لیڈر بورڈ
مشہور مواد
Showing content with the highest reputation since 25/09/2009 in all areas
-
غیرمقلد زبیرعلی زئی اور اس کے استاد بدیع الزمان سندھی کی صحیح بخاری کی ایک سند پر تحقیقی تبصرہ گستاخ المحدثین زبیرعلی زئی غیرمقلد اپنے استادبدیع الزمان سندھی کے ایک رسالہ "منجدالمستجیز لروایۃ السنۃ والکتاب العزیز" کے بارے میں لکھتاہے۔ یہ رسالہ شاہ صاحب کی اسناد کا مجموعہ ہے جو آپ اپنے شاگردوں اور مستجیزین کو مرحمت فرماتے تھے۔آپ نے اپنے دستخطوں اور مہر کے ساتھ 8/7/1406 ھ کو یہ اجازت نامہ مجھے بھی عطا فرمایا تھا۔اس میں ایک مقام پر آپ نے صحیح بخاری کی سند درج ذیل الفاظ میں رقم کی: "فاخبرنی الشیخ عبدالحق الھاشمی قال:اخبرنا احمد بن عبداللہ بن سالم البغدادی عن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوھاب عن جدہ شیخ الاسلام عن عبداللہ بن ابراھیم المدنی عن عبدالقادر التغلبی عن عبدالباقی عن احمد الوفائی عن موسی الحجازی عن احمد الشویکی عن العسکری عن الحافظ شمس الدین ابن القیم عن شیخ الاسلام الحافظ تقی الدین ابی العباس ابن تیمیۃ عن الفخرابن البخاری عن ابی ذرالھروی عن شیوخہ الثلاثۃ السرخسی والمستملی والکشمیھنی عن محمد بن یوسف الفربری عن امام الدنیا ابی عبداللہ محمدبن اسماعیل البخاری" (منجدالمستجیز ص 10-11) اس سند میں نہ شاہ ولی اللہ دہلوی ہیں اور نہ شاہ عبدالعزیز و محمداسحاق (تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات ج1 ص 488-489) زبیر زئی غیرمقلدوں کے لیے ثقہ محدث ہے کیونکہ وہ جو بھی نقل کرتا ہے غیرمقلدوں کے لیے قابل اعتماد ہوتا ہے اکثر غیرمقلد اس کی ہی باتوں کو صحیح سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہم اس زبیرعلی زئی کی تحریر پر ہی تحقیق کر کےاس کی اور اس کے استاد کی صحیح بخاری کی اس سند کو ضعیف و باطل ثابت کرتے ہیں۔ غیرمقلد زبیرعلی زئی کی پیش کردہ سند کی صحیح اسنادی تحقیق: غیرمقلد زبیر علی زئی کی پیش کردہ صحیح بخاری کی یہ سند معضل منقطع اور باطل ہے کیونکہ فخرابن بخاری کا ابوذرالہروی سے نہ ملاقات ثابت اور نہ ہی سماع بلکہ امام فخرابن بخاری کی پیدائش سے پہلے ہی امام ابوذرالہروی وفات پاچکے تھے۔ امام فخر ابن بخاری کی پیدائش کی تاریخ: امام ذہبی لکھتے ہیں: عَلِيّ بْن أَحْمَد بْن عَبْد الواحد بْن أَحْمَد، الشّيْخ الإِمَام، الصّالح، الورع، المعمّر، العالم، مُسْند العالم، فخر الدّين، أَبُو الْحَسَن ابن العلامة شمس الدّين أَبِي الْعَبَّاس المقدسيّ، الصّالحيّ، الحنبليّ، [المتوفى: 690 هـ] المعروف والده بالبُخاري. وُلِد فِي آخر سنة خمسٍ وتسعين وخمسمائة. 595ہجری سال کے آخر میں پیداہوئے۔ (تاریخ الاسلام،15/665) اور امام ذہبی نے ابن تیمیہ کو امام فخرابن بخاری کے شاگردوں میں لکھا۔اس کا ثبوت یہ ہے وقد روى عَنْهُ الدمياطيّ وقاضي القضاة ابن دقيق العيد، وقاضي القضاة ابن جماعة، وقاضي القضاة ابن صَصْرى، وقاضي القضاة تقيّ الدّين سُلَيْمَان، وقاضي القضاة سعد الدّين مَسْعُود، وأبو الحَجّاج المِزّيّ، وأبو مُحَمَّد البِرْزاليّ، وشيخنا أَبُو حفص ابن القواس، وأبو الوليد بن الحاج، وأبو بَكْر بْن القاسم التُّونسيّ المقرئ، وأبو الْحَسَن عَلِيّ بْن أيّوب المقدسيّ، وأبو الْحَسَن الختني، وأبو محمد ابن المحب، وأبو محمد الحلبي، وأبو الحسن ابن العطّار، وأبو عَبْد اللَّه العسقلاني رفيقنا، وأبو العباس البكري الشريشي، وأبو العباس ابن تيمية. (تاریخ الاسلام،15/665) بلکہ امام ذہبی نے ابن تیمیہ سے امام فخربن بخاری کی تعریف نقل کی جو یہ ہے۔ وقال شيخنا ابن تيمية: ينشرح صدري إذا أدخلت ابن البخاري بيني وبين النبي صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حديث. اور ہمارے شیخ ابن تیمیہ نے کہا: میرا سینہ کھل گیا جب میں نے (فخر) ابن بخاری کو اپنے اور نبی ﷺ کے درمیان (سند)حدیث میں داخل کیا۔ (تاریخ الاسلام،15/665) اس سے واضح ہو گیا کہ ابن تیمیہ امام فخرابن بخاری سے ہی روایت نقل کرتا ہے جن کی پیدائش 595 ہجری کو ہوئی۔ علامہ ابن رجب نے بھی امام فخر ابن بخاری کی پیدائش 795 کے آخر یا 796 ہجری کے شروع میں لکھتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے۔ علي بن أحمد بن عَبْد الْوَاحِد بْن أَحْمَد بْن عَبْد الرَّحْمَنِ السعدي، المقدسي الصالحي، الفقيه المحدث المعمر، سند الوقت، فخر الدين أَبُو الْحَسَن، ابْن الشيخ شمس الدين الْبُخَارِي، وَقَدْ سبق ذكر أَبِيهِ، وعمه الحافظ الضياء. ولد فِي آخر سنة خمس وسبعين وخمسمائة، أو أول سنة ست وسبعين. 575 ہجری کے آخر میں پیدا ہوئےیا 76سال کے شروع میں (ذیل طبقات الحنابلۃ4/241-242) مجھے لگتا ہے علامہ ابن رجب سے خطا ہو گئی جو انہوں نے تسعین کی جگہ سبعین لکھ دیا ۔ (واللہ اعلم) امام زرکلی نے بھی امام فخرابن بخاری کی پیدائش 595 ہجری ہی لکھی ہے یہ ہے اس کا ثبوت ابن البُخاري (595 - 690 هـ = 1199 - 1291 م) علي بن أحمد بن عبد الواحد السعدي المقدسي الصالحي الحنبلي، فخر الدين، أبو الحسن، المعروف بابن البخاري: عالمة بالحديث، نعته الذهبي بمسند الدنيا. أجاز له ابن الجوزي وكثيرون. قال ابن تيمية: ينشرح صدري إذا أدخلت ابن البخاري ببيني وبين النبي صلى الله عليه وسلم في حديث. وحدث نحوا من ستين سنة، ببلاد كثيرة بدمشق ومصر وبغداد وغيرها. (الاعلام للزرکلی 4/257) اس بات سے واضح ہو گیا کہ امام فخر ابن بخاری 595 ہجری میں ہی پیدا ہوئے۔ امام ابوذرالہروی کی وفات کی تاریخ خطیب بغدادی امام ابوذر الہروی کی وفات کے بارے میں لکھتے ہیں: ومات بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة. اور مکہ میں فوت ہوئے 5 ذی القعد سن 434 ہجری کو تاريخ بغداد(12/456، رقم 5791) امام ابن عساکر امام ابوذر الہروی کی وفات 434 ہجری ہی کو لکھتے ہیں توفي أبو ذر عبد بن أحمد بن محمد الهروي الحافظ رحمه الله بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة (تاریخ دمشق، ج37، ص393، رقم 4413) علامہ ابن منظور بھی امام ابو ذر الہروی کی وفات 434 ہجری کو ہی لکھتے ہیں: مات بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة. (مختصر تاریخ دمشق، ج 15، ص 299) علامہ برہان الیعمری (متوفی 799ھ) امام ابوذرالہروی کی وفات 435 ہجر ی لکھتے ہیں اس کا ثبوت یہ ہے۔ توفي رحمه الله تعالى في ذي القعدة سنة خمس وثلاثين وأربعمائة. الديباج المذهب في معرفة أعيان علماء المذهب (2/132) امام ذہبی بھی امام ابوذر الہروی کی وفات 434 ہجری ہی لکھتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے۔ مَاتَ بِمَكَّةَ فِي ذِي القَعْدَةِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وثَلاَثِيْنَ وَأَرْبَعِ مائَةٍ (سیر اعلام النبلاء 17/557) ان آئمہ حدیث کی تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ امام ابوذر الہروی کی وفات 434 یا 435 ہجری میں ہوئی ہے۔اور جب امام ابوذرالہروی کی وفات ہوئی اس وقت امام فخرابن بخاری پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کیونکہ ان کی پیدائش 595 یا 596 ہجری میں ہوئی ہے۔ امام ابوذر الہروی کی وفات اور امام فخرابن بخاری کی پیدائش میں تقریبا 160 یا 161 سال کا فاصلہ ہے ۔ پھر زبیر علی زئی اور اس کے استاد نے اپنی سند میں الفخرابن البخاری عن ابی ذرالھروی کیسے کہہ دیا؟؟؟ کم از کم دو تین اور راویوں کا فاصلہ ہے سند میں۔ لہذا ہماری بات کا خلاصہ تحقیق یہ ہے کی گستاخ المحدثین زبیرعلی زئی اور اس کے استاد کی بخاری شریف کی یہ سند معضل منقطع اور باطل ہے۔کیونکہ یہ سند متصل نہیں 160 یا161 سال کا فاصلہ ہے رواۃ میں۔ گستاخ المحدثین ز بیر علی زئی کو میرا یہ کہنا ہے کہ اس سند سے تو شاہ ولی اللہ ،شاہ عبدالعزیز سے اس لیے بچ رہا تھا کے وہ تقلید کرتے ہیں لیکن خود زبیر علی زئی اور اس کے استاد کی اس مردود سند میں بھی مقلد راوی موجودہیں ۔امام ابوذرالہروی خود امام مالک کے مقلد ہیں۔ امام ابن عساکر امام ابوذر الہروی کے بارے میں لکھتے ہیں: توفي أبو ذر عبد بن أحمد بن محمد الهروي الحافظ رحمه الله بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة وكان يذكر أن مولده سنة خمس أو ست وخمسين وثلاثمائة شك في ذلك كذا ذكر شيخنا الإمام الحافظ أبو بكر الخطيب رحمه الله وكذا رأيته بخط أبي عبد الله الحميدي رحمه الله وكان أحد الحفاظ الأثبات وكان علي مذهب مالك بن أنس رحمه الله عليه في الفروع ومذهب أبي الحسن في الأصول (تاریخ دمشق، ج37، ص393، رقم 4413) امام ذہبی لکھتے ہیں امام ابوذر الہروی کے بارے میں لکھتے ہیں: وَكَانَ عَلَى مَذْهَبِ مَالِكٍ وَمَذْهب الأَشْعَرِيِّ (سیر اعلام النبلاء 17/557) جب غیرمقلد تقلید کو حرام سمجھتے ہیں تو مقلد راویوں سے سند حدیث کیوں لیتے ہیں؟؟؟ ایک آخری بات جب کوئی سنی حنفی ا مام ابوحنیفہ کو امام الاعظم کہتا ہے تو غیرمقلد فورا اعتراض شروع کر دیتے ہیں لیکن خود اپنا غیرمقلد زبیرعلی زئی اور اس کا استاد بدیع الزمان امام بخاری کو امام الدنیا لکھ رہے ہیں اپنی سند حدیث میں تو پھر غیرمقلد خاموش کیوں ہیں؟؟؟ لگتا ہے ان کے ہاں اپنوں کے لیے خصوصی رعایت ہے باقیوں کے لیے بدعت کے فتوے تیار رکھتے ہیں۔ زبیر علی زئی اور اس کے استاد کی سند کو مردود ثابت کرنے کے لئے اور بھی حوالہ جات موجود ہیں لیکن محققین حدیث کے لیے اتنے حوالہ جات بھی کافی ہیں ۔ خادم حدیث شریف الفقیر رضاءالعسقلانی4 points
-
3 points
-
المعجم الاؤسط للطبرانی اردو Jild # 1 https://archive.org/download/AlMujamAlAwsatJild1/al mu'jam al awsat Jild 1.pdf Jild #2 https://archive.org/download/Al-Muajam-ul-Aosat-lil-Tabrani/AlMujamAlAwsatJild2.pdf Jild # 3 https://archive.org/download/AlMujamAlAwsatJild3/al mu'jam al awsat Jild 3.pdf Jild # 4 https://archive.org/download/AlMujamAlAwsatJild4/al mu'jam al awsat Jild 4.pdf Jild # 5 https://archive.org/download/AlMujamAlAwsatJild5/al mu'jam al awsat Jild 5.pdf Jild # 6 https://archive.org/download/AlMujamAlAwsatJild6/al mu'jam al awsat Jild 6.pdf Jild # 7 https://archive.org/download/AlMujamAlAwsatJild6/al mu'jam al awsat Jild 7.pdf3 points
-
انکشاف حق کے رد کیلئے کتاب عجائب دیوبند سے ابتدائی چند صفحات ہی کافی ہیں۔ جب مصنف ہی معتبر نہیں اور اُس کیخلاف متفقہ فتوی ہو تو کتاب کی ہمارے نزدیک کیا حیثیت؟ انکشاف حق کے ابتدائی چند صفحات پڑھ کر ایک صحیح العقیدہ سُنی کو فوراً اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کتاب وہابیوں کا دھوکہ ہے۔ کیونکہ مولوی خلیل دیوبندی شروع میں اعلی حضرت سے کفر کے مسئلے پر اختلاف کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس مسئلہ میں تقلید نہیں کی جائے گی اور کفر کا فتوی دینے میں احتیاط کی جائے گی اور دیوبندی اکابر اُن عبارات کا دوسرا مطلب مانتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مگر آگے چل کر اُس نے باقائدہ دیوبندی اکابرین کا دفاع کرنا شروع کر دیا۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ کفر پر اختلافی بحث نہیں بلکہ دیوبندیوں کی حمایت اور اُن کے کفریہ کلام کی تاویلات کا ایک نیا منصوبہ ہے۔ اور سُنی لبادہ اوڑھ کر عوام کو گمراہ کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔3 points
-
تیجانی صاحب۔ آپ کی جہالت، کم علمی اور گندی سوچ انتہائی قابل افسوس ہے۔ آپ کی جہالت اور گندی سوچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن الفاظ کو آپ نے ہائی لائٹ کیا ہے وہ تماش بین کے ہیں۔ بالکل اُسی لفظ کہ نیچے لفظ تماشا لکھا ہے۔ یہ لفظ تماشا اصل فارسی کا لفظ ہے۔ جس کا اسکرین شاٹ میں نے اوپر پوسٹ کیا۔ اور اُسی تماشا کو تماشی (باہم پیدل چلنا) کا مفرس کہا گیا ہے۔ پھر بھی آپ کا اتنا ضد اور ہٹ دھرمی کہ ابھی بھی اسے اردو کا لفظ کہہ رہے ہیں۔۔ اور مزید جو اصل لفظ تماشا ہے۔ اُس کا معنی دیکھیں۔ آپ کی جہالت کی انتہا کہ اصل فارسی کا معنی نظارہ ہے۔ جیسا کہ گوگل نے ترجمہ فارسی کا کیا نہ کہ اردو کا۔۔ مذاق ٹھٹا، کھیل، ناٹک یہ سب اردو کے مزید معانی ہیں۔ اوپر والی کتاب اردو لغت ہے۔ فارسی لغت نہیں۔۔ فارسی اصل ماخد ہے اس لفظ کا۔ آپ اپنی دلیل پر فارسی لغت ڈکشنری سے اس کے مختلف معنی پیش کرتے تب بھی کچھ بات بنتی۔ آپ نے جو جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہی آپ کا اصل رد ہے۔۔ جتنے بھی صحیح اور غلط معنی لغت میں درج ہیں۔۔ وہ اردو کی لغت کے ہیں۔۔۔ مولانا حسن رضا خاں علیہ الرحمہ نے جو لفظ لکھا وہ اُس کے اصل مطلب پر لکھا۔۔۔ یعنی نظارہ کرنا۔ دوسرا آپ کی جہالت اس بات سے ثابت ہے۔ اردو زبان عربی، فارسی اور کچھ ترک الفاظ سے مل کر بنی۔۔ تو الفاظ جہاں سے لئے گئے پہلے اُس کے وہی معنی ہونگے پھر اُس کے دوسرےمعنی ہونگے۔ لفظ تماشائی کا جو مطلب آپ نے اس جگہ لکھا "تماشہ دیکھنے والا" ۔۔ یہی تو غلطی ہے۔ تماشا (فارسی) "دید، نظارہ" تماشا۔۔۔۔ئی ۔۔"نظارہ کرنے والا"۔۔۔ آپ کی علمی حیثیت کا اندازہ اس پوسٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ جو مجرہ کی اوپر تشریح کی ہے۔ اُسی لفظ مجرہ کے اِسی اردو لغت کی کتاب میں غلط معنی بھی درج ہیں (نوٹ: عربی لغت نہیں۔۔ اردو لغت میں مجرہ کے غلط معنی)۔ اور یہاں پر ت مربوظ کا استعمال نہیں ہے کیونکہ لفظ مجرے استعمال ہوا شعر میں۔ مجرۃ نہیں۔ اور بڑی یے اردو کے تلفظ کیلئے نہیں لگائی گئی بلکہ اصل لفظ ہی اردو میں مجرا ہے جو عربی لفظ سے اخذ کیا گیا ہے۔ آپ نے معنی کہکشاں آسماں وغیرہ کِیے ہیں۔۔ جبکہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اسے اصل آداب، جھکنا، سلام والے معنی میں لکھا ہے۔ پھر سے پڑھو۔ "بیت اللہ مجرے کو جھکا"۔ یعنی جھُک کر سلام پیش کرنا۔ آداب بجا لانا۔ جیسے لفظ مجرہ کے معنی تبدیل ہوگئے اور اب اکثر غلط معنی لئے جاتے ہیں۔ بالکل یہی معاملہ یہاں ہے۔ اب بتائو ان دو میں کونسا معنی لوگے؟ جھُک کر سلام پیش کرنا ۔۔۔ یا معاذ اللہ ناچنا وغیرہ جیسے گندے معنی؟ آپ سے کوئی بعید نہیں۔ شاید اس اسکرین شاٹ کے بعد آپ علی حضرت علیہ الرحمہ کو بھی گستاخ ثابت کرنے پر تُل جائیں۔۔۔ اور اسی عربی کے کسی دوسرے لفظ کے صحیح معنی کے ساتھ غلط معنی بھی اردو میں جمع ہوجائیں تو کیا وہ عربی کا لفظ ہی غلط ہوجائے گا اور قرآن کریم میں اُس لفظ کا صحیح استعمال گستاخی بن جائے گی۔۔ نعوذ باللہ؟ مثالوں اور مختلف وقت میں مختلف چیزوں کی مختلف نوعیت کا بیان آپ کی جہالت، ہٹ دھرمی اور گندی سوچ کے آگے بالکل فضول ہے۔ چونکہ آپ اپنی جہالت اور گندی سوچ کہ مطابق بغیر فتوی لئے ایک عاشق رسول کو گستاخ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اس لئے ہم اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں شیطان لعین سے اور آپ جیسے شخص سے۔3 points
-
ایک غیر مقلد کی جہالت چیک کریں دعا کے کے سلسلے میں کفایت اللہ وہابی محدث فورم پر ایک وہابی کے سوال کے جواب میں لکھتا ہے۔ دیکھیں کتنی جہالت سےوہابی کسی اور کے دعا کے تجربے کو کہہ رہا کہ یہ بات کسی روایت میں نہیں ہےاور یقین نہ آئے تو جب جب آپ کی کوئی چیز گم ہو جائے ان الفاظ کو پڑھ کر دیکھیں۔ پتہ چل جائے گا کہ یہ نسخہ کتنا مجرب ہے۔ پھر آگے لکھتا ہے: آدمی کو چاہئے کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ اذکار و ادعیہ کی پابندی کرے ا ور مجرب کے نام پر خود ساختہ ادعیہ و اذکار کی دوکان چلانے والوں سے ہوشیا ر رہے۔اگرکسی کو مسنون دعائیں یاد نہیں تو وہ اپنے الفاظ میں بھی جب چاہے اللہ سے دعاء کرسکتا ہے۔ اس وہابی کے میرے چند سوالات مندرجہ ذیل ہیں: 1۔ اگرایک بندہ قرآن وحدیث والے اذکار کو پڑھتا ہے لیکن پھر بھی اس کی دعا قبول نہ ہو تو کیا معاذاللہ قرآن و حدیث کو جھٹلا دیں ؟؟؟ 2۔اگر دو بندے ایک ہی ذکر والے کلمات کو پڑھتے ہیں ایک کی دعا قبول ہو جاتی ہے اور دوسرے کی نہیں ہوتی تو کیا اس میں دعا قبول ہونے والےشخص کے تجربے کو جھوٹا کہا جائے گا؟؟ 3۔ جب بندہ اپنی طرف بنائے ہوئےکلمات سےاللہ عزوجل سے دعا مانگ سکتا ہے توکیا کسی ولی یا کسی نیک بندے کے تجربے والی دعااللہ عزوجل سے کیوں نہیں مانگ سکتا ؟؟ مرتے دم تک کوئی وہابی ان سوالات کے جواب نہیں دے پائے گا۔(ان شاء اللہ)3 points
-
3 points
-
3 points
-
Wa Alikum salam.. Wesy toh Zubair Zai ki taqreeban har book ka sunni hazrat ny rad likha hy Jin mein Faisal bhai bhi hain.. Magar Zubair zai k tazadaat pe deoband hazrat ki ye kafi achi book meri nazar hy. Mazy ki baat k jin Deobandi Ulma ny is book mein Zubair zai ko khoob bura bhala bhi kaha hy aur class bhi li hy, Unhi deobando ki wafaat pe Ghair_muqaldeen ki janib se unk forum pe in Deobandi ulma ko Magfirat aur Duaiya kalmon se nawaza gaya.. http://tauheed-sunnat.com/book/321/Tunaqzaat-Zubair-Ali-Zai2 points
-
2 points
-
2 points
-
2 points