح مقدم ہے۔ پھرمحمدبن اسحاق پر جرح اگربنتی بھی ہے تویہی کہ وہ مدلس ہے اور عنعنہ کررہاہے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ عنعنہ مدلس کا تو ذکرہی کیا،جمہور فقہاء کے نزدیک تومرسل بھی قبول ہے ۔ پھر محمد بن اسحق کی حسن بن عمارہ سے تحدیث بھی ابن جریر کی تفسیر میں موجود ہے تو اس کا یہاں عنعنہ بھی تحدیث پر محمول ہوگا۔ الحسن بن عمارہ:۔ محدثین تو اس پر جرح کرتے ہیں مگر فقہاء (امام شافعی،امام ابویوسف، امام محمد)اس کی روایت سے حجت پکڑتے ہیں۔ ملاحظہ ہو مبسوط الشیبانی،کتاب الحجۃ علی اہل الدینۃ،البنایہ ۔
  12. یہاں کئی پہلوغور طلب ہیں:۔ ۔۱۔ علمائے اسلام کے یہاں علم غیب کے لفظ نبی ولی کے لئے استعمال شدہ ملتے ہیں تو تفسیر ابن کثیر کی روایت کی سند پر جرح کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اورضعیف بلکہ بے سند روایت بھی علماء اسلام کے موقف کے موافق ہوتو قبول کرلی جاتی ہے۔اور ہمارے مخالف بھی رد فضائل کے باب میں بے سند روایت سے استدلال کرتے ہیں چنانچہ دیوار پار نہ جاننے کی سندنہیں مگر براہین قاطعہ میں اس سے استدلال موجود ہے اور شہاب ثاقب میں اس کو معنا صحیح کہا گیا ہے۔یونہی التحیات کے السلام علیک ایہاالنبی کو حکایت معراج کہتے وقت بھی یہ لوگ اس کی سند بیان نہیں کرتے ۔ ۔۲۔ براہین قاطعہ میں شیطان کے لئے اور حفظ الایمان میں زیدوعمرو،ہرصبی ومجنون اور جمیع حیوانات وبہائم کے لئے علم غیب کے لفظ استعمال شدہ ہیں ، یہ چھوٹ ان کے لئے کہاں سے نکالی ہے؟ ۔۳۔ عقیدہ کے لفظ سے آپ لوگ کیا مراد لیتے ہیں؟ علماء نے عقیدہ کی تقسیم قطعی اور ظنی میں کی ہے۔ اورعقیدہ واقعہ معراج کا کتنا حصہ ایسا قطعی ہے کہ اس کامنکر کافر ہے اور کتنا حصہ اس سے کم قطعی ہے کہ اس کا منکر گمراہ ہے اور اس کا کتنا حصہ ظنی ہے کہ اس کا منکر کافر یا گمراہ نہیں؟ اسی جیسا معاملہ علم غیب کا ہے۔تقسیم خالص الاعتقاد میں ہے۔ ۔۴۔ تفسیر ابن کثیر کی عبارت مطلق نہیں کہ اس سے امام احمدرضا کی عبارت ٹکراؤ۔ اس میں کان رجلا یعلم علم الغیب کے بعد قدعلم ذالک کی قید بھی لگی ہے۔
  13. جناب گزارش ھے کہ اگر باپ دادا ہدایت پر نہ ھوں تو ان کی پیروی نہیں ۔اور اگر ھدایت پر ھوں تو معیار ھیں۔چنانچہ حدیث پاک میں ھے کہ آخری زما ہ میں دجال کذاب ھوں گے وہ ایسی باتیں کریںجو تمہارے باپ دادا نے نہ سنی ھوں گی۔)
  14. عدم حد کے قول سے جواز کا قول اخذ کرنا ہرگز درست نہیں۔ :ph34r: مصنف عبدالرزاق کی روایت کے بعدوالی دوروایتوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عورت بھوک یا پیاس سے مجبور ومضطر تھی اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا گیا۔ان بعد والی روایتوں کو کیوں نہ پیش کیا گیا؟
  15. آوپر دیگئی ہوئی کہ حدیث کے حوالہ سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک مستاجرہ خاتون کہ ساتھ مباشرت جائز ہے any reference ?
  16. پیرمحمد چشتی صاحب کی کتاب کا عکس غالباً مشترکہ جلد بندی کی وجہ سے لگ گیا ہے۔ رہ گیا ابن کثیر کاحوالہ تو ابن کثیر نے بھی امام غزالی کا فتویٰ الکیا (الہراسی) سے نقل کیا ہے ۔ اور الکیا پر باطنی اسماعیلی شیعہ ہونے کاالزام ہے۔اور شیعہ اہل سنت کو بدنام کرنے لئے ایسے الزام لگاتے رہتے ہیں۔اگرچہ الکیاء سے الزام کی نفی بھی کی گئی ہے تاہم الزام سے مناسبت والی بات قبول نہیں کی جائے گی۔ امام غزالی احیاء العلوم ،آفات اللسان میں لکھتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست ہے کہ حضرت حسینؓ کے قاتل پرلعنت اگر وہ بے توبہ مرا۔ قلنا الصواب أن يقال قاتل الحسين إن مات قبل التوبة لعنه الله۔ مگر یہ منسوب فتویٰ ایسی اجازت نہیں دیتا۔
  17. مولوی عبدالستار مدرسہ انوار العلوم میں نہ مدرس رھا، نہ صدر مدرس رھا ، نہ مفتی رھا۔ وہ حضرت غزالی زماں کے دور میں مدرسہ میں آ کر بیٹھتا اورپھر چلا جاتا۔ اس کی نیت ٹھیک نہ تھی اور غزالی زماں کے در سے ناکام لوٹ گیا۔ اب اس کا خود کو مدرسہ سے منسوب ھونے کا مقصد سامنے آ گیا ھے۔
  18. http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=c9d57ec3-4365-4c5f-a607-29b4b92b0090 http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=22399ea5-a346-4206-8da2-97ad116a3356 http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=f9f90c00-aa21-465e-80de-a13930fff2c6 http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=8acffb38-6095-4e16-883b-1786579e0756 http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=186988a1-4055-4340-9748-f9002ca0b3fc http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=9e4b948d-31e2-42f5-8cb1-a73ad62efe59 http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=4c5fcb01-da7a-4cab-8c0b-c8d2b15bd5d9 http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=c71a03ad-d953-4a95-815e-f80aac256ad9 http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=fef4b047-11e1-4233-9ae0-5da82bbf3fe4
  19. جناب والا! کسی ولی کونبیﷺ کا ظل کہنااوربات ہے مگر کسی کوظلی نبی کہنا اوربات ہے۔ سلطان عادل کوحدیثوں میں اللہ تعالیٰ کا ظل کہا گیا ہے مگر اُس کو ظلی الٰہ کوئی نہیں کہتا۔اگر وہابیوں کو ظل اللہ سے ظلی الٰہ کی ترکیب نہیں سوجھتی تو ظل نبی سے ظلی نبی کی ترکیب کیوں سوجھتی ہے۔کیا اس قوم میں عدل وانصاف نہیں پایا جاتا؟ قدبے سایہ ظل کبریا ہے تواس بے سایہ ظل کا ظل ہے یا غوث
  20. جناب کے فتاویٰ رشیدیہ میں بلانکیردرج ہے کہ:۔ سلف صالح نے توحیدکابہت خیال رکھاہے اورجانب توحیدکی بہت رعایت رکھی ہے حتیٰ کہ ان میں سے کوئی اگرکوئی اگرنبی صلی اللہ علیہ وسلم پرسلام پڑھنے کے بعد دعاکرناچاہتا تووہ قبلہ کی طرف رُخ کرلیتااوراپنی پیٹھ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبرکی دیوار کی طرف کر دیتا اوروہ دعا کرتا۔۔۔اورائمہ اربعہ نے بھی یہی حکم دیا ہے۔ ۔(فتاویٰ رشیدیہ:۱۴۱۔ایچ ایم سعید کمپنی ،کراچی)۔ اب آپ ہی بتائیں کہ طارق جمیل نے اپنے مذہب کے خلاف زیارت قبر کیوں کی؟ یہ صرف اہل سنت کی عوام کودھوکا دینا مقصود ہے ورنہ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ میاں صاحب کے نظریات ان کے خلاف ہیں اور وہ ان نظریات کو شرک وبدعت کہاکرتے ہیں۔میاں صاحب نے وہابیوں کے خلاف کتاب ہدایت المسلمین لکھی ہے اوراُس کامقصد میاں صاحب نے یہ لکھا ہے:۔ سنی دا اُپرالہ کریے وچ جدال وہابی دیوے خداتوفیق اسانوں ہووے مدد جنابی
×
×
  • Create New...